۱۳۹۸/۱/۱۷   7:8  بازدید:2115     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


29 رجب 1440(ھ۔ ق) مطابق با 05/04/2019 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


پہلا خطبہ
السلام علیکم و رحمه الله و برکاته
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله نَحْمَدُهُ و نَسْتَعينُهُ و نَسْتَغْفِرُهُ و نَسْتَهْديهِ و نُؤمِنُ بِهِ و نَتَوَکَّلُ عليه و نعوذ بالله مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا و نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريک له و نُصَلّي و نُسَلِّمُ علي حبيبه و نجيبه و خيرته في خلقه، حافظِ سِرِّهِ و مُبَلِّغِ رسالاته، بشير نِعمَتِهِ و نذير نِقمَتِه، سيِّدِنا و نبيِنا حبيب إله العالمين أبا القاسم محمد و علي آله الطيبين الطاهرين المعصومين المُکَرَّمين الهدات المهديين ورحمه الله و برکاته۔
عبادالله اوصیکم و نفسی بتقوی الله؛

اے بندگان خدا! میں اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقویٰ الٰہی اپنانے کی وصیت کرتا ہوں 
جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہے کہ انسان کا اپنے  مقصد اور ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام وظائف میں سے ایک تقوی الہی کو اپنانا ہے۔
 حقیقتاً تقوی ایک روحانی دفاعی مہارت ہے کہ جس کے ذریعے انسان برے اعمال اور گناہ سے اپنے آپ کو محفوظ کرتا ہے اور اسی طرح حرام لذتوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
حکم تقوی تمام امتوں بلکہ تمام انسانوں کے لئے بھی ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔قرآن کریم میں ارشاد گرامی ہےکہ :
 وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِيَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ
بتحقیق ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کو نصیحت کی ہے اور تمہیں بھی یہی نصیحت ہے کہ تقویٰ اختیار کرو (سورہ نساء آيت131 )
 قران کریم میں دوسری جگہ پر ارشاد باری تعالیٰ ہے
(إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللَّهِ أَتْقَاکُمْ) بے شک تم میں سے متقی لوگ ہی  اللہ کے نزدیک مکرم اور صاحب عزت ہیں۔ 
اور اسی طرح فرمایا: 
وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَى؛(بقره 197) 
تقوی اختیار کرو کیونکہ بہترین توشہ آخرت تقوی ہے۔
تقویٰ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان میں سے ایک پہلو انسان کی خاندانی زندگی کا ہے، جیسے اپنی بیوی بچوں سے روابط میں تقوی اختیار کرنا۔
آج کے خطبے کا  موضوع بھی انسان کا اپنے خاندان کی نسبت تقوی اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہوئے اللہ سے ڈرنا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(اتَّقُوا اللَّهَ‏ فِي‏ الضَّعِيفَيْنِ‏ الْيَتِيمِ وَ الْمَرْأَةِ فَإِنَّ خِيَارَکُمْ خِيَارُکُمْ لِأَهْلِه‏)
دو گروہوں کی نسبت  تقوی اختیار کرو اور اللہ سے ڈرو ایک یتیم کی نسبت، اور دوسرا عورتوں ( بیویوں) کی نسبت اور حقیقتاً آپ لوگوں میں سے بہترین وہ ہیں کہ جو اپنی بیوی بچوں کے لئے اچھے ہوں۔
دوستوں! ہمارے دین میں بیوی بچوں کی نسبت تقوی اختیار کرنے کی تاکید کئی جگہوں پر کی گئي ہے اور بہت زیادہ کی گئی ہے، ہم اگر اپنی عورتوں کی نسبت اپنے غصے  کو قابو میں رکھیں
 اور جب ان سے بات چیت کریں تو اچھے انداز، نیکی اور مہربانی سے کریں  کیونکہ  حدیث کے مطابق ہم میں سے اچھا وہ ہے کہ جو اپنے خاندان اور اپنی بیوی کے لیے اچھا ہو.
اپنے خاندان کی نسبت تقوی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک محبت بھری زندگی کی تعمیر کی جائے جس میں ناراضگی نا ہونے کے برابر ہو اور یہی ایک کمیاب فیملی کی ضمانت بھی ہے۔ 
میاں بیوی ایک دوسرے کی نسبت اللہ سے ڈریں اور بداخلاقی نہ کریں اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک غلطی کا مرتکب ہو جائے  تو دوسرا اس کو معاف کرے
 تاکہ میاں بیوی کے درمیان جو اصلی رابطہ اور صمیمیت ہونا چاہیے وہ خراب نہ ہو۔
اہل بیت اطہار علیہم السلام بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں کہ ہم سب ایک خوبصورت اور الٰہی زندگی بسر کریں، ایسی زندگی جو تقوی کے ضوابط پر استوار ہو۔
قرآن کریم، احادیث اور روایات میں ہماری ہدایت کیلئے متعدد بار اور مختلف انداز میں خاندانی امور میں بلخصوص میاں بیوی کے روابط میں تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم مردوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: 
نِساؤُکُمْ‏ حَرْثٌ‏ لَکُمْ‏ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَ قَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ اعْلَمُوا أَنَّکُمْ مُلاقُوهُ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنين‏
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جا سکتے ہو نیز اپنے لیے(نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ کے عذاب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور (اے رسول) ایمانداروں کو بشارت سنا دو  (آیت 223 البقرہ)
جہاں مرد کو عورت پر اختیار دیا گیا ہے وہیں فوراً تقوی کی تاکید کی گئی ہے اور اس رشتے کے اصل ہدف کی جانب اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں سالم اور نیک نسل ملے جسکی بہترین تربیت کی جاسکتی ہو۔
