۱۳۹۸/۱۰/۶   1:0  بازدید:1682     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


30 ربیع الثانی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 27/12/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 

خطبہ اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربِّ العالمين، نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ، ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته ؛ سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد ، وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين ، سيّما بقيّة الله في الأرضين، وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين

اما بعد    اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

 

محترم نماز گذاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

حق النَّاس اسلام کی نظر میں

خداوند متعٰال سورۃ الحدید کی آیت 25 میں خاتم المرسلین محمد مصطفٰی کے مبعوث ہونے کے ہدف کو لوگوں کے درمیان عدل برقرار رکھنا قرار دیا ہے :

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُـمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْـزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ

البتہ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوئے (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں ۔

 

اسلام میں انسان پر جو حقوق فرض ہوئے ہیں ان میں سے کچھ اللہ تعٰالیٰ کے ہیں جنہیں حقوق اللہ کہا جاتا ہے جیسے نماز ، روزہ ، حج اور کچھ بندوں کے لیے ہیں جنہیں حقوق النَّاس کہا جاتا ہے جیسے ماں باپ کے حقوق ، زوجیت و اولاد کے حقوق ، ہمسائے کا حق ، حاکم پر اپنی رعیت کا حق ، استاد پر شاگرد کا حق ، انسان کا ایک دوسرے کی مناسبت سے حق ۔ اگرچہ ایسا نہیں ہے کہ حقوق اللہ و حقوق النَّاس میں کوئی فرق یا حدیں ہیں ، یعنی کہ حقوق اللہ الگ ہیں اور حقوق النَّاس الگ ۔ دراصل حقوق اللہ میں حقوق النَّاس بھی ہیں اور حقوق النَّاس میں حقوق اللہ بھی ۔ اب زرا غور فرمائیے کہ نماز جو حقوق اللہ میں سے ہے ، اس معاشرے میں انسان کی شخصیت کو بھی بنا دیتی ہے ۔

 

جیسا کہ سورۃ العنکبوت ، آیت 45 میں فرمایا :

 اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ ۗ

بے شک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے

 

اسی طرح سورۃ المائدہ ، آیت 97 میں فرمایا :

جَعَلَ اللّـٰهُ الْکَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ

اللہ نے کعبہ کو جو کہ بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث قرار دیا ہے

 

سورۃ الحج ، آیت 28 میں حج کے موقع پر قربانی کا حکم دیا گیا ہے :

لِّـيَشْهَدُوْا مَنَافِــعَ لَـهُـمْ وَيَذْکُرُوا اسْـمَ اللّـٰهِ فِىٓ اَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُـمْ مِّنْ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۖ

تاکہ اپنے فائدوں کے لیے آ موجود ہوں اور تاکہ جو چارپائے اللہ نے انہیں دیے ہیں ان پر مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد (قربانی) کریں

 

حقوق الناس کی اہمیت

قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت جس میں قرض کا ذکر کیا گیا ہے ، فرمایا :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا تَدَايَنْتُـمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاکْـتُبُوْهُ ۚ  ۔۔۔۔۔ (بقیہ سورۃ البقرۃ ، آیت 282)

اے ایمان والو! جب تم کسی وقتِ مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو ۔۔۔۔۔

 

اسی طرح سورۃ المائدۃ ، آیت 38 :

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُـوٓا اَيْدِيَـهُمَا

اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو

 

یا سورۃ البقرۃ ، آیت 179 کہ جس میں احساس کا حکم آیا ہے :

وَلَکُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّآ اُولِى الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

اور اے عقل مندو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو

 

یا حکم جہاد کو دیکھو جس کے ذریعے انسان حقوق اللہ و حقوق النَّاس دونوں تک پہنچ سکتا ہے ۔ جیسا کہ امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا :

جعل اللہ سبحانہ حقوق عبادہ مقدمہ لحقوقہ فمن قام بحقوق عباد اللہ کان ذلک مودیا الی القیام بحقوق اللہ

اللہ تعٰالیٰ نے حقوق النَّاس کو حقوق اللہ پر مقدم کیا ، پس جس کسی نے حقوق النَّاس کو ادا کیا وہ حقوق اللہ کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

 

حقوق النَّاس ہر جگہ پایا جاتا ہے

اگر دو اجنبی شخص ایک دوسرے کے ساتھ چند گھنٹے سفر کریں تو دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں ۔ اب زرا سوچیے جو لوگ کئی ماہ یا سالوں زندگی گزر بسر کر رہے ہوں ، ان کے تو ایک دوسرے پر بہت زیادہ حقوق بنتے ہیں ۔

 

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

ما تآکد ت الحرمہ بمثل المصاحبہ و المجاورہ

کسی بھی عمل یا شے کی اس سے زیادہ تاکید نہیں کی گئی جتنا اپنے ساتھ یا ہمسائیگی میں رہنے والوں کے حقوق پر کی گئی ہے

 

امام علی علیہ السلام اس حد تک فرماتے ہیں کہ :

واللہ واللہ فی جیرانکم فانھم وصیہ نبیکم مازال یوصی بہم حتی ظنناانہ سیورثہم

خدارا خدارا ! اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھا کرو کیونکہ یہ پیغمبر اکرم کی وصیت ہے اور اس حد تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کا وارث بن جاتا ہے

 

اگر دو اجنبی شخص ساتھ رہتے ہیں تو ان کے بھی آپس میں حقوق بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ہم صدقہ و خیرات دینا چاہیں تو اُسے دیں جو اس کا حقدار ہو ۔

 

امام صادق علیہ السلام نے اسحاق ابن عمار سے فرمایا :

و ان جالسک یہودی فاحسن مجالستہ

اگر کوئی یہودی بھی آپ کے ساتھ بیٹھ جائے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو

 

ایک مرتبہ امام علی علیہ السلام ایک کافر ذمی (یہودی) کے ساتھ عازم سفر تھے ۔ جب وقت آیا کہ دونوں جدا ہوں تو امام علیہ السلام اس کے ساتھ کچھ اور قدم چلتے رہے ۔ یہودی نے پوچھا کہ اے علی آپ کا سفر تو اُس طرف ہے پھر میرے ساتھ اِس طرف کیوں آ رہے ہیں ، امام علیہ السلام نے جواب دیا ! پیغمبر اکرم کا حکم ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ بطور بدرقہ (یعنی وہ نگہبان سپاہی جو حفاظت کے لئے ساتھ ہوں) کے طور پر جایا کرو ۔ یہودی کو امام علیہ السلام کا یہ عمل بہت اچھا لگا اور کہنے لگا کہ ! پھر تو میں بھی یہ حق ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ یہودی نے امام علیہ السلام کے ہمراہ کچھ راستہ چلتا رہا ۔ اِس طرح اُس نے پیغام رسالت ﷺ کو سمجھا اور قبول اسلام کیا ۔

 

حقوق النَّاس میں سے ایک صلہ رحمی ہے ، جس کے متعلق آیات و احادیث میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ اس کے انجام دینے سے انسان کی عمر بڑھتی ہے ، مصیبتیں دور ہوتی ہیں اور رزق میں فراوانی ہوتی ہے اور آخرت کے لئے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے ۔ لیکن جس نے اسے انجام نہ دیا تو سب نعمات اس سے واپس لے لی جاتی ہیں ۔

 

فقہ اسلامی میں حق النَّاس پر تاکید

دین اسلام حقوق النَّاس کی بہت تاکید کرتا ہے ۔ فقہاء نے بھی فتوٰی دیا ہے کہ اگر قرض لینے والا قرض کی واپسی کا تقاضہ کرے تو قرض لوٹانے والے کو اختیار ہے کہ اگر نماز میں وقت زیادہ لگ رہا ہو تو وہ نماز توڑ کر بھی قرض ادا کرے ، جبکہ عام حالات میں نماز توڑنا حرام ہے ، کیوںکہ سورۃ محمد کی آیت 33 میں حکم ہوا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ

مومنو! خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو

 

