خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ربِّ العالمين نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين سيّما بقيّة الله في الأرضين وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين
اما بعد اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
و بعد از این
چاہتا ہوں کہ گذشتہ جمعے کی وساطت سے آج کے خطبے میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر گفگتو کروں اور مزید سنتیں بیان کروں تاکہ یہ ہم سب کے لیے نمونہ عمل بنیں اور اہم اپنی زندگیوں کو ان کے مطابق گزاریں ۔
21: سنت
موسٰی ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ : لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس راستے سے کہیں تشریف لے جاتے تو واپسی اس راستے سے واپس نہیں آتے تھے بلکہ دوسرا راستہ اختیار کرتے تھے ، کیا یہ سچ ہے ؟ امام علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ ہاں میں بھی اکثر ایسا ہی کرتا ہوں اور تم بھی ایسا ہی کرو ۔ موسیٰ بن عمر کہتے ہیں کہ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ : یہ کام روزی و رزق کے زیادہ ہونے کا سبب بنتا ہے ۔ ہر کام کے حل ہو جانے یا انجام دہی کے بہت سارے راستے ہوتے ہیں ، پس چاہیے کہ سب راستوں کو آزمائیں اور تجربہ کے بعد ان میں سے جو بہتر راستہ ثابت ہوجائے اس کا انتخاب کیا جائے ۔
قرآن میں واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام میں ملتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں سے کہا کہ جب شہر کے قریب پہنچو تو تم سب مختلف دروازوں سے داخل ہو جاؤ اور ایک ہی دروازے سے مت جاؤ ۔ بس یہ بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے ۔
22: سنت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنے علم و عقل کی سطح یا درجہ پر رہ کر لوگوں سے بات نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ ہم سب پیغمبران کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے درجے یا سطح کے مطابق بات کریں ۔
اسی طرح فرمایا کہ : جس طرح اللہ تعٰالی نے مجھے حکم دیا کہ میں واجبات کو انجام دوں اسی طرح یہ بھی حکم دیا کہ میں لوگوں کے ساتھ ان کے جیسا بن کر رہوں ۔ یعنی جس سطح یا درجہ پر وہ ہوں ویسا ہی مدارا (خاطر تواضع یا برتائو) کروں ۔
23: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حد درجہ اللہ تبارک و تعٰالی کی بارگاہ میں طلب کرتے تھے کہ اللہ تعٰالی ان (خود) کے لیے بہترین اخلاق مقدر فرمائے ، اچھا اخلاق دے اور برے اخلاق سے دور رکھے ۔ قرآن کریم میں اسی طرف اشارہ ہے کہ : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تمہیں بہترین پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔
24: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکلف نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعٰالی نے ہم انبیاء ، امین اور متقی لوگوں کو تکلف سے دور کیا ہے ۔ پس ہمیں چاہیے کہ میزبانی یا مہمانی کے وقت تکلف نہ کیا کریں اور یہی سنت محمدی ہے ۔
25: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امانتیں واپس کیا کرتے تھے چاہے وہ سوئی اور دھاگہ ہی کیوں نہ ہوں ۔
26: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک کسی جگہ یا مقام سے حرکت نہ کرتے جب تک دو رکعت نماز ادا نہ کرتے ، فرماتے تھے کہ قیامت کے دن یہ جگہ میرے نماز پڑھنے کی گواہی دے گی ۔
27: سنت
ہمیں چاہیے کہ جب کبھی مساجد یا محافل میں واجبات یا اعمال کی انجام دہی ہو تو لوگوں کے اعمال کی قبولیت کے لیے دعا کریں ۔ جب حجاج حج سے واپس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ملتے اور دعا فرماتے کہ خدا تمہارے اعمال اور حج کو قبول کرے ، گناہوں کو بخش دے اور اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کیا ہے وہ واپس پلٹا دے ۔ پس ہم کسی بھی اعمال کے بعد تقبل اللہ کہتے ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعٰالی تمہارے اعمال قبول کرے ۔ پس یہ سنت محمدی ہے ۔
