خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ربِّ العالمين نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين سيّما بقيّة الله في الأرضين وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين
اما بعد اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
و بعد از این
قرآن کریم کثیر مقدار میں توحید بیان کرنے کے بعد مسئلہ میعاد (وقت مقرر) اور موت کے بعد کے عالم کو مفصل بیان کیاگیا ہے ۔ موت کو یاد کرنے سے انسان کے لیے بہترین تربیت کرنے کے آثار ملتے ہیں ۔ قرآن و احادیث کی رو سے دنیاوی زندگی سے محبت وہ عمل ہے جس سے انسان اللہ تعالی و قیامت کو بھولتا جاتا ہے اور گناہ کی طرف چلا جاتا ہے ۔ دنیا کی محبت تمام غلطیوں و گناہوں کا سرچشمہ ہے لیکن اس کے برعکس موت و قیامت کو یاد کرنا گناہ سے دوری اور عوامر الہٰی کو انجام دینے کے لیے بہترین عامل ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روایت میں فرماتے ہیں :
ہوشیار یا سمجھدار انسان وہ ہے جو سب سے بڑھ کر موت کے لیے تیار رہتا ہو ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر غفاری ؒ سے فرمایا :
ہوشیار یا سمجھدار مومن وہ ہے جو اکثر موت کو یاد رکھتا ہو اور اس کے لیے تیار رہتا ہو ۔
موت کو یاد رکھنے کے کچھ اثرات یوں ہیں :
1۔ انسان کی آرزوئیں ختم ہو جاتی ہیں ۔
2۔ انسان کی رفتار اور برخورد (فرمانبرداری) کی اصلاح ہوتی ہے ۔
3۔ اچھے اور صالح عمل کو انجام دینے اور برے عمل کو ترک کرنے لگتا ہے ۔
4۔ زندگی میں راحت پانا کیونکہ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن اور آرام پا لیتا ہے ۔
5۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کے بار ے میں اللہ تعٰالی نے بھی خبر دی ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے ۔
سورۃ الانبیاء ، آیت 35 میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ہر ذی روح موت کے مزے کو چکھے گا اور تمہارا اچھائی اور برائی کے ذریعے امتحان لیا جائے گا اور پھر تم میری طرف واپس آجائو گے ۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْـرِ فِتْنَةً ۖ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ
ہر ایک جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے ، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی سے آزمانے کے لیے جانچتے ہیں ، اور ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
اسی طرح سورۃ النساء ، آیت 78 میں اشارہ ہے :
اَيْنَمَا تَکُـوْنُوْا يُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُـمْ فِىْ بُـرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَاِنْ تُصِبْـهُـمْ حَسَنَـةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ ۖ وَاِنْ تُصِبْـهُـمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِکَ ۚ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّـٰهِ ۖ فَمَالِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا يَکَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا
تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو، اور اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے ، کہہ دو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں فرشتہ اجل عزرائیل علیہ السلام ایک شخص پر ظاہر ہوا جس سے وہ بہت ڈر گیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا اور تقاضہ کیا کہ اسے یہاں سے دور سرزمین ہندوستان پر پہنچا دیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوائوں کو حکم دیا اور ہوائیں اسے ہندوستان لے گئیں ۔ جب یہ شخص وہاں پہنچا تو اسی ملک الموت کو موجود پایا ۔ اس شخص نے پوچھا کہ اے مخلوق خدا تم کون ہو کیونکہ تم سے ڈر کر اور تمہاری وجہ سے ہی میں یہاں آیا ہوں ۔ اس پر فرشتہ اجل نے اپنا تعارف کرویا اور کہا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہاری روح ہندوستان میں قبض کروں ، لیکن جب میں تمہارے پاس پہنچا تو تم حضرت سلیمان علیہ السلام کے وطن میں تھے اور تم نے خود ہی اپنے آپ کو یہاں پہنچایا ، بس اب تمہارا وقت آن پہنچا ہے اور یوں اس کی روح قبض کر لی گئی ۔
موت یہ ہرگز نہیں کہ ہم فنا ہو جائیں گے یا ختم ہو جائیں گے ، بلکہ موت ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کی منزل ہے ، پس سوار وہی رہتا ہے لیکن سواری بدل جاتی ہے ۔ روایات میں بھی موت کو یاد کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے بستر شہادت پر جنادہ بن امیہ سے فرمایا : اخروی سفر کے لیے تیار رہو اور زاد راہ بھی پہلے سے تیار رکھو ۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا : میں تم لوگوں کو موت کو یاد رکھنے کی تاکید کرتا ہوں اور اس سے غافل نہ رہنے کی ہدایت کرتا ہوں ۔ تم لوگ اس شے سے کیسے غافل رہ سکتے ہو جو تم سے غافل نہیں ہے ۔ ایک اور روایت میں دشمن کی تعریف کے بارے میں بھی یہی فرمایا : جب تک تمہارا دشمن بیدار ہے تو تم کیسے سو سکتے ہو ۔ چہ جائیکہ موت دشمن نہیں بلکہ سنت الہٰی ہے لیکن اس کے لیے تیاری ضروری ہے ۔
موت کو دو نظریوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، ایک صحیح اور دوسرا غلط ۔
غلط یہ کہ ، سورۃ الجاثیہ ، آیت 24 میں اشارہ ہوا :
وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الـدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِکُنَآ اِلَّا الـدَّهْرُ ۚ وَمَا لَـهُـمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۖ اِنْ هُـمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ
اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے ، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں ، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں ۔
یہاں موت کی مراد نابودی سے لی گئی ہے اور اسی وجہ سے لوگ موت سے ڈرتے ہیں ۔
پھر کہتے ہیں کہ :
اِنَّ الَّـذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَـآءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّـوْا بِـهَا وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَنْ اٰيَاتِنَا غَافِلُوْنَ (7) اُولٰٓئِکَ مَاْوَاهُـمُ النَّارُ بِمَا کَانُـوْا يَکْسِبُوْنَ (8)
البتہ جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر خوش ہوئے اور اسی پر مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔ ان کا ٹھکانا آگ ہے بسبب اس کے جو کرتے تھے ۔
(سورۃ یونس ، آیات 7 ، 8)
صحیح نظریہ تو یہ ہے کہ اس جہان کو توحید کی نگاہ سے دیکھا جائے اور موت کو واقعی یعنی ابدی زندگی سمجھیں اور اسی وجہ سے صالح لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس دنیا سے بہترین فائدہ اٹھائیں ۔
سورۃ العنکبوت ، آیت 24 میں فرماتے ہیں :
فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِهٓ ٖ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجَاهُ اللّـٰهُ مِنَ النَّارِ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِکَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُـوْنَ
پھر اس کی قوم کا اس کے سوا اور کوئی جواب نہ تھا کہ اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو پھر اللہ نے اسے آگ سے نجات دی ، بے شک اس میں ان کے لیے نشانیاں ہیں جو ایماندار ہیں ۔
