۱۳۹۸/۱۲/۲۳   8:23  بازدید:1151     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


11 رجب ١٤٤١(ھ۔ ق) مطابق با 13/03/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 

خطبہ اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين  نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه  ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته  سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد  وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين  سيّما بقيّة الله في الأرضين  وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔

و بعد از این

 

گذشتہ جمعے ہم نے نھج البلاغہ سے اس موضوع پر بحث کی تھی کہ مومن دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں یعنی مومن دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ؟ آج اسی موضوع پر اور بات کرنا چاہتا ہو۔

نھج البلاغہ کی نظر میں مومن دنیا کو کس نظر سے دیکھے؟

اس موضوع پر کچھ عرائض پیش کی تھی۔ ہم نے کہا تھا کہ مومن دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے یعنی دنیا سے عبرت لے۔ امام امیرالمومنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ خطبہ نمبر 221 میں فرماتے ہے۔

ومن کلام لهعليه‌السلام

قاله بعد تلاوته( أَلْهاکُمُ التَّکاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ )

يَا لَه مَرَاماً مَا أَبْعَدَه وزَوْراً مَا أَغْفَلَه - وخَطَراً مَا أَفْظَعَه - لَقَدِ اسْتَخْلَوْا مِنْهُمْ أَيَّ مُدَّکِرٍ وتَنَاوَشُوهُمْ مِنْ مَکَانٍ بَعِيدٍ - أَفَبِمَصَارِعِ آبَائِهِمْ يَفْخَرُونَ - أَمْ بِعَدِيدِ الْهَلْکَى يَتَکَاثَرُونَ يَرْتَجِعُونَ مِنْهُمْ أَجْسَاداً خَوَتْ وحَرَکَاتٍ سَکَنَتْ - ولأَنْ يَکُونُوا عِبَراً أَحَقُّ مِنْ أَنْ يَکُونُوا مُفْتَخَراً - ولأَنْ يَهْبِطُوا بِهِمْ جَنَابَ ذِلَّةٍ - أَحْجَى مِنْ أَنْ يَقُومُوا بِهِمْ مَقَامَ عِزَّةٍ - لَقَدْ نَظَرُوا إِلَيْهِمْ بِأَبْصَارِ الْعَشْوَةِ - وضَرَبُوا مِنْهُمْ فِي غَمْرَةِ جَهَالَةٍ - ولَوِ اسْتَنْطَقُوا عَنْهُمْ عَرَصَاتِ تِلْکَ الدِّيَارِ الْخَاوِيَةِ - والرُّبُوعِ الْخَالِيَةِ لَقَالَتْ - ذَهَبُوا فِي الأَرْضِ ضُلَّالًا وذَهَبْتُمْ فِي أَعْقَابِهِمْ جُهَّالًا - تَطَئُونَ فِي هَامِهِمْ وتَسْتَنْبِتُونَ فِي أَجْسَادِهِمْ - وتَرْتَعُونَ فِيمَا لَفَظُوا وتَسْکُنُونَ فِيمَا خَرَّبُوا - وإِنَّمَا الأَيَّامُ بَيْنَکُمْ وبَيْنَهُمْ بَوَاکٍ ونَوَائِحُ عَلَيْکُمْ.

أُولَئِکُمْ سَلَفُ غَايَتِکُمْ وفُرَّاطُ مَنَاهِلِکُمْ - الَّذِينَ کَانَتْ لَهُمْ مَقَاوِمُ الْعِزِّ - وحَلَبَاتُ الْفَخْرِ مُلُوکاً وسُوَقاً سَلَکُوا فِي بُطُونِ الْبَرْزَخِ سَبِيلًا سُلِّطَتِ الأَرْضُ عَلَيْهِمْ فِيه - فَأَکَلَتْ مِنْ لُحُومِهِمْ وشَرِبَتْ مِنْ دِمَائِهِمْ - فَأَصْبَحُوا فِي فَجَوَاتِ قُبُورِهِمْ جَمَاداً لَا يَنْمُونَ - وضِمَاراً لَا يُوجَدُونَ - لَا يُفْزِعُهُمْ وُرُودُ الأَهْوَالِ - ولَا يَحْزُنُهُمْ تَنَکُّرُ الأَحْوَالِ - ولَا يَحْفِلُونَ بِالرَّوَاجِفِ ولَا يَأْذَنُونَ لِلْقَوَاصِفِ - غُيَّباً

لَا يُنْتَظَرُونَ وشُهُوداً لَا يَحْضُرُونَ - وإِنَّمَا کَانُوا جَمِيعاً فَتَشَتَّتُوا وآلَافاً فَافْتَرَقُوا - ومَا عَنْ طُولِ عَهْدِهِمْ ولَا بُعْدِ مَحَلِّهِمْ - عَمِيَتْ أَخْبَارُهُمْ وصَمَّتْ دِيَارُهُمْ - ولَکِنَّهُمْ سُقُوا کَأْساً بَدَّلَتْهُمْ بِالنُّطْقِ خَرَساً - وبِالسَّمْعِ صَمَماً وبِالْحَرَکَاتِ سُکُوناً - فَکَأَنَّهُمْ فِي ارْتِجَالِ الصِّفَةِ صَرْعَى سُبَاتٍ - جِيرَانٌ لَا يَتَأَنَّسُونَ وأَحِبَّاءُ لَا يَتَزَاوَرُونَ - بَلِيَتْ بَيْنَهُمْ عُرَا التَّعَارُفِ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمْ أَسْبَابُ الإِخَاءِ - فَکُلُّهُمْ وَحِيدٌ وهُمْ جَمِيعٌ - وبِجَانِبِ الْهَجْرِ وهُمْ أَخِلَّاءُ - لَا يَتَعَارَفُونَ لِلَيْلٍ صَبَاحاً ولَا لِنَهَارٍ مَسَاءً. أَيُّ الْجَدِيدَيْنِ ظَعَنُوا فِيه کَانَ عَلَيْهِمْ سَرْمَداً - شَاهَدُوا مِنْ أَخْطَارِ دَارِهِمْ أَفْظَعَ مِمَّا خَافُوا - ورَأَوْا مِنْ آيَاتِهَا أَعْظَمَ مِمَّا قَدَّرُوا - فَکِلْتَا الْغَايَتَيْنِ مُدَّتْ لَهُمْ - إِلَى مَبَاءَةٍ فَاتَتْ مَبَالِغَ الْخَوْفِ والرَّجَاءِ - فَلَوْ کَانُوا يَنْطِقُونَ بِهَا - لَعَيُّوا بِصِفَةِ مَا شَاهَدُوا ومَا عَايَنُوا.ولَئِنْ عَمِيَتْ آثَارُهُمْ وانْقَطَعَتْ أَخْبَارُهُمْ - لَقَدْ رَجَعَتْ فِيهِمْ أَبْصَارُ الْعِبَرِ

(آپ علیہ السلام نے

الھکم التکاثرکی تلاوت کرنے کے بعد  ارشاد فرمایا)

ذرا دیکھو تو ان آباء و اجداد پر فخر کرنے والوں کا مقصد کس قدربعیداز عقل ہے اور یہ زیارت کرنے والے کس قدر غافل ہیں اورخطرہ بھی کس قدر عظیم ہے۔یہ لوگ تمام عبرتوں سے خالی ہوگئے ہیں

 اور انہوں نے مردوں کو بہت دورسے لے لیا ہے۔آخر یہ کیا اپنے آباء واجداد کے لاشوں(1) پر فخر کر رہے ہیں؟یا مردوں کی تعداد سے اپنی کثرت میں اضافہ کر رہے ہیں؟ یا ان جسموں کو واپس لانا چاہتے ہیں جو روحوں سے خالی ہو چکے ہیں بجائے ذلت کی منزل میں اترنا چاہتے ہے

 مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ان مردوں کو چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی طرف سے جہالت کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔ اور ان کے بارے میں گرے پڑے مکانوں اور خالی گھروں سے دریافت کیا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ لوگ گمراہی کے عالم میں زیر زمین چلے گئے اورتم جہالت کے عالم میں ان کے پیچھے جا رہے ہو۔

ان کی کھوپڑیوں کو روند رہے ہو۔اور ان کے جسموں پرعمارتیں کھڑی کر رہے ہو ۔جووہ چھوڑ گئے ہیں اسی کو چر رہے ہو اور جو وہ برباد کرگئے ہیں اسی میں سکونت پذیر ہو۔تہارے ور ان کے درمیان کے دن تمہارے حال پر رو رہے ہیں اور تمہاری بربادی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔

یہ ہیں تمہاری منزل پر پہلے پہنچ جانے والے اور تمہارے چشموں پر پہلے وارد ہو جانے والے۔جن کے لئے عزت کی منزلیں تھیں اور فخرو مباہات کی فراوانیاں تھیں۔کچھ سلاطین وقت تھے اورکچھ دوسرے درجہ کے منصب دار۔لیکن سب برزخ کی گہرائیوں میں راہ پیمانی کر رہے ہیں ۔ زمین ان کے اوپر مسلط کردی گئی ہے۔

