خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ربِّ العالمين نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين سيّما بقيّة الله في الأرضين وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين
اما بعد اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گزاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
و بعد از این
آج کے خطبہ اول میں صلہ رحمی اور اس کی اہمیت اجاگر کی جائے گی یعنی صلہ رحمی کیا ہے اور اس کے فوائد و اثرات کیا ہو سکتے ہیں ۔
صلہ رحمی یعنی اپنوں (اہلخانہ ، رشتہ دار، عزیز و اقارب ، والی وارث، دوست احباب ، پڑوسی) کے ساتھ رابطہ برقرار کرنا یا رکھنا ۔
دین اسلام کی معاشرتی اخلاقی تعلیمات میں سے ایک صلہ رحمی ہے جس پر قرآن و سنت میں بہت زور دیا گیا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنوں کے ساتھ بہترین ارتباط (رابطہ) قائم رکھیں ۔ اللہ تعٰالی نے مومنین کی صفات میں سے ایک ایسی صفت سورۃ الرعد ، آیت 21 میں بیان کی ہے :
وَالَّـذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ
اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کو اللہ نے فرمایا ہے ۔
اسی طرح کافروں کی صفت میں سے ایک سورۃ البقرۃ ، آیت 27 میں ذکر ہوا ہے کہ وہ لوگ ملن (میل ملاپ) کو توڑ دیتے ہیں :
وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ
اور جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں ۔
روایات میں صلہ رحمی کے بارے میں بہت کچھ بیان ہوا ہے اور اس حد تک کہا گیا ہے کہ اگرصلہ رحمی کو جوڑنے کے لیے ایک سال کا سفر طے کرنا پڑے تو بھی کرے اور اسی طرح کہتے ہیں کہ جس آدمی نے اپنوں سے ملن (میل ملاپ) کو توڑ دیا تو تم لوگ بھی اس کے ساتھ ملن توڑ دو ۔
قرآن کریم میں صلہ رحمی کو انجام دینے والے کی تنبیہ
اللہ تعٰالی قرآن مجید میں تین جگہوں پر صلح رحمی کو توڑنے والے پر لعنت بھیجتا ہوئے فرماتے ہیں ۔
وَمَا يُضِلُّ بِهٖ اِلَّا الْفَاسِقِيْنَ (26) اَلَّـذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ اُولٰٓئِکَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (27)
اوراس سے گمراہ تو بدکاروں ہی کو کیا کرتا ہے ۔ جو اللہ کے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے ہیں ، وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ ، آیات 26 ، 27)
وَالَّـذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ۙ اُولٰٓئِکَ لَـهُـمُ اللَّعْنَةُ وَلَـهُـمْ سُوٓءُ الـدَّارِ
اور جو لوگ اللہ کا عہد مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو توڑتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم فرمایا اور ملک میں فساد کرتے ہیں ، ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔
(سورۃ الرعد ، آیت 25)
اور ایسے لوگوں کا حشر میں کیا حال ہوگا ؟ اس کے لیے سورۃ محمد کی 22 اور 23 آیات میں فرمایا :
فَهَلْ عَسَيْتُـمْ اِنْ تَوَلَّيْتُـمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُـوٓا اَرْحَامَکُمْ (22) اُولٰٓئِکَ الَّـذِيْنَ لَعَنَهُـمُ اللّـٰهُ فَاَصَمَّهُـمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ (23)
پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم ملک کے حاکم ہو جاؤ تو ملک میں فساد مچانے اور قطع رحمی کرنے لگو ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پھر انہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے ۔
اب جاننا یہ ہے کہ صلہ رحمی اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہے ؟
خواجہ نصیرالدین طوسی علیہ الرحمہ نے صلہ رحمی کا احساس عقل اور تعقل کرنے پر رکھا ہے ۔ عقل کہتی ہے کہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ انسانوں سے دور رہے اور پھر عام انسانوں میں اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں ۔ انسان چاہتا ہے کہ اپنوں کی مدد کرے اور مدد لے بھی ۔ یہ انسان کی فطری ، روحی ، جسمی وابستگی اور نیازی ہے جو اس ملن (میل ملاپ) کے ذریعے برآورد (پایہ تکمیل) تک پہنچ سکتی ہے اور یہ کہ فطرت انسانی بھی یہی چاہتی ہے ۔
پہلے زمانوں میں بڑے بڑے خاندان آپس میں زندگی بسر کیا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں جیسے ہی کسی کی شادی ہوتی ہے تو وہ فوراً والدین سے الگ ہو جاتا ہے ۔ پہلے زمانوں میں رہنے سہنے کا طریقہ و آداب تھے جن کے بہت سارے فوائد تھے جو اگلے انسانوں میں تجربہ کے ساتھ منتقل ہو رہے تھے ۔ مثال کے طور پر ایک دوسرے کی امداد کرنا زیادہ ہوتا تھا باوجودیکہ اس میں کچھ سننا (وعظ و نصیحت) بھی پڑتا تھا لیکن اس کے بہت سارے فوائد تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ انسان اپنوں سے کچھ ایسا سنے جس سے وہ اپنی زندگی میں زیادہ نقصانات سے بچ جائے ۔
پہلے زمانوں میں طلاق کی شرح تناسب کم ہوتی تھی اور اب بہت زیادہ ہے ۔ صبر رکھنے کی بہت قیمت اور اہمیت ہے ۔ صلہ رحمی اور اپنوں سے ملن (میل ملاپ) ہی انسان کے لئے اس کی سلامتی ، عافیت اور سب کاموں کو صحیح اور احسن طور سے انجام دینے کا باعث ہونا چاہیے ۔
صلح کا مطلب ہے اتصال یا باندھنا اور رحم کنایہ ہے اپنوں سے ۔ صلہ دوستی کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ صلہ رحمی یعنی محبت اور اپنوں کے ساتھ جڑے رہنا ۔ یہاں رحم مجازی معنی میں لیا گیا ہے یعنی وہ سب اپنے جو ایک ہی رحم سے جدا اور الگ ہو گئے ہوں ۔
صلہ رحمی کی کئی مصداقیں ہیں ، جیسے سلام کرنا ، کسی کا حال احوال پوچھنا ، ملاقات کرنا ، مادی اور معنوی مدد کرنا ، کسی فرد سے دفاع کرنا ۔۔۔۔۔
اسلامی معاشرہ طاقتور ، محکم اور مضبوط ہوتا ہے جس میں خاندان کے تمام ارکان آپس میں مضبوط دوست اور مددگار ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر کسی عمارت کی اینٹیں محکم اور مضبوط نہ ہوں تو پوری عمارت محکم اور مضبوط نہیں ہو سکتی ۔
اللہ تعٰالی سورۃ الاسراء ، آیت 26 میں فرماتے ہیں :
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٝ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْـرًا
اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو ۔
کچھ تبصروں میں یہاں ذی القربٰی سے مراد فقط خاندان رسالت لی گئی ہے لیکن ہم اس کا ایک عام معنی بھی کر سکتے ہیں جس میں یہ آیت سب لوگوں کو شامل کیے ہوئے ہے تو لہٰذا اس میں سب سے پہلے اپنوں کا بیان آتا ہے کہ سب سے پہلے اپنوں کا حق دے دو ۔ زکوٰۃ اور خمس ادا کرنے میں بھی اولین ترجیح اپنوں میں سے اگر کوئی محتاج ہے تو اسے دیا جائے ۔
سورۃ النحل ، آیت 90 میں ارشاد ہوا :
اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَـآءِ ذِى الْقُرْبٰى وَيَنْـهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْىِ ۚ يَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
بے شک اللہ انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے، تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو ۔
صلہ رحم کرنا ایک طرح اللہ کی عبادت بھی ہے جیسے والدین کے ساتھ احسان و نیکی کرنا اللہ کی عبادت اور اطاعت کے زمرے میں آتا ہے ۔ سورۃ البقرۃ ، آیت 83 میں فرماتے ہیں :
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّـٰهَ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاکِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّکَاةَ ۖ ثُـمَّ تَوَلَّيْتُـمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْـتُـمْ مُّعْرِضُوْنَ
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوۃٰ دینا ، پھر سوائے چند آدمیوں کے تم میں سے سب منہ موڑ کر پھر گئے ۔
سورۃ النساء ، آیت 1 میں ارحام کو خدا پر عطف کیا ہے (یہ ایک نحوی بحث ہے) ۔ اس سے بھی اس موضوع کی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے :
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّـذِىْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْـهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْـهُمَا رِجَالًا کَثِيْـرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ الَّـذِىْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيْبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو ، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے ۔
صلہ رحمی کے بہت زیادہ دنیاوی و اخروی فائدے ہیں ۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔
الف: اس کی انجام دہی سے اللہ تعٰالی طول عمر دیتا ہے (اور ایسا کون ہے جو طول عمر نہیں چاہتا) ۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام کاظم علیہ السلام کے سامنے اپنے مرنے کی دعا کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا آپ کے پاس آخرت کے لیے بہت کچھ ہے اور یہ کہ وہاں آپ کے لیے کوئی مشکلات نہیں ہوں گی تو اس شخص نے کہا کہ نہیں ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا پھر کیوں اپنے مرنے کی دعائیں کرتے ہو۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ خدایا مجھے طول عمر دے کہ میں اس کو تیری عبادت و اطاعت میں گزار دوں ۔ (صحیفہ سجادیہ ، دعا 20)
صلہ رحمی ، ارتباط (رابطہ رکھنا) اور ملن (میل ملاپ) انسان کے لیے ممکن بناتا ہے کہ وہ اپنے وجود سے بہترین فائدہ اٹھائے ۔ اس طرح انسان کے درد اور مشکلات کم ہو جاتے ہیں اور کامیابی بڑھ جاتی ہے ۔ ہم جتنا بھی اپنوں کے پاس جائیں یا وہ ہمارے پاس آئیں ، ہم انہیں کچھ دیں یا ان سے کچھ لیں ان سب سے بہت زیادہ برکت ہوتی ہے ۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ قبل از کامیابی انقلاب علماء سے کہتے تھے کہ وہ آیا کریں تاکہ آپس میں بیٹھ کر چائے پییں اور باتیں کریں ۔ جس انسان کا آنا جانا کم ہوتا ہے وہ شرمیلا بھی ہوتا ہے ، اپنے درد خود میں چھپا لیتا ہے اور یہ کہ شرمیلے لوگ بہت کم کامیاب ہوتے ہیں ۔ تعلقات اور ارتباط انسان کے حوادث کے مقابلے میں بیمہ کر دیتے ہیں ۔ جدید علوم ، ارتباطات و تعلقات سے برے سماج کا بھی یہی تقاضہ ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص اپنی باتوں میں سچا ہو ، رفتار میں متوازن ، والدین سے نیکی کرتا ہو اورصلہ رحمی بجا لاتا ہو تو اس کے مرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے ، اس کا رزق بڑھ جاتا ہے اور اپنے عقل سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور جب خدا کے بھیجے ہوئے دو فرشتے اس سے سوال و جواب کریں گے تو اس کو جواب تلقین ہو جاتا ہے ۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی اپنوں سے صلہ رحمی کرے اور اس کی عمر تین سال رہ گئی ہو تو اللہ تعٰالی اسے بڑھا کر تیس سال کر دیتا ہے ۔
ب۔ صلح رحمی کی بدولت رزق و روزی بڑھ جاتی ہے ۔ رزق و روزی فقط مال و دولت نہیں بلکہ انسان کے ضروریات کا کام ہو جانا بھی رزق ہے ، اپنوں کے ساتھ ملن (میل ملاپ) کے جس سے خدا کی چاہت پوری ہو یہ بھی رزق سلیم ہے ۔ پس اس طرح ہم لوگوں سے بھی مل جاتے ہیں اور امر الہٰی بھی بجا لاتے ہیں اور یہ ایک طرح سے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھی ہے ۔
مولانا اپنی کتاب مثنوی معنوی میں کیا خوب کہتے ہیں :
این جهان کوه است و فعل ما ندا سوی ما آید نداها را صدا
یہ دنیا جہان ایک پہاڑ کی مانند ہے اور ہمارے کام کسی پہاڑ کے چیخ و پکار کی مانند ہیں اور پہاڑوں میں کوئی چیخ و پکار ہمارے پاس ضرور آئے گا ۔
پس اگر کوئی دولت جمع کرنا چاہتا ہو اور صلہ رحمی نہیں کرتا تو غلطی پر ہے کیونکہ جو راستہ ہمارے لیے اللہ و معصومینؑ نے انتخاب کیا ہے وہ ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ کبھی کبھی انسان کو کسی ایک سے ملن (میل ملاپ) سے ایسی فکر یا نظریہ مل جاتا ہے کہ جس کے ذریعے بہت زیادہ مال بھی جمع کر سکتا ہے اور علم بھی ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی چاہتا ہو کہ رزق زیادہ ہو دیر سے مرے یعنی عمر طولانی ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے ۔
اسی طرح فرمایا کہ صلہ رحمی سے مال زیادہ ہو جاتا ہے ۔
امام علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا کہ : اگر کوئی میرے ایک عمل کی ضمانت دے تو میں اس کے چار اعمال کی ضمانت دوں گا اور وہ یہ کہ : 1۔ انسان اپنوں سے رابطہ رکھے یعنی صلہ رحمی کرے تو خدا اسے اپنا دوست رکھے گا ، 2۔ رزق میں فراوانی دے گا ، 3۔ عمر دراز ہو گی اور 4۔ وہ اسی بہشت میں چلا جائے گا جس کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ، صلہ رحمی سے دنیا میں ہی دنیا بن جاتی ہے اور عمر بڑھ جاتی ہے ۔
ج۔ صلہ رحمی سے زمین آباد ہو جاتی ہے ۔ اس مہم میں کامیابی تبھی ممکن ہے جب یکجاء ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مدد کریں کیونکہ معاشرے کا ہر فرد ایک اچھا سماج بنانے کے لیے اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور جب یہ سب اینٹیں آپس میں جڑ جاتی ہیں تو ایک مضبوط و محکم معاشرہ بن جاتی ہیں اور یوں باقی لوگوں کے ساتھ رابطہ بھی مضبوط ہو جاتا ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صلہ رحمی اور اپنوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے شہر آباد ہو جاتے ہیں اور عمریں بڑھ جاتی ہیں ۔
دوسری حدیث میں فرمایا کہ نیکی اور صلہ رحمی سے عمر بڑھ جاتی ہے ، شہر آباد ہو جاتے ہیں اور مال و دولت زیادہ ہوتا ہے اگرچہ کہ وہ قوم فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو ۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ نے فرمایا کہ صلہ رحمی سے جمعیت بڑھ جاتی ہے ۔
یہاں مراد یہ کہ انسان جب تنہا ہوتا ہے تو تنہا ہی رہ جاتا ہے لیکن اگر دوسروں کے ساتھ رابطہ برقرار کرے اور معاشرے میں اپنا مقام بنا لے تو اسی معاشرے کے ذریعے وہ بہت سارے ایسے کام کر سکتا ہے جو وہ اکیلا نہیں کر پاتا ۔
د۔ بہترین اجر ، اگرچہ کہا گیا ہے کہ الیوم العمل ولا حساب و غدا الجزاء ولا عمل یعنی آج عمل کا دن ہے ناں کہ حساب کا جبکہ کل حساب کا دن ہو گا ناں کہ عمل کا ۔ یہاں حساب سے مطلب بہترین اجر یا جزا ۔ اگرچہ خیر اور بہترین اجر پانا اللہ کے نزدیک ہے ۔ صلہ رحمی جو کہ ایک صالح عمل ہے ، یہ انسان کے لیے ترقی کا زمینہ ہموار کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالی اجر و جزا آخرت میں دیتا ہے لیکن کچھ چیزوں کی جزا اسی دنیا میں ہی دیتا ہے جیسا کہ صفائی کے بدل سلامتی دینا ۔ کام کرنے کے بدل محتاجی دور ہونا ، نظم و ضبط کے بدل کامیابی اور جہاد کے بدل عزت ملنا ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صلہ رحمی کا اجر سب سے جلدی مل جاتا ہے ۔
اسی طرح دوسری حدیث میں فرمایا کہ نیکی اور صلہ رحمی کا اجر و خیر جلدی مل جاتا ہے اور صلہ رحمی کو ترک کرنے سے شر اور عذاب بھی جلدی مل جاتا ہے ۔
اسی طرح فرمایا کہ صلہ رحمی اللہ کی رحمت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔
ایک اور حدیث میں فرمایا کہ صدقہ دینے کا دس گنا اجر ملتا ہے ، قرض دینے کے اٹھارہ گناہ اور اخوان (برادران) کے ساتھ رابطہ رکھنے سے بیس گناہ اور اپنوں کے ساتھ صلہ رحمی کا چوبیس گنا ثواب ملتا ہے ۔
ح۔ صلہ رحمی سے مہر و محبت بڑھتی ہے ۔ مہر و محبت انسان کا ایک دوسرے کے درمیان ایک قسم کا رابطہ ہوتا ہے ۔ مہربانی کے 100 درجوں میں سے 99 اللہ کے پاس ہیں اور 1 درجہ انسانوں کے درمیان تقسیم کیا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کو احسان مند بنایا ہے ۔ یعنی صلہ رحمی کا مطلب یہ بھی ہوا کہ اپنوں کے ساتھ محبت کرنا ۔
و۔ روز جزا و قیامت میں شفاعت کا ملنا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن پانچ چیزیں شفاعت کر سکتی ہیں ۔ ایک قرآن ، دو اپنے ، تین امانتداری ، چار آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پانچ اہلبیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
صلہ رحم کی دیگر مصداقیں جیسے !
1۔ ظلم نہیں کرنا ، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا اور صحیح طریقے سے وراثت کا تقسیم کرنا ۔
2۔ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہ کر ، ایک دوسرے کے ساتھ آنا جانا ، زبان کے ذریعے کسی کو تکلیف نہ دینا ، ناں یہ کہ ٹی وی دیکھنے کے لیے آپس میں بیٹھ جائیں اور خود فون پر بات کرنے لگ جائیں ۔ یا پھر کوئی رات کے بارہ بجے کسی کے گھر چلا جائے اور ان کے سونے میں مخل ہو جائے یا پھر کسی پر اعتراضات (تنقید) کرتے رہیں ۔
3۔ دوسروں کی مشکلات حل کرنا ، اس کے درد و تکلیف کو دور کرنا ناں کہ کسی پر ہنسی مذاق اور اس کی موجود حالت پر بیان بازی کرنا ۔
4۔ بہترین امور میں یعنی مثل شادی بیاہ یا روزگار پیدا کرنے میں وساطت اور شفاعت کرنا ۔
5۔ غیبت نہ کرنا ، اپنوں کے پیٹھ پیچھے بات نہ کرنا ، ان سے حسد اور ذلیل نہ کرنا ، خلاصہ یہ کہ ان کا خیر خواہ بننا ۔
خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت فقیہ کے پیروکاران و محافظین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خطبہ دوم
الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّد بن علىّ و جعفر بن محمّد و موسى بن جعفر و علىّ بن موسى و محمّد بن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین
اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
خداوند متعٰال سورۃ الابراہیم ، آیت 5 میں فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيَاتِنَـآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَکِّرْهُـمْ بِاَيَّامِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِکَ لَاٰيَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُـوْرٍ
اور البتہ تحقیق ہم نے موسٰی کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انہیں اللہ کے دن یاد دلا ، بے شک اس میں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔
یعنی جس طرح اللہ تعٰالی حضرت موسٰی علیہ السلام کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاتا ہے اسی طرح ہمارا بھی یہی وظیفہ بنتا ہے کہ اللہ کے دنوں کو یاد رکھیں ۔ جیسے کہ 22 بہمن سال 58 میں انقلاب اسلامی کا کامیاب ہونا ۔ یاد رکھیے کے خدا کی قدرت و نشانیاں ہمیشہ سے موجود ہوتی ہیں لیکن کچھ جگوں میں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اور لوگوں کو سمجھ میں بھی آ جاتی ہیں ۔ جیسے بغیر اسلحہ کے رضا شاہ پہلوی کی افواج کے مقابل کامیاب ہونا ، یعنی یہ کہ کوئی حکمران اگر امریکہ و دیگر مصنوعی طاقتوں کا حمایت یافتہ ہو اور ان کے مد مقابل کامیاب ہوجائے تو یہ معجزے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور پھر ایسے دنوں کو ایام اللہ دہ ہائے فجر انقلاب اسلامی کہنا جو بارہ بہمن سے لے کر بائیس بہمن تک یعنی جب امام راحل خمینیؒ بت شکن ایک طویل اور جبری ملک بدری کاٹنے کے بعد ایران آیا اسکے واپسی پر شروع ہوئے اور آخر میں 22بہمن کو انقلاب اسلامی کے ساتھ ہمکنار ہوتے ہیں ۔ جبکہ ان دنوں رضا شاہ حکومت کا ارادہ تھا کہ وہ اس تحریک و شورش کو مٹا دیں اور خون کی ندیاں بہا دیں لیکن خدا کا ارادہ ایسا نہیں تھا ۔ قزوین سے ایک لشکر روانہ کیا گیا تاکہ 21 اور 22 بہمن کو لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیں لیکن اللہ تعٰالی کی مدد سے یہ سازش خاک میں مل گئی ۔
باوجودیکہ وہ بیرونی دشمن عناصر جن کے جمہوری اسلامی ایران سے فائدے وابسطہ تھے اور حکمران حکومت وقت جو قومی خزانے سے کئی ملین ڈالر لے اڑے اور وہ اندرونی منافقین جنہوں نے فوج کے اسلحہ کو لوٹا اور اسی طرح دیگر بہت سے چھوٹے بڑے مخالفین ، لیکن اس کے باوجود 41 سال ہو چکے لیکن انقلاب اپنی جگہ کھڑا ہے ۔ دشمن ہرگز چاہتا ہے کہ انقلاب کو نقصان پہنچائے ، اور اس نے بہت زیادہ کوشش بھی کیں جیسا کہ آٹھ سال جنگ کا مسلط کیا جانا لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب اللہ کا ارادہ ہے جس سے انسانیت کو نجات ملتی ہے اور یہ بنیاد ہے اس چیز کی کہ جس کے ذریعے پورے جہان میں عدالت آ جائے گی اور جسے سورۃ الصف ، آیت 8 میں کہا گیا :
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُوْنَ
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں ، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں ۔
کسی مکتب فکر کو جاننے کے لیے کہ کیا یہ صحیح ہے یا غلط ہے ، عقل اور وحی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ کچھ راستے اور بھی ہیں جو ہمیں اس کی شناخت میں مدد دیتے ہیں ۔ان میں کچھ یہ ہے۔
1۔ کسی مکتب فکر کے دوستان ، ہمراہان یا حامیان اور افراد کا جاننا ۔ اب ہم دیکھیں کہ انقلاب اسلامی کن لوگوں کے ذریعے ممکن ہوا ، کس نے مدد کی اور اپنا خون دیا اور اب اپنے دل بھی جلاتے ہیں ۔ دیندار اور نماز پڑھنے والے افراد ، با حجاب اور پاک دامن خواتین اور حلال و طیب کھا کر اپنے آپ کو قربان کرنے والے جوانان ۔
2۔ انقلاب اسلامی کے دشمنان ، اسے خراب کرنے والے اور فتنہ و فساد پیدا کرنے والوں کا پہچاننا ۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے دوران اس کے خاندان والوں نے کئی ملین ڈالر کھائے اور اب تک واپس نہیں کیے اور عیش و عشرت کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ جو منافقین دشمنوں کے ساتھ ہیں یا جو جنگ تحمیلی میں صدام کے جاسوس بنے تھے اور دشمنوں کی خدمت گذاری کی تھی اور سب سے بڑھ کر جہان استکبار کہ جس میں سرفہرست امریکہ ہے ، ان تمام کو پہچاننا ۔
3۔ پہچاننے کے راستوں میں سے ایک اور راستہ یہ ہے کہ انسان کسی کام کا نتیجہ دیکھے ۔ یعنی اگر کسی تحریک کے نتائج اچھے ہوں تو ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ حقانیت رکھتا ہے ۔ ہم انقلاب اسلامی کے بارے میں دیکھیں کہ اس کے کیا نتائج ملے ۔ ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ اس سے اچھا نہیں ہو سکتا ، یا یہ کہ اس میں نقاط ضعف نہیں ہیں ، یا یہ کہ ہمارے مسئولان یا عہدیداران میں کوئی عیب دار نہیں ہیں اور یہ کہ اس میں کچھ بھی ظلم نہیں ہوا ہے ۔ لیکن پھر بھی مثبت نگاہ سے دیکھیں اور 41 سالہ انقلاب اسلامی کے داخلی اور عالمی سطح پر نتائج دیکھیں تو یہ کہ اس میں استقلال آزادی ، اقتصادی ، مادی اور معنوی لحاظ سے ترقی استکبار کو مٹانا اور مظلومین کی حمایت کرنا شامل ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ اس میں جو کمی ہو اسے دور کرنے کی کوشش کریں ۔
مثال کے طور پر ہم نے جہاں بھی جدت سے کام لیا تو کامیاب ہوئے ۔ جب بھی کہا کہ ہم کر سکتے ہیں کہ خائنین کے ساتھ سخت بر خورد کریں اور شجاعت سے کام لیں تو ہم نے دیکھا کہ داخلی اور بیرون دشمنوں کو پیچھے ہٹایا ۔ لیکن جب جب ہم ڈرے یا چاہا کہ دشمنوں سے مدد لیں تو دشمنان نے مدد کی بجائے ہم پر حملہ کیا ۔ ان شیاطین کی مثال صحرائی کتوں یا ان جانوروں کی مانند ہے کہ اگر تم ان پر حملہ آور ہوئے تو دور بھاگ جائیں گے لیکن اگر تم اس سے ڈر گئے اور فرار اختیار کی تو وہ بہادر ہو کر آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور نقصان دیتے ہیں ۔
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعٰالی ہمیں تمام امتحانوں ، میدانوں اور اجتماعی زندگی میں کامیاب کریں ۔ آمین ۔
خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق اور خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری و مصائب ہو آلام پر صبر جمیل عطا فرمائیں ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
|