خطبہ اول
سب سے پہلے آپنے نفس کو اور آپ سب کو تقوی الہی آپنانے کی نصیحت کرتا ہو
آج کے اس حطبے میں اسی موضوع پر بات کریں کے کہ جو گذشتہ جمعے کو میں نے شروع کیا تھا۔
میں نے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالی کافروں کی ایمان لانے کے طریقے کو رد کرتا ہے۔ اور اندھی تقلید کرکے کسی کے پیروی کرنے کوپسند نہیں کرتا ہے۔
کافروں کے ایمان لانے کی قصے کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
کہ جب کافروں کو کہا جاتا ہےکہ آجاؤ جو کچھ پیغمبر اکرم(ص) بیان کرتا ہے اس کو سنو اور سمجھوں اس پر غور فکر کرو تو وہ کہتے ہیں:
(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ) اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ
قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا) (104) المائدہ
تو وہ کہتے ہیں : ہمارے لیے وہی (دستور) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا،
آپ (ص) ہمیشہ ان لوگوں کو آچھے راستے کی طرف دعوت کرتا رہتا ہے اور ہمیشہ ان کے انتخاب کیے ہوئے راستے کو غلط ثابت کر کے اس سے منع فرماتا رہتا ہے۔
لیکن اس کے با وجود وہ لوگ انکار کرتے تھیں اور ان پر آپ (ص) کی بات کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
این نصیحت قبول کن از ما تا درآئی بہ جنت المأوا
ره چنان رو کہ رہروان رفتند راه رفتند و راہ را رفتند
میری اس نصیحت کو مان لو تا کہ جنت المأوا چلے جاؤ ایسے راستے پر چلو کہ جو صراط المستقیم ہے۔ لیکن کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم وہ سب کریں گے کہ جو ہمارے باپ داد نے کیا ہو اور سمجھا ہو۔
اس وقت قرآ ن کریم ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگرچہ انکے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں (اَوَلَوْ کَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ) خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں ۔ (سورہ مائدہ 104)
اس بارے میں حضرت زہراء (س) نے صحیفہ فاطمیہ میں مفصل ذکر کیا ہیں ۔ لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہو کہ پہلے مقام حضرت زہراء (س) کوامام خمینی (رہ) کی نظر سے آپ لوگوں کی خدمت ذکر کرو۔
امام خمینی(رہ) فرماتے ہے کہ: کسی کے لئے جبرائیل آمین کا نازل ہوناکوئی چھوٹی بات نہیں ہے اور یہ بھی ہمیں سمجھنا چاہئے کہ جبرائیل آمین روح اعظم ہے اور وہ ہر کسی کا روح اس روح اعظم کے ساتھ مطابقت ہی نہیں رکھتا ہےیعنی روح الآمین دیکھنے کا طاقت ہی نہیں رکھتا یہ مطابقت فقط روح و ارواح انبیاء میں پایا جاتا ہے کیونکہ ارواح انبیاء اور روح الآمین اول درجہ کے ارواح ہے۔ جسے کہ روح حضرت موسی اور حضرت اور باقی انبیاء اور ہمارے پیارے نبی (ص) کا روح یہ سب الگ ارواح ہے کہ ان پر جبرائیل آمین نازل ہوتا تھا اور ارواح انبیاء میں اسکو دیکھنے کی طاقت تھیں ۔ اور پھر یہ فضیلت حضرت زہراء(س) کے لئے حضرت امام علی علیہ السلام نے بیان کیا ہے۔ کہ یہ فضیلت پھر باقی آئمہ (ع) کے لئے بھی بیان نہیں کیا گیا ہے۔
یہ فقط حضرت زہراء س کے لئے ہے کہ حضرت امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا تھا کہ پیغمبر خدا (ص) کی رحلت کے بعد مسلسل 75 دن جبرائیل آمین ہوتے تھے اور جو کچھ آل زہراء (س) پر آنے والے تھے وہ سب بیان کرتے تھے اور حضرت علی (ع) وہ سب لکھتے تھے۔
امام خمینی فرماتے ہیں کہ حضرت زہراء (س) بہت سارے فضیلتوں کا مالکہ ہے لیکن یہ آپ کے لئے سب فضیلتوں سے بڑھ کر ہے کیو نکہ انبیاء کے اس طرح کی فضیلت کسی بھی امام یا ولی کہ جوحتی اسی ارواح کے مالک تھے کے لئے بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔صحفہ نور امام خمینی (رہ) ج 19 ص 278-2789
تو حضرت زہراء (س) کافروں کی اس عقیدے کے بارے میں فرماتیں ہے۔
فَجَعَلَ اللَّـهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ،
اللہ تعالى نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ،
۔ اللہ نے نماز واجب کى تا کہ تکبر سے روکاجائے
وَ الزَّکاةَ تَزْکِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا۔
وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ،
روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا۔
وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ،
حج کو واجب کرنے سے دین کى بنیاد کو استوار کیا،
وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،
عدالت کو زندگى کے نظم اور دلوں کى نزدیکى کے لئے ضرورى قرار دیا،
وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ،
اہلبیت کى اطاعت کو ملت اسلامى کے نظم کے لئے واجب قرار دیا
وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ،
اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا
|