۱۳۹۸/۷/۲۶   2:55  بازدید:1649     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


19 صفر 1441(ھ۔ ق) مطابق با 18/10/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


پہلا خطبہ

 

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی

السلام علیکم

 

سب سے پہلے اپنے آپ کو اور بعد میں آپ تمام کو خدا کی بندگی اور تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔

 

اللہ تبارک و تعٰالیٰ سورۃ النساء کی آیت 13 اور 14 میں فرماتا ہے :

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّـٰهِ ۚ وَمَنْ يُّطِــعِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ يُدْخِلْـهُ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا ۚ وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ  ۚ (13)

یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے (اللہ) اسے ان بہشت کی وادیوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔

 

وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٝ يُدْخِلْـهُ نَارًا خَالِـدًا فِيْـهَا وَلَـهٝ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ  ۚ (14)

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے نکل جائے (اللہ) اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے ۔

 

تقوٰی یعنی یہ کہ جو اعمال و افعال فضیلت رکھتے ہیں انہیں انجام دینا اور جو اعمال و افعال بد یا رذیل ہیں انہیں ترک کرنا ۔ گناہ کرنا مثل ضم ہے ، ضم کے معنیٰ وہ اعمال و افعال و امور جن کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے ۔ یعنی اگر کوئی ضم انجام دیتا ہے تو اسے الہٰی سرزنش دی جاتی ہے کہ تم نے یہ کیوں انجام دیا ، تو اس طرح انسان پشیمان ہوتا ہے کہ اس نے یہ کیوں انجام دیا ۔ لوگ بھی ملامت کرتے ہیں ۔ ان سب کا مقصد اسے اپنے انجام تک پہنچنا ہوتا ہے یعنی گناہگار کیفر کردار تک پہنچتا ہے ۔

 

یہاں ہمارے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کون سے اعمال و افعال و امور گناہ سمجھے جاتے ہیں ؟

جواب یہ کہ ایسا کوئی بھی عمل جو حدود الہٰی کو عبور یا اس سے تجاوز کرے اسے گناہ شمار کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اوامر و نواحی الہٰی یعنی جن احکام و اعمال و افعال و امور جو اللہ تعالیٰ نے انجام دینے کا حکم دیا ہے ان پر کاربند نہ ہونا بھی گناہ کے زمرے میں ہیں ۔ یعنی خدا کے حکم کی اطاعت نہ کرنا یا وہ اولی الامر جن کی خدا سے نسبت ہے جیسا کہ پیغمبران خدا اور ان کے جانشین جیسا کہ معصومین و آئمہ طاہرین علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ولی فقیہ و الامر المسلمین ۔ اصلا آج کے زمانے میں مراجع عظام کے بیانات و دستورات پر عمل نہ کرنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے ۔

 

مرجع تقلید یعنی مجتہد کیا ہوتا ہے اور اس کی شرائط / صفات و نشانیاں کیا ہونی چاہییں ؟

سب سے پہلے یہ کہ وہ مرد ہوں ، اثناء عشری ہوں ، بالغ ہوں ، عاقل ہوں ، عادل ہوں ، حلال زادے ہوں ، اپنے نفس کے محافظ ہوں یعنی گناہ کے نہ کرنے پر قادر ہوں ، دین کے محافظ ہوں ، اپنے ہوائے نفسانی کے مخالف ہوں ۔

 

ایک شرعی مسئلہ یہ کہ انسان یا تو مجتہد ہو یا محتاط ہونا چاہیے ۔ مجتہد کی شرائط آپ نے سنیں لیکن اس کے برخلات محتاط ہونا بہت ہی دشوار اور سخت ہے ، اسی لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مقلّد ہو یعنی کسی مجتہد کا پیرو کار ( احکام کو سمجھ کر عمل کرتا ہو ) چونکہ مجتہد یا محتاط بننا بہت سخت اور دشوار ہے ۔ تقلید کا معنیٰ یہ نہیں کہ اپنے پاس کسی مجتہد کی توضیح المسائل رکھتے ہوں بلکہ جو احکام و مسائل ان میں درج ہیں ان پر کاربند بھی ہوں ، اسی کو تقلید کہا جاتا ہے ۔ توضیح المسائل یا استفتاء کے رسالہ کی ترتیب کا آغاز آیت اللہ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں ہوا ۔ اسی لیے آج تمام مراجع عظام اپنی توضیح المسائل یا رسالۂ احکام مرتب کرتے ہیں اور وقتا فوقتا نئے نئے مسائل شریعہ کا اندراج بھی کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا مسائل شرعی کی مخالفت کرنا گناہ ہے اور یہ بے تقوائی ہے یعنی تقوٰی کا نہ ہونا ہے ۔

 

گناہ کا پہلا اثر یہ کہ ، اب گناہ انجام دیا ہے تو اس سے قلب انسانی ، مرکز ادراکات و احساسات انسانی فاسد یعنی مردہ ہو جاتے ہیں ۔

 

آقا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

جو کوئی گناہ انجام دیتا ہے تو اس کے قلب میں ایک سیاہ نکتہ ابھرتا ہے ( یعنی قلب میں پلیدگی آ جاتی ہے ) اور جب تک توبہ نہ کی جائے وہ نہیں جاتا ( یعنی قلب پاک نہیں ہوتا ) اور اگر توبہ نہ کی جائے تو اس نکتہ کا دائرہ بڑھتا رہتا ہے ۔

 

 

 

گناہ کا دوسرا اثر یہ کہ انسان پریشانیوں اور مصیبتوں میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ گناہ اس کی زندگی کو اس حد تک تلخ کر دیتت ہین کہ صبر و تحمل کرنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے ۔

 

کبھی کبھی مشکلات ، مصائب و نقصانات اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہوتی ہیں ۔

جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 155 میں فرمایا :

وَلَنَـبْلُوَنَّکُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ ۚ

اور ہم تمہیں کچھ خوف ، بھوک ، مالوں ، جانوں اور پھلوں کے نقصانات سے ضرور آزمائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو ۔

 

اور کبھی عذاب الہٰی ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الشورٰی کی آیت 30 میں فرمایا :

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ کَثِيْـرٍ ۚ

اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔

 

گناہ کا تیسرا اثر آپ کے بہترین نامۂ اعمال کا ضبط ہو جانا یعنی مٹا دیے جانا ہے ۔

جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت 88 میں فرمایا :

ذٰلِکَ هُدَى اللّـٰهِ يَـهْدِىْ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۚ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْـهُـمْ مَّا کَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ  ۚ

یہ اللہ کی ہدایت ہے اور اپنے بندوں میں جسے چاہے اس پر چلاتا ہے، اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو البتہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو کچھ انہوں نے کیا تھا ۔

 

اسی طرح سورۃ الاعراف کی آیت 147 میں فرمایا :

وَالَّـذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا وَلِقَـآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ  ۚ

اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہو گئے، انہیں وہی سزا دی جائے گی جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ۔

 

اسی طرح سورۃ الاحجرات کی آیت 2 میں فرمایا :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ  ۚ

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔

 

اسی طرح سورۃ محمد کی آیت 9 میں فرمایا :

ذٰلِکَ بِاَنَّـهُـمْ کَرِهُوْا مَـآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَـهُمْ  ۚ

یہ اس لیے کہ انہیں نے ناپسند کیا جو اللہ نے اتارا ہے، سو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے ۔

 

گناہ کا چوتھا اثر کفر کرنا یا کفر اختیار کرنا ہے ۔ دراصل تقوٰی کا نہ ہونا اور گناہ کا انجام دینا یہ ایک طرح کا کفر ہی ہے اور خدا کو نہ ماننے میں شمار ہوتا ہے یعنی جہنم کو گلے لگانے جیسا ہے ۔

جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ :

یَا عِبَادَ اللہ اِیٰؐاکُم وَ الحَوضِ فِی الذَؐنُوب   ۚ

اے اللہ کے بندو ! خبردار اپنے آپ کو گناہ میں پڑنے سے بچائو ۔

 

گناہ کرنے کی وجہ سے گناہگار انسان خوار ، نحیف و سبک ہو جاتا ہے یعنی اس کی الہٰی صلاحیتیں نا پائیدار ہوتی چلی جاتی ہیں ۔

 

ولی خدا کی ولایت کا انکار کرنا بھی گناہ ہے اور اس کا نتیجہ انکار خدا و کفران خدا کے زمرے میں جاتا ہے ۔ ایک نقطہ یہ کہ ، شیطان ابلیس آپ سے کبھی بھی یکسر گناہ انجام دینے کا تقاضہ نہیں کرتا بلکہ یہ کہ کوشش میں لگے رہو یعنی آہستہ آہستہ گناہ کی طرف دھکیل دیتا ہے ۔

 

جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 21 میں فرمایا :

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَنْ يَّتَّبِــعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَاِنَّهٝ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ  ۚ

اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو، اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلے گا سو وہ تو اسے بے حیائی اور بری باتیں ہی بتائے گا ۔

 

 

 

خطبہ دوم

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی

 

ایک سوال کہ جب حضرت آقا امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کا نام لیا جاتا ہے تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں ، ایسا کیوں ؟

 

ایک بات کہ ، ہم سبھی آقا امام زمان عجل فرجہ کے ظہور کی دعا کرتے ہیں بلکہ خود حجت القائم بھی ظہور و قیام کی دعا کرتے ہیں اور ان تمام امور پر خصوصی نگاہ رکھتے ہیں ۔ جو بھی نام امام کو ادا کرے تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اسی وقت تعطیم امام میں کھڑے ہو جائے ۔

 

دوسری بات کہ ، جب امام صادق علیہ السلام کے سامنے آپ علیہ السلام کا خاص طور سے نام لیا گیا تو آپ کھڑے ہو گئے اور اپنا ہاتھ سر پہ رکھا اور امام علیہ السلام کے لئے دعا کی ۔

 

علم نفسیات کے اصولوں میں سے ایک اصول جس کا نام اصل محاکات ہے ۔ اس کا مطلب اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جانا ہے ۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم بھی امام کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ کیا امام زمان علیہ السلام اپنی نمازیں وقت پر نہیں پڑھتے ؟  جی ہاں ضرور ، پس بسم اللہ ہمیں بھی وقت پر نماز پڑھنا چاہیے ۔ کیا کبھی امام علیہ السلام نامحرمات پر نگاہ ڈال سکتے ہیں ؟ جی نہیں بالکل نہیں ۔ پس ہمیشہ سورۃ النور کی آیت 30 پر عمل کیجئے :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِکَ اَزْکـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ  ۚ

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں ، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے ، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔

 

اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، ضعیف و ناتواں لوگوں کی داد رسی کرنا ، یتیموں کی پرورش کرنا بھی امام عجل اللہ فرجہ کے منتظرین و ناصرین کا شیوہ ہونا چاہیے ۔

 

 

 

 

 

عزیزان نماز گزاران !

اس ہفتے کی مناسبات میں سے ایک اربعین امام حسین علیہ السلام ہے ۔ جس طرح امام علیہ السلام ایک منفرد شخصیت ہیں ٹھیک اسی طرح اربعین امام بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ اربعین ، عاشورا کیلئے ایک طاقتور میڈیا یعنی اس کی عکاسی کرتا ہے ۔

 

جس طرح اہل بیت اطہار علیہم السلام نے اپنی چالیس روزہ منفرد تحریک میں مسجد شام ، بازار شام ، بازار کوفہ اور دربار یزید و ابن زیاد میں انقلابی طوفان برپا کیے ۔ اسی طرح حسین علیہ السلام ایک دن سب مسلمانوں کو جمع کریں گے کیونکہ اربعین ایک  قدرت مند اور طاقتور میڈیا ہے کہ جس کا کوئی ثانی نہیں ۔ امام علیہ السلام کی پیدل زیارت کرنے پر بہت ساری روایات موجود ہیں ، جن کا ذکر بہت ضروری ہے :

 

1-  ابن مارد نے امام صادق علیہ السلام سے امام علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا :

یا ابا عبدللہ ! اگر کوئی آپ کے جد علی المرتضیٰ کی زیارت کو جائے تو اسے کیا ثواب ملتا ہے ؟

امام علیہ السلام : جو میرے جد کی زیارت کو جائے یہاں اور اس حد تک کہ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہو تو اللہ اس کے ہر قدم پر ایک مقبول حج اور ایک مقبول عمرہ لکھے گا چاہے وہ پیادہ جائے یا  کسی سواری پر ۔ اور فرمایا اے ابن مارد ، اس حدیث کو سونے کے  پانی کے ساتھ لکھو ۔ ( تھذیب شیج طوسی ج 6/21)

 

2-  صفوان جمال نے روایت کی کہ کچھ لوگ امام صادق علیہ السلام کے ہمراء کوفہ وارد ہوئے تو امام نے کہا : کاروان والوں سے کہو کہ رک جائیں کیونکہ یہاں میرے جد امیر المومنین علی علیہ السلام کی قبر ہے ، تو ہم نے اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا ۔ امام علیہ السلام نے غسل کیا ، لباس تبدیل کیا اور برہنہ پا ہو گئے ۔ پھر فرمایا کہ جیسا میں کروں تم لوگ بھی ویسے کرو ۔ پھر آپ نے چلنا شروع کیا یہاں تک کہ ہم سب ایک سفید پہاڑی پر پہنچ گئے ۔ امام نے فرمایا کہ یہاں آہستہ آہستہ چلو اور اپنے سر کو جھکائے رکھو ، کیوں کہ یہاں ہر قدم کے بدلے ہزار حسنات ملیں گے ، ہزار گناہ معاف کیے جائیں گے ، ہزار درجے بلند کئے جائیں گے ، ہزار  حاجتیں  پوری کی جائیں گی اور صدیق و شہید کا ثواب لکھا جائے گا ۔ یہ کہ کر امام صادق علیہ السلام نے قدم بڑھائے پس ہم بھی ان کے ہمراہ بڑھنے لگے ۔

(بحار الانوار 98/280)

 

3-  قدامہ بن مالک ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ :

جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے برضائے الہٰی کرے اور کسی شر و فساد کی نیت نہ رکھتا ہو تو اس کے گناہ ایسے دھو دیے جاتے ہیں جیسے کپڑے پانی میں اس طرح دھوئے جائیں کہ ان پر کچھ گندگی باقی نہ رہے ، اور یہ کہ زیارت کے ہر قدم پر حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔

( کتاب کامل الزیارات صفحہ نمبر 144 )

 

4-  ایک شخص بنام علی ، جو پیشے سے رنگ کار تھا ، نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی کہ :

امام علیہ السلام نے مجھے کہا کہ تم زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے جاؤ ۔ پس میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ثواب حاصل ہوتا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جو بھی پیدل امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جائے تو اس کے ہر قدم پر حسنات لکھے جاتے ہیں اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے ، اس کے درجے بلند کیے جاتے ہیں اور جب وہ واپس آ جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اے ولی خدا تمہیں بخش دیا گیا ہے اور تم اللہ کے حزب ، اللہ کے رسول اور اس کی اہل بیت علیہ السلام کے گروہ میں سے ہو ۔

(کامل الزیارات/ 124)

 

اب کوئی یہ سوال کرے کہ شاید یہ ثواب تب ہوتا ہے جب امام زندہ ہوتے ہیں ؟

 

جواب یہ کہ ، اول تو امام صادق علیہ السلام نے یہ اُس وقت فرمایا تھا جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو چکے تھے ، اور ثانیا ہمارے سبھی آئمہ شہید ہو چکے ہیں ماسوائے حجت آخر صاحب الزمان ۔

 

سورۃ آل عمران آیت 169 میں ارشاد ہوا ہے کہ :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتًا ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ يُـرْزَقُوْنَ  ۚ

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردے نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں ۔

 

اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت 154 میں ارشاد ہوا :

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتٌ ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ  ۚ

اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم زشعور نہیں رکھتے ۔

 

5-  پانچویں بات یہ کہ ، ہم زیارت امام رضا علیہ السلام یا زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں کہ :

اَشهَدُ اَنَّکَ تَسمَعُ کلامی ، اَشهَدُ اَنَّکَ تَریٰ مقامی ، اَشهَدُ اَنَّکَ تَرُدُّ سلامی  ۚ

میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میری بات کو سن رہے ہو اور میرے سلام کا جواب دے رہے ہو ۔

 

 ایک نکتہ یاد رکھیے کہ پیدل زیارت پہ جانا ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہے ۔ کوئی مشکل ہو یا پریشانی ہو یا پیدل چلنا سخت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اس سفر کے بیش بہا معنوی ، اجتماعی ، خانوادگی فوائد ہیں جو ظہور امام زمانہ علیہ السلام سے نزدیک تر ہو جاتے ہیں ۔

 

دوسرا نکتہ یہ کہ جو لوگ اس سفر کے لئے نہیں جا پائے ہیں یا نہیں گئے ہیں ۔

اول یہ کہ اگر ہم سب چلے گئے تو وہاں سب لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہو گی ۔ دوم یہ کہ اگرچہ زیارت کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالی اسے بھی قبول فرماتا ہے ۔ کیونکہ سب اعمال نیت کے ترازو میں تولے جاتے ہیں ۔ سوم یہ کہ جو امام حسین علیہ السلام کے زائر کی زیارت کرے یہ ایسا ہے جیسے خود اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہو ۔

 

چاہتا ہوں کہ زیارت ناحیہ مقدسہ جو ایک مقتل نامہ اور مکمل مصائب ہے ، جس میں امام زمان عجل فرجہ نے امام حسین علیہ السلام ، شہدائے کربلا ، انبیائے الہٰی ، امیرالمومنین اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو مخاطب کر کے فرمایا :  میرا سلام ہو ان پر کہ جس نے اپنے آپ کو فدا کیا ، میرا سلام ہو اس پر کہ جس نے مخفی اور ظاہر دونوں میں اللہ ہی کی اطاعت کی ، میرا سلام ہو اس پر کہ اللہ نے جس کی خاک میں شفا رکھ دی ، میرا سلام ہو اس پر کہ جس کی قبا کی نیچے دعائیں قبول ہو جاتی ہیں ، میرا سلام ہو اس پر کہ جو خون میں ایسے لت پت تھا اور بدن میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جس پر نیزہ یا تلوار نہ لگا ہو ۔

 

میرا سلام ہو مسافروں کے مسافر پر ، میرا سلام ہو کربلا کے رہنے والوں پر ، میرا سلام ہو ان گریبانوں پر جو پھاڑ دیے گئے ، میرا سلام ہو خشک ہونٹوں اور عریاں جسموں پر ، میرا سلام ہو ان ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اعضاء پر ۔

 

کہتے ہیں جب امام سجاد علیہ السلام شہداء کو دفن کرنے آئے تو قبیلہ بنی اسد سے کہا کہ جاؤ ایک بوری لے آؤ تا کہ اس میں یہ ٹکڑے جمع کر سکوں ۔

 

علی لعنت الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

 

خطبہ دوم

محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی

ایک سوال کہ جب حضرت آقا امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کا نام لیا جاتا ہے تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں ، ایسا کیوں ؟ 

ایک بات کہ ، ہم سبھی آقا امام زمان عجل فرجہ کے ظہور کی دعا کرتے ہیں بلکہ خود حجت القائم بھی ظہور و قیام کی دعا کرتے ہیں اور ان تمام امور پر خصوصی نگاہ رکھتے ہیں ۔ جو بھی نام امام کو ادا کرے تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اسی وقت تعطیم امام میں کھڑے ہو جائے ۔

دوسری بات کہ ، جب امام صادق علیہ السلام کے سامنے آپ علیہ السلام کا خاص طور سے نام لیا گیا تو آپ کھڑے ہو گئے اور اپنا ہاتھ سر پہ رکھا اور امام علیہ السلام کے لئے دعا کی ۔

علم نفسیات کے اصولوں میں سے ایک اصول جس کا نام اصل محاکات ہے ۔ اس کا مطلب اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جانا ہے ۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم بھی امام کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ کیا امام زمان علیہ السلام اپنی نمازیں وقت پر نہیں پڑھتے ؟  جی ہاں ضرور ، پس بسم اللہ ہمیں بھی وقت پر نماز پڑھنا چاہیے ۔ کیا کبھی امام علیہ السلام نامحرمات پر نگاہ ڈال سکتے ہیں ؟ جی نہیں بالکل نہیں ۔ پس ہمیشہ سورۃ النور کی آیت 30 پر عمل کیجئے :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِکَ اَزْکـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ  ۚ

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں ، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے ، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔

اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، ضعیف و ناتواں لوگوں کی داد رسی کرنا ، یتیموں کی پرورش کرنا بھی امام عجل اللہ فرجہ کے منتظرین و ناصرین کا شیوہ ہونا چاہیے ۔

عزیزان نماز گزاران !

اس ہفتے کی مناسبات میں سے ایک اربعین امام حسین علیہ السلام ہے ۔ جس طرح امام علیہ السلام ایک منفرد شخصیت ہیں ٹھیک اسی طرح اربعین امام بھی منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ اربعین ، عاشورا کیلئے ایک طاقتور میڈیا یعنی اس کی عکاسی کرتا ہے ۔

جس طرح اہل بیت اطہار علیہم السلام نے اپنی چالیس روزہ منفرد تحریک میں مسجد شام ، بازار شام ، بازار کوفہ اور دربار یزید و ابن زیاد میں انقلابی طوفان برپا کیے ۔ اسی طرح حسین علیہ السلام ایک دن سب مسلمانوں کو جمع کریں گے کیونکہ اربعین ایک  قدرت مند اور طاقتور میڈیا ہے کہ جس کا کوئی ثانی نہیں ۔ امام علیہ السلام کی پیدل زیارت کرنے پر بہت ساری روایات موجود ہیں ، جن کا ذکر بہت ضروری ہے :

1-  ابن مارد نے امام صادق علیہ السلام سے امام علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا :

یا ابا عبدللہ ! اگر کوئی آپ کے جد علی المرتضیٰ کی زیارت کو جائے تو اسے کیا ثواب ملتا ہے ؟

امام علیہ السلام : جو میرے جد کی زیارت کو جائے یہاں اور اس حد تک کہ اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہو تو اللہ اس کے ہر قدم پر ایک مقبول حج اور ایک مقبول عمرہ لکھے گا چاہے وہ پیادہ جائے یا  کسی سواری پر ۔ اور فرمایا اے ابن مارد ، اس حدیث کو سونے کے  پانی کے ساتھ لکھو ۔ ( تھذیب شیج طوسی ج 6/21)

2-  صفوان جمال نے روایت کی کہ کچھ لوگ امام صادق علیہ السلام کے ہمراء کوفہ وارد ہوئے تو امام نے کہا : کاروان والوں سے کہو کہ رک جائیں کیونکہ یہاں میرے جد امیر المومنین علی علیہ السلام کی قبر ہے ، تو ہم نے اپنے اونٹوں کو بٹھا دیا ۔ امام علیہ السلام نے غسل کیا ، لباس تبدیل کیا اور برہنہ پا ہو گئے ۔ پھر فرمایا کہ جیسا میں کروں تم لوگ بھی ویسے کرو ۔ پھر آپ نے چلنا شروع کیا یہاں تک کہ ہم سب ایک سفید پہاڑی پر پہنچ گئے ۔ امام نے فرمایا کہ یہاں آہستہ آہستہ چلو اور اپنے سر کو جھکائے رکھو ، کیوں کہ یہاں ہر قدم کے بدلے ہزار حسنات ملیں گے ، ہزار گناہ معاف کیے جائیں گے ، ہزار درجے بلند کئے جائیں گے ، ہزار  حاجتیں  پوری کی جائیں گی اور صدیق و شہید کا ثواب لکھا جائے گا ۔ یہ کہ کر امام صادق علیہ السلام نے قدم بڑھائے پس ہم بھی ان کے ہمراہ بڑھنے لگے ۔

(بحار الانوار 98/280)

3-  قدامہ بن مالک ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ :

جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے برضائے الہٰی کرے اور کسی شر و فساد کی نیت نہ رکھتا ہو تو اس کے گناہ ایسے دھو دیے جاتے ہیں جیسے کپڑے پانی میں اس طرح دھوئے جائیں کہ ان پر کچھ گندگی باقی نہ رہے ، اور یہ کہ زیارت کے ہر قدم پر حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔

( کتاب کامل الزیارات صفحہ نمبر 144 )

4-  ایک شخص بنام علی ، جو پیشے سے رنگ کار تھا ، نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی کہ :

امام علیہ السلام نے مجھے کہا کہ تم زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے جاؤ ۔ پس میں نے پوچھا کہ اس سے کیا ثواب حاصل ہوتا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جو بھی پیدل امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو جائے تو اس کے ہر قدم پر حسنات لکھے جاتے ہیں اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے ، اس کے درجے بلند کیے جاتے ہیں اور جب وہ واپس آ جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اے ولی خدا تمہیں بخش دیا گیا ہے اور تم اللہ کے حزب ، اللہ کے رسول اور اس کی اہل بیت علیہ السلام کے گروہ میں سے ہو ۔

(کامل الزیارات/ 124)

اب کوئی یہ سوال کرے کہ شاید یہ ثواب تب ہوتا ہے جب امام زندہ ہوتے ہیں ؟

جواب یہ کہ ، اول تو امام صادق علیہ السلام نے یہ اُس وقت فرمایا تھا جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو چکے تھے ، اور ثانیا ہمارے سبھی آئمہ شہید ہو چکے ہیں ماسوائے حجت آخر صاحب الزمان ۔

سورۃ آل عمران آیت 169 میں ارشاد ہوا ہے کہ :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتًا ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ يُـرْزَقُوْنَ  ۚ

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردے نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت 154 میں ارشاد ہوا :

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتٌ ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ  ۚ

اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم زشعور نہیں رکھتے ۔

 

5-  پانچویں بات یہ کہ ، ہم زیارت امام رضا علیہ السلام یا زیارت اربعین میں پڑھتے ہیں کہ :

اَشهَدُ اَنَّکَ تَسمَعُ کلامی ، اَشهَدُ اَنَّکَ تَریٰ مقامی ، اَشهَدُ اَنَّکَ تَرُدُّ سلامی  ۚ

میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میری بات کو سن رہے ہو اور میرے سلام کا جواب دے رہے ہو ۔

 ایک نکتہ یاد رکھیے کہ پیدل زیارت پہ جانا ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہے ۔ کوئی مشکل ہو یا پریشانی ہو یا پیدل چلنا سخت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اس سفر کے بیش بہا معنوی ، اجتماعی ، خانوادگی فوائد ہیں جو ظہور امام زمانہ علیہ السلام سے نزدیک تر ہو جاتے ہیں ۔

دوسرا نکتہ یہ کہ جو لوگ اس سفر کے لئے نہیں جا پائے ہیں یا نہیں گئے ہیں ۔

اول یہ کہ اگر ہم سب چلے گئے تو وہاں سب لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہو گی ۔ دوم یہ کہ اگرچہ زیارت کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالی اسے بھی قبول فرماتا ہے ۔ کیونکہ سب اعمال نیت کے ترازو میں تولے جاتے ہیں ۔ سوم یہ کہ جو امام حسین علیہ السلام کے زائر کی زیارت کرے یہ ایسا ہے جیسے خود اس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہو ۔

چاہتا ہوں کہ زیارت ناحیہ مقدسہ جو ایک مقتل نامہ اور مکمل مصائب ہے ، جس میں امام زمان عجل فرجہ نے امام حسین علیہ السلام ، شہدائے کربلا ، انبیائے الہٰی ، امیرالمومنین اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو مخاطب کر کے فرمایا :  میرا سلام ہو ان پر کہ جس نے اپنے آپ کو فدا کیا ، میرا سلام ہو اس پر کہ جس نے مخفی اور ظاہر دونوں میں اللہ ہی کی اطاعت کی ، میرا سلام ہو اس پر کہ اللہ نے جس کی خاک میں شفا رکھ دی ، میرا سلام ہو اس پر کہ جس کی قبا کی نیچے دعائیں قبول ہو جاتی ہیں ، میرا سلام ہو اس پر کہ جو خون میں ایسے لت پت تھا اور بدن میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جس پر نیزہ یا تلوار نہ لگا ہو ۔

میرا سلام ہو مسافروں کے مسافر پر ، میرا سلام ہو کربلا کے رہنے والوں پر ، میرا سلام ہو ان گریبانوں پر جو پھاڑ دیے گئے ، میرا سلام ہو خشک ہونٹوں اور عریاں جسموں پر ، میرا سلام ہو ان ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اعضاء پر ۔

کہتے ہیں جب امام سجاد علیہ السلام شہداء کو دفن کرنے آئے تو قبیلہ بنی اسد سے کہا کہ جاؤ ایک بوری لے آؤ تا کہ اس میں یہ ٹکڑے جمع کر سکوں ۔

علی لعنت الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون