۱۳۹۸/۵/۱۸   7:4  بازدید:1807     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


07 ذی الحجه 1440(ھ۔ ق) مطابق با 09/08/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 



خطبات نماز جمعہ
موضوع :تقوٰی کا حقیقی مفہوم

اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله
والصلاه و السلام علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا الذی سمی فی السما باحمد و فی الارضین بابی القاسم مصطفی محمد و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین و لعنت الله علی اعدائهم اجمعین
و باسم رب الشہداء و الصا لحین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


تقوٰی کا اصلی معنیٰ کیا ہے ؟ 
سب سے پہلے میں اپنے آپ اور بعد میں تمام نماز گذاران کو خدا کی بندگی کی نصیحت و سفارش کرتا ہوں ۔ 
تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے طرز عمل اور اعمال کو خدا و رسول و اہلبیت رسول ﷺ کی رضا کے لیے منظم کرے ۔ 
صاف الفاظ میں ، تقوٰی کا مطلب یہ کہ ہم نے مذہب اسلام و اہلبیت ﷺ سے جو بھی کچھ سیکھا ہے اس پر عمل کریں ۔ 
جب کبھی ہم اہل بیت اطہار علیہ السلام کی داستانوں یا ہدایات کی طرف نگاہ کریں تو تقوٰی کی اطاعت کے معاملے پر بہت ساریے احکامات دیکھتے ہیں ۔ تقویٰ کی پیروی کرنا اتنا ضروری ہے کہ روایت میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : ہر متقی انسان اہل بیت رسول ﷺ میں سے ہے ۔ 
ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : 
مَنِ اتَّقی مِنکُم وأصلَحَ فَهُوَ مِنّا أهلَ البَيتِ
ہر وہ شخص جو تقوٰی اختیار کرتا ہے اور صالح کردار کا مالک ہے وہ ہم اہل بیت رسول ﷺ میں سے ہے ۔ 
یعنی آپ میں سے ہر ایک جو تقویٰ اور حق کی راہ پر ہے وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرانے کا ایک فرد ہے ۔ 
جب امام علیہ السلام نے یہ فرمایا ، تو اصحاب میں سے ایک امام کی اس بات سے بہت حیرت زدہ ہوئے اور امام سے سوال کیا کہ کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے فرزندوں میں سے ہیں ؟ تو امام نے فرمایا ہاں ہوں ۔ 

محترم نماز گذاران ( برادران و خواہران ) 
جب تقویٰ کی فضیلت ہمیں اتنی بلند کر سکتی ہے کہ ہم اہل بیت میں شمار ہو سکتے ہیں تو ہر عقل مند و ذی شعور فرد کو اس کی پیروی کرنی ہو گی ۔ لیکن اصل میں تقویٰ کا مطلب ہے کیا ؟ 


ایک شخص کسی عارف کے پاس آیا اور پوچھا ، تقویٰ کیا ہے؟ اس عارف شخص نے کہا ، جب آپ کسی ایسی سرزمین پر پہنچتے ہیں جہاں کانٹے بھرے پڑے ہوں تو آپ کیسے چلیں گے؟ اس شخص نے کہا ، میں محتاط رہوں گا تا کہ میرے پائوں لہو لہان نہ ہو جائیں اور میں خون میں نہ ڈوب جائوں ۔ پھر اس عارف شخص نے کہا: دنیا میں اسی طرح زندہ رہو (یعنی ہوشیار رہو کہ تمہارا کردار و ایمان اس لہو لہان پائوں کی مانند نہ ہو جائے ) یہی تقویٰ ہے ۔

تقوٰی کا مطلب دین کے قلعے کی حفاظت کرنا اور اسے مستحکم بنانا ہے ۔ شیعہ قوم کی لیے ایک باعظمت و باعث افتخار نعمت زیارت جامعہ کبیر ہے جو ہم تک امام ہادی علیہ السلام سے پہنچی ہے ۔ علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ زیارت جامعہ کبیر کے مطابق ، روایات و فرمودات کے لحاظ سے زیارات آئمہ اطہار صحیح اور قوی ترین جز ہے ۔ اہل بیت علیہ السلام کی زیارت میں ایک خوبصورت جملہ کہتے ہیں کہ : 
اَلسَّلامُ عَلَي اَئِمَّة الْهُدَي وَ مَصابيحِ الدُّجَي وَ اعْلامِ التُّقَي
ہمارا سلام ہو آئمہ ہدیٰ ، جو دین کے روشن چراغ اور تقوٰی و ہدایت کے علم بردار ہیں ۔ 
ہم اہل بیت علیہ السلام کو اعْلامِ التُّقَي کے ساتھ پکارتے ہیں ، اعْلامِ التُّقَي یعنی تقوٰی کے علمبردار ۔ 

جس طرح ہر ملک کا پرچم اس ملک کی علامت ہوا کرتا ہے اور اگر آپ ایران کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں ہیں اور وہاں ایران کا پرچم دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس ملک کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ۔ یہاں ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آئمہ اطہار علیہ السلام بھی تقوٰی کا پرچم یعنی تقوٰی کی علامت ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے سڑک پر موجود لکیریں اور نشانات سڑک کے موجودگی کے آثار ہیں اور ہدایت و راہنمائی کا باعث ہوتے ہیں ۔ یعنی جو بھی گاڑی چلا رہا ہو گا وہ ان نشانیوں اور لکیروں سے راہنمائی لے گا ، اعتدال میں رہے گا فائدہ اٹھائے گا ۔ 

صاف الفاظ میں ، جب ہم کہتے ہیں کہ اہل بیت تقویٰ کی علامت ہیں ، یعنی تقوی کو ان صاحبان کے ذریعے پہچاننا چاہئے اور سیرت اہل بیت اطہار علیہ السلام پر عمل پیرا ہونا چاہئے ۔ دوسرے الفاظ میں ، اگر ہم اپنے آپ کو ایمانی صفات کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں آئمہ کرام کی صفات کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی ۔
ان اشراف ( آئمہ اطہار علیہ السلام ) کا انفرادی دائرے میں خدا سے کیا تعلق تھا ؟ لوگوں کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ خاندانی ماحول کیسا تھا ؟ دشمنوں کے ساتھ کیسا برتائو تھا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان (آئمہ اطہار علیہ السلام ) کے ساتھ ساتھ قدم بڑہائیے کیوںکہ یہ عین تقویٰ ہے ۔ 

آج امام محمد باقر علیہ السلام کا یوم شہادت ہے اور میں تیزی سے ان کی سیرت و کردار کی طرف اشارہ کرتا چلوں ۔ 
نام : محمد بن علی ابن حسین علیہ السلام ، لقب : باقر ۔ باقر کے معنی تقسیم کرنے کے ہیں ۔ آپ کو " باقر العلوم " بھی کہا جاتا ہے یعنی جو علم کی تقسیم کا ذمہ دار ہے ۔ 

ایک غیر مسلم شخص امام باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور طنزیہ انداز میں کہا: آپ یعنی " باقر" کا مطلب نعوذ باللہ بیل یا گائے ہے ۔ امام علیہ السلام بجائے اس کے کہ ناراضگی اور غصے کا اظہار کرتے بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ کہا ، نہیں ، میں " بقر" نہیں " باقر " ہوں ۔ پھر اس شخص نے کہا : آپ اس عورت کے بیٹے ہیں جو باورچی تھیں ۔ یعنی ظاہرا اس پیشے سے کوئی شرمندگی اور بے حیائی محسوس نہیں ہوتی ۔

اس کے باوجود جب یہ غیر مسلم شخص مادر گرامی امام باقر علیہ السلام کی اہانت کر چکا ، پھر بھی بجائے غصے سے لال پیلے ہونے اور غیض و غضب کا شکار ہونے کے امام علیہ السلام نے بہت تحمل سے کہا : 
جو قیاص آرای آپ نے میری والدہ کے لیے کی ہے اگر وہ سچ ہے تو خدا ان پر رحم کرے اور معاف کرے ، اور اگر یہ جھوٹ ہے تو تیرے لیے جھوٹ اور بہتان کا باعث بنے گی ( یعنی یہ کہ تو دو گناہوں کا مرتکب ہوا ہے ) ۔ 
اس وقت امام علیہ السلام حلم و برد باری یا غیض و غضب دونوں پر قادر تھے ، لیکن یہی اوصاف کسی بھی انسان کے اسلام سے خارج ہو جانے یا پھر کسی شخص کو مسلمان کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ 

محترم حضرات ، کبھی بھی اپنی زندگیوں میں کدورتوں کو جگہ مت بنانے دیجئے ۔ تقویٰ کا مطلب ایک دوسرے کی غلطیوں کو فراموش کرنا بھی ہے ۔ 

خداوند عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : 
وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ ۔
مومنوں کی برائیوں کو معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہئے ، کیا آپ یہ پسند نہیں کریں گے کہ خدا آپ پر رحم کرے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ 

البتہ لوگوں کی برائیوں کو معاف کرنے کا مطلب ہر گز ان کے گناہ کا اقرار کرنا نہیں ہے اور یہ کوئی غلط کام نہیں ہے ۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ لوگوں کو ایذا پہنچانا درست نہیں کیونکہ خدا ایسا کرنے والے کو معاف نہیں کرے گا ۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں کو قرآن کریم اور خدا و رسول و اہلبیت رسول ﷺ کی روشنی میں برکت عطا فرمائے ۔
خود مجھے ، اہل و عیال ، ہماری اولادوں ، ہماری اگلی نسلوں کو علوی اور زہرائی قرار دے ۔ انشاء اللہ العزیز

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
و العصر ... ان الانسان لفی خسر ... الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات ، و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر

صدق الله علی العظیم

 

بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم

رب الشہداء و الصا لحین

 

الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی اله الأطیبین الأطهرین المنتجبین لا سیّما علىّ امیرالمؤمنین و الصّدّیقة الطّاهرة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ الحسین و محمّد بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌  و جعفر بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌محمّد

و موسی بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌جعفر و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ موسی و محمّد بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ ‌علىّ و علىّ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ بن‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ محمّد و الحسن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌بن ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌علىّ و الخلف الهادی المهدىّ حججک علی عبادک

و امنائک فی بلادک و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌

اوصیکم عبادالله و نفسی بتقوه الله

 

خطبہ دوم

موضوع :             تقوٰی کا حقیقی مفہوم

مناسبت :               شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

عزیزان گرامی و نماز گذاران !

ماہ مبارک ذی الحجہ کو بہت ہی با برکت اور خیر کا باعث قرار دیا گیا ہے ۔ اس مہینے میں مچھلی (جو کہ بیش بہا خصوصیات کی حامل ہے ) کے کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید ہے ۔

 

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

پروردگار کے نزدیک اس مہینے کے ہر دن میں نیکی ، عبادات اور اعمال خیر کا بہت صلہ ہے ۔

 

یہاں تک کہ بعض روایات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان دس راتوں کہ جس کی پروردگار عالم نے سورۃ الفجر میں قسم کھائی ہے انہی میں سے ہیں (تفسیر قمی ، جلد 2 ، صفحہ 419) اور یہ قسم اس ماہ مبارک ذی الحجہ کی پہلی دہائی کی راتوں کے لیے بھی ہے ۔

 

ماہ مبارک ذی الحجہ کی پہلی دہائی کی باقی ماندہ راتوں کی قدر کو پہچانیے اور محافل و اجتماعات میں شرکت کیجئے ۔ مفتیح الجنان میں بھی اس مہینے کے اعمال کا حوالہ دیا گیا ہے ، ان میں سے ایک وہ نماز جو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے ۔

 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے والد امام باقر علیہ السلام نے مجھے تاکید کی کہ : میرے بیٹے ! ماہ ذی الحجہ کی پہلی دہائی میں ، ہر رات دو رکعت نماز مغرب اور عشا کی نمازوں کے درمیان ترک مت کریں ۔

 

یہ جو دو تین راتیں باقی رہ گئی ہیں ان میں اس نماز کو فراموش نہ کریں ، کیوںکہ کہا جاتا ہے کہ جو بھی ذی الحجہ کے مہینے کی پہلی دہائی میں اس نماز کو پڑھے گا ، اسے حج کے برابر فضائل و نتائج حاصل ہوں گے حالانکہ وہ حج پر بھی نہیں گیا ہو گا ۔ اس ماہ کی اور بھی فیوض و برکات ہیں جن سے مفتیح الجنان کا مطالعہ کر کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ لیکن میں مختصرا اس ہفتے کے مواقع کا ذکر کرتا چلوں ۔

 

 

 

ایک بار پھر ، میں آپ محترم نمازیوں کو امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کی برسی پر تعزیت پیش کرتا ہوں اور وہ مومنین جنہوں نے گذشتہ شب مراسم عزاداری و مجلس عزا برائے اہل بیت اطہارﷺ انجام دی یا وہ جنہوں نے اس میں شرکت کی ، ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ انشاء اللہ دعا کرتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام ہماری کاوشوں سے راضی ہوں ۔

 

کل 08 ذی الحجہ نواسہ رسول سید و سالار شہداء کا مکہ مکرمہ سے کربلا کے سفر کا آغاز کا دن ہے ۔ اتوار 09 ذی الحجہ کے دن ، امام حسین کے سفیر ، حضرت مسلم ابن عقیل اور امام کے خصوصی ساتھی حضرت ہانی ابن عروہ کی شہادت کا دن ہے ۔ اتوار ہی کے دن عرفات کا عظیم الشان دن بھی ہے ۔

 

عزیزان گرامی و نماز گذاران !

 

عرفات کے دن کی خوبصورت دعاؤں کو ترک مت کریں ۔ روز عرفات اتنا اہم ہے کہ شب قدر کے برابر ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی مجرم رمضان کی مبارک راتوں خصوصا رمضان کی شبوں میں اپنے آپ کو رحمت الہی کی ہوا کے سامنے اجاگر کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو اسے اگلے سال تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ یوم عرفہ اور اس کے فوائد کو نہ سمجھ لے اوراس کے فوائد اور لطف نہ اٹھا لے ۔

 

ہمارے بزرگوں کی روایات اور مشوروں کے مطابق ، یوم عرفات دعائوں کے لئے مختص ہے۔ اس دن دعائوں ، مناجات و اعمال کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جو کوئی بیمار شخص روزہ رکھتا ہے اس کی کمزوریوں اور ضعیفی کو ترک کر دیا جاتا ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اس دن کا روزہ نوے سال کے روزے کے برابر ہے ۔

 

ایک اور روایت ہے کہ عرفہ کی رات ہر دعا جو خیر و برکت کے لیے کی جاتی ہے اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے اور جو کام یا صالح عمل رضائے الہٰی کے لیے انجام دیا جاتا ہے وہ 170 سال کی اطاعت اور عبادات کے مترادف ہے ، یعنی یہ کہنا کہ ثواب کے متبادل اجر۔ مخصوص زیارت سید الشہداء برائے یوم عرفہ کو پڑھنے کی بہت زیادہ اہمیت و تاکید کی گئی ہے ۔

 

یہ روزہ عرفہ کے دوران انجام دیے جانے والی عبادات و اعزازات ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی انہیں انجام دینے سے محروم نہیں رہے گا ۔

 

عزیزان گرامی و نماز گذاران !

 

پیر کو عید سعید قربان ( عید الاضحیٰ ) کا دن ہے ۔ اس دن کے بہترین روحانی اعمال اور برکات نقل شدہ ہیں ۔ اس دن کا اہم کام قربانی کرنا ہے ۔ قربانی صرف حجاج کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر وہ جسے استطاعت ہو اس عمل کو انجام دے سکتا ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس دن کے اعمال و فرائض سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ لیکن عزیزان گرامی اس عظیم الشان دن کے موقع پر ، آئیے ہم اپنے غریب و نادار بھائیوں کو نظرانداز نہ کریں ۔ یہاں تک کہ اگر وہ قربانی نہیں کر سکتے ہیں تو ایک کھانے کی پلیٹ یا تھوڑی سی رقم انہیں پہنچائی جائے ۔

 

محترم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روایت میں غریبوں کے صدقات کو ایمان کا مظہر قرار دیتے ہیں ۔ (بحارالأنوار: 77 / 52 / 3) ۔ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے مشکل حالات میں صدقہ کرنے کی تاکید کی اور فرمایا : تین اعمال ایسے ہیں جو کوئی بھی شخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے انجام دے تو اللہ عز و جل بہشت اس کے واسے واجب قرار دے گا  اور ان تین اعمال میں سے ایک ضرورت مندوں اور غرباء و نادار حجرات کی بڑھ چرھ کر امداد کرنا ہے ۔

 

 

خداوند عز و جل ہم سب کو اس مبارک مہینے اور اس کی بابرکت گھڑیوں میں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے ۔

 

خدا ہم سبھی کو امام باقر علیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام کی شفاعت سے نوازے ۔

 

خداوند کریم ہم سب کو اپنے اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کے عذاب سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے جیسا کہ قرآن میں کئی مقامات پر حکم ہے ۔

 

خدا تعالیٰ ہمیں ان مقاصد میں آگے بڑھنے کے لیے ہمت و وسعت قلبی عطا فرمائے ، ہمیں گناہوں سے نجات اور اپنا قرب عطا فرمائے ۔

 

ہم خدائے بزرگ و برتر سے عہد کرتے ہیں اور اسے واسطہ دیتے ہیں کہ بہ وجود نازنین آقا امام عصر مہدی علیہ السلام  کہ ہماری غلطیوں اور گناہوں سے در گذر فرمائے اور ہمیں دین بزرگ و دین محمد و اہل بیت محمد کے لیے مفید قرار دے ۔

 

 

 

... اعوذ بالله من الشیطان الرجیم ...

انا اعطیناک الکوثر ... فصل لربک وانحر ... ان شانئک هو الابتر

 

 

صدق الله العلی العظیم