خدا اور قیامت سے غفلت سب بشر کی مشکل ہے یعنی سب اس سے غافل رہتے ہیں ۔ دنیا کی ذریت (آسائشیں و آل اولاد) اور اس کا نقد ہونا (نفیس ہونا) غفلت کا باعث بنتا ہے ۔ میعاد (وقت مقرر) کے بارے میں بھی یہی ہے کہ ہم قیامت کو بھول جاتے ہیں ۔ اسی لیے دین نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بار بار موت کو یاد رکھیں ۔ اسی لیے فرمان و احادیث رسول بھی کہتی ہیں کہ تم اموات ، جنازے اور قبرستان کے اعمال میں شرکت کیا کرو ۔ قرآن میں بھی بار بار اس کا ذکر ملتا ہے :
اَفَحَسِبْتُـمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ
سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں نکما پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤ گے ۔
اسی طرح قرآن کریم میں اکثر مقامات پر موت کا ذکر ہے جیسے سورۃ رحمٰن و سورۃ یٰسین وغیرہ ۔
امام علی علیہ السلام مذمت دنیا کے بارے میں فرماتے ہین جو نہج البلاغہ خطبہ 113 میں موجود ہے :
وأُحَذِّرُکُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ - ولَيْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ - قَدْ تَزَيَّنَتْ بِغُرُورِهَا - وغَرَّتْ بِزِينَتِهَا - دَارُهَا هَانَتْ عَلَى رَبِّهَا فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا - وخَيْرَهَا بِشَرِّهَا وحَيَاتَهَا بِمَوْتِهَا وحُلْوَهَا بِمُرِّهَا لَمْ يُصْفِهَا اللَّه تَعَالَى لأَوْلِيَائِه - ولَمْ يَضِنَّ بِهَا عَلَى أَعْدَائِه – خَيْرُهَا زَهِيدٌ وشَرُّهَا عَتِيدٌ - وجَمْعُهَا يَنْفَدُ ومُلْکُهَا يُسْلَبُ وعَامِرُهَا يَخْرَبُ - فَمَا خَيْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَاءِ - وعُمُرٍ يَفْنَى فِيهَا فَنَاءَ الزَّادِ - ومُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّيْرِ - اجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْکُمْ مِنْ طَلَبِکُمْ واسْأَلُوه مِنْ أَدَاءِ حَقِّه مَا سَأَلَکُمْ.وأَسْمِعُوا دَعْوَةَ الْمَوْتِ - آذَانَکُمْ قَبْلَ أَنْ يُدْعَى بِکُمْ - إِنَّ الزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا تَبْکِي قُلُوبُهُمْ وإِنْ ضَحِکُوا - ويَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وإِنْ فَرِحُوا - ويَکْثُرُ مَقْتُهُمْ أَنْفُسَهُمْ وإِنِ اغْتَبَطُوا بِمَا رُزِقُوا - قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوبِکُمْ ذِکْرُ الآجَالِ - وحَضَرَتْکُمْ کَوَاذِبُ الآمَالِ - فَصَارَتِ الدُّنْيَا أَمْلَکَ بِکُمْ مِنَ الآخِرَةِ - والْعَاجِلَةُ أَذْهَبَ بِکُمْ مِنَ الآجِلَةِ - وإِنَّمَا أَنْتُمْ إِخْوَانٌ عَلَى دِينِ اللَّه - مَا فَرَّقَ بَيْنَکُمْ إِلَّا خُبْثُ السَّرَائِرِ - وسُوءُ الضَّمَائِرِ - فَلَا تَوَازَرُونَ ولَا تَنَاصَحُونَ - ولَا تَبَاذَلُونَ ولَا تَوَادُّونَ - مَا بَالُکُمْ تَفْرَحُونَ بِالْيَسِيرِ مِنَ الدُّنْيَا تُدْرِکُونَه ولَا يَحْزُنُکُمُ الْکَثِيرُ مِنَ الآخِرَةِ تُحْرَمُونَه -
میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے ۔ آب و دانہ کی منزل نہیں ہے ۔ یہ اپنے دھوکہ ہی سے آراستہ ہو گئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھوکہ دیتی ہے ۔ اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام خیر کے ساتھ شر ' زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے ۔ اور نہ اس نے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کواس سے محروم رکھا ہے ۔ اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے ۔ اس کاجمع کیا ہوا ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کوایک دن خراب ہو جانا ہے ۔ بھلا اس گھرمیں کیا خوبی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں کیا بھلائی ہے جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوراس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہو جائے ۔ دیکھو اپنے مطلوبہ امورمیں فرائض الہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو ۔ اپنے کانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلا لیا جائے ۔ دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیںتوان کا دل روتا رہتا ہے ۔ اوروہ ہنستے بھی ہیں توان کا رنج و اندوہ شدید ہوتا ہے ۔ وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔ افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اورجھوٹی امیدوں نے ان پرقبضہ کرلیا ہے ۔ اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپرآخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔ تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے ۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کر دیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو ۔ نہ نصیحت کرتے ہو ۔ نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اورنہ ایک دوسرے سے واقعاً محبت کرتے ہو ۔ آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پا کرخوش ہو جاتے ہو ۔ اور مکمل آخرت سے محروم ہو کر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔
سورۃ طہ کی آیات 124 ، 125 ، 126 بھی اسی ضمن میں بیان کرتی ہیں :
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى (124) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىٓ اَعْمٰى وَقَدْ کُنْتُ بَصِيْـرًا (125) قَالَ کَذٰلِکَ اَتَـتْکَ اٰيَاتُنَا فَـنَسِيْتَـهَا ۖ وَکَذٰلِکَ الْيَوْمَ تُنْسٰى (126)
اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہو گی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا ۔ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا ، اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے ۔
آخرت کو یاد کرنے سے انسان مخلص بن جاتا ہے ، جیسا کہ سورۃ سورۃ ص آیت 45 ، 47 میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَاذْکُرْ عِبَادَنَـآ اِبْـرَاهِيْـمَ وَاِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ اُولِـى الْاَيْدِىْ وَالْاَبْصَارِ (45) اِنَّـآ اَخْلَصْنَاهُـمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْـرَى الـدَّارِ (46) وَاِنَّـهُـمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْاَخْيَارِ (47)
اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے ۔ بے شک ہم نے انہیں ایک خاص فضیلت دی یعنی ذکر آخرت کے لیے چن لیا تھا ۔ اور بے شک وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ بندوں میں سے تھے ۔
پس جس کی نگاہ آخرت پر ہو اس کی دنیا فقط خدا کی اطاعت ، لوگوں کی خدمت اور امور میں بصیرت بن جاتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، موت کو یاد کرنا دنیا کی طرف بے توجہی ہے ۔ بہترین عبادت موت کو یاد کرنا ہے اور جس نے موت کو یاد رکھا تو گویا اس نے اپنے آپ کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنایا ۔
امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں :
سَیِّدِی ٲَخْرِجْ حُبَّ الدُّنْیا مِنْ قَلْبِی وَاجْمَعْ بَیْنِی وَبَیْنَ الْمُصْطَفی وَآلِہِ خِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ وَخاتَمِ النَّبِیِّینَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ، وَانْقُلْنِی إلی دَرَجَۃِ التَّوْبَۃِ إلَیْکَ، وَٲَعِنِّی بِالْبُکائِ عَلَی نَفْسِی فَقَدْ ٲَفْنَیْتُ بِالتَّسْوِیفِ وَالاَْمالِ عُمْرِی، وَقَدْ نَزَلْتُ مَنْزِلَۃَ الاَْیِسِینَ مِنْ خَیْرِی فَمَنْ یَکُونُ ٲَسْوَٲَ حالاً مِنِّی إنْ ٲَنَا نُقِلْتُ عَلَی مِثْلِ حالِی إلی قَبْرٍ لَمْ ٲُمَہِّدْھُ لِرَقْدَتِی، وَلَمْ ٲَ فْرُشْہُ بِالْعَمَلِ الصَّالِحِ لِضَجْعَتِی وَمَا لِی لاَ ٲَبْکِی وَلاَ ٲَدْرِی إلی مَا یَکُونُ مَصِیرِی، وَٲَری نَفْسِی تُخادِعُنِی، وَٲَیَّامِی تُخاتِلُنِی وَقَدْ خَفَقَتْ عِنْدَ رَٲْسِی ٲَجْنِحَۃُ الْمَوْتِ فَما لِی لاَ ٲَبْکِی ٲَبْکِی لِخُرُوجِ نَفْسِی، ٲَبْکِی لِظُلْمَۃِ قَبْرِی، ٲَبْکِی لِضِیقِ لَحْدِی، ٲَبْکِی لِسُؤالِ مُنْکَرٍ وَنَکِیرٍ إیَّایَ، ٲَبْکِی لِخُرُوجِی مِنْ قَبْرِی عُرْیاناً ذَلِیلاً حامِلاً ثِقْلِی عَلَی ظَھْرِی ٲَ نْظُرُ مَرَّۃً عَنْ یَمِینِی وَٲُخْری عَنْ شِمالِی إذِ الْخَلائِقُ فِی شَٲْنٍ غَیْرِ شَٲْنِی، لِکُلِّ امْرِیٍَ مِنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَٲْنٌ یُغْنِیہِ، وُجُوہٌ یَوْمَیِذٍ مُسْفِرَۃٌ ضاحِکَۃٌ مُسْتَبْشِرَۃٌ، وَوُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ عَلَیْہا غَبَرَۃٌ تَرْھَقُہا قَتَرَۃٌ وَذِلَّۃٌ، سَیِّدِی عَلَیْکَ مُعَوَّلِی وَمُعْتَمَدِی وَرَجائِی وَتَوَکُّلِی، وَبِرَحْمَتِکَ تَعَلُّقِی
میرے آقا ! میرے دل سے دنیا کی محبت نکال دے اور مجھے اپنی مخلوق میں سب سے بہتر نبیوں کے خاتم محمد مصطفی اور ان کی آل(ع) کے قرب میں جگہ عنایت فرما اور مجھے اپنے حضور توبہ کے مقام کی طرف پلٹا دے اور مجھے خود اپنے آپ پر رونے کی توفیق دے کیونکہ میں نے اپنی عمر ٹال مٹول اور جھوٹی آرزوؤں میں گنوا دی اور اب میں اپنی بہبودی سے مایوس ہو جانے کو ہوں تو مجھ سے برا حال اور کس کا ہوگااگر میں اسی حال کے ساتھ ہی اپنی قبر میں اتار دیا جاؤں جب کہ میں نے قبر کیلئے کچھ سامان نہیں کیا اور نیک اعمال کا بستر نہیں بچھایا کہ آرام پاؤں ایسے میں کیوں زاری نہ کروں کہ مجھے نہیں معلوم میرا نجام کیا ہوگا میں دیکھتا ہوں کہ نفس مجھے دھوکہ دیتا ہے اور حالات مجھے فریب دیتے ہیں اور اب موت نے میرے سر پر اپنے پر آن پھیلائے ہیں تو کیسے گریہ نہ کروں میں جان کے نکل جانے پر گریہ کرتا ہوں قبر کی تاریکی اور اس کے پہلو کی تنگی پر گریہ کرتا ہوں منکر نکیر کے سوالات کے ڈر سے گریہ کرتا ہوں خاص کر اس لئے گریہ کرتا ہوں کہ مجھے قبر سے اٹھنا ہے کہ عریانی وخواری کے ساتھ اپنے گناہوں کا بار لئے ہوئے دائیں بائیں دیکھوں گا جب دوسرے لوگ ایسے حال میں ہوں گے جو میرے حال سے مختلف ہوگا ان میں سے ہر شخص دوسروں سے بے خبر اپنے حال میں مگن ہوگا اس روز بعض چہرے کشادہ خنداں اور خوش ہوں گے اور بعض چہرے ایسے ہوں گے جن پر گرد و غبار اور تنگی و ذلت کا غلبہ ہوگا میرے سردار تو ہی میرا سہارا ہے تو ہی میری ٹیک ہے تو ہی میری امید گاہ ہے تجھی پر مجھے بھروسہ ہے اور تیری رحمت سے تعلق ہے ۔
موت کو یاد رکھنے سے دل زندہ ہوتا ہے اور خود موت بھی آسان ہوتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : موت کو زیادہ یاد رکھو کیونکہ اگر کسی نے موت کو یاد رکھا تو اللہ تعٰالی نے اس کا دل زندہ رکھا اور اس کی موت کو آسان بنا دیا ۔
موت کو یاد رکھنے سے اخلاقی خباثت ختم ہو جاتا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : موت کو یاد رکھنے سے خواہشات نفسانی مر جاتی ہیں ، غفلت کی جڑیں کٹ جاتی ہیں ، قلب کو اللہ تعٰالی کے وعدوں کے مطابق تقویت ملتی ہے ، طبیعت کو نازک بنا دیتا ہے ، حوس کو ختم کرتا ہے ، حرص کی آگ خاموش ہو جاتی ہے اور دنیا اس کی نظر میں حقیر رہ جاتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا بھی یہی معنی ہے کہ ایک لمحہ کی عبادت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔
موت کو یاد رکھنے سے بڑی بڑی آرزوں کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر انسان اپنے اختتام کو دیکھ لے تو بڑی بڑی خواہشات کو ترک کر دے ۔
اچھا کام انجام دینا اور مخلص ہونا بھی موت اور قیامت کو یاد کرنے کے ساتھ ممکن ہے ۔
جیسا کہ سورۃ الانسان کی آیات 8 سے 10 تک :
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْکِـيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْـرًا (8) اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّـٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُـوْرًا (9) اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْـرًا (10)
اور وہ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم جو تمہیں کھلاتے ہیں تو خاص اللہ کے لیے ، نہ ہمیں تم سے بدلہ لینا مقصود ہے اور نہ شکرگزاری ۔ ہم تو اپنے رب سے ایک اداس (اور) ہولناک دن سے ڈرتے ہیں ۔
اگر کسی کو موت یاد ہو تو دوسروں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اگر قیامت کا گمان بھی ہو تب بھی لوگوں پر ظلم نہ کرے ۔
سورۃ المطففین کی آیات 1 سے 6 میں فرماتے ہیں :
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ (1) اَلَّـذِيْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ (2) وَاِذَا کَالُوْهُـمْ اَوْ وَّزَنُـوْهُـمْ يُخْسِرُوْنَ (3) اَلَا يَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّـهُـمْ مَّبْعُوْثُوْنَ (4) لِيَوْمٍ عَظِـيْمٍ (5) يَوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (6)
کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے ۔ وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیں تو پورا کریں ۔ اور جب ان کو ماپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں ۔ کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اٹھائے جائیں گے ۔ اس بڑے دن کے لیے ۔ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
نمونے کے طور پر تاریخ میں موت کو یاد رکھنے کا ایک واقعہ اس طرح نقل ہوا ، جو علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب مروج الذہب میں مسعودی سے نقل کیا ہے :
کسی نے امام ہادی علیہ السلام کے بارے میں متوکل عباسی کو خبر دی کہ امام علیہ السلام اسلحہ بنا رہے ہیں اور اس ارادہ سے کہ تم سے بغاوت کریں ۔ متوکل عباسی نے کچھ افراد کو امام علیہ السلام کے گھر تلاشی کے لیے بھیجا ، جب وہ پہنچے تو دیکھا کہ امام علیہ السلام مصلیٰ عبادت پر نماز و دعا و تعقیبات میں مشغول ہیں ۔ وہ امام کو گرفتار کر کے متوکل کے پاس لے گئے ، متوکل نے آپ کے سامنے شراب رکھی تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ میں گوشت نہیں کھاتا اور خون نہیں پیتا ۔ اس پر متوکل نے کہا کہ میرے لیے شعر پڑھیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ میں عموماً شعر نہیں کہتا لیکن آج پڑھ لیتا ہوں ۔
" گردن کاٹنے والوں نے پہاڑ پر بنے قلعے میں رات کو دن بنا دیا جبکہ وہاں کے فوجی اس کی حفاظت کر رہے تھے ، لیکن اس قلعے نے ان لوگوں کو موت کے خطرے سے نہیں بچایا اور وہ کچھ عرصے بعد اپنی عزت اور عمل کے مقام سے نیچے گرائے گئے اور ان کا مقام مقتل گاہ رہا ، یہ کتنی ناپسندیدہ منزل تھی ۔ جب ان کو دفن کیا گیا تو کسی فریادی نے فریاد کی کہ کہاں ہے وہ سونے کے کڑے ، تاج و تخت ، فخر سے بھرا لباس اور کہاں ہیں وہ چہرے کہ جن کے احترام کے لیے پردے لگائے جاتے تھے ۔
قبر نے ان کی جگہ جواب دیا : کہ ابھی ان کے سروں پر کیڑے ہیں ، ان لوگوں نے بہت عرصہ دنیا میں کھایا پیا لیکن ایک مدت کے بعد خود خوارک بن گئے "
اس دوران جب امام علیہ اسلام اشعار پڑھ رہے تھے ، سب لوگ رو پڑے اور شراب کی محفل سوگ میں تبدیل ہو گئی اور جام گرا دیے گئے ۔ متوکل عباسی بھی اتنا رویا کہ اس کے آنسووں سے اس کا چہرہ گیلا ہو گیا اور حکم دیا کہ امام علیہ السلام کو احترام سے گھر لے جائیں ۔
خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت فقیہ کے پیروکاران و محافظین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خطبہ دوم
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
اولاً ! ہم شکریہ ادا کرتے ہیں عراقی عوام اور مراجع و مجتہدین عظام کا کہ جنہوں نے سردار شہید قاسم سلیمانی ، ابو مہدی المہندس و ہمراہان کا بہترین انداز میں خیر مقدم اور اظہار وفا کیا اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور دشمنان سے بیزاری و دوری و نفرت کا اظہار کیا ۔
ثانیاً ! کل سے ایام اللہ دہ ہائے فجر انقلاب اسلامی ایران شروع ہو رہے ہیں ، یعنی وہ دس دن جن میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی ایران کی 42 ویں سالگرہ منائی جائے گی ۔ باوجودیکہ کہ دشمنان کہتے تھے کہ یہ انقلاب چند دنوں ، مہینوں یا سالوں میں ختم ہو جائے گا لیکن یہ آج بھی زندہ و پائندہ ہے ۔ انقلاب اسلامی کے کئی فوائد تھے کہ جن کی بدولت بابصیرت و اہل علم اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔ دہ ہائے فجر یعنی دس دن امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے ایران میں واپس آنے سے شروع ہوتے ہیں ۔ لہٰذا امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بارے میں کچھ نقطے عرض کرنا چاہتا ہوں :
امام راحل دین کو بہترین انداز سے پہچانتے تھے اور چاہتے تھے کہ دین بہترین انداز و طور طریقوں سے رائج ہو جائے ۔ اسی لیے امام راحل کے افکار اور فتوے اسی زمانے کے لیے ہیں ۔ شہید باقر الصدر ؒ نے امام راحل کے بارے میں فرمایا : جتنا امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اسلام کو سمجھا ہے تم لوگ اتنا ہی امام کو سمجھو اور امام کی پیروی کرو ۔ جس طرح امام مبلغ اسلام ہیں اسی طرح تم بھی امام کے افکار کے مبلغ بن جائو اور امام کے فرماںبردار رہو ۔ اسی لیے آپ سے گذارش ہے کہ امام کے سیاسی وصیت نامے کو بغور پڑہیں جو تقریباً ہر زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
اگر انسان کسی راہ پر ایمان رکھتا ہے تو پھر اس پر شک نہیں کرتا بلکہ پوری قدرت کے ساتھ اس راہ میں آگے بڑھتا ہے ۔ پس تب وہ شیاطین و وسوسہ ڈالنے والوں کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے اور اللہ تعٰالی بھی اس کی مدد کرتا ہے ۔ جب شہید مرتضیٰ مطہری ؒ اپنے 57 ویں سال امام راحل سے ملاقات کے بعد واپس آئے تو کہا میں اس (امام راحل) کے رب ، اس کے راستے اور ہدف پر ایمان رکھتا ہوں ۔
تیسرا ! یہ کہ 2 دن پہلے شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نسبت تسلیت پیش کرتا ہوں اور آپ تمام سے تقاضہ کرتا ہوں کہ آپ حیات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے نصیحت لیں ۔ یہ وہ بی بی ہیں جو صاحب نفس ، راضیہ و مرضیہ ہیں ۔ وہ ناں صرف خواتین کے لیے بلکہ مردوں کے لیے بھی نمونہ عمل ہیں کیونکہ جب کوئی اللہ تعٰالی کی حجتوں پر حجت ہو اور حتیٰ آئمہ طاہرین علیہ السلام کے لیے بھی نمونہ ہو تو وہ دیگر کے لیے قیامت تک نمونہ ہوتا ہے ۔ وہ خواتین کے لئے پاک دامنی اور عبادت گزاروں کے لئے عبادت ، انقلابی لوگوں کے لیے مقابلہ ، ماؤں کیلئے ماں بننے ، بیویوں کے لیے بہترین بیوی ہونے اور امامت و ولایت کی حمایت کرنے والوں کے لیے جان نثاری کا بہترین نمونہ ہیں ۔
خدا سے گذارش ہے کہ وہ ہمیں بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے بہترین شیعوں و پیروی کرنے والوں اور سچوں میں شمار کرے ۔
عالم عرض ہے اور فاطمہ اس کی گوہر ہے
یہ دنیا عرض ہے اور فاطمہ اس کی گوہر ہے
آپ کی فضیلت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ
نبی احمد اس کے باپ اور علی اس کا شوہر ہے
خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق اور خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری و مصائب ہو آلام پر صبر جمیل عطا فرمائیں ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
|