۱۳۹۸/۷/۱۹   17:26  بازدید:1394     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


12 صفر  1441(ھ۔ ق) مطابق با 11/10/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


خطبہ اول
السلام علیکم 
محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی 
سب سے پہلے اپنے آپ کو اور بعد میں آپ تمام کو خدا کی بندگی اور تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ 
اللہ تبارک و تعٰالیٰ فرماتا ہے : 
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّہَ لِیَومِ الَّذِي يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
اے لوگو تقوٰی اختیار کرو اُس دن کے لیے کہ جس دن نہ تمہارا مال فائدہ دے گا نہ ہی تمہاری اولاد مگر وہ لوگ جو قلب سلیم کے ساتھ محشور ہوں گے ۔ 
تقوٰی یعنی یہ کہ امر الہٰی ( جن چیزوں پر کاربند ہونا ہے ) کے دائرے میں رہنا اور نواہی خدا ( جن چیزوں کو ترک کرنا ہے ) کے دائرے میں سے نکلنا اور قلب سلیم کے ساتھ رہنا ہے ۔ قلب سلیم کا مالک وہ ہے کہ جن چیزوں سے اللہ تبارک و تعٰالیٰ نے منع کیا ہے ان کا رخ نہ کرے ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ خدا اسے گناہوں کی محافل ( غیبت کرنے یا تہمت لگانے ) میں دیکھے ۔ تقوٰی اور قلب سلیم یعنی کوئی تاجر یا دکاندار گراں فروشی ( کم زیادہ تولنا ، اصل کو نقل سے بدلنا ) نہ کرے اور سود نہ کھائے ۔ خداوند تبارک و تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور رباہ کو حرام کیا ۔ رباہ خوری اللہ کے مد مقابل یعنی اس کے ساتھ لڑنے کا نام ہے ۔ خداوند کریم نے فرمایا کہ اگر کوئی رباہ کھاتا ہے تو وہ اللہ و رسول ﷺ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائے ۔ پس اگر کوئی خدا اور پیغمبر کے ساتھ لڑے تو کیا اس کا دل و روح صحیح و سالم رہ سکتا ہے ! ہر گز نہیں ۔ تقوٰی اور قلب سلیم کا مطلب ہے کہ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو ۔ 
قرآن کریم کی سورۃ النور آیت 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ
اور مومنین ( مردوں ) سے کہ دیجئے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں ۔ 
یہ مردوں کے لیے ہے اور خواتین کے لیے اسی سورۃ کی آیت 31 میں حکم ہے کہ 
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ  ۚ
اور مومنات ( خواتین ) سے کہ دیجئیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ 
خواتین قلب سلیم تین طریقوں سے حاصل کر سکتی ہیں : 
1.  حجاب
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ
اور مومنات ( خواتین ) سے کہ دیجئیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔
2.  نامحرم کی طرف نگاہ نہ کرنا
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ  ۚ
اور مومنات ( خواتین ) سے کہ دیجئیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ 

3.  اپنے ناموس کی حفاظت کرنا
عورت کی ناموس اس کی حیا اور اس کا گھرانہ یعنی یعنی شوہر اور بچے ہوتے ہیں ۔ ایک ماں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرے حتیٰ اپنے شوہر کبھی اپنے والد اور بہن بھائیوں کے لیے ماں والا کردار ادا کرے ۔ عورت کی ناموس فقط یہ نہیں ہے کہ وہ فحشاء اور منکرات سے بچے یا اور ان کی مرتکب نہ ہو بلکہ جو افراد اس کی مسئولیت میں ہیں انہیں منحرف ہونے سے بچانے میں بھی خاتون کی ہی ذمہ داری ہے ۔ 
اگر کسی خاتون خانہ کا شوہر خمس نہیں دیتا یا اس کا بیٹا نماز نہیں پڑھتا تو وہ اس سے بے توجہ نہ رہے یا ممکن ہے کہ اس کی بیٹی آدھی رات تک باہر ہو ، ان سب چیزوں میں خاتون خانہ کو حساس و محتاط رہنا چاہیے تاکہ اس کے لیے کوئی سوالیہ نشان نہ بنے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا بیٹٓ یا بیٹی کہاں ہیں ۔ تربیت کے لیے لفظ " کیوں " کی بار بار تکرار بہت ضروری ہے ۔ اگر خاتون خانہ ایسی بن سکے تو اپنے شوہر و اولاد کو قلب سلیم تک پہنچا سکتی ہے اور خود بھی اس کی مالک بن جاتی ہے ۔ 
قرآن کریم کی سورۃ شعراء آیت 88 اور89 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88)  إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ  (89)
جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکا گا اور نہ بیٹے ، ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا) ۔
خطبه دوم
محترم نماز گزاران و عزاداران حسینی 
قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 21 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم ( اس کے عذاب سے ) بچو ۔
اسی طرح احادیث میں بھی ارشاد ہوا ہے کہ : 
أَيُّهَا النَّاسُ اَلاِبْتِعَادِ عَنِ الْتَّقْوٰی
اے لوگو ! خبردار تقوٰی سے دور مت ہونا کیونکہ ہر ذہنی اور روحانی بیماری کا علاج تقوٰی ہے ۔ 
فَاِنَّ الْتَّقْوٰیْ دَوَاء دَاء قُلُوبَکُمْ
تقوٰی قلوب ( دل ) کے درد کی دوار ہے ۔ 
فَاِنَّ الْتَّقْوٰی الْشِّفَاء مَرَضٌ اَجْسَاْدُکُمْ 
یہ آپ کے ابدان ( جسم ) کے جملہ امراض کی شفاء ہے ۔ 
اگر ہم تقوٰی سے دور نہ ہوں گے تو ہمارا بدن سالم رہے گا ۔ یا یہ کہنا بجا ہو گا کہ اگر ہماری روح و بدن بیمار ہیں تو اس کی وجہ تقوٰی الہٰی سے دوری ہے ۔ ہمارے جملہ گناہان کبیرہ و صغیرہ ، ابر کریم یعنی بارش جیسی نعمت کو بھی ہم سے دور کر دیتے ہیں ، خشک سالی و قحط سالی کا دور دورہ ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے مہنگائی بڑھ جاتی ہے ، یہاں تک کہ مناسب و سالم کھانا مشکل سے میسر آتا ہے یعنی انسان مرض میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ 
یہ بہت ہی عجیب و غریب ارشاد ہے جو بیان ہوا ہے کہ 
أَيَّاْکُم وَ اَلاِبْتِعَادِ عَنِ الْتَّقْوٰی فَاِنَّ الْتَّقْوٰی جَلَاء غِشَاء اَبصَاْرَکُمْ
ہماری زندگیوں میں تقوٰی کا نہ ہونا ہمیں اندھا بنا دیتا ہے ، بینائی کو ختم کر دیتا ہے ۔ اور جو اس دنیا میں اندھا ہوتا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا محشور ہوتا ہے ۔ 
اور یہ وہ ہیں جو کہیں گے کہ 
خدایا تو نے مجھے کیوں اندھا محشور کیا حالانکہ دنیا میں بینا تھا ۔ 
اسے جواب دیا جائے گا کہ 
جب ہماری آیات و نشانیاں تمہارے پاس یا تمہارے لیے آئیں یا بھیجی گئیں تو تم نے انہیں فراموش کر دیا یعنی بھلا دیا تو اسی طرح آج ( روز محشر ) ہم تمہیں بھلا دیں گے ۔ ہم نے تمہیں ظاہرا آنکھیں دیں تھیں لیکن حقیقت میں تم اندھے تھے ، تم ہمارے عدل کو نہیں دیکھ سکے تھے ، دراصل تم ظاہری جہان کو تو دیکھ رہے تھے لیکن جہان کے خالق سے آگاہ نہیں تھے ۔ 
آئمہ معصومین علیہ السلام نے کئی روایات میں تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعہ وہ ہیں کہ جو اپنے اعمال میں ہماری پیروی اور اتباع کرتے ہیں اور جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتے وہ ہمارے شیعہ نہیں ہو سکتے ۔ 
گذشتہ جمعے ہم نے آقا امام زمان علیہ السلام سے تقرب کے لیے دعا کرنے کے بارے میں عرض کیا تھا ۔ ان میں دعائے ندبہ ، دعائے سماؑت ، دعائے عہد ، دعائے سلامتی امان زمان ، دعائے فرج ، دعائے حضرت امام مہدی ( اللھم ارزقنا توفیق الطاعۃ و بعد المعصیۃ و صدق اللہ ) 
سب سے اہم بات یہ کہ دیدار امام یعنی انہیں دیکھنا بہت ضروری اور بہتر عمل ہے اور اللہ کی طرف سے بہت بڑا تحفہ بھی ہے ، ایک محکم سعادت بھی ہے ، خدا ہم سب کو اس کی توفیق و سعادت عطا فرمائے ۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ کہ ہم امام سے نزدیک تر ہو جائیں ۔ 
مثال کے طور پر دعائے سلامتی امام زمان علیہ السلام جو شب قدر کے اعمال میں آئی ہے : 

اللَّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الحُجَةِ بنِ الحَسَن ، صَلَواتُکَ علَیهِ و عَلی آبائِهِ ، فِی هَذِهِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ ، وَلِیّاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلًا وَ عَیْناً ، حَتَّى تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتعَهُ فِیهَا طَوِیلا ، برحمتک يا أرحم الراحمين 
محمد بن عیسیٰ سے اور انہوں نے آئمہ طاہرین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ کرر فی لیلۃ الثالث و العشرون من شہر رمضان ھزا الدعاء ساجدا و قائما و قاعدا و ولی کل حال و فی الشہر کلہ و کیف امکنک و متی ۔ 
ماہ مبارک رمضان کی تئیسویں رات میں اس دعا کے بہت زیادہ تکرار کرنے کی روایت کی گئی ہے ۔ یعنی سجدہ کی حالت میں ، قیام کی حالت میں حتیٰ کہ ہر حالت میں اس دعا کی زیادہ سے زیادہ تکرار کریں حتیٰ پورے مہنے میں جب بھی وقت ملے ، جب بھی حمد و ثنا کا موقع ملے تو اس دعا کو ضرور پڑھیں ۔ یعنی خدا کا دوست وہ ہے کہ جس نے ولایت الہٰی کو قبول کیا اور ولایت خدائی کی مسئولیت کو اپنے ذمے لیا کہ جو حجت ابن الحسن ہیں ، ہمارا درود و سلام ہو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر ۔ 

اس دعا میں ظرف زمان کو سامنے رکھا گیا ہے ۔ کہا ہے کہ اس وقت اور ہر دور میں وَلِیَّا کہ جو آپ کا ولی ہے ۔ یعنی قرآن کریم کی سورۃ المائدہ آیت 55 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے 
إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ 
 تمہارے دوست ( ولی ) تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور ( خدا کے آگے ) جھکتے ہیں ۔ 

حافظا : اللہ بہترین حافظ اور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ 
و قائدا : ہدایت اور قیادت الہٰی اور رہبری کو اپنے ذمے لیا ہے ۔ 
و ناصرا : خدا مدد کرتا ہے ان لوگوں کی جو اس کی مدد کرتے ہیں ۔  
و دلیلا : اور رہنما اور راہ کے لیے چراغ ، تاریکی اور ظلمات میں نور رہیں ۔ 
و عینا : اور اس کے لیے چشم بینا رہیں کہ جو سب سے بہتر دیکھتا ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ خدا اپنے ولی کے محافظ رہیں کہ جو اس کا قائد ہے ، مددگار رہے ، کیوں ؟ 
جواب: حَتَّى تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتعَهُ فِیهَا طَوِیلا
امام زمان علیہ السلام نے محمد بن عثمان جو آپ کے دوسرے نائب خاص تھے ، سے فرمایا : 
أکثروا الدعاء بتعجيل الفرج فإن ذلک فرَجَکم
(کمال الدین ، جلد 2 ، صفح 450 )

اپنے زمانے کے امام کے ظہور یعنی فرج کے لیے کثرت سے دعا کیا کرو ۔ 
1.  امام زمان علیہ السلام کے ظہور کے لیے دعا کرو کیونکہ اس سے آپ کے مشکلات دور ہوں گیں ۔ اور اگر امام زمان علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کرنا ہے تو رکوع و سجود و قیام بلکہ ہر حالت میں اس کے ظہور کے لیے دعا کرو ۔ 

2.  ہماری دنیاوی اور معنوی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرو اور غلط راستے پر نہ جائو ۔ 

امام زمانہ علیہ السلام نے غیبت صغرٰی کے اوائل میں ابو عبد اللہ بن محمد بن نعمان مفید قدس سرہ کہ جو بہت بڑے فقہائے شیعہ میں سے ہیں ، کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : 
اگر ہمارے شیعہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اطاعت نصیب فرمائے ، اگر متحد ہو جائیں اور جو وعدہ انہوں نے کیا ہے اس پر وفا کریں تو ہماری ان سے ملاقات میں کبھی بھی دیر نہیں ہو گی ۔ اللہ اکبر ۔ غور کریں کہ یہ تب کی بات ہے جب غیبت صغرٰی کو 90 سال گذر چکے تھے ۔ 
ایک مناسبت جو اربعین حضرت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام ہے ، جو ہر سال تکرار ہوتی ہے یہ طویل تاریخ میں سب سے منفرد بات ہے ۔ ہم حتیٰ اپنے مُردوں کے لیے بھی دوسری مرتبہ اہتمام نہیں کرتے ۔ حتیٰ حضرت پیغمبر ﷺ کے لیے بھی اربعین نہیں مناتے ۔ اربعین دراصل حضرت سید الشہداء کے ساتھ مخصوص ہے جو مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ اربعین ایک عاطفی اور عاقلانہ حرکت یعنی پیش قدمی ہے ۔ اربعین کے ساتھ ساتھ حرکت یعنی مقصد امام حسین علیہ السلام کو رشد ( تقویت یا حوصلہ ) ملتا ہے ۔ اربعین کوئی معمولی زیارت نہیں ہے ۔ محمد بن مسلم نے روایت کی ہے کہ میں نے ابا جعفر علیہ السلام اور جعفر بن محمد علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا : امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ نے امام حسین علیہ السلام کو یہ خصوصیات دی ہیں : 
1.  امامت کو امام علیہ السلام کی ذریت میں رکھا اور ان کی تربت میں شفا اور قبر کے نزدیک دعا کی اجابت رکھی ۔ 
2۔  جو دن امام علیہ السلام کی زیارت میں گذرے وہ عمر میں شمار نہیں ہوتے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو حضرت محمد مصطفیٰ کے ساتھ محشور فرمائیں گے اور انہی کے درجے اور منزلت پر رکھیں گے ۔