اس نے ان کا گوشت کھالیا ہے اورخون پی لیا ہے۔اب وہ قبر کی گہرائیوں میں ایسے جماد ہوگئے ہیں جن میں نمو نہیں ہے اور ایسے گم ہوگئے ہیں کہ ڈھونڈے پر بھی نہیں مل رہے ہیں۔نہ ہولناک مصائب(1) کا ورود انہیں خوف زدہ بنا سکتا ہے اور نہ بدلتے حالات انہیں رنجیدہ کر سکتے ہیں نہ انہیں زلزلوں کی پرواہ ہے اورنہ گرج اور کڑک کی اطلاع۔

ایسے غائب ہوئے ہیں کہ ان کا انتظار نہیں کیا جا رہا ہے اور ایسے حاضر ہیں کہ سامنے نہیں آتے ہیں۔کل سب یکجا تھے اب منتشر ہوگئے ہیں اور سب ایک دوسرے کے قریب تھے اور اب جدا ہوگئے ہیں۔ان کے حالات کے بے خبری اور ان کے دیار کی خاموشی طول زمان اور بعد مکان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ انہیں موت کا وہ جام پلادیا گیا ہے جس نے ان کی گویائی کو گونگے پن میں اور ان کی سماعت کو بہرے پن میں اور ان کی حرکات کو سکون میں تبدیل کردیا ہے۔ ان کی سرسری تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے نیند میں بے خبر پڑے ہوں کہ ہمسائے ہیں

لیکن ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہیں اور احباب ہیں لیکن ملاقات نہیں کرتے ہیں۔ان کے درمیان باہمی تعارف کے رشتے بوسیدہ ہوگئے ہیں اوربرادری کے اسباب منقطع ہوگئے ہیں۔اب سب مجتمع ہونے کے باوجود اکیلے ہیں اور دوست ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو چھوڑے ہوئے ہیں۔

نہ کسی رات کو صبح سے آشنا ہیں اورنہ کسی صبح کی شام پہچانتے ہیں۔

دن و رات میں جس ساعت میں بھی دنیا سے گئے ہیں وہی ان کی ابدی ساعت ہے اوردار آخرت کے خطرات کو اس سے زیادہ دیکھ لیا ہے۔جس کا اس دنیا میں اندیشہ تھا اوراس کی نشانیوں کو اس سے زیادہ مشاہدہ کرلیا ہے جس کا انداہ کیا تھا۔اب اچھے برے دونوں طرح کے انجام کو کھینچ کرآخری منزل تک پہنچا دیا گیا ہے جہاں آخر درجہ کاخف بھی ہے اورویسی ہی امید بھی ہے۔یہ لوگ اگر بولنے کے لائق بھی ہوتے تو ان حالات کی توصیف ہیں کر سکتے تھے جن کا مشاہدہ کرلیا ہے اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب اگران کے آثار گم بھی ہو گئے ہیں اور ان کی خبریں منقطع بھی ہوگئی ہیں تو عبرت کی نگاہیں بہر حال انہیں دیکھ رہی ہیں

2: دنیا مومن کو ذکر خدا سے غافل نہ کر دے۔

اللہ تعالی نے سورت نور میں ارشاد فرمایا: فِىْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّـٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْکَـرَ فِيْـهَا اسْمُهٝ ۙ يُسَبِّـحُ لَـهٝ فِيْـهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (36)

ان گھروں میں جن کی تعظیم کرنے اور ان میں اس کا نام یاد کرنے کا اللہ نے حکم دیا، ان میں صبح اور شام اللہ کی تسبیح پڑھتے ہیں۔

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْـهِـمْ تِجَارَةٌ وَّّلَا بَيْـعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّـٰهِ وَاِقَامِ الصَّلَاةِ وَاِيْتَـآءِ الزَّکَاةِ ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ (37)

ایسے آدمی جنہیں سوداگری اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰۃ کے دینے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔

حضرت امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر 222 میں فرماتے ہے۔

وإِنَّ لِلذِّکْرِ لأَهْلًا أَخَذُوه مِنَ الدُّنْيَا بَدَلًا - فَلَمْ تَشْغَلْهُمْ تِجَارَةٌ ولَا بَيْعٌ عَنْه - يَقْطَعُونَ بِه أَيَّامَ الْحَيَاةِ - ويَهْتِفُونَ بِالزَّوَاجِرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّه فِي أَسْمَاعِ الْغَافِلِينَ - ويَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ ويَأْتَمِرُونَ بِه - ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ويَتَنَاهَوْنَ عَنْه - فَکَأَنَّمَا قَطَعُوا الدُّنْيَا إِلَى الآخِرَةِ وهُمْ فِيهَا - فَشَاهَدُوا مَا وَرَاءَ ذَلِکَ - فَکَأَنَّمَا اطَّلَعُوا غُيُوبَ أَهْلِ الْبَرْزَخِ فِي طُولِ الإِقَامَةِ فِيه - وحَقَّقَتِ الْقِيَامَةُ عَلَيْهِمْ عِدَاتِهَا - فَکَشَفُوا غِطَاءَ ذَلِکَ لأَهْلِ الدُّنْيَا - حَتَّى کَأَنَّهُمْ يَرَوْنَ مَا لَا يَرَى النَّاسُ ويَسْمَعُونَ مَا لَا يَسْمَعُونَ - فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ لِعَقْلِکَفِي مَقَاوِمِهِمُ الْمَحْمُودَةِ - ومَجَالِسِهِمُ الْمَشْهُودَةِ - وقَدْ نَشَرُوا دَوَاوِينَ أَعْمَالِهِمْ - وفَرَغُوا لِمُحَاسَبَةِ أَنْفُسِهِمْ عَلَى کُلِّ صَغِيرَةٍ وکَبِيرَةٍ - أُمِرُوا بِهَا فَقَصَّرُوا عَنْهَا أَوْ نُهُوا عَنْهَا فَفَرَّطُوا فيهَا - وحَمَّلُوا ثِقَلَ أَوْزَاِرِهمْ ظُهُورَهُمْ - فَضَعُفُوا عَنِ الِاسْتِقْلَالِ بِهَا - فَنَشَجُوا نَشِيجاً وتَجَاوَبُوا نَحِيباً - يَعِجُّونَ إِلَى رَبِّهِمْ مِنْ مَقَامِ نَدَمٍ واعْتِرَافٍ - لَرَأَيْتَ أَعْلَامَ هُدًى ومَصَابِيحَ دُجًى - قَدْ حَفَّتْ بِهِمُ الْمَلَائِکَةُ - وتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمُ السَّکِينَةُ - وفُتِحَتْ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وأُعِدَّتْ لَهُمْ مَقَاعِدُ الْکَرَامَاتِ - فِي مَقْعَدٍ اطَّلَعَ اللَّه عَلَيْهِمْ فِيه - فَرَضِيَ سَعْيَهُمْ وحَمِدَ مَقَامَهُمْ - يَتَنَسَّمُونَ بِدُعَائِه رَوْحَ التَّجَاوُزِ - رَهَائِنُ فَاقَةٍ إِلَى فَضْلِه وأُسَارَى ذِلَّةٍ لِعَظَمَتِه - جَرَحَ طُولُ الأَسَى قُلُوبَهُمْ وطُولُ الْبُکَاءِ عُيُونَهُمْ - لِکُلِّ بَابِ رَغْبَةٍ إِلَى اللَّه مِنْهُمْ يَدٌ قَارِعَةٌ - يَسْأَلُونَ مَنْ لَا تَضِيقُ لَدَيْه الْمَنَادِحُ -ولَا يَخِيبُ عَلَيْه الرَّاغِبُونَ. فَحَاسِبْ نَفْسَکَ لِنَفْسِکَ فَإِنَّ غَيْرَهَا مِنَ الأَنْفُسِ لَهَا حَسِيبٌ غَيْرُکَ.

حضرت امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر 222 میں فرماتے ہے۔

بیشک ذکرخدا کے بھی کچھ اہل ہیں جنہوں نے اسے ساری دنیا کا بدل قراردیا ہے اور اب انہیں تجارت یا خریدو فروخت اس ذکر سے غافل نہیں کرسکتی ہے ۔

یہ اس کے سہارے زندگی کے دن کاٹتے ہیں اور غافلوں کے کانوں میں محرمات کے روکنے والی آوازیں داخل کر دیتے ہیں۔لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔برائیوں سے روکتے ہیں اور خودبھی باز رہتے ہیں۔گویا انہوں نے دنیا میں رہ کرآخرت تک کا فاصلہ طے کرلیا ہے

