۱۳۹۸/۸/۱۰   8:10  بازدید:1998     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


03 ربیع الاول 1441(ھ۔ ق) مطابق با 01/11/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبہ اول

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ اور بعد میں تمام بندگان خدا کو تقوٰی الہٰی و بندگی کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

وہ لوگ جو مساجد میں آتے ہیں ، تقوٰی کے لحاظ سے انہیں زیادہ متقی و پرہیز گار ہونا چاہیے ۔ لہٰذا جس حد تک ممکن ہو تقوٰی اختیار کرو کیونکہ انسان کو اس حد تک متقی بننا چاہیے کہ اس آیت کا مصداق بن جائے اور خداوند متعٰال اس پر طرح طرح کی رحمات نازل فرمائے ۔

 

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ نوح کی آیات 11 اور 12 میں فرماتا ہے :

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا (11)  وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا (12)

وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) بارش برسائے گا ، مال و اولاد سے امداد کرے گا ، تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور ان میں تمہارے لیے نہریں بنا دے گا ۔

 

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی !

محرم و صفر دو اہم ماہ ہم سے جدا ہو چکے ، جن میں ہم نے ابا عبداللہ الحسین پر بے پناہ گریہ و زاری و ماتم کیا ۔ خداوند متعٰال ان عبادات و زحمات کو قبول فرمائیں ۔ اب ماہ مبارک ربیع الاول شروع ہو چکا ہے اور یہ وہ ماہ ہے جس میں قطب عالم امکان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ یہ ولادت برادران اہل سنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور مکتب تشیع کے نزدیک 17 ربیع الاول کو ہوئی ۔ اس ماہ کی دوسری مناسبت ولادت باسعادت حکیم تشیع آقا امام صادق علیہ السلام ہے ۔

 

ہم نے جس جوش و جذبے اور نہایت احترام کے ساتھ جتنا ہو سکا اہل بیت اطہار علیہم السلام کا غم منایا بالکل اسی جوش و جذبے کے ساتھ خوشی بھی منانی چاہیے ۔ کیونکہ شیعہ وہ ہے جو اہل بیت علیہم السلام کی خوشیوں میں خوش رہے اور غم میں غمگین ہو ۔

 

ہمارا اصل موضوع تقویٰ ہے اور اس پر مسلسل بات کرتے آ رہے ہیں ۔ چاہتا ہوں اس پر مزید بات کروں ۔ آقا امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث کہ :

ایک مسلمان تبھی متقی بن سکتا ہے جب اس میں یہ 10 صفات پیدا ہو جائیں ۔

 

1  لوگوں کو اس سے خیر کی امید ہو یعنی اگر کوئی اس سے مشورہ یا مدد مانگے تو خیر کی توقع کریں کہ وہ اچھا مشورہ دے گا اور خیر (امداد) کرے گا ۔

2  لوگ اس کے شر سے امان میں ہوں اور یہ بات حکومتوں کے لیے بھی ہے ۔ یعنی مسلمان حکومت ایسی ہونی چاہیے کہ دیگر جملہ عوام الناس ان کے شر سے محفوظ رہیں ۔ پس وہ حکومت اور لوگ جن کی شر سے عوام الناس امان میں نہ ہوں وہ کھبی بھی متقی اور پرہیز گاروں کی حکومت نہیں ہوسکتی ۔

3  لوگوں کی طرف سے اگر بہت کم خیر اور اچھائی میسر آئے تو اسے زیادہ  شمار کرے ۔

4  اپنی طرف سے دوسروں کے ساتھ  جتنی زیادہ نیکی کرے اسے کم سمجھے ۔

5  اگر لوگ اس سے کوئی حاجت رکھیں تو وہ حاجت روا ہو یعنی لوگوں کے رجوع کرنے پر ناراض نہ ہو جائے ۔ لوگ جتنا زیادہ رجوع کریں وہ اتنا ہی خوش رہے ۔

6  اپنی تمام تر زندگی تلاش و حصول علم میں گزارے ۔

7  اگرچہ راہ خدا میں فقیر و تنگ بھی ہو جائے پھر بھی راہ کفر میں مالداری و ثروت مندی سے عزیر تر اور بہتر ہو ۔

8  راہ خدا میں ذلت و رسوائی اور راہ ظلم میں عزت سے بچنا زیادہ پسند کرتا ہو ۔

9  شہرت پسندی پر گمنامی کی زندگی گزارنا زیادہ عزیز رکھتا ہو ۔ اگر کسی کی خدمت کرنا یا صدقہ دینا چاہے تو بے نامی پسند کرتا ہو یعنی کہیں اس کا نام نہ آنے پائے ۔ جیسے کچھ شہدا ایسے تھے جنہیں یہ زیادہ پسند تھا کہ بعد شہادت ان کا نام پوشیدہ رہے ۔ ایسے تمام شہدا کو آج بھی شہدائے گمنام کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

10  متقی وہ ہے جو ہمیشہ دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھے ۔ کیونکہ لوگ دو قسم کے ہیں ، ایک وہ جو بہترین ہیں اور دوسرے وہ جو انسان کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ لیکن متقی مسلمان وہ ہے جو ان لوگوں ( جو اسے برا سمجھتے ہیں ) کو بھی اپنے سے بہتر سمجھے ، یعنی یہ کہ ان کا باطن زیادہ اچھا ہے ۔ اور جب کسی پرہیزگار و متقی انسان کو دیکھیں تو ان کے سامنے خاکساری و تواضع سے کام لیں اور ان کا احترام کریں ۔ اگر کوئی بھی انسان اس درجے پر فائز ہو جائے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے ، ان کا نام اچھے لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے اور یقینا دوسرے لوگوں کے لئے سرور و سالار بن جاتا ہے ۔

 

خداوند متعٰال ہم سبھی کو ان دس صفات کے اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

 

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

خطبہ دوم

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی

 

تقوٰی کا بلند ترین مقام وہ ہے جب انسان اہل بیت علیہم السلام کے غم میں غمگین اور خوشیوں میں خوش ہو ، ٹھیک اسی طرح مومنین کی خوشیوں پر بھی خوش اور غموں پر غمگین ۔

 

اس خطبے میں کچھ نکات عالمی رہنما حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے یونیورسٹی افسران و منتظمین سے ملاقات میں دیے گئے پیغام کے حوالے سے بیان کرتا چلوں ۔ دراصل ان پیغامات کو تمام سوشل میڈیا ، ٹیلی ویژن چینلز ، ریڈیو اور اخبارات پر نشر ہونا چاہیے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ عراقی عوام کے لئے میرا پیغام ہے کہ جن حقوق کے مطالبات کے لیے ہنگامہ کر رہے ہیں ، وہ حق بجانب ہیں لیکن جس انداز سے کر رہے ہیں یہ درست نہیں ۔ دیگر افراد کے اموال و اثاثہ جات کو نقصان پہنچانا ، توڑ پھوڑ کرنا یہ صرف استعماری سازش کا حصہ اور ہتھکنڈے ہیں ناں کہ اپنے مطالبات کو منوانے کا راستہ ۔ لہذا ایسے مظاہرات کا ترتیب دینا جن میں عوامی اموال و اثاثہ جات کو نقصان پہنچے ، یہ کبھی بھی درست نہیں ۔

 

مومن ہمیشہ مخزون ( غمزدہ ) ہوتا ہے لیکن صحیح مومن وہ ہے جو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاران کی خوشیوں پر خوش رہے ، یعنی اس کی خوشی اس کے منہ پر ہو لیکن اس کا غم اس کے دل میں ہی رہے ۔ ہمیں ہمیشہ گلاس کا بھرا ہوا حصہ دیکھنا چاہئے نہ کہ اس حصے کو جو خالی ہے ۔

 

خوشیوں کے لحاظ سے کچھ نقاط عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں خوشیوں میں کیا کرنا چاہیے اور کس طرح منانا چاہیے ۔

 

1  خوشیوں میں ہمیشہ تفکر کرنا چاہیے ۔

جیسا کہ خداوند متعٰال نے سورۃ العنکبوت کی آیت 20 میں ارشاد فرمایا :

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ کُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

کہہ دو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس ( خداوند متعٰال ) نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ، بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔

 

آسمان و زمین اور لوگوں کی عاقبت کو دیکھ کر اس سے عبرت حاصل کرو ۔

2  کچھ لوگ خوشی کے موقع پر آلات موسیقی و گانے بجانے سے اظہار مسرت کرتے ہیں ۔ دراصل اسلام ایسی خوشی کی کبھی اجازت نہیں دیتا ، یہ اصلا حرام ہے ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ بس ایک ہی رات کی ہی تو بات ہے تو یہ بھی کافروں والی بات ہے ۔

 

شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

برگ درختان سبز پیش خداوند هوش             هر ورقی دفتریست معرفت کردگار

سرسبز درخت خدائی معرفت کی ایک مکمل کتاب ہیں اور ہر پتے ( صفحہ ) پر معرفت کندہ ہے اور اپنے آپ میں ایک دلیل معرفت ہے ۔

 

دوسری جگہ فرمایا :

ابر و باد و مه و خورشید و فلک در کارند      تا تو نانی به کف آریّ و به غفلت نخوری

یہ بادل ، ہوا ، چاند ، سورج اور آسماں سب اسی لیے کام کر رہے ہیں کہ تمہیں روٹی مل جائے اور پھر آپ اس روٹی کو غفلت کے ساتھ نہ کھائیں ۔ لہٰذا ہمیں زمین اور آسمان اور مخلوقات کی فکر کرنی چاہئے اور اپنی خوشی کے اوقات  کو حرام کاموں میں نہیں گزارنا چاہیے ۔

 

3  خوشی میں حرام کام نہ کریں ۔

4  گناہ نہ کریں مثلاَ گانے بجانے اور فحش ویڈیوز یا فلمز نہ دیکھیں ۔ خداوند متعٰال کچھ خوشیاں اپنے بندوں کے دامن میں ڈال دیتا ہے ۔

جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت 170 میں ارشاد ہوا :

فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر خوش ہیں اور جو لوگ ان سے پیچھے ہیں یا ( شہید ہو کر ) ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں ( روز قیامت ) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ( غمزدہ / غمناک ) ہوں گے ۔

 

یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ خداوند متعٰال نوازتے ہیں اس پر خوشی منائیں اور جو کچھ لے لیتے ہیں اس پر غم نہ کریں ۔

 

اسی طرح سورۂ الحدید آیت 23 میں فرمایا :

لِّکَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ 

اور جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج نہ کرو اور جو تمہیں دے اس پر اتراؤ (غرور نہ کرو) نہیں اور اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا ۔

 

5  وہ خوشیاں جو خداوند متعٰال کی طرف سے لوگوں کو ملتی ہیں ان میں سے ایک شادی یعنی ازدواج ہے ۔ خداوند متعٰال نے انسان کو ایک بہت اہم سرمایہ محبت تحفتاً دیا ہے ۔ تو کیوں یہ عظیم تحفہ بغیر شادی یا ازدواج کے غلط راہوں پر استعمال کیا جاتا ہے یا پھر انسان مٹا دیتا ہے ۔

 

خاتم المرسلین سردار انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما من بنا‏ء فی الاسلام احب الی اللہ من التزویج

خداوند متعٰال نے اسلام میں جو بنیادی اجزاء رکھے ہیں ان میں سب سے پسندیدہ جز شادی (ازدواج) ہے ۔ کیونکہ شادی (ازدواج) کے ذریعے خداوند متعٰال مرد و عورت کی مادریت کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے ۔

 

پھر فرماتے ہیں :

اتحذوا الاھل فانه ارزق لکم

شادی (ازدواج) کرو کیونکہ اللہ تعالی رزق دیتا ہے ۔

 

پس خداوند متعال پر اس سے زیادہ بدگمانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص فقر کی وجہ سے شادی نہ کرتا ہو۔ یہ مسلمان نہیں کرتا بلکہ کافر کر لیتا ہے ۔

 

خداوند متعٰال قرآن کریم کی سورۃ النور آیت 32 میں ارشاد فرماتا ہے :

وَأَنکِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنکُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ ۚ إِن يَکُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

اور جو تم میں مجرّد ہوں یا تمہارے جو غلام اور لونڈیاں نیک ہوں سب کے نکاح کرا دو ، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ کشائش والا ، سب کچھ جاننے والا ہے ۔

 

اس ہفتے کی دوسری بڑی مناسبت لَیلَۃ المَبیت ہے ۔ یہ وہ رات ہے جب امیر المومنین علی علیہ السلام رسالت مآب چراغ روشنی ہدایت پیکر دو جہاں محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر اطہر پر سوئے اور پیغمبر خدا نے ہجرت فرمائی ۔

 

رسول اللہ نے امیر المومنین سے فرمایا : علی آج رات چالیس آدمی میرے قتل کی نیت سے حملہ کریں گے تو کیا آپ میری جگہ پہ سو سکتے ہیں ؟ وارث منبر سلونی و ید اللہ نے برجستہ کہا : کیا اس سے آپ کی جان امان میں ہو گی ، چنانچہ رسالت مآب نے فرمایا ہاں تو مولائے متقیان و محافظ نبوت و رسالت کے بستر پر سو گئے ۔

 

اس واقعے کو قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 207 میں اس طرح بیان فرمایا :

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان بھی بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ۔

 

خداوند متعٰال ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بننے کی توفیق عطا‏ فرمائیں ۔

 

علی لعنت الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون