۱۳۹۸/۹/۲۲   7:38  بازدید:1690     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


16 ربیع الثانی 1441(ھ۔ ق) مطابق با 13/12/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


اول خطبہ

اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله

محترم نماز گزاران و پیروکاران رسالت و امامت

السلام علیکم

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 اکثر مشکلات اور سختیاں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں، بس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مشکلات کم ہوں تو ہمیں اپنے اعمال پر توجہ دینی چاہیے۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيْقَهُـمْ بَعْضَ الَّـذِىْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُـمْ يَرْجِعُوْنَ (41(

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓى اٰمَنُـوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْـهِـمْ بَـرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنَاهُـمْ بِمَا کَانُـوْا يَکْسِبُوْنَ (96(

اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کے اعمال کے سبب سے گرفت کی۔

 يُـرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْکُمْ مِّدْرَارًا (11(

وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا۔

وَيُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّّيَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْهَارًا (12(

اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا۔

اِذَآ اَصَابَتْـهُـمْ مُّصِيْبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْـهِـمْ

 جب ان کے اپنے ہاتھوں سے لائی ہوئی مصیبت ان پر آتی ہے

وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ۚ

 اور تجھے جو برائی پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے،

قال أمير المؤمنين (ع) : إنّ البلاء للظالم أدب ، وللمؤمن امتحان ، وللأنبياء درجة ، وللأولياء کرامة.ص235

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا "مصیبت ظالم کیلئے باعث سختی، مومن کیلئے باعث امتحان، انبیاء کیلئے باعث درجات اور اولیاء کیلئے باعث کرامت۔

 اگر ہم سو فیصد یہ بات نہیں کہہ سکتے پر جزوی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام مشکلات ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں

 برے اعمال کی وجہ سے نہ فقط یہ کہ  آخرت میں عذاب کے باعث بنتے ہیں بلکہ اس دنیا میں بھی مشکلات کی وجہ ہمارے برے اعمال ہوتے ہیں۔

ایک عارف بزرگ شیخ رجب علی جنہیں اللہ تعالی نے  برزخ کے حالات اسی دنیا میں دکھا دئے تھے، آپ دیکھ سکتے تھے کہ برزخ میں کوئی انسان کن مشکلات کا شکار ہوگا، اور اسی وجہ سے لوگوں کو انکے اعمال کی طرف  متوجہ کرتے اور ان مشکلات سے نجات ختم کا طریقہ بتاتے تھے۔ کتاب "کیمیاء محبت" صفحہ 140

 مثال کے طور پر ایک کباب فروش نے شکوہ کیا کہ میری دکان پر خریدار کم آتے ہیں تو آپ نے فرمایا اسکی وجہ تم خود ہو تو کباب فروش نے دریافت کیا کہ میں کیسے اس کمی کا سبب ہوں؟

آپ نے فرمایا کہ ایک خریدار جو تمہاری دکان پر کھانا کھانے آتا تھا تم نے اس کو کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔

 یہ خریدار ایک سید تھا جس نے تین دن ادھار پر کھانا کھایا اور اگلی بار جب وہ آیا تو تم نے اسے دھکا دے کر نکال دیا۔

تمہارا یہ عمل تمہاری مشکلات کا سبب بنا۔ اسکے بعد کباب فروش نے اپنی دکان پر لکھوا دیا کہ اگر کسی شخص کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ ادھار پر کھانا کھا سکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد اس شخص کے حالات بہتر ہوگئے۔

 ماں کا ایک بچے کو مارنا اور پیٹنا

 شیخ رجب علی کے شاگردوں میں سے ایک  نے کہا کہ یہ میرا دو سال کا بچہ ہے، اس آدمی نے بتایا کہ یہ بچہ  بستر پر پیشاب کرتا تھا تو اس وجہ سے اس کی ماں نے اس کو بہت مارا اور پھر وہ عورت مریض ہوگئ،

 اس کا بخار شدید بڑھ گیا اور اسکے بعد ڈاکٹر نے جتنی بھی کوشش کی بخار کم نہیں ہوا۔جب شیخ نے اس کو واپسی کی گاڑی پر سوار ہوتے دیکھا تو اشارے سے پوچھا کہ کیا یہ اس بچے کی ماں ہے؟ کہا ہاں۔ شیخ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ اپنی اولاد کو اس طرح  پیٹتی ہو؟ جاؤ استغفار کرو!

جب اس نے استغفار کیا اور  بچے کو خوش کیا تو اس کا بخار ختم ہوگیا۔

 کیا مہربان خدا ہے ہمارا کہ جو ماں سے بھی  بہت زیادہ مہربان ہے

 ایک بیٹے نے اپنے باپ کو  برزخ میں بہت زیادہ عذاب میں دیکھا تو دریافت کیا کہ کہ ایسا کیوں ہے؟ باپ نے کہا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے اپنی پہلی بیوی  کے حقوق ادا نہیں کیے تھے۔ اس نے اپنے بیٹے کو کہا کہ تم نے کیوں  دو عورتوں سے شادی کی؟

 دیکھو میں اسی وجہ سے بہت زیادہ عذاب میں گرفتار ہوں، اور جبکہ تم نے دو شادیاں کر ہی لی ہیں تو اب عدالت کو برقرار رکھو۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد شادیوں کیلئے عدالت کو ضروری قرار فرمایا ہے

 ایک انجینئر کی بہن کا ناراض ہونا

 ایک انجینئر جس کا  بہت بڑا کاروبار تھا  کئی بلڈنگیں   اس کے اختیار میں تھیں  لیکن اسکے باوجود بھی وہ مقروض رہتا تھا،  تو شیخ  نے اس سے کہا کہ جاؤ اپنی بہن کو راضی کرو  تو اس نے کہا کہ وہ راضی نہیں ہوتی ہے  تو شیخ کہا کیونکہ تم نے وراثت کا وہ حصہ غصب کرلیا ہے  چکے ہو جو اسکا تھا لہذا اگر اسکو راضی کرنا چاہتے ہو تو جاؤ اور اس کا حق اسے لوٹا دو۔  انجینئر نے کہا کے میں اس کو 5 ہزار تومان پہلے ہی دے چکا ہوں  شیخ نے کہا کہ وہ ابھی آپ سے راضی نہیں ہوئی ہے

  کیا آپ بہن کا اپنا گھر ہے اس انجینئر میں کہا کہ نہیں تو شیخ نے کہا کہ پھر اپنے اچھے گھروں میں سے ایک اچھا گھر اس کے نام کر دو جب اس نے ایسا کیا تو اس کے دوسرے دن اس انجینئر کے تین گھر بک گئے اور اس کے سب قرضے ادا ہو گئے اور اپنی مشکلات سے نجات حاصل کی۔

 ایک تاجر شیخ کے پاس آیا اور اپنی مشکلات کا ذکر کرنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ تم بہت ظالم آدمی ہو کیونکہ چار ماہ ہوگئے تمہارے بہنوئی کی وفات  کو لیکن  تم اب تک اپنی بہن کے پاس نہیں گئے۔

 یہ مشکلات اسی وجہ سے ہیں۔ یہ سن کر اس تاجر اپنی بہن اور اس کے بچوں کو ملنے گیا اور ان کو خوش کیا۔ اس طرح اسکی مشکلات حل ہوگئیں۔

  ایک آدمی بیمار ہوا اس کا بیٹا شیخ رجبعلی کے پاس  گیا  تو شیخ رجبعلی نے اس کو کہا کہ جاؤ اپنی پھوپی اور اس کی چار یتیم بچوں کو راضی کرو کیونکہ آپ کے باپ نے آپ کی پھوپی اور اس کے چار یتیم بچوں کو گھر سے نکالا دیا تھا۔

  انسان کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ کسی حیوان تک کو ازار پہنچائے  یا  اس کو برا بھلا کہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  لو غفرتم ما تأتون الی البهائم لغفر لکم کثیرا۔ و قال دخلت امراہ النار فی ھرہ حبستھا فلا ھی اطلقتھا و لا ھی اطعمت ھا۔

 اگر تم لوگ اپنے مال مویشی کو کچھ دیتے تو تم لوگوں کو بھی بہت کچھ ملتا ہے اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی کیونکہ اس نے ایک بلی کو قید کیا پھر نہ اس کو آزاد کرتی تھی اور نہ اس کو کچھ کھلاتی تھی

 اسی طرح اگر ہم کسی بھیڑ بکری کو ذبح کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ چھری تیز اور دھاری دار نہ ہو جسکی وجہ سے اسے تکلیف ہو۔ اور اسی طرح  کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کریں

 حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا  کہ کبھی کسی   بکرے کو کسی دوسرے بکرے کے سامنے ذبح نہ کرو کیونکہ وہ اس کو دیکھتا ہے۔

 ایک قصاب شیخ کے پاس آیا اور کہا کہ میرا بچہ مر رہا ہے شیخ نے کہا کہ تم نے کیوں ایک بچھڑے کو اس کی ماں کے سامنے ذبح کیا؟؟ اس کا کچھ بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس بچھڑے کی ماں آپ کے بچے کا مرنا مانگ رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا 

تُسَبِّـحُ لَـهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْـهِنَّ ۚ وَاِنْ مِّنْ شَىْءٍ اِلَّا يُسَبِّـحُ بِحَـمْدِهٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُـمْ ۗ اِنَّهٝ کَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا (44(

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے، بے شک وہ بردبار بخشنے والا ہے۔

 اگر کوئی استاد اپنے شاگرد سے بے توجہی برتے  چاہے کلاس میں ہو یا کلاس سے باہر لیکن اس کے اس کام سے اس کی توفیقات میں کمی واقع ہوجائے گی لیکن اگر اس کے مقابل میں کوئی اپنے شاگرد کو توجہ دے تو اللہ تعالی اس کو بہت ساری توفیقات سے نوازے گا۔

 بس ان آیات اور روایات اور حکایات کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ برے اعمال کے  برے  نتیجے اور آثار اس دنیا میں بھی اور  آخرت میں بھی ہوتے ہیں  اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ  ابھی عمل کا دن ہے حساب کا نہیں  لیکن پھر  بھی  اس  کی وجہ سے بہت ساری  مشکلات ہمیں اس دنیا میں گھیر لیتی ہیں اگر ہمارے برے اعمال کا حساب ادھر دینا ہوتا تو ہماری مشکلات اور بھی زیادہ ہوتیں۔

 ایک حدیث میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے مرتے ہیں یہ ان کی حتمی موت نہیں ہوتی بلکہ اجلِ بلا کا شکار ہوتے ہیں۔

 

خطبہ دوم

 

والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى‏القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‏ بن‏ الحسین و محمّد بن‏ علىّ و جعفر بن‏ محمّد و موسى ‏بن‏ جعفر و علىّ ‏بن‏ موسى و محمّد بن‏ علىّ و علىّ ‏بن‏ محمّد و الحسن‏ بن‏ علىّ و الحجۃ الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین

اُوصيکم و أدعوکم أيّها الإخوة و الأخوات الأعزّاء جميعاً و نفسي بتقوى الله

محترم نماز گزاران

و پیروکاران رسالت و امامت

 

پروردگار عالم سورۃ البقرۃ آیت 104 میں ارشاد فرماتے ہیں :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْـمَعُوْا ۗ وَلِلْکَافِـرِيْنَ عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ

اے ایمان والو! پیغمبر اکرم ﷺ سے گفتگو کرتے وقت (راعنا یعنی ہمیں مہلت دے) نہ کہو بلکہ (انظرنا یعنی ہماری طرف نظر کرم فرما) کہو اور ان کی بات سنا کرو ، اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔

 

اس آیت کی تفسیر میں ابن عباسؒ کہتے ہیں کہ اوائل اسلام میں جب پیغمبر اکرم ﷺ احکام اور آیات کو بیان کرنے میں مشغول ہوتے تھے تو بعض مسلمان اِن سے کہتے کہ ہماری رعایت کریں تا کہ ہم اس مطلب کو خوب سمجھ سکیں اور اپنے سوالات پوچھ سکیں ۔ راعنا یعنی ہمیں مہلت دے

لیکن یہود اس لفظ کو رعونا کے مصدر میں لیتے تھے کہ جس کا معنیٰ ہمیں احمق بنا دے کے ہیں ۔ یعنی اس طرح یہود مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔ قرآن نے فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر ایک کلمہ یا ایک جملہ جس سے دشمن خوش ہو جائے کبھی اپنے زبان پر جاری نہ کرنا ، ہاں البتہ کافروں کو درد ناک عذاب دیا جائے گا ۔ علامہ طباطبائیؒ نے لکھا کہ یہود نے اس کا معنی و مفھوم گالی دینے کے لیے ۔

کچھ مثالیں ایسی دی جاتی ہیں جن سے دشمنوں کو بہانہ ملتا ہے مثال کے طور پہ :

1۔   آ‏ئمہ اطھار علیہم السلام کے حرم مطہر کی طرف منہ کر کے سجدے کرنا ، اس سے مخالفین کو بہانہ ملتا ہے کہ یہ لوگ قبروں کو سجدہ کر رہے ہیں جبکہ سجدہ صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور قرآن میں آدم علیہ السلام کے لئے جس سجدہ کا ذکر ہے اس سے تعظیم کرنا مقصود تھا ۔

سورۃ البقرۃ آیت 34 اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے :

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَکْبَـرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِـرِيْنَ

اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا ۔

شیخ صدوقؒ نے امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کی کہ وہ فرماتے ہیں : کان سجودھم للہ عزوجل عبودیہ ، لآدم اکراما و طاعہ لکوننا فی صلبہ فرشتوں کا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا اللہ تعٰالیٰ کے لیے عبادی سجدہ تھا لیکن آدم علیہ السلام کے لئے تعظیم کرنا مقصود تھا اور یہ اس لیے کیونکہ ہم آدم علیہ السلام کے صلب میں موجود تھے ۔

2۔   9 ربیع الاول اور اس جیسے دیگر پروگرامات جن کے سبب سے اتحاد و اتفاق پر کیے گئے کاموں اور کوششوں پر پانی پھر سکتا ہے یا ان کاوشوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور ان باتوں سے مخالفین کو بھی بہانہ مل سکتا ہے ۔

سورۃ البقرۃ آیت 108 میں رب العزت نے بتوں کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے : وَلَا تَسُبُّوا الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ فَـيَسُبُّوا اللّـٰهَ عَدْوًا بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ کَذٰلِکَ زَيَّنَّا لِکُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَـهُـمْۖ ثُـمَّ اِلٰى رَبِّـهِـمْ مَّرْجِعُهُـمْ فَيُنَـبِّئُهُـمْ بِمَا کَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ

اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے ، اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے ، پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ۔

 

اس آیت کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد بھی یہ دلیل دینا کہ 9 ربیع الاول کے اجتماعات سے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا دل خوش ہوتا ہے ۔ تو عزیزان کیا سردار خاتون جنت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک عام قسم کی خاتون ہیں کہ جن کے دل میں لوگوں کے لئے بغض پایا جاتا ہے ؟

 ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ ہمیں ہر عمل انجام دینے سے قبل یہ سوچنا ہو گا کہ اگر یہ عمل بہترین ہو گا تو یقینا تمام انبیاء و اولیاء ، آ‏ئمہ طاہرین علیھم السلام ، شہداء و صالحین بندے خوش ہوں گے ، ہاں البتہ اگر بہترین نہ ہوا تو سب ناراض ہوں گے ۔

 

3۔   قرآنی واقعہ کہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائی اپنے باپ یعقوب علیہ السلام سے چاہتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں ۔

سورۃ یوسف آیت 12 (یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا سوال :

اَرْسِلْـهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَـعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَـهٝ لَحَافِظُوْنَ

کل اسے (یوسف علیہ السلام) ہمارے ساتھ بھیج دیں کہ وہ کھائے اور کھیلے اور بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں ۔

سورۃ یوسف آیت 13 (یعقوب علیہ السلام کا جواب

قَالَ اِنِّـىْ لَيَحْزُنُنِىٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْکُلَـهُ الـذِّئْبُ وَاَنْتُـمْ عَنْهُ غَافِلُوْنَ )انہوں (یعقوب علیہ السلام) نے کہا یہ مجھے غمناک کیے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جدا ہو جائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم اس سے بے خبر ہو جائو اور اسے (یوسف علیہ السلام) بھیڑیا کھا جائے ۔

روایت میں ملتا ہے کہ اُسی وقت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے ذہن میں آیا کہ ہم بھیڑیے کو درمیان میں لے آئیں گے اور ایک جھوٹی کہانی پیش کریں گے ۔ گویا یعقوب علیہ السلام متوجہ نہیں ہوئے لیکن اپنے بیٹوں کے ہاتھ میں بہانہ دے دیا ۔

4۔   اگر کسی مدرسے ، اسکول ، یونیورسٹی یا کسی ادارے کا انچارج غلطی کرتا ہے تو وہ افراد جو اس کے زیر نظر یا ماتحت کام کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی اس سے زیادہ غلطیاں کرتے رہیں گے ۔ شیخ سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے

اگر ز باغ رعیت ملک خورد سیبی     بر آورند غلامان او درخت از بیخ

اگر مالک اپنے باغ کے درخت سے خود ایک سیب کھا لے تو اس کے غلام تو پورے درخت کو اکھاڑ پھینک دیں گے ۔

مثال کے طور پر کسی مدیر یا انچارج کا بجلی زیادہ استعمال کرنا یا نماز باجماعت میں شامل نہ ہونا یا ڈیوٹی پر دیر سے جانا یا دوسروں کے اموال سے بغیر اجازت فائدہ اٹھانا ، ان سب باتوں سے وہ لوگ جو اس کے ماتحت کام کرتے ہیں انہیں بہانا ملتا ہے

 اور وہ ان غلطیوں کا تکرار کرتے رہتے ہیں ، کیوںکہ عوام الناس تو اپنے بادشاہوں کے اشاروں پر چلتے اور ہاتھوں پر کھیلتے ہیں ۔

کچھ اور مثالیں

5۔   جب مجتہدین عظام کا فتوٰی ہے کہ مکہ المعظمہ یا مدینہ المنورہ میں تقیہ کے طور پر یا عام حالت میں سجدہ گاہ کے بغیر اہلسنت امام جماعت کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتے ہیں تو پھر سجدہ گاہ رکھنے کی ضرورت نہیں ، صرف اس لیے کہ اس سے دوسروں کو بہانہ نہ مل جائے ۔

6۔   ہم سبھی کو چاہیے کہ نماز باجماعت اور نماز جمعہ میں شمولیت پر زیادہ توجہ دیں اور شامل ہوا کریں تا کہ مخالفین کو کوئی بہانہ نہ مل سکے ۔

7۔   قرآن کریم زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں اور اس کے ساتھ مانوس رہیں ۔

8۔   اپنے آپ کو اہل بیت علیہ السلام کا کتا بولنا یا ان کی جوتی کہنا ، یہ سب ایسی حرکات و کلمات ہیں جن سے مخالفین کو بہانہ ملتا ہے ۔ یہ سب کرنا یا کہنا امام حسین علیہ السلام کے مشن میں شامل نہیں ہے

 بلکہ آپ کے قیام کا مقصد انسانیت کی معراج ہے تا کہ انسانیت کو عزت و دوام ملے ناں کہ پستی و ذلت و رسوائی ۔

9۔   چاہیے یہ کہ پہلے ہم خود بے حیائی و پلیدگی کی طرف نہ جائیں اور بعد اس کے ہمارے بچے بچیوں کو بھی نہ جانے دیں ۔ ہماری بچیاں بیٹیاں اپنے حجاب کی پابندی کریں اور کسی بھی فساد کی طرف نہ جائیں تا کہ اس سے ہمارا مذہب اسلام بد نام نہ ہونے پائے اور کسی مخالف کو بہانہ نہ مل سکے ۔

امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے ۔

خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں ۔

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