اور پس پردۂ دنیا جو کچھ ہے سب دیکھ لیا ہے اور گویاکہ انہوں نے برزخ کے طویل و عریض زمانہ کے مخفی حالات پر اطلاع حاصل کرلی ہے اورگویا کہ قیامت نے ان کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کردیا ہے اور انہوں نے اہل دنیا کے لئے اس پردہ(1) کواٹھا دیا ہے۔کہ اب وہ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں جنہیں عام لوگ نہیں دیکھ سکتے ہیں اور ان آوازوں کو سن رہے ہیں جنہیں دوسرے لوگ نہیں سن سکتے ہیں اگر تم اپنی عقل سے ان کی اس تصویر کو تیار کروجو ان کے قابل تعریف مقامات اور قابل حضور مجالس کی ہے۔جہاں انہوں نے اپنے اعمال کے دفتر پھیلائے ہوئے ہیں اور اپنے ہرچھوٹے بڑے عمل کاحساب دینے کے لئے تیار ہیں جن کا حکم دیا گیا تھا

اور ان میں کوتاہی ہوگئی ہے یا جن سے روکا گیاتھا اور تقصیر ہوگئی ہے اور اپنی پشت پر تمام اعمال کابوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور اب روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں اور ایک دوسرے کو رو رو کر اس کے سوال کا جواب دے رہے ہیں اور ندامت اوراعتراف گناہ کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کر رہے ہیں۔

تو وہ تمہیں ہدایت کے نشان اور تاریکی کے چراغ نظر آئیں گے جن کے گرد ملائکہ کا گھیرا ہوگا اور ان پر پروردگار کی طرف سے سکون و اطمینان کا مسلسل نزول ہوگا

 اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہوں گے اورکرامتوں کی منزلیں مہیا کردی گئی ہوں گی۔ایسے مقام پرجہاں مالک کی نگاہ کرم ان کی طرف ہو اور وہ ان کی سعی سے راضی ہو اور ان کی منزل کی تعریف کر رہا ہو۔ وہ مالک کو پکارنے کی فرحت سے بخشش کی ہوائوں میں سانس لیتے ہوں۔اس کے فضل و کرم کی احتیاج کے ہاتھوں رہن ہوں

 اوراس کی عظمت کے سامنے ذلت کے اسیر ہوں۔غم و اندوہ کے طول زمان نے ان کے دلوں کومجروح کردیا ہو اور مسلسل گریہ نے ان کی آنکھوں کو زخمی کردیا ہو۔

مالک کی طرف رغبت کے ہر دروازہ کو کھٹکھٹارہے ہوں

 اور اس سے سوال کر رہے ہوں جس کے جودو کرم کی وسعتوں میں تنگی نہیں آتی ہے اور جس کی طرف رغبت کرنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے ہیں دیکھو اپنی بھلائی کے لئے خود اپنے نفس کا حساب کرو کہ دوسروں کے نفس کاحساب کرنے والا کوئی اور ہے۔

ماہ رجب میں یہ اذکار پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

  1. (استغفر اللہ و اتوب الیہ)  ستر مرتبہ صبح اور ستر مرتبہ عصر کو
  2. لا الہ الا اللہ) رجب کی مہینے میں ھزار بار پڑھا جائے۔ اور جس شخص نے یہ پڑھا تو اسکے نامہ عمل میں ایک لاکھ حسنات لکھا جائیں گا اور اسکے لیئے جنت میں سو شہر بنائے جائیں گے۔
  3. سورت قل ھو اللہ احد) رجب کی مہینے میں ھزار بار پڑھی جائے۔ جس شخص نے یہ عمل انجام دیا تو اسکا یہ عمل قیامت میں نور بن کر اسے بہشت لے کر جائے گا۔

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

خطبہ دوم

 

الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین 

اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله

 

 

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

آج کل کرونا وائرس کے نام سے ایک بیماری نے پوری دنیا کو آپنے لپیٹ میں لیا ہوا 
اس حوالے  سے کچھ عرائض پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مریض کی خدمت کرنے کا ثواب

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:  کسی بیمار کی تیمرداری اور خدمت کرنے کا ثواب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی زیارت کرنے سے زیادہ ہے۔

اسی طرح فرماتے ہے: کہ ( من قام علی مریض یوما و لیلہ بعثہ اللہ مع ابراھیم الخلیل فجاز علی الصراط)

جس نے کسی مریض کی ایک دن اور ایک رات خدمت کی تو اللہ تعالی اسے ابراھیم علیہ السلام کیساتھ محشور فرمائے گا۔ اور وہ پل صراط سے گزر سکے گا۔

من سعی لمریض فی حاجتہ قضاھا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ۔  

جس نے کسی مریض کی حاجت رسائی کی کوشش کی اور وہ حاجت پوری بھی ہوئی تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو گا جیسے ابھی پیدا ہوا ہو۔

خداوند متعٰال ہم تمام مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق ، خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری ، مصائب و آلام پر صبر جمیل اور صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں ۔ آمین ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