۱۳۹۹/۱۱/۱۹   1:18  بازدید:1116     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


22 جمادی الثانی 1442(ھ۔ ق) مطابق با 27/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد للہ رب العالمین نحمدہ و نستعینہ و نصلی و نسلم علی حافظ وسرہ و مبلغ رسالتہ۔سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبن الاطھرین المنجتبین سیما بقیہ اللہ فی الارضین و صل علی آئمہ المسلمین۔
اما بعد ۔۔۔
 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عِبَادَ اللهِ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ و ملازمة أمره و مجانبة نهیه و تَجَهَّزُوا عباد اللَّهُ فَقَدْ نُودِیَ فِیکُمْ بِالرَّحِیلِ وَ تَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی  
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ الہٰی اپنانے ، اور امر الہی کو انجام دینے اور جس چیز سے اللہ منع کریں اس کو انجام نہ دینے کی تاکید کرتا ہو (مالک الموت نے کہا ہے) کہ ای بندگان خدا جانے کیلئے تیار رہو، پس تقوی اپناو بیشک کہ بہترین لباس تقوی ہے،
دوران حیات اپنے آپ میں خداوند متعٰال کی ناراضگی سے بچے رہنے کا احساس پیدا کیجئے۔ زندگی کے ہر ہر لمحات میں قدرت خداوندی و ارادہ اِلہٰی کا احساس زندہ رکھنے کی کوشش کیجئے۔
ہم پر حق ہے کہ  اُنہیں یاد رکھیں جو  الله  پیارے ہو گئے ہیں (جو ہم سے اور جن سے ہم بچھڑ چکے) اور بارگاہ ایزدی میں پہنچ چکے ہیں۔
 لہٰذا بارگاہ خداوندی میں تمام گذشتگان و شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی اور رحمت و مغرفت کے حصول کے خواہاں ہیں ۔ تمام مراجع عظٰام ، مجتہدین کرام و علمائے اسلام کی عزت و تکریم و طول عمر ی کے طلب گار ہیں ۔ 

گذشتہ خطبے میں عرض کیا گیا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں  اشاد فرماتا ہے کہ 
يُؤْتِى الْحِکْـمَةَ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِـىَ خَيْـرًا کَثِيْـرًا ۗ وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ
 (اللہ) جس کو چاہتا ہےحکمت عطاء کر دیتا ہے، اور جسے حکمت  دی گئی تو اسے خیر کثیر یعنی بڑی خوبی ملی، اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں  (سورۃ البقرۃ ، آیت 269 )
 اسلام  کے پہلےدور میں احکام قرآن اور  فرمامین معصومین علیہم السلام   پر عمل کرنے نے کچھ لوگوں کو  اس درجے پر پہنچا  دیا  کہ جس کے بارے میں  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سلمان منا اھل البیت سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ خود   ( قرآن) بھی حکیم ہے،  جس  خدا  نے نازل کیا   وہ  بھی حکیم  ہے جس نبی  پر نازل  ہوا   وہ  بھی حکیم اور حکمت کی تعلیم دینے والا ہے۔
وَيُعَلِّمُهُـمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَۖ
 اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے
اور  پھر  اہلبیت  اطہار علیہم السلام  کےتوسط  سے  انسانی  ترقی  کا  ( منا اہل البیت )  والا  راستہ  تا قیامت  اسی حکمت پر عمل کرنے والو ں کے لیئے موجود  ہے –
وہ  اہل البیت کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْـرًا ) اللہ نے یہ ارادہ کیا  ہے ہر طرح کی  ناپاکی اور نجاست کو  اہل بیت سے  دور  رکھے  اور تمہیں اتنا پاک رکھیں کہ جتنا پاک رکھنے کا حق ہے۔
انسان جب حکمت پا لیتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اخروی لحاظ سے ایک بہترین مقام پر پہنچ جاتا  ہے بلکہ اس دنیا میں صاحب  کرامت بن جاتا ہے۔  اور ایسے انسان کی موجودگی اپنے خاندان اور معاشرے کے لیئے اصلاح اور ترقی کا باعث بنتی ہے۔
جیسا کہ ہم اپنے جسم کو خوبصورت اورطاقتور بنانے کے لیئے بہت  ساری ورزشیں اور مشقیں کرتے  ہیں  اسی طرح  ہماری روح کو بھی مضبوط  اور  قدرت مند  رکھنے کے ليئے بہت سی   ورزشوں  اور مشقوں کی ضرورت ہے۔ تا کہ انسانی روح دنیا اور برزخ میں  خوبصورتی  حاصل کر لے۔
حکمت کی حصول میں  یہ  10 مرحلے روح کے لیئے ایک ورزش کی حثیت رکھتے ہیں ۔   اس ورزش کے نتیجے میں انسانی روح مضبوط ہوتی ہے  اور خدائ مقتدر کی مدد سے روح خواھشات کو قابو کرنے پر قادر ہو جاتی ہے۔
اگر چہ یہ ایک سخت اور  مشکل راستہ ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اس راستے  پر روح کوغذا ملتی ہے تو  اس وجہ سےروح کے لیئے اس راستے پر چلنا آسان  ہو جاتا ہے۔
روح کی مشقوں کا پروگرام: جیسا بدن  کی   ورزش کرنے کے لیئے انسان ایک شیڈیول بناتا ہے اور اسکے مطابق  بہت سختیوں سے بدن کو گذار تا ہےتاکہ بدن ہر قسم کی سختیوں کے لیئے تیار رہے۔
روح کی ورزش بھی اسی طرح روح کو تیار کرتی ہے ، تا کہ اس طرح وہ تہذیب نفس پا سکے۔
تَتَجَافٰى جُنُـوْبُـهُـمْ عَنِ الْمَضَاجِـعِ يَدْعُوْنَ رَبَّـهُـمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ (16) سورہ سجدہ
اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیے میں سے کچھ خرچ بھی کرتے ہیں۔ اور کھبی اللہ تعالی  اس انسان کو اس سے  بھی بڑھ کر دشوار راستوں  پر ڈالتا ہے  کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے  اور اسکے نتیجے میں اس انسان کی  بلند درجات کو پا لیتی
اللہ قرآن  میں فرماتا ہے: وَلَنَـبْلُوَنَّکُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (155) سورہ بقراء
اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
جب اللہ انسان کو اس طرح کی مشکلات میں ڈالتا ہے تو اللہ چاہتا ہے کہ اسکی روح ترقی کرے  


ہمیں اس امتحان  کو اللہ کی جانب سے ایک بہترین فرصت کے طور پر دیکھنا چاہئے اور اسکی بابت اللہ کا شکر اداء کرنا چاہئے نہ کہ اسکی بارگاہ میں شکوہ اور شکایت کریں  
جیسے ایک بچہ دوائی  کے ظاہر کو دیکھ کر  اسے کھانے  سے انکار کرتا  ہے  اور اعتراض  اور شکایت کر رہا ہوتا ہے کہ کیوں  مجھے اتنی کڑوی دوائی دی جا رہی ہے؟  لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے اور  حقیقت سمجھنے  کے   قابل ہوجاتا ہے تو پھر سمجھتاہے کہ یہ کڑوی دوائی  میری ہی فائدے اور علاج کے ليئے دی جاتی تھی 
اور وہ دوائیاں دینے والے کا بھی شکریہ اداء کرتا ہے۔
بس یہی فرق ہے ایک عارف  اور غیر عارف انسان  کا  اپنے  امتحانات کی  طرف نگاہ  کرنے میں ۔
کیونکہ عارف ایک نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور غیر عارف دوسری نگاہ سے۔
لہذا ہم اپنے وعدے کے مطابق حکمت کے دس مرحلوں  میں سے  اول مرحلے کو بیان کرتے ہیں۔
حکمت حاصل کرنے کے لیئے پہلا مرحلہ: (حقیقت ذکر)  کی طرف توجہ کرنا   ہے 
مطلب یہ کہ ہر حالت میں اللہ تعالی کو حاضر اور ناظر سمجھنا،  اور  ہمیشہ یہ  احساس رکھنا کہ ہم اللہ کی محضر میں ہے۔ 
اگر چہ ہم زبان کی حد تک بھی یہ احساس حضور خدا رکھیں  تو اچھا  ہے لیکن اگر چاہتے ہیں  کہ اسکا صحیح اثر ہو توپھر دل کے ساتھ  توجہ رکھنا چاہئے مطلب دل کے ساتھ قبول کرنا چاہئے کہ ہاں اللہ حاضر اور ناظر ہے۔ ورنہ  اسکے بغیر ہمارا دل نورانی نہیں ہوگا۔
اس مرحلے کی مشق کے لیئے امام صادق علیہ السلام نے تین  قسم کی ورزشین بیان فرمائی ہیں ۔
 اگر چہ  ایسا لگتا ہے کہ پہلی دو ورزشیں  حقیقت ذکر خدا   کے مرحلے کو پہنچنے کے لیئے  مقدمے  ہیں۔ 
لہذا امام صادق علیہ السلام، اپنے   ایک دوست اور چاہنے والے   سے فرماتے ہیں :
 ألا أخبرک بأشد ما فرض الله على خلقه [ثلاث] (3) قلت: بلى قال: إنصاف الناس من نفسک ومؤاساتک أخاک وذکر الله في کل موطن،
کیوں نہ میں آپ کو ان تین چیزوں کے بارے میں خبر دوں  کہ جس کی ہمیں   تاکید  کی گئی ہے ؟
 صحابی نے  کہا  ضرور  بتائیں    تو فرمایا : لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے میں پہلے اپنے نفس سے شروع کرو،   اور آپکے بھائی جو مشکل میں ہوں   انکی مشکلات  کوحل کریں ، اور ہر حالت میں اللہ کو حاضر اور ناظر جانیں ۔
أما إني لا أقول سبحان الله والحمد الله ولا إله إلا الله والله أکبر وإن کان هذا من ذاک ولکن ذکر الله عز وجل في کل موطن، إذا هجمت (4) على طاعة أو على معصية.
لیکن میں یہ نہیں کہتا ہو کہ  صرف (سبحان الله والحمد الله ولا إله إلا الله والله أکبر) کا ذکر پڑھتے رہو  اگرچہ یہ بھی اللہ کا ذکر ہے  لیکن میرا مطلب اللہ کے ذکر سے یہ ہے کہ ہر حالت میں اللہ کو یاد رکھو  کہ وہ تمھیں  دیکھ رہا    ہے چاہے تم اطاعت میں لگے ہو یا گناہ میں۔
اس مرحلے تک روح کو پہچنے کے لیئے تین  مشقیں ضروری ہیں۔
1-    یہ کہ  (إنصاف الناس من نفسک ) انسان نفس کی مطالبات  پر دیہان نہ دے  اور چاہے ہم جہاں بھی ہوں  دوسرے لوگون  کے ساتھ  زیادہ سے زیادہ انصاف کریں یعنی انصاف کرنا اپنے اپ سے شروع کریں۔
ہمیں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے  اور دوسرے لوگوں کے حق کھانے سے پرہیز کریں ۔
انسانی نفس کی یہ خواھش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کےحقوق پر ڈاکہ ڈالے  خاص کر جب انسان کو کوئی قدرت مل جائے۔  تو بس یہاں سے خواھشات نفسانی  کامقابلہ شروع ہو جاتا ہے، اس لیئے ہم بجائے اسکےکہ ہم دوسروں کے  حقوق صلب کریں اپنے حق سے درگزر کریں  ۔
انسان تب منصف بنتا  ہےکہ جب وہ دوسروں کے حق کو پورا پورا ادا کر ے ۔ 
دوسرے سے ایسا برخورد کریں جو جیسا وہ پسند کرتا ہو کہ اسکے  ساتھ وہ برخورد ہو جائیں۔
اپنے حساب سے کم کریں نہ کہ لوگوں کی حساب سے ۔ اور اسی طرح اگر انسان نے کوئی غلطی کی تو اس پر ڈتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ انسان کو غلط راستے پلٹنا چاہئے۔
2-    (ومؤاساتک أخاک)  اپکے بھائی جو مشکل میں ہو اسکے مشکلات  کوحل کرو، تا کہ وہ  اپکے برابر رہے فرماتے ہیں: ورزقنی مواساہ من قترت علیہ من رزقک بما وسعت علی من فضلک) خدایا جو تم نے مجھے  اپنے فضل اور کرم سے رزق کی فراحی اور وسعت دی ہے  اسی طرح مجھے توفیق دے کہ میں دوسروں کو   بھی اس لحاظ سے اپنے برابر کر سکو۔  وہ  لوگ جو تنگ دست اور مالی مشکلات میں گیرے ہوئے ہیں۔
مواسات اور مساوات میں بہت فرق ہے، مواسات کا مطلب ہے کہ ہر کام میں ہر لحاظ سے دوسرے مومنین کا ساتھ دینا اور انکی مدد کرنا   روایا ت میں مواسات کا ہمدلی اور مدد  کرنا اور ہر محتاج کے کسی بھی طرح کا مدد کرنا  ہے  محتاجوں اور فقیروں کو اپنے اموال میں شریک کرنا ۔ مواسات  کا معنی فقط  مال دینا نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر  ہے۔
 اعطاء اور بخشش کی معنی ہے کہ انسان اپنے مال اور دولت میں سے  جو کچھ اس کے ضروریات سے زیادہ ہو وہ محتاج کو دے دے ۔ لیکن  مواسات وہ ہوتا کہ محتاجوں کو اپنے اموال میں شریک سمجھے  وہ اموال کہ  جس سے انسان فقط اپنے ضروریات کو ہی پورا کرسکتا ہو۔ 
جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  مدینہ منورہ ھجرت کر گئے تو اس زمانے کا انصار مھاجرین کے ساتھ مواسات کرنا   اسلام میں بہترین مثال ہے۔  
مدینے میں ایسے بہت سارے گھر تھے کہ جہاں پر انصار اور مھاجریں ایک ساتھ زندگی کرتے تھیں۔ 
نقل ہوا کہ جب انصار کھجور کو اتارتے تھے تو اسکو دو حصوں میں بانٹتے تھے اور آدھے سے زیادہ مھاجرین کو دیا کرتے تھے۔
کچھ روایات نے مواسات کو اس سے  بھی بڑھ کر مفصل  بیان کیا  ہے حضرت امیر المومنین  علی علیہ السلام  مواسات کے بارے میں فرماتے ہے کہ مومنین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے مومن  بھائیوں کی زندگی سے فقر اور محتاجی کو دور کریں  اور اگر انکے پاس جو کچھ انکے ضروریات کی چیزیں نہ ہو اس کو تامین اور پورا کریں۔
3-    یہ کہ  (ذکر الله عز وجل في کل موطن،) بر حالت میں اور ہر مقام پر اللہ کا ذکر کرتے رہے۔
لیکن  میرا مطلب  یہ نہیں  ہے کہ ہم  (سبحان الله والحمد الله ولا إله إلا الله والله أکبر) ذکر پڑھتے رہے اگرچہ یہ بھی اللہ کا ذکر ہے  لیکن میرا مطلب اللہ کی ذکر سے یہ ہے کہ ہر حالت میں اللہ کو یاد رکھو  کہ وہ تمہے دیکھ رہا ہے چاہے تم طاعت میں لگے ہو یا گناہ میں۔
خدایا پروردگارا ! ہمارے نیک توفیقات میں اضافہ فرما۔  ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما ، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام ضامن مہدی فرجہ شریف کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما ۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ 
إِنَّ الاْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ   إِلاَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ    وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم