خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله ربِّ العالمين، نَحمدُه ونَستعينه ونَستغفرُه ونتوکَّل عليه ، ونُصلِّي و نُسلِّم على حبيبه و نَجيبه و خِيَرَته في خلقه و حافظ سرِّه و مُبلِّغ رسالاته ؛ سيِّدنا ونبيِّنا أبي القاسم المصطفى محمّد ، وعلى آله الأطيَبين الأطهرين المُنتجبين الهُداة المهديِّين المعصومين ، سيّما بقيّة الله في الأرضين، وصلِّ على أئمّة المسلمين وحُماة المستضعفين وهداة المؤمنين .
اما بعد اوصیکم عباد الله و نفسی بتقوه الله
محترم نماز گزاران و پیروکاران رسالت و امامت
السلام علیکم
سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
قرآن کریم کی رو سے تقوٰی کی اہمیت
قرآن کریم میں تقریبا 237 مقامات پر تقوٰی کا مفہوم ذکر ہے اور تقریبا 50 مقامات پر اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم آیا ہے ۔
تقوٰای سے کاموں میں برکت
تقوٰی یہ کہ اگر کسی نے اس میں کوتاہی نہیں کی تو اللہ تعالیٰ کے قرآن میں کیے گئے وعدے کے مطابق اس کی زندگی مشکلات سے نکل جائے گی اور اور اسی طرح اسے مشکلات میں تنہا نہیں چھوڑے گا ۔
سورۃ الطلاق کی آیات 2 اور 3 کی رو سے :
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ (3)
جو تقوٰی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مشکلات سے نکلنے کا راستہ دکھا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو ۔
ہم سب حضرت یوسف علیہ السلام کے اِس قصے سے بخوبی واقف ہیں جب زلیخا نے انہیں دعوت گناہ دی ۔ اگرچہ یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ سب دروازے بند ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ پہ توکل کیا اور بند دروازوں کی طرف چل پڑے اور تمام کے تمام دروازے کھلتے چلے گئے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اگر تم پر تمام دروازے بند ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے دروازے کی طرف جائو کیونکہ یوسف اور آپ کا خدا ایک ہی ہے ۔ پھر خدا نے اس امتحان اور تقوٰی کے اختیار کرنے کے بدلے میں یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر اور وہاں کے لوگوں کا معزز ترین فرد بنایا ۔
تقوٰی اور ہدایات الہٰی
اگر ہم تقوٰی دار نہ بنیں تو ہدایت سے دور ہی نہیں بلکہ آیات قرآن سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو وسیلہ قرار دیا ہے و لیکن سب کے لیے نہیں ۔ بلکہ صرف ان لوگوں کے لیے ، جو تقوٰی دار ہوں ۔
سورۃ البقرۃ کی آیت 1 میں واضح ہے کہ :
ذلِکَ الْکِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے ) اور ڈرنے (متقین) والوں کی رہنما ہے ۔
پس جو متقی نہ ہوں ، ان کے لیے یہ کتاب سبب ہدایت نہیں بلکہ سبب خسارہ و بربادی ہے ۔
سورۃ الاسراء آیت 82 اس نکتہ کو واضح کرتا ہے :
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے
چنانچہ سورج پھول پر بھی چمکتا ہے اور مٹی پر بھی ۔ لیکن سورج کی چمک سے پھول کھِلتا اور خوشبو دیتا ہے و لیکن مٹی سخت اور بے جان ہو جاتی ہے ۔
تقوٰی کے لغوی معنٰی و مفہوم
- تقوٰی ! یعنی حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سمجھیں ۔
- تقوٰی ! یعنی ہم وہاں ہوں جہاں خدا چاہتا ہے ، وہاں بالکل نہیں جہاں نہیں چاہتا ۔
- تقوٰی ! یعنی قرآن میں جو واجبات ذکر ہوئے ہیں ان پر عمل کریں اور محرمات سے دور رہیں ۔
میں آپ تمام دوستان کو زبان کے تقوٰی کی دعوت دیتا ہوں ۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیوں زبان کے تقوٰی کی دعوت دے رہے ہیں ؟
زبان کی تقویٰ
ڑبان تمام اچھے اور برے کاموں کی چابی ، کیونکہ امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ :
إِنَّ هَذَا اَللِّسَانَ مِفْتَاحُ کُلِّ خَيْرٍ وَ شَرٍّ
بے شک یہ زبان ہر اچھے اور برے کام کی چابی ہے ۔
یعنی اگر اپنی زبان کو قابو میں رکھا تو گناہوں سے بچ سکتا ہے ، لیکن اگر نہ رکھا تو گناہوں میں مبتلا ہو جائے گا ۔
انسان کی عاقبت کا سبب
کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہترین نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، اہل جمعہ اور جماعت ہیں لیکن ان کی زبان ان کے قابو میں نہیں ۔ تو ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ سے کہا گیا کہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے اور رات عبادات میں گزارتی ہے لیکن بہت بد اخلاق ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے اذیت بھی دیتی ہے ، تو جواب میں فرمایا کہ :
لا خَيرَ فيها، هِي مِن أهْلِ النّارِ
اسے یہ عبادات کوئی فائدہ نہ دیں گی اور یہ کہ وہ جہنمی ہے
زبان کے تقوٰی کے مصادیق
ہم جو زبان کے تقوٰی کے بارے میں بات کر رہے ہیں ، اس کے بارے میں آیات قرآنی بھی موجود ہیں ۔ ان میں کچھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں :
قول سدید
سورۃ الاحزاب آیت 70 :
یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ قُولُوا قَوْلًا سَدِیداً
اے مومنو تقوٰی اختیار کرو اور قول سدید کہا کرو
لیکن قول سدید ہے کیا ؟
سدید کا مصدر سد ہے یعنی محکم اور سیدھا ۔ اس طرح کہ اس میں کوئی خلل نہ ہو اور واقعیت کے عین مطابق ہو ۔ بالکل اسی بند کی طرح جو پانی کی موجوں کو روکنے کے لیے ڈالا جاتا ہے ۔ اسی طرح قول سدید کے ساتھ فساد اور باطل کا موج روکا جاتا ہے ۔
یعنی ایسی بات کرو کہ اس میں کوئی خلل نہ آئے اور کوئی اعتراض نہ کر سکے ۔ وہ باتیں جو غصے میں کی جاتی ہیں وہ قول سدید نہیں اور اسی طرح جو باتیں خوشی میں کی جاتی ہیں وہ بھی قول سدید نہیں ہیں ۔ اسی طرح وہ باتیں جن پر غور نہ کیا جائے وہ بھی قول سدید نہیں ہوتیں ۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا :
إِذَا أَرَدْتَ أَمْرًا فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ
جب آپ کوئی کام انجام دینے کا ارادہ کریں تو اس کی عاقبت (اختتام) کو بھی دیکھیں کہ اچھا ہے یا برا ۔
یعنی یہ کام یا بات جو میں کر رہا ہوں اس کا اچھا نتیجہ ہو گا یا برا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی بات سے کسی کو تکلیف ہو جائے یا کسی کی دل آزاری ہو یا عزت و آبرو چلی جائے اور کوئی فتنہ و اختلاف وجود میں نہ آ جائے ۔
قول عدل
زبان کے تقوٰی کا معیار عدل ہے ۔
سورہ الانعام آیت 152 میں ارشاد خداوندی ہے :
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ
اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو
عدالت
عدالت ، ہم کردار اور ہم گفتار میں ایک اصل ہے ۔ عدالت یعنی ، ہر شے کا اس کی مخصوص جگہ پر رکھنا ۔ یعنی وَضْعُ کُلِّ شَيءٍ في مَوْضِعِه پس اگر کوئی کسی کی حد سے زیادہ تعریف یا بقول معروف چاپلوسی کرے ، یہ قول عدل نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی کسی سے اعتراض کرے اور یہ حد سے زیادہ معترض ہو جائے تو یہ بھی قول عدل نہیں ہوتا ۔ قول عدل کا مطلب یہ ہے کہ وہ اتنا کہا جائے جو اس کے عین مطابق ہو ۔
روایت میں ہے کہ مومن کے سامنے اس کی تعریف نہ کریں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس سے غرور میں پڑ جائے ، پس یہ بھی قول عدل نہیں ہے ۔ حتیٰ اگر کوئی بہت زیادہ باتیں کرتا ہے وہ بھی قول عدل نہیں ۔
قول حسن یعنی بہترین قول
زبان کے تقوٰی کا قرآن کے مطابق تیسرا معیار قول حسن اور بہترین کلام ہے ۔ یعنی جب میں بات کروں تو اس میں اچھے الفاظ استعمال کروں ۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی اایت 83 میں ہے :
وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً
لوگوں کے ساتھ اچھے الفاظ میں کلام کرو
کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کے ضمن میں نقل ہوا ہے :
وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً
لوگوں کے ساتھ ان الفاظ میں بات کرو کہ جن الفاظ کا تم اپنے بارے میں چاہتے ہو یا جن الفاظ و آداب میں آپ سے بات کی جائے ۔
اصول کافى ج 2 ، ص 165 ، ح 10
مثال کے طور پہ تشریف رکھیے یا بیٹھو ، دونوں کا معنیٰ ایک ہی ہے لیکن میں کیا پسند کرتا ہوں کہ کوئی کہے کہ تشریف رکھو یا بیٹھو ۔ اسی طرح تم اور آپ ایک معنیٰ میں ہیں لیکن جب میں دوسروں کے ساتھ ہوں تو کیا پسند کروں گا ، تم یا آپ ۔ ٹھیک اسی طرح آپ دوسروں کو بھی مخاطب کیجئے ۔ اسے قول حسن کہا جاتا ہے اور اس کا اچھا خاصہ اثر بھی ہوتا ہے ۔ فرض کیجیے آپ کو ایک بہترین ریسٹورینٹ میں دعوت دی جائے تو آپ کیا پسند کریں گے کہ پاک صاف و مزین برتنوں میں کھانا کھائیں یا گندے برتنوں میں ؟ تو آپ کا مخاطب یعنی دیگر افراد بھی یہی پسند کرتے ہیں یا آپ ان کے لیے بھی یہی پسند کریں ۔
قول لین یعنی نرم لہجے میں بات کرنا
جو لوگ ہمارے ارد گرد ہیں یا تو ہمارے خاندان والے ہیں یا پھر دوست اور یا ہم وطن ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے جب ہم دشمنوں کے سامنے رو برو ہوتے ہیں ۔ البتہ دشمنوں سے مراد واقعی دشمن ہیں جیسے کفار ناں کہ وہ جو کچھ مدت کے لیے دشمن بن جاتے ہیں ۔ اب یہاں ایک ضروری نکتہ یہ ہے کہ جیسے قرآن نے بھی فرمایا ، حتیٰ کافروں کے ساتھ بھی نرم لہجے میں بات کرو اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ جب ھارون کے ساتھ فرعون کو دعوت دینے جائیں تو نرم لہجے سے بات کرو ۔
سورۃ طہٰ آیت 44 اس بات کی مصداق ہے :
فَقُولا لَهُ قَوْلًا لَیِّناً لَعَلَّهُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشى
ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو کہ شاید انہیں خیال آ جائے یا پھر خدا سے ڈر جائیں ۔
بارش اگرچہ بہت نرم اور خدا کی رحمت ہے لیکن جب زور و شور سے برستی ہے تو لوگ اس سے بچنے کے لیے بھاگتے ہیں ۔ کچھ لوگ اچھی بات کرتے ہیں لیکن سختی سے کرتے ہیں ، ان سے کہا جاتا ہے کہ نرمی سے بات کرو ۔
قول کریم (اگر برا بولے تو اچھا جواب دو)
قول کریم کیا ہے ؟ یعنی اگر کوئی سختی یا برے طریقے سے بات کرے تو آرام یا نرمی سے جواب دیں ۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی برا بھلا کہے تو میں اچھا جواب دوں ۔ قرآن نے اس جیسی باتوں کا اور خاص کر کہ والدین کے لیے ذکر کیا ہے ۔ کبھی کبھی جوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ جب والدین میری بے احترامی کرتے ہیں تو میں کیا کروں ۔ تو سورۃ الانعام آیت 23 میں ارشاد ہوا :
فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا کَرِيمًا
اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا
اسی متن میں امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کو ترک کرنے کی بالکل اجازت نہیں دی ہے ، اس میں سے ایک اپنے والدین سے نیکی کرنا اگرچہ وہ برے ہی کیوں نہ ہوں ۔
اصول کافی، ج 2، ص 129، ح 15
جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک نئے نو مسلم کو اس کے مسیحی والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی نصیحت کی ۔
پس ہر حالت میں اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور انہیں خوش رکھنا اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس سے وہ ہمارے لیے دنیا و آخرت کی سعادت لے آتے ہیں ۔
همان، ص 128، ح 11
خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان انوار جلیل القدر ہستیوں کی تعلیمات کو اپنانے اور نظام ولایت کے محافظان و پیروکاران بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر . ان الانسان لفی خسر . الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات . و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر .
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
والحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین المعصومین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته فاطمة الزّهراء و الحسن و الحسین سیّدى شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّدبن علىّ و جعفربن محمّد و موسى بن جعفر و علىّ بن موسى و محمّدبن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الخلف القائم المهدىّ صلواتک علیهم اجمعین
اُوصيکم وأدعوکم أيّها الإخوة والأخوات الأعزّاء جميعاً ونفسي بتقوى الله
محترم نماز گزاران
و پیروکاران رسالت و امامت
آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ کل حضرت معصومہ سلام اللہ علیہ جو امام کاظم علیہ السلام کی دختر اطہر اور امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہیں ، کا یوم وفات ہے ۔
میں خطبہ دوم کو اس ہستی کی احترام اور ان کے ساتھ منسوب کرتا ہوں ۔ کل اُس بی بی کی رحلت کا دن ہے جس کے بارے میں کامل زیارات میں اس طرح نقل ہوا کہ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا کہ : مَنْ زارَ عَمَّتی بِقُمْ فَلَهُ الْجَنَّهُ
جس نے میری پھوپھی کی زیارت کی اس کیلئے جنت ہے ۔
یہ وہ جلیل القدر ہستی ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام سے زیارت نامہ نقل ہوئی ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کی زیارت پرنور علماء کی توجہ کا مرکز ہے ۔ آیت اللہ تقی بہجت دامت برکاتہ ہر دن آپ کی زیارت کرتے تھے ۔
علامہ طباطبائی جو صاحب تفسیر المیزان ہیں وہ ہر روز بی بی کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور رمضان کے روزوں کا افطار بی بی کی قبر کو بوسہ دے کر کیا کرتے تھے اور عمر بھر اس اعمال کو انجام دیا ۔
مقام شفاعت
بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کی صفات مخصوصہ میں سے ایک ان کی شفاعت ہے ۔ آپ کے اس مقام و منزلت کے بارے میں یہی کہنا کافی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :
اَلَا اِنَّ لِلْجَنَّهِ ثَمَانِیَهَ اَبْوَابٍ ثَلَاثَهٌ مِنْهَا اِلَی قُمَّ تُقْبَضُ فِیهَا امْرَاَهٌ مِنْ وُلْدِی اسْمُهَا فَاطِمَهُ بِنْتُ مُوسَی وَ تُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا شِیعَتِی الْجَنَّهَ بِاَجْمَعِهِمْ
جنت کی آٹھ دروازے ہیں ان میں سے تین شہر قم کی طرف کھلتے ہیں ۔ شہر قم میں میری اولاد میں سے ایک معظمہ دفن کی جائیں گی جن کا نام فاطمہ بنت موسٰی ہے ۔ اس کے ذریعے ہمارے سب شیعہ جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔
اسی طرح آپ کے معنوی مقام و منزلت اس اوج پر ہیں کہ آپ کے زیارت نامے میں امام رضا علیہ السلام نے یوں فرمایا کہ :
یا فاطِمَهُ اشْفَعی لی فی الْجَنَّهِ ، فَانَّ لَکِ عِنْدَ اللَّهِ شَاْناً مِنَ الشَّاْنِ
اے فاطمہ ! جنت میں میری شفاعت کریں کیونکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک آپ کا بہترین مقام و شان ہے
شفاعت کے بارے میں شیخ عباس قمی علیہ الرحمۃ سے نقل ہوئی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتا چلوں کے وہ کہتے ہیں کہ : میں نے عالم خواب میں مرحوم میرزا ابو القاسم گیلانی جنہوں نے کتاب قوانین الاصول لکھی اور مرحوم میرزا قمی کے نام سے مشہور تھے کو دیکھا ۔
میں نے پوچھا کہ کیا حضرت بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا فقط اہلیان قم کی شفاعت کریں گی ؟ میرزا نے جب یہ سنا تو سخت ناراض ہوئے اور غصبناک انداز سے مجھے دیکھا اور بولے کہ تم نے یہ کیا کہ دیا ؟ میں نے پھر سوال تکرار کیا تو انہوں نے پھر غصے سے کہا کہ اے شیخ کیوں اس طرح سوال پوچھتے ہو ۔
اہل قم کی شفاعت تو میں کروں گا ، بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا تمام جہان کے شیعوں کی شفاعت کریں گی ۔
محترم نماز گذاران ! حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی شفاعت کوئی معمولی شفاعت نہیں ہے اسی لیے چاہتا ہوں شفاعت کے بارے میں مزید گفتگو کروں اور دو یا تین نکات بیان کروں ۔
شفاعت کے معنیٰ
شفاعت کا اصطلاح میں وساطت سے معنی کیا گیا ہے ۔
مثال کے طور پر ہم روز مرہ گفتگو میں ایک با اعتماد آدمی کی وساطت سے کسی مجرم کو معاف کیا کرتے ہیں یا پھر اس کی حاجت روائی کرتے ہیں ، اسے شفاعت کہا جاتا ہے ۔ البتہ یہ شفاعت کی لغوی معنیٰ ہے کیونکہ شفاعت کہ جس کا مصدر شفع ہے اس کا معنی ہے زوج یعنی در (2) ۔ یہ وتر کے مقابلے میں ہے اور وتر کے معنیٰ فرد کے ہیں ۔
ایک گروہ شفاعت کا غلط مطلب نکالتا ہے کیونکہ شفاعت کا مطلب پارٹی بازی کے نہیں اور اسی طرح شفیع خدا سے زیادہ مہربان بھی نہیں ہے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شفاعت کی طلب تب ہوتی ہے کہ جب اللہ معاف نہیں کرتا ۔ لیکن پھر شفیع کی وساطت سے معاف کر دیتا ہے تو لہٰذا شفیع خدا سے زیادہ مہربان ہوتا ہے ۔ یہ غلط بات ہے کیونکہ شفاعت کرنے والا اللہ کی اجازت سے ہی شفاعت کرتا ہے
اور جب تک اللہ کی اجازت نہ ہو تو شفاعت کوئی معنٰی نہیں رکھتی ۔ شفاعت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔
شفاعت کی دوسری معنی (دو چیزوں آپس میں ملنا) سے کیا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ دو چیزیں ایک جنس سے ہوں یا ایک دوسرے کے ساتھ سخنیت رکھتی ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی زمیندار چاہے کہ کسی درخت میں قلم لگائے تو ہر قلم کو اس کے درخت میں لگاتا ہے ۔ مثلا سفید انگور کی قلم کو کالے انگور کے پودے میں لگاتا ہے اور اسی طرح اور درختوں کو بھی ۔ لیکن اگر انگور کی قلم کو توت کے درخت یا سیب کے درخت میں لگائیں تو وہ قلم کبھی زرخیز نہیں ہوگی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام جس نے کربلا کے میدان میں نماز کو ترک نہ کیا وہ ایک ایسے شخص کی شفاعت کیسے کریں گے جو نماز نہ پڑھتا ہو ؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :
إِنَّ شَفاعَتَنا لَنْ تَنالَ مُسْتَخِفّاً بِالصَّلاةِ
ہماری شفاعت اس شخص کو ہرگز نصیب نہ ہو گی جو نماز کو سبک شمار کرتا ہوں
شفاعت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم عمل میں سست ہو جائیں ۔ شفاعت ، شیعیان کے اعتقادات میں سے ایک ہے ابتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم سست ہو جائیں اور اعمال نہ بجا لائیں ۔
ایک عالم دین نے نقل کیا کہ جب حاجب شاعر نے شفاعت کا غلط مطلب لیا اور اس طرح شعر لکھا :
حاجب اگر معامله حشر با علي است
من ضامنم تو هر چه بخواهي گناه کن
حاجب اگر شفاعت علی کے ہاتھ میں ہے تو میں ضامن ہوں تو جتنا چاہے گناہ کر
یہ شعر کے لکھنے کے بعد اُس نے امام علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ وہ بہت غصے میں ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا : تم نے اچھا شعر نہیں لکھا ۔
تو میں نے کہا مولا میں کیسے اشعار لکھوں ؟ امام علیہ السلام نے اس شعر کی اس طرح تصحیح کی :
حاجب اگر معامله حشر با علي است
شرم از رخ علي کن و کمتر گناه کن
حاجب اگر حشر میں بات (عدل و انصاف) علی کے ہاتھ میں ہے تو علی سے شرم کر اور گناہ نہ کر
شفاعت کی قسمیں
جو نکتہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی شفاعت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ شفاعت کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ شفاعت کہ جس میں انسان کی مغفرت کی جاتی ہے اور دوسری وہ شفاعت کہ جس میں انسان کی ترقی ہوتی ہے ۔
اب تک جو کچھ بھی ہم نے سنا ہے وہ پہلی قسم کی شفاعت ہے ۔ اس شفاعت کا مطلب یہ کہ جب ایک انسان قیامت میں اپنے اعمال کی بدولت جہنم جانے کا مستحق بن جاتا ہے لیکن پھر مصلحت کی بنا پر شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی اس کا شفاعت کرتا ہے تو وہ بہشت میں چلا جاتا ہے ۔
شفاعت کی دوسری قسم جس میں ترقی دی جاتی ہے ۔ یہ گناہگاروں کے لیے نہیں بلکہ ان کے لیے ہے جو بہشت میں جاتے ہیں لیکن وہ بہشت کی کسے نچلے طبقے میں ہوتے ہیں تو تب ان کی شفاعت کی جاتی ہیں اور وہ ترقی کر کے بہشت کے اونچے درجوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔
ہم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں کہ :
یا فاطمه اشفعی لنا فی الجنه
اے فاطمہ میری جنت میں شفاعت کر۔ تاکہ بہشت میں میری مقام اور منزلت اوپر جائیے
آیت اللہ مرعشی نجفی ؒ فرماتے ہیں کہ ، میں نے عالم مکاشفہ میں دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی اور مجھ سے کہا گیا کہ تم جنتی ہو اور بہشت میں چلے جاؤ اور اس سیڑھی سے اوپر جاتے رہو جہاں تک جا سکتے ہو ۔ کہتے ہیں کہ میں اوپر جاتا گیا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچا کہ جب اوپر دیکھا تو وہاں امام علی علیہ السلام موجود ہیں اور ان کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا جام ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ شہاب الدین آجاؤ یہ پانی پیو ۔ تو میں جہاں تک اوپر جا سکتا تھا چلا گیا ، لیکن ایک مقام پر میں نے بہت کوشش کی لیکن لیکن اس سے آگے اوپر نہ جا سکا ۔ تب امام علی علیہ السلام نے فرمایا کی کوئی بات نہیں میں نیچے آتا ہوں اور آپ کو اپنے ہاتھ سے پانی دے دیتا ہوں ۔ یوں میں نے امام علیہ السلام کے ہاتھ سے پانی لیا اور پی لیا ۔
اسے دوسرے قسم کی شفاعت کہا جاتا ہے ۔ شفاعت ارتقائی یعنی انسان بہشت میں بھی ہوتا ہے لیکن بہشت میں اس کے مقام کو بڑھا دیا جاتا ہے اور یہ سب ان لوگوں کے لئے ہیں کہ جو بہشت میں ہوتے ہیں ۔
روایت ہے کہ جب حورالعین بہشتی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ خدایا تو نے ہمیں اپنے صالح بندوں کے لئے پیدا کیا تھا لیکن وہ لوگ ہماری طرف نہیں آتے اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کہاں پر ہیں تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ وہ لوگ قیامت کے صحرا میں ایک طرف ابا عبداللہ الحسین کے اردگرد جمع ہوچکے ہیں
تم لوگ بھی ادھر جاؤ ۔ یہ حورالعین ان کی طرف چلی جاتے ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں تم لوگوں کے لئے پیدا کیا ہے تو پھر تم لوگ ہماری طرف کیوں نہیں آتے ہو ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر !
روایت ہے کہ وہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے جمال کی زیارت کرنے میں اتنے مست ہوتے ہیں کہ وہ ایک لحظے کے لئے بھی حور العین کی طرف نہیں دیکھتے ۔
لیکن دوسری روایت میں ہے کہ کچھ بہشتی لوگ 700 سال میں ایک مرتبہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کر پائیں گے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنت کے بھی اپنے مراتب اور مقامات ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان دو روایات کو اگر دیکھا جائے تو کہاں وہ لوگ جو ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کے سامنے چار زانو بیٹھ کر زیارت کر رہے ہوتے ہیں
اور کہاں وہ لوگ جو سات سو سال میں ایک مرتبہ زیارت کے لیے آتے ہیں ۔ لہٰذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کر سکتی ہیں کہ وہ ہمارے لئے بہشت میں شفاعت ارتقائی کریں ۔
امید کرتا ہوں کہ آپ مومنین و مومنات ان گذارشات پر عمل پیرا ہوں گے
خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر …
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
|