پہلے خطبے کا موضوع ہے
اسلام میں بیوی کا مقام
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں
اسلام نے عورت کے لئے مرد پر کچھ حقوق مقرر کیے ہیں
اسلام عورت کے لئے ایک اونچے مقام کا قائل ہے
گزشتہ قوموں میں عورت کو بہت حقیر نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
جیسا کہ یونان والے عورت کو شیطان کا پیداوار سمجھتے تھے روم والے عورت کو شیطان اور اذیت دینے والی روحوں کی مظہر سمجھتے تھے چین میں جب بیٹی پیدا ہوتی تھی تو لوگ اس کے والد کو تسلیت پیش کرنے کے لیے آتے تھے چونکہ وہ کہتے تھے کہ بیٹوں کا خالق خدا ہے اور بیٹیوں کا خالق شیطان ہے اسلام سے پہلے عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھیں یا پھر اس کا سر کاٹ دیتے تھے اسی وجہ سے قرآن میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے اولادوں کو قتل کیا انہوں نے بہت بڑا نقصان کیا ۔
اور ایک اور جگہ پر ارشاد گرامی ہے جب کسی کو بیٹی کی اطلاع ملتی تھی تو غصے سے انکے چہرے کالے پڑھتے تھے اسلام نے سب سے پہلے مساوات قائم کیا کسی کو بھی کسی پر ترجیح حاصل نہیں ہے حتیٰ قرآن نے کچھ عورتوں کو نمونےکے طور پر بھی معرفی کیے جیسا کہ فرعون کی بیوی ہے اور اسی طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ کے ناراض ہونے پر میں بھی ناراض ہو جاتا ہوں اور فاطمہ کی راضی ہونے پر میں بھی راضی ہو جاتا ہوں
دوسری بات اسلام نے عورت کے لئے حقوق مقرر کیے اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ گھر کے کاموں کو تقسیم کیا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا گھرکی کام انجام دیتی تھی اور حضرت علی علیہ السلام باہر جتنی بھی کام تھے حضرت علی علیہ السلام انجام دیتے تھے پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک بہترین معاشرہ بنائیں تو اس کے کیلئے ہمیں ظن اور مرد دونوں کی حقوق کی رعایت کرنا ہوگا اور ہمیں چاہیے کہ
1- عورت کی شخصیت کو زندہ کریں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ مجھے آپ لوگوں کی دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں 1 عطر 2- عورت 3 - نماز
جبرائیل امین نے اس قدر عورت کی حقوق بیان کی کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ عورت کو اف کہنا بھی جائز نہیں ہے
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ کہ اللہ تعالی اس آدمی کی عمر کو طولانی فرماتا ہے جس کے اخلاق اپنے گھر میں اچھے ہو قرآن نے بھی اپنے گھر والوں کے بارے میں بہت سفارش کی ہے فرمایا کہ اپنے نفسوں کو اور اپنے گھر والوں کوجہنم سے بچاؤ اگر عورت ناشیزہ ہو یعنی اپنے شوہر کا بات نہیں مانتی ہو تو اسلام نے اس طرح قانون مقرر کیا ہے کہ پہلے اس کے ساتھ بات کرنا ترک کر دو اور پھر اس کے ساتھ سونا ترک کر دو او اگر اس سے بھی نہیں ہوا تو ادب کے لئے اس کو تھوڑا مارو۔ یہاں اس کو ادب دلانہ مراد ہے۔
البتہ اسلام کبھی بھی ظلم کے موافق نہیں ہیں اور کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ عورت کو گالی دے حضرت امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے تین بہت بڑی گناہیں ہیں۔
1- قتل 2-مہریہ نہ دینا 3- عورت کو حقوق نہ دینا لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی اور اسی طرح ہمارا بہترین معاشرہ ہو تو ہمیں اپنے آپ کی اصلاح کرنی ہوگی اور اسی طرح دوسرے لوگو ں کو چاہیے کہ وہ میں صلح کریں اور جس نے دو لوگوں کے درمیان صلح کیا تو اسے شب قدر کا اجرملتا ہے اور کچھ احادیث میں ہے کہ سو شہیدوں کا ثواب ا نہیں ملتا ہے اور یہ وہ صدقہ ہے کہ جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہے میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے لباس ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لباس انسان کے بدن کو ڈھانپتا ہے چھو پاتا ہے اور حفاظت کرتا ہے اسی طرح ہمیں بھی ایک دوسرے کا محافظت کرنا ہوگا اور ایک دوسری کی عیبوں کو مخفی رکھنا ہوگا اپنی بیویوں سے محبت کرنا اخلاق انبیاء میں سے ہے
دوسرے خطبے میں دو مناسبت بیان کیے
ایک میلاد مطہر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ
دوسرا شہادت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور خصوصیات:
قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیھم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے۔ "قاموس الرجال" کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں"۔
- آپ کی خاندان بہتریں خاندان ہیں ۔
2۔ قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت علیھم السلام کی شفاعت کرے گی:
شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مخصوص ہے جس کو قرآنمجید میں "مقام محمود" کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو "ولسوف یعطیک ربک فترضی" میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔
3۔ عصمت اور اسکے علاوہ اور بہت ساری صفات رکھتی ہیں۔
4-حضرت مصومہ ایک ماثورہ زیارت نامہ کا حامل ہونا
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) تمام فرزندان آئمہ طاہرین(علیہم السلام) میں سے ان خاص فرزندوں میں سے ہیں کہ جن کا زیارت نامہ ماثورہ ہے ۔ (12)
ایک روایت کہ جو سعد قمی سے نقل ہوئی ہے مذکور ہے کہ ایک روز میں حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں مشرف ہوا، آنحضرت نے مجھ سے معلوم کیا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے شہر میں ایک ہماری قبر بھی ہے ۔ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا آپ کی مراد حضرت فاطمہ معصومہ بنت موسی کاظم (علیہ السلام) کی قبر ہے ؟آپ نے فرمایا : جی ہاں؛پھر فرمایا :’’من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنۃ‘‘ جو شخص بھی ان کی زیارت کرے اس صورت میں کہ وہ ان کے حق ومقام سے واقف ہوتو اس کی جزا جنت ہے ۔(13)
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اس نورانی حدیث شریف میں نہ یہ کہ صرف اپنی خواہر گرامی کی زیارت کے ثواب کو بیان فرمایا ہے بلکہ آداب زیارت اور اس کی کیفیت کو بھی بیان فرمایا ہے ۔آپ نے فرمایا :’’فاذا اتیت القبر عند راسھا مستقبل القبلۃ و کبر اربعا و ثلاثین تکبیرۃ، و سبح ثلاثا و ثلاثین تسبیحۃ، و احمد اللہ ثلاثا و ثلاثین تحمیدۃ، ثم قل: السلام علی ۔ ۔ ۔ الی آخر الزیارۃ‘‘ آپ جب بھی آنخصرت کی قبرمبارک کے قریب جائیں تو آپ کے سرہانے قبلہ رخ کھڑے ہوکر 34 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ سبحان اللہ اور 33مرتبہ الحمد للہ پڑھیں اور پھر زیارت کی تلاوت فرمائیں۔
|