۱۳۹۸/۳/۱۰   3:46  بازدید:1996     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


18 رمضان 1440(ھ۔ ق) مطابق با 05/29/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


پہلا خطبہ

نہج البلاغہ میں متقیوں کے اوصاف

میں آپ لوگوں کی خدمت میں مسلسل صفات متقین بیان کر رہا ہو جو کہ نہج البلاغہ میں آئے ہیں۔

اگر تقویٰ کو بہتر پہچاننا چاہتے ہیں اور متقین کی صفات اور علامتوں سے بہتر واقف ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہمام کے خطبے کا جو نہج البلاغہ میں ہے اس کا مطالعہ کریں۔

نہج البلاغہ میں متقین کی ایک سو صفات بیان ہوئے ہیں۔

ہمام ایک عابد انسان اور امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھا ایک دن اس نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا یا امیر المومنینؑ آپ میرے لئے متقین کی اس طرح صفات بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے جواب میں تھوڑی دیر کی اور پھر آپ نے اجمالی طور سے فرمایا

اے ہمام تقویٰ کو اختیار کر اور نیک کام انجام دینے والا ہو جا ،کیونکہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ خدا متقین اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے ،ھمام نے آپ کے اس مختصر جواب پر اکتفا نہیں کیا اور آنحضرت ؑکو قسم دی کہ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں۔

اس وقت آنحضرت(ع) نے حمد و ثناء باری تعالیٰ اور پیغمبر (ص) پر درود و سلام کے بعد فرمایا۔

اور یکی بعد دیگری اس طرح سو صفات بیان کیے

اس میں سے کچھ ہم نے گذشتہ خطبوں میں ذکر بھی  کیے۔

ہم اس صفت پر پہنچے کہ: مؤمنین  کے بدن لاغر اور ان کی ضروریات تھوڑی ہیں، ان کے نفس عفیف اور پاک ہیں، اس دنیا میں تھوڑے دن صبر کرتے ہیں تا کہ اس کے بعد ہمیشہ کے آرام اور خوشی میں جا پہنچیں اور یہ تجارت منفعت آور ہے جو ان کے پروردگار نے ان کے لئے فراہم کی ہے دنیا ان کی طرف رخ کرتی ہے لیکن وہ اس کے قبول کرنے سے روگردانی کرتے ہیں دنیا انہیں اپنا قیدی بنانا چاہتی ہے لیکن وہ اپنی جان خرید لیتے ہیں اور آزاد کرا لیتے ہیں رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں قرآن کی آیات کو سوچ و بچار سے پڑھتے ہیں اس میں سوچنے اور فکر کرنے سے اپنے آپ کو غمگین اور محزون بناتے ہیں اور اسی وسیلے سے اپنے درد کی دوا ڈھونڈتے ہیں جب ایسی آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں شوق دلایا گیا ہو تو وہ امید وار ہوجاتے ہیں اور اس طرح شوق میں آتے ہیں کہ گویا جزا اور ثواب کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں _ اور جب ایسی آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں خوف اور ترس ہو تو دل کے کانوں سے اس کی طرف اس طرح توجہ کرتے ہیں کہ گویا دوزخ میں رہنے والوں کی آہ و زاری اور فریاد ان کے کانوں میں سنائی دے رہی ہے_ رکوع کے لئے خم ہوتے ہیں اور سجدے کے لئے اپنی پیشانیوں اور ہتھیلیوں اور پائوں اور زانوں کو زمین پر بچھا دیتے ہیں اپنے نفس کی آزادی کو خدا سے تقاضا کرتے ہیں جب دن ہوتا ہے تو بردبار، دانا ،نیکوکار اور باتقویٰ ہیں۔
خدا کے خوف نے ان کو اس تیر کی مانند کر دیا ہے کہ جسے چھیلا جائے اور لاغر اور کمزور کر دیا ہے انہیں دیکھنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں جب کہ وہ بیمار نہیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ دیوانے ہیں جب کہ وہ دیوانے نہیں ہیں بلکہ قیامت جیسی عظیم چیز میں فکر کرنے نے ان کو اپنے آپ سے بے خود کر دیا ہے

دوسرا خطبہ

جنگ صفین کے بعد حاضرین کی سرزمین سے واپس آتے ہوئے امام علی(ع)نے حسن بن علی(ع) کے نام ایک خط لکھا

کہ جس آپ ع نے آپنے لخت جگر حضرت امام حسن علیہ السلام کے لیئے نا یاب وصیتیں لکھ لیئے  یہ ہم سب کےلیئے بہتریں نمونہ عمل ہے۔

آپ ع لے فرمایا کہ؛

یہ وصیت ایک ایسے باپ کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمر خاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے کھڑا ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔ اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اور ہلاک ہو جانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کی فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کا ہمنشیں ہے اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کا مارا ہوا ہے اور مرنے والوں کا جانشین۔

اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہو گیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اور اغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکر سے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میری رائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہو گئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں چاہیے میں زندہ رہوں یا مر جاؤں۔

فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خدا کے درمیان نہیں ہے۔

اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنا دینا۔اسے یقین کے ذریعہ مضبوط رکھنا اور حکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااور فنا کے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل و نہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر پڑنے والے مصائب کو یاد دلاتے رہنا۔ان کے دیار و آثار کے سفر میں سر گرم رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں داخل ہوئے ہیں اور کہاں ڈیرہ ڈالا ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد ہو گئے ہیں اور گویا کہ عنقریب تم بھی انہیں میں شامل ہو جاؤ گے۔

لہٰذا اپنی منزل کو ٹھیک کر لو اور خبردار آخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو نہ کرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگے نہ بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہتر ہے۔نیکیوں کا حکم دیتے رہنا تاکہ اس کے اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے جہاں تک ممکن ہو دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کر دینا اور خبردار اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے نفس کو ناخوشگوار حالات میں صبر کا عادی بنانا اور یاد رکھنا کہ بہترین اخلاق حق کی راہ میں صبر کرنا ہے۔

اپنے تمام امور میں پروردگار کی طرف رجوع کرنا کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کا سہارا لو گے اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہو گے۔ پروردگار سے سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم کر دینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب خیر کرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس سے پہلو بچا کر گزر نہ جانا کہ بہترین کلام وہی ہے جو فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

میرے بیٹے! میں نے دیکھا کہ اب میری عمر بہت زیادہ ہو چکی ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں لہٰذا میں نے فوراً یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کر دیا کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے دل کی بات کہنے سے پہلے مجھے موت آ جائے یا جسم کے نقص کی طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اور دنیا کے فتنے تم تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان کا دل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کر لیتا ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو جانے سے پہلے وصیت کر دوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ساتھ اس امر کو قبول کر لو جس کی تلاش اور جس کے تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آ گئے ہیں جن کو ہم تلاش کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح ہو چکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔

اے میرے بیٹے! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے اور ان کے اخبار میں فکر کی ہے اور ان کے آثار میں سیرو سیاحت کی ہے اور میں اچھائی اور برائی کو خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال لیا ہے۔اور بہترین تلاش کر لیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی حصہ میں ہو اور زمانہ کے حالات کا سامنا کر رہے ہو۔تمہاری نیت سالم ہے اور نفس صاف و پاکیزہ ہے اس لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی ایک مہربان باپ کو اپنی اولاد کی ہوتی ہے۔

اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔قوانین اسلام اور اس کے احکام حلال و حرام سے کر رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں جانا۔پھر مجھے یہ خوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے عقائد و افکار و خواہشات کااختلاف تمہارے لئے اسی طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے ہو گیا ہے لہٰذا ان کا مستحکم کر دینا میری نظر میں ا سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حالات کے حوالے کر دوں جن میں ہلاکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔

فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اور وہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیک کردار افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کو نظرانداز نہیں کیا جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیےاور نہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے۔

اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہو گیا ہے اور تمہاری رائے تام و کامل ہو گئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر حسب منشاء فکر و نظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہو گے اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ پاؤں مارے اور باتوں کو مخلوط کردے۔اس سے تو ٹھہر جانا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق ہے وہی موت دینے والا ہے اور جو فنا کرنے والا ہے وہی دوبارہ واپس لانے والا ہے اور جو مبتلا کرنے والا ہے وہی عافیت دینے والا ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں مستقر رہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت، آزمائش ، آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے۔لہٰذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا کیا ہے۔روزی دی ہے اور معتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔

بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا کے بارے میں اس طرح کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ہے۔

فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت اور حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال وصفات کا بھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ہے لہٰذا خدا ایک ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے۔اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے والا نہیں ہے اور نہ اس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے بغیر سب سے آخر تک رہنے والا ہے وہ اس بات سے عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے احاطہ سے کیاجائے اگر تم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرح تم جیسے معمولی حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی طرف اطاعت کی طلب' عتاب کے خوف اور ناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں اس نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ بہترین ہے اور جس سے منع کیا ہے وہ بد ترین ہے۔

میرے بیٹے! میں ںے تمہیں دنیا۔اس کے حالات۔ تصرفات، زوال اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کر دیا ہے اورآخرت اور اس میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا نعمتوں کا بھی پتہ بتا دیا ہے اور دونوں کے لئے مثالیں بیان کردی ہیں تاکہ تم عبرت حاصل کر سکو اور اس سے ہوشیار رہو۔

یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاقحط زدہ منزل سے دل اچٹ ہو جائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب علاقہ کا ارادہ کرے اور راستے کی زحمت، اپنوں کی دوری، سفر کی دشواری اور کھانے کی بدمزگی وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے تا کہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے جو انہیں منزل سے قریب تر کر دے اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔

اوراس دنیا سے دھوکہ کھا جانے والوں کی مثال اس قوم کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے دل اچٹ جائے تو قحط زدہ علاقہ کی طرف چلی جائے کہ اس کی نظر میں قدیم حالات کے چھٹ جانے سے زیادہ ناگوار اور دشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب جس منزل پر وارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