 تو اس کے لیے سب سے پہلے لازم ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں چونکہ اولاد کی جسمانی، روحانی نفسیاتی اور معنوی پرورشگاہ اور درسگاہ والدین کی آغوش ہے۔ اگر اولاد کی اچھی تربیت نہ ہو اور وہ پرسکون نہ ہوں تو اس کے اثرات والدین پر پڑتے ہیں
 اور دوسری طرف سے ہمیں اس حقیقت کیلئے تیار رہنا چاہئے کے ہماری ملاقات اللّٰہ سے ہونی ہے اور ہماری تمام زندگی کا ہدف رضائے پروردگار ہے پس لازم ہے کہ ہم میاں بیوی ایک دوسرے کی نسبت تقوی اختیار کریں
 تا کہ ہم  افتخار اور کامیابی کے ساتھ اپنے خدا سے ملاقات کر سکیں۔ وائے  ہو اس آدمی پر جس کے شر سے اس کی بیوی محفوظ نہ ہو۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میاں کا اپنی بیوی کی نسبت تقوی اور اس کی رعایت کرنے کے بارے میں یہ فرمانا ہے کہ:
أَخْبَرَنِي أَخِي جَبْرَئِيلُ وَ لَمْ يَزَلْ يُوصِينِي‏ بِالنِّسَاءِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ لَا يَحِلَّ لِزَوْجِهَا أَنْ يَقُولَ لَهَا أُفٍّ يَا مُحَمَّدُ اتَّقُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ ... َ فَأَشْفِقُوا عَلَيْهِنَ‏ وَ طَيِّبُوا قُلُوبَهُنَّ حَتَّى يَقِفْنَ مَعَکُمْ وَ لَا تَکْرَهُوا النِّسَاءَ وَ لَا تَسْخَطُوا بِهِنَّ وَ لَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَّا بِرِضَاهُن‏ و اذنهن؛ 
کہ جبرائیل امین نے بار بار عورتوں (یعنی اپنی  بیویوں) کا خیال رکھنے کے بارے میں اس قدر تاکید کی کہ گویا مجھے یوں گمان ہوا کہ  مرد کوئی حق نہیں رکھتا کہ اپنے بیوی  کو اف تک بھی کہے،  فرمایا کہ  جبرائیل امین اس طرح مجھے تاکید کرتے رہتے تھے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتوں کی نسبت تقوی اختیار کریں اور عورتوں کی نسبت دلسوز رہیں اور کوشش کریں کہ ان کے دل کو اپنی نسبت سے پاک رکھیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ زندگی گزار سکیں ان کو ناراض نہ کریں ان پر غصہ نہ  کریں جو کچھ آپ ان کو دیتے ہیں تو ان کی رضایت اور اجازت کے بغیر وہ چیز ان سے واپس نہ لیں۔
سعد بن معاذ کا قصہ تو آپ لوگوں نے سنا ہی ہوگا جو اچھے اصحاب میں سے ایک تھے اور جنگ خندق میں زخمی ہونے کی وجہ سے ان کو شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ کی شہادت کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی تو وہ خود ان کو غسل اور کفن  دینے پر آکر ناظر ہوئے اور جب ان کا  جنازہ اٹھایا گیا تو پیغمبر برہنہ پا اور بغیر عبا  کے ان کے جنازے کے ساتھ گئے اور پھر جنازہ کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف سے اپنے کاندھے پر اٹھاتے، اس طرح سعد بن معاذ کا جنازہ قبرستان پہنچا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی قبر میں گئے اور اپنے ہاتھوں سے لحد تیار کی اور اپنے اصحاب سے کہا کہ انہیں پتھر اور مٹی دیں تاکہ قبر کی دیوار بنائی جائے جب ان سب کاموں سے فارغ ہوئے اور معاذ کی قبر کو مکمل طور پر بند کردیا تو ان کی ماں نے  ایک طرف سے آواز دی اور کہا کہ اے معاذ تمہیں جنت مبارک ہو! تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے سعد کی ماں اس طرح یقین سے اپنے بیٹے کے بارے میں نا کہو کیونکہ اب بھی وہ بہت زیادہ فشار قبر میں مبتلا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ جنازے میں شامل لوگ تدفین سے واپس ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ آج ہم نے آپ سے ایسا کچھ دیکھا کہ جو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آپ برہنہ پا اور بغیر عبا کے جنازے کے ساتھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس بات میں فرشتوں کی متابعت کی، 
 فرشتے بھی اس جنازے میں میرے ساتھ اسی طرح شامل تھے اور پھر پوچھا کہ آپ کبھی جنازے کی  دا‏ئیں طرف اور کبھی بائیں طرف کو اپنے کاندھے پر اٹھاتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے جاتے وقت میرے ہاتھ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ میں تھے وہ جو کچھ کر رہے تھے وہی کچھ میں بھی کررہا تھا گویا سعد کے جنازے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دوسرے فرشتے بھی شریک تھے۔ پوچھا گیا کہ آپ نے خود معاذ کا غسل و کفن اور  دفن کیا اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ اب اس پر بہت سخت فشار قبر ہو رہا ہے تو
 آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیونکہ سعد  اپنے خاندان میں اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ بہت بد اخلاق تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اگر ‏ تھوڑی بہت کوشش کرے اور بہت کم عمل کرے لیکن اپنے گھر اور خاندان میں اچھے اخلاق کا مالک ہو تو یہ اسکی زندگی کا عظیم سرمایہ اس کے پاس موجود ہے۔ کیونکہ  بااخلاق آدمی ، اپنے خاندان، اپنے بیوی بچوں، اپنی قوم قبیلے میں اچھے اخلاق رکھنے والا ہو تو پھر ہر میدان میں کامیاب رہے گا اور بہت کم مشکلات کا سامنا کرے گا۔
 اور اس طرح کے لوگ اللہ تعالی کی مہربانیوں سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتے ہیں۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے عورتوں کو بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نسبت تقویٰ اختیار کریں۔
 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‍(خولہ نامی) عورت سے فرمایا تھا کہ شوہر کی نسبت تقوی اختیار کرنا تقوی کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مرد کا بیوی پر حق یہ ہے کہ:

قَالَ حَقَّهُ عَلَيْکِ أَنْ لَا تَخْرُجِي مِنْ بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ لَا تَصُومِي تَطَوُّعاً إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ لَا تَتَصَدَّقِي مِنْ بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَ إِنْ دَعَاکِ عَلَى ظَهْرِ قَتَبٍ تُجِيبِيهِ. 
کہ بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے اور اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر سنتی روزہ بھی نہ رکھے  اور اسی طرح اپنے مال سے  صدقہ تک بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ دے اور اس کو اپنی قربت سے منع نہ کرے۔
وائے  ہو اس عورت پر کہ جس نے  اپنے شوہر کو ناراض کیا یا غصہ دلایا، اور خوش بخت ہے وہ عورت کہ جس سے اس کا شوھر راضی رہا۔

 

دوسرا خطبہ

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین ثم الصلاة و السلام علی سیدنا و نبینا حبیب اله العالمین، ابی القاسم محمد(ص) و علی آله الطیبین الطاهرین، اللهم صلّ و سلم علی مولانا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب و علی فاطمة الزهراء سیدة نساء العالمین و علی الحسن و الحسین سیدی الشباب اهل الجنة و علی علی بن الحسین زین العابدین و امام العارفین و علی محمد بن علیٍّ الباقر و علی جعفر بن محمد الصادق و علی موسی بن جعفر الکاظم و علی علیٍّ ابن موسی الرضا المرتضی و علی محمد بن علی الجواد و علی علی بن محمد الهادی و علی الحسن بن علی الزکیّ العسکری و علی الحجة القائم المهدی. حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک بهم نتولی و من اعدائهم نتبرئُ الی یوم القیامة.
عباد الله اوصیکم و نفسی بتقوی الله؛

اے بندگان خدا! میں اپنے آپ کو اور پھر آپ سب کو تقویٰ الٰہی اپنانے کی وصیت کرتا ہوں
ہم اللہ تعالی کے بہت مشکور ہیں کہ اس نے ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ ہم ایک بار پھر ماہ رجب کو درک کر سکے اور میں امیدوار ہوں کہ
 عید مبعث پر اس مرتبہ ہماری عیدی ظہور حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ شریف ہو۔

اسی طرح ہم ماہ شعبان کے بہت نزدیک ہیں اور اللہ سے چاہتے کہ ہمیں شعبان کی معرفت عطا فرمائے، شعبان وہ مہینہ ہے کہ جس میں ایک طرف سے بہت ساری خوشیاں ملی ہیں کیونکہ اس مہینے کی تیسری  کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہے اور چوتھے دن کو حضرت ابوالفضل العباس کی ولادت ہے اور پاچویں دن کو امام سجاد علیہ السلام کی ولادت  اور اسی طرح نیمہ شعبان کو منجی عالم  حضرت امام مہدی علیہ الصلاۃ والسلام بقیۃ اللہ الاعظم روحی و ارواح العالمین لہ الفدا کا میلاد باسعادت ہے۔
یہ ہمارے لئے بہترین موقع ہے کہ ہم اس ماہ کی نورانیت سے  فائدہ اٹھائیں اور مسجد امام حسین علیہ السلام کی جانب سے منعقد ہونے والے جشن کی تقریبات میں  شامل ہوں اور اسی طرح اپنوں کو  بھی اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
دوسری طرف سے شعبان کا مہینہ وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے ۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔
          امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاندنموردار ہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب !جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہ السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدا تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔
اسی لئے ہمیں بھی چاہیے کہ اس مہینے میں ملے عظیم موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
 میں کچھ اعمال ذکر کرتا ہو۔ جو کہ مفاتیح الجنان میں ذکر ہوئے ہیں: 
1۔       ہرروز سترمرتبہ کہے:
استتغفراللہ واسئلہ التوبۃ
بخشش چاہتا ہوں اللہ سے اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں
2۔       ہر روز ستر مرتبہ کہے:
استغفراللہ الذی لآالہ الاھوالرحمن الرحیم الحی القیوم واتوب الیہ
بخشش کا طالب ہوں اللہ سے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بخشنہار ومہربان ہے 
3۔       صدقہ دیا کریں اگرچہ وہ نصف کھجور ہی کیوں نہ ہو ، کہ صدقہ بہترین اعمال میں سے ایک ہے۔
4۔       پورے ماہ شعبان میں ہزارمرتبہ کہے:
لآالہ الا اللہ ولانعبد الا ایاہ مخلصین لہ الدین ولوکرہ المشرکون
نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور ہم عبادت نہیں کرتے مگر اسی کی ہم اس کے دین سے خلوص رکھتے ہیں اگرچہ مشرکوں پر ناگوار گزرے۔
          اس ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے ، جس میں سے ایک جز یہ ہے کہ جو شخص مقررہ تعداد میں یہ ذکر کرے گا اس کے نامئہ اعمال میں ایک ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔
5۔       شعبان کی ہر جمعرات کو دورکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ حمد کے بعد سومرتبہ سورئہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سومرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین ودنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے۔ واضح ہو کہ روزے کا اپنا الگ اجر و ثواب ہے اور روایت میں آیا ہے
 کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تب ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آج کے دن کا روزہ رکھنے والوں کو بخش دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے۔ ایک حدیث میں مذکور ہے اگر کوئی شخص ماہ شعبا ن میں سوموار (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھے تو خداوند کریم دنیا وآخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔
7۔       شعبان میں ہر روز وقت زوال اور پندرہ شعبان کی رات امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی صلوات پڑھے
8- حضرت امام علی علیہ السلام اور انکے فرزندان سے مروی اس مناجات کو پڑھے:
 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد وَ اسْمَعْ دُعَائِي إِذَا دَعَوْتُکَ ...
اللہ تعالی کو اس مہینے کی اعیاد اور مناسبات کا واسطہ دیتے ہے کہ ہمیں اس مہینے کو درک کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین۔ 
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
قل هوالله  احد. الله الصمد.لم یلد و لم یولد و لم یکن له کفوا احد.
صدق الله العلی العظیم