۱۳۹۹/۱۰/۱۲   13:15  بازدید:1307     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


17 جمادی الاول 1442(ھ۔ ق) مطابق با 01/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بندگان خدا ، برادران ایمانی و عزیزان نماز گزاران !
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
مسجد امام حسین علیہ السلام ، دبی کی جانب سے نماز جمعتہ المبارک کے منعقدہ پرنور اجتماع میں بھرپور اور منظم انداز سے شرکت پر خوش آمدید کہتے ہیں اور تہ دل سے مشکور ہیں کہ باوجود محدود وسائل کے آپ نے بھرپور تعاون کیا ۔ ہم فرداً امید کرتے ہیں کہ اس اجتماع عظیم و نماز پنجگانہ میں شرکت کے لیے وزارت صحت و متعلقہ ادارہ جات کی جانب سے جاری کردہ اصول و ضوابط کی پاسداری و انجام دہی کی جائے گی اور ایک پرخلوص ، تعلیم یافتہ ، منظم اور باشعور قوم و معاشرہ ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے ۔
 
اما بعد ۔۔۔ أُوصِيکُمْ وَنَفْسِي بِتَقْوَى اللهِ
ابتدائے خطبہ میں تمام انسانیت سے تقویٰ  الہٰی اپنانے کی گذارش کرتا ہوں ۔ مزید برآں محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی ﷺ کی زندگی میں کچھ لوگ آپ ﷺ کے پاس سوالات کے غرض سے آیا کرتے تو آپ ﷺ خوش اخلاقی و بہترین انداز سے ان کا استقبال کرتے اور تبسم بھرے انداز ( مسکراتے چہرے ) سے انہیں جوابات دیا کرتے ۔
 
وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
(سورۃ النور آیت 22)

اجتماعی و سماجی اصولوں میں سے ایک اصول جو بہت اہم ہے اور یہ اُن خاندانوں کے لیے بہت ضروری ہے جو قرآنی اصولوں اور بنیادوں پر زندگی گزارنا چاہتے ہوں وہ یہ کہ سماج ، معاشرے اور اجتماعی زندگی میں  بہت ضروری ہے کہ اس میں درگذر اور بخشش ہو ۔ اگر معاشرے میں ایک دوسرے کو معاف کرنا نہ ہو تو ایسے جامعہ ، سماج اور معاشرے کو کبھی بھی قرآنی معاشرے نہیں کہا جا سکتا ۔

خداوند متعال قرآن کریم مندرجہ بالا آیت میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ایک  دوسرے کو معاف کریں اور ایک دوسرے کی طرف سے اپنے دل کو صاف کریں ۔ تو کیا آپ نہیں چاہتے کہ اللہ تبارک و تعٰالی آپ کو معاف کرے ، تو اگر کوئی چاہتا ہے کہ اللہ تبارک و تعٰالی انہیں معاف کریں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے ایک دوسرے کو معاف کرے ۔ اس آیت میں بہت اہم اور انوکھے نقطے بیان کیے گئے ہیں جنہیں تین مرحلوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

پہلے مرحلے میں فرمایا کہ ایک دوسرے کو معاف کرو اور درگذر کرو یعنی ایک دوسرے کی طرف سے اپنے دلوں کو صاف کرو یہاں تک کہ  آپ کی بخشش اور درگذر اس حد تک ہو جائے کہ ایک دوسرے پر احسانات بھی کیا کرو۔

تیسرے مرحلے میں بخشش کے بعد  غفران اور غفور کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی نہایت بخشنے والا یا مہربان ۔ مطلب یہ کہ ممکن ہے کہ ہم پہلی دفعہ کسی کو معاف کر دیں  لیکن ہمارا دل اُس کی طرف سے صاف نہ ہو اور کینہ رکھتے ہوں ۔ لہٰذا اس مرحلہ کو بخشش تو کہا جا سکتا ہے یعنی ظاہر میں آپ نے اسے معاف کیا لیکن ابھی تک دل سے معاف نہیں کر چکے ہویعنی دل سے قبولیت نہیں ہوئی ہے ۔بخشش اور عفو کا مطلب یہ ہے کہ ناں صرف ظاہر میں اسے معاف کرے اور نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہ ہو اور دل میں بھی کوئی کینہ و ناراضگی نہ ہو ۔

دوسرے مرحلے میں نہ فقط دوسروں کو معاف کیا جاتا ہے بلکہ ان کے لیئے دل میں کبھی بھی کینہ اور ناراضگی نہیں رکھی جاتی ۔ اس حالت کو صفح ( یعنی دل سے معاف کرنا ) کہا جاتا ہے ۔

تیسرا مرحلہ غفران کا ہے اس مرحلے میں نہ صرف انسان دوسرے کو معاف کر دیتا ہے اور اس کے لحاظ سے دل کو صاف کرتا بلکہ اس کے عذرخواهی کو قبول بھی کرلیتا ہے اور اس سے بڑھ کر اس پر احسان بھی کرتا ہے۔

