۱۳۹۷/۱۰/۲   8:57  بازدید:2029     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


13 ربیع الثانی 1440(ھ۔ ق) مطابق با 12/21/ 2018 کو نماز جمعہ کی خطبیں

 


 

خطبہ اول
خطبے کا موضوع : فقیروں کے ساتھ پیغمبر (ص) کا سلوک


اللہ تعالی نے فقیروں سے مل جل اور انکی مدد کا امرفرمایا ہے  اور انکو توجہ نہ کرنے  کومنع کیا ہے۔

وَ لا تَطْرُدِ الَّذِینَ یدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَداةِ وَ الْعَشِی یرِیدُونَ وَجْهَهُ ما عَلَیک مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَی ءٍ وَ ما مِنْ حِسابِک عَلَیهِمْ مِنْ شَی ءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکونَ مِنَ الظَّالِمِینَ»؛

اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ کریں ، نہ آپ پر ان کا کوئی بار حساب ہے اور نہ ہی ان پر آپ کا کوئی بار حساب ہے کہ آپ انہیں (اپنے سے) دور کر دیں پس (اگر ایسا کیا تو) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔الانعام 52

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا(28) الکهف

اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں ، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں ؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیاہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے۔
آپ (ص) نے فقیروں کے ساتھ دوستی کرنے کے بارے میں فرمایا:

«اتخذوا عِنْدَ الْفُقَراءِ أَیادِیَ فَاِنَّ لَهُمْ دَوْلَةٌ یَوْمَ الْقِیامَةِ»،

فقیر اور نادار لوگوں سے محبت رکھوں کیونکہ قیامت میں سب سے زیادہ دولتمند یہی لوگ ہونگے۔

لقمان حکیم نے آپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: کہ

 «یَا بُنَی لَا تُحَقِّرنَّ أحَداً بِخُلقانِ ثِیابِهِ؛ فَإنَّ رَبَّک وَ رَبَّهُ وَاحدٌ».

 بیٹے ! کسی کو بھی انکی پرانے اور پٹے کپڑوں کی وجہ سے حقیر مت سمجھیے؛ کیونکہ آپ دونوں کا پالنے والا ایک ہے

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

(ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (الحجر 45)
آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ کَانُوا قَبْلَ ذَٰلِکَ مُحْسِنِينَ

ان کے رب نے جو کچھ انہیں دیا ہے اسے وصول کر رہے ہوں گے، وہ یقینا اس (دن) سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔(الذاریات 16)
کَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ

 وہ رات کو کم سویا کرتے تھے،

 وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ(18)

اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ(19)

اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے حق ہوتا تھا۔
یہا ں پر حق معلوم سے وہ حق مراد  ہے کہ جولوگ خود پہلے سے فقیروں کے لئے آپنے مال میں معین کرتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اللہ تعالی نے ثروتمند لوگو ں کی مال میں  زکات کے علاوہ بھی فقیروں کے لئے حق معین فرمایا ہے تب  ہی تو فرماتے ہے (ﻭَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻓِﻰ ﺃَﻣْﻮﺍﻟِﻬِﻢْ ﺣَﻖٌّ ﻣَﻌْﻠُﻮمٌ ﻟِﻠﺴَّﺎﺋِﻞِ،) پس یہاں حق معلوم زکات کے علاوہ ہے۔
یہ وہ چیز ہے کہ جو ہر آدمی اپنے مال میں معین کرتا تو چاہئے وہ  ہر دن دیتے رہے یاجمعے کو یہ پھر مہینے میں  ایک بار۔
سائل وہ ہوتا کہ جو دوسروں سے مانگتا ہے لیکن محروم وہ ہوتا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ تنگ دست رہتا ہے لیکن پھر بھی کسی مانگتا نہیں
کبھی بھی اس انتظار میں مت بیٹھنا کہ کوئی آئے آپ سے مدد مانگے بلکہ آپ جایے اور فقیر اور نادار(محروم)  لوگو ں  تلاش کر کے انکی مدد کریں۔
 ارشاد رب العزت ہے کہ محروم لوگ ایسا زندگی بسر کرتے ہیں کہ لوگ سوچھتے ہیں کہ یہ لوگ دولتمند ہے۔

یہ بہت مہم  اور ضروری حکم ہے ہمیں محروم مسلمانوں کی حثیت محفوظ رکھنا چاہئے۔

" ﺧﺪﺍ" اور" ﺧﻠﻖ ﺧﺪﺍ" کی طرف توجہ کرنا

متقین کی جیتنی بھی صفات بیان کی جا چکی ہے اس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ وہ لوگ یا تو خالق سے راز و نیاز کرتے رہتے ہیں یا پھر لوگوں، خاص کر  نادار اور محروم لوگوں کی مدد میں لگے رہتے ہیں۔

یہ وہی زکات ہے کہ مختلف آیتوں میں نماز کے ساتھ اسکا حکم آیا ہے۔

نماز اللہ والے کی بہت بڑی نشانی ہے اور زکات خلوق خدا سے محبت کرنے والے کی نشانی ہے۔

اسلام فقر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے نہ کہ فقیروں کے ساتھ۔

کیونکہ فقر نہ ہونے کی معنے میں ہے فقر وہ جسکا دین ایمان اخلاق عقل اور اچھا فکر نہ ہو۔

 لیکن فقیر وہ ہے کہ جسکے پاس کچھ مادی چیزیں جیسے پیسے وغیرہ کم ہو۔

فقیر کے پاس اگر دولت نہیں ہے لیکن عقل فکر ایمان انصاف وغیرہ ضرور ہے۔

اس بارے میں بہت سارے احادیث ملتے ہیں

حضرت ابراهیم خلیل(ع)سے اس طرح نقل ہوا ہے: خدایا فقر نمرود کے آک سے بھی زیادہ سخت ہے۔

آپ(ص) فرماتے تھے: کہ فقر مرگ سے بھی زیادہ سخت ہے۔

  امام علی(ع) فرماتے تھے : «چہار چیزیں کم بھی ہو تو وہ بہت ہوتا ہے (اسکا برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے)۔

1-آگ      2-بغض اور کینہ      3-   فقر     4- بیماری۔

 امام جعفر صادق(ع) سے نقل ہوا ہے کہ  حضرت لقمان نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ:میں سب کچھ برداشت کرتا ہو لیکن فقر برداشت نہیں ہوتا ہے۔

کیونکہ کچھ فقر کفر ہوتا ہے۔

جس معاشرے میں فقر جنم لیتا ہے اس معاشرے میں کفر بھی جنم لیتا ہے؛

اسلام نے دولت کی مذمت نہیں کی ہے بلکہ اسراف کی مذمت کی ہے۔

اگر کوئی کچھ رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو غنی لوگوں سے بڑا سمجھے یہ سب سے بڑی دولت ہے۔

دنیا کے مال و متاع کو -عرض- کہا گیا ہے کیونکہ یہ واقعی ایک عارضی چیز ہے یعنی آتا جاتا ہے۔ ہمیشہ کے لیئے نہیں ہوتا ہے۔

آّپ (ص) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ دن رات کماتے ہیں لیکن سیر نہیں  ہوتے اور خرچ بھی نہیں کرتے ہیں بس یہی کہتے ہے کہ نہیں ہے  لیکن کچھ کم کماتے لیکن خرچ کرتے ہیں ہر قسم کی نعمات  سے لطف اندوز ہوتے ہیں ایسے لوگ سب سے زیادہ غنی ہے۔

کہتے ہیں کہ بھلول نے کوٹا سیکہ ہاروں رشید کی ہاتھ میں رکھا اور کہاکہ میں نے یہ فقیر کو دینا تھا لیکن تم سے فقیر کوئی نہیں ملا۔

یہاں پر کچھ نکات کی طرف توجہ دلاتا ہو۔

  صدقہ اورخدا : جوکچھ آپ لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہے اللہ کے ہاں اسکا علم ہے۔

حتی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں اور کامیں دوسروں سے لیتا ہو لیکن صدقہ اپنےہاتھ سے لیتا ہو۔

دووم:  اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ایک کے  بدلے 700  دونگا۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے۔

تین: بہترین چیزیں اللہ کی راہ میں دے ۔

چهارم  :جو کچھ اللہ کی راہ میں دیا ہے اسکا کسی پر احسان نہ کریں ۔

پنجم: عزمت مند محروم اور فقیر لوگوں کی تلاش کریں



چھ:    خرچ نہ کرنا کفر کے برابر ہے۔

متوجہ رہے کہ اہلبیت (ع) دن اور رات  کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے  تھیں۔

دوسرا خطبہ

ہمیں فقیر اور نادار لوگوں کا  مسلئہ جدیت سے لینا چاہئے اور  انکی مدد کرنا چاہئے

میلاد حضرت عیسی (ع)

24 دسمبر حضرت عیسی(ع) کی ولادت  ہے

اسی مناسبت سے آپ سب کو مبارکباد عرض کرتا ہو۔

حضرت عیسی(ع)  اللہ کا پیغمبر ہے

 اور قرآن میں 25 آنبیاء کا ذکر آیا ہے اس میں سے ایک حضرت عیسی(ع) ہے۔

اسلام اور قرآن تثلیث (حضرت عیسی-ع-کو اللہ کا بیٹا ماننا) کو منع فرماتے ہیں