پہلا خطبہ
سب سے پہلے میں خود کو اور پھر آپ سب کو تقوی الہی اپنانے کی وصیت کرتا ہوں
آج کے خطبے کا موضوع ہے"عہد و پیمان کی پابندی" یعنی اللہ تعالی کے ساتھ کیے گئے وعدے پر پابند رہنے کو ایمان کہتے ہیں۔
ایمان کی جو تفسیر ہم نے اپنے پچھلے خطبات میں بیان کی ہے اس کی رو سے، عہد و پیمان کی پابندی کرنا ایمان کا لازمہ ہے۔
بغیر عہد اور وعدے پر پابندی کے انسان کا ایمان کامل ہو ہی نہیں سکتا۔
اس کے برعکس خودپرست اور دنیا دار لوگ ایمان کے لئے عہد اور وعدے پر پابندی ضروری ہی نہیں سمجھتے۔
البتہ جب عہد و پیمان ان کے اپنے فائدے اور منافع میں ہو تو اس کی پابندی کرتے رہتے ہیں اور جب ان کے مفاد میں نہ ہو تو پھر عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں۔
قرآن کے مطابق وہ لوگ جو ایمان کو بغیر عہد و پیمان کے اپنائے ہوئے ہیں یا اپنے دل و ذھن میں ایمان کا ایسا تصور رکھتے ہیں، ایسے لوگ قرآن کی نظر میں مومن ہی نہیں ہے۔
دوسری طرف سعادت و کامیابی کی جو خوشخبری خدا نے مومنوں کو اپنے کلام میں دی ہے، ان افراد کے لیے ہے جو اپنے دینی واجبات و فرائض اور ذمہ داریوں کے ہر حال میں پابند رہتے ہوں،
اور کسی بھی حال میں اپنے وعدوں اور پیمان سے پیچھے نہیں ہٹتے ہو-
اس موضوع کی تکمیل کے لئے قرآن کی کھلی اور روشن آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو۔
سورت نور آیت نمبر 46 سے لیکر آیت نمبر 52 تک ایسی موضوع کی طرف ایشارہ ہیں ۔ فرماتے ہے کہ :
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ0ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
بتحقیق ہم نے حقیقت بیان کرنے والی آیات نازل کیں اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتا ہے ۔(46)
وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ0ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕکَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ(47)
اور یہ لوگ کہتے ہیں : ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت بھی کی پھر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ پھر جاتا ہے، یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں ۔(47)
وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْکُمَ بَيْنَہُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ48
اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے توان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتاہے۔
وَاِنْ يَّکُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَ49ۭ
اور اگر حق ان کے موافق ہو تو فرمانبردار بن کر رسول کی طرف آ جاتے ہیں ۔
اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ0ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ50ۧ
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا انہیں کوئی شبہ یاڈر ہے کہ کہیں اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ ظلم نہ کریں ؟ (نہیں ) بلکہ یہ لوگ خود ظالم ہیں ۔
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْکُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا 0 وَاُولٰىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ51
جب مومنوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو مومنوں کا قول تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں : ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕکَ ھمُ الْفَاىِٕزُوْنَ52
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔
ذیل آیت میں اللہ تعالی نے ایک بہت خوبصورت وعدہ دیا ہے اور وہ ہے ( خلافت الہی) یعنی دنیا پر نظامی اسلامی کا نفاذ، یہ بھی ایمان پر ہی موقوف ہے
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ کَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ0۠ وَلَيُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا0ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِکُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـاۭ
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
ایمان اور عہد و پیمان کی پابندی کے بارے میں ایک اہم نقطہ جو بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مومن ایسا نہیں ہوسکتا کہ کبھی اپنے وعدے کی پابندی کرے اور کبھی اپنے وعدے سے پھر جائے ایسا نہیں ہوسکتا کہ انسان اپنے آپ کو مومن بھی کہے اور اپنے فائدے کے پیش نظر اپنے وعدے پر پابند رہے اور احکام الہی کو اہمیت دے ورنہ احکام الہی سے روگردانی کرلے۔
ایسا انسان اسلام کی نظر میں مومن نہیں ہے اور یہ قرآن کا صریح فرمان ہے۔
لہذا مومن اگر ایمان پر باقی رہنا چاہے اور اللہ کے دیئے گئے وعدوں کے مطابق دنیاوی اور اخروی فوائد اور ثمرات سے استفادہ کرنا چاہے تو لازم ہے کہ خدا کے ساتھ کیے گئے سب وعدوں پر پابند رہے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
دوسرا خطبہ
دوسرے خطبے میں میں چاہتا ہو کہ انقلاب اسلامی کے لحاظ سے ایک دو نکتے عرض کروں۔
آج سے چالیس سال پہلے گيارہ فرواری ایک ہزار نو سو اناسی (1979) کو انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تھا۔
اللہ تعالی نے سورہ انفال ایت نمبر 24 اور 26میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا يُحْيِيْکُمۚ
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمْ وَاَيَّدَکُمْ بِنَصْرِہ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔
اصلی سیاسی زندگی ایک ایسی زندگی کا نام ہے کہ جو اجتماعی اخلاقیات سے بھرپور ہو۔ یہاں پر میں انقلاب اسلامی کی ایک خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ
انقلاب اسلامی مکمل طور پر اول اسلام میں برپا کئے گئے انقلاب کے بالکل مشابہ ہے جس طرح انقلاب اسلامی ایک معنوی، سیاسی، مادی اور اقتصادی انقلاب تھا آج کا انقلاب بھی بالکل ویسا ہی ہے۔
یہی آزادی عدالت اور طبقات میں فرق کا قائل نا ہونا یہ سب تعلیمات اسلامی کے عین مطابق ہے۔
انقلابی اسلامی وہ تحفہ ہے کہ جو اللہ تعالی نے امت اسلامیہ اور اپنے بندوں کو عطا کیا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس کو محفوظ رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین
|