۱۴۰۰/۵/۳۰   1:48  بازدید:1049     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


11 محرم الحرام 1443(ھ۔ ق) مطابق با20/8/2021 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین

 

اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِيِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَيْهِ وَعَلي آبائِهِ في هذِهِ السّاعَةِ وَفي کُلِّ ساعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَليلاً وَعَيْناً حَتّي تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فيها طَويلا

 

اَمَا بَعدْ ۔۔۔

عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و مَلاَزَمَةِ أَمْرِهْ و مَجَانِبَةِ نَهِیِّهِ و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی

 

محترم بندگان خدا، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، امر الہٰی کی انجام دہی اور جس سے خداوند کریم منع کریں اسے انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہوں۔

مالک الموت نے کہا ہے کہ اے بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقویٰ اپناؤ بے شک کہ بہترین لباس تقوٰی ہی ہے۔ دوران حیات اپنے قلوب میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔

زندگی کے ہر لحظات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔

 

ہم پر حق ہے کہ اُنہیں یاد رکھیں جو الله کو پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔

لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔

 تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں۔

السَّلام عَلَيْکَ يَا أبا عَبْدِ اللهِ وَعلَى الأرواحِ الّتي حَلّتْ بِفِنائِکَ ، وَأنَاخَت برَحْلِک، عَلَيْکم مِنِّي سَلامُ اللهِ أبَداً مَا بَقِيتُ وَبَقِيَ الليْلُ وَالنَّهارُ، وَلا جَعَلَهُ اللهُ آخِرَ العَهْدِ مِنِّي لِزِيَارَتِکُمْ أهْلَ البَيتِ، السَّلام عَلَى الحُسَيْن ، وَعَلَى عَليِّ بْنِ الحُسَيْنِ ، وَعَلَى أوْلادِ الحُسَيْنِ ، وَعَلَى أصْحابِ الحُسَين

 

ہمیں  ماہ محرم الحرام و تاسوعہ و عاشورائے حسینی سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھنی چاہیے ، اس کی قدر و منزلت کو پہنچنا چاہیے اور نہایت عزت و احترام سے مناتے رہنا چاہیے ۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اسلام دائمی زندہ و جاوید ہو گیا۔ اور سیدھے راستے کے معیار اور حق اور سچائی کے حصول کے معیار  کو ہمیشہ کے لیے بیان کیا جانا چاہیے کیونکہ سیدھا راستہ دو ستونوں پر مبنی ہے جو که قیامت تک  ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے والے ہیں

 اور یہ سب سے اہم اور بہترین معیار ہے کہ جس کو متفقہ طور پر تمام مسلمان قبول کرتے ہیں۔

 

 

 

 

احمد بن حنبل نے خود پیغمبر اکرم سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں:

إِنِّي تَارِکٌ فِيکُمْ خَلِيفَتَيْنِ، کِتَابُ اللَّهِ وَأَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ‏ جَمِيعًا

میں تمہارے درمیان دو اہم ترین ستون چھوڑے جا رہا ہوں، ایک کتاب اللہ اور دوسری میرے اہل البیت اطہار علیھم السلام، یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں

کسی بھی حقائق کو قبول کرنے کے لحاظ سے انسان تین اقسام میں بٹا ہوا ہے۔

پہلے وہ جو حقیقت کے عاشق ہیں اور حقیقت پر ہی عمل کرنے والے ہیں۔

دوسرے وہ جو حق کو قبول نہیں کرتے۔

 

 

تیسرے وہ جو حق اور باطل کے درمیان مردد ہیں، یعنی حق اور باطل کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

پہلے قسم کے لوگ حق کے طرفدار ہوتے ہیں اور اکثر مسلمان ایسے ہی ہیں۔ امام حسین، ان کے خانوادے اور اصحاب اسی گروہ میں سے ہیں۔ چونکہ اہل البیت اور قرآن کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونے والے ہیں.

 اسی وجہ سے فقط اہل البیت ہی وہ ہیں جو قرآن کی تاویل (اسرار و رموز، حقائق) جانتے ہیں، جنہیں قرآن نے بھی الراسخون فی العلم کہا ہے۔

وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ

جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں

)سورة آل عمران، آیت 7(

حاکم نے ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ

میں شہر علم ہو اور علی اس کا دروازہ، پس جو بھی علم کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسی دروازے سے داخل ہو

 

پس دوستو علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں اہل البیت اطہر علیھم السلام کے در پر ہی جانا ہو گا۔

ترمذی اور حاکم نے ایک حدیث میں معیار حق علی کو قرار دیا ہے۔

رسول اللہ نے فرمایا:

رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرْ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ

اللہ علی پر رحم کرے اور حق کو اسی طرف لے جائے جدھر علی ہو

احمد بن حنبل نے ایک روایت میں پیغمبر سے وضاحت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک گروہ آخری زمانے تک ہمیشہ کے لیے حق پر باقی رہے گا اور کبھی بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

 

 

 

رسول اللہ نے فرمایا:

لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي‏ عَلَى‏ الْحَقِّ لَا يُبَالُونَ مَنْ خَالَفَهُمْ أَوْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَيَنْزِلَ‏ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ

ایک گروہ آخری زمان تک ہمیشہ کے لیے حق پر باقی رہے گا اور کبھی بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ امر خدا آ جائے اور عیسی ابن مریم نازل ہو جائیں۔

دوسرا گروہ وہ جو حق کو نہیں مانتے ہیں جیسا کہ وہ جنہوں نے کربلا میں اہل البیت اطہار علیھم السلام سے جنگ کی۔

خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا:

 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ

اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے

)سورة المائدہ، آیت 54(

 

پس ان لوگوں کے مقابلے میں حق کے ہمراہ دفاع کرنے والے آئیں گے اور حق سے دفاع کرنے والے لوگ کون ہیں۔

بخاری، مسلم، نسائی و احمد بن حنبل نے ایک معتبر روایات میں ان لوگوں کو

 

رسول اللہ نے جنگ خیبر کے دن فرمایا:

لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ، وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ۔قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوکُونَ‏ ای يتحدثون  لَيْلَتَهُمْ، أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا؟ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ، غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى، کُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا

فَقَالَ: أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي‏ طَالِبٍ‏؟فَقِيلَ‏: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ

قَالَ: فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ

کل میں پرچم ایسے مرد کو دوں گا کہ اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح کرے گا۔ وہ اللہ و رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لوگ اسی طرح انتظار میں رہے اور ایک دوسرے سے بات کرتے رہے کہ نجانے کل یہ علم کسے دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو سب لوگ آپ کے پاس اس امید سے آئے کہ یہ پرچم مجھے ملے گا لیکن پیغمبر نے فرمیا کہ علی کہاں ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کی آنکھیں ٹھیک نہیں تو پیغمبر نے کہا کہ علی کو بلا لو اور یوں باطل کے مقابلے میں آنے والے گروہ کو بیان کیا کہ یہ علی و اہل البیت ہیں۔

تیسرا گروہ وہ جو مردد ہیں اور کشتی نجات میں نہیں بیٹھتے۔ حاکم نے رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ ایسے لوگ غرق ہو جائیں گے۔

 

أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيکُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مِنْ قَوْمِهِ، مَنْ رَکِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ

میرے اہل البیت کی مثل کشتی نوح کی ہے کہ جو بھی اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو دور ہوا وہ غرق ہوا۔

خدایا پروردگارا ! ہماری نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے، صحت و سلامتی  عطا فرما، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے، امام زمان مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔

 

اللهمَّ أدخل على أهل القبور السرور، اللهم أغنِ کل فقير، اللهم أشبع کل جائع، اللهم اکسُ کل عريان، اللهم اقضِ دين کل مدين، اللهم فرِّج عن کل مکروب، اللهم رُدَّ کل غريب، اللهم فک کل أسير، اللهم أصلح کل فاسد من أمور المسلمين، اللهم اشفِ کل مريض، اللهم سُدَّ فقرنا بغناک، اللهم غيِّر سوء حالنا بحسن حالک، اللهم اقضِ عنا الدين وأغننا من الفقر إنَّک على کل شيء قدير

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا

 

اَللّهُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَجَ

وَ الْعافِیَةَ وَ النَّصْرَ

وَ اجْعَلْنا مِنْ خَیْرِ اَنْصارِهِ وَ اَعْوانِهِ

وَ الْمُسْتَشْهَدینَ بَیْنَ یَدَیْهِ