28: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ لوگوں کو اچھے فال (پیش گوئی) بتاتے تھے اور برے فال نکالنے سے منع کرتے تھے ۔
29: سنت
جب اصحاب ملاقات کو آتے تو یوں کہتے کہ صبح بخیر یا شب بخیر ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے مت کہو ، اللہ تعالی نے اس سے بہتر عمل دیا ہے ، وہ یہ کہ جب بھی کسی سے ملنے جائیں تو کہیں السلام علیکم ۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہمیں ہر جگہ ، ہر عمل میں اسلامی و قرآنی ادب و عقل کو اپنانا چاہیے ۔
30: سنت
جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیٹی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو فرماتے کہ یہ پھول ہے اور اس کا رزق اللہ پر ہے ۔
سورۃ النحل کی آیات 58 ، 59 کفار کی نظر میں بیٹیوں کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔
وَاِذَا بُشِّـرَ اَحَدُهُـمْ بِالْاُنْـثٰى ظَلَّ وَجْهُهٝ مُسْوَدًّا وَّهُوَ کَظِيْـمٌ (58) يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوٓءِ مَا بُشِّـرَ بِهٖ ۚ اَيُمْسِکُـهٝ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٝ فِى التُّـرَابِ ۗ اَلَا سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَ (59)
اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے ۔ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے ، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے ، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں ۔
31: سنت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحرا نشینوں کے صدقات و خیرات صحرا نشینوں میں اور شہر والوں کے صدقات و خیرات کو شہر والوں میں ہی تقسیم کیا کرتے تھے ۔
32: سنت
سنت محمدی ہے کہ مونچھوں کو اتنا چھوٹا کریں کہ ہونٹ واضح / ظاہر ہو جائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے تھے کہ مجوسی اور زرتشت (آتش پرست) اپنی ڈاڑھیوں کو منڈواتے ہیں اور مونچھوں کو بڑا بڑا چھوڑ دیتے ہیں ۔ لیکن ہم مسلمانوں کے لیے ایسا نہیں ہے ، ہمیں چاہیے کہ مونچھوں کو چھوٹا کریں اور ڈاڑھی نہ منڈوائیں ۔
خداوند متعٰال ہم سبھی کو انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت فقیہ کے پیروکاران و محافظین بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خطبہ دوم
والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّد بن علىّ و جعفر بن محمّد و موسى بن جعفر و علىّ بن موسى و محمّد بن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین
اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
اس خطبے میں انسان پر حقوق اللہ کے بارے میں گفتگو کریں گے ۔
حقوق اللہ میں سے ایک پر خانہ خدا کی زیارت یعنی حج بیت اللہ ہے جو پوری زندگی میں ایک مرتبہ اس انسان پر واجب ہو جاتا ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو اور اسی کے طفیل مسلمانوں کو روز قیامت غیر مسلموں سے امتیاز رہے گا ۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی حج کا مستطیع یعنی اس کی انجام دہی کی استطاعت رکھتا ہو اور انجام نہ دے تو وہ قیامت میں یہودیوں کے ساتھ محشور ہو گا ۔
میں آپ سے یہ بات اس وقت اس لیے کر رہا ہوں کہ اگر کوئی حج پر جانا چاہتا ہے تو یہ بہتر وقت ہے اس کی تیاری کا اور اگر ابھی سے شروع نہ کرے تو نہیں پہنچ پائے گا ، کیونکہ ویزہ اور ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے اور بہت سارے معاملات ہیں ۔
سورۃ المائدہ ، آیت 97 میں ارشاد باری تعٰالی ہے :
جَعَلَ اللّـٰهُ الْکَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْـهَدْىَ وَالْقَلَآئِدَ ۚ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّـٰهَ بِکُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ
اللہ نے کعبہ کو جو کہ بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں، یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ کو معلوم ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے ۔
یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعٰالی نے خانہ کعبہ کو امت اسلامی کے قیام (نشونما ، پھلنا پھولنا یا ترقی) کے برابر سمجھا ہے ۔ لوگوں کو خانہ خدا میں جمع ہونا چاہیے ، مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کو حل کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو مدد فراہم کریں حتیٰ ایک دوسرے کے اقتصادی منافع کو پورا کریں ۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الحج ، آیت 27 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہیں :
وَاَذِّنْ فِى النَّاسِ بِالْحَـجِّ يَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰى کُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَمِيْقٍ
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ایک مشترک اقتصادی اسلامی بازار بنائیں جو سب مسلمان ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ۔ ہمیں حج جیسے مقدس و مفید موقع سے معنوی ، مادی ، سیاسی و اجتماعی فائدے اٹھانا چاہییں ۔ اسی حوالے سے چند نقطے عرض کر کے خطبے کا اختتام کرنا چاہوں گا ۔
1۔ کچھ گھرانوں کی خواتین مردوں کے مقابل جلدی مستطیع (وہ شرط جس سے حج واجب ہو جاتا ہے) ہو جاتی ہیں کہ وہ حج پر جا سکیں ۔ دراصل خواتین کے جملہ اخراجات تو مرد حضرات اٹھاتے ہیں اور یوں خواتین کے اپنے پیسے یا مال بچ جاتے ہیں ۔ اور حج پر جانا ہی وہ تنہا سفر ہے جس کی شریعت میں خواتین کو اجازت دی گئی ہے ، اگرچہ اس کا شوہر راضی نہ بھی ہو ۔
ہمیں اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے اور ایسی خواتین کی مدد کرنی چاہیے ۔
2۔ استطاعت سے مراد فقط یہ نہیں کہ کسی شخص (مرد یا خاتون) کے پاس نقد پیسہ ہو بلکہ بہترین گھر ، گاڑی یا اضافی زمین اور سونا وغیرہ بھی ہو تو وہ مستطیع (وہ شرط جس سے حج واجب ہو جاتا ہے) ہے ۔ لیکن اگر کسی گھر میں کوئی لڑکا یا لڑکی غیر شادی شدہ ہوں تو یہ مستطیع نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔
3۔ کسی ادارے یا تجارت میں مشغول ہونا بھی حج پر نہ جانے کے لیے علت (عذر) نہیں بن سکتا ۔ عرض یہ کہ جو لوگ راستے کی وساطت ، جان یا مال کے لحاظ سے مستطیع ہوں انہیں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔ اور یہ بھی جان لیجئے کہ حج انجام دینے کے بعد انسان غنی ہو جاتا ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
حج پر جائو تاکہ غنی ہو جائو ۔
تمام برادران و خواہران پاک و ہند و افغانی اگر حج پر جا سکتے ہوں تو اس معاملے میں حکومتوں اور سفارتکاروں کو چاہیے کہ مدد کریں اگرچہ کہ ایرانی برادران و خواہران کے لیے مشکلات ہیں کہ وہ آسانی سے حج کا ویزہ یا ٹکٹ خریدیں ۔
آئندہ بدھ 29 جنوری بمطابق 3 جمادی الثانی پیکر وفا ، ضامن بقائے دین اسلام و محافظ رسالت و امامت جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا دن ہے ۔ یہ اس روایت کے مطابق ہے کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے 95 دن بعد شہادت فرما گئیں ۔ اس ضمن میں آپ تمام نماز گذاران کو تسلّیت پیش کرتا ہوں اور گذارش ہے کہ مسجد امام حسین علیہ السلام میں منعقدہ مجالس جو بدھ کی رات سے شروع ہوں گی ، ان میں شرکت کریں ۔
خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق اور خوف خدا رکھنے ، استقامت و بردباری و مصائب ہو آلام پر صبر جمیل عطا فرمائیں ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
|