یعنی اس آیت سے مراد کہ اگر کسی نے نماز شروع نہ کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ پہلے قرض ادا کرے پھر نماز شروع کرے ۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ غسل جو غصبی پیسوں سے یا حمام کے مالک کی اجازت کے بغیر کیا جائے ، وہ باطل ہے اور تب بھی باطل ہی ہو گا کہ اگر آپ بجلی ، پانی یا گیس کا بل ادا نہ کریں ۔

 

معصومین علیہم السلام میں سے ایک امام نے مکہ میں اپنے صحابی کو دیکھا تو اس کا حال احوال پوچھا اور مکہ میں آمد کا مقصد پوچھا ۔ صحابی نے کہا کہ میرے آنے کا مقصد مکہ میں قیام کروں اور عبادات کی ادائیگی ہے ۔ امام علیہ السلام نے ان باتوں سے اندازہ لگا لیا کہ یہ کسی کا قرض دار ہے ۔ امام علیہ السلام نے صحابی سے کہا کہ جائو قرض واپس کر دو اور مکہ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

 

پیغمبر اکرم کے پاس ایک جسد خاکی لایا گیا تاکہ نماز جنازہ پڑھائیں ۔ رسول اللہ نے پوچھا : آیا یہ شخص قرض دار ہے ؟ کہا گیا کہ ہاں تو رسول اللہ نے نماز جنازہ نہ پڑھائی ۔ تب امام المتقین علی علیہ السلام نے اپنی طرف سے قرض کی ادائیگی کا اہتمام کیا اور اس کے بعد رسول اللہ نے نمازجنازہ ادا کی ۔

 

حقوق النَّاس میں یہ فرق نہیں کہ حق چھوٹا ہو یا بڑا یا مثلاً قرض دینے والا چھوٹا ہو یا بڑا ، مسافر ہو یا مقیم ۔ بدترین حقوق النَّاس یہ ہے کہ جب حق لینے والا اس بات پر قدرت نہ رکھتا ہو کہ وہ اپنا حق واپس لے سکے تو اس صورت میں حق دینے والا ظالم سمجھا جائے گا اور پھر ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہوگا ۔ عزیزو ! وہ شخص جس کا خدا کے سوا کوئی نہ ہو اس پر ظلم نہ کرو ۔

 

حقوق النَّاس کی قسمیں

ا۔  وہ حقوق جو ہر کسی کے لیے فطری ہیں ، جیسا کہ حق زندگی ، امنیت (رہن سہن) ، آزادی وغیرہ ۔ اگر ان کی بنیاد پر کسی کا قتل کرنا ، ڈرانا ، جیل میں ڈالنا ، ہوا یا ماحول کو سگریٹ کے دھوئیں یا کسی اور شے کے ذریعے خراب کرنا جس سے لوگ تازہ و صاف ہوا نہ لے سکیں یا مثلاً شور مچانا ، آرام میں مخل ہونا ، راستے کا بند کرنا ، سگنل کو توڑنا یہ سب حقوق اولیائے بشر میں سے ہیں اور دلچسپ بات کہ غیر مسلم ممالک یا اقوام ان سب حقوق کے ادا کرنے میں ہم سے بہتر ہیں ۔

 

ب۔  وہ حقوق جو دینی قوانین کے حوالے سے وجود میں آتے ہیں ، جیسا کہ عبادت کا حق ، کسی کی شخصیت کو مجروح نہ کرنا ، غِیبت و تہمت وغیرہ ۔ حق مومن حق کعبہ سے زیادہ ہے کیونکہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا نے کعبہ کے طرف دیکھ کر فرمایا :

مرحبا بالبيت ما أعظمک وأعظم حرمتک على الله ، والله للمؤمن أعظم حرمة منک ، لأن الله حرم منک واحدة ومن المؤمن ثلاثة : ماله , و دمه , وأن يظن به ظن السوء

مرحبا تم پر اے کعبہ ! تم کتنے بلند و بالا ہو ، تمہاری حرمت اللہ کے نزدیک کتنی بلند ہے ، لیکن قسم ہے خدائے کعبہ کی کہ مومن کی حرمت اُس کے نزدیک تم سے زیادہ ہے ، کیونکہ تمہاری نسبت سے خداوند متعٰال نے صرف ایک چیز کو حرام کیا ہے مگر مومن کے لیے تین چیزوں کو اور وہ ہیں مال ، جان اور اس (اللہ) پر بدگمانی کرنا ۔

(بحار الأنوار - ج 64 - صفحہ 81)

 

حقوق النَّاس کی مزید اقسام

ا۔  حرمت جان افراد

یعنی انسان کے اعضاء اور اس کے روح کی بھی حفاظت کرنا ، جیسے سورۃ النساء ، آیت 93 میں فرمایا :

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٝ جَهَنَّـمُ خَالِـدًا فِيْـهَا وَغَضِبَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ وَلَـعَنَهٝ وَاَعَدَّ لَـهٝ عَذَابًا عَظِيْمًا 

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے

 

قصاص کی بحث بھی اسی سے متعلق ہے ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ :

من لطم خد مسلم لطمۃ بدد اللہ عظامہ یوم القیامۃ ثم سلط اللہ علیہ النار و حشر مغلولا حتی یدخل النار

اگر کوئی کسی مسلمان کے منہ پر تھپڑ مارے تو اللہ تعٰالیٰ قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کو توڑے گا اور اس پر جہنم کی آگ مسلط کرے گا اور بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ جہنم میں ڈالا جائے گا

 

ب۔  مومن کے مال کی حفاظت

سورۃ النساء ، آیت 29 میں ارشاد خداوندی ہے :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْکُلُـوٓا اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُـوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَـرَاضٍ مِّنْکُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَنْفُسَکُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًا 

اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو ، اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو ، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے

 

اس آیت کے ضمن میں : سود اور رشوت کا الٹ پھیر ، مخلوط کرنا (کسی شے میں دوسرے شے کو مکس کرنا) یا اموال کو غصب کرنا ، یہ سب اسی سے متعلق ہیں ۔

 

حدیث مبارکہ ہے کہ :

جس کسی نے بھی خرید و فروخت میں مسلمان کو دھوکہ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں اور روز قیامت یہود کے ساتھ محشور ہو گا ۔

 

سورۃ المطففین کی پہلی 5 آیات اسی ضمن میں نازل ہوئیں :

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ (1) اَلَّـذِيْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ (2) وَاِذَا کَالُوْهُـمْ اَوْ وَّزَنُـوْهُـمْ يُخْسِرُوْنَ (3) اَلَا يَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّـهُـمْ مَّبْعُوْثُوْنَ (4) لِيَوْمٍ عَظِـيْمٍ (5)

کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے ۔ وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کرلیں تو پورا کریں ۔ اور جب ان کو ماپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں ۔ کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اٹھائے جائیں گے ۔ اس بڑے دن کے لیے ۔

 

یعنی یہ نہ سمجھیے کہ کم فروشی فقط خریدنے اور بیچنے کی حد تک مخصوص ہے بلکہ کام پورا نہ کرنا یا صحیح طریقے سے حق ادا نہ کرنا بھی کم فروشی کے زمرے میں آتا ہے ۔

 

ج۔  لوگوں کی عمر اور وقت کی حفاظت

مزدور ، استاد ، مدیر یا مسئول اور انجینیر ان سب کا ایک دوسرے کی نسبت حق میں کمی کرنا یہ سب حقوق النَّاس ہی ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف ، آیت 85 میں فرمایا :

وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُـمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ قَدْ جَآءَتْکُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۖ فَاَوْفُوا الْکَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ۚ ذٰلِکُمْ خَيْـرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ 

اور مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا ، کہا اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل پہنچ چکی ہے ، سو ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان دار ہو

 

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

خطبہ دوم

 

والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین 

اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله

 

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

 

حقوق النَّاس کی اطاعت نہ کرنے کے نقصانات

ا۔  دنیا میں عمل صالح کا مٹ جانا

حدیث مبارکہ ہے کہ :

