۱۳۹۸/۱/۲   1:44  بازدید:1731     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


15 رجب 1440(ھ۔ ق) مطابق با 22/03/2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


پہلاخطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے گذشتہ خطبے میں عرض کیا کہ بندوں کا اپنے رب سے ارتباط قائم رکھنے کے لئے ایک وسیلہ "دعا" ہے۔
 دعا خود ایک قسم کی عبادت،  بندگی، خضوع اور خشوع ہے ۔ باقی عبادات کی طرح دعا کا بھی ایک تربیتی اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ دعا کا ایک اثر یہ ہے کہ  دعا انسان کو اندرونی طور پر   مطمئن اور پرسکون  رکھتی ہے اسی طرح  روح کی بہادری اور شجاعت بڑھاتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی آیات  بھی  بیان کی گئیں۔
آج ہم انشاء اللہ دعا کے واقعی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
دعا کا واقعی مفہوم یہ ہے کہ دعا ایسی ہر چیز کے عوامل و اسباب کی فراہمی کے بارے میں درخواست کو کہتے ہیں جو انسان کے دائرہ قدرت سے خارج ہو ، 
یہ درخواست اس ہستی سے کی جاتی ہے کہ جسکی قدرت ہر شئی سے بالاتر  ہے اور جسکے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے، اور یہ سب کچھ اسکے لئے بہت آسان ہے۔
دوسرے الفاظ میں دعا ایک قسم کی خود آگاہی، دل اور فکر  کی بییداری اور اسی طرح تمام نیکیوں  اور اچھایوں کے مالک کے ساتھ دل  کی پیوستگی کا نام ہے ۔
حضرت امام علی ع نے فرمایا کہ: 
(لایقبل اللہ عزوجل دعا‏‏‏ء قلب من لاہ) خداوند متعال کبھی بھی اس شخص کی دعا قبول نہیں کرتا کہ جو غافل ہو۔
اب سؤال یہ ہے کہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟
بعض روایات میں ان چیزوں کا  ذکر موجود ہے جو دعا قبول ہونے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہے۔
1: بد نیتی
2: حسد اور نفاق
3: نماز پڑھنے میں تاخیر
4: بدزبانی
5: حرام کھانا
6: صدقہ نہ دینا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا۔    
مرحوم طبرسی کتاب احتجاج میں حضرت امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام (ع) سے پوچھا گيا


انہ سئل الیس  یقول اللہ ادعونی استجب لکم؟
پوچھا گیا کیا اللّٰہ نے نہیں فرمایا کہ مجھ سے دعا مانگو تو  مستجاب ہوتی ہے۔

و قد نری المضطر یدعوہ ولا یجاب لہ
جبکہ ہم نے دیکھا کہ مضطر نے دعا کی اور مستجاب نہیں ہوئی۔

والمظلوم یستنصرہ علی عدوہ فلا ینصرہ
اور مظلوم جو ظالم پر فتح کی دعا کرتا ہے لیکن اسکو مدد نہیں ملتی۔

قال ویحک! مایدعوہ احد الا استجاب لہ
  آپ (ع) نے فرمایا کہ واے ہو تجھ پر!  ناممکن  ہے کہ کوئی اللہ کو پکارے اور وہ جواب نہ دے۔

اما ظالم فدعائہ مردود الی ان یتوب
البتہ ظالم کی دعا اس وقت تک مردود رہتی ہے کہ جب تک وہ توبہ نہ کرلے

(اما المحق فاذا دعا استجاب لہ  وصرف عنہ البلا‏ء من حیث لایعلمہ، او  اذخر لہ ثوابا جزیلا لیوم حاجتہ الیہ) البتہ جو دعا کی قبولیت کا حقدار ہے اسکی دعا قبول ہو جاتی ہے اور اسے ایسی بلاؤں سے محفوظ کرتی ہے جسکا اسے علم ہی نہیں ہوتا
 اور یہ دعا انسان کے اس روز کیلئے ذخیرہ ہوتی ہے جس روز انسان کو اسکی سب سے سے زیادہ ضرورت ہوگی۔

و ان لم یکن  الامر الذی سئل العبد خیرا لہ ان  اعطاہ امسک عنہ
اگر  بندہ کوئی وہ چیز اللہ سے طلب کرے جس میں خیر نہ ہو تو ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ (تفسیر صافی ذیل آیات 63 سورہ غافر)
وہ موانع کہ جو دعا کو قبول نہیں ہونے دیتے ان میں سے ایک قوانینِ شرعی اور حدود الٰہی کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔
کسی شخص نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے دعا قبول نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا :
خدا کہتا ہے کہ دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں،
لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتیں؟

اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا:
”إنَّ قُلُوبَکُم خَانَ بِثَمانِ خِصَالِ“
تمہارے دلوں نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتیں۔

1: إنکم عرفتم الله فلم تؤدّوا حقه، کما أوجب عليکم فما أغنت عنکم معرفتکم شيئاً،
1۔ تم نے خدا کو پہچان کر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا، اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔

2: إنکم آمنتم برسوله ثم خالفتم سنته وأمتم شريعته فأين ثمرة إيمانکم،
2۔ تم اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو لیکن اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو، ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا فائدہ؟

3: إنکم قرأتم کتابه المنزل عليکم فلم تعملوا به وقلتم سمعنا وأطعنا ثم خالفتم،
3۔ تم اس کی کتاب کو تو پڑھتے ہومگر اس پر عمل نہیں کرتے، زبانی طور پر تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، لیکن عملی میدان میں اس کی مخالفت کرتے رہتے ہو!
4: إنکم قلتم إنکم تخافون من النار وأنتم في کل وقت تقدمون اليها بمعاصيکم فأين خوفکم،
4۔ تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی نافرمانی کی طرف قدم بڑھاتے ہو اور اس کے عذاب سے نزدیک ہوتے جاتے ہو۔

5: إنکم قلتم إنکم ترغبون في الجنة وأنتم في کل وقت تفعلون ما يباعدکم منها فأين رغبتکم فيها، 
5۔ تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے مشتاق ہیں حالانکہ تم ہمیشہ ایسے کام کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں۔


6: إنکم أکلتم نعمة المولى ولم تشکروا عليها
6۔ نعمتِ خدا سے فائدہ اٹھاتے ہو لیکن اس کے شکر کا حق ادا نہیں کرتے!
7: إن الله أمرکم بعداوة الشيطان وقال {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوّاً فعاديتموه بلا قول، وواليتموه بلا مخالفة، 
7۔ اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو ،اور تم اس سے دوستی کا نقشہ بناتے رہتے ہو، تم شیطان سے دشمنی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملی طور پر اس کی مخالفت نہیں کرتے۔
8: إنکم جعلتم عيوب الناس نصب عيونکم وعيوبکم وراء ظهورکم، تلومون من أنتم أحق باللوم منه، فأي دعاء يستجاب
8۔ تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب کو مڑکر بھی نہیں دیکھتے۔ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خود اس کی قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو، اپنےاعمال کی اصلاح کرو،
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو تاکہ تمہاری دعا قبول ہوسکے۔
یہ پُر معنی حدیث صراحت کے ساتھ اعلان کررہی ہے کہ خدا کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ مشروط ہے مطلق نہیں، بشرطیکہ تم اپنے عہد و پیمان پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کرتے ہو، تم عہد شکنی نہ کرو تو تمہاری دعا قبول ہوجائے گی۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 337
 
دوسرا خطبہ
میلاد با سعادت مولود کعبہ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہو ۔
چونکہ  آج  شریکت الحسین حضرت زینب (س) کی  رحلت کا دن بھی ہے لہذا اس حوالے تعزیت اور تسلیت پیش کرتا ہو۔
میں چاہتا ہو کہ مولود کعبہ شاہ لافتی  کی مناسبت سے  مختصر کچھ عرائض پیش کروں۔  روایت میں آیا ہے کہ  یزید بن کعنب، عباس بن عبد المطلب اور قبیلہ عبدالعزیٰ کی ایک گروہ کے ساتھ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے ہوے تھے ۔
وہاں حضرت امیر المومنین کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد تشریف لائیں۔  اور آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:

"رب انی مؤمنة بک و بما جاء من عندک من رسل و کتب وانی مصدقة بکلام جدی ابراھیم الخلیل فبحق الذی بنی ھذا البیت وبحق المولود الذی فی بطنی لماسَّرت علیَّ ولادتہ۔
بارالھا! میں تجھ پر ایمان رکھتی  ہوں اور جو رسول (علیھم السلام ) تو نے بھیجے ان پر اور جو کتابیں نازل کی ہیں ان پر ایمان رکھتی ہوں ، میں اس گھر کی بنیاد رکھنے والے اپنے جد امجد حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں اور اپنے شکم میں موجود بچہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں مجھ پر اس کی ولادت کو آسان فرما۔
یزید بن کعنب  کہتا ہے کہ ہم نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور جناب فاطمہ بیت اللہ میں داخل ھو گئیں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئیں، دیوار کا شگاف آپس میں مل گیا۔ ہم نے کوشش کی کہ دروازے پر لگا تالا کھولیں لیکن وہ نہ کھل سکا توہم سمجھ گئے کہ یقینا خدا کا یہی حکم ہے ۔
تین روز بعد فاطمہ(ع) باہر تشریف لائیں تو آپ نے حضرت امیر المومنین کو اٹھایا ہوا تھا
 امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد فرماتی ہیں:    
اور جب میں نے بیت اللہ سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو ہاتف غیبی سے  آواز آئی۔
اے فاطمہ اسکا نام علی(ع) رکھنا کیونکہ یہ علی(ع) ہے اور اللہ علی الاعلیٰ ہے
 مزید فرمایا اسکا نام میرے نام سے نکلا ہے میں
 نے اسے اپنا ادب عطا کیا ہے اور اپنے پوشیدہ علوم سے آگاہ کیا ہے اسی وجہ سے  پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ
 (حب علی حسنہ لاتضر معہا سیئہ) علی سے محبت رکھنا ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کوئی بدی انسان کو  ضرر نہیں دے سکتی ہے۔
جو کوئی بھی علی کو پہچانے اور انکے تقوی، انکے عرفان و مناجات، انکی راتوں کی  آہ و فریاد، انکی سادہ زندگی  اور انکی تمام تر جدوجہد کو سمجھے تو پھر محال ہے ایسا مؤمن  امیر المؤمنین کی سیرت کے برخلاف چلے اور تقوی اختیار نا کرے جسکی آپ نے بار بار سفارش کی ہے۔
لہٰذا حضرت امام علی علیہ السلام کے صحیح ماننے والے، آپ سے سچا عشق رکھنے والے  اور ان پر جانثار کرنے والے  وہ لوگ ہے کہ  جو ان کے راستے کی پیروی کرتے ہوں۔

شاعر معاصر مرحوم شہریار کہتے ہیں کہ : 
علي اي هماي رحمت تو چه آيتي خدا را  
      که به ماسوا فکندي همه سايه‌ي هما را
(اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تیرے ہما کے سائے نے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔)


دل اگر خداشناسي همه در رخ علي بين         
    به علي شناختم به خدا قسم خدا را
اے دل! اگر تو خدا شناس ہے تو ہر چیز کا مشاہدہ رخِ علی میں کر، کیونکہ خدا کی قسم میں نے خدا کو بھی علی کے ذریعہ ہی پہچانا ہے۔

بخدا که در دو عالم اثر از فنا نماند
چو علي گرفته باشد سر چشمه‌ي بقا را
خدا کی قسم! اگر علی سرچشمۂ بقا کو ہاتھوں میں تھام لے تو دونوں جہانوں میں فنا کا ذرہ بھی باقی نہ رہے۔
مگر اي سحاب رحمت تو بباري ارنه دوزخ
به شرار قهر سوزد همه جان ماسوا را
اے ابرِ رحمت! امید ہے کہ تو اپنی رحمت کو ہم پر برساتا رہے گا کیونکہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو دوزخ اپنے قہر کی چنگاری سے ماسوا کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔

برو اي گداي مسکين در خانه‌ي علي زن
که نگين پادشاهي دهد از کرم گدا را
اے گدائے مسکین! جاؤ اور علی کے گھر کا دروازہ کھٹکٹاؤ، کیونکہ وہ اپنے کرم سے گدا کو بادشاہی کی انگوٹھی سونپ دیتا ہے۔ (یہاں شاید اس روایت کی طرف اشارہ ہے جس میں حضرت علی نے رکوع کے دوران اپنی انگوٹھی اتار کر سائل کو سونپ دی تھی۔)

بجز از علي که گويد به پسر که قاتل من
چو اسير تست اکنون به اسير کن مدارا
اس عالم میں علی کے سوا ایسا کون گزرا ہے کہ جو اپنے بیٹے کو کہے کہ چونکہ میرا قاتل اب تمہارا اسیر ہے، اُس سے نیک برتاؤ کرو۔ (حضرت علی نے امام حسن کو اپنے آخری وقت وصیت کی تھی کہ ابنِ ملجم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔)


بجز از علي که آرد پسري ابوالعجائب
که علم کند به عالم شهداي کربلا را
علی کے علاوہ کس نے ایسا عجیب بیٹا جنا ہے کہ جو دنیا کے سامنے شہدائے کربلا کا نام درخشاں کرے؟
چو به دوست عهد بندد ز ميان پاکبازان
چو علي که ميتواند که بسر برد وفا را
تمام پاکبازوں میں علی جیسا کون ہے کہ جو اپنے دوست سے وعدہ کرلے تو اُس کو اپنی انتہا تک وفا کرے
(یہ شبِ ہجرت کی طرف اشارہ ہے جب رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا۔ بہ سر بُردن کا محاورتاً مطلب تو وعدہ پورا کرنا ہے، انتہا تک لے جانا ہے، لیکن اس کے لفظی مطلب یعنی سر تک لے جانا ہے جس سے بھی ایک لطیف اشارہ ملتا ہے، کیونکہ حضرت علی کو ابنِ ملجم نے پیشانی پر ضرب ماری تھی۔)


نه خدا توانمش خواند نه بشر توانمش گفت
متحيرم چه نامم شه ملک لافتي را
نہ انہیں خدا پکار سکتا ہوں، نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں؛ میں حیراں ہوں کہ پھر میں ملکِ لافتیٰ کے بادشاہ (حضرت علی) کو کیا نام دوں؟

بدو چشم خون فشانم هله اي نسيم رحمت
که ز کوي او غباري به من آر توتيا را

ہاں اے نسیم رحمت! میری دو خون فشاں آنکھوں کی جانب توجہ کر، اور اُس کی گلی کی خاک سے میری اِن آنکھوں کے لیے بھی سرما لے آ۔

به اميد آن که شايد برسد به خاک پايت
چه پيامها سپردم همه سوز دل صبا را
اپنے پر سوز دل سے لکھے پیغامات میں نے صرف اس امید پر باد  صبا کے سپرد کر دیے ہیں کہ شاید وہ کسی روز آپ کے قدموں کی خاک پر پہنچ کر پذیرائی کا شرف پا جائیں۔

چو تويي قضاي گردان به دعاي مستمندان
که ز جان ما بگردان ره آفت قضا را
اے علی! چونکہ تو ہی قضا کو پلٹانے والا ہے اس لیے تجھے دردمندوں کی دعا کا واسطہ دیتا ہوں کہ ٖ میری جان پر سے بھی قضا کی آفت کو پلٹا دے۔

چه زنم چوناي هردم ز نواي شوق او دم
که لسان غيب خوشتر بنوازد اين نوا را
میں کیسے ایک بانسری کی طرح  اُس کے اشتیاق میں نغمہ سرائی کروں؟ کہ (لسان الغیب) حافظ شیرازی اس نغمہ سرائی میں مجھ سے  زیادہ قادر ہے۔ یعنی اس طرح کے مطالب کی حافظ شیرازی زیادہ بہتر ادائیگی کر سکتے ہیں۔


همه شب در اين اميدم که نسيم صبحگاهي
به پيام آشنائي بنوازد و آشنا را
میں پوری رات اسی امید میں گزارتا ہوں کہ شاید صبح کی ہوا مجھ آشنا (شاعر) کو محبوب (حضرت علی) کے پیام سے نواز دے۔ یہ شعر حافظ شیرازی کا ہے۔)

ز نواي مرغ يا حق بشنو که در دل شب
غم دل به دوست گفتن چه خوشست شهريارا
 اے شہریار! خدا کا ذکر کرنے والے پرندے کی پکار سنو اور توجہ کرو کہ محبوبِ ازلی کو رات کی تاریکی میں غمِ دل سنانا کتنا مسرور کن ہوتا ہے۔
 (محمد حسین شہریار)