۱۳۹۷/۹/۱۴   23:41  بازدید:2217     معصومین(ع) ارشیو


عام الفیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی ولادت کا سال

 


عام الفیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم کی ولادت کا سال

اہل تاریخ کے درمیان مشہور ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت با سعادت عام الفیل میں ہوئی،عام الفیل وہ سال ہے جس میں اصحاب فیل ابرھہ کی سرکردگی میں مکہ پر حملہ آورہوئے اور ابابیل نامی پرندہ کے زریعے سے نابود ہوئے۔
اس بارے میں صحیح نظریہ دینا مشکل ہے کہ یہ واقعہ عیسوی سال کے کس سن میں پیش آیا عام طور پرسنہ 570 یا 573 تاریخ میں ذکر ہوا ہے، کیونکہ مسیحی اسلام سے پہلے دقیق اور مدون تاریخ نہیں رکھتے تھے۔  اصحاب فیل کی داستان قرآنی معجزات میں سے ہے اس واقعے کوبہت اختلاف کے ساتھ  اجمال اور تفصیل سے ذکر کیا گیاہے، ہم نے اس داستان کے مجموعے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سوانح حیات میں تحریر کیا ہے ذیل میں کچھ توضیحات کے ساتھ بیان کیا کر رہے ہیں۔
اصحاب فیل کی داستان
ملک یمن { آج کل سعودی حکومت کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور جس میں بچے، بوڑھے،عورت سب شہید ہو رہے ہیں} جو کہ عربستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے ایک زرخیز زمین ہے جس میں مختلف قبائلوں نے حکومت کی ہے ان میں سے ایک حمیرنامی قبیلہ ہے جس نے سالوں سال یمن پر حکومت کی۔
ذونواس، حمیر قبیلہ کا ایک بادشاہ ہے جس نے یمن پر کئی سال حکومت کی، وہ ایک سفر میں  یثرب (مدینہ) کی طرف گئے ذونواس وہاں موجود یہودی مہاجر کی تبلیغات کے زد میں آ گئے ۔ پھر اس نے بت پرستی چھوڑ کر دین یہود کو اپنایا اور جلد ہی یہ تازہ دین اس پر بہت زیادہ اثر انداز ہوا اور وہ متعصب یہودی بن گئے اور پورے جزیرۃ العرب اورتمام شہروں میں جو اس کی حکومت کے ما تحت تھے ، دین یہود کی نشر و اشاعت اور ترویج کی کوشش کی یہاں تک کہ دوسرے  ادیان کے پیروکاروں کو سختی سے سزا دیا کرتے تھے تاکہ دین یہود کو اپنا لیں، اور اسی وجہ سے کچھ عرصے میں بہت سارے عرب یہودی بن گئے۔
نجران(نجران یمن کا شمالی اور کوہستانی شھر ہے)  کے لوگوں نے  کچھ عرصے سے دین مسیح کو قبول کیا تھا اور دین مسیح نے ان کے دل میں بہت گہرا اثر چھوڑا تھا بڑی مشکل سے اپنے دین کا دفاع کیا کرتے تھے اسی لئے انہوں نے یہودی آئین کو قبول کرنے سے انکار کیا اور ذونواس کی اطاعت سے روگردانی کی۔
ذونواس ان پر بہت غضبناک ہوا اور اس نےارادہ کیا کہ ان کو بہت سخت سزا  دی جائے لھذا اس نے حکم دیا کہ ایک خندق کھودی جائے اور اس میں آگ جلائی جائے اور دین یہود کے مخالفین کو اس آگ میں ڈال دیا جائے اس طریقے سے اکثر مسیحیوں کو جلا دیا گیا اور بعض کو تلوار سے مار دیا گیا یا ان میں سے بعض کے ہاتھ، پاوں اور کان یا ناک کاٹے گئے، اس دن جو مارے گئے ان کی تعداد بیس ہزار افراد لکھی گئی ہے اور اکثر مفسرین کے عقیدے کے مطابق داستان اصحاب اخدود جوکہ قرآن کے سورہ بروج میں ذکر ہوا ہے اسی ماجرے کی طرف اشارہ ہے۔
نجران کے ایک مسیحی نے اس معرکہ سے نجات پائی، ذونواس کے افراد اس کی تلاش میں رہے وہ اس شہر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا اور خود کو امپراطور روم (روم کے بادشاہ) ـ جو کہ قسطنطنیہ میں تھے ـ تک پہنچایا اور اس دردناک قتل کی خبر امپراطور روم کو دی جو کہ خود بھی مسیحی تھے اورذونواس سے انتقام کے لئے اس سے مدد مانگی۔
روم کا بادشاہ اس خبر سے متاثر ہوا اور اس شخص کے جواب میں یہ کہا کہ تمہارا ملک یمن ہم سے دور ہے لیکن میں ایک خط (نجاشی) حبشہ کے بادشاہ کو  لکھ دیتا ہوں تاکہ وہ تمہاری مدد کریں۔
نجاشی نے  ایک بہت بڑا لشکر جو کہ ستر(70) ہزار افراد پر مشتمل تھا یمن سے جنگ کے لئے بھیجا اور اس لشکر کا کمانڈر ابو یکسوم ابرھہ فرزند صباح کو بنایا اور ایک قول کے مطابق اریاط نامی ایک شخص کو اس لشکر کا امیر بنایا اور ابرھہ کو جو کہ ایک جنگجو آدمی تھے اس کے ساتھ بھیجا۔
اریاط حبشہ سے دریای احمر کے کنارے تک آگئے اور وہاں سے کشتی میں سوار ہو کر یمن کے ساحل پر لنگرانداز ہوئے۔ ذونواس ان کی آمد سے مطلع ہوا اور یمن کے مختلف قبیلوں سے ایک لشکر تیار کیا اور حبشیوں کے مقابلے کے لئے آیا جب جنگ شروع ہوئی تو ذونواس کا لشکر حبشی لشکر سے مقابلہ نہ کر سکا اورشکست کھائی اور ذونواس اس شکست کو تحمل نہ کر سکا اور اپنے آپ کو دریا میں گرا کر موج دریا میں غرق ہو گیا۔
حبشہ کے لوگ یمن میں داخل ہو گئے اور مدتوں وہاں پر حکومت کی کچھ دنوں بعد ابرھہ نے اریاط کو مار ڈالا اور وہ خود اسکی مسند پر بیٹھ گیا یمن کے لوگوں کو اپنا مطیع بنایا اور نجاشی کو بھی (جو کہ اریاط کے تختہ الٹنے سے اس پر غضبناک تھے ) کسی نہ کسی طریقے سے راضی کر لیا۔
 یمن میں اقامت کے دوران ابرھہ اس بات کی طرف متوجہ ہوے کہ عرب کے لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں چاہے وہ بت پرست ہوں یا جس بھی  دین سے تعلق رکھتے ہوں  مکہ اور خانہ کعبہ سے خاص عقیدت اورخاص احترام کے قائل ہیں اور بہت سے لوگ ہر سال اسکی زیارت کو جاتے اور قربانی کیا کرتے تھے، وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ جو معنوی اور اقتصادی نفوذ مکہ کو حاصل ہے اورجو رابطہ زیارت کعبہ اور عرب کے درمیان موجود ہے کہیں وہ خود اس کیلئے اور دوسرے حبشیوں کیلئے جو یمن اور عرب کی دوسری جگہوں پر سکونت پزیر ہیں مشکل کا سبب نہ بنے اور کہیں ان کووہاں سے نہ نکال دیں، اس  پریشانی سے نکلنے کے لئے اس نے یمن میں ایک عظیم معبد بنایا اور جہاں تک ممکن تھا اسکی خوبصورتی اور تزئینات میں بہت کوشش کی اور وہاں کے عرب کومختلف طریقوں سے  اس معبد کی طرف متوجہ کرایا اور خانہ کعبہ کی طرف جانے سے روکا۔
وہ معبد جو ابرھہ نے یمن میں بنایا اسکا نام (قلیس) رکھا لیکن  اتنی تزیین، بناو سنگار، تجلیل اور احترام کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور دیکھا  کہ لوگ وہی خلوص اور زور و شور سے ہر سال خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جاتے رہے، حج کے اعمال انجام دیتے رہے اور اس کے با شکوہ معبد کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ ایک دن اسے اطلاع دی کہ ایک عرب (کنانہ) نے رات کو اس کے معبد میں پیشاپ کر کے اور گندہ کر کے  اپنے شہر کی طرف بھاگ گیا ہے، یہ بات ابرھہ کو بہت ناگوار گزری اور اس نے یہ عہد کیا کہ مکہ میں جا کر خانہ کعبہ کو تباہ کر کے واپس یمن میں آئے وہ حبشہ کا لشکر اورمخصوص جنگی  ہاتھی لیکر خانہ خدا کو ویران کرنے مکہ کی طرف گئے۔  
جب عرب اس ماجرا سے با خبر ہوئے تو اپنے دفاع اور ابرھہ سے جنگ کے لئے آمادہ ہوئے ان میں سے ایک یمن کے اشراف زادہ نے جس کا نام ذونفر تھا اپنی قوم کو خانہ خدا کے دفاع کے لئے دعوت دی ۔ اسی طرح عرب کے دوسرے قبائل کو بھی ابرھہ سے جنگ کے لئے اکسایا اور انکی غیرت اور حمیت کو للکارا اور کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ابرھہ سے جنگ کے لئے آیا لیکن ابرھہ کا لشکر کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکا اور شکست کھائی وہ خود ابرھہ کے  سپاہیوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئے ذونفر نے جب یہ دیکھا توکہا کہ مجھے قتل نہ کر شاید میرا زندہ رہنا تمہارے لئے زیادہ سود مند ہو۔
ذونفر کی شکست اور اسیری کے بعد  عرب  کے قبائل کا سرکردہ جس کا نام نفیل بن حبیب خثعمی  تھا، ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ ابرھہ سے مقابلہ کرنے آیا لیکن وہ بھی ذونفر کی سرنوشت سے دچار ہو گیا اور ابرھہ کی سپاہیوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئے۔
لشکر ابرھہ سے مذکورہ قبائل کی پے در پے شکست کے بعد عرب کے دوسرے قبائل جو کہ ابرھہ سے لڑنے آئے تھے جنگ سے منصرف ہو کر،اسکے مطیع  بن گئے، ان میں سے ایک قبیلہ ثقیف تھا جو کہ طائف میں رہتا تھا جب ابرھہ کی فوج طائف میں پہنچی تو انہوں نے چاپلوسی اور چرب زبانی اختیار کی اور ان سے کہا کہ ہم تمہارے مطیع اور فرمانبردار ہیں،اور تمیہں مکہ تک پہنچانے ،تمہارے مقصد میں کامیابی تک تمہارا ساتھ رہینگے ۔اسی کے ساتھ ابو عار نامی شخص کو ان کے ساتھ بھیجا ابو عار، ابرھہ کے لشکر کو لیکر مغمس نامی جگہ تک  آیا جو کہ مکہ سے 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہ مریض ہوا اور دنیا سے چل بسا اس کو وہی پر دفن کیا، ابن ھشام لکہتا ہے کہ ابھی لوگ اس کی قبر پر پتھر مارتے ہیں۔
جب ابرھہ مغمس  پر پہنچا تو ابرھہ نے  اسود بن مقصود نامی کمانڈر کو مامور کیا کہ لوگوں کے مال مویشی غارت کر کے اس کے پاس لے آئے۔
اسود (کمانڈر) بہت سارے سپاہیوں کے ساتھ اس شہر کے گرد و نواح میں گئے اور جہاں پر بھی کوئی مال یا اونٹ وغیرہ دکھائی دیتا غارت کر کے ابرھہ کے پاس لے جاتے، ان غارت شدہ اموال میں عبدالمطلب کے 200اونٹ بھی تھے جو کہ مکہ کی چراگاہ میں تھے جن کو ابرھہ کے سپاہی  غارت کر کے لے گئے۔  جب بزرگان قریش اس واقعہ سے آگاہ ہوئے تو ابرھہ سے جنگ اور اپنے اموال کا واپس لانے کا سوچا لیکن جب دیکھا کہ ابرھہ کے سپاہی بہت زیادہ ہیں تو جنگ سے منصرف ہوئے اور اس ظلم و تعدی کو سہتے رہے۔
ابرھہ نے حناطہ نامی شخص کو مکہ میں بھیجا اور اس سے کہا کہ مکہ میں جاکر ان کے بزرگ شخص کی معلومات حاصل کرےاور جب اس کی شناخت ہوجائے تو اس سے کہو کہ ہم تم سے جنگ کے لئےنہیں آئے ہیں بلکہ ہمارا مقصد صرف خانہ کعبہ کو ویران کرنا ہے اگر تم ہمارے کام میں دخل اندازی نہ کرو، ہمیں تہماری جان سے کوئی کام نہیں اور تمہارا خون نہیں بہائیں گے اور کہا کہ اگرتم یہ دیکھو کہ  وہ جنگ کا قصد نہیں رکہتا تو اس کو میرے پاس لے آنا ۔
حناطہ مکہ میں آیا اوران کی لیڈر کے بارے میں پوچھا تو اسکو عبدالمطلب کے پاس لے گئے، حناطہ نے ابرھہ کا پیغام عبدالمطلب کو پہنچایا، عبدالمطلب نے جواب میں کہا کہ خدا کی قسم ہم ابرھہ سے جنگ کے درپے نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس مقاومت کی طاقت اور سازو سامان ہے اور یہاں پر خدا کا گھر ہے اگر خدا چاہے تو اس کو ویرانی سے روکے گا وگرنہ ہم ابرھہ سے دفاع کرنے کے قادر نہیں ہیں۔
حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ اگر ابرھہ سے لڑتےنہیں توابرھہ کے پاس چلے،عبدالمطلب اپنے بعض فرزندوں کے ساتھ ابرھہ کے لشکر گاہ کی طرف گئے اس سے پہلے کہ عبدالمطلب کو ابرھہ کے پاس لے جاتے ابرھہ کو عبدالمطلب کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ وہ قریش کے پیشوا اور اس سرزمین کی بزرگ شخصیت ہیں یہ ایسا شخص ہے کہ جولوگوں کو کھانا کھلاتا ہے اور غریبوں کی دیکھ باال کرتا ہے علاوہ از این عبدالمطلب خوش سیما اور با وقار انسان تھے جب آپ ابرھہ کےخیمے میں داخل ہوئے تو ابرھہ آپ کا وقار اور ھیبت کو دیکھ کر آپ کی بہت احترام کیا اور اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ آپکی حاجت کیا ہے؟
عبدالمطلب نے کہا کہ میری حاجت یہ ہے کہ میرے دوسو اونٹ  واپس دلا دو جو تیرےسپاہیوں نے غارت کئے ہیں، ابرھہ نے کہا کہ تمہارے وقار اور ھیبت کو دیکھ کر میں مجذوب  اور متاثرہوا تھا لیکن تمہاری چھوٹی سی خواہش نے تمہاری وقعت کو کم کیا۔ ایسے خطرناک اور حساس موقع پر جبکہ تمہارے اور تمہارے آبا و اجداد کا معبد خطرے میں ہے اور تم اور تمہاری قوم و قبیلہ کی عزت و آبرو ختم ہو رہی ہے تم چند اونٹ کے بارے میں سوال کر رہے ہے؟!
عبدالمطلب نے  جواب میں کہا: انا رب الابل و للبیت رب! میں ان اونٹ کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک ایک اور صاحب ہے جو کعبہ کو بچائے گا۔
ابرھہ نے کہا کوئی بھی قدرت مجھ کو اس امر سے نہیں روک سکے گی، تو جواب میں عبدالمطلب نے کہا کہ تم جانو اور کعبہ!
اس گفتگو کے بعد ابرھہ نے حکم دیا کہ عبدالمطلب کے اونٹون کو واپس کر دیا جائے ۔عبدالمطلب اونٹوں کو لیکر مکہ میں آئے اور اھل مکہ سے کہا کہ شہر مکہ سے نکل کراطراف مکہ کی  پہاڑ پر چلے جاو تاکہ ابرھہ کے سپاہیوں سے اپنی جان بچا سکو اور عبدالمطلب خود قریش کے کچھ افراد کے ساتھ خانہ خدا کی سمت آئے اور کعبہ کے دروازے کے حلقے کو تھام کر  ابرھہ کی نابودی کے لئے دعا کی جبکہ آپ کی آنکھوں سے اشک جاری اور دل بی قرار تھا اس دعا کے کچھ منظوم جملات یہ ہیں۔
یا رب لا ارجو لهم سواکا        یا رب فامنع منهم حماکا
ان عدوالبیت من عداکا        امنعهم ان یخربوا قراکا
اے پروردگار ان کے مقابلے میں صرف تم سے امید رکھتا ہوں اے پروردگار اپنی حمایت اور لطف ان سے اٹھا لے اس گھر کا دشمن وہی ہے جو تمہارا دشمن ہے آپ ان کو  اپنے گھر کی نابودی سے بچا لے۔
عبدالمطلب بھی لوگوں کےساتھ مکہ کی پہاڑیوں کی طرف نکلے اور دیکھتے رہے کہ ابرھہ اور کعبہ کے ساتھ کیا گزرتا ہے ۔ دوسرے دن ابرھہ اپنے مجہز سپاہیوں کو حکم دیتا ہے کہ شہرپر حملہ کرے اور کعبہ کو ویران کرے، ابرھہ کی شکست ابتدائی ہی حالات میں ظاہر ہوی کہ اس کا جنگی ہاتھی رک گیا اور بہت کوشش کے باوجود بھی حرکت نہیں کرتا ہے اسی دوراں مشاہدہ کرتا ہے کہ بہت سارے پرندے آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں ان کی چونچ اور پنجے میں کنکڑیاں تھیں یہ پرندے ابرھہ کو نابود کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے مامور تھے۔
اللہ کی طرف سے مامور پرندے اوپر سے ابرھہ کے سپاہیوں کے سر پر کنکڑیاں پھینکتے رہے اورپتھر جس کو لگا وہ ہلاک ہوگیا اور اسکے بدن کا گوشت جسم سے جدا ہونے لگا ابرھہ کے لشکر میں چہ مہ گویاں شروع ہوگئیں اور بھاگنے لگا ان میں سے بیشتر وہیں پر ہی ہلاک ہوئے۔
ابرھہ خود بھی خدا کی عذاب سے بچ نہ سکا ایک پتھر اس کےسر پر آگرا اور زخمی ہوا۔ جب ابرھہ نے یہ حالت دیکھی تو اپنے باقی ماندہ سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو یمن کی طرف لے جائیں بہت رنج و محن کے بعد یمن میں پہنچتے ہی اس کا گوشت بدن سے جدا ہوئا اور بہت بدبختی کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔
عبدالمطلب جو کہ اس عجیب منطر کو دیکھ رہے تھے کہ خدا نے کس طرح اپنے گھر کو بچانے کے لئے ان پرندوں کو کیسے بھیجا اور ابرھہ کو کیسے نابود کیا، فریا بلند کی اور لوگوں سے کہا کہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں  مال غنیمت اور باقی ماندہ اموال کو لے لیں۔ لوگ خوش و خرم اپنے گھروں میں واپس آئے،کہا جاتا ہے کہ اس دن اہل مکہ کو بہت سارا مال غنیمت مل گیا قبیلہ خثعم والے جوکہ چاپلوس تھے دوسرے قبائل سے زیادہ مال غنیمت ہڑپ کر گئے اور بہت سارے زر وسیم گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ان کو مال غنیمت میں مل گئے۔ یہ تھی وہ باتیں جو روایات اور اسلامی تفاسیر سے حاصل ہوتی ہیں۔
کچھ تذکر:
1۔ بعض افراد اصحاب فیل کی داستان کو یورپ، ساسانیوں اور انوشیروان کے یمن پر حملے سے مرتبط کرنا چاہتے ہیں اور مکہ میں ابرھہ کی شکست کو آبلے اور وبا وغیرہ پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اور کلمات میں تصرف و عبارات میں تاویلات کر کے قرآن کریم اور تاریخ کے درمیان جمع کرنا چاہتے  ہیں جس کے بعض نمونے ذیل میں ہم پیش کرتے ہے
فرید وجدی  نےاپنی کتاب دائرۃ المعارف کے مادہ عرب میں اصحاب فیل کی داستان کو ذکر کیا ہے اسکے بعد وہ رقمطراز ہے کہ (فأصابت جیش ابرھہ مصیبۃ إضطرتہ للرجوع عن عزمہ ) پس لشکر ابرھہ ایک ایسی مصیبت سے دچار ہو گیا کہ وہ اپنی نیت سے (جو کہ خانہ کعبہ مٹانا تھا ) منصرف ہو گیا اس کے بعد وہ سورہ فیل کو ذکر کرتا ہے اور لکہتا ہے کہ مفسران قرآن ابابیل نامی پرندے کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایسے پرندے تھے جو دریا سے نکلے اور ابرھہ کے لشکر کو ان کنکریوں سے نابود کیا جو اپنی چونچ میں رکھے ہوئے تھے اور آگے وہ لکھتا ہے کہ:
کلام خدا کو اس کے خلاف ظاہر پر حمل کرنا صحیح ہے کثرت استعمال اور مجاز کی وجہ سے جو کہ زبان عرب میں پایا جاتا ہے اور قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور یہ کہنا صحیح ہے کہ وہ اہم اتفاق جو بغیر کسی مقدمے کے لشکر ابرھہ کو پیش آیا ان پرندوں کے زریعے سے پیش آیا ۔(1)
اور مادہ ابل اور ابابیل کی لغوی تفسیر بیان کرنے اور لفظ ابابیل کے معنی بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ابابیل کی شکل و صورت کے بارے میں روایات بہت زیادہیں ے اور روایات اور اقوال کی کثرت ہی دلیل ہے کہ اس بارے میں رسول اکرم سے کوئی صحیح اور صریح روایت نہیں پائی جاتی ہے۔
ابن زید نے کہا ہے کہ : یہ ایسے پرندے تھے کہ دریا سے نکلے اور ان کے رنگ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے
بعض نے ان کا رنگ سفید، بعض نے سیاہ اوربعض نے سبز بیان کیا ہے اور انکی چونچ پرندوں جیسی  اور ان کے ہاتھ کتوں جیسےتھے اور بعض کا کہنا ہے کہ ان کا سر درندوں جیسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اور سجیل کے بارے میں کہا ہے کہ گل متحجر تھی، ایک قول کے مطابق مٹی تھی، اور تیسری قول کے مطابق مٹی اور پتھر تھے اور ایک قول کے مطابق ایسے پتھر تھے جو کسی شخص کو لگیں تو اسکے جسم کو سوراخ کرکے ہلاک کر دیتے ہیں  اور عکرمہ نے کہا ہے کہ ان پرندوں کی چونچ میں جو سنگریزے تھے جس کو لگتے وہ آبلہ سے دچار ہوتے اور عمر بن حارث بن یعقوب  نے اپنے والد سے جو روایت نقل کی ہے اس کے مطابق مذکور  پرندہ کی چونچ میں جو پتھر تھے وہ جس کسی پر بھی پڑتے اس کے بدن پر آبلہ اور چھالے پڑ جاتے ۔
دائرۃ المعارف کا مؤلف ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ:
بعض ہم عصر دانشمندوں کا عقیدہ ہےکہ یہ پرندے ایسے میکروپ کو لئے ہوئے تھے جو کہ وبا اور طاعون میں مبتلا کرتے تھے یا ملیریا میں مبتلا کرتے تھے یا آبلہ کے میکروپ تھے اور آیہ شریفہ میں بھی اس نظریے سے کوئی منافی بات نہیں دکھائی دیتی ہے اس طریقے سے منقول اور معقول متحد ہوتا ہے ۔
اس کے بعد موصوف لکھتا ہے کہ (ہم بھی اس نظریے کو اپناتے اور پسند کرتے ہیں خصوصا اس نظریے کی رد میں کوئی علمی اور لغوی دلیل نہیں ہے کہ پرندے سے مراد میکروپ لے اور ایسے بہت سے موارد میں اتفاق ہوا ہے کہ طاعون نے لشکریوں میں سرایت کیا  اور ان کو ہلاک کر دیا ہے ۔)
اسکے بعد ناپلون کی عکا پر لشکر کشی کو ذکر کرتا ہے اور ناپلون چند مہینہ محاصرہ کرنے کے بعد طاعون میں مبتلا ہوتا ہے وہ ناچار اپنی فوج کو لیکر مصر میں واپس آتا ہے ۔۔۔۔(2)
اس سے پہلے آپ کو مؤلف اعلام قرآن کی بات کو بتا چکے ہیں کہ اس کے نطریے کے مطابق ابابیل جمع آبلہ ہے اور طیر کا معنی سریع اور جلدی ہے ،مؤلف اعلام قرآن کا ایک اور نطریہ ہے کہ یہ نطریہ پہلے والے سے دلچسپ نطر آتا ہے وہ یہ ہے کہ : جنگ کو یمن کے اندر لے گئے اور یمن ہی میں  ابرھہ اور اس کا لشکر نابود ہو گئے  اس کے بعد اپنا نظریہ بیان کیا ہے اور کہا ہے(حجارۃ من سجیل ) کا مطلب وہ پتھر ہے جو صنعا اور ابرھہ کو نابود کرنے کے لئے منجنیق میں رکھے گئے تھے اس بارے میں وہ لکھتا ہے:
بعض افراد کے نظریے کے مطابق سجیل، سجین کی لغت میں سے ایک ہے اور سجین قرآن میں جو ذکر ہوا ہے اس کا معنی جہنم کے دروں میں سے ایک درہ ہے یا زمین کے ساتویں طبقے کا نام ہے اگر اس آخری تصویر کو ہم قبول کرلیں اور ادبی  استعارات سے استفادہ کریں تو اس میں  اور جو ابابیل کا معنا ذکر کیا گیا میں کوئی منافات نظر نہیں آتا ۔
لیکن اگر سجیل کو معرب (کسی دوسری زبان سے عربی کیا ہوا) پتھر اور مٹی لیں تو آیہ کا اشارہ سنہ 570 یا 576 میں یمن پر ایران کی لشکر کشی  کی طرف ہو گا  جس میں ابرھہ کی شکست انوشیروان کے ہاتھوں ہوئی اور یہ تیسری آیہ اگر ایرانیوں کی لشکر کشی کی طرف اشارہ ہے تو طیر ِ،تیار یا تیارہ سے ہو  جو کہ ساسانیوں پر اطلاق ہوتا ہے تو بعید نہیں کہ (آیہ اور اس داستان کے  ) درمیان کوئی رابطہ پایا جائے اس صورت میں آیہ چھارم (ترمیهم بحجارۃ من سجیل ) اس وقت کی ایک ایرانی طرز جنگ ہو کیونکہ ایرانیوں نے مسلما اس وقت یمن کی پہاڑیوں کی بلندی سے استفادہ کیا ہے اور منجیق سے ان پر سنگ باران کیا ہے اور یمنیوں کو گیرے میں لیا تھا ۔۔۔۔۔۔(3)
اس قسم کی عجیب و غریب تأویلات کو اس زمانے کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ہم اختصارا انہی دو  پر اکتفا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم اس قسم کی تأویلات اور باتوں کا جواب دینے سے پہلے ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیا ضرورت ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو تاریخ سے مطابقت دیں اور ان دونوں کو جمع کریں در حالیکہ  تاریخ کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں معلوم نہیں اوروہ مورخ جو ساسانیوں اور دوسرے بادشاہوں کے درسترخوان کے ٹکروں پر پلتے تھے جنہوں نے اپنے اور اپنے ارباب کی منفعت میں اور دوسروں کو ہرانے کے لئے تاریخ میں تحریف کی ہے یہاں تک کہا ہے کہ تاریخ مساوی با تاریک ہے اور لفظ تاریخ کو تاریک سے لیا گیا ہے ۔۔۔۔۔!
ہم فرید وجدی کی اس گفتار کو نہیں سمجھ سکے  جس میں وہ یہ کہتا ہے ( اس طریقے سے معقول اور منقول موافق ہوتا ہے) کونسا معقول اور کونسا منقول کیا قرآن منقول ہے یا معقول اور ہم یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ  قرآن کریم پر اعتقاد رکھنے والا شخص اس طرح کی قضاوت کرے اور ایسی رأی کو پسند کرے اور اعلام قرآن کے مؤلف کی بات بہت عجیب ہے کہ (اگر سجیل سے مراد سنگ اور گل کا معرب لے لیں تو اس بات کا معتقد ہونا پڑے گا  کہ  ایرانیوں کا  حملہ یمن پر سنہ 570 یا 576 ہے۔
ان دونوں باتوں کے درمیان کونسا ملازمہ ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا کیوں ضروری ہے اور ان کو مطابقت کرنا کیوں ضروری ہے؟ ہمارا وظیفہ قرآن اور تاریخ کے بارے میں کیا ہے؟کیا ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن کوتاریخ سے مطابقت کردیں خصوصا ایسی تاریخ جو کہ ہم نے بیان کی ۔۔۔۔؟
بہتر یہ کہ اس مقام پر دقت اور بہتر قضاوت  کرنے کے لئے ہم پہلے سورہ فیل کو ترجمے کے ساتھ بیان کر تے ہیں پھر اس طرح کی تأویلات کا جواب دینگے۔
سورة الفِيل‏

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمنِ الرَّحيمِ‏
أَ لَمْ تَرَ کَيْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِأَصْحابِ الْفيلِ (1) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا
أَ لَمْ يَجْعَلْ کَيْدَهُمْ في‏ تَضْليلٍ (2) کیا ان کی مکر و فریب کو تباہ نہیں کیا
وَ أَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً أَبابيلَ (3) اور ان پر گروہ گروہ پرندے نہیں بھیجا
تَرْميهِمْ بِحِجارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (4)  ان پر پتھر (سجیل) نہیں برسایا
فَجَعَلَهُمْ کَعَصْفٍ مَأْکُولٍ (5) ان کو روندے ہوےے بھوسے کی مانند قرار دیا
ان آیات میں دقت کرنے سے روشن ہوتا ہے کہ ان آیات کا سیاق اور زبان ایک معجزہ اور خرق عادات کی صورت میں نظر آتا ہے یہ آیات صرف کسی تاریخی مطلب کو بیان نہیں کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں کچھ داستنیں  جملہ الم تر ۔۔۔۔۔ سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ یہ آیہ (ألم تر إلی الذین خرجوا من دیارهم وهم الوف حذر الموت۔۔۔۔۔) (4)
 اس گروہ کی داستان کو بیان کرتی ہے جو  موت  کے ڈر سے اپنے شہر سے بھاگ نکلے اور خدا کے حکم سے مرگئے اور دوبارہ زندہ ہوئے جس کی شرح تفاسیر اور تواریخ میں موجود ہے معجزہ  کی شکل میں ہے ۔۔۔
اور کچھ  آیتوں کے بعد طالوت اور جالوت کی داستان کو ذکر کرتا ہے وہ بھی اعجاز کی شکل میں نقل  ہوئی ہے کہ فرماتے ہیں:
(ألم تر إلی الملا من بنی اسرائیل من بعد موسی ۔۔۔۔۔)(5)
اسی طرح  کچھ آیات کے بعد نمرود کی سرگذشت کو بیان کرتا ہے اور ایک پیغمبر کی داستان بیان کرتا ہے المعروف بہ عزیر۔ اسطرح فرماتے ہیں کہ: (ألم ترالی الذی حاج ابراهیم فی ربه ۔۔۔) (6) اس کے بعد بغیر کسی فاصلے کے فرماتے ہیں کہ :(او کاالذی مر علی قریة و هی خاویة علی عروشها قال انی یحی هذه الله ۔۔۔۔) (7)خصوصا وہ آیات جو جملہ الم تر کیف کے بعد  ہے جیسا کہ (الم کیف فعل ربک بعاد ۔۔۔) (8)
 کہ خدا چاہتا ہے اپنی قدرت کاملہ کے زریعے سے  طاغوت ، باغی اور ستم کاروں کوجوکہ تمام امکانات اور طاقت سے لیس تھے  کو نابود کر کےدوسرے طاغوت تاریخ کو عبرت کا سبق سکھائے ۔
اسی طرح دوسری آیات میں جس میں لفظ کیف ہے جس کا مقصد موجودات عالم کی خلقت کی کیفیت کو بیان کرنا ہے یا موجودات عالم کی ذلت اور خواری اور نابودی مذکور ہے جو کہ معجزہ ہے اوراس طبیعی زندگی سے مختلف ہے جیسا کہ یہ آیات:(وامطرنا علیهم مطرا فانظر کیف کان عاقبة المجرمین (9)
 (واغرقنا الذین کذبوا بآیاتنا فانظر کیف کان عاقبة المنذرین) (10) (فانظر کیف کان عاقبۃ مکرهم انا دمرنا هم و قومهم اجمعین)  (11) یہ آخری آیات جو قوم ثمود کی نابودی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور مضمون کے اعتبار سے اصحاب فیل کی داستان سے شباہت رکھتی ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ سور ہ فیل میں لفظ کید ہے یہاں پر لفظ مکر ہے لیکن یہ حضرات چاہتے ہیں اپنی توجیہات اور تأویلات کے زریعے سے اس قرآنی معجزے کو جدا کردیں اور ان حضرات کے لئے لقمہ بنا کر دیں جو معجزہ اور خارق العادات چیزوں پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں  در حالیکہ  ان داستانوں کی تمام تر اہمیت اسی معجزہ کے لئے ہے بلکہ بعض مفسروں کے مطابق یہ  ایسے معجزات ہیں جو کہ جنبہ ارھاص رکھتے ہیں  (ارھاص کا معنی بعد میں آئیگا) جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظھور کی مقدمہ سازی کے لئے ہے ملا جلال الدین رومی نے اسے نظم کی شکل میں بیان کیا ہے
چشم بر اسباب از چہ دوختیم             گر ز خوش چشمان کرشم آموختیم
ھست بر اسباب اسبابی دگر             در سبب منگر در آن افکن نظر
انبیاء در قطع اسباب آمدند             معجزات خویش بر کیوان زدند
بی سبب مر بحر را بشکافتند             بی زراعت جاش گندم کاشتند
ریگہا ہم آرد شد از سعیشان             جملہ قرآنست در قطع سبب
عز درویش ہلاک بو لھب             مرغ با بیلی دو سہ سنگ افکند
لشکر زفت حبش را بشکسند             پیل را سوراخ سوراخ افکند
سنگ مرغی کو ببالا پر زند دم  گاو           کشتہ بر  مقتول زن  تا شود زندہ ھماندم         
در کفن حلق ببریدہ جھد از جای خویش                                      خون خود جوید ز خون پالای خویش             
ہم چنین ز آغاز ز قرآن نا تمام                                       رفض اسباب است و علت و السلام
2۔اگر کوئی ایساصحیح معنی  پیدا کرے جو اعجاز قرآن اور ظاہری  معنا کے درمیان کوئی منافات نہ ہوتو ہم تاریخ کے قرآن سے منطبق ہونے کے قائل ہو جاینگے اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم تاریخ میں کسی خاص نظریےکے قائل ہیں جو کہ ان کے نظر یہ کو قبول کرنے سے مانع ہو بلکہ ہم  واقعیات کے تابع ہیں جو قابل قبول ہوں جیسا کہ بعض تفاسیر  میں مثلا تفسیر فیض کاشانی ؒ  میں آیا ہے کہ یہ پتھر جس پر بھی لگتا اسکا جسم آبلہ سے دچار ہو جا تا اس سے پہلے وہاں پر آبلہ نہیں دیکھا گیا ۔
فخر رازی ،عکرمہ سے اور وہ ابن عباس اور سعید بن جبیر سے نقل کرتا ہے کہ:(لما ارسل الله الحجارة علی اصحاب الفیل لم یقع حجر علی احد منهم الا نفط جلده و ثار به الجدری) (12)
 یعنی جب خدا نے اصحاب فیل پر  پتھر برساتے وہ پتھر جس پر بھی لگتے  اس کے بدن کو زخمی کر دیتے اور وہ  آبلہ میں مبتلا ہو جاتا۔
یا جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جب یہ پتھر ان پر لگے تو (فما بقی احد منهم الا اخذته الحکة ، فکان لا یحک انسان منهم جلده الا تساقط لحمه) (13)
 ان میں سے کوئی بھی نہیں بچ سکا مگر اس کے بدن  خارش میں مبتلا ہو جاتا جب وہ اپنے بدن کو کھجلتا  تھا تو اس کے گوشت بدن سے جدا ہو جاتا اور ہمارے ائمہ علیھم السلام سے بھی اس طرح کی روایات موجود ہیں جیسا کہ روضۃ الکافی اور علل الشرایع میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ان پرندوں کی صفات میں بیان فرمایا کہ یہ ایسے پرندے تھے کہ ان کے سر اور ناخن درندوں جیسے تھے اور ان میں سے ہر کسی کے ہمراہ  تین  کنکریاں تھیں دو عدد پاوں میں اور ایک عدد چونچ میں رکھے ہوئے تھے اس کے بعد فرمایا:( فجعلت ترمیهم بها حتی جدرت اجسادهم فقتلهم بها و ما کان قبل ذالک رؤی شیئ من الجدری ولا رؤا ذلک من الطیر قبل ذالک الیوم ولا بعد ۔۔۔۔۔۔) (14)
یعنی مذکورہ پرندوں نے ان پر کنکریاں   ماریں تو ان کے جسم میں آبلہ پڑ گئے اور ان کو مار ڈالا  اس سے پہلے اور بعد میں وہاں پر اس جیسا آبلہ دکھائی دیا اور نہ ہی اس طرح کے پرندے ۔اگر مورخین اس بات سے متفق ہوں کہ پتھر کی وجہ سے جو پرندوں کے زریعے پھینکے گئے اور ان کے بدن زخمی ہوگئے اور وہ مرگئے جیسا کہ قرآن کریم فرماتے ہیں کہ ان کے جسم خرد شدہ بھوسے کی مانند ہو گئے تو ہم اس بات کو قبول کرتےہیں اگر ان کی مراد حجارہ سے ذرات اور گرد و غبار لیں اور طیر سے مراد میکروپ لیں جو ان ذرات کو لئے ہوئے تھے اور ابابیل سے مراد آبلہ لیں عصف مأکول سے مراد خون اور  پیپ لیں  یا اسی طرح کسی چیز پر حمل کریں تو ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ آیات و کلمات قرآنی کے بلکل مخالف ہے (یہ داستان ارھاصات میں سے ہے )
3۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ اصحاب فیل کی داستان  معجزاتی پہلو رکھتی ہے ،اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا معجزہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ معجزہ خود پیغمبر  کے ہاتھوں سے ہو؟ تو جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ بعض ایسے معجزات بھی ہیں  جو ارھاصات میں شمار ہوتے ہیں اور ارھاصات ان معجزات پر اطلاق آتا ہے جو عام طور پر کسی پیغمبر کی ولادت اور ظہور کے موقع پر  پیش آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت کے موقع پر بعض واقعات دنیا میں رونما ہوئے جیسا کہ بہت سی روایات میں ہے کہ ساوہ کا دریا خشک ہو گیا، آتشکدہ فارس  کی آگ بجھ گئی اور ایوان کسری کی 14 ستون زمین بوس ہو گئے اسی طرح کی دوسری مثالیں جو ایک بہت ہی عظیم پیغمبر کے ظہور کی مقدمہ سازی تیی ۔
اور ارھاص کا لغوی معنی آمادہ ہونا اور خطرے کی گھنٹی ہے جو لوگوں کو ایک اہم اتفاق سے آگاہ کراتا ہے جو عام طور پر کسی بزرگ  پیغمبر کی ولادت کے موقع پر رونما ہوتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ  عیسی اور حضرت ابراہیم علیھم السلام کی ولادت کے موقع پر  رونما ہوئے۔

اقتباس از سایت: شبکة الامامین الحسنین

تحریر: سید ہاشم رسول محلاتی
مترجم: محمد علی مقدسی



حوالہ جات:

(1) دائرۃ المعارف جلد 6 ص 253۔ 254
(2) دائرۃ المعارف ج  1 ص33 ۔34
(3) اعلام قرآن خزائلی ص 159۔160
(4) سورہ بقرہ آیۃ 243
(5)  آیۃ 246
(6) آیۃ 258
(7) آیۃ 259
(8) سورۃ فجر آیۃ 6
(9) سورۃ اعراف آیۃ 84
(10) سورۃ یونس آیۃ 73
(11) سورۃ نمل آیۃ 51
(12) تفسیر مفاتیح الغیب ج 32 ص 100
(13) بحار الانوار ج 15 ص 138
(14) بحار الانوار ج 15 ص 142 و  159