مَنْ ظَلَمَ مَظْلِمَۃً أُخِذَ بِہَا فِی نَفْسِہِ أَوْ فِی مَالِہِ أَوْ فِی وُلْدِہ

اگر کوئی کسی پر ظلم کرے تو اس ظلم کی نسبت سے اس کے جان ، مال یا بچوں سے اُتنا حصہ کم ہو (صلب ہو) جائے گا

 

ب۔  خدا سے رابطہ کٹ جاتا ہے

شیخ عباس قمیؒ فرماتے ہیں : مجھے بخوبی یاد ہے کہ میرے والد محترم 40 سال سے اذان صبح سے ایک گھنٹہ پہلے بیدار ہوتے تھے اور ہم اکثر و بیشتر ان کے گریہ کی آواز سنا کرتے تھے ۔ ایک شب ہم سب اہلخانہ کو ایک باغ میں دعوت طعام دی گئی ، بعد طعام سب اہلخانہ اسی باغ میں سو گئے ۔ اُس رات میرے والد محترم نماز تہجد کے لیے بیدار نہ ہو سکے اور نماز فجر بھی طلوع آفتاب سے 5 منٹ پہلے ادا کی ۔ علی الصُّبح سب گھر واپس آگئے ۔ میرے والد محترم تحقیق میں لگ گئے کہ اس غفلت و سستی کی وجہ کیا تھی ؟ بالآخر معلوم ہوا کہ اس باغ کا مالک سود کھانے والوں میں سے ہے ۔ اس حقیقت کی بدولت ہمارے والد محترم چالیس راتیں نماز تہجد نہ پڑھ سکے ۔

 

ج۔  رزق سے برکت کا اٹھ جانا

مَنْ حَبَسَ عَنْ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ شَیْئاً مِنْ حَقِّہِ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ بَرَکَۃَ الرِّزْقِ اِلاَّ أَنْ یَتُوب

اگر کسی نے دوسرے مسلمان بھائی کی کسی چیز کو چھپایا یا غصب کیا تو اللہ تعٰالی اِس کے رزق میں برکت کو حرام کر دے گا ۔

 

د۔  دعا کا قبول نہ ہونا

امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا کہ :

مظلوم کی دعا مستجاب ہوتی ہے لیکن ظالم کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔

 

ح۔  توبہ قبول نہ ہونا

امام علی علیہ السلام نے توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک اہم شرط بیان کی کہ :

انسان کا حقوق النَّاس کے بارے میں جاننا یا معلوم ہونا بھی توبہ کی قبولیت کا باعث ہے ۔

 

حقوق النَّاس پورا نہ کرنے کے اخروی اثرات

ا۔  برزخ میں پھنس جانا

پیغمبر اکرم سعد بن معاذؓ کے مراسم تدفین میں شرکت کے لیے گئے ۔  سعد کی والدہ ان کے جسد خاکی سے مخاطب ہو کر بولیں کہ تمہیں بہشت مبارک ہو ۔ اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ سعد اپنے اہل خانہ سے بد اخلاقی کی وجہ سے فشار قبر میں مبتلا ہیں ۔

 

ب۔  بخشش یا معافی کا نہ ملنا

أَمَّا الظُّلْمُ الَّذِی لَا یُتْرَکُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِھِمْ بَعْضا

وہ امر یا عمل جس کی معافی نہیں ہوتی وہ لوگوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے

 

ج۔  انسان سے نیک اعمال لیے جائیں گے

روزِ قیامت جس نے جس پر جتنا بھی ظلم کیا ہو گا ، تو اتنے نیک اعمال اِس کے نامہ اعمال میں نکال کر مظلوم کے نامہ اعمال میں شامل کیے جائیں گے ، اور اگر ظالم کے نیک اعمال نہیں ہوں گے تب مظلوم کے برے اعمال اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیے جائیں گے ۔

 

د۔  پل صراط سے نہیں گزر پائے گا

سورۃ الفجر کی آیت کریمہ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ :

المرصاد قنطرۃ علی الصراط لا یجوزھا عبد بمظلمۃٍ

پل صراط میں مرصاد (انتظار گاہ یا زینہ) ہے کہ ایسا شخص جس پر کسی دوسرے کے ظلم کا حق ہو گا ، وہ اس مقام سے نہیں گزر پائے گا ۔

 

سیرت معصومین علیہ السلام میں حقوق الناس کی اہمیت

تاریخ میں آیا کہ جب پیغمبر اکرم نے مکہ سے مدینہ منورۃ ہجرت کی تو امام علی علیہ السلام کو مکہ میں رہنے کی ہدایت کی اور انہیں وہ امانتیں جو کفار نے آپ کے پاس رکھی تھیں ، انہیں لوٹانے پر مامور کیا ۔ آپ نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ :

یَا أَبَا الْحَسَنِ أَدِّ الْأَمَانَۃَ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ فِیمَا قَلَّ وَ جَلَّ حَتَّی فِی الْخَیْطِ وَ الْمِخْیَط

ابا الحسنؑ آپ سب امانتیں واپس کر دیں چاہے وہ لوگ اچھے ہوں یا برے اور امانتیں چاہے کم ہوں یا زیادہ ، اگرچہ وہ سوئی اور دھاگہ یا تار ہی کیوں نہ ہوں ۔

 

کہتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہ نے بیت المال سے ایک ہار عاریہ (وقتی استعمال) کے طور پر لیا تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے اس عاریہ ہار کی ضمانت نہ دی ہوتی تو میں آپ کے ہاتھ کاٹ دیتا ۔

 

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :

أَوَّلُ قَطْرَۃٍ مِنْ دَمِ الشَّھِیدِ کَفَّارَۃٌ لِذُنُوبِہِ أِلاَّ الَّدیْنَ فَأِنَّ کَفَّارَتَہُ قَضَاؤُہ

جب شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو اس کے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں علاوہ قرض کے اور یہ تب مٹتا ہے جب ادا کر دیا جائے ۔

 

اگر وزیر اقتصادیات (منسٹر آف اکانومی) بغیر کسی تحقیق یا پلاننگ کے کوئی ایسا کام کرے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچے تو روز قیامت وہ ان افراد کا ذمہ دار ہے ۔

 

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

أِنَّ دِرْھَماً یَرُدُّہُ الْعَبْدُ أِلَی الْخُصَمَاءِ خَیٌرُ لَہُ مِنْ صِیَامِ النَّہَارِ وَ قِیَامِ الَّیْل

کسی حق دار کو ایک درہم واپس کرنا پورے دن کی روزی اور رات کی عبادت سے بہتر ہے

 

خطبے کے اختتام پر حضرت عیسیٰ ؑ مسیح علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے کچھ گفگتو کرنا چاہتا ہوں ۔

اللہ تعالی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کو قرآن میں یوں بیان فرمایا :

جب پوچھا گیا کہ عیسٰی خدا کا بیٹا ہے تو کہا گیا کہ عیسٰی خدا کی خلقت ہیں اور خدا کا کوئی بیٹا نہیں ۔

 

سورۃ آل عمران ، آیت 59 اس بات کی مصداق ہے :

اِنَّ مَثَلَ عِيسٰى عِنْدَ اللّـٰهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۖ خَلَقَهٝ مِنْ تُرَابٍ ثُـمَّ قَالَ لَـهٝ کُنْ فَيَکُـوْنُ 

بے شک عیسٰی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے ، اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ زندہ ہو جائے تو وہ زندہ ہو گیا ۔

 

یعنی اللہ تبارک و تعٰالیٰ نے آدم کو نہ باپ اور نہ ہی ماں سے بلکہ مٹی سے پیدا کیا اور اپنے حکم سے اس میں روح ڈالی ۔ تو جس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں ہو سکتا اسی طرح عیسٰی بھی خدا کا بیٹا نہیں ہو سکتا بلکہ خدا کی مخلوق ہے ۔

 

خداوند متعٰال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں اور اسی طرح اہل کتاب بالخصوص عیسائی بھائیوں کو معارف الہٰی کی شناخت کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے

 

خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
بسم اللہ الرحمن الرحیم

والعصر ، ان الانسان لفی خسر ، الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