۱۳۹۸/۱۰/۱۳   3:0  بازدید:1531     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


07 جمادی الاولی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 03/01/2020 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين، نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ، ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته ؛ سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد ، وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين ، سيّما بقيّة الله في الأرضين، وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

 

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

گزشتہ جمعہ ہمارا موضوع حقوق النَّاس تھا اور اب جبکہ ہم حق معنوی پر پہنچ گئے ہیں تو سوچا کہ یہ ایک طویل بحث ہے اور اس کے لئے خصوصی خطبہ ہونا چاہیے ۔ لہٰذا آج کے خطبے میں حقوق النَّاس میں سے حق معنوی اور اس کا زبان و آفات کے ساتھ کیا رابطہ ہے ، انہیں بیان کروں گا ۔

 

مقدمے کے طور پہ عرض کروں کہ زبان (کلام کرنی کی صلاحیت) ایسی نعمت ہے جو حیوانات کے پاس نہیں اور اگر ہے بھی تو بہت کم مقدار میں ۔ جیسے کہ سورۃ الرحمٰن کی ابتدائی آیت میں فرماتے ہیں :

اَلرَّحْـمٰنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (2) خَلَقَ الْاِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)

رحمنٰ ہی نے ۔ قرآن سکھایا ۔ اس نے انسان کو پیدا کیا ۔ اسے بولنا سکھایا ۔

 

زبان کے فائدے

ا۔        کلام (بات) کرنا یا رابطہ کرنا ۔

ب۔      شہادتین پڑھنا ۔

ج۔       عبادات ادا کرنا جیسے نماز ، حج کے اعمال ، امر بالمعروف ، تولّٰی ، تبرا ۔

د۔       معرفی (جان پہچان) کرنا جیسے کہا گیا ہے تَکَلَّمُوا تُعْرَفُوا، فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ

کلام (بات) کرو تاکہ پہچانے جاؤ کیونکہ ہر فرد کا اصل (شخصیت) اس کی زبان کے نیچے دفن ہے ۔ جب کلام (بات) کرے گا تو اس کے ذریعے اس کی شخصیت ظاہر ہو جاتی ہے ۔

اس سے مراد یہ کہ جب تک انسان کلام نہیں کرتا تب تک اس کے علم اور  شخصیت یعنی اندرونی خصلات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

ح۔       لوگوں کی رہنمائی کرنا ۔

یعنی اگر کسی بے بس ، اندھے یا معذور شخص کو دیکھے اور مدد نہ کرے تو گناہ کیا ۔

 

اسی طرح اگر آپ نے کسی کو ہدایت یا راہنمائی کی تو یہ عمل ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے ۔ اگر میں مزید وضاحت کروں تو یہ کہ انسان ایک حیوان ناطق ہے مگر اندر سے فکر کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور ظاہری طور پر بات کرتا ہے ۔ پس زبان کی پہنچ وسیع تر ہے اور اس کے ذریعے آسانی سے اپنے مطالب کا اظہار کیا جا سکتا ہے ۔

 

زبان کی صفات

زبان نہ کسی راستے پر چلنے کی محتاج ہے اور نہ کوئی سہارا یا ساتھ چاہتی ہے ، حتیٰ اگر انسان بے آرامی کی حالت میں ہو تب بھی زبان ہی سے کام لیتا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اس عظیم نعمت سے فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن پھر بھی حضرت لقمان حکیم اپنے بیٹوں سے وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اگر بات کرنا چاندی ہے تو سکوت سونا ہے ۔

 

معاذ بن جبل کہتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا :

يَا رَسُوۡلَ الله ، وَأَنَا لِنَؤاخِذۡ بِمَا نَتَکَلَّمۡ بَهۡ ؟ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَکُبُّ النَّاسَ في النَّار عَلَى وُجُوهِهِمْ أَو عَلَى مَنَاخِرهِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهمْ

کیا ہمیں زبان (کلام) کی وجہ سے عذاب دیے جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! وائے ہو تم پر کہ اس طرح کے عجیب و غریب سوال پوچھتے ہو ، کیا زبان (کلام) کے علاوہ بھی کوئی اور شے ہے جس کے ذریعے انسان جہنم چلا جائے ۔

(ورام  1410 ق ، ج 1 ، ص105)

 

زبان کی اہمیت

زبان کی اہمیت کو رسول اللہ ﷺ کی دیگر احادیث سے بھی سمجھا جا سکتا ہے ، فرماتے ہیں کہ :

اگر کسی نے زبان ، کھانا اور جنسی خواہشات کو قابو میں رکھا تو میں اسے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں ۔

 

زبان کی آفات

زبان کی بہت ساری آفات ہیں جو علم صلح و اخلاق کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں ۔ ان میں سے کچھ کا ذکر نہایت ہی اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں ۔

 

ا۔  جھوٹ بولنا یعنی حقیقت کے برعکس بولنا اور ملتے جلتے ناموں سے تشبیہ دینا

ایک شخص نے پیغمبر اکرم ﷺ سے پوچھا ، کیا ایسا ممکن ہے کہ مومن کبھی زنا کرے ؟

پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ ہاں کبھی کبھار ممکن ہے ۔

پھر پوچھا ، کیا ایسا ہے کہ مومن جھوٹ بولے تو فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں ، کیونکہ خدا تعٰالی فرماتے ہیں کہ جو جھوٹ بولے وہ مومن نہیں ہوسکتا ۔

 

ایک حدیث میں امام علی علیہ السلام سے نقل ہوا کہ مومن اس وقت تک ایمان کا مزا نہیں چکھ سکتا جب تک جھوٹ بولنا ترک نہ کر دے اور وہ جھوٹ چاہے حقیقت میں ہو یا مزاح کے طور پر ۔

 

جھوٹے کے بارے میں کہنا ہے کہ لوگوں کا اس پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور اگر ایسا ہوتا رہے تو معاشرہ مشکلات سے دوچار بھی ہو جاتا ہے ۔

 

ب۔  جھوٹ بولنے کی کئی قسمیں ہیں ، جیسے جھوٹی خبر دینا ، جھوٹی قَسَم کھانا

یہ سب گناہان کبیرہ میں سے ہیں ۔

رسالتمآب ﷺ نے فرمایا :

ان تجارھم الفجار ! فقیل یا رسول اللہ الیس قد احل اللہ البیع ؟ قال نعم ، لکنھم یحلفون فیاثمون و یحدثون فیکذبون

(فیض کاشانی ۔ 1417 ق ۔ ج 5 ، ص 240)

تجارت کرنے والے اکثر فاجر ہوتے ہیں ! کہا : اچھا یا رسول اللہ کیا تجارت کرنا اللہ نے حلال نہیں قرار دیا ہے ؟ فرمایا ہاں ، لیکن وہ قسم اٹھاتے ہیں اور یوں گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں ۔

 

جھوٹ کی دوسری قسم ، جھوٹا وعدہ دینا

خداوند متعال سورۃ المائدہ ، آیت 1 میں ارشاد فرماتے ہیں :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ۚ

اے ایمان والو ! عہدوں کو پورا کرو

 

اسی طرح سورۃ الاسراء ، آیت 34 میں فرمایا :

وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا

اور عہد کو پورا کرو ، بے شک عہد کی باز پرس ہو گی

 

اسی طرح سورۃ الصَّف کی آیات 2 اور 3 میں :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (2) کَبُـرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّـٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (3)

اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ۔ اللہ کے نزدیک بڑی نا پسندیدہ بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں

 

کسی طور سے قرض کا ادا نہ کرنا ، اپنے علاقے یا محلے میں ٹھیک سے کام نہ کرنا ، وقت پر بات چیت (میٹنگ/مجلس) نہ کرنا ، جھوٹی تعریف کرنا ، تقریروں میں جھوٹ بولنا ، خدائے عزوجل و اہل بیت اطہار علیہم السلام سے جھوٹ منسوب کرنا ، قرآنی و ارضیاتی یا تاریخ کے بیان کرنے میں جھوٹ بولنا ۔

 

جھوٹی تعریف کرنا اسے کہتے ہیں کہ میں آپ کا مخلص ہوں یا میں آپ کا شکر گزار ہوں یا ناں چاہتے ہوئے بھی کسی کو گھر دعوت دینا ۔ یعنی مثلا اگر وہ گھر آنے کے لئے راضی ہو جائے تو آپ کا دل بدل جائے یا دکھی ہو جائیں یا یہ سوچیں کہ کیوں آ رہا ہے یا کیا مصیبت گلے پڑ گئی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کے پیچھے غیبت کرنا ۔

 

جو علمائے اخلاق تھے ان کی زندگیوں میں یہ ملتا ہے کہ وہ خامخواہ یا بغیر دلیل کے ملاقات یا بات چیت نہیں کرتے تھے اور آج کل مغربی ممالک کے افراد بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اگر ملاقات یا بات چیت کرتے ہیں تو دل سے کرتے ہیں ۔ لیکن اسلامی ممالک میں اگر کوئی سلام ، بات چیت یا وائس میسج بھی کرتا ہے تو اس میں 5 مرتبہ قسم کھاتا ہے ۔

 

جھوٹ کی تیسری قسم یعنی وہ مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے

جنگ کی حالت میں

اَلۡحَربُ خَدَعَہ جنگ دھوکا ہے

(کتاب الکافی شیخ کلینی ، ج 7 ، ص 460)

 

جیسا کہ نقل ہوا کہ پیغمبر اکرم ﷺ ہم لوگوں کے لیے زیادہ برتن رکھ کر کھانا بنانے کا دکھاوا کرتے تھے ۔

 

دو عبد کے درمیان صلح کروانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لَيْسَ بِکَذَّابٍ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ اِثْنَيْنِ فَقَالَ خَيْراً أَوْ نَمَا خَيْراً

(بحار الانوار علامہ مجلسی ، ج 69 ، ص 254)

جو دو آدمیوں کے درمیان صلح کرنے کے لیے جھوٹ بولے وہ جھوٹا نہیں ہے ۔ وہ اچھا کام کر رہا ہے بلکہ اچھے سے بھی اچھا ۔

 

ایک مرتبہ اصحاب پیغمبر اکرم ﷺ میں سے دو کے مابین کسی بات پہ جھگڑا ہوا تو تیسرا صحابی پہلے ایک فرد کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم اس سے کیوں لڑتے ہو جبکہ وہ تمہارا سچا دوست ہے اور آپ کے بارے میں اچھی اچھی باتیں بتاتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے کے پاس گئے اور ان سے بھی یہی کہا تو اس طرح دونوں میں صلح ہو گئی ۔ پھر اس صلح کرانے والے صحابی نے سوچا کہ خدایا میں نے اپنے آپ کو ہلاک کیا کیونکہ جھوٹ بولا لیکن دو آدمیوں کے درمیان صلح کی وجہ سے ۔ اس نے پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں سارا معاملہ پیش کیا کہ میں نے ایسا کام کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا ابا کاھل ! دو عبد کے درمیان صلح کرو اگرچہ جھوٹ کے سہارے ہی کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح سے ! اگر کسے کے گناہ کو محفی رکھنے سے اس کی عزت و آبرو بچتی ہے تو کبھی بھی اس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ چھپانا چاہیے کیونکہ کسی گناہ کا اظہار بیان کرنا خود ایک گناہ ہے ۔

 

ج۔  زبان کی آفات میں مزید یہ کہ اس کے ذریعہ انسان اپنا غصہ اور غضب ظاہر کرتا ہے ۔ غصہ اور غضب تنہا ایک آفت نہیں بلکہ ممکن ہے اس کے بعد انسان سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جائے جس پر پچھتانا پڑے یا پہلی فرصت میں غصہ اور غضب کے اظہار کا جواب مل جاتا ہے ۔ بے شک غصہ اور غضب کو خدائے تعٰالی نے پیدا کیا تاکہ دشمن کے سامنے اس کو بروئےکار لاؤ اور سورۃ الفتح کی آیت 29 کے مصداق بن جاؤ :

اَشِدَّآءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَـمَآءُ بَيْنَـهُـمْ ۖ

اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں

 

لیکن ماں باپ کے سامنے یا بیوی بچوں پر یا بھائیوں اور بہنوں پر غصہ کا اظہار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

الغضب نار موقدة ، من کظمه أطفأها ، ومن أطلقه کان أول محترق بها

غصہ کرنا جہنم کی آگ ہے جس نے اس کو قابو میں رکھا تو گویا اس نے اس آگ کو بھجا دیا اور جس نے اس کو آزاد رکھا وہ اسی کے ساتھ جل گیا ۔

(کتاب مستدرک الوسائل - الميرزا النوري - ج ١٢ - الصفحة ١١)

 

شیخ سعدی ؒ  کے بقول :

تير از کمان چو رفت نيايد به شست باز                    پر واجب است در همه کارى تأملى

جب تیر ایک مرتبہ کمان سے نکل جاتا ہے تو واپس نہیں آتا ، اسی لیے ہر بات میں سوچ بچار سے کام لیں ۔

جب تک انسان اپنے الفاظ کو اپنی زبان پر نہ لے آئے ، اس وقت تک وہ ان پر حاکم (خودمختار) ہوتا ہے ۔ لیکن جیسے ہی کچھ کہتا ہے تو وہ کلام یا الفاظ انسان پر حاکم بن جاتے ہیں کیونکہ اسی بدولت انسان اس دنیا میں اور آخرت میں جواب دہ بن جاتا ہے ۔ تو بہتر یہ ہے کہ جب انسان غصہ میں ہو تو چاہیے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔

 

کہتے ہیں اِبْنَ آدَمَ اُذْکُرْنِي عِنْدَ غَضَبِکَ

اے ابن آدم اپنے غضب کے وقت مجھے یاد کیا کرو ۔

أَذْکُرْکَ عِنْدَ غَضَبِي

تو میں اپنے غضب کے وقت تمہیں یاد رکھوں گا ۔

 

اگر ہمارا کوئی رشتہ دار ، بیوی ، بچہ ، بھائی یا دوست کوئی ایسا کام کرے جو ہمیں پسند نہیں تو بالکل اسی طرح ہمیں بھی وہ کام نہیں کرنا چاہیے جو خدا کو اچھا نہ لگے ۔ علمائے عِلمِ اخلاق نے غصے اور غضب کو دور کرنے کے لیے کچھ مجرب نسخے بتائے ہیں ۔

 

ا۔  اگر بیٹھے ہوں اور غصہ آجائے تو کھڑے ہو جائو اور اسی طرح اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائو ، وضو کرو ، اپنے منہ پہ پانی ڈالو ، پانی پیو یا اس جگہ کو ترک کرو ۔

ب۔  اگر میاں بیوی آپس میں وعدہ کریں کہ دونوں میں سے ایک کو غصہ آئے تو دوسرا خاموش رہے گا تو اس طرح بہت سی خاندانی لڑائیاں ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کی عقل ایک حد تک زائل ہو جاتی ہے ۔

ج۔  اسی طرح جو آدمی غصے میں ہو تو اس کی بات کا برا نہ منایا جائے ۔ کیونکہ اگر اس نے نذر و نیاز بھی کیا ہو تو وہ قبول نہیں ہے اور اگر اس حالت میں قسم بھی کھائی ہو تو اس قسم کا بھی کوئی اثر نہیں ہے ۔

 

د۔  زبان کی ایک اور آفت غیبت کرنا ہے

وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ۚ اَيُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ يَّاْکُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ

اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے ، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو ، اور اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے (سورۃ الحجرات ، آیت 12)

 

غیبت اور مردے کے گوشت کے درمیان وجہ شباہت

اگر ان دونوں کے باطن کو دیکھا جائے تو لوگ دونوں کو پسند نہیں کرتے کیونکہ بدبودار چیزیں ہیں ۔ ذلیل ہوگا وہ کہ جو کسی کے نا موجودگی کے وقت اس کی توہین کرے یا اس کی شخصیت مجروح کرے کیونکہ اگر مردے کا گوشت کاٹا جائے تو دوبارہ نہیں آ سکتا اسی طرح اگر کسی کی شخصیت کو مجروح کیا تو وہ بھی دوبارہ نہیں بن سکتی ۔ یہ کہ جب انسان کسی کے بارے میں کچھ بولتا ہے تو مخاطب کے ذہن میں ایک نقطہ بن جاتا ہے جس کا ہٹانا یا تو مشکل ہوتا ہے یا محال ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جس کی غیبت کی جاتی ہے تو وہ شخص اور مردہ دونوں اس پر قادر نہیں کہ اپنا دفاع کر سکیں ۔ وہ لوگ یا قوم جو مردہ کا گوشت کھاتے ہیں وہ آپ کے گوشت کو بھی کھا سکتے ہیں ، اسی طرح جو دوسروں کے عیوب آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں وہ آپ کے عیب دوسروں کے سامنے بھی بیان کرتا ہو گا ۔

 

پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب پروردگار عالم مجھے معراج پر لے گئے تو میں نے ایک گروہ دیکھا جو اپنے ناخنوں سے اپنے منہ اور سینے کو نوچ رہے ہیں ۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا کہ یہ وہ ہیں جو دوسروں کی غیبت کرتے تھے اور ان کی عزت کو پائمال کرتے تھے ۔

 

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں

إيَّاکُم وَ الغِيْبَةِ فَإنَّها إدامُ کِلابُ النَّار

غیبت کرنے سے بچو کیونکہ یہ جہنمی کتوں کی اندام (جسم) ہے

 

انشاء اللہ زیادہ تر نماز گزاران غیبت اور تہمت کے درمیان فرق جانتے بھی ہیں ۔ غیبت وہ صفت ہے جو انسان میں موجود ہوتی ہے لیکن تہمت وہ صفت ہے جو انسان میں موجود نہیں کیونکہ تہمت میں جھوٹ بھی ہوتا ہے اس لیے تہمت غیبت سے بڑا گناہ ہے ۔

 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

جو کوئی بھی اگر کسی مومن میں بدی کو دیکھے اور لوگوں کے درمیان فاش کرے تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو چاہتے ہیں کہ با ایمان لوگوں کے درمیان بری چیزیں شائع ہو جائیں اور ان لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں بہت سخت عذاب ہے ۔

 

اگر کوئی شخص کسی مومن کے ضرر (مخالفت یا نفرت) میں بولے اور اس کی نیت اس کی عزت کو پائمال کرنا ہو تاکہ وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائے تو خداوند متعال ایسے اشخاص کو اپنے دوستی سے اس طرح گرا دے گا کہ شیطان بھی اسے اپنانے سے انکار کرے گا ۔

 

زبان کی اور بھی کئی آفات ہیں جیسا کہ کسی کی بے عزتی کرنا اور مذاق اڑانا ، عیب جوئی ، طعنہ زنی ، دوسروں کے اسرار کو فاش کرنا ، گالی دینا وغیرہ وغیرہ اور اس طرح کئی آفات ہیں جو اس خطبے میں بیان نہیں کیے جا سکتے ۔

 

اللہ تعٰالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں زبان کی آفات سے بچائے ۔

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