۱۳۹۷/۸/۹   2:20  بازدید:5446     مضامین


اسلامی معاشرہ میں مسجد کا مقام

 


اسلامی معاشرہ میں مسجد کا مقام
 
مقدمہ
مسلمانوں کے درمیان مسجد کو ایک مقام والا و اعلیٰ حاصل ہے ، یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کعبہ کے بعد کسی مقام کو (اس جہت سے کہ وہ خدا کا گھر قرار پائے )عظمت و فضیلت حاصل ہے تو وہ مقام مسجد کے نام سے پہچانا جاتاہے، مسجد کی یہ عظمت و قداست ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ مسجد کا احترام کیسے کیا جائے. قرآن کریم میں بھی سب سے زیادہ مسجد کی معنویت کو آشکار کیا گیا ہے. قرآن کریم کی بہت سی آیات مبارکہ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔(١)
خداوندعالم کی اطاعت وبندگی اور اس سے رازو نیاز کرنا ہر انسان کی شخصیت کو پایۂ تکمیل تک پہونچاتا ہے(انسانیت کو منزل معراج تک پہونچاتا ہے). ویسے تو انسان جہاں چاہے نماز پڑھے اورمعراج انسانیت حاصل کرلے لیکن مسجد میں نماز پڑھنا کچھ الگ خصوصیات کا حامل ہے جو انسانیت کے مایحتاج کو بطور احسن پورا کرتاہے. اس بنیاد پر انسان کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ معبد ومسجد کو دوست رکھے اور ان سے مانوس ہو. تاریخی تحقیقات اس بات پر شاہدہیںکہ معبد، انسان کے ہمراہ رہا ہے. اسی مناسبت سے ائمہ معصومین علیہم السلام نے مسجد کو مومنین کا آشیانہ اور ان کی پناہگاہ شمار کیا ہے۔ (٢)
دوسری جانب سے دیکھئے انسان کا میل نفسانی اسے اس امر کی جانب رغبت دلاتا ہے کہ کسی ایسے مقام پر عبادت اور راز ونیاز کرے کہ جو خداوندعالم سے زیادہ منسوب ہو. وہ مقام جو خداوند عالم سے منسوب ہو وہ انسان کی کشتی حیات کو بہتر طریقہ سے اضطراب و پریشانی کے منجھدارسے نجات دے کر اسے ساحل اطمینان پر لگادیگا۔ (٣)
جب ہم تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو نظر آتاہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے آج تک کتنی صدیاں بیت گئیں لیکن مسجد کی پاکیزگی و قداست آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور اپنی عظمت و اہمیت کو کبھی بھی ختم نہیں ہونے دیااور سلاطین زمانہ کے شرائط کے ماتحت نہیں رہی اور اس دوران مسلمانوں کے درمیان اجتماعی تاثیر چھوڑی ہے۔
سب سے پہلی مسجد کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعدآنحضرت ۖکے وسیلہ سے مدینہ منورہ میںتعمیر ہوئی اس کی بنیاد معنویت و تقویٰ اور پاکیزگی و قداست پر رکھی گئی . اور یہ ظریف پیغام خدا وند عالم نے وحی کی صورت میں اپنے پیغمبر کی جانب بھیجا کہ یہ مسجد ایسی نہیں ہونی چاہیئے کہ جس کی بنیاد، نفاق پرستی پر رکھی جائے اور مسجد ضرار کہلائے، خداوند عالم یہ نہیں چاہتاتھا کہ اس کا رسول ۖمسجد ضرار میں قدم رکھے لہٰذا اپنے رسول ۖ سے خطاب فرمایا: (لاَتَقُمْ فِیہِ َبَدًا لَمَسْجِد ُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ َوَّلِ یَوْمٍ َحَقُّ َنْ تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَال یُحِبُّونَ َنْ یَتَطَہَّرُوا وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِین)۔(٤)
(اے میرے رسول!) ہر گز ان کی مسجد میں قدم مت رکھنا اور وہ مسجد کہ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہو وہ نماز قائم کرنے کے لئے زیادہ بہتر ہے (اس مسجد سے کہ جس کی بنیاد پرہیزگاری پر نہ رکھی گئی ہو بلکہ نفاق پر رکھی گئی ہو)پرہیزگاری پر رکھی گئی بنیاد والی مسجد میں وہ پاک لوگ آتے ہیں جو اپنے نفوس کی طہارت کے خواہاں ہیں اور خداوندعالم پاک اور باتہذیب لوگوں کو پسند فرماتاہے۔
اور دوسری جانب سے حیرت آور بات یہ ہے کہ اسلام کے اعتقاد و معنویت کی وسعت میں مسجد کا ایسا کردار پایا جاتا ہے کہ جس سے انکار کرنانا ممکن ہے. یہ امر مسجد کی عظمت کے پیش نظر ہی تو تھا کہ لشکر اسلام جس علاقہ پر فتحیاب ہوتا تھا تو وہاں سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تھی؛ چونکہ پیغمبر اسلام ۖ مقام مسجد کو دیگر مقامات سے زیادہ مناسب گردانتے تھے کہ اس جگہ سے تبلیغ کا زمینہ زیادہ فراہم ہے اور اسی کو اپنی قیام گاہ قرار دیتے تھے اور در حقیقت پیغمبر اسلامۖ کا یہ عمل معاشرہ کی معنویت کو قوی بنانے کے لئے تھا. در حقیقت جغرافیائی اعتبار سے حکومت اسلامی میں پراکندہ افراد کے اجتماع کا مقام اور ان کی معنویت کو معراج کی منزلیں طے کرانے کی جگہ اگر کوئی ممکن ہے تو وہ صرف و صرف مسجد ہے۔

روحانیت اور مسجد
پیغمبر اکرم ۖنے مسجد کو اپنا اصلی مرکزقرار دیااور لوگوں کی ہدایت ومعاشرہ کی اصلاح کی پلاننگ مسجد ہی میں انجام دیتے تھے. اسی لئے علمائ(روحانیت ) کا یہ فریضہ ہے کہ سیرت نبوی ۖ پر گامزن ہوکر اس اہم مرکز سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں یعنی مساجد کو اپنی تبلیغ کامحور و مرکز قرار دیں. لیکن یہ امر زمینہ فراہم ہونے کے بعد اور نئے نئے تبلیغی طریقوں کے ذریعہ عوام الناس کی پسند کے مطابق انجام پایا جانا چاہیئے۔
اس حقیقت کو درک کرنے کے لئے دو عناصر کی مکمل معرفت نہایت ضروری ہے اور ان دونوں (مسجد و روحانیت) کی مکمل و صحیح شناخت و معرفت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے یعنی روحانیت کو فکر و عقیدت کا محور قرار دیا جائے اور مسجد کو تبلیغ وترویج دین کا مرکز بنایا جائے اور ان دونوں عنصروں (مسجد ''مکانی''روحانیت ''انسانی'' )کے سائے میںروز بروز اسلامی معاشرہ میں ترقی کے شاہد ہوں جو معاشرہ کی معنویت کو بلندترین مقامات پر پہونچانے کا مقدمہ ہے۔
اس بات کی جانب توجہ کرتے ہوئے کہ علماء و روحانیت کا سب سے اہم فریضہ اسلامی احکام کی تبلیغ ہے تو اس امر میں ان کے لئے مساجد سب سے زیادہ بہترین زمینہ فراہم کرسکتی ہیں کہ وہ لوگ(علمائ) احکام اسلامی ،سنت نبو ی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمو سیرت ائمہ علیہم السلام کو بیان کرسکیں. مسجدیں صرف نمازوں کے لئے نہیں ہیں کہ ایک عالم ایک مسجد میں صرف امام جماعت کی حیثیت سے حاضر ہوجائے اور بس... بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اکثر حکومتی امور، تبلیغی امور اور حل مشکلات وغیرہ کو مسجد میں ہی انجام دیتے تھے . سیرت نبویصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مد نظر علماء حضرات کابھی یہی فریضہ بنتا ہے کہ مساجد کو اپنی تبلیغ کا محور و مرکز قرار دیں اور انسانی معنویت کی ترویج میں حد درجہ کوشاں رہیں۔

مسجد، اور معاشرہ میں معنویت کی ترویج
اس دنیا میں جتنے بھی دین ومذہب کے مرکز پائے جاتے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ جو معاشرہ کی معنویت کو عروج بخشتاہے اس مرکز کا نام ہے مسجد اور بس مسجد، اور اس کی دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ مسجد خداوندعالم کا گھر ہے؛یعنی ایسا گھر جو معنویت و دینداری کو عروج دینے کی غرض سے بنایا گیا ہے۔
٢۔ مسجد کی فضااور اس کی ہوامیں معنویت اور صرف معنویت پائی جاتی ہے اوراس میں دور دور تک مادیت کی بو نہیںپائی جاتی۔
٣۔ مسجد کی تولیت و حفاظت ایک معنوی و الٰہی محافظت ہے۔
٤۔ مسجدکارنگ ڈھنگ، معنوی رنگ ڈھنگ ہے اور اس سے معنویت کی بو آتی ہے۔
٥۔مسجد عوام الناس کے درمیان معنوی و الٰہی شہرۂ آفاق کی حامل ہے۔
٦۔ مسجد بنانے والوں کی نیت اور ان کا مقصد معنوی ہوتا ہے اورمادیت کا پہلو نہیں پایا جاتا۔
٧۔ سب سے پہلے مرحلہ میں مسجد کی کارکردگی معنوی و دینی ہوتی ہے۔
٨۔ جو لوگ مسجد میں آتے ہیں وہ معنویت کے حصول کی خاطر آتے ہیںاوردوسرا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔
٩۔ مسجد کے دروازے معنویت کے خمیر سے تعمیر شدہ ہیںاور اپنے اندر وارد ہونے والے افراد کی معنویت کو معراج بخشتے ہیں۔
١٠۔ مسجد کا اجتماع معنوی اجتماع ہوتاہے۔
١١۔ مسجد میں حاضر ہونے کا نتیجہ معنویت کا حصول ہے۔
١٢۔ مسجد میں حاضری کی قیمت معنوی قیمت ہے جس کا مادیت سے کوئی سروکار نہیں۔
١٣۔ مسجد کے اہداف و مقاصد معنویت پر مبنی ہیں۔
١٤۔ جو اعمال و افعال مسجد میں انجام دیئے جاتے ہیں وہ تمام کے تمام معنوی ہیں، اورمسجد مخاطبین کے اندر معنویت کو قوی کرتی ہے۔ 
مسجد کی کارکردگی(فریضہ)
مسجد کی متعدد کارکردگیاں ہیں کہ جو براہ راست یا کسی وسیلہ سے (Direct or Indirect) معاشرہ کی معنویت کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں.ان کارکردگیوں میں سے اہم کارکردگیوں کو سمجھنے کے لئے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آنحضرت ۖ کی سنتوں پر غوروخوض کرنا لازم ہے کہ حضرت ۖ کے زمانہ میں کون کون سی سنتیں رائج تھیں؟اور وہ کون سے اعمال تھے جو مساجد میں انجام دیئے جاتے تھے؟اس مختصر سے مضمون میں ان کارکردگیوں میں سے بعض کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتاہوں۔
١۔ مناسک و عبادت
عبادتوں کا ایک اہم حصہ انسان کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے؛ لیکن اس کا ہدف اور مقصداس سے کہیں بالا و برتر ہے اور وہ یہ ہے کہ رب العالمین ،رب الارباب و پروردگار عالم کے مقابلہ میں انسان کی عبودیت کا اظہار کرنا، جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول (قُلْ مَا یَعْبَُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ) (٥)
سے استفادہ ہوتاہے ؛ چونکہ اس آیت میں عبادت کو دعا کے ہمراہ بیان کیا گیا ہے، لہٰذا سمجھ میں آتا ہے کہ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خود کو مقام عبودیت میں محسوس کرے اور اپنے رب کی جانب رخ کرے۔(٦)
دعا ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جو بندہ کو اس کے پروردگار سے نزدیک، عبد کو اس کے معبود سے قریب اور مخلوق کو اس کے خالق سے نزدیک کرتا ہے. دعا روح کو آرام دینے میں زمینہ ساز واقع ہوتی ہے ''السجود منتھی العبادة من بنی آدم''(٧)
مسجد یعنی سجدہ کا مقام اور سجدہ معراج بندگی انسان ہے جس کے ذریعہ انسان خدا کی جانب عروج پاتا ہے اور دینی اصطلاح میں مسجد کا مطلب خداوند عالم کے مقابل بندگی کی یادہے۔
در حقیقت شریعت محمدی ۖ میں تمام فرش زمین سجدہ گاہ ہے''جعلت لی الارض مسجداً'' (٨)
لیکن خداوندعالم سے نزدیک ہونے کا سب سے بہترین مقام مسجد کو قرار دیا گیا ہے. اسی لئے قرآن کریم میں دیگر پہلوئوں کی بہ نسبت مسجد کے عبادی پہلو پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کی چند آیات میں مسجد کو ذکر خداوندی و اسماء حسنہ کے ورد کا مقام شمار کیا گیا ہے مثلا ً:(وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اﷲِ کَثِیرًا)(٩)
اسی باعث وہ افراد جو لوگوں کو ذکر خدا سے روکتے ہیں اور مسجدوںکی جانب جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ بہت بڑے ستمگار شمار ہوتے ہیں؛ ارشاد ہوتا ہے: (وَمَنْ َظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اﷲِ َنْ یُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ)(١٠)
مسجد خداوندعالم کی خالصانہ عبادت کا مقام ہے:(وََنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلاَتَدْعُوا مَعَ اﷲِ َحَدًا)(١١)
مسجد اپنے معبود کے ساتھ زمزمہ سنجی اور صادقانہ سرگوشی کا مقام ہے: (وََقِیمُوا وُجُوہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّین)(١٢)
مسجد انسان کو خاک سے افلاک کی جانب عروج دینے کا مرکز ومحور ہے: (سُبْحَانَ الَّذِی َسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ِلَی الْمَسْجِدِ الَْقْصَی) (١٣) 
یہ انس اور یہ قرب، مومنین کی خالصانہ عبادت کے نتیجہ میں دستیاب ہوتا ہے،ان کے چہروں سے ایسا نور ساطع ہوتا ہے کہ عرش نشینوں کی آنکھوں کو خیرہ کردے، اور ستارے ان پر نورافشانی کرنے لگیں؛ ''ان بیوتی فی الارض المساجد تضی ء لأہل السماء کما تضی ء النجوم لاہل الارض''(١٤) 
یہ معنوی نور مومن کی پشت کو مستحکم کرتا ہے اور اسے بشارت دیتاہے؛ ''ألا بشر المشائین فی الظلمات الی المساجد بالنور الساطع یوم القیامة'' (١٥)
جو لوگ شب کی تاریکیوں میں مسجد کی جانب آتے ہیں انھیں قیامت میں تابندہ نور کی بشارت دیدیجئے. مسجد میں حاضرہونا اور عبادت خدا اسی کے گھر میں انجام دینا خودبھی ایک بڑی توفیق ہے (جو ہر کس و ناکس کو میسر نہیں ہوتی )اور اس کے علاوہ روحی کمالات بھی نصیب ہوتے ہیں ۔(١٦)
مسجد کی سب سے آشکا رترین کارکردگی عبادت الٰہی ہے. یہ اور بات ہے کہ اوائل و صدر اسلام میں مسجدوں کو سیاست و اجتماع اور تبلیغ کا محور و مرکز قرار دیا جاتا تھا لیکن مفہوم مسجد خود سمجھاتا ہے کہ انسان خدا کی جانب متوجہ ہو۔(١٧)
انسان کی خلقت کا مقصدِ نہائی عبادتِ پروردگار ہے اور جب مقصدِخلقت ِانسانیت عبادت ِالٰہی ہے تو انسان کا ہر عمل عبادی ہونا چاہیئے، اسی باعث خداوندعالم نے مساجد کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ اس کے بندوں کو اس سے ملاقات و گفتگو کرنے میں سہولت ہو اور مسجد کا نام خود اس بات کا گواہ ہے، مسجد یعنی سجدہ کرنے کی جگہ اور پروردگار کے مقابل خضوع وخشوع یا یوں تعبیر کیا جائے کہ مسجد مقامِ نماز وعبادت اور خدا سے نزدیک ہونے کا مقام ہے. بغیر کسی شک وتردید کے مسجد کا بنیادی مقصد عبادت الٰہی ہے: (فِی بُیُوتٍ َذِنَ اﷲُ َنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِء رِجَال لاَتُلْہِیہِمْ تِجَارَة وَلاَبَیْع عَنْ ذِکْرِ اﷲِ) (١٨ )
یعنی خدا وند عالم ایسے گھروں کو رفعت بخشتا ہے کہ جن گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح وتہلیل ہوتی ہے اور اسے یاد کیا جاتا ہے ، یہ ایسے افراد کے گھر ہیں کہ جنھیں ان کی تجارت و معاش ذکر خداوندی سے غافل نہیں کرتی۔
اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد کی عبادی کارکردگی تمام کارکردگیوں کا مرکز و محور ہے؛ چاہے کوئی سا ہی عمل مسجد میں انجام دیا جائے چاہے وہ سیاسی مسائل ہوں یا اقتصادی یا قضاوت وغیرہ یعنی جو کام بھی قصد قربت الٰہی سے انجام دیا جائے گا اس کا محور عبادت الٰہی ہوگا۔ (١٩)
مسجد میں انجام دیئے جانے والے تمام عبادی اعمال میںسے جو اہم اعمال ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: نماز جماعت، تلاوت قرآن کریم، دعا و مناجات، اعتکاف وغیرہ۔
٢۔ تعلیمی کارکردگی
خداوندعالم نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے اہم پہلوئوں میں سے ایک پہلو آیات قرآنی کی تفسیر کو قرار دیا ہے.بغیر کسی شک و تردید کے اس امر کی اہم جگہ مسجد ہے؛ حالانکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیم و تعلم کی خاطر زمان و مکان کے قائل نہیں تھے اور اس امر میں ہر فرصت سے استفادہ فرماتے تھے. اس اعتبار سے سب سے پہلی وحی''علم'' سب سے پہلے معلم اسلام''نبی اکرمۖ'' اورمسلمانوں کی پہلی درسگاہ ''مسجد ''قرار پائی ہے۔
تلاوت قرآن پہلا اور سادہ طریقہ تھا جس کا آغاز پیغمبر اسلامۖ نے مسجد سے فرمایا. اسلامی تعلیمات ایسا امر تھا کہ جو پیغمبر اسلام ۖ کے وسیلہ سے آغاز ہوا اور تعلیمات کا مرکز مسجد قرار پائی؛ علم و دانش کی فضیلت میں خداوندمتعال فرماتاہے: (ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ)(٢٠)
اوائل اسلام میں مسجد کاتعلیم وتعلّم کے مرکز سے پہچانا جانا اس کی فضیلت کو اجاگر کرتا ہے اور بالخصوص چونکہ یہ تمام اسلامی اجتماعات کا مرکزاور انسانی تربیت کا محورقرار پائی؛ اسی وجہ سے عبادی امور کے ہمراہ اسلامی تعلیمات کا مرکز بھی قرار پائی۔
٣۔ ثقافتی و کلچرل کارکردگی
عبادی وتعلیمی کارکردگی کے بعد،جو مسجد کا سب سے اہم کردار ہے وہ ثقافتی و کلچرل(Cultular) کارکردگی ہے ، مسجد؛ پیغمبر اسلام ۖ و ائمہ طاہرین کے دور میں اسلامی کلچر کو عام وشائع کرنے کا مرکز قرار پائی اور دیگر بہت سے( اسلام و مسلم کے )ثقافتی امور مسجد ہی میں انجام پاتے تھے. اسلامی کلچر کا آغاز مساجد سے ہی ہوا اور اوائل اسلام میں مساجد کو ہی ان امور کا مرکز قرار دیا گیا، جیسا کے پہلے بھی بیان کیا گیا کہ پیغمبرۖ و ائمہ کے دور میں اصلی مرکز مسجد تھی، آج چودہ سو سال گذرجانے کے بعد بھی مسجد کی یہ کارکردگی باقی ہے، بلکہ ترقی بھی ہوئی ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثقافتی فعالیتیں (Cultural Activitys) جو مسجد میں انجام پاتی تھیں وہ صرف مجالس و محافل اور درس و تدریس کا سلسلہ ہی نہیں تھا بلکہ آنحضرت ۖ کی رفتار کے جلوے ہر چیز سے بالا تر تھے جنھوں نے مسجد کو ہدایت کے مرکز سے تبدیل کردیا تھا (یعنی آپۖ کی رفتار ،مومنین کی خاطر لائق اتباع تھی)۔
یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جو اعمال مسجد میں انجام پاتے تھے ان میں عبادی امور کے بعد ثقافتی (Cultural) امور بقیہ تمام امورپر فوقیت رکھتے ہیں، در حقیقت مسجد نبویۖ جو کہ اسلام میں نمونہ قرار پائی وہ مسجد صرف ایک عبادتگاہ ہی نہیں بنائی گئی تھی؛ بلکہ تاریخ ومحققین کے مطابق یہ مسجد اسلام کا ایک بڑا مدرسہ قرار پائی اور اسلامی تعلیمات وکلچرکا مرکز بنی۔ (٢١)
٤۔ تبلیغی کارکردگی
تبلیغ کا ہدف و مقصد لوگوں میں دینی معارف کا اضافہ اور ان کو اجاگر کرنا ہے تاکہ تمام لوگ ان پر بنحو احسن عمل پیرا ہوکر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں. قرآن کریم تمام انبیائِ الٰہی کو مبلغین ِاسلام اور تمام ادیان کو تبلیغی شمار کرتا ہے، بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام( خود اپنے مطالب کے مطابق بھی اور دیگر نظریات کے مطابق بھی )صد فیصد تبلیغی دین ہے، بہت سی آیات قرآنی اس پر شاہد ہیں مثلاً ارشاد ہوتا ہے: (یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ۔ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ)(٢٢)
یعنی (اے میرے رسولۖ!) جو کچھ خداوندعالم کی جانب سے آپ کی جانب نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہونچا دیجئے اگر آپ نے یہ کام انجام نہیں دیا ( یعنی نازل شدہ امر کی تبلیغ نہیں کی)توگویاامور رسالت ہی انجام نہیں دیئے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے: (قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی َدْعُو ِلَی اﷲِ عَلَی بَصِیرَةٍ َنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی)(٢٣)
یعنی(اے میرے رسولۖ!) کہہ دیجئے کہ میرا اور میرے پیروکاروں کا طریقہ یہی ہے کہ خلق خدا کو بصیرت و بینائی کے ہمراہ خدا کی جانب بلائیں۔
تاریخی شواہد کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا مقصد دین اسلام کی تبلیغ کا زمینہ فراہم کرنااور اس کی اشاعت کیلئے مناسب فضا کا اہتمام کرنا تھا. اسی باعث رسول اسلام ۖ کے مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد مسجدنبوی تمام امور اسلامی کی تبلیغ کا محور قرار پائی ۔ (٢٤) 
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی پیغمبر اسلام ۖ لوگوں کے مابین سرکشی و گناہ کا احساس فرماتے تھے تو مسجد میں مجلس بپا کرتے تھے اور اس مجلس و محفل میں لوگوں کو پند ونصیحت فرماتے تھے۔(٢٥)
شاید مسجد سے زیادہ کسی جگہ نے بھی تبلیغ اسلام میں کردار ادا نہ کیا ہو، اسی باعث مسجد کو'' تبلیغ اسلام کا مستقل مرکز'' تعبیرکیا جاتا ہے ۔(٢٦)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں پیغمبر اسلام ۖ کی تبلیغ ،معنویت و روحانیت سے مملو ہوتی تھی ،یہ اسلامی تعلیمات ان افراد کو اسلام کا شیدا بنالیتی تھیں جن میں ہدایت کا زمینہ فراہم ہوتا تھا، وہ بہت سے افراد جو مسجد میں قرآن کی تلاوت کی غرض سے یا کسی اور کام سے آتے تھے تو وہ پیغمبر اسلامۖ کے طریقۂ تبلیغ کو دیکھ کر اپنی فطرت کے مطابق دین اسلام کو مذہب حقا تسلیم کرتے تھے، بعض افراد تو صرف رسول اسلام ۖ کی تلاوت سن کر ہی ہدایت پاجاتے تھے، اسی باعث مولائے کائنات علی علیہ السلام نے اُس مسجد کو'' مسجد خراب ''سے تعبیر کیاہے کہ جس میں اسلام کی تبلیغ و ترویج نہ ہو۔ (٢٧)
٥۔ علمی کارکردگی
دین اسلام، دین علم و معرفت ہے. تمام نئے اور پرانے اجتماعی نظاموںمیں دین اسلام سب سے زیادہ علم ودانش کی جانب رغبت دلاتا ہے یہاں تک کہ ہر مسلمان مردوعورت پر تحصیل علم کو واجب قرار دیا ہے۔ (٢٨)
اسی نظریہ کے مطابق مسجد، علم و موجودات ہستی کا مرکز قرار پائی اور مسلمان ہمیشہ مکتب اسلام کے بنیاد گذار افراد کی تشویق کرتے رہے ہیںنتیجہ میں مسجد میں بغیر کسی دشمنی کے مد نظر، محافل و مجالس اور افکار کی اشاعت ہوتی رہی ہے، امیرالمومنین کے نظریہ کے مطابق مسجد کی اہم رسالتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حقیقی معنی میں مسلمانوںکی خاطرمرکز ہدایت قرار پائے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگرمنظور نظر مسجدایسی ہو جو مذکورہ صفات کی حامل ہو تو اسے ایسے علوم کا حامل ہونا پڑے گا کہ جو علوم، انسان کی ہدایت کر سکیں اور اسے ضلالت و گمراہی کی گھاٹیوں سے نکال کر نورانی وادیوں میں لے آئیں۔
اسلامی علوم کے علاوہ دیگر علوم کو صرف اس وقت مسجد میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ علوم مندرجہ ذیل خصوصیات کے حامل ہوں:
١۔ ان علوم کاحصول شرعاً جائز ہو
٢۔ عبث اور بے فائدہ نہ ہوں، کم سے کم دنیوی فوائد سے مملو ہوں
٦۔ تعلیم و تربیت والی کارکردگی
معاشرہ کی ایک اہم ضرورت تعلیم و تعلّم ہے اور معاشرہ اپنی حیات کے پھولنے پھلنے میں اس کا محتاج ہے.چونکہ اوائل اسلام میں مومنین کے اجتماع کا مقام اور محل حصول مسجد واقع ہوئی ہے اسی لئے مسجد سب سے پہلی درسگاہ شمار ہوتی ہے اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ پھیلتے ہوئے دینی و غیر دینی تعلیمی شعبے اُسی (قدیم)زمانے کی مساجد کی شاخیں ہیں۔ (٢٩)
اسی باعث ایران میںبھی انقلاب اسلامی کے بعد تعلیم و تعلّم کا سب سے پہلا مرکز مسجد کو ہی قرار دیا گیا؛ چونکہ مسجد کے ذریعہ دین اسلام کی ترویج و تبلیغ ہوتی ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ نے مسجد کے سب سے پہلے معلّم کی حیثیت سے تعلیم و تربیت کا آغاز کیا اور سب سے پہلے مرحلہ میں اسلامی معاشرہ میں تعلیم وتربیت کی فضیلت آشکار کرنے کے لئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ مسجد میں تعلیم وتعلّم کی غرض سے حاضر ہونا راہ خدا میں جہاد کرنے کی مانند ہے۔
٧۔ سیاسی کارکردگی
دین و سیاست، شریعت اسلام میںدو جسم ایک جان ہیں. دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ عبادت وسیاست دو چیزیں ہیں لیکن ہم شکل ہیں (گویا جڑواں بھائی یا جڑواںبہنیں )کہ جو اپنی بلندی کے لحاظ سے ''کلمة اللہ'' میں تجلی پاتے ہیں ، اور کسی بھی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔
اسلام میں دین و سیاست کی آمیزش کی بنیاد پر مسجد میں بیٹھ کر سیاسی مسائل بھی سلجھائے جا سکتے ہیں اور اسلام کا جو پرچم بلند ہوگا وہ عبادت و سیاست دونوں کی بنیاد پر ہوگا۔(٣٠)
شایان ذکر یہ لطیف نکتہ ہے کہ جو چیز مسجد کو ایک سیاسی و عبادی مرکز سے تبدیل کرتی ہے وہ مسجد میں فرائض کی ادائیگی کی خاطر مسلمانوں کا اجتماع ہے اور اس اجتماع کے باعث مسجد کی سیاسی کارکردگی میں چار چاند لگ جاتے ہیں. مسجد نبویۖ کے ستونوں میں سے ایک ستون کا نام''استوانة الوفود''تھا ، یہ ستون ایسی مخصوص جگہ پر تھا کہ جہاں دور و دراز ممالک سے آئے ہوئے قافلے اور مختلف مذاہب کے افرادآپس میں مشورے کرتے تھے اور اسی جگہ پر مسجد تھی جس میں رسول اسلام ۖ قافلوں (مذہبی انجمنوں) سے ملاقات کیاکرتے تھے۔
٨۔ اجتماعی کارکردگی
دین اسلام کی بنیاداجتماع پر رکھی گئی ہے ؛ تاکہ انسان کو فردی زندگی کے قید خانہ سے نجات دلائے اور اسے اجتماعی زندگی کی جانب کھینچ لائے، ''ید اللہ مع الجماعة''(٣١)
مدینہ میں مسجد نبویۖ کی تعمیر کے بعدیہ بنیاد (اجتماع) اور بھی زیادہ محکم ومستحکم ہو گئی،رسول اسلامۖ اور آپ ۖ کے پیروکاروں نے بہت جلدی مسجد کو عبادت و اجتماع کا مقام قرار دے دیا، وہ فعالیتیں (Activitys) جو مسجد میں انجام دی جاتی تھیںان کی مختلف اقسام تھیں اور یہ نکتہ ہمارے مذکورہ مطلب پر شاہد ہے. ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی معاشرہ کا اجتماع واتحاد اس کی اصل و اساس ہوتاہے ؛اور مسجد اس امر میں بہت بڑا کردار اداکرتی ہے. مختلف انواع و اقسام کے افراد(بچے،بوڑھے، جوان،مرد،عورت،صاحبان فکر)سب ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں اور سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں،یہاں آکر امیری و غریبی کا فرق بھی ختم ہوجاتا ہے،شاعر کے بقول: 
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اس طرح کا مسجد میں حضوراوراجتماع معاشرہ کو استوار کرتا ہے. ایک فرانسی دانشمند ''ڈاکٹرگوسٹاولبن'' اپنی کتاب ''تمدن اسلام و عرب'' میںرقمطراز ہے: ''اعراب کے لئے واقعی زندگی کا مرکز مسجد ہے چونکہ اعراب مسجد کو اجتماع وعبادت اور تعلیم وتربیت کا مرکز اور کبھی کبھی اپنا مسکن قرار دے لیتے ہیں اورایسا نہیں ہے کہ نصاریٰ ویہود کی مانند صرف و صرف عبادتگاہ کے نام سے مخصوص کردیا جائے ''۔ (٣٢)
نماز جماعت میں حاضر ہونے اور صفوں میں ایک دوسرے کے قریب ہونے کی تاکید جو پیغمبر اسلام ۖ و ائمہ اطہار نے کی ہے اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہی ہے کہ عبادی اعمال کے ہمراہ اجتماع بھی رہے اور یہ اجتماع معاشرہ میں سر ابھارنے والے ہرج ومرج کو ختم کرسکتاہے، اور مسجد میں اجتماعات اس بات کا باعث قرار پاتے ہیں کہ مومنین علمائے دین کے ارشادات پر عمل پیرا ہوںاور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ سعادتمندہوجائیگا۔
٩۔ قیمتی کارکردگی
اوائل اسلام میں مساجد کی بہت ارزش واہمیت تھی.ہرمسجد اور عبادت گاہ کی قدر و منزلت روح عبودیت وبندگی پر موقوف ہوتی ہے کہ انسان اس مسجد و عبادتگاہ میں کس قدر خلوص کے ساتھ اپنے خالق کے سامنے سر نیاز خم کررہا ہے،اوامر ونواہی میں کس قدر اس کی اطاعت کررہاہے؟اور یہی انسان کے رشد وکمال کا زمینہ ہوتاہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''المسجد بیت کل مؤمن''(٣٣)
یعنی مسجد ہر مومن کا گھر ہے. اور دوسری حدیث میں آپۖ نے فرمایا: ''ان المساجد بیوت المتقین''(٣٤)
یعنی مسجدیں متقی و پرہیزگارافراد کے گھرہیں۔ جس نے مسجد کو اپنا گھر قرار دے لیاتوخداوندعالم آخرت کے راحت وآرام کو اس کا مقدر بنادے گا اور اسے با آسانی پل صراط سے بہشت کی سیر کرادے گا؛ مسجد کی حرمت و قداست اور اس کی منزلت وعظمت ،انسانی عبادت سے سمجھ میں آتی ہے اسی لئے انبیاء و اولیاء اور ائمہ کے اقوال میں مسجد کو کبھی تو مومنین کا گھر قرار دیا گیا ہے اور کبھی خداوند عالم کا گھر۔ ارشاد نبویۖ ہوتا ہے: ''ان بیوت اللہ فی الارض المساجد'' (٣٥) 
یعنی بے شک مساجدفرش زمین پر خداوند عالم کے گھر ہیں۔
بعض احادیث میں مساجد کو پیغمبروںاور رسولوں کی نشستگاہ سے تعبیر کیا گیا ہے. اس بنیاد پر اس جیسے جملے''المساجد انوار اللہ''(٣٦)
مساجد کے واقعی معنوی و روحانی پہلوئوں کوبیان کرتے ہیں۔(٣٧)
مسجد اپنے اصلی مقام پر ایک ارزشمند نمونہ ہے. وہ منزلتیں اور ارزشیں جو بھلا دی گئی ہوں وہ مسجد میں بیان کی جاتی ہیںاور یہاں محتاج و غنی، زیر دست و زبردست،سپاہی و انسپکٹر سب اپنی ظاہری ومادی خصوصیات کو ایک کنارے رکھ کر دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں.مسجد میں صرف حقیقی ارزشیں بیان ہوتی ہیںجیسے تقویٰ وجہاد وغیرہ۔ اسلامی فقہ کے مطابق صاحبان فضیلت کو جماعت کی صف اول میں کھڑا ہونا چاہیئے مثلاً صاحبان علم، صاحبان تقویٰ، اور صاحبان ایثار وجہاد وغیرہ، یہ امر خود اصلی ارزشوں کی ایکتبلیغ و ترویج ہے۔(٣٨)
مسجد و جماعت میں حاضر ہونا افراد کی دینی صلاحیتوںاور ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور یہی ایک ایسا باڈر ہے کہ جو دینداری و روح اطاعت اور بے دینی و عدم اطاعت کے درمیان جدائی ڈالتا ہے. در حقیقت یہ امر مومنین کی ارزش کے لئے معیار قرار پاتاہے، نماز جماعت میں شرکت کرنا خود ایک ارزش ہے، یہ ارزش دوسرے ابعاد معنوی، اجتماعی و اقتصادی وغیرہ پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے، جو افراد مسجد میں مستقل حاضرہوتے ہیں تووہ دوسرے افراد کی بہ نسبت معاشرہ میں اسلامی ارزشوں کی زیادہ رعایت کرتے ہیں؛ چونکہ اسلامی معاشرہ میں معروف نا ہنجاریاںاسلامی ارزشوں کے مقابلہ میں قرارپاتی ہیںاورمسجد میں مستقل حاضر ہونے والے افرادمعاشرہ کی ارزشوں کی بھی دوسرے افراد کی بہ نسبت زیادہ رعایت کرتے ہیں۔
١٠۔اخلاقی کارکردگی
نیک اخلاق خداوندعالم کی کرامت ہے اور خداوندعالم نے مقام رسالت کو اخلاق حسنہ سے مزین ہونے پراس کی تحسین فرمائی ہے: (وَِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیم)(٣٩)
اور آنحضرت ۖ نے بھی اپنی بعثت کا ہدف انسانی اخلاق و فضائل کوبتایاہے اور فرمایاہے: ''انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق''(٤٠)
مسجد کی وہ کارکردگیاںکہ جو پرستش و عبادت، سجدہ اور پروردگار کے مقابل خضوع و خشوع کے عنوان سے مورد اشارہ قرار پائیں تو ان میں سے اخلاقی و روحی کارکردگی کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے، در اصل مسجد کی کارکردگیوں کی بنیاد معنویت پر رکھی گئی ہے جس کے نتیجہ میں روح واخلاق اور اخلاص کا شجر ثمرآور ہوتاہے اور طہارت نفس عروج پاتی ہے،لہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ''تم پر مسجدوں میں حاضر ہونا لازم ہے چونکہ مسجدیں فرش زمین پر خداوندعالم کے گھر ہیںاور جو بھی ان گھروں میں پاک وپاکیزہ حالت میں حاضر ہو تو خداوندمتعال اسے اس کے گناہوں سے پاک و پاکیزہ کر دے گا ''۔(٤١)
اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتاہے کہ شاید مسجدوں کی کارکردگیوں میں سے ایک اصلی و ہمیشگی کارکردگی کا رخ انسانی اخلاق واخلاص کی جانب ہے ، اگر مسجدوں میں حاضر ہونے والے افراد(نمازی) مسجدوں سے اپنی،اپنے اہل وعیال اور معاشرہ کی ضرورت کے مطابق اخلاق حاصل نہ کر سکیں تو جو مسجدوں کا نہائی ہدف و مقصد ہے( یعنی تقرب درگاہ الٰہی)اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے؛ جیسا کہ اگر نماز انسان کو فساد و فاحشات سے نہیں روک سکتی تو وہ نماز مقبولِ درگاہِ الٰہی بھی نہیں ہوسکتی۔
اس حدیث کے سیاق وسباق سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اگر مساجد کمال و فضائل اورصفات حسنہ کی حامل نہ ہوںتو مساجد کی تعمیرات کا ہدف و مقصد ضائع ہوجائے گا۔
اسی طرح مسجد کی ایک اہم کارکردگی کہ جو معاشرہ میںاسلامی شان کو اجاگر کرتی ہے،وہ ہمیں اس بات پر اکساتی ہے کہ مسجد کی کارکردگیوں کی سیاستوں میں تجدید نظر کی جائے تاکہ اس مقدس مقام کا اخلاق، اسلامی معاشرہ میںقدم جمالے اور بیگانوں کے اخلاق سے بری و مبرّا ہوجائے. یہ چرخہ (Wheel) جو کلچر کو تقویت دیتاہے اور اسے محکم و مستحکم کرتا ہے یہ مسجد کے ان کرداروں میں سے ایک کردار ہے کہ جو کلچر کی خاطرخاص طور سے وسعت بخش ثابت ہوتے ہیںاور طولانی حکومتوں کو منظم کرتے ہیں۔
١١۔ رفتاری(تربیتی)کارکردگی
مسجد ایک مکان ہونے کے اعتبار سے دو مختلف جلووں کی حامل ہے، یا یوں تعبیر کیا جائے کہ اس مکان میں دو رفتاریں جلوہ نما ہیںکہ جو تعلیم و تربیت میںاور فردی واجتماعی رفتار میںبہت زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں، جب متعددانسان ایک جگہ جمع ہوکر مناسک و عبادت انجام دیتے ہیں تو یہ جلوہ رفتار جمعی کہلاتا ہے اور جب انسان مسجد میں تنہا تنہا وارد ہوتے ہیں تو رفتار فردی کی جلوہ نما ئی ہوتی ہے.مسجد ایک مکان کے عنوان سے دوسرے مکانوں سے اس بات میںجداہے کہ مسجد اپنی حقیقت کے لحاظ سے ( اس سے مافوق کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ ہے اورانسان یہاں گروہی شکل میں حاضر ہوتے ہیں اور دلبستگی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے بارے میں غور و خوض کرتے ہیں) منفرد صورت میں وارد ہونے والے انسان کو اس بات کی جانب متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی رفتار و افکار میں ترمیم کرے۔
اس بنیاد پر ہم یہ قبول کر سکتے ہیں کہ مسجد میں حاضرہونا(خواہ وہ اجتماعی حضور ہویا انفرادی حضور) ہمارے اندرمطلوبہ رفتاروںکو جنم دیتاہے، حالانکہ دوسرے مکانوں میں ممکن ہے کہ اس حضور کا کوئی اور مطلب نکل کر سامنے آئے۔
مسجد مسلمانوں کو اپنی جانب پکارنے کے ذریعہ اجتماع وانعطاف اور تنظیم کو قوی کرتی ہے اور ان کے اندر سے افراط(زیادتی)کو کم کرتی ہے۔
وہ افراد جو مسجدوں میں مستقل رفت وآمد رکھتے ہیںوہ نمازیوں اور اہل ایمان کی معاشرت اختیار کرتے ہیں. ان کا ایمان دوسروں کی نگاہوں کے سامنے جلوہ نما ہوجاتا ہے، اور ایک شخصی معیار و اجتماعی اعتبار بھی حاصل ہوتا ہے اور یہ چیز اقتصادی و خانوادگی اور اجتماعی رفتارکی عدالت میں انسان کے لئے اعتبار واطمینان کا معیار قرار پاتی ہے۔
در حقیقت مسجد کا کردار مطلوبہ رفتاروں میں تقویت دینے کے لئے تکمیلی کردار ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ ان رفتاروں کو ثابت قدم کرے جو رفتاریں مسجد میں ایجاد و رونما ہوتی ہیں۔(٤٢)
١٢۔ روحانی علاج والی کارکردگی
اضطراب و نگرانی انسانی زندگی کے بڑے ابعاد میں سے ایک بُعدہے ،اور آرام واطمینان انسان کی اہم گمشدہ اشیاء میں سے ایک شئی ہے کہ انسان ہمیشہ اس کی جستجو میں رہتا ہے اور آغاز زندگی سے اسی کی تلاش میں ہے تو خداوندعالم نے فرمایا: (َلاَبِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب)(٤٣) 
یعنی آگاہ ہوجائو کہ صرف یاد خدا ہی دلوں کی خاطر آرام بخش ہے. یہ آیت انسان کواس بات کی جانب متوجہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے پرور دگار کی جانب متوجہ ہو اور اس کی یاد کے ذریعہ اپنے دل کو آرام دے۔
مسجد کا نام مسجد رکھنے کا سبب بھی یہی ہے کہ یہاں پروردگار کے سامنے سربسجود ہوا جاتا ہے اور سجدہ بندگی کا عروج اور عبودیت کا کمال ہے، انسان نماز پڑھنے کے ذریعہ اپنی روح کو تسکین دیتا ہے اور اپنی روح کی مایحتاج کومہیا کرتا ہے، یہ بھی خود ایک حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف فزیکل علماء نے اس طرح کیا: انسان میں بعض اسباب و عوامل سے ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کے احساسات میں ایک عجیب طرح کی آسودگی ایجاد ہوجاتی ہے ، یقینا ایسے افراد معنویت کے محتاج ہیںجسکاان کے یہاں فقدان ہے اور ان کی روحوں میں کمی آگئی ہے ، روح کی مایحتاج میں سے ایک یہی خدا سے رابطہ ہے ، جب یہ رابطہ پیدا ہوجائے اور انسان کی فطری حاجت کا تقاضہ پورا کردیا جائے تو اسے اطمینان قلب حاصل ہوجائے گا۔ (٤٤)
اسی باعث انسان مسجد و معبد کو دوست رکھتا ہے چونکہ یہ اس کی فطرت کا تقاضہ ہے، تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے؛ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ہمیشہ معبد انسان کے ہمراہ رہا ہے۔
امام صادق علیہ السلام مسلمانوں کو سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''دنیوی مشکلات اور اندوہ و آلام سے دچار ہوتے وقت نماز و مسجد کو پناہگاہ بنائیں'' ۔ (٤٥)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس ظریف نکتہ پر عمل کیا کہ زخمی سپاہیوں کے جسمانی معالجہ کے علاوہ روحانی و معنوی علاج کی جانب بھی توجہ دی اور سمجھایا کہ مسجد بہترین درمانگاہ و آرامگاہ اور پناہگاہ ہے کہ جہاں اسلامی مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔
لیکن دوسری جانب سے ہر زمانہ سے زیادہ آج کے دور میں مسجد کے علاج کی ضرورت ہے، اور متعدد اجتماعی بحران(Tensions) کے مد نظر اور اس زمانہ کی مشینوں کو دیکھتے ہوئے کہ جنھوں نے انسان کا احاطہ کر رکھا ہے، ان چیزوں نے انسانی روح کو کمزور کر دیا ہے اور یہ سب چیزیں انسانی روح سے بہت زیادہ سازگار نہیں ہیں،اور اس حالت میں صرف ایک ہی چیز باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے مسجد، مسجد انسان کی تمام روحانی بیماریوں کو نیست و نابود کردیتی ہے . مسجد عبادت و دعا کے لئے بہترین مقام ہے چاہے اب وہ عبادت اجتماعی ہو یا انفرادی، جہاں مسجد انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج کرتی ہے وہیں انسانی جسم کی خاطر بھی پیشگیری کرتی ہے۔
ڈاکٹر الکسیس کارل اپنی کتاب ''نیایش دربارۂ نقش درمانی دعا و نیایش بر بیماران'' میں تحریر کرتا ہے: دعائوں کے اثرات نے ہر زمانہ میں لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کیا ہے اور اس کے نمونے بہت زیادہ ہیں، ایسی شفائیں جو خداوندعالم اور اولیاء الٰہی سے توسل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہیں وہ بہت زیاد ہ ہیں، لیکن یہ جو مسئلہ ہے کہ خودبخود مریض صحت یاب ہوجائے (بغیر کسی دوا ودعاکے)یا تھوڑی سی دوا سے شفا حاصل کرلے تو اس میں یہ سمجھنا بہت مشکل کام ہے کہ اس شفا کا اصلی سبب کیا ہے؟۔
اب جب کہ ہم نے یہ قبول کر لیا کہ دعاکا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور بہت سی بیماریوں کا مداوا دعائوں میں پنہاں ہوتا ہے ، تو ہمیں ایسے مقام کی تلاش میں رہنا چاہیئے کہ جہاں بہت جلدی دعائیں مستجاب ہوتی ہوں اور وہ مقام مسجد سے بڑھکر کون سا مقام ہوسکتاہے؟؛چونکہ مساجد فرش زمین پر خداوندعالم کے گھر ہیں، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ''جب بھی مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو میں ظہر کے وقت مسجدکا رخ کرتا ہوں''۔ (٤٦)
١٣۔ تشویقی و ترغیبی کارکردگی
مسجد کی کارکردگیوں میں سے ایک کارکردگی نمازیوںکی ترغیب وتشویق ہے، اس طرح نیک اعمال کی جانب مومنین کی ترغیب وتشویق باعث بنتی ہے کہ لوگ دینی رفتار اپنائیں، امام جماعت یا کسی اور خطیب کی مجالس و تقاریر کا بھی یہ ہدف ہوتا ہے کہ مومنین کو نیک اعمال و عبادی افعال کی جانب ترغیب دلائے اور انھیں منکرات سے دور لے جائے(یعنی ان کا مقصد امربالمعروف و نھی عن المنکرہوتاہے ) اور یہ کام نمازیوں پر موقوف ہے یعنی نمازیوں کی کثرت سے تاثیر میں بھی کثرت ہوگی اور نمازیوں کی قلّت کی صورت میں تاثیر بھی بہت کم ہوگی۔
آیات و روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ نمازیوں اور اہل مسجد کے لئے مخصوص جزا ہے، دینی رہبروں نے جزا کا تذکرہ کرکے اور اہل مسجد کا خدا سے قرب بیان کرکے اس بات کی کوشش کی ہے کہ مسلمین عالم اس کے ذریعہ اپنے آپ کو تقویت دیں نماز جماعت کے فضائل کوتاریخ نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے، پیغمبر اسلامۖ فرماتے ہیں: ''ان اللہ وعد ان ید خل الجنة ثلاثة نفر بغیر حساب، و یشفع کل واحد منھم فی ثمانین ألفاً:المؤذن، والامام، و رجل یتوضأ ثم ید خل المسجد فیصلی فی الجماعة''۔ (٤٧)
یعنی خداوندعالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تین افراد کو بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل کردے: مؤذن، امام جماعت اور وہ انسان کہ جو وضو کرتا ہے اور مسجد میں داخل ہوتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔
اسی طرح آنحضرت ۖ نے دوسرے مقام پر فرمایا: ''من توضأ فأحسن الوضوئ، ثم عمد الیٰ صلاة الجماعة، کتب اللہ لہ بکل خطوة یخطوھا حسنة، و کفر عنہ سیئة''۔ (٤٨)
یعنی جو کوئی بھی وضو کرکے نماز جماعت کا قصد کرے اور جماعت کی جانب حرکت کرے تو خداوند عالم اس کے ہر قدم کے عوض ایک ثواب لکھے گا اور اس کے نامۂ اعمال سے ایک گناہ محو کردے گا۔
١٤۔ جبرانی (Recovery) کارکردگی
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ مسجد کی مختلف کارکردگیاں ہیں اور اسی باعث مسجد ؛اجتماعی زندگانی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے، اور مسجد کی انواع و اقسام کی کارکردگیاں باعث بنتی ہیں کہ وہ بہت سی تعلیمات جو مسجد کے باہر انجام نہیں پاسکتیںیا انجام تو پاتی ہیں لیکن پایۂ تکمیل تک نہیں پہونچ پاتیں وہ تعلیمات مسجد کے ذریعہ حاصل اورکنٹرول کی جائیں مثال کے طور پر مسجد کی ایک کارکردگی تعلیم ہے اور مسجد کے علاوہ جو تعلیم حاصل کرنے کے مقامات ہیں وہ مدرسہ اوریونیورسٹی ہیں، چونکہ مدرسہ اور یونیورسٹی میں صرف علمی فضا ہوتی ہے لہٰذا ان کی تعلیم میں کچھ خلا پایا جاتا ہے اور اس خلا کومملوکرنے کی جگہ مسجد ہے۔
انسان روزمرّہ امور کی مانند گناہ بھی پابندی کے ساتھ روزانہ انجام دیتا ہے اگر ہم ایسا زمینہ فراہم نہ کرپائے کہ گناہوں سے پاک ہوجائیں اور انجام شدہ گناہوں کاجبران کریں تو آخرت میں گناہوں کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑے گااور وہاں اتنے زیادہ گناہوں کا جواب دینا ناممکن ہوجائے گا، نماز جماعت میں شرکت کرنا اورمومنین( نمازیوں) کے ہمراہ رکو ع وسجود اور قیام وقعود کرنا عنایت خداوندی وبخشش گناہ کا باعث ہوتاہے۔
پیغمبراسلام ۖ فرماتے ہیں: ''من اتی الجماعة ایماناً و احتساباً، استأنف العمل''(٤٩)
یعنی جو شخص بھی فقط اپنے ایمان کی وجہ سے فی سبیل اللہ (خودنمائی اور دکھاوے سے بری ،راحت طلبی سے مبّرا اور دیگر فاسد اغراض و مقاصد سے عاری) نماز جماعت میں شرکت کرے تو خداوندعالم اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ 
نماز جماعت میں شرکت کرنے والا بندۂ مومن اس طرح پاک وپاکیزہ ہوجاتا ہے اور اس شخص کی مانند ہوجاتا ہے جس پر بالکل ابھی ابھی تکالیف شرعیہ عائد ہوئی ہوں(ابھی ابھی بالغ ہوا ہو)اور اب وہ چاہتا ہے کہ تکالیف شرعیہ کو انجام دے(٥٠ )
١٥۔ تکمیلی(پایۂ تکمیل تک پہونچانے والی) کارکردگی
اگر مسجد کو اس کا اصل مقام حاصل ہوجائے تو بہت سے روزمرّہ امور کو پایۂ تکمیل تک پہونچاسکتی ہے اور معاشرہ کی بہت سی تعلیمات کومعنوی مثبت و منفی پہلو بخش سکتی ہے اور انسان کی مادی حیات کے معنوی خلائوں کو بھر سکتی ہے۔
مسجدوں کے مبلّغ حضرات اپنی تقریروں میں اسلامی و الٰہی قوانین واحکام کی رعایت کرنے کی تاکید کرتے ہیں، مسجد میں نئی نئی معلومات لوگوں کی ان تعلیمات کو پایۂ تکمیل تک پہونچاتی ہیںجو انھوں نے مسجد سے باہر مدرسہ و یونیورسٹی سے حاصل کی ہیں۔
١٦۔ مشورہ والی کارکردگی
اجتماعی مسائل میں عمومی مشورے معاشرہ کو کمال بخشنے میںبہت اہم کردار ادا کرتے ہیں،مسجد کے اصل مقامات میںسے ایک مقام یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی و اجتماعی مشوروں کی جگہ ہے ، خداوندعالم اپنے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرماتاہے: (وَشَاوِرْہُمْ فِی الَْمْر) (٥١)
اور مسجد وہ مرکز قرار پائی کہ جس نے اس آیت کو عملی جامہ پہنایا، اسی لئے جن لکھنے والوں نے مسجد کو ''مجلس شورای اسلامی''کا نام دیا ہے تو انھوں نے کچھ غلط نہیں کہاہے۔
پیغمبراکرم ۖ کے زمانہ میں یہ رسم رائج تھی کہ جب بھی کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا تھا تو منادی ندا دیتا تھا ''الصلاة جامعة'' یعنی مسجد میں نماز کے لئے جمع ہوجائو، یہ جملہ اس زمانہ میں خاص معنی کا حامل تھا لوگ اس ندا سے یہ سمجھ جاتے تھے کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہے۔
١٧۔ اتحاد ویکجہتی والی کارکردگی
اسلامی احکام کے مطابق مومن ،مومن کا بھائی ہے سب ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور مومنین کی روحیںایک ہی روح سے نکلی ہیں سب نے اس پرفیض چشمۂ الٰہی سے قوت حاصل کی ہے جو ہر وجود کو قوت بخشتا ہے؛ لہٰذا ہمارا فریضہ ہے کہ تمام امور میں ایک دوسرے کے معاون بنیںاور روح وحدت کو جلا بخشیں چونکہ خدا فرماتا ہے: (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ َوْلِیَائُ بَعْض) (٥٢)
نماز جماعت ادا کرنے کے بعد تمام نمازی ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں اور یہ کام روزانہ انجام پاتا ہے اور یہ مصافحہ انکے درمیان رشتۂ اخوت کو محکم کرتا ہے اور روح اخوت کو جلا بخشتا ہے اسی وجہ سے مسجد اتحاد ویکجہتی میں خاص کردار ادا کرتی ہے اور نمازیوں کے درمیان رشتۂ اخوت کو وسعت بخشتی ہے۔
اجتماعی وحدت و یکجہتی ہر معاشرہ کی بقا وسلامتی کے لئے اساسی و بنیادی امر ہے ، اور مسجد اس امر میں انتہائی بزرگ کردار ادا کرتی ہے چونکہ یہ مختلف قسم کے افراد کو ایک صف میںکھڑا کردیتی ہے۔
نماز جماعت کے بعض قوانین اتحاد ویکجہتی پر تاکید کرتے ہیں؛ مثلاً حکم ہے کہ جب نماز جماعت کی صف میں کھڑے ہو تو شانوں سے شانے ملاکر کھڑے ہو، صف کو منظم طریقہ سے آمادہ کرو، اور ایک صف میں صرف ایک نمازی کے کھڑے ہونے کو منع کیا گیا ہے اور بوقت اذان مسجد سے خارج ہونے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔
١٨۔ اجتماعی کارکردگی
مدینہ میں مسجد نبوی ۖ کی تعمیر کے بعد یہ رائج تھا کہ اسے اجتماع کا مقام قرار دیا گیا تھا، پیغمبر اسلام ۖ اور آنحضرتۖ کے پیروکاروں نے بہت ہی جلدی مسجد کو عبادتگاہ اور اجتماعی مقام قرار دے دیا۔ (٥٣)
مسجد اپنی خصوصیات کے ساتھ اسلامی معاشرہ میں ہمیشہ یہ کردار ادا کرسکتی ہے اور مسلمانوں کے اجتماع و تشکل کے لئے مناسب مرکز قرار پاسکتی ہے، حق پسند مومنین ہر روز اپنے عہد وپیمان بندگی کو محکم و مستحکم کرنے کی خاطر مسجد میں حاضر ہوتے ہیں، اور اس طرح سے مسجد بطور طبیعی اور بغیر مخصوص امکانات کی ضرورت محسوس کئے ہوئے طبیعی تشکیلات (l organization norma)کو وجود دیتی ہے۔
رسول اسلام ۖ کا مسجد میں جماعت کے لئے خاص اہتمام کرناباعث بنتاتھا کہ مسلمان ہرروز پانچ باراس عبادی وسیاسی تقریب میں شرکت کریں اور منظم صفوںمیں مل جل کر کھڑے ہوں اور عبادت خداوندی انجام دیں، یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ فقیر و غنی، جوان وپیرسب کا ایک ساتھ کھڑا ہونا کس قدر کینہ و حسد کو ختم کرسکتا ہے اور اس کی جگہ محبت و عطوفت اور برادری وبرابری کو قرار دے سکتا ہے؟ اور یہ مومنین کی صفیں دشمنوں،منافقوں اور مخالفوں کے قلوب میں کس قدر وحشت ایجاد کر سکتی ہیں؟۔ (٥٤)
مسجد ایک ایسی اجتماعی موجودات میں سے ہے کہ جو انواع و اقسام کے لوگوں کو متحد رکھتی ہے، اگر مسجد اپنے معاشرہ میں سر اٹھاتے ہوئے سوالات کے جوابات نہ دے سکے تو انواع واقسام کے افراد کے درمیان اپنی قداست کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔
١٩۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر والی کارکردگی
دین اسلام میںامربالمعروف و نھی عن المنکر اور پند ونصیحت ،ایک خاص مقام کے حامل ہیں کہ جو اس دین کے پیروکاروں کے لئے بہت زیادہ ثمر آور ہیں اور اجتماعی تعلقات کی اصلاح میں ان کا ہم کردار ہوگا۔
بے شک امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے اہم مرکزوں میں سے ایک اہم مرکز مسجد ہے، جس طرح لوگ ایک دوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کے لئے مسئول ہیںاسی طرح اسلامی نظام میںبھی ان کے کاندھوں پر یہ وزن رہتا ہے، لوگوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی نظام کی حمایت کرتے ہوئے منصفانہ ودلسوزانہ تبصرہ کریںاور اس نظام کے ضعف و انحراف کو حکماء کے گوش گذار کریں، مسجدیں اپنے اپنے امام جماعت کے ذریعہ یہ اہم ذمہ داری بخوبی انجام دے سکتی ہیں۔ (٥٥)
اس رابطہ میں مسجد دلسوز دینداروںکے کانفرنس کا مقام، مومنین کے قدرتمندانہ حضورکامیدان ، ایمان کی نمائشگاہ اوران کی وحدت و یکجہتی کا شاہکار ہے ، وہ بیمار دل افراد جو گناہوں کی جانب گامزن ہوتے ہیںتو وہ اس نمائش کو دیکھنے کے بعد گناہوں سے باز آجاتے ہیں، اسی طرح وہ افراد جو ایمان کی سستی کے باعث حالت ِتزلزل میں ہیںوہ مسجد سے ثبات قدمی کا درس لیتے ہیں اسی لئے مسجد میں مسلمانوں کا حضورخود بخود بہت سے گناہوں سے محفوظ رہنے کا وسیلہ ہے۔
مسجدو جماعت کا یہ کردار امام علی رضا علیہ السلام کے گوہربار کلام میں بیان ہوا ہے: ''انما جعلت الجماعة لئلا یکون الاخلاص و التوحید و الاسلام و العبادة للہ الا ظاہراً مکشوفاً مشھوراً؛ لان فی اظہار حجة علی اہل الشرق و الغرب للہ وحدہ، ولیکون المنافق و المستخف مؤدیا لما اقربہ یظھر الاسلام و المراقبة، ولیکون شھادات الناس بالاسلام بعضھم لبعض جائرة ممکنة، مع مافیہ من المساعدة علی البر والتقویٰ، والزجر عن تکثیرمن معاصی اللہ عز وجل '' (٥٦)
شریعت اسلام میں جماعت کے حکم کا سبب یہ ہے کہ(خدانے چاہاکہ) لوگوں کے سامنے اسلام ، توحید،بندگی اور اخلاص فی سبیل اللہ آشکار ہوجائے، چونکہ اس صورت میں تمام شرق وغرب کے افراد پر حجت تمام ہوجاتی ہے ، اور منافق افراد زبانی ہی سہی لیکن عمل کی طرف راغب ہوتے ہیں، اور محافظت وجود میں آتی ہے، اوراسلام میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی دینے کا بھی امکان پیدا ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ اس طرح کے اجتماعات وجلسات میں نیکی و پارسائی کی مدد ہوتی ہے تاکہ وہ اور بھی زیادہ پھولے پھلے، اور عملی طور پر بہت سے گناہوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔
خود مسجد میں حاضر ہوناایک انگیزہ کو جنم دیتاہے کہ انسان یہاں آکر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ خود کو گناہوں سے پاک کرلے ، اسی طرح مسجد میں حاضر ہوناکچھ ایسی چیزوں کا محتاج ہے کہ جو انسان کے لئے بے حد ضروری ہیںاور وہ چیزیں خدا اور اس کے فرستادہ رہبروں کی جانب سے بیان ہوئی ہیں، اس بناپر مسجد خودبخود اصلاح کے اسباب اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا زمینہ فراہم کرتی ہے ، لیکن مسجد کی جانب سے براہ راست اصلاح کے دو طریقے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
١ امام جماعت کا درسِ اخلاق 
٢ ایسے دوست جو نماز پنجگانہ کے پابند ہوں 
اور اس کے برعکس جو افراد مسجد سے سروکار نہیں رکھتے وہ ان نتائج سے محروم رہیںگے۔
٢٠۔ تعارف و د وستی والی کارکردگی
وہ افراد جن کا مسجد سے کوئی مطلب نہیں ہے اور اس نعمت سے فیض نہیں اٹھاتے تو وہ کم نمازیوں سے ملاقات کرتے ہیںاور مومنین بھی ان سے کم ملاقات کرتے ہیںاور ان سے جان پہچان بھی بہت کم ہوتی ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرنا بھی مشکل امر ہوگا(چونکہ جان پہچان نہیں ہے)اسی لئے پیغمبراسلام ۖ فرماتے ہیں: ''اذا سئلت عمن لا یشھد الجماعة، فقل لا اعرفہ'' (٥٧)
اگر تم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جائے کہ جو نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتا تو تم اس کے بارے میں کہو کہ میں اسے نہیں جانتا؛ یعنی اس کی عدالت اور وعدہ وفائی میرے لئے نا آشنا ہے (یعنی میرے لئے یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ عادل و باوفا ہے یا نہیں)۔
مومنین کا مسجد میں پانچ وقت حاضر ہونا اور نیک افراد سے ملاقات کرنااور نمازیوں کی خوش رفتاری جیسی صفات بھی باعث بنتی ہیں کہ انسان برائیوں سے اپنا دامن بچائے، اچھا انسان ہمیشہ نیک و صالح انسان کی تلاش میں رہتا ہے اور وہ کبھی بھی برے افراد کی تلاش میں نہیں جائے گا، چونکہ مسجد نیک و صالح اور مومن افراد کی رفت وآمد کی جگہ ہے،نتیجہ یہ ہے کہ مسجد کے تمام لوگ گفتار و عمل میں ایک دوسرے کو امر بالمعروف و نہی وعن المنکر کرتے ہیں۔

نتیجۂ بحث
اسلامی کلچر کو فروغ دینے کی غرض کے مد نظر،بہتر ہے کہ گذشتہ کی مانند آج بھی ہم مسجدوں سے استفادہ کریںبلکہ گذشتہ زمانوں سے بھی زیادہ،تمام اسلامی علماء و فضلاء اور محققین کا فریضہ ہے کہ مناسب اہداف ومقاصد کے ہمراہ قدم بڑھائیںاور مساجد کو اپنا مرکز قرار دیںاور تبلیغ کے نئے نئے طریقے ایجاد کریں، اس طرح سے علماء دین مسجد کی فلک بوس عظمت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکتے ہیںکہ اس کے ذریعہ معنویت کو معراج دیں اور معاشرہ کی اجتماعی و ثقافتی (Cultural)مشکلات کو دور کریں ۔

حوالہ جات:
١۔بقرہ١١٤،١٤٤، ١٥٠، ١٥٦؛ مائدہ٢؛ اعراف٢٩؛ توبہ١٨،١٠٨؛ اسرائ١؛ حج٤٠؛ فتح٢٥،٢٧؛ جن١٨.
٢۔عبد الرضا ضرابی: نقش و عملکرد مسجد در تربیت، دبیر خانہ ستاد عالی نظارت بر کانون ھای فرھنگی مساجد۔
٣۔ ایضاً یعنی مدرک قبلی۔
٤۔سورۂ توبہ١٠٨۔
٥۔سورۂ فرقان٧٧۔
٦۔عباس عزیزی: پرورش روح، ص٥٩۔
٧۔مجلسی: بحار الانوار، ج٨٢، ص١٦٤۔
٨۔شیخ حر عاملی: وسائل الشیعہ، ج٣، ص٤٢٢۔
٩۔سورۂ حج٤٠۔
١٠۔سورۂ بقرہ١١٤۔
١١۔سورۂ جن١٨۔
١٢۔سورۂ اعراف٢٩۔
١٣۔سورۂ اسرائ١۔
١٤۔شیخ حر عاملی: وسائل الشیعہ، ج١، ص٢٦٨۔
١٥۔ایضاً۔
١٦۔رحیم نو بھار: مسجد نمونہ، ص١٠،١٤۔
١٧۔مرضیہ عریان: تاریخچہ مسجد، مجلہ مسجد، ش٢٤، ص٤٦۔
١٨۔سورۂ نور٣٦،٣٧۔
١٩۔محمد علی موظف رستمی: آیین مسجد، ج٢، ص١٨۔
٢٠۔سورۂ جمعہ٢۔
٢١۔رحیم نو بھار: مسجد نمونہ، ص٢٥۔
٢٢۔سورۂ مائدہ٦٧۔
٢٣۔سورۂ یوسف١٠٨۔
٢٤۔عباس علی فراھتی: مسجد نخستین، مجلہ مسجد، ش١٨، ص٢٤۔
٢٥۔محمد غزالی: احیاء العلوم، ج٢، ص٣٩٨۔
٢٦۔اصغر افتخاری: سیرۂ تبلیغی پیامبر اکرم ۖ، ص٩٠۔٩٢۔
٢٧۔نہج البلاغہ: تنظیم صبحی صالح، ص٥٤٠۔
٢٨۔شیخ کلینی: اصول کافی، ج١، ص٣٠۔
٢٩۔سعید عباس نیا: کتاب شناسی مسجد، ص٥۔
٣٠۔حسن رہبری: مسجد نھاد عبادت و ستاد ولایت، ص٢٥٠۔
٣١۔نہج البلاغہ: خ١٤٧۔
٣٢۔گوسٹاولبن: تمدن اسلام وعرب، ص٣١٥۔
٣٣۔متقی ہندی: کنز العمال، ج٧، ص٦٥٠۔
٣٤۔ایضاً:ص٦٥٩۔
٣٥۔ایضاً: ص٦٤٨۔
٣٦۔مرزا حسین نوری: مستدرک الوسائل ،ج٣، ص٤٤٧، ب٥٤، روایت٢٠۔
٣٧۔ابراہیم سید علوی: مسجد و ارزش ھا، مجلہ مسجد، ش١٧، ص٦١،٦٢۔
٣٨۔رحیم نوبھار: مسجد نمونہ، ص٥١۔
٣٩۔سورۂ قلم٤۔
٤٠۔علی بن حسام متقی ہندی: کنزالعمال،ح٥٢١٧٥، ج٣،ص١٦۔
٤١۔بحار الانوار: ج١٠، ص٨، ح١٧۔
٤٢۔مھدی سجادی: مسجد و تعلیم و تربیت ، مجلہ مسجد، ش٤٣، ص٣١۔
٤٣۔سورۂ رعد٢٨۔
٤٤۔مھدی سجادی: مسجد و تعلیم وتربیت، ص٧۔
٤٥۔رحیم نو بہار: مسجد نمونہ، ص١٥،١٧۔
٤٦۔مجلسی: بحار الانوار، ج٤٧، ص٣٤٧۔
٤٧۔مرزا حسین نوری: مستدرک الوسائل، ج٦، ص٤٤٩۔
٤٨۔مرزا حسین نوری: مستدرک الوسائل، ج٦، ص٤٤٨۔
٤٩۔شیخ صدوق: من لا یحضرہ الفقیہ،ج١،ص١٣٩۔
٥٠۔احمد صادقی اردستانی: جلوہ ھای نماز، ص٣٢٣۔
٥١۔آل عمران١٥٩۔
٥٢۔سورۂ توبہ٧١۔
٥٣۔محمد مکی سباعی: تاریخ کتابخانہ ھای مساجد، ص٤٤۔
٥٤۔عباس علی فراھتی: مسجد نخستین پایگاہ عبادی سیاسی، مجلہ مسجد، ش١٨، ص٢٠۔
٥٥۔رحیم نو بھار: بررسی نظام اسلامی با مساجد از نقطہ نظر جامعہ شناسی، ص١١۔
٥٦۔شیخ حر عاملی: وسائل الشیعة، ج٥،ص٣٧٢۔
٥٧۔مجلسی: بحار الانوار،ج٨٥،ص٥۔
منابع و ماخذ:
١۔ قرآن کریم۔
٢۔ نہج البلاغہ۔
٣۔ افتخاری،اصغر، سیرۂ تبلیغی پیامبر اکرمۖ۔
٤۔ رہبری ،حسن، مسجد نھاد عبادت و ستاد ولایت۔
٥۔ سجادی، مھدی، مسجد و تعلیم وتربیت، مجلہ مسجد، شمارہ چہل وسوم۔
٦۔ سید علوی، ابراہیم، مسجد و ارزشھا، مجلہ مسجد، شمارہ ١٧۔
٧۔ ضرابی، عبد الرضا، نقش و عملکرد مسجد در تربیت، دبیر خانہ ستاد عالی نظارت بر کانون ھای فرھنگی مساجد۔
٨۔ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ۔
٩۔ عباس نیا، سعید، کتاب شناسی مسجد۔
١٠۔ عریان، مرضیہ، تاریخچہ مسجد،مجلہ مسجد، شمارہ٢٤۔
١١۔ عزیزی،عباس، پرورش روح۔
١٢۔ غزالی، محمد، احیاء العلوم۔
١٣۔ فراھتی، عباس علی، مسجد نخستین پایگاہ عبادی سیاسی، مجلہ مسجد، شمارہ١٨۔
١٤۔ کلینی، محمد بن یعقوب،اصول کافی۔
١٥۔ متقی ہندی، علاء الدین علی بن حسام، کنزالعمال۔
١٦۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار۔
١٧۔ مکی سباعی، محمد، تاریخ کتابخانہ ھای مساجد۔
١٨۔ موظف رستمی، محمد علی، آئین مساجد۔
١٩۔ نو بھار، رحیم، بررسی رابطہ نظام اسلامی با مساجد از نقطہ نظر جامعہ شناسی(مسجد نقطہ وصل)۔
٢٠۔ نو بہار، رحیم، مسجد نمونہ۔
٢١۔ نوری، مرزا حسین، مستدرک الوسائل۔