خطبہ اول
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و باسم رب الشہداء و الصا لحین
والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا الذی سمی فی السما باحمد و فی الارضین بابی القاسم مصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین و لعنت الله علی اعدائهم اجمعین
اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوا اتَّقُوا اللّـٰهَ وَکُـوْنُـوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ
( سورۃ توبہ ، آیت 119 )
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہیں ، اللہ سے ڈرو یعنی تقوٰی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جائو ۔
محترم نماز گذاران ( برادران و خواہران )
سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور بعد میں تمام نماز گذاران کو خدا کی بندگی اور تقوٰی الہٰی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِکَ أَزْکَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ؕ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ۔
( سورۃ نور ، آیت 30 )
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومن مردوں اور عورتوں سے کہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بچا کر رکھیں ، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے ، یقینا تمہارا پروردگار تمہارے اعمال سے با خبر اور ان کو خوب جانتا ہے ۔
اصلِ تقوٰی یہ ہے کہ ہم اپنے آنکھ ، کان اور زبان کو غیر شرعی محرکات سے بچائے رکھیں ۔ عزاء و ماتم داری کے ایام گزر گئے ، دعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری عبادات کو بوسیلہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آقا امام علی علیہ السلام ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ، آقا امام حسن علیہ السلام ، آقا امام حسین علیہ السلام اور بالخصوص آقا امام زمان مہدی عجل اللہ فرجہ کے اپنی مقدس بارگاہ میں قبول فرمائیں .
مجھے ان ایام عزاء میں مسجد امام حسین علیہ السلام میں کچھ ایسی اچھی چیزیں دیکھنے کا موقع ملا کہ چاہتا ہوں کہ وہ عام ہو جائیں اور تمام عزاداران و شرکاء کے لیے نمونہ عمل بنیں ۔
1۔ الحمد للہ مجالس عزاء بہترین انداز میں مرتب ہوئیں جس کی وجہ بہترین مدیریت اور فعالیت تھی جو خادمین مسجد و ایرانی سکولوں کے ہیڈ پرنسپل کی مرہون منت اور ان تھک کاوشوں کی بدولت انجام کو پہنچیں ۔ ہمارے درمیان بہترین علماء بھی موجود تھے ۔ برادران و خواہران جتنا ممکن ہو سکے ہمیں مراسم عزاداری ، گریہ و زاری کو معرفت کے ساتھ منعقد کرنا چاہیے ۔
2۔ الحمد للہ مجالس عزاء بہترین انداز میں منعقد ہوئیں اور میں تمام مومنین و نماز گزاران جنہوں نے ان مراسم میں شرکت کی بالخصوص جن کا تعلق کشمیر ، ایران ، پاکستان ، افغانستان ، متحدہ عرب الامارات اور ہندوستان سے تھا ، کا بہترین انداز میں شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی بدولت یہ مراسم عاشورہ اپنے تکمیل تک پہنچے ۔ پروردگار آپ کی عبادات و زحمات کو بوسیلہ آغا امام حسین علیہ السلام قبول فرمائے ۔ لیکن! یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں ، وہ یہ کہ انسان سینہ زنی و بہترین نوحہ خوانی تو کرے لیکن نماز قائم نہ کرے یعنی انکار کرے ، تو ان سب تکالیف و زحمات کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔
3۔ میں ان تمام محترم خواہران و دختران کا بھی شکریہ ادا کرتا چلوں جنہوں نے ظاہری و لسانی حجاب کی مکمل طور پر پاسداری کرتے ہوئے ( یعنی آوازوں کو بلند نہ کرتے ہوئے ) نماز با جماعت میں باقاعدگی سے شرکت کے ساتھ ساتھ مراسم عزاداری و مجالس میں بھر پور شرکت کی ۔ ان تمام خواہران و دختران نے اس طریقہ انجام دہی سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو راحت پہنچائی ۔
4۔ بچوں اور نوجوانوں کیلئے نرسری میں پروگرامات رکھے گئے ، لہٰذا میں اُن تمام دوستوں کہ جن کے توسط سے یہ پروگرامات منعقد ہوئے ، کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
5۔ مجالس عزاء زیادہ طویل نہیں تھیں لیکن اطمینان و یقین رکھیے کہ وہ طولانی مجالس کہ جن کی وجہ سے نماز پنجگانہ قضا ہو جائیں ، ان مجالس سے آقا امام حسین علیہ السلام راضی نہیں ہوں گے ۔
آقا امام علی علیہ السلام نے محمد بن ابی بکر سے فرمایا :
واعلم أنّ کل شيء من عملک تبع لصلاتک فمَن ضيّع الصلاة فإنّه لغيرها أضيع
( العيون ص219 ، أمالي الصدوق ص267 )
اے ابی بکر! جان لو کہ آپ کے تمام اعمال آپ کی نماز کے تابع ہیں ، یعنی اگر نماز قبول ہو گئی تو باقی اعمال قبول ہوں گے ۔
آقا امام حسین علیہ السلام ناں صرف نماز کی خاطر شہید ہوئے بلکہ اول وقت میں نماز انجام دی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم کی سب سے طویل سورۃ البقرۃ میں نماز کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ
( سورۃ البقرۃ ، آیت 3 )
وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور آداب کے ساتھ نماز قائم کرتے ہیں ۔
اسی طرح سب سے مختصر سورۃ الکوثر میں بھی فرماتے ہیں :
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ
( سورۃ الکوثر ، آیت 2 )
نماز ادا کرو اور قربانی دو ۔
قرآن فرماتا ہے کہ وَارکَعُو مَعَ الَؕراکِعِین ۔ یعنی رکوع کریں رکوع کرنے والوں کے ساتھ ، یعنی نماز با جماعت کی طرف اشارہ ہے ۔ آقا امام حیسن علیہ السلام نے بھی کربلا میں نماز جماعت قائم کی جبکہ تیر آ رہے تھے ۔
قرآن فرماتا ہے کہ : أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ ۔ یعنی اول وقت میں نماز پڑھیں ۔ آقا امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورہ نماز ظہر کو اول وقت میں قائم کیا لہٰذا ہمیں بھی پنجگانہ نمازوں کی وقت پر انجام دہی کرنی چاہیے ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام سے خطاب ہوا کہ جب تک زندہ رہو نماز پڑھتے رہو :
و اوصانی بالصلوٰۃ و الزکوٰۃ ما دمت حیا
اور مجھے وقت پر نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی وصیت کی گئی ۔
آقا امام حسین علیہ السلام نے آخری دم تک نماز قائم کی یہاں تک کہ قتل گاہ میں بھی سجدہ بجا لائے ۔
6۔ حسین و حسینیت فقط محرم الحرام کے ابتدائی دس دن کے لیے ہی نہیں بلکہ تا حیات پیروی کرنے کا نام ہے اور یا یہ کہ صرف دس دن تک شراب پینا چھوڑ دیا جائے اور بعد اختتام ایام عزاء پھر آغاز کر دیں ۔
7۔ سب ذاکرین و علماء کا بھی شکر گذار ہوں ، جنہوں نے بہترین انداز میں مجالس برپا کیں ۔ میری ان سب سے فردا گذارش ہے کہ ایسے اشعار پڑھنے چاہییں جن میں دوسروں کے لیے پند و نصیحت ہو ۔
چاہتا ہوں کہ آخر میں ایک نقطہ بیان کرتا چلوں کہ ہر سال ماہ محرم آتا اور چلا جاتا ہے ، لیکن اگر انقلاب حسینی کے بارے میں تفکر نہ کیا جائے اور حق و باطل کے درمیان تمیز نہ کی جائے اور اپنے زمانے کے حسین و شمر کو نہ پہچانا جائے تو یہ نوحہ خوانی ، گریہ و زاری ، سینہ زنی کرنا کوئی فائدہ نہ دے گا ۔
جیسا کہ پروردگار عالم فرماتا ہے :
من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتتا جاھلیہ ۔
جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت اور اسے پہچانے بغیر مر جائے ، اس کی موت مثل جاھل کی ہے ۔
دعا کرتے ہیں کہ خداوند عز و جل آقا امام زمان علیہ السلام کے صدقے اپنی رحمتوں و مغفرت سے نوازے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں کو قرآن کریم اور خدا و رسول و اہلبیت رسول ﷺ کے بابرکت وجود کے وسیلے برکات عطا فرمائے ۔
خود مجھے ، ہمارے اہل و عیال ، ہماری اولادوں اور اگلی نسلوں کو علوی اور زہرائی قرار دے ۔ انشاء اللہ العزیز
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
والعصر . ان الانسان لفی خسر . الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات . و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
باسم رب الشہداء و الصا لحین
الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین لا سیّما علىّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ بن الحسین و محمّد بن علىّ و جعفر بن محمّد و موسی بن جعفر و علىّ بن موسی و محمّد بن علىّ و علىّ بن محمّد و الحسن بن علىّ و الخلف الهادی المهدىّ حججک علی عبادک
و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین
اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
خطبہ دوم
عزیزان گرامی و نماز گذاران !
پروردگار عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں :
اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَـآءِ ذِى الْقُرْبٰى وَيَنْـهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْىِ ۚ يَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
( سورۃ النحل ، آیت 90 )
بے شک اللہ انصاف کرنے ، بھلائی کرنے اور رشتہ داروں کو حق دینے کا حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات و ظلم سے منع کرتا ہے، تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو ۔
ہمارا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا صرف وقتی طور پہ نہیں بلکہ محکم یعنی ہمیشہ کے لیے ہونا چاہیے ، کیونکہ شیطانی وسوسے ان اغراض و مقاصد ( اوپر بیان کردہ آیت کریمہ میں ) کو قتل کرتے رہتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا انجام دیتے رہنا ان سب کو زندہ رکھتا ہے ۔
پروردگار عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں :
اِنَّمَا الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَـهْوٌ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُـوْا وَتَتَّقُوْا يُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ وَلَا يَسْاَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ
( سورۃ محمد ، آیت 36 )
بلاشبہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا ۔
یہ تمام اسلامی ممالک کے لیے ایک آئین ہے ۔ آقا امام باقر علیہ السلام ایک خطبے میں فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا سب ادیان میں موجود تھا اور منسوخ بھی نہیں ہوئے ہیں ۔ مولانا فیض کاشانی نے تفسیر صافی میں لکھا کہ اگر قرآن میں یہی ایک آیت بھی موجود ہوتی تو کافی ہوتی ۔ اس آیت میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے جو ہم بیان کریں گے ۔
1۔ عدل : اجرائی امور ( یعنی حکومتی قوانین بنانے یا احکام جاری کرنے ) میں عدل و مساوات کا لحاظ رکھنا کہ جس میں افراط و تفریط نہ ہوں ۔ اس آیت میں ہر ایک شخص و حکومت کو خطاب کیا گیا ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ الملک یبقٰی مع الکفر ولا یبقٰی مع الظلم ۔ ملک اور حکومت کفر کے سہارے تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی ۔
2۔ احسان : یہ بہت مبارک جملہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ مالی لحاظ سے ، فکری لحاظ سے ، سماجی و عاطفی ( حسن سلوک و رہن سہن کے ) لحاظ سے احسان کرنا چاہیے ، بالخصوص والدین بزرگواران ۔ ہمیں وقتا فوقتا اُن کی زیارت کرنی چاہیے ، اُن کے ہاتھوں کو چومنا اور اُن سے محبت رکھنا چاہیے ۔ البتہ جو ان کے پاس نہیں جاتے ، وہ اپنے والدین پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔
3۔ فاحشہ و منکرات سے نہی کرنا : دوسروں کی خیر چاہتے ہوئے ان کو تہ دل سے نصیحت کریں ۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے کہ ، فطری طور پر سب چاہتے ہیں کہ وہ عدل و احسان سے کام لیں اور فاحشہ و منکرات سے متنفر بھی ہوتے ہیں ۔
عزاداری سید الشہدا علیہ السلام کے بارے میں ایک غلط فکر و سوچ کو رائج کیا جا رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ انقلاب امام حسین علیہ السلام کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو کیجیے لیکن یہ عزاداری و گریہ و زاری کیسی ، یہ کس لیے ہے ؟ انہیں ( ذکر اہلبیت علیہ السلام بیان کرنے والوں کو ) اپنی بات مکمل طور پہ بیان کرنی چاہیے کہ یہ نوحہ خوانی ، گریہ و زاری ، سینہ زنی یہ سب کس لیے ہے ۔
یہ بات اگر خود اپنے لوگ کر رہے ہیں تو خدا ان کے گناہوں کو معاف کرے اور نصیحت دے تا کہ بیدار ہو جائیں ۔ اگر دشمنوں کی طرف سے ہے تو دعا کرتے ہیں کہ ان کو ہدایت کرے ۔ یہ غلط فکر اور بنیادی غلطی ہے کیونکہ خود گریہ و زاری بھی اصل میں موضوعیت رکھتی ہے یعنی خود اس کے اندر ایک پیغام ہے ۔ بلکہ با آواز بلند گریہ و زاری و بکاء کرنے کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ۔ رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں گریہ و زاری پر پابندی تھی لیکن آپ تاریخ اٹھا کر حضرت زینب سلام اللہ علیہ کی نوحہ خوانی و گریہ و زاری پڑھ لیجیے ۔
اس ہفتے میں بروز اتوار سید ابن طاؤسؒ کی ولادت ہے ۔ سید ابن طاؤسؒ شہر حلہ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ایک 60 جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لہوف علی القتلی الطفوف کے نام سے لکھی ۔ یہ وہ ہستی ہے جس نے وصیت کی کہ مجھے اپنے والدین کے پھونک ( یعنی تلوؤں ) کی طرف دفن کیا جائے ۔ انہوں نے اس وصیت کے بارے میں وضاحت کچھ اس طرح کی کہ " میں نے یہ وصیت اللہ تعالی کے قرآن میں موجود حکم کو نافذ کرنے کے لیے کی کہ " والدین کے مقابل میں عاجز ہونا ضروری ہے اور پھر حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ نیکی کرو " ۔ اسی وجہ سے میں نے سوچا کہ جب تک زندہ رہوں حتیٰ مرنے کے بعد بھی والدین کے پاؤں کے نیچے رہوں یعنی عاجز گزار رہوں ۔
عزیزان گرامی و نماز گذاران !
یہ وہ ایام ہیں جن میں اسیران کربلا کی ابن زیاد کے دربار میں پیشی ہوئی تھی ۔ اسی دربار میں حضرت زینب سلام اللہ علیہ اور آقا امام سجاد علیہ السلام نے خطبے دیے ۔ کہتے ہیں کہ جب سِرِ مقدس ابا عبداللہ الحسین کو ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا اور پھر اہل حرم کو دربار میں لایا گیا اور جب حضرت زینب سلام اللہ علیہ پورے حجاب کے ساتھ اندر آئیں توعبیداللہ ابن زیاد نے پوچھا کہ یہ کون عورت ہے ؟ کہا گیا کہ یہ زینب دختر علی علیہ السلام ہیں ۔ اس پر ابن زیاد نے کہا کہ الحمد للہ یعنی اللہ تعالی نے آپ لوگوں کو رسوا کیا اور آپ کے جھوٹ کو ظاہر کیا ۔ میں یہاں پر حضرت زینب سلام اللہ علیہ کی اجازت سے کہنا چاہوں گا کہ اے ابن زیاد کون سا جھوٹ ؟ آیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نعوذ باللہ جھوٹی تھی یا قرآن کا نازل ہونا نعوذ باللہ جھوٹ تھا ؟ یا پھر یوم غدیر اعلان ولایت آقا علی علیہ السلام جھوٹ تھا یا پھر اہل البیت علیہ السلام کی عبادات جھوٹی تھیں ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہ نے ابن زیاد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے ابن زیاد ، رسوا وہ ہوتے ہیں جو فاسق و فاجر ہوں اور وہ ہم نہیں ہیں ؟ ابن زیاد نے کہا کہ جو کچھ اللہ نے آپ کے بھائی کے ساتھ کیا وہ کیا تھا ؟ بی بی سلام اللہ علیہ نے فرمایا : ما رایت الا جمیلا ۔ میں نے تو کچھ برا نہیں دیکھا سب کچھ بہت بہترین تھا ، یہ سب کچھ ہمارے لئے اور ہماری عاقبت کے لیے بہترین تھا ۔ وہ سب کامیاب ہو کر اپنی آخری آرام گاہ کی طرف چلے گئے بس کچھ یہاں باقی رہ گئے ہیں ۔
آقا امام سجاد علیہ السلام نے اپنی پھوپھی جان سے عرض کیا کہ آپ سکوت اختیار کریں ۔ پھر امام نے ابن زیاد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ، کیا تم ہمیں قتل یا موت سے ڈراتے ہو، کیا تو نے نہیں سنا کہ شہادت ہم اہل بیت کی میراث ہے اور ہمارے لیے باعث افتخار ہے ۔ یعنی مطلب یہی ہے کہ ہمیشہ حق اور باطل کے درمیان لڑائی ہو اور حق کامیاب رہے ۔
دعا کرتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر و خدائے پیغمر و آل پیغمر ہمیں صحیح معنوں میں اہل بیت اطہار علیہ السلام کے پیروکار بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
خداوند عزوجل ہم سبھی کو اس مبارک مہینے اور بابرکت گھڑیوں میں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے ۔
خدا ہم سبھی کو بوسیلہ آقا امام حسین علیہ السلام ، دیگر معصومین علیہ السلام و شہدائے کربلا کی شفاعت سے نوازے ۔
خداوند کریم ہم سمیت اپنے اہل وعیال کو عذاب جہنم سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کہ قرآن میں کئی مقامات پر حکم ہے ۔
خدا تعالیٰ ہمیں ان پاک و نیک مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور اپنا قرب عطا فرمائے ۔
ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد علیہ السلام کے لیے مفید قرار دے ۔
... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...
انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر
صدق الله العلی العظیم
|