۱۳۹۷/۸/۱۴   23:46  بازدید:1912     معصومین(ع) ارشیو


آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری

 



آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری


اللہ تعالٰی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔ ان میں سے ہر ایک نے الٰہی پیغام کو لوگوں تک پہنچایا اور انھوں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کی بھرپور سعی کی۔ البتہ جہاں دوسرے انسانوں سے انبیاء افضل ہیں، وہاں انبیاء میں سے بھی بعض کو بعض پر برتری حاصل ہے۔ اس کے باوجود ان کی مشترک صفات امتیازات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے بعض اہم مشترک خصوصیات کی طرف اشارہ کرکے رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض امتیازات کا تذکرہ  کریں گے۔ انبیاء (ع) کی اہم مشترک صفات درج ذیل ہیں:
1۔ تمام انبیاء کا خدا کی طرف سے منتخب ہونا:
تمام انبیاء اللہ ہی کی طرف سے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے۔ نبوت اور پیغمبری خدا سے آگاہی اور خبر لینے کا نام ہے جبکہ رسالت خود تک جو خبر پہنچی ہے، اسے دوسری مخلوقات تک پہنچانا ہے۔ ان مقامات کی بنیاد ولایت اور اخلاق الٰہی کا کسی شخص میں نمودار ہونا ہے، جو پیغمبر کی روح کی پاکیزگی کی طرف پلٹنی ہے۔ وہ انسان ہی مقام نبوت و رسالت پر فائز ہوسکتا ہے، جو ہر طرح کی کدورتوں، سرکشیوں اور شرک کی آلودگیوں سے پاک ہو۔ اللہ تعالٰی ایسے دل کے حامل شخص سے واقف ہے۔"اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔" (1)
2۔ پیغمبروں کے درمیان ہم آہنگی:
چونکہ تمام انبیاء اس ذات حق کے برگزیدہ ہیں اور سب کے سب ایک ہی مخزن غیبی سے خلق ہوئے ہیں، لہذا ان سب کی باتیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور یکساں ہیں۔ ہر پیغمبر نے لوگوں کو مبدا، معاد، وحی اور فرشتوں پر ایمان کی دعوت دی۔ البتہ ان کے مقامات متفاوت تھے۔ لہذا جزئی موارد مختلف ہیں جبکہ دین کا کلی خط تمام انبیاء میں مشترک ہے۔ ہر پیغمبر کی شخصیت دو طرح کی ہے: 1: حقیقی: یعنی ہر پیغمبر الگ الگ ہیں۔ 2: حقوقی: یعنی جو دین کا محتوا ہے یہ ان میں مشترک ہے۔ "آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے، جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے۔"(2) پیغمبر اکرم (ص) کی اپنی زبانی قرآن نقل کرتا ہے: کہدیجئے: میں رسولوں میں انوکھا (رسول) نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔(3)
3۔ لوگوں کا ہم زبان ہونا:
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں، تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے۔(4) ہر پیغمبر اپنی قوم کی زبان میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ معاشرتی ثقافت میں موجود کمزوریوں کا ازالہ کرنے کے لئے ان دونوں میں ہم آہنگی ضروری ہے، کیونکہ پیغمبر اپنے معاشرے کے ثقافتی ڈاکٹر ہیں۔ یہاں "بلسان قومہ" صرف زبان نہیں بلکہ لوگوں کا رہن سہن بھی ہے۔ پیغمبر کو چاہیے کہ وہ اپنی امت کے نقاط ضعف و قوہ کا ادراک کرے (اور ان میں موجود کمزوریوں کا جبران کرے) اس کا ماضی بے داغ ہو۔ ایک اجنبی پیغمبر کسی اجنبی امت کا پیغمبر قرار نہیں پاسکتا، کیونکہ ایسی صورت میں لوگ ان کا کہا نہیں مانیں گے۔(5)
4۔ بینّات کو پیش کرنا:
تمام انبیاء میں ایک اور مشترک اصل بینّات کو پیش کرنا ہے۔ "بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے، تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔"(6) "بیّنہ یعنی معجزہ پیش کرنا ہے۔ جسے انجام دینے سے لوگ قاصر ہوں۔" برہان عقلی انبیاء کی دعوت کی صداقت کے لئے ہے جبکہ معجزہ ان کے مدعی کی صداقت کے لئے۔
معجزے کی ضرورت: برہان عقلی کے علاوہ معجزے کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ برہان عقلی کو صرف بعض افراد ہی سمجھ پاتے ہیں اور اکثر لوگ اس کے ادراک پر قادر نہیں۔ دوسری وجہ: برہان حس سے دور ہے جبکہ معجزہ حسی ہے اور لوگ امور حسی کو زیادہ بہتر انداز  سے درک کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ حس گرا ہوتے ہیں۔ لہذا برہان سے استفادہ کرنے والے کم جبکہ معجزے سے استفادہ کرنے والے زیادہ ہیں۔ بنابریں اللہ تعالٰی نے بھی اسی سنت کو اپنایا ہے۔ البتہ جو بھی رسول معجزہ دکھاتے تھے، اسے فوراً اللہ کی طرف نسبت دیتے تھے، تاکہ لوگ گمراہی میں  نہ پڑیں۔ "رسول کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے، ہر زمانے کے لئے ایک دستور ہوتا ہے۔" (7)
5۔ وحی کے پہنچانے میں معصوم ہونا:
ہر نبی اور رسول اس امر کے پابند ہوتے تھے کہ جیسے وحی اللہ کی طرف سے ان تک پہنچتی، ویسے ہی لوگوں تک بغیر کسی کمی و کاستی کے لوگوں تک منتقل کرے۔" اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ خیانت کرے۔"(8) نبوت ایک ایسا مقام ہے، جس پر فائز ہونے کے بعد صاحب مقام  گناہوں کے باطن کو بھی درک کر لیتا ہے۔ لہذا وہ ہرگز ان گناہوں سے اپنے نفس کو آلودہ نہیں ہونے دیتے تھے۔
6۔ توحید اور پرہیزگاری کی دعوت:
اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔(9)
7۔ خدا سے خصوصی میثاق کا طے پانا:
انبیاء سے اللہ تعالٰی نے ایک خصوصی عہد لیا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ وحی و رسالت پر ایمان رکھیں اور اسے پہنچانے میں استقامت دکھائیں اور شرک کے مقابلے میں خاموش نہ رہیں۔ "اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسٰی اور عیسٰی بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔" (10)
8۔ خودبینی سے دوری:
شعیب نے کہا: اے میری قوم! تم یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے، میں ایسا تو نہیں کرسکتا کہ جن باتوں سے تمہیں روکتا ہوں، خود تمہارے خلاف کرکے انہیں کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (11)
9۔ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا:
اے میری قوم! یہ دنیاوی زندگی تو صرف تھوڑی دیر کی لذت ہے اور آخرت یقیناً دائمی قیام گاہ ہے،(12)  اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیں کچھ علم ہوتا.(13)
10۔ جہل کو ختم کرنا:
کہدیجیے: یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔(14) (نوح نے) کہا: اے میری قوم! یہ تو بتاؤ، اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے،(15) بیّنہ سے مراد وحی ہے۔ عقل وحی کے مقابلے میں نہیں بلکہ یہ ایک ایسا چراغ ہے، جس کے سہارے انسان صراط مستقیم کو پہچان لیتا ہے۔ عقل برہانی روشن چراغ جبکہ وحی صرط مستقیم ہے۔ صرف عقل کے سہارے ہدف تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ چراغ کا کام راستے کو دکھانا ہے، اگر پہلے سے کوئی راستہ ہی نہ ہو تو چراغ کیا دکھائے گا؟ چراغ صحیح راستے کو بے راہے سے تمیز دینے کے لئے ہے۔ جس چیز کو انبیاء لے کر آئے ہیں، وہ راستہ ہے اور عقل ایک روشن چراغ ہے، جس کے سہارے انسان صراط مستقیم کو دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے۔(16)
11۔ اتحاد کی دعوت:
لوگ ایک دین (فطرت) پر تھے۔ (ان میں) اختلاف رونما ہوا تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے درمیان برحق کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں، جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔(17)
12۔ سب کیلئے باعث رحمت ہونا:
اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے، جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے پروردگار کی رحمت ہے، تاکہ آپ اس قوم کے لئے تنبیہ کریں، جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔(18) خدا کی رحمت خاصہ کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی گناہ میں مبتلا نہ ہو یہ "دفع عذاب" کہلاتا ہے۔ ایمان لانے کے بعد بھی اگر کوئی خدانخواستہ  گناہ سے آلودہ ہو جائے، تب بھی اس کے خدا کی رحمت واسعہ میں شامل ہونے کا امکان باقی ہے، یہ صورت "رفع عذاب" ہے۔(19)
13۔ بغیر کسی اجرت کے اپنی خدمت انجام دینے کا پابند ہونا:
پس اگر تم نے منہ موڑ لیا تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں۔(20)
14۔ صرف خدا  سے ڈرنا:
(وہ انبیاء جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہین ڈرتے اور محاسبے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ (21)
پیغمبر اکرم (ص) کے بعض امتیازات:
"ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں، جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور اس نے ان میں سے بعض کے درجات بلند کئے۔"(22)
1۔ حضرت عیسٰی (ع) کا آپکی آمد کی خبر دینا:
اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جن کا نام احمد ہے۔(23) بشارت اس وقت صحیح ہوسکتی ہے کہ آنے والا کوئی ایسا پیغام لے کر آرہا ہو، جسے ان سے پہلے کوئی نہ لے کر آیا ہو۔ ورنہ ان کے آنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ تم انھیں ہو کہ بظاہر وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں، جب کہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔(24)
2۔ گذشتہ انبیاء کی کتابوں پر قرآن کو سیطرہ و تسلط حاصل ہونا:
اور (اے رسول) ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے، جو حق پر مبنی ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگران و حاکم ہے۔(25)
3۔ چونکہ رسول گرامی (ص) کی حقیقت وہی قرآن کی حقیقت ہے، لہذا جہاں عام انسانوں کے لئے قرآن کی معرفت ممکن نہیں، وہاں اس کتاب کے حامل رسول کی کامل معرفت بھی ممکن نہیں۔(26) جب قرآن کو تمام آسمانی کتابوں پر فضیلت حاصل ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطریق اولی برتری حاصل ہے۔ روایت میں بھی آیا ہے کہ رسول اللہ کو اللہ اور حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔
4۔ عالمین کیلئے باعث رحمت قرار پانا:
اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(27)
5۔ بہت زیادہ نرم دل ہونا:
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں، پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(28)
6۔ دین کے کامل ہونے کی سند پانا:
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔(29)
7۔ خاتم الانبیاء قرار ہونا:
محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔(30)
8۔ اخلاق کے کمال پر فائز ہونا:
اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔(31)
غرض آپ کی ذات وہ بابرکت ہستی ہے، جو تمام انبیاء و اولیاء سے افضل و برتر ہیں۔ آپ کے فضائل کے سمندر میں مزید تیرنا میرے بس سے بالاتر ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ:


حسن یوسف، دم عیسٰی، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری


فہرست منابع:
1.    الأنعام: 124 اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ
2.    فصلت: 43 ما يُقالُ لَکَ إِلاَّ ما قَدْ قيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ إِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَ ذُو عِقابٍ أَليمٍ  
3.    الأحقاف: 9 قُلْ ما کُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ وَ ما أَدْري ما يُفْعَلُ بي‏ وَ لا بِکُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ ما يُوحى‏ إِلَيَّ وَ ما أَنَا إِلاَّ نَذيرٌ مُبينٌ  
4.    عبدالله، جوادی آملی، پیامبر اکرم ص، ص 46
5.    إبراهيم: 4 وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ بِلِسانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ُ  
6.    الحديد: 25 لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْکِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
7.    جوادی آملی، ایضاً
8.    الرعد: 38 وَ ما کانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِکُلِّ أَجَلٍ کِتابٌ
9.    آل‏عمران: 161 وَ ما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ   
10.    وَ إِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ ميثاقَهُمْ وَ مِنْکَ وَ مِنْ نُوحٍ وَ إِبْراهيمَ وَ مُوسى‏ وَ عيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ أَخَذْنا مِنْهُمْ ميثاقاً غَليظاً (انعام/7)
11.    النحل: 36 وَ لَقَدْ بَعَثْنا في‏ کُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ  
12.    العنکبوت: 64 وَ ما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلاَّ لَهْوٌ وَ لَعِبٌ وَ إِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ کانُوا يَعْلَمُونَ  
13.    غافر: 39 يا قَوْمِ إِنَّما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا مَتاعٌ وَ إِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دارُ الْقَرارِ  
14.    يوسف: 108 قُلْ هذِهِ سَبيلي‏ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى‏ بَصيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَني‏ وَ سُبْحانَ اللَّهِ وَ ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِکينَ  
15.    هود: 28 قالَ يا قَوْمِ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ کُنْتُ عَلى‏ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَ آتاني‏ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ  
16.    جوادی آملی، ایضاً
17.    البقرة: 213 کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرينَ وَ مُنْذِرينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِيَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ فيمَا اخْتَلَفُوا فيهِ  
18.    وَ ما کُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ إِذْ نادَيْنا وَ لکِنْ رَحْمَةً مِنْ‏ رَبِّکَ‏ لِتُنْذِرَ قَوْماً ما أَتاهُمْ مِنْ نَذيرٍ مِنْ قَبْلِکَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَکَّرُونَ ( قصص/46 )
19.    جوادی آملی، ایضاً
20.    يونس: 72 فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَما سَأَلْتُکُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ وَ أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمينَ  
21.    الأحزاب: 39 الَّذينَ يُبَلِّغُونَ رِسالاتِ اللَّهِ وَ يَخْشَوْنَهُ وَ لا يَخْشَوْنَ أَحَداً إِلاَّ اللَّهَ وَ کَفى‏ بِاللَّهِ حَسيباً  
22.    البقرة: 253 تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنا بَعْضَهُمْ عَلى‏ بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ کَلَّمَ اللَّهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجاتٍ
23.    جوادی آملی، ایضاً
24.    الأعراف: 198 وَ إِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدى‏ لا يَسْمَعُوا وَ تَراهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْکَ وَ هُمْ لا يُبْصِرُونَ  
25.    المائدة: 48 وَ أَنْزَلْنا إِلَيْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْکِتابِ وَ مُهَيْمِناً عَلَيْهِ  
26.    الصف: 6 وَ إِذْ قالَ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يا بَني‏ إِسْرائيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْکُمْ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي‏ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جاءَهُمْ بِالْبَيِّناتِ قالُوا هذا سِحْرٌ مُبينٌ  
27.    الأنبياء: 107 وَ ما أَرْسَلْناکَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ  
28.    آل‏عمران: 159 فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَکِّلينَ  
29.    المائدة: 3 الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دينَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ ديناً  
30.    الأحزاب: 40 ما کانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِکُمْ وَ لکِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ وَ کانَ اللَّهُ بِکُلِّ شَيْ‏ءٍ عَليماً  
31.    القلم: 4 وَ إِنَّکَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيمٍ
نوٹ: اس مقالے کی تدوین اور عناوین بندی میں آیت اللہ جوادی آملی کی مذکورہ کتاب کا سہارا لیا ہے اور آیتوں کا اردو ترجمہ حجۃ الاسلام شیخ محسن علی نجفی کا ہے۔