بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و باسم رب الشہداء و الصا لحین
عنوان : بہترین اور افضل موت
موضوع : حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانچ نصیحتیں
مناسبت : ہفتہ وار
چینل : منبر آسمانی
لیکچر نمبر : ( 53 ) ترپن 53
1 ابتدائیہ جملات برائے حوصلہ افزائی
سب سے پہلے اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقوائے الہٰی اپنانے کی درخواست کرتا ہوں ۔
مجلس وعظ و مجلس ختم عبرت لینے والی مجالس اور تفکر کرنا ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو اہل معرفت اور سعادت کے مالک ہوں وہ مجالس کہ جس میں موجود حضرات علم اور معرفت کے متمنی ہوں اور چاہتے ہوں کہ بزرگان دین اور مذہب سے کچھ سیکھیں اور اس کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اسی راستے پر چلیں تو ان جیسے لوگوں میں سے ایک خوبصورت شخصیت کہ جس کو انسان اپنے لیے مثالی نمونہ بنا سکتا ہے کہ جس نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے سائے میں اپنی عمر گزاریں اور کشتی نجات کے ساتھ متصل ہوں وہ ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ یہ ان چار (4) با شعور لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں خداوند متعال و ذوالجلال نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو انہیں دوست رکھنے اور محبت کرنے کا حکم فرمایا تھا ۔ وہ چار لوگ امام المتقین علی بن ابی طالب علیہ السلام ، حضرت سلمان فارسی ، حضرت ابوذرغفاری اور حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
ملا محمد باقرمجلسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ، آئمہ معصومین کے بعد کوئی بھی سلمان ، ابوذر اورمقداد جیسا صاحب جلال اور کمال نہیں تھا ۔
امام ہفتم موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں ، قیامت کے دن رب العزت کی طرف سے ایک آواز آئے گی کہ کہاں ہیں حضرت محمد بن عبداللہ کے راستے پر چلنے والے ، کہاں ہیں ان کے حواری اور مخلصین ، کہاں ہیں وہ کہ جنہوں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نہیں توڑا ؟ تو اس وقت سلمان، ابوذر اور مقداد اٹھ جائیں گے ۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے زہد کو دیکھے تو وہ ابوذر کے تقوی کی طرف نگاہ کرے ۔
امام ششم صادق علیہ السلام نے ابوذر کو دو خاص خصوصیات کے ساتھ معرفی کیا ہے ۔
اگرچہ ان کے درجات اِن دو خصوصیات میں محدود نہیں ہیں بلکہ اور بھی صفات ہیں جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی زبانی بیان ہو چکے ہیں اور یہی صفات اس بات کا باعث بنیں کہ ابوذر کی زندگی ایک پر ثمر زندگی بنی اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اور عمر کے ساتھ ایسی تجارت کریں کہ جس کا نفع ہمیشہ کے لئے ہو اور یہ ایک ایسا کھیتی ہو کہ جس کا محصول ہمیشہ سبز رہے ۔ امام ششم صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کانَ أکثَرُ عِبادَةِ أبىذرٍ التَّفَکُّرُ وَ الْاعتبارِ۔
حضرت ابوذر کی عبادت کے دو محور تھے ، زیادہ فکر کرنا اور دوسرا عبرت لینا ۔ حضرت ابوذرغفاری فرماتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تنہا تشریف فرما ہیں ، میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور چاہا کہ جب تک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہوں اس وقت سے کچھ استفادہ کروں ۔ لہذا میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت کریں ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری درخواست کو قبول کیا اور ایک طویل نصیحت کی ۔ یہ نصیحت اتنا طولانی تھی کہ چار سو سال پہلے اس نصیحت پر مرحوم ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمۃ نے ایک کتاب عین الحیات کے نام سے لکھی اور اس میں ان نصیحتوں کی توضیحات اور تفاصیل بیان کیں اور اس باب میں بہت زیادہ مطالب ذکر کیے ، یہ کتاب مکتب گاہوں میں موجود ہے ۔ مرحوم باقر مجلسی علیہ رحمۃ کی اس کتاب کو فارسی زبان کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی پڑھایا گیا ہے یہاں تک کہ اس کتاب کے ذریعے لوگ اپنے بچوں کو رات سونے کے وقت نصیحتیں بیان فرماتے ہیں ۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو نصیحتیں ابوذر غفاری کو کیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :
يَا أَبَا ذَرٍّ اغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ ۔ اے ابوذر ! پانج نعمتوں سے استفادہ کیجئے اور غنیمت جانیے قبل اس کے کہ یہ چھین لی جائیں یا آپ اس سے محروم ہو جائیں ۔ یہ پانچ نعمتیں اتنی قیمتی ہے کہ کوئی شے ان کی جگہ پر نہیں کر سکتی یا ان کا کوئی بدل نہیں ۔ جب یہ نعمتیں ہاتھ سے نکل جائیں ہیں تو اس عالم میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان کی جگہ پر کر سکے ۔
اول » شَبَابَکَ قَبْلَ هَرَمِکَ ، اپنی جوانی کو بڑھاپہ آنے سے پہلے غنیمت سمجھیے ۔
دوم » وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ ، اپنی صحت کو بیمار ہونے سے پہلے غنیمت سمجھیے یعنی یہ نہ ہو کہ انسان بیماری کی وجہ سے کچھ نہ کر سکے ، اپنی صحت سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور آخرت کے لئے بھی کچھ نہ کرسکے ۔
سوم » وَ غِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، اپنی ثروت مندی اور دولت کو فقیر ہو جانے سے پہلے غنیمت سمجھے ۔ مطلب یہ کہ ابھی آپ کے پاس وقت ہے تو لہٰذا اپنی آخرت کے لئے کچھ کریں قبل اس کی کہ آپ کا خالی ہاتھ رہ جائیں پھر اگر آپ کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہ کر سکیں ۔
چہارم » وَ فَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، اپنی خالی اوقات کو پر ہونے سے پہلے غنیمت سمجھیے اور اپنے خالی وقت سے فائدہ اُٹھائیے
پنجم : وَحَيَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ، اپنی زندگی کو موت آنے سے پہلے غنیمت جانیے ۔
ان پانچ نعمتوں سے آپ اسی وقت استفادہ کیجئے تاکہ آپ بہشت کے خریدار بن سکیں ۔
یعنی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ سے اپنی صحت ، طاقت ، روزگار ، قدرت اور جوان عمری کو بڑھاپا آنے سے پہلے غنیمت جان لینے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے بارے تاکید فرما رہے ہیں ۔
کچھ اشعار آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کروں کہ جو مشہور فارسی صوفی شاعر ، ادیب اور عالم بابا طاہر نے کہے ہیں لیکن اس کا علم اکثر و بیشتر لوگوں سے پوشیدہ رہا ہے ۔
ان رباعیات کے علاوہ اس نے چارسو کلمات قصار بھی عربی زبان میں لکھے ہیں کہ جو اتنے پر معنی ہیں کہ جس پر ہمدانی صاحب نے عین القضات کے نام سے پانچ مفصل شرحیں لکھیں ہیں ۔
وہ کہتے ہے کہ:
بهار آيو به صحرا و در و دشت
جوانى هم بهارى بود و بگذشت
جوانی بھی اس بہار جیسی ہے کہ جو صحراؤں اور دشتوں میں آ جائے اور پھر گزر جائے ، تو کیا یہ بہار جو گزر چکی ہے کیا واپس آ سکتی ہے ۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر میں جوانی بیش بہا قیمتی چیز ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ اسے غنیمت سمجھے اور برباد نہ کرے ۔ جس انسان نے جوانی کو غنیمت سمجھا اور اچھے اور مثبت طریقوں سے استعمال کیا تو پوری زندگی اپنے پروردگار کے ساتھ تجارت کی ۔
عمر کے تقریبا 14 سال کے بعد انسان کی جوانی شروع ہوجاتی ہے کہ جو چالیس سال تک رہتی ہے ، انسان چاہے تو اچھے اور مثبت طریقے سے استعمال کرے یا پھر منفی طریقے سے لیکن بہر حال یہ گذر ہی جائے گی اور تمام ہو جائے گی ۔ مثال کے طور پر اگر دو جوان حضرات میں سے ایک خدا کے ساتھ عشق رکھتا ہو اور اپنی جوانی کو اللہ کی راہ میں استعمال کرے تو وہ آرزو رکھے گا کہ کاش اس کو دوبارہ یہ جوانی ملے ۔
لیکن وہ جس نے جوانی کو اچھے طریقے سے استعمال نہ کیا ہو ، مختلف مشکلات میں پھنس گیا ہو یا ایسے امراض لگ چکے ہوں کہ جو لا علاج ہوں ۔ مثال کے طور پر اس کی دونوں گھٹنے فیل ہوچکے ہوں یا اس نے بہت زیادہ بد فعلی کی ہو یا چند ملین روپے چوری کیے ہوں ، اب اس کے پاس اتنے پیسے نہ ہوں کہ وہ ان صاحبان کو واپس کر دے ۔ اب بڑھاپے نے اس کو اپنے پنجے میں پکڑ لیا ہو تو کیا ایسا آدمی اپنی جوانی کی واپسی کی توقع کر سکتا ہے ؟
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ انْتُمْ عَلَى ظَهْرِ السَفَرِ جب انسان اپنے وقت گذار چکا ہوتا ہو تو اسی وقت سے اسے ایسے مرکب (یعنی تخت ) پر بٹھایا دیا جاتا ہے کہ جس کا نام حرکت کرنا ہے ۔ جب کوئی انسان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا آخرت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے یا یہ کہ اخرت کی طرف آگے بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کو پا لے ۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، أنتم على ظهر السفر و السَّيرُ بِکُم سَريعٌ ، آپ لوگوں کو ایسے مرکب پر بٹھایا جاتا ہے جو تیزی سے سفر کرتا ہے اور ہمیشہ بھاگتا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان کو قبر کی کنارے پہنچا دیتا ہے اور وہاں انسان کو گراتا دیتا ہے اور جلدی سے اس کے نامہ عمل کو بند کردیتا ہے ۔
بابا طاہر کہتے ہیں :
دوران بقا چو باد نوروز گذشت روز و شب ما به محنت و سوز گذشت
تا چشم نهاديم به هم صبح دميد تا چشم گشوديم ز هم روز گذشت
دوران بقا نوروز کی ہوا کی طرح گزر جاتی ہے ، ہمارے دن رات محنت اور مشکلات میں گزر جاتے ہیں ۔ آنکھ ابھی ٹھیک سے لگنے نہیں پاتی کہ صبح ہو جاتی ہے اور آنکھ ابھی ٹھیک سے کھولنے نہیں پاتیں کہ دن گزر جاتا ہے ۔
انسان ذرا اپنے گریبان میں جھانکے کہ وہ کمرہ جس میں پیدا ہوا ، کہ جس کی دیواریں اینٹوں سے بنی تھیں ، وہاں کان لگا کر سنیے تو آپ کو کچھ آوازیں سنائی دیں گی ۔ ایک ماں کی چیخ کہ جب اس نے ہمیں پیدا کیا ، ایک پھوپھی اور چچی کی ہنسی اور مسکراہٹ کہ جو ہمارے پیدا ہونے پر خوش ہو گئے اور کچھ لوگوں کی آواز کہ جو کہہ رہے تھے کہ ہمارے لیے مٹھائیاں لے آئے ۔ یہ سب میرے پیدا ہونے کے لیے تھیں کہ ابھی دنیا میں آیا ہی تھا تو اس وقت سے لے کر اب تک کتنا وقت گزرا ہو گا ۔
انتم على ظهر السفر و السَّيرُ بِکم سَريعٌ فقد رَأيتُم اللَّيلَ و النَّهارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ يُبلِيانِ کُلَّ جَديدٍ
آپ کو ایک تیز سفر کرنے والے مرکب پر بٹھایا گیا اور آپ دیکھ رہے تھے کہ دن اور رات ، چاند اور سورج نے سب نئی چیزوں کو پرانا کر دیا ہے ۔
ابھی آپ دیکھ ہی رہے تھے کہ آپ کے کان کو سننے والے آلے کی ضرورت محسوس ہوئی اور آپ کے آنکھوں کو عینک کی ضرورت پڑی ، یا ابھی آپ پائوں کھول کر یا سیٹ پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہو ۔ اگر نماز جماعت میں امام کی سجدہ طولانی ہو جائے تو بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ جتنا جلد ہو سکے اٹھ جائے اور جب دوسری رکعت کے لیے زمین سے اٹھنا چاہیں تو سانس رک جاتی ہے یعنی جو کچھ نعمات آپ کو دیے جا چکے تھے وہ سب پرانے اور بیکار ہو چکے ہیں اور اب کوئی بھی شے یا متبادل راستہ اس کو نیا نہیں کر سکتا ۔
استاد محترم انصاریان صاحب کہتے ہیں کہ جب میں آیت اللہ العظمیٰ ملانی جو کہ بہت پائے کے عالم دین تھے ، کی خدمت میں مشہد میں پہنچا اور دروازہ پر دستک دی تو ان کا خادم میرا پیغام لے کر اندر گیا اور ان سے کہا کہ جس طبیب کا آپ کہہ رہے تھے وہ آچکا ہے ۔
آیت اللہ العظمیٰ ملانی صاحب نے استاد محتم انصاریان سے کہا کہ میں پوری رات کھانستا رہتا ہوں ، نیند نہیں آتی ، بھوک نہیں لگتی اور حوصلہ بھی بہت کم ہو چکا ہے ۔ یہاں پر استاد محتم انصاریان نے ان کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ فقط ایک بات بولیں آگے میں سب سمجھ جاؤں گا اور وہ یہ کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں اور آپ کی پوری بیماری یہی ہے اور اس بیماری کا کوئی علاج بھی نہیں ہے ۔ لہذا آپ کو کسی طرح بھی اس کے ساتھ چلنا ہو گا ۔ استاد محتم انصاریان نےانہیں کچھ دوائیں دیں اور کہا کہ ان سے آپ کو کسی حد تک وقتی طور پر آرام آجائے گا ۔ لیکن اگر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ مکمل صحتیاب ہو جائیں گے تو یہ کبھی بھی ہونے والا نہیں ہے ۔ آیت اللہ العظمیٰ ملانی تقریبا 90 سال حیات رہے اور اس مدت حیات کو بہترین طریقے سے گزارا۔ انہوں نے صرف یہ کتاب قادتنا کيف نعرفهم ، کہ جو دس جلدوں پر مشتمل ہے تحریر فرمائی ، اس کتاب کے ابتدائیہ جلدوں میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ " میں امیدوار ہوں کہ یہ کتاب جو میری پوری عمر کا سرمایہ ہے ، قیامت میں میری نجات کا سبب بنے اور اس کے علاوہ میں نے جتنے شاگردوں کی تربیت کی یا خود اپنی نمازیں پڑہی ہیں ، ان سب سے مجھے کوئی توقع نہیں ہے ۔
استاد محترم انصاریان صاحب کہتے ہیں کہ آیت اللہ العظمیٰ ملانی نے اپنی عمر کو صحیح راستے میں بسر کیا ، لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو میں وہاں نہیں تھا ۔ کچھ دن بعد مشہد پہنچا اور ان کے اہلخانہ سے تسلیت اورتعزیت عرض کرنے کے بعد کہا کہ اس کی آخری عمر کے بارے میں مجھے کچھ بتائیں کیونکہ آخری ایام بہت اہم ہوتے ہیں ۔ آخری ایام وہ ایام ہیں کہ جس میں انسان کے لیے اچھا اعمال یا پھر برے اعمال کی فہرست بنائی جاتی ہے ۔ ان ایام میں یا تو انسان دین دار بن کر جاتا ہے یا پھر بے دین ہو کر ، لیکن اِس وقت کچھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ بہت ہی سخت دن ہوتے ہیں ۔
اس کے بیٹھوں نے کہا کہ اخری تین دنوں میں وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے ، نہ کسی کی طرف دیکھتے تھے اور نہ کچھ کہتے اور کرتے ۔ لیکن آخری دن تقریبا دس بجے آنکھ کھولیں تو ہم سب خوش ہو گئے ۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہاں کہ نزدیک آ جاؤ ۔ میں نزدیک گیا تو کہا کہ میں اس دنیا سے جانے والا ہوں تم میرے لیے حضرت امام حسین علیہ السلام کے آخری لحظات کے مصائب
پڑھو جب حضرت زینب سلام اللہ علیہ تلہ زینبیہ پر آئی تھیں ۔ جب میں ( فرزند ) نے اس مقام کے مصائب پڑھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور یونہی اس دنیا سے رحلت کر گئے ۔ پروردگار عالم ہمارے لئے ہمارے بزرگان دین کو حفظ فرمائیں ۔ الہٰی آمین ۔
آیت اللہ العظمی جوادی آملی کہتے ہیں کہ جب وہ علامہ طباطبائی کہ جو تفسیر المیزان کے مالک ہیں ، کی عیادت کے لیے ان کے گھر گیا جب وہ عمر کے آخری لحظات میں تھے کے نزدیک بیٹھ گیا ۔ وہ مسلسل ایک کونے کی طرف دیکھ رہے تھے اور مرنے سے پہلے بس اتنا کہا کہ میری پوری عمر اس انتظار میں تھی کہ تمہیں دیکھ سکوں اور اب آخری لحظات میں تمہیں دیکھ رہا ہوں ۔ بس یہی کہہ کر اس دنیا سے رحلت فرما گئے ۔
اس طرح تبھی ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی عمر کو اچھے اور مثبت طریقے سے گزارے ۔ کتنا برا ہوگا کہ جب انسان قریب المرگ ہو یعنی آخری لمحات مین ہو لیکن پھر بھی گناہ کی فکر یا اسے انجام دینے کی سوچ رہا ہو ۔ جب کہ نہ ہی ملک الموت سے فرار ممکن ہے اور نہ ہی خداوند عزوجل کی حکومت و طاقت سے ۔ بعض حضرات اپنے آخری لحظات میں یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے کیوں اپنی دولت سے جدا کیا جا رہا ہے ؟ انسان جب تک زندہ ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی آخرت کے لیے کچھ جمع کرے ۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ موت آنے سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھیے ۔
کچھ روایات میں اس طرح کہا گیا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی موت کے لیے استعداد پیدا کریں ۔
شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے :
کنونت که چشم است اشکی ببار زبان در دهان است عذری بيار
کنون بايدت عذر تقصير گفت نه چون نفس ناطق زگفتن بخفت
جب تک آنکھ باقی ہے تو آنسو بہائے جا اور جب تک منہ میں زبان ہے تو مغفرت طلب کرتا رہ ۔
اب جبکہ زبان ہے تو بخشش اور غلطیوں کو معاف کرنے کی خواہش کریں قبل اس کے کہ وہ وقت آ جائے کہ جب کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی مت بول ۔
موت کے لیے استعداد پیدا کرنا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا میں اپنا حساب و کتاب کرے ۔ کیا ہم کبھی ایک مہینے یا سال میں ایک بار اس طرح کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے اپنا حساب اور کتاب کریں ۔
مرحوم آیت اللہ العظمی حاج سید احمد خوانساری کے گھر والے ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی عمر کی پوری کمائی ایک قالین ہے اس کو بچھا دیں اور میرے لئے کسی سے روزے رکھوائیں اور نماز پڑھوائیں ۔
جب ان کے وصیت نامے کو کھولا گیا تو انہوں نے لکھا تھا کہ اب تک 90 سال عمر ہو چکی ہے اور میں نے تقریبا سب نمازیں ادا کیں ۔ تبھی میں نے یہ سوچا کہ ممکن ہے کہ اس میں کوئی خلل واقع ہوا ہو ۔ اسی وجہ سے میں نے 90 سال اپنے قضائے عمری پڑھی ، پھر مجھے شک ہوا کہ شاید یہ بھی قبول نہ کیا گیا ہو تو میں نے تیسری مرتبہ 90 سال اپنی نماز قضا ادا کیے ، پھر بھی مجھے شک ہو رہا
تھا تو اسی لیے میں نے دوبارہ نماز پڑھوانے اور روزہ رکھوانے کی وصیت کی تاکہ کوئی میری نیابت میں میری نماز اور روزہ ادا کریں اور شاید اللہ تعالی اسے قبول کرے ۔
آخری بات یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنی وصیت کے لیے خود اپنا وصی بنیں یعنی یہ کہ جو کچھ تم دوسروں سے کروانا چاہتے ہو وہ خود انجام دو کیونکہ جو کچھ تم دوسروں کے لئے چھوڑ دیتے ہو بہتر تو یہ ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے وہ خود کر لے اور اسی طرح بچوں کے لئے بھی کچھ بنائیں تا کہ وہ بعد میں اس کے لئے دعا کرتے رہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ انہوں نے وصیت کی کہ جب وہ مر جائیں تو کھجور کے انبار صدقے میں دے دو اور جب وہ مر گئے تو کھجور کے انبار کو صدقے میں دے دیا گیا بس تھوڑے سے کچھ کھجور باقی رہ گئے ۔ اتنے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر وہ اپنی زندگی میں یہ کھجور دے دیتا وہ اس پورے امبار سے بہتر تھا ۔
اسلام چاہتا ہے کہ ہر آدمی ترقی کرے اور دوسروں کی ترقی کا باعث بنے تا کہ اس کی وجہ سے دوسرے افراد بھی ترقی کریں اور یہ سب کچھ اس وقت بہتر ہے جب تک اس کا تعلق اس دنیا سے ہے ۔ لیکن جب اس کا تعلق اس دنیا سے کٹ جاتا ہے تو پھر بھی اگرچہ اسکی طرف سے صدقہ دینے کا اجر ہے لیکن اتنا نہیں ہے کہ جتنا اس کی زندگی میں اس کو مل سکتا ہے ۔
کچھ روایات میں ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام بستر شہادت پر تھے تو انہوں نے حضرت عباس علیہ السلام کو بلایا اور اپنے سینے سے لگایا اور کہا کہ بیٹا بہت جلد آپ کی وجہ سے قیامت میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک مل جائے گی ۔ یاد رکھو کہ اذا کان يوم عاشورا و دخلت المشرعة، اياک ان تشرب الماء و اخوک الحسين عطشان ۔
جب روز عاشورا فرات میں داخل ہو جائو تو خبر دار پانی مت پینا جبکہ آپ کا بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام پیاسا ہو ۔ حضرت عباس نے بھی اس وصیت پر عمل کیا یہاں تک کہ جب روز عاشورا پیاس کی حالت میں دریائے فرات پہنچا تو کہا و الله لا اذوق الماء و سيدی الحسين عطشانا ، خدا کی قسم میں اس وقت تک پانی نہیں پیوں گا کہ جب تک میرا بھائی حسین پیاسہ ہو ۔
ہمیں شیطان رجیم کی چالوں ، چاپلوسیوں اور گمراہیوں سے آگاہ رہنا چاہیے اور اسے موقع نہ دیں کہ وہ خدائے بزرگ و برتر اور ہمارے درمیان حائل ہو سکے ۔
خدا تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور پروردگار عالم کا قرب حاصل ہو ۔
ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد کے لیے مفید قرار دے۔
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکا تہ
|