فضائل اہلبیت علیہم السلام
زیارت جامعہ کبیرہ کی روشنی میں
( 18 مجالس کا مجموعہ)
استاد شیخ حسین گنجی حفظہ اللہ
ترجمہ: اسدرضاچانڈیو
اس کتاب کےبارےمیں چندباتیں
کمال ایمان اور معرفت کیلئے خدا کےمقرب بندوں کی زیارت کا بہت بڑا کردار ہے۔ زیارت، خداوند قدوس کا وہ انمول تحفہ ہےجو اہلبیت سےتمسک اور وابستگی کا سبب بنتا ہےجو کہ خیر،برکت، فیض اورثواب کا سبب ہیں۔
ان تمام زیارتوں میں سےایک بہترین زیارت جامعہ کبیرہ ہےجو کہ ائمہ معصومین کی معرفت کامل کا ذریعہ ہےاور اہلبیت کےکمالات اور فضائل سےبھرا سمندر ہے۔
زیارت جامعہ امامت اور ہدایت کا وہ بلند منشور ہےجو امام علی نقی علیہ السلام کےنورانی بیانات سےظاہر ہوا۔
یہ زیارت حقیقت میں انسانیت کی ائمہ معصومین کےچند فضائل کی طرف رہنمائی ہےورنہ اہلبیت کےفضائل تو اس سےکہیں زیادہ ہیں۔
زیارت جامعہ کی شرح اورتبیین کےحوالے سے(نسیم معرفت)کےنام سےیہ حجۃ الاسلام و المسلمین آقای حسین گنجی کی خوبصورت گفتار کا مجموعہ ہے۔ اردو زبان مومنین کےاستفادہ کیلئے اس حقیرنےاس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے، امید ہےکہ اس کتاب کےمطالعہ سےہماری معرفت میں اضافہ ہوگا، اورآخرت میں ہماری شفاعت کا سامان فراہم ہوگا۔ البتہ ترجمہ میں کتنا کامیاب ہو سکا ہوں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں!
دعاہےخداوندکریم نسیم معرفت کوہم سب کےنصیب میں لکھےاورہم سب کیلئےائمہ معصومین کی حقیقی معرفت اورشناخت کےدروازےکھول دے!
اسدرضا چانڈیو
حوزہ علمیہ قم المقدسہ
13 رجب 1437
مولف کا مقدمہ
خلقت اورپیدائش کا سبب اور فلسفہ، آگاہی اورمعرفت ہے
(تفسیر صافی، ج 5 ، ص 75)
اگرکسی کو درست شناخت اورمعرفت حاصل ہو جائے تو وہ عبودیت کےکمالات کو پا لیتا ہے۔
من عرف ربه فقدتوحد
(غرر الحکم، آٹھویں فصل، کلمہ 13)
جس نےبھی اپنےرب کو جانا وہ موحد ہو گیا۔
توحیدکی حقیقت فقط اللہ تعالی کی معرفت کےذریعہ حاصل ہوتی ہےاورمحبت اورایثاربھی اسی معرفت سےحاصل ہوتے ہیں۔
دلیل الحب ایثار المحبوب علی ما سواه؛
بحار الانوار، ج 67 ، ص 22
محبت کی نشانی اپنےمحبوب کو سب پرمقدم رکھنا ہے۔محبت، خوف اور خشیت بھی اسی چشمے سےجاری ہوتے ہیں:
اخوفکم اعرفکم؛
غرر الحکم، ص 174 ۔
تم میں سےسب سےزیادہ ڈرنےوالا ہی سب سےبڑا عارف ہے۔
( انما یخشی الله من عباده العلماء؛ )
سورہ فاطر، ایة 27 ۔
اللہ کےبندوں میں سےصرف اہل علم ہی اس سےڈرتے ہیں۔
رسول اکرم کی ایک بہت ہی خوبصورت حدیث ہے:
من عرف الله و عظمه منع فاه من الکلام و بطنه من الطعام و عنی نفسه بالصیام و القیام؛
کافی، ج 2 ، ص 273 ۔
جو بھی اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرلے اور اس کو عظیم جانے، وہ اپنی زبان کو باطل بولنےسےروکے، اپنےپیٹ کو حرام اور زیادہ کھانےسےبچائے، نماز اور روزہ کےذریعہ اپنےنفس کو کنٹرول کرے۔
اللہ تعالی کی معرفت، اہلبیت کی معرفت کےبغیر ممکن نہیں کیونکہ اہلبیت ہی اس کی معرفت کا مرکز ہیں۔ علم، حکمت، دانش، دانائی، معرفت اور آگاہی سب یہاں ہیں۔ اہلبیت کےدروازے کو چھوڑ کےیہ چیزیں کہیں نہیں پائی جاتیں!
السَّلامُ عَلَى مَحَالِّ مَعْرِفَةِ اللَّهِ وَ مَسَاکِنِ بَرَکَةِ اللَّهِ وَ مَعَادِنِ حِکْمَةِ اللَّهِ مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِکُمْ وَ مَنْ وَحَّدَهُ قَبِلَ عَنْکُمْ وَ مَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِکُمْ
جوبھی اپنےدل کےذریعہ دیدار الہی کرنا چاہتا ہےاسےاہلبیت کےجمال پر نظر ڈالنی چاہیے کیونکہ یہی خدانما آئینہ ہیں۔
جس دروازے سےتمام افراد انسانیت کو شہر توحید، شہر ایمان، شہر اخلاق اور تمام خوبیوں کےشہر میں داخل ہونےکا حکم دیا گیا ہےوہ اہلبیت ہے۔
نَحْنُ الْبُيُوتُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا وَ نَحْنُ بَابُ اللَّهِ
بحارالانوار، ج23، ص 329۔
ہم وہ باب اللہ ہیں جس کےبارے میں اللہ تعالی نےحکم فرمایا ہےکہ میرے گھر میں اہلبیت کےدروازے سےداخل ہوں
یعنی جس گھر میں اسکےدروازے سےآنےکا خدا نےحکم دیا ہےوہ ہم ہیں اور ہم ہی باب اللہ ہیں۔
اسی لئے رئیس مذہب امام صادق ارشاد فرماتے ہیں:
شَرِّقَا وَ غَرِّبَا لَنْ تَجِدَا عِلْماً صَحِيحاً إِلَّا شَيْئاً يَخْرُجُ مِنْ عِنْدِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ؛
بحار، ج 2 ، ص 92 ۔
اس عالم کو مشرق اور مغرب تک کو چھان مارو لیکن درست علم تک رسائی نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ علم ہم اہلبیت سےجاری ہوا ہوگا۔
جیسا کہ مرزا مہدی اصفہانی سےحالت مکاشفہ میں امام زمانہ نےارشاد فرمایا:
طلب الهدآیت او المعارف من غیرنا مساوق لانکارنا؛
ہمارے علاوہ کسی اور سےہدایت اور معرفت کو طلب کرنا ہمارے انکار کےبرابر ہے۔
شیعہ اور سنی کےدرمیان متفق حدیث، حدیث ثقلین اور اس جیسی بہت ساری احادیث کا مدعی بھی یہی ہے۔
اس مطلب پر اس قدر اصرار کیا گیا ہےکہ امام صادق ارشاد فرماتے ہیں:
ان دعوناهم لم یستجیبوا لنا و ان ترکناهم لم یهتدوا بغیرنا؛
اگرہم انہیں حق کی دعوت دیتےہیں تووہ قبول نہیں کرتےاوراگرانہیں انکےحال پرچھوڑتےہیں تووہ ہمارےبغیرہدایت حاصل نہیں کرپاتےاورگمراہ ہوجاتےہیں۔
اسی لئےاہلبیت کےسامنےسرِتسلیم خم کرناچاہیےاوران کی اطاعت کرنی چاہیےاسکےعلاوہ ضلالت اورگمراہی سےبچنےکاکوئی راستہ نہیں۔
کسی کےپاس کچھ نیکی اور خیر نہیں اور نہ ہی کسی کو ایسی جگہ کا علم ہےبلکہ تمام نیکی اور خیر ان کےگھر میں ہے۔
إِنْ ذُکِرَ الْخَيْرُ کُنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاهُ؛
اگر خیر کا تذکرہ کیا جائے تو آپ اس کی ابتدا اصل اور فرع ہیں۔
اب سوال یہ ہےکہ اہلبیت کو کیسےپہچانیں؟ اہلبیت کی معرفت کیلئے کونسا راستہ اختیار کریں؟ اس کےعلاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ان کےہی فرمودات اور اقوال سےاستفادہ کیا جائے۔
اس کا ایک بہت ہی خوبصورت اور جامع نمو،نہ زیارت جامعہ کبیرہ ہےجو امام علی نقی کی مقدس زبان سےصادر ہوئی ہےاور جس میں اہلبیت کی چار سو بیس صفات کو ذکر کیا ہے۔
اگرہم ان کمالات اورفضائل سےمطلع ہونا چاہتےتوہزاروں کتابوں اورسیکڑوں حدیثوں کی ضرورت پڑتی لیکن آپ حضرت نےچندصفحوں میں بہت خوبصورت اورظریف طریقہ سےفضائل اورکمالات کےدریا سمیٹے ہیں۔یہ ایک ایسی کرامت اورمعجزہ ہےجو غیر معصوم سےبعید ہے۔
اس نکتہ کا بیان بھی ضروری ہےکہ ہم یہ خیال تک نہ کریں کہ ہم نےان کی معرفت ان کےحق کےمطابق حاصل کرلی ہے؛کیونکہ ان فضائل کو بیان کرنےکےباوجود امام دو جگہوں پر ارشاد فرماتے ہیں کہ ابھی ہم کچھ نہیں جانتے۔
پہلا مورد:
مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَکُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ کُنْهَکُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَکُمْ؛
اے ہمارے پیشوا، آپ کی تعریف کا احصاء نہیں ہو سکتا اور میں مدح میں آپ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔
دوسرا مورد:
کَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِکُمْ؛
میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں۔
اگر ان کےفضائل کا ایک قطرہ بھی آپ نےاس کتاب میں دیکھ لیا تو جان لیں کہ امیر المومنین کی فریاد آج بھی تازہ ہےکہ آپ نےارشاد فرمایا:
ولا یرقی الی الطیر؛
کوئی بھی فکری پرندہ پرواز کےذریعہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا۔
اسی طرح امام رضا خوبصورت ارشاد فرماتے ہیں:
فمن ذالذی یبلغ معرفة الامام او یمکنه اختیاه هیهات! هیهات؛
کون ہےجو امام کو جان سکے؟ یا کون ہےجس کیلئے امام کا انتخاب ممکن ہو؟کوئی نہیں کوئی نہیں!
یا سب سےخوبصورت جملہ:
اجعلونا مخلوقین و قولوا فی فضلنا ما شئتم و لن تبلغوا؛
ہمیں اللہ کی مخلوق جانو اور پھر ہمارے فضائل میں جو چاہو کہولیکن تم ہرگز ہماری حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے۔
ولایت ایک زیور ہے۔ ضروری ہےان فضائل کو نقل کرنے، لکھنے، بیان کرنےاور سننےسےہراساں نہ ہوں اور ان کو کم کرنےسےڈریں کیونکہ اہلبیت کےفضائل زیارت جامعہ سےبھی کہیں زیادہ ہیں۔
اسی طرح مرحوم آیت اللہ صفوی اصفہانی، آقای مرزا علی شیرازی سےنقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے کاش محدث خبیر سید ہاشم بحرانی، مدینۃ المعاجز کو تحریر نہ فرماتے۔ میں نےان سےاس بات کا سبب پوچھا کہ آپ یہ کیوں فرما رہےہیں؟ انہوں نےجواب دیا: یہ کرامتیں ربانی عالموں کےحصے میں ہیں اہلبیت تو اس سےبھی کہیں بلند ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ امام زمانہ، ماہ مبارک رجب کی دعا میں فرماتے ہیں:
لا فرق بینک و بینها الا انهم عبادک و خلقک فتقها و رتقها بیدک؛
آپ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں سوائے یہ کہ آپ اس کےبندے ہیں لیکن آپ خداوند کریم کی صفات کےمظہر کامل ہیں۔ خدا وند کریم کےارادہ، علم، قدرت، رحمت کو آپ میں ملاحظہ کرنا چاہیے۔
آئیں ان کی زیارتوں، دعائوں، مناجاتوں اور کلمات کا مطالعہ کریں تاکہ ہدایت میں خود کو ان کا محتاج نہ جانیں جو خود ہدایت میں دوسروں کےمحتاج ہیں۔
پروردگارا! کس طرح تیرا شکر کریں کہ تونےایسےحق کےامام عطا فرمائے اور ان کی امامت، محبت، اتباع، دفاع اور اسی طرح ان کےفضائل کےسمندروں میں سےقطرہ جتنی معرفت ہمیں بھی عطا فرمائی۔
فَربی اَحمد شیء عندی و احق بحمدی؛
میرا پروردگار، میری پسندیدہ ذات ہے۔ وہی ذات سب سےزیادہ میری حمد کا سزاوار ہے۔
میری جاں! میرے مولا مہدی! نبیوں کی آرزو! نور انوار! آپ کی ماں زہرا، میری اس کمترین کوشش کو قبول فرمائےکہ آپ سید اور سردار ہیں۔
حسین گنجی
قم۔ ذیقعدہ۔ 1425
پہلی مجلس
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَعَلَامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ )
سورہ نحل، آیت 16
اور علامات معین کردیں اور لوگ ستاروں سےبھی راستے دریافت کرلیتے ہیں۔
امام علی نقی (ع)زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَکُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ کُنْهَکُمْ؛
اے ہمارے پیشوا، آپ کی تعریف کا احصاء نہیں ہو سکتا اور میں مدح میں آپ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔
شیعوں کا سب اہم وظیفہ امام معصوم کی پہچان ہےاور یہ صرف شیعوں کا وظیفہ نہیں بلکہ تمام انسانوں کا وظیفہ ہے۔ ا س روایت کےمطابق جو رسول اکرم (ص) سےمنقول ہے، جسےتمام شیعہ اور سنی علماء نےبیان کیا، جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ رسول اکر م (ص) فرماتے ہیں:
مَنْ مَاتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة؛
بحارالانوار جلد 32 ، صفحہ 331 ینابیع المودہ، جلد 3 صفحہ 372
اگر امام کی معرفت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
جاہلیت کا زمانہ، خدا کےانکار، نبوت اور رسالت کی نفی، وحشی گری، بت پرستی، بے حیائی اور کفرکا زمانہ تھا ۔
زیارت جامعہ، امام کی معرفت کا درس
اس کےباوجود کہ امام علی نقی(ع) نے 34 چونتیس سال امامت کی، امام کا زمانہ انتہائی ظلم و جورکا زمانہ شمار ہوتا ہے۔ امام کےدور میں بنی عباس کےخبیث ترین خلیفہ متوکل عباسی کی حکومت تھی، جس نےامام کو لوگوں سےدور کرنےکیلئے سامرا جلا وطن کیا اور وہاں امام کا محاصرہ کیا، لیکن امام ہادی ؑنےکمال امامت کےساتھ وہ کام کیا کہ ہر شیعہ کو حیرانی اور پریشانی سےنجات بخشی۔
اگر امامت کےموضوع پر کوئی آیت اور روایت نہ ہوتی تو بھی زیارت جامعہ امام کی معرفت کیلئے کافی تھی ۔ امام علی نقی (ع) اس زیارت کےذریعے قیامت تک کےانسانوں کو امام کی معرفت کا درس دیتے ہیں ۔ مرحوم سید عبد الہادی شیرازی
(نجف اشرف کےعظیم مرجع تقلید)اس بارے میں فرماتے ہیں: زیارت جامعہ، امام کا کلام ہونےکی وجہ سےہمارے افکار کی تصحیح کرتی ہے۔
زیارت جامعہ کی سند
ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی فضائل ائمہ معصومین(ع) والی روایتوں کی سند کےبارے میں تحقیق کی جاتی ہےکہ اس روایت کی سند ضعیف ہےیا قوی؟ اس لحاظ سےہم چاہتے ہیں کہ پہلے زیارت جامعہ کی سند پر تحقیق پیش کریں تاکہ اس کی صحت کا اطمنان پیدا ہو جا ئے اور کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرسکے۔ اس تحقیق میں ہم زیارت جامعہ پر چند زاویوں سےنظر ڈالتے ہیں۔
1 ۔ قوت متن
کچھ روایتوں پہ نظر پڑتے ہی ان کی صحت اور صداقت کا یقین ہو جاتا ہے؛ کیونکہ ان کا متن ہی ان کےسچے اور کلام امام ہونےکی تصدیق کرتا ہےان میں سےایک زیارت جامعہ ہے۔
ہمارے استاد مرحوم شیخ عبدالکریم حامد فرماتے تھے: بعض لوگ کہتےہیں: مناجات خمسہ عشر کی سند ضعیف ہے۔ تم سےجو بھی یہ بات کہےاس کو جواب میں کہو: تمہاری عقل ضعیف ہے۔ معصوم کےعلاوہ کوئی بھی اللہ تعالی سےاس قسم کی مناجات نہیں کر سکتا کیونکہ معصوم کےعلاوہ کوئی ایسی معرفت نہیں رکھتا ۔
جیسےکچھ لوگ حدیث کساکےبارے میں بحث کرتے ہیں کہ: اسکی صحیح سند موجود ہےیا نہیں؟
جنگ کےزمانےمیں آیت اللہ بہاء الدین اپنےچند دوستوں کےساتھ درود (ایران کا ایک شہر )میں تھے۔ ان کےساتھ ہمارے استاد حاج آقا سوشتری بھی موجودتھے، جو اس وقت شہر (درود) کےامام جمعہ تھے۔
انہوں نےآیت اللہ بھاء الدین سےسوال کیا: دشمن اس جگہ پرمسلسل بمباری کر رہا ہےآپ کیا حکم دیتے ہیں؟
آیت اللہ بھاء الدین نےجواب دیا: میری ماں زہرا(س) نےمجھ سےکہا ہےکہ لوگوں سےکہو:حدیث کساء پڑھیں۔
لوگوں نےحدیث کسا پڑھنا شروع کردی اس دن کےبعد درود میں کبھی بم کا دھماکہ نہیں ہوا ۔
وہ فرماتے ہیں: اس وقت ہم نےدشمن کےایک پائلٹ کو پکڑا۔ اس سےبات چیت کی میں نےخود وہ بات چیت سنی۔ اس سےپوچھا گیا: تمہاری ڈیوٹی کہاں تھی ؟
پائلٹ نےجواب میں کہا: میری ڈیوٹی درود میں تھی۔ جب میں یہاں آیا میں نےشہر( درود)کو دیکھا۔
لیکن جب نزدیک آیا تو مجھے ایک دریا نظر آیا، اس لئے میں نےاس پر بمباری نہیں کی اور کہیں اور بمباری کی۔
جب ہم نےتحقیق کی توپتاچلاحدیث کساپڑھنےکےبعدیہ واقعہ پیش آیاتھا۔اس دلیل کےہوتےہوئےکوئی اسکی صحت میں شک کرسکتا ہے؟ کیا یہ حدیث من بلغ (کافی، ج 2 ، ص 87) سےکمتر ہےجس پر مستحبات اور مکروہات پر عمل کیا جاتا ہے؟
اسی طرح کچھ لوگ سوال کرتے ہیں جمکران کی سند ہےیا نہیں ؟حالانکہ بہت زیادہ افرادنےوہاں امام زمانہ(ع) کی زیارت کی ہےاور وہاں سےاپنی مرادیں پائی ہیں۔ ہم اپنےدوستوں کےساتھ آیت اللہ بھاء الدین کی خدمت میں تھے، جب جمکران کی بات آئی۔
تو انہوں نےفرمایا: کتنی ہی بار ایسا ہوا ہےکہ جب ہم جمکران کےقریب جاتے ہیں تو ہماری حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔
احادیث من بلغ سےمراد وہ احادیث ہیں جن کا مضمون یہ ہےکہ اگر تمہارے پاس کوئی روایت پہنچے جس میں کسی عمل کا ثواب ذکر ہوا ہو اور تم اطاعت کرتے ہوئے اس پر عمل کرع تو اتنا ثواب تمہیں ملے گا اگرچہ وہ روایت ضعیف ہو، البتہ اس حدیث پر زیادہ تر عمل مستحبات اور مکروہات میں کیا جاتا ہے۔
2 ۔ معتبر کتابوں میں نقل ہونا
زیارت جامعہ کو اکثر بزرگوں نےاپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ شیعوں کےپاس قرآن کےبعد چار کتابیں معتبر ہیں جن کو کتب اربعہ کہا جاتا ہے۔ جو کہ شیعوں کی بنیادی کتابیں ہیں۔ان میں سےایک کتاب، اصول اور فروع کافی ہے۔ جس کو شیخ کلینی نےلکھا ہے۔ دوسری کتاب من لا یحضر ہ الفقیہ ہےجس کو رئیس المحدثین شیخ صدوق نےلکھا ہے، ج کہ و امام زمانہ (ع)کی دعا سےپیدا ہوئے۔ بعض بزرگان فرماتے ہیں : امام زمانہ(ع) بعض اوقات ان کی قبر پر جاتے ہیں۔تیسری اور چوتھی کتاب تہذیب اور استبصار ہے۔جس کےمصنف شیخ طوسی ہیں ۔
شیخ طوسی تہذیب الاحکام، جلد 6 ، صفحہ 95 میں اورشیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ، جلد 2 ، صفحہ 609 میں زیارات کےباب میں اس دعا کو ذکر کرتے ہیں مخصوصا شیخ صدوق اپنی کتاب کی ابتدا میں فرماتے ہیں: میں اس کتاب میں نقل کردہ تمام روایات کی صحت اورصدق کااعتقادرکھتا ہوں اور اسکی صحت اور صدق کا فتوی دیتا ہوں۔
آپ لوگو ں نےملاحظہ کیا کہ تین معتبر کتابوں کےدو بزرگوار عالم اپنی کتابوں میں اس زیارت کو نقل کرتے ہیں ۔
ائمہ معصومین(ع)کی تائید
دوسرےعلماءبھی جیسےعلامہ محمدتقی مجلسی اپنی کتابوں میں زیارت جامعہ کی تصدیق کرتےہیں اورروضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں فرماتے ہیں: مجھے خواب میں امام رضا (ع) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: جب مجھے امام رضا(ع) کی زیارت نصیب ہوئی تو میں زیارت جامعہ پڑھ رہاتھا۔
امام نےفرمایا : احسنت، احسنت یعنی بہت خوب۔ امام (ع)نےزیارت جامعہ کی تعریف کی اور زیارت جامعہ پڑھنےپرمیری بھی تعریف کی۔
روضة المتقین، جلد 5 ، صفحہ 451
اس کےبعد وہ فرماتے ہیں : جب میں امام علی(ع) کی خدمت میں تہذیب اور ریاضت میں مشغول تھا۔ مجھے رواق عمرا ن میں ایک مکاشفہ ہوا۔ میں نےدیکھا کہ: میں سامرا میں امام زمانہ (ع)کی خدمت میں کھڑے ہو کر زیارت جامعہ کی تلاوت میں مشغول ہوں۔ جب زیارت تمام ہوئی امام زمانہ (ع)نےارشاد فرمایا : نعمت الزیارۃ۔ یہ بہترین زیارت ہے۔
اس مکاشفہ کےذکر کےبعد علامہ مجلسی فرماتے ہیں:
والحاصل لا شک لی انه من انشائات امام الهادي(ع)
مجھے یقین ہےکہ زیارت جامعہ، امام علی نقی (ع) سےوارد ہوئی ہے۔ ہم ہمیشہ حرم اور غیر حرم میں جب کسی معصوم (ع) کی زیارت پڑھتے ہیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت کرتے ہیں۔
روضة المتقین، جلد 5 ، صفحہ 452
علامہ نےاپنی کتاب روضہ المتقین کی پانچویں جلدمیں زیارت جامعہ کی سندکےسلسلےمیں بحث کی ہےاوراسےقابل اعتمادقراردیاہے۔
علامہ مجلسی کےکلام میں زیارت جامعہ کی خصوصیات
مرحوم علامہ محمدباقرمجلسی، علامہ محمدتقی مجلسی کےفرزند اپنےنورانی کتاب بحارالانوارمیں فرماتے ہیں:
إنما بسطت الکلام في شرح تلک الزيارة قليلا و إن لم أستوف حقها حذرا من الإطالة لأنها أصح الزيارات سندا و أعمها موردا و أفصحها لفظا و أبلغها معنى و أعلاها شأنا ۔
بحارالانوار جلد99، صفحہ 144
ہم نےزیارت جامعہ کو کچھ تفصیل سےبیان کیا ہے۔ اگر چہ اس کاحق ادا نہیں کر سکےکیونکہ زیارت جامعہ سند کےلحاظ سےصحیح ترین زیارت ہے، اور لفظ کےلحاظ سےفصیح ترین زیارت ہے، معنی کےلحاظ سےموثر ترین زیارت ہےاور اس زیارت کی شان بہت بلند ہے۔
جب میں نےزیارتوں کو نقل کرنا چاہا اور بات زیارت جامعہ تک پہنچی تو میں نےمندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سےاس کو شرح کی ہے:
الف) زیارت جامعہ شیعوں کی زیارتوں میں سےصحیح ترین زیارت ہے۔ زیارت امین اللہ بھی صحیح ہےاور زیارت امام رضا اور حضرت معصومہ بھی صحیح ہے۔ لیکن صحیح ترین اور سند کےلحاظ سےمحکم ترین زیارت، زیارت جامعہ ہے۔
ب) زیارت جامعہ کےعلاوہ تمام زیارتیں کسی ایک مقام اور کسی ایک امام یا چند مقام اور چند اماموں کےساتھ مخصوص ہیں۔ صرف زیارت جامعہ ہی ہےجو تمام اماموں اورمعصومین کی زیارت میں پڑھی جا سکتی ہے۔
ج )عبارت کےلحاظ سےزیارت جامعہ بہت ہی بلند، فصیح اور خوبصورت ہےکوئی کلام اتنا بلند، فصیح اور خوبصورت نہیں ہو سکتا ۔
د)تمام زیارتیں بلاغت کا نمونہ ہیں۔ لیکن ان زیارتوں میں کچھ عبارتیں بہت مشکل ہیں جو ہر ایک کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ لیکن زیارت جامعہ معنی کےلحاظ سےاور مطلب کو پہنچانےمیں عجیب تاثیر رکھتی ہے۔ بلاغت کا بے نظیر نمونہ ہےجس کو ہر ایک آسانی سےسمجھ سکتا ہے۔
ھ)دوسری زیارتوں میں ائمہ معصومین (ع) کےچند ایک فضائل اور منصب ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن زیارت جامعہ وہ تنہا زیارت ہےجس میں امامت اور ولایت کےتمام مسائل تفصیل سےبیان ہوئے ہیں ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں: ان پانچ اسباب کی بنیاد پر میں نےچاہا کہ زیارت جامعہ پر ایک مختصر شرح لکھوں ۔
حکایت سیدرشتی
جن بزرگوں نےزیارت جامعہ کو نقل کیا ہےان میں سےایک مرحوم شیخ عباس قمی ہیں۔ وہ اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ کےباب میں سیدرشتی کی حکایت کو ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں:مرحوم سیدرشتی اپنےقافلے سےبچھڑ گیا اوربہت پیچھے رہ گیا تو ان کو امام زمانہ(ع)کی زیارت کاشرف نصیب ہوا، امام زمانہ(ع)نےان کوتین چیزوں کی سفارش کی۔
امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں: تم لوگ نافلہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ نافلہ، نافلہ، نافلہ ۔تم لوگ زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے؟ عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ تم لوگ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے؟ جامعہ، جامعہ، جامعہ
اس حکایت میں ایک اہم نکتہ یہ ہےکہ : بھلا گم ہونےکا زیارت جامعہ سےکیا واسطہ؟ واسطہ یہ ہےکہ: اگر ظاہری چیز گم ہو جائےامام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اگرمعنوی چیز گم ہو جائے!معنوی مسئلےمیں حیران اور پریشان ہوں، اگرتمہیں پتا نہ چلے کہ اللہ تعالی سےکیسےرابطہ رکھیں تو بھی امام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اب ہرچیز کیلئے امام زمانہ(ع)کو پکاریں لیکن امام زمانہ(ع) کی معرفت حاصل کرنےکیلئےکیا کریں؟امام زمانہ کی معرفت کیلئےزیارت جامعہ پڑھیں۔جس کی معرفت میں اضافہ ہوگاوہی امام کویا اباصالح المہدی کہہ کر بلائےگااورامام بھی اس کی فریادکوآئےگااوراس مسئلہ حل کرےگا ۔
ہمارےایک استادعقائدپر درس دےرہےتھے۔ میں بھی پہلےتوحید، امامت اورولایت کےبارےمیں وسوسےکاشکارتھا۔ میں آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمت میں گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نےارشاد فرمایا: تمہیں چاہیے لگاتار زیارت جامعہ کی تلاوت کرو۔ میں نےاس بات پرعمل کیا نہ صرف وسوسےدور ہوگئے بلکہ مجھےکچھ معنوی مقامات بھی نصیب ہوئے ۔
یہ تمام چیزیں مقدمہ تھیں تاکہ ہم اصل بحث میں داخل ہوسکیں ۔
اللہ تعالی سےدعا ہےکہ ہمیں توفیق نصیب ہو کہ ہمارا روزبروز دعائوں اورزیارتوں سےتعلق گہراہوتا جائے۔انشاء اللہ
دوسری مجلس
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْکَرَفِيهَا اسْمُهُ )
سورہ نور، آیت 36 ۔
یہ چراغ ان گھروں میں ہےجن کےبارے میں خدا کاحکم ہےکہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں اس کےنام کا ذکر کیا جائے۔
امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
کَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِکُمْ
میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں؟!
زیارت جامعہ کی نظر میں امامت کےمسائل،
اس بحث میں داخل ہونےسےپہلےہم کچھ نکات بیان کرنا چاہتے ہیں۔
پہلا نکتہ : فضائل کامجموعہ
زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع)کےفضائل کا مجموعہ ہے۔جس میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی سیکڑوں حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔ اگرکوئی ائمہ معصومین(ع)کےفضائل جانناچاہتاہے، اسےسالوں لگ جائیں گےہزاروں کتاب ڈھونڈنےپڑیں گے۔ لیکن امام علی نقی(ع)نےان تمام فضائل کو جمع کردیاہے۔
اب کہا جاسکتا ہے: زیارت جامعہ حقیقت میں ائمہ معصومین(ع) کےفضائل کی وہ کتاب ہےجو لاکھوں صفحات پرمشتمل ہے۔ تمام شیعہ اور سنی کتابوں میں موجود آئمہ معصومین(ع) کےفضائل ایک طرف اور زیارت جامعہ دوسری طرف، ان تمام کی برابری کرتی ہےبلکہ ان تمام پر برتری رکھتی ہے۔
دوسرا نکتہ: تکبیرکا فلسفہ
مرحوم محمدتقی مجلسی، مرحوم محمد باقرمجلسی، مرحوم شیخ عباس قمی اور بہت سارے بزرگوں نےفرمایا ہے: زیارت جامعہ پڑھنےکا طریقہ یہ ہےکہ: حرم میں داخل ہو جائیں اور زیارت جامعہ پڑھنےسےپہلے تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریح کی طرف چند قدم آگے بڑھیں، پھر تیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں۔ پھر ضریع کی طرف چند قدم آگے بڑہیں پھر چالیس مرتبہ، اللہ اکبر کہیں اور ضریح کےبلکل نزدیک ہو جائیں۔ جب 100 سو تکبیریں پوری ہو جائیں تو زیارت جامعہ کی تلاوت شروع کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ: ان تکبیرات کا فلسفہ کیا ہے؟ ان تکبیروں کا فلسفہ یہ ہےکہ: جب انسان زیارت جامعہ کی تلاوت کرے تو ممکن ہےاس کو غلو کی بو آئے اور وہ سوچنےلگے کہ یہ تو خدائی صفات ہیں۔ کیونکہ بعض ضعیف عقیدہ افرادکو زیارت جامعہ غلو لگتی ہے۔ اس لئے پہلے سو بار، اللہ اکبر کہہ کر اعلان کریں کہ اللہ تعالی اس سےبھی بلندہے۔
مجھ حقیرکی نظرمیں، ان تکبیروں کاایک اورفلسفہ بھی ہوسکتا ہے۔وہ یہ کہ: زیارت جامعہ کی تعلیم امام علی نقی(ع)نےدی ہے۔اگر اس میں غلو ہوتا تو امام تعلیم نہ فرماتے۔بلکہ ائمہ معصومین(ع)کا مقام اس سےبھی بلند ہے۔امام علی نقی(ع) کا منظورہمیں سمجھانا تھا، اس لئے زیارت جامعہ میں اسان انداز اپنایا۔ اگر ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو ائمہ معصومین(ع) کی معرفت اس سےکہیں زیادہ بلند ہے۔ امام علی نقی(ع) اس سےبہتر انداز میں بیا ن کرتے۔
زیارت جامعہ میں تدبر
ہم جب کسی امام (ع) کی خدمت میں زیارت جامعہ کی تلاوت کرتےہیں تو اس نا آشنا کی طرح ہوتے ہیں جو کسی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ اس لئے ہم سےکہا جاتا ہےہمیں مخاطب کر کےکلام کرو۔اس لئے ہم کہتے ہیں:
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ
سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!
یہ تمام سلام، اہلبیت(ع) کو مخاطب کر کےہیں۔ کیونکہ ہم پہلے مہمان کی طرح ہیں۔ اس لئے اہلبیت (ع)نہیں چاہتے کہ کو ئی مہمان نا امید ہو۔ اس لئے ہمیں مخاطبانہ کلام کی اجازت دیتے ہیں! پھر جب انسان متوجہ ہوتا ہےکہ وہ کس سےکلام کر رہا ہے؟ تو ارشاد ہوتا ہے: اب دوبارہ پلٹ جاؤ اور غائبانہ طور پر ہم سےکلام کرو اور کہو:
السَّلامُ عَلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ
سلام ہو ہدایت کےائمہ پر اور تاریکیوں کےچراغ پر!
اس حصے میں زائر، ائمہ معصومین(ع)سےغائبانہ کلام کرتا ہےتو اہلبیت(ع) فرماتے ہیں: ہم سےغائبانہ کلام کرچکےاور ہمیں کسی حد تک پہچان لیا۔ اس لئے ہم سےدوبارہ مخاطبانہ کلام کرو۔ زائر کہتا ہے:
أَشْهَدُأَنَّکُمُ الْأَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِيُّونَ
اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ سب ائمہ ہادی اور مہدی ہیں۔
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ:آپ ائمہ معصومین، آپ اہلبیت (ع) ہدایت کرنےوالے ہیں!
غائبانہ کلام سےمخاطبانہ کلام کی طرف آنےکو بلاغت میں التفات کہتے ہیں۔ زیارت جامعہ میں یہ انداز کس لئے ہے؟ اس انداز کا مطلب یہ سمجھانا ہےکہ حقیقیت میں اہلبیت(ع) اس سےبھی بہت زیادہ بلند ہیں۔ یہ زیارت جامعہ میں بیان شدہ صفتیں تو کچھ بھی نہیں۔ اہلبیت (ع) ان صفتوں کےعلاوہ بھی ہزاروں عظیم صفتوں کےمالک ہیں ۔ آپ لوگ صرف یہ نہ سمجھیں کہ: اللہ تعالی نےاہلبیت(ع) کو پیدا کیا اور فقط یہ فضائل اور کمالات ان کےنام کردئے۔ نہیں! اہلبیت(ع) کی ایک اور صفت بھی ہے۔ جو زیارت جامعہ میں بیان نہیں ہوئی۔ وہ یہ ہےکہ: اہلبیت (ع) کا وہ بلند مقام ہےکہ: جس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہماری عقلیں اتنی سمجھ نہیں رکھتیں۔ اس لئے اس نورانی مقام کو بیان نہیں کیا گیا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں: اہلبیت(ع) کےمقام کو ایک لطیف نکتے کےذریعے سمجھنےکی کوشش کی جاسکتی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہےکہ: اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )
سورہ ذاریات، آیت 56۔
اورمیں نےجنات اورانسانوں کوصرف اپنی عبادت کےلئے پیداکیاہے۔
عبادت کی بہت فضیلت ہے۔ لیکن معرفت کا درجہ اس سےبھی بلند ہے۔ تو اللہ تعالی نےیہ کیوں نہیں فرمایا کہ: انسانوں اور جنوں کو معرفت کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ وہ بزرگ فرماتے ہیں: عبادت بندے کا کام ہےاور معرفت اللہ تعالی کا کام ہے۔ معرفت بندے کےبس کی بات نہیں کہ اللہ تعالی مقصد خلقت، معرفت کو قرار دے۔ معرفت ایسی بلند چیز ہےجس کو انسان خود حاصل نہیں کر سکتا بلکہ معرفت دینا اللہ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ارشاد ہوتا ہے:
أَنَّ الْمَعْرِفَةَ مِنْ صُنْعِ اللَّه
کافی، ج 2 ، ص 212 ۔
معرفت دینا اللہ تعالی کاکام ہے۔ اس لئے اللہ تعالی انسانوں اور جنوں کی خلقت کیلئے عبادت کو مقصد قرار دیتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ دینا اللھ تعالی کا کام ہے۔ اس لئے ہم پڑھتے ہیں:
اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَکَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَکَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَکَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِ
(حوالہ:مفاتیح الجنان، غیبت کےدورمیں امام زمانہ (ع)کی دعاکاایک حصہ) ۔
پروردگارامجھےاپنی معرفت عطا فرما۔اگرتومجھےاپنی معرفت عطانہ کرےگاتومیں تیرےرسول کی معرفت حاصل نہ کرپاوںگا۔
پروردگارا مجھے اپنےرسول کی معرفت عطافرما؛ کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنےرسول کی معرفت عطا نہ کی تو میں تیری حجت کی معرفت حاصل نہ کر پاؤں گا۔ پروردگارا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو نےمجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کی تو میں اپنےدین سےگمراہ ہوجاؤں گا۔
تیسرا نکتہ: بے انتہا فضائل
ائمہ معصومین (ع)کی زندگی، ائمہ معصومین(ع)کی خصوصیتیں، ائمہ معصومین(ع)کےاخلاق حسنہ کابیان ایک زاویہ یادس زاویوں یاسوزاویوں میں محدودنہیں ہو سکتا۔ہماری تعبیرکےمطابق ائمہ معصومین(ع) اللہ تعالی کی نسبت متناہی اورمحدود ہیں۔لیکن ہم انسانوں کی نسبت نا متناہی اورغیر محدود ہیں۔ اب جب ائمہ معصومین(ع) غیر متناہی صفتوں کےمالک ہیں تو کیسےممکن ہےہم ائمہ معصومین(ع) کےبارے میں مکمل گفتگو کر سکیں !
زیارت جامعہ میں بھی دو مقامات پر اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
پہلا مقام: اس عبارت میں
مَوَالِيَّ لا أُحْصِي ثَنَاءَکُمْ وَ لا أَبْلُغُ مِنَ الْمَدْحِ کُنْهَکُمْ وَ مِنَ الْوَصْفِ قَدْرَکُمْ
دوسرا مقام:
کَيْفَ أَصِفُ حُسْنَ ثَنَائِکُمْ
میں کیونکر آپ کی بہترین تعریف کر سکتا ہوں۔
یہ سچی بات ہےکہ ہم زیارت جامعہ کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں لیکن ائمہ معصومین (ع) کی ذات کو اور خصوصیات کو کو ئی شمار نہیں کر سکتا ۔ رسول اکرم(ص) امام علی(ع) کےبارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ لِأَخِي علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَضَائِلَ لَا تُحْصَى کَثْرَةً ؛
بحار، ج 26 ، ص 2229 ۔
اللہ تعالی نےمیرے بھائی علی کیلئے اتنی فضیلتیں رکھی ہیں کہ جن کی تعداد کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔
بحارالانوار، ج 26 ، و 229 ۔
ممکن ہےیہاں کوئی اعتراض کرے کہ : حضرت علی (ع) کی فضیلتیں ایک فرد شمار نہ کر سکتا ہو یہ ممکن ہےلیکن کیسےممکن ہےتمام مخلوقات مل کر بھی حضرت علی (ع) کی فضیلتیں شمار نہ کر سکیں؟
رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ کُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛
بحار، ج 38 ، ص 197 ۔
اگرتمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا سیاہی بن جائیں اورتمام جن شمارکرنےبیٹھیں اورتمام انسان لکھنےبیٹھیں تو بھی امام علی (ع) کےفضائل نہیں لکھ سکتے۔
بحار، ج 38 ، ص 197 ۔
امام صادق (ع) ایک روایت میں فرماتے ہیں :
لَا يَقْدِرُ الْخَلَائِقُ عَلَى کُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل؛
تمام مخلوقات جس طرح اللہ تعالی کاحق ہےاللہ تعالی کی ایسی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں۔
بحار، ج 64 ، ص 65 ۔
جیسا کہ یہ قرآنی آیت بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے:
( وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِه؛ )
سورہ انعام، آیت 21 ۔
اس کےبعد امام (ع) نےارشاد فرمایا :
فَکَمَا لَا يَقْدِرُ عَلَى کُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَکَذَلِکَ لَا يَقْدِرُ عَلَى کُنْهِ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ؛
جس طرح تمام مخلوقات اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہیں کرسکتیں اسی طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی صفتوں کو شمار نہیں کر سکتیں اور رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔
اس کےبعد امام (ع) نےفرمایا : جس طرح تمام مخلوقات رسول اکرم(ص) کی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں اسی طرح ائمہ معصومیں (ع) کی بھی معرفت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح ایک حقیقی مومن کی معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے:
( وَ ما أُوتيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَليلا )
سورہ اسرا، آیت 85 ۔
یعنی اللہ تعالی کےبارے میں، امامت اور ائمہ معصومین (ع) کی فضیلتوں کےبارے میں تمہارا علم بہت کم ہے۔
چوتھا نکتہ: ائمہ معصومین (ع)کی توصیف سےانسان کی عاجزی
اگر ہم ائمہ معصومین (ع) کی چند صفتیں جانتے بھی ہیں تو بھی اس طرح نہیں جانتے جیسےجاننےکا حق ہےیعنی ائمہ معصومین (ع)کی بےشمارصفتیں ہیں اورہرصفت کےبےشمارپہلو ہیں۔
امام رضا (ع) اپنےعظیم الشان خطبہ میں ۔ جو انہوں نےامامت کےبارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :
ضَلَّتِ الْعُقُولُ وَ تَاهَتِ الْحُلُومُ وَ حَارَتِ الْأَلْبَابُ وَ حَسَرَتِ الْعُيُونُ وَ تَصَاغَرَتِ الْعُظَمَاءُ وَ تَحَيَّرَتِ الْحُکَمَاءُ وَ تَقَاصَرَتِ الْحُلَمَاءُ وَ حَصِرَتِ الْخُطَبَاءُ وَ جَهِلَتِ الْأَلِبَّاءُ وَ کَلَّتِ الشُّعَرَاءُ وَ عَجَزَتِ الْأُدَبَاءُ وَ عَيِيَتِ الْبُلَغَاءُ عَنْ وَصْفِ شَأْنٍ مِنْ شَأْنِهِ أَوْ فَضِيلَةٍ مِنْ فَضَائِلِه؛
کافی، ج 1 ، ص 201 ۔
لوگوں کی عقلیں گمراہ ہو گئیں ہیں، فہم اور ادراک سرگشتہ اور پریشان ہیں، عقہل حیران ہیں، آنکھیں ادراک سےقاصر ہیں، عظیم المرتبت لوگ اس امر میں حقیر ثابت ہوئے، حکماء حیران ہو گئے، ذی عقل چکرا گئے، خطیب لوگ عاجز ہو گئے، عقول پر جہالت کا پردہ پڑ گیا، شعرا تھک کر رہ گئے، اہل ادب عاجز ہوگئے، صاحبان بلاغت عاجز آگئے، امام کی کسی ایک شان کو بیان نہ کر سکےاور اس کی ایک فضیلت کی تعریف نہ کر سکے۔
یعنی اگر کائنات کی تمام عقلین اتحاد کریں، تمام علماء اور دانشمند مل بیٹھیں، تمام تاریخ دان اور لکھنےوالے جمع ہوں اور ائمہ معصومین (ع) کی کسی ایک صفت کو کماحقہ بیان کرنےکی کوشش کریں تو اس ایک صفت کو بھی کما حقہ بیان نہیں کر سکتے۔
کافی، ج 1 ، ص 201 ۔
مثال کےطور پر زیارت جامعہ میں ائمہ معصومین (ع) کی ایک صفت خزان العلم بیان ہوئی ہے۔ کیاہم اپنی عقل، فکر اور دانش کی بنیاد پر ائمہ معصومین (ع) کےعلم کو جان سکتے ہیں؟ کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) کےعلم کی حد کیا ہے؟
اگر کوئی تاجر اپنا پورا کاروبار کسی کےحوالے کرنا چاہےتو ضروری ہےکہ سامنےوالابھی اس کاروبار سےواقف ہوتاکہ اس کاروبار کو مناسب طریقے سےچلا سکے۔ یا اگر کسی کےحوالے پورا ملک کرنا ہو تو ضروری کہ وہ جانتا ہو کہ اس ملک میں کیا ہےاوراس ملک کو کیسےچلایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی نےاپنےعلم کا خزانچی اہلبیت کو قرار دیا ہےلیکن اللہ