آئمہ معصومین علیہم السلام نے قرآنی رسم و رواج اور طریقوں کو مختلف انداز سے بیان اور وضاحت کیا ہے تاکہ لوگ قرآن کے مطابق زندگی بسر کریں ، کمال نہایہ پر پہنچ سکیں ، قرآنی صفات سے اپنے آپ کو منصوب کر سکیں ، اور آسانی سے عمل کر سکیں۔ لہٰذا جب قرآني اصولوں پر عمل کریں گے تو یہ ہمارے لئے راستہ فراہم کرتا رہے  گا اور ہم اسی طرح سکون قلبی حاصل کر سکیں گے ، اختلافات بھی کم سے کم تر ہوتے جائیں گے ، ایک  دوسرے کے ساتھ تحمل اور  سمجھوتے بڑھتے جائیں گے ۔ ایک دوسرے سے علیحدگی ہو جانا  (طلاقیں لینا)کم ہوتا جائے گا ۔ 

قرآنی طرز عمل کا ایک دوسرے کے ساتھ اچھی زندگی کے علاوہ اخروی اثرات و فوائد  بھی بیان ہو چکے ہیں ۔ 
رسالتمآب ﷺ فرماتے ہیں : 

من یغفر یغفر اللہ لہ و من یعف یعف اللہ عنہ
اگر کوئی کسی کے غلطی کو نظرانداز کرے گا تو اللہ بھی اس کی غلطیوں کو نظرانداز کرے گا ۔
یعنی کسی کو معاف  کر دینے سے اللہ بھی معاف کرے گا ، کسی کی غلطی کو نظر انداز کرنے سے اللہ بھی ہماری غلطیوں کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اسی طرح اگر ہم کسی کی غلطی کو نظر انداز کریں بلکہ اس پر احسان بھی کریں تو اللہ ہمارے گناہوں کو نہ فقط  بخشے گا بلکہ ہم پر احسان بھی فرمائے گا یعنی نعمات سے نوازے گا ۔ 

حضرت یوسف علیہ السلام نے تمام تر تکلیفات و مشکلات کے باوجود جو ان کے بھائیوں نے ان پر ڈھائے تھے ، ان سب کو معاف کیا بلکہ فرمایا : 
قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللّـٰهُ لَکُمْ ۖ وَهُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِـمِيْنَ 
کہا آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمہیں بخشے، اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔
(سورۃ الیوسف آیت 92  ) 
یعنی  تم لوگوں نے میرے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس سب سے میں درگذر کر چکا ہوں اور تمھیں معاف کرتا ہوں اس کے لیے سے میں تمہیں ملامت نہیں کروں گا اور تمہارے  عیبوں کو بھی کسی کے سامنے بیان نہیں کروں گا ، بے شک اللہ بہت رحمت والا اور مہربان ہے ۔ پس اگر ہم بھی ایسا کریں تو ہمارے بہت سارے اختلافات بھی ختم ہو جائیں گے اور ہمارے خاندان ایک دوسرے کے ساتھ آرام و سکون سے زندگی بسر کر سکیں گے ۔

کہتے ہے کہ  ایک آدمی جو مولانا آخوند خراسانی کے ساتھ اختلاف نظر رکھتے تھے ، اس نے ایک مجلس میں ان کی بہت توہین کی۔ کچھ عرصے بعد اس آدمی کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیئے اس نے اپنے گھر کو بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن جو خریدار تھا اس نے یہ شرط رکھی کہ میں تب تک یہ گھر نہیں خریدوں گا جب تک آخوند خراسانی اس پر دستخط نہ کریں۔  پس اس شخص کا مولانا صاحب کے پاس جانے کے علاوہ دوسری  کوئی راہ نہ تھی لہذا مجبور ہوا اور شرمندگی کے ساتھ  مولانا کے پاس آیا اور کہا کہ میرے اس قول نامے پر دستخط کر دیں ۔ 

مولانا خراسانی جانتے تھے کہ اس نے میری بہت تضحیک اور حتک عزت کی ہے اس کے باوجود انہوں نے پوچھا کہ تم گھر کیوں بیچنا چاہتے ہو تو اس آدمی نے جواب دیا کہ میں بری طرح مالی حالات میں پھنس چکا ہوں اور پیسوں کی اشد ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ گھر بیچنا چاہتا ہوں ۔ مولانا خراسانی نے کچھ نقدی اسے دے کر کہا کہ جاؤ ان سے اپنے مشکلات کو برطرف کرو لیکن گھر کو مت بیچو ۔

یہ واقعہ بخشش اور درگذر کے لحاظ سے بہت سبق آموز ہے  کہ اگر مولانا آخوند خراسانی کی بجائے کوئی اور ہوتا تو اسی طرح کا مجرم اس کے پاس آجاتا تو وہ پتہ نہیں اسے کیا کیا بولتا یا کیا کچھ یاد دلاتا اور آخر میں اسے کہتا کہ دستخط کرنا تو دور کی بات ہے میں ایسا کچھ کروں گا کہ تم آخری عمر تک اسی طرح پھنسے رہو گے ۔ 

خدایا پروردگارا ! ہمارے تمام امور میں ہمیں عاقبت بخیر بنا ، حاجتوں کی تکمیل میں راہنمائی فرما ، تمام بیماران کو امراض سے نجات دے ، صحت و سلامتی  عطا فرما ، فقر و ناداری کو مال و ثروت و سخاوت میں بدل دے ، برے حالات کو اچھے حالات میں بدل دے  ، امام ضامن مہدی عجل اللہ فرجہ کے ظہور پرنور میں تعجیل فرما اور ہمیں اُن کے انصارین میں شامل فرما۔
 
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ إِنَّ الاْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍإِلاَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
صَدَقَ اللّہُ الْعَلْیِّ العَظیم