۱۳۹۸/۵/۱۱   7:15  بازدید:1902     آنلین مقابلے


30 ذی القعدہ 1440(ھ۔ ق) مطابق با 02/08/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
باسم رب الشہداء و الصا لحین
والصلاه و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا الذی سمی فی السما باحمد و فی الارضین بابی القاسم مصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین و لعنت الله علی اعدائهم اجمعین

اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
سب سے پہلے میں خود کو اور پھر آپ تمام نماز گذاران کو تقویٰ الہی کی نصیحت کرتا ہوں ۔ 
تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے طرز عمل اور اعمال کو خدا و رسول و اہلبیت رسول ﷺ کی رضا کی راہ میں منظم کرے ۔ 
سیدھے الفاظ میں ، تقوٰی کا مطلب یعنی یہ کہ ہم نے مذہب اسلام و اہلبیت ﷺ سے جو کچھ سیکھا ہے اس پر عمل کریں ۔ 

آپ سبھی نے آیت اللہ العظمیٰ تقی بہجت دامت برکاتہ کا نام تو سنا ہی ہو گا۔ ان کے بارے میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ فرماتے تھے : 
آیت اللہ تقی بہجت معنوی و روحانی احکام کے اعتبار سے بہت مراعات یافتہ اور بلند درجات کے مالک ہیں ۔ 

مقام معظم رہبری حضرت امام خامنہ ای دامت برکاتہ ان کے اوصاف کے بارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ
"آیت اللہ تقی بہجت اخلاقیات اور تصوف کے ایک عظیم استاد تھے اور نہ ختم ہونے والی روحانی خوبیوں کا سرچشمہ" یعنی یہ کہ ان کے وجود میں معنویت کا کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ موجود تھا ۔ 

اس قسم کی عظمات و روحانی اقدار کے حامل انسان کے ساتھ یقینی طور پر انسانیت کا بھی گہرا تعلق ہے، یعنی یہ کہ اگر ان ہدایات و عظمات و روحانی اقدار پر عمل کیا جائے تو یقینا فائدہ مند ثابت ہو گا ۔ 

آیت اللہ بہجت اپنی ایک اخلاقی نصیحت میں بار بار فرماتے: 
محترم خواتین و حضرات میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ، ہم خدائے بزرگ و برتر کے قریب ہونے اور اپنی روحانیت کو بڑھانے کے لئے کیا کرتے ہیں؟ اور معمول کی طرح کسی نہ کوئی جواب نہ دیتا 
پھر فرماتے: تشریف لے جائیے اور خدائے عز و جل کے قرب کو پانے اور روحانی اقدار کے حصول کے لئے جتنا بھی دین جانتے ہیں اس پر عمل کریں۔ 

تقوٰی کا مطلب : 
یعنی یہ کہ ، ہر وہ عمل جو ہم نے دین سے سیکھا ہے ، اسے انجام دیں ۔ 
جان لیجئے کہ جھوٹ بولنا بدی و بد بختی ہے ، لہٰذا جھوٹ نہ بولیں ۔ 
جان لیجئے کہ غیبت کرنا بدی و بد بختی ہے ، لہٰذا غیبت نہ کریں ۔ 

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : 
اِتَّقُوا الکَذِبَ الصَّغيرَ مِنهُ وَ الکَبيرَ، فى کُلِّ جِدٍّ وَ هَزلٍ فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذا کَذِبَ فِى الصَّغيرِ اجتَرَأَ عَلَى الکَبيرِ ۔ 
مذاق میں یا اصل میں؛ جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو کیونکہ جب بھی چھوٹا جھوٹ بولو گے بڑا جھوٹ بولنے کی جرات پیدا ہو جائے گی ۔ 

جان لیجئے کہ حرام تصاویر کی طرف نگاہ کرنا ، فحش ویڈیوز دیکھنا اور نا محرم کی طرف نگاہ کرنا اصلا حرام ہے ، تو خدارا اپنی نظروں پر قابو رکھیں۔ 

خواتین جانتی ہیں کہ نا محرم کے سامنے یا اس کے لئے میک اپ کرنا اور حجاب نہ کرنا حرام ہے ،  لہٰذا میک اپ میں کنٹرول لائیے اور حجاب کو اہمیت دیجئے ۔ 

تقوٰی یعنی یہ کہ : 
اگر ہم اپنی زندگی میں راحت مند یعنی خوش باش نہیں ہیں تو ، اس کی سب سے بڑی وجہ دینی علم سے نا آ گاہی یا عمل نہ کرنا ہے اور یہی سب سے بڑی تباہی ہے ۔ لہٰذا لذت گناہ و گناہوں کی کثرت ہماری روزی میں تنگی کا باعث بنتی ہے ، مسائل کو بڑھاتی ہے ، نفسیاتی دبائو کا باعث ہے اور کسی صورت سکون و اطمینان حاصل نہیں ہوتا ۔ 

یہ ہمارے دین کی طرف سے انتباہ ہے کہ گناہ مسائل کو بڑھاتے، آفات میں اضافہ کرتے اور روزی میں تنگی کا باعث بنتے ہیں ۔ یہاں تک کہ گناہ انسانی زندگی کو کم کرتے ہیں ، تو نجات کا واحد راستہ اطاعت دینِ پروردگار یعنی تقوٰی الہٰی ہے ۔ 
خدائی امن اور روحانیت کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ مذہب کے بارے میں جانتے ہیں اس پر عمل پیرا ہوں ۔ 

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : 
ہر وہ شخص جو دین کے بارے میں جانتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے تو خداوند عالم اسے استاد قرار دیتا ہے اور جو کچھ وہ دین کے بارے میں نہیں جانتا اسے اس کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ 
یعنی یہ کہ ، اگر میں اور آپ جو کچھ مذہب کے بارے میں جانتے ہیں اور انجام بھی دے رہے ہوتے ہیں تو ، خدا ان کے لئے تمام راستے ہموار کر دیتا ہے اور ایسے اسباب فراہم کرتا ہے جو وہ نہیں جانتے ۔ بس اتنا احساس ہوتا ہے کہ ہم خدا سے قریب تر ہو رہے ہیں ۔ 

انشاء اللہ آج سے ہی ہم اپنے دینی علم کا اطلاق یعنی اس پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کریں تا کہ ہماری زندگیاں اہل بیت اطہار علیہ السلام کے نور سے منور ہو جائیں ۔ 

آج شہادت امام نھم، حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام ہے اور میں اس شہادت کے موقع پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ و رہبر مسلمین جہان آقا خامنہ ای اور آپ سب کو تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں ۔ 

امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا :
"مَنْ أَصْغی إِلی ناطِق فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإِنْ کانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ وَ إِنْ کانَ النّاطِقُ یَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إِبْلیسَ فَقَدْ عَبَدَ إِبْلیسَ" 
جو شخص کہنے والے کی بات کو سن کر اس کی طرف رغبت پیدا کر لے (یعنی مان جائے ) تو بے شک اس نے عبادت کی ۔ پس اگر کہنے والا خدا کی طرف سے ہے تو گویا خدا کی عبادت کی اور اگر کہنے والا شیطان کی طرف سے ہے تو گویا  شیطان کی عبادت کی ۔

میں نہایت اختصار کے ساتھ امام علیہ السلام کی ایک خوبی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ آپکو اس واقعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ محمد و اہلبیت محمد ﷺ کا دروازہ ضرورت مند افراد و امداد کے لئے آنے والوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہا ہے ۔ 

امام جواد علیہ السلام اپنی کمسنی و نوجوانی کے دوران ہی سخاوت مندی کے لئے جانے جاتے تھے ۔ ایک بار جب لوگ امام علیہ السلام سے مدد لینے ان کے دروازے پر جمع ہوئے ۔ مجمع یا بھیڑ اتنی تھی کہ ان کے قریبی ساتھیوں نے گھر کے عقبی دروازے پر جانے کا فیصلہ کیا تا کہ عام مساکین و ضرورتمندان میں پھنس نہ جائیں ۔ اس وقت امام رضا علیہ السلام خراسان میں تھے ، جب انہیں اس بارے میں اطلاع ملی تو انہوں نے امام جواد علیہ السلام کو خط لکھ کر مشورہ دیا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مرکزی دروازے سے نہ جائیں ان کی بات نہ سنو ۔ آپ امام علیہ السلام مرکزی دروازے پر جائیں اور ساتھ میں سونا چاندی لے جائیں تا کہ جو ضرورت مند ملے ، اسے خالی ہاتھ نہ جانے دیں ۔ 

محترم برادران و خواہران عزیز ! 
اہل بیت اطہار علیہ السلام نے ضرورت مندوں کے ساتھ جس طرح سلوک کیا ، یا یہ کہ کبھی ان کی ضروریات سے انکار نہیں کیا ، کوئی ایسا شہر نہیں جہاں ایسے لوگ نہ ہوں جنہیں رات کے وقت روٹی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میسر نہیں ، اپنے بچوں کے اسکول میں اندراج کروانے کے لیے اخراجات نہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے معاشی لین دین میں اپنا سرمایہ کھو چکے ہیں ۔ انہی شہروں مین بعض افراد ایسے بھی ہیں جو اتنے خود کفیل ہیں کہ اپنے علاوہ بیسیوں خاندانوں کی امداد کر سکیں لیکن وہ کسی کی مدد کرنے یا دست گیری سے انکار کرتے یا کتراتے ہیں ۔ لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ایسے افراد تک پہنچ سکتے ہیں اور پہنچ جاتے ہیں اور ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرتے ہیں ۔ اگر امام جواد علیہ السلام ہوتے تو وہ ضرورت مندوں کی اسی طرح دیکھ بھال یا داد رسی کر تے ۔ لہٰذا جتنا ہو سکے ایسے سبھی ضرورت مند افراد کی خبر گیری و امداد کریں ۔ 

جان لیجئے کہ خدا تعالیٰ اس کا بہترین اجر دے گا کیونکہ یہ وعدہ قرآن میں بار ہا اور متعدد مقامات پر تحریر ہے ۔ 

خدا ہم سبھی کو امام جواد علیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام کی شفاعت سے نوازے ۔ 

خدا تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور پروردگار عالم کا قرب حاصل ہو ۔

ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام  کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد کے لیے مفید قرار دے ۔ 

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ... و العصر ... ان الانسان لفی خسر ... الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

صدق الله علی العظیم
خطبہ دوم

بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم
رب الشہداء و الصا لحین

الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین لا سیّما علىّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ الحسین و محمّد بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌  و جعفر بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌محمّد و موسی بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌جعفر و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ موسی و محمّد بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ ‌علىّ و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ محمّد و الحسن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌علىّ و الخلف الهادی المهدىّ حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌
اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله

ایک بار پھر ، میں اپنے آپ کو اور تمام نماز گذاران کو الہی تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔

تقویٰ الہٰی کی پابندی کی ایک مثال خاندان کے حقوق کی پابندی ہے ۔ خاندان کی ذہنی اور جسمانی طور پر دیکھ بھال کرنا اس قدر ضروری ہے کہ خداوند متعال نے واضح طور پر قرآن مجید ، سورۃ تحریم کی آیت 6 میں حکم دیا ہے کہ : 

یا ایها الذین آمنوا قو انفسکم و اهلیکم نارا ! 
اے مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچائو جس کے ایندھن آدمی و پتھر ہوں گے اور ان پر وہ تند خو سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں کہ خدا جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ 

جیسا کہ میں نے کہا کہ خاندانی حقوق کا احترام کرنا صرف کھانا پینا فراہم کرنا یا خریداری کرنا نہی بلکہ جیسے آپ گھر سے باہر روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں ویسے ہی قیامت کے سامان کے لئے بھی کوشش کرنا ہوگی ۔ یعنی والدین اور بچوں ( دونوں ) کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو گھر کے ماحول پر مبنی دینی و مذہبی معلومات و اقدار فراہم کریں ۔ 

والد کے کچھ فرائض ہیں ۔ 
والدہ کے لئے کچھ فرائض ہیں ۔ 
اور بچوں کے اپنے اپنے فرائض ہیں ۔ 

بزرگان و دینی تعلیمات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم اسلامی معاشرے کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو خاندانوں کی اصلاح کرنی ہوگی ۔ یعنی جس قدر ایک خاندان صحت مند ہوگا اتنا ہی معاشرہ صحت مند ۔ اگر خاندان دیندار ہو گا تو معاشرہ بھی دینی طور پر مضبوط اور بہتر ہوگا ۔ 

عزیز اور گرامی قدر والدین!
 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی پرورش کریں تاکہ وہ آپ کے لئے باعث افتخار ہوں ، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ مستقبل میں کامیاب ماں باپ کی طرح رول ماڈل بن سکیں تو گھر میں تربیت کے دو بنیادی اصول اختیار کریں ، اور وہ یہ ہیں : 

والد حضرات بچوں کے سامنے اپنی زوجہ کو محبت اور توجہ دیا کریں تا کہ بچے بھی اپنی ماں سے پیار اور عزت سے پیش آئیں۔ 
اسی طرح ماں گھر میں اپنے بچوں کے سامنے خاوند / شوہر کی عزت کرے اور اپنے فرائض و اختیارات کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ 
دینی و مذہبی و اسلامی تعلیمات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے صحت مند اور مکمل خاندانوں میں ہی صالح اور صحیح و سالم بچے نظر آتے ہیں۔ 

میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک کنبے میں  (باپ کا  ماں پر توجہ دینے اور اس سے محبت کرنے کا) اولاد کی بہترین تربیت سے کیا تعلق ہے اور اسی طرح (ایک ماں کا گھر میں باپ کا اقتدار برقرار کرنے سے)  اچھی تربیت اولاد کا کیا ربط ہے۔

ملاحظہ کریں کہ ، جب گھر میں بیوی اپنے بچوں کے سامنے اپنے شوہر کی بے عزتی کرتی ہے یا اس کے بارے میں مسلسل غلط یا بد گمانی کے الفاظ کا استعمال کرتی ہے تو بچے اپنے والد کے سامنے بے ادبانہ طور پر کھڑے ہونا سیکھتے ہیں ۔ لیکن اب باپ کے پاس اپنے بچوں کو متاثر کرنے کا کوئی متبادل راستہ نہیں بچتا ، کیونکہ دراڑ پڑ چکی ہوتی ہے ۔ 

اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی سے پیار نہیں کرتا اور گھر کے معاملات کے سلسلے میں مسلسل شکایت کرتا رہتا ہے تو بچے جو احساسات اور پیار کے محتاج ہوتے ہیں؛ ان میں محبت کی کمی اور طبیعت میں انتشار پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی متبادل راستہ ان کی پرورش کے حوالے سے مفید و کار آمد ثابت نہیں ہوتا ۔ لہذا ایسے گھر میں بچوں کی شخصیت کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور بالآخر وہ بغاوت اور گھر کے امن سے انحراف کرنے پر اتر آتے ہیں ۔ 

لیکن وہ عورت جسے اپنے شوہر کی طرف سے محبت حاصل ہو ، اس کی بہتر دیکھ بھال بھی کی جاتی ہو ، اسے بہت زیادہ ستایش اور حوصلہ افزائی حاصل ہو تو وہ گھر میں کام کرنے سے لطف اندوز ہوتی ہے اور یقینی طور پر ایسی حوصلہ افزائی اور پیار کرنے والی ماں اچھے بچے پیدا کرے گی اور بہترین تربیت کر سکے گی ۔ 

اسی طرح اگر گھر میں شوہر کو اپنی اہلیہ کی طرف سے احترام حاصل ہو اور شائستگی سے ہم کلام ہوتی ہو تو شوہر کے لئے گھر سب سے بہتر اور محفوظ مقام ہوگا اور گھر میں رہنے سے لطف اندوز ہوگا اور اپنے گھر اور کنبہ میں محبت کے ساتھ وقت گزارے گا ۔ یقینی طور پر ایسا گھر جسے ایک محبت کرنے والا باپ سنبھالتا ہو اور اس گھر میں کام کرنے والی ایک حوصلہ افزا ماں ہو تو یقینا اچھے اور صحت مند اور تربیت یافتہ بچوں کی پرورش گاہ ہو گا۔ 

معزز حضرات ! آپ کی زوجہ آپ سے کوئی پھول تحفہ ملنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور کسی دوسری چیز میں اتنا لطف نہیں اٹھاتیں ۔ 

معزز خواتین ! شوہر ہمیشہ ایک بہترین اور بہادر آدمی بننا پسند کرتا ہے ، اگر مرد کو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی نظر میں سب سے بہتر ہے تو ایسا آدمی عروج پر پہنچ جائے گا ۔ تو ضرور ان تمام افعال اور اخلاقیات پر عمل کریں ۔ 

گھریلو ماحول میں بچوں کی طرف توجہ دینا بھی بہت اہم ہے ۔ اسلامی نفسیات میں کہا جاتا ہے کہ اگر گھر میں کسی لڑکی سے محبت اور پیار نہیں کیا جاتا یا کافی توجہ نہیں دی جاتی تو ان کی دوستی معاشرے کے برے اور گمراہ  افراد سے ہو جاتی ہے اور وہ انہیں اپنی کھوئی  ہوئی یا نہ ملی ہوئی توجہ کا نعم البدل سمجھتی ہیں۔ جبکہ پیار و توجہ دینے سے محبت بڑھتی ہے۔
 گلی کوچہ میں کوئی ایسا نہیں ہوتا جو اخلاص کے ساتھ محبت کا اظہار کرے ۔ شریر نوجوان بھی محبت کا اظہار کرتا ہے اور دوستی کو گھر میں کھوئی ہوئی محبت کے بدلے میں منفی طور سے استعمال کرتا ہے ۔ ان تمام خراب معاملات کی وجہ والدین کی اپنی اولاد سے دوری ہی ہے ۔ 

جب والدین گھر میں اپنے بچے کی صحیح دیکھ بھال نہیں کرتے، محبت کے ساتھ برتاؤ نہیں کرتے، تو انہیں یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ انکی اولاد معاشرے میں فاسد نہ ہوگی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ بچے کو گھر پر کھانا نہیں کھلائیں اور باہر سڑک پر بکنے والی مضر صحت اشیاء خرید کر دیں اور پھر بچے کو نصیحت بھی کریں کہ اگر آپ کو کوئی دوست یا جاننے والا نقصان دہ اور غیر صحت بخش کھانے کی پیش کش کرے تو اسے قبول نہ کریں ۔ جان لیجئے کہ اگر اسے بھوک لگی ہو گی تو یقینا اسے جو بھی شخص جیسا بھی کھانا پیش کرے گا وہ اسے قبول کرے گا ۔ اس کے بر عکس اگر بچے کو گھر پر کھانا کھلائیں تو نقصان دہ کھانے کی چیزوں سے وہ خود ہی دور رہے گا ۔ 

جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ معاشرے میں پھیلنے والا نقصان اصل میں خاندان میں ہونے والی غفلت کی وجہ سے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ معاشرے کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کی جڑ خاندان ہی ہے اور اسے سدھار بھی خاندان ہی سکتے ہیں ۔ 

تو محترم برادران و خواہران ! خاندان کے ماحول کو محفوظ رکھیں تاکہ ہماری آئندہ نسل معاشرتی نقصانات سے محفوظ رہیں ۔ ایسا کچھ نہ کریں کہ جس سے عورت کی محبت کو فراموش کیا جائے اور نہ ہی مرد کا اختیار غیر محفوظ رہے ۔ 

ماں باپ ایک دوسرے کا ساتھ دیں اگر سزا کے طور پر ماں دن میں اپنے بچے کو ٹیلی ویژن دیکھنے سے روکنے کا فیصلہ کرتی ہے تو باپ کو ماں کی مدد کرنی چاہئے۔ اسی طرح اگر والد بطور سزا پارک میں جانے سے بچے کو روکتا ہے تو ، ماں کو باپ کا ساتھ دینا چاہیے ۔ تبھی خاندان یقینی طور پر ایک مثالی کنبہ ہوگا اور خدا کی رضا کے ساتھ اچھے افراد فراہم کرے گا ۔ 

خداوند کریم ہم سب کو اپنے اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کے عذاب سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کہ قرآن میں کئی مقامات پر حکم ہے ۔ 

خدا ہم سبھی کو امام تقی جواد علیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام کی شفاعت سے نوازے ۔ 
خدا تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور پروردگار عالم کا قرب حاصل ہو ۔

ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام  کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد کے لیے مفید قرار دے ۔ 


... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر ان شانئک هو الابتر صدق الله العلی العظیم

صدق الله علی العظیم