۱۳۹۸/۲/۶   0:36  بازدید:1693     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


20 شعبان 1440(ھ۔ ق) مطابق با 04/26/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 



بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں خود کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی تاکید کرتا ہوں۔ تقوی کا تذکرہ قرآن مجید میں کثرت سے ملتا ہے اور اللّٰہ تعالی نے لفظ تقوی 2،436 مرتبہ استعمال کیا ہے،
کبھی اسم کے طور پر اور کبھی فعل کے، لیکن بیشتر فعل کی شکل میں، جیسے «اتقوااللّه» یا «إتقوا رَبّکم» یا پھر «إتقوا اللّه الّذی خَلقکم» کے طور پر استعمال ہؤا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کی آیتوں میں «قُوآا أنفُسَکُم وَ أهلِیکُم النار» ترجمہ: "اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچاؤ" اور اسی طرح یہ آیت کریمہ کہ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کَثِيرًا وَنِسَاءًوَاتَّقُوا اللَّـهَ» ترجمہ: "اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو"
مندرجہ بالا دونوں آیات میں واضح حکم ہے کہ انسان اپنی گھریلو زندگی اور خاندانی روابط میں تقوی اختیار کرے اور اللہ سے ڈرے۔
میں نے گزشتہ خطبوں میں مسلسل اس مطلب کو بیان کیا ہے کہ تقوی الہی اپنانے سے زندگی میں خوشحالی، آرام، معنویت اور سکون آجاتا ہے
اور آپکی خدمت میں یہ عرض کیا  تھا کہ ہم اپنی زندگی میں تقوی کیسے اپنائیں؟ اس کے جواب میں جو بنیادی نکتہ بیان ہوا وہ یہ کہ ہمیں مرد اور عورت دونوں کی ان تمام خصوصیات اور ضروریات جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں انسے آشنائی حاصل کرنا ہوگی، کیونکہ یہی مختلف خصوصیات دونوں کے اندر کچھ کمیاں ایجاد کرتی ہیں، جس کے باعث  وہ ایک دوسرے کے محتاج رہتے ہیں، لیکن کرشمہ قدرت یہ ہے کہ یہی خصوصیات مقابل کی احتیاج کو بھی پورا  کرتی ہیں۔ یعنی ایک صنف کا خود کچھ چیزوں کےلئے محتاج ہونا  لیکن مقابل کی کچھ دوسری ضروریات کو  پورا کرنے کا عمل انسانی زندگی میں تحرک ایجاد کرتا ہے اور یہ مرد اور عورت دونوں ایک ساتھ ترقی رشد اور ترقی پاتے ہیں۔ 

لیکن اگر یہ احتیاج نا رہی تو سب ہلاک ہوجائیں گے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا تَفَاوَتُوا فَإِذَا اسْتَوَوْا هَلَکُوا" ترجمہ:  "کہ لوگوں کے مابین خصوصیات کا فرق اور یہ ایک دوسرے کا محتاج ہونا انکی زندگی کی ضمانت ہے اگر یہ ختم ہو جائے اور سب ایک جیسے بن جائیں تو یقینا ہلاک ہو جائیں گے"

اور پھر میں نے عرض کیا کہ مرد اور عورت کا اپنی منفرد خصوصیات کا حامل ہونا اور ان کے مابین یہ فرق، تربیت اولاد کے لیے بھی رکھا گیا ہے۔ اولاد کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے والدین کو  کچھ ذمہ داریاں عطا فرمائی ہیں اور ان ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھانے کے لیے پروردگار نے ان مختلف صفات کو مرد اور عورت یعنی والدین کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ((بی سبب خود را مرنجان، از قضا نتوان گریخت 
نوش جان باید کنی حق در پیاله هر چه ریخت))
بغیر سبب کے اپنے آپ کو اذیّت مت کرو جو کچھ مقرر ہو چکا ہے اس سے بھاگنا ممکن نہیں ہے، حق نے جو کچھ  آپ کے پیالے میں ڈالا ہے وہ خوشی سے پی لو۔
اسی سلسلے میں ہم نے مرد اور عورت کی خصوصیات اور ضروریات میں سے ایک ایک کو بیان کیا اور اس میں سے ایک  یہ کہ مرد چاہتا ہے کہ اس کی قدرت اور توانمندی پر اعتماد کیا جائے اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے اس بات کا اظہار کرے کہ اللہ نے اسے ایک ایسا شوہر عطا کیا ہے کہ جس کی طاقت، قدرت اور کچھ بھی کرنے کی صلاحیت پر وہ مکمل اعتماد کرتی ہے۔ اس طرح زندگی کی بنیادیں مضبوط ہوجاتی ہیں اور میں یہاں پر اس بات کی بھی تاکید کرتا چلوں  کہ والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے بچے کو قدرتمند اور باصلاحیت بنائیں  تاکہ وہ  بعد میں اپنی بیوی کا اعتماد  برقرار رکھ  سکے اولاد کو ایسا نا بنائیں کہ وہ کچھ بھی نا کر سکتا ہو۔
ہم نے عورت کی بھی ایک خصوصیت کا ذکر کیا کہ عورت چاہتی ہے کہ اس سے ہمیشہ محبت کی جائے اور نا صرف یہ بلکہ اس محبت کا اظہار بھی کیا جائے ۔ اور میں نے اس بات پر تاکید کیلئے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ذکر کیا تھا  کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  "قَوْلُ‏ الرَّجُلِ‏ لِلْمَرْأَةِ: إِنِّي‏ أُحِبُّکِ‏، لَا يَذْهَبُ‏ مِنْ‏ قَلْبِهَا أَبَدا) ترجمہ: "جب ایک آدمی اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ میں آپ سے پیار کرتا ہوں یا آپ مجھے اچھی لگتی ہو تو یہ بات اس کے دل سے کھبی نکلنے والی نہیں ہے"
یعنی شوہر کا وظیفہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی اس عاطفی ضرورت کو پورا کریے۔

اور اب  میں مرد کی دوسری خصوصیت کو بیان  کرتا ہوں اور وہ یہ ہے اس کے اقتدار کو تسلیم  بھی کیا جائے اقتدار اور قدرت میں فرق ہے۔ اقتدار کا مطلب یہ ہوتا ہے مرد کی حاکمیت کو خاندان کے سرپرست کے طور پر اور اس کو ایک رہبر کے عنوان سے یا ایک لیڈر کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ پہلے اپنے شوہر سے اجازت لے مثلاً یہ شریعت کا حکم ہے کہ عورت کو اپنے  گھرسے باہر جانے کے لئے  شوہر کی اجازت کی ضرورت ہے اس طرح دین مرد کا اقتدار محفوظ کرتا ہے اور جب ایک مرد یہ دیکھتا ہے کہ اسکی بیوی اسے اپنا سرپرست مانتی ہے اور اسی لئے وہ اس سے اجازت مانگتی ہے تو اس طرح اس میں اپنے گھر کی نسبت ذمہ داری کا احساس بڑھتا ہے لہذا اگر کبھی کوئی عورت دیکھے کے اس کا شوہر اپنی ذمہ داری صحیح نہیں نبھا رہا ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کیسے پیش آتی ہے آیا اپنی خواہش اور خود سے کسی کام کا انجام دینا تو شوہر کے اس رویئے کا باعث نہیں بنا ہے؟ مرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اپنے گھر کی نسبت سب کچھ محفوظ بنائے بہت کم اور استثنائی موارد میں شاید ان سب باتوں کے باوجود کوئی مرد اپنی ذمہ داری کا احساس نہ رکھے لیکن اکثر وہ اپنے ذمہ داری کا احساس کرتا ہے اسی وجہ سے وہ شادی بھی کرتا ہے لیکن بعد میں اپنے بیوی کے رویئے اور اس کی باتوں اور ضدی پن کی وجہ سے آہستہ آہستہ مرد اپنی ذمہ داری کو چھوڑ دیتا ہے۔

مثال کے طور پر  عورت کا بارہا یہ کہنا کہ میرا  دل نہیں چاہ رہا،  میں نے ضروری نہیں سمجھا، میں کیوں تم سے اجازت لوں ،میں نے خود یہ ارادہ کیا، میں اس طرح سوچتی ہوں اور میں مطمئن ہوں کے میں ٹھیک سوچتی ہوں۔۔۔ ان سب باتوں سے مرد کا دل خراب ہوتا ہے اور اسکے  دل سے ذمہ داری کا احساس نکل جاتا ہے۔
مرد کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ کچھ کہے تو اس کا جواب دیا جائے لیکن اگر اس کے کہنے کا جواب کسی نے نہیں دیا تو یہ گھرمیں تزلزل کا سبب بنتا ہے۔
تو اس لیے کہ ایک گھر کبھی تزلزل اور اختلافات کا شکار نہ ہو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے "الرِّجالُ قَوَّامُونَ‏ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلى‏ بَعْضٍ وَ بِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِم" ترجمہ:   "مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ یعنی مرد اپنے گھر کی مادی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اس خصوصیت کی وجہ سے مرد کو اپنے گھر میں رہبری کا حق ہوتا ہے اور اس حق کا دوسرے کو تسلیم کرنا  بھی اس کی ایک فطری ضرورت ہے لہذا یہ بات ایک عورت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ البتہ اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ(فَالصَّالِحاتُ قانِتات ) "پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں" اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الزَّوْجَةُ الصَّالِحَةُ" ترجمہ: "مرد کی سعادت اور خوش نصیبی یہ بھی  ہے کہ اسکو صالح بیوی ملے" اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک خود سر عورت گھر کے نظام کو برباد کر دیتی ہے اگر کوئی عورت اپنے مرد کے اقتدار کو زیر سوال لے جائے یعنی اپنے مرد کے اقتدار کو پوری طرح قبول نہ کرتی ہو تو اس طرح وہ اپنے بچے کو بھی یہ تاثر دیتی ہے کہ اس کے باپ کا اس گھر پر کوئی اختیار نہیں ہے اور تم جو کچھ چاہتے ہو کرو اور آخر میں وہ بچہ پھر اپنی ماں کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس کی ماں اپنے شوہر کی اقتدار کو نہیں مانتی تھی وہ عورت جو اپنے مرد کے اقتدار کو نہیں مانتی ہے اس کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جو ایک شاخ پر بیٹھ جائے اور پھر اسی شاخ کو کاٹتا رہے  اور آخر میں  خود ہی گر جائے۔ بس میں یہاں پر خواتین سے عرض کرتا چلو کہ اگر کبھی آپ کا اپنے شوہر کے ساتھ کوئی اختلاف پیدا ہوا تو اس اختلاف کو بچوں کے سامنے نہ لائیں اس اختلاف کو گھر کی صحن میں نہ لائیں اور بچوں کے ساتھ اس بارے میں کوئی گفتگو نہ کریں اور بچوں کے ساتھ درد دل بھی نہ کریں یہ سب خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ہے آپ کو چاہیے کہ آپ اس طرح رہیں کہ بچے یہ سمجھتے رہیں کہ آپ شوہر کی تابع ہیں۔
یقین جانیئے کے جس گھر کے بچوں میں  یہ یقین پیدا ہوجائیں کہ اس گھر میں میرے والد کی حاکمیت کو سب تسلیم کر رہے ہے  وہ گھر کئ آفات سے محفوظ رہتا ہے۔ ایک عورت نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ مرد کا عورت پر کیا حق ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 
"أَنْ تُطِيعَهُ‏ وَ لَا تَعْصِيَهُ" ترجمہ: "اس کی اطاعت کرے اور اسکے حکم کو نا ٹھکرائے"
"وَ لَا تَصَدَّقَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ" ترجمہ:  "اور اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے کسی چیز کوصدقے کی طورپربھی نا دے"
 "وَ لَا تَصُومَ تَطَوُّعاً إِلَّا بِإِذْنِهِ" ترجمہ: "اور اس کی اجازت کے بغیر  مستحب روزہ بھی نا رکھے"
"وَ لَا تَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهَا إِلَّا بِإِذْنِهِ" ترجمہ: "اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نا نکلے" 
"وَ إِنْ خَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا بِغَيْرِ إِذْنِهِ لَعَنَتْهَا مَلَائِکَةُ السَّمَاءِ وَ مَلَائِکَةُ الْأَرْضِ وَ مَلَائِکَةُ الْغَضَبِ وَ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ حَتَّى تَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهَا" ترجمہ: "لیکن اگر اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نکلی تو واپس آنے تک زمین اور آسمان کے فرشتے غضب اور رحمت کے فرشتے سب لعنت بھیجتےر ہیں گے"
البتہ اس کا کبھی بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد اپنی عورت کو قیدی بنا دے اور اپنے گھر کی حدود تک مکمل طور پر محدود کردے اور اس کو باقی دنیا سے محروم کر دے اسی وجہ سے حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ: "يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى عِيَالِهِ‏ لِئَلَّا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه" ترجمہ: "مرد اپنی عورتوں پر اتنی بھی سختی نہ کرے کہ وہ اللہ سے موت کی تمنا کریں"
 اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد اپنی عورت کو کبھی بھی گھر سے باہر نہ جانے دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقے سے مرد کا اقتدار محفوظ رہے۔
 اسی لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "خَيْرُ الرِّجَالِ‏ مِنْ‏ أُمَّتِي‏ الَّذِينَ لَا يَتَطَاوَلُونَ عَلَى أَهْلِيهِمْ وَ يَحِنُّونَ‏ عَلَيْهِمْ‏ وَ لَا يَظْلِمُونَهُم" ترجمہ: "میری امت میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے اہل و عیال پر غصہ نہیں کرتے اور ان پر رحم کرتے ہوں اور ان کو اذیت نہیں پہنچاتے ہوں" 
یعنی "اس پر ظلم نہیں کرتا ہو" کا مطلب یہ ہوا کہ مرد ہمیشہ چاہتا ہے کہ اس کا اقتدار محفوظ رہے، اگر کسی عورت نے اپنے مرد کے اقتدار کو ٹھیس نہیں پہنچائی  تو اس آدمی کا دل اپنی بیوی کے لیے محبت سے بھرا رہیگا۔

اب ہم عورت کی ایک ضرورت کو بیان کرتے ہیں۔ عورت چاہتی ہے کہ اس کی حمایت کی جائے اور اس کی مشکلات کو سنا جائے اور اسکی جو امیدیں شوہر سے وابستہ ہیں شوہر  ان کو پورا کرے ۔
لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی توقعات سے باخبر  رہے اسکی خواہشات کا احترام کرے اپنی بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
اسکے ساتھ عورت کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تحفظ چاہتی  ہے لہذا مرد ہر وقت خاص طور پر مشکلات میں بیوی کا ساتھ دے اور اس کی مدد کرے اور اس کے مادی ضروریات کو پورا کرنے میں سختی سے کام نہ لے۔

 حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى عِيَالِهِ‏ لِئَلَّا يَتَمَنَّوْا مَوْتَه‏" ترجمہ:  "آدمی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال پر ایسی سختی نہ کرے کہ وہ لوگ اپنے لئے موت کی تمنا کریں"
بیوی چاہتی ہے کہ شوہر اس کی زندگی کو آسان بنائے اور اسی طرح عورت کے زیب اور زینت طلبی کی خواہش کو پورا کرے آدمی کو چاہئے کہ جب تک اسراف کی حد تک نہ پہنچے اپنی بیوی پر  سختی سے کام نہ لے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "لَيْسَ‏ مِنَّا مَنْ‏ وَسَّعَ‏ اللَّهُ عَلَيْهِ ثُمَّ قَتَّرَ عَلَى عِيَالِه" ترجمہ:  "جس کسی کو اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے  عطا فرمایا اس کو چاہئے کہ وہ  اپنے اہل و عیال پر خرچ کریے"  لیکن اگر کسی نے ایسا  نہیں کیا تو اس کا ہمارے ساتھ کوئی روحانی اور معنوی تعلق نہیں ہو گا۔ 

عورت چاہتی ہے کہ وہ خود اور اس کے ارد گرد کا ماحول سب صاف ستھرا اور خوبصورت ہو یہ عورت کی فطری خواھش  ہوتی ہے اور یہ عورت کی خصوصیات میں سے ہے تو اس کے لئے مرد کو چاہئے  کہ وہ اپنی بیوی کی مدد کرے اور وہ جو کچھ چاہتی ہے وہ مہیا کریے۔
اور اسی طرح عورت میں شرم اور حیا بہت زیادہ ہوتی ہے لہذا مرد کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنی غیرت کو بیجا استعمال کرے اور اگر اس نے ایسا کیا تو عورت میں یہ احساس پیدا ہوجائیگا  کہ  اس کا شوہر اس کو درک نہیں کرتا  یعنی اسکو نہیں سمجھتا ہے۔ 
قال علی علیه السلام "إِيَّاکَ‏ وَ التَّغَايُرَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ الْغَيْرَةِ" ترجمہ: امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنی بے جا اور نا معقول سختی سے گریز کریں" 
خلاصہ مطلب یہ کہ آج میں نے مرد اور عورت کی دو خصوصیات کا ذکر کیا مرد کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ اقتدار ، رہبری اور سرپرستی چاہتا ہے اور عورت چاہتی ہے کہ مرد ا اس کو سمجھے اور اس کی مدد کریے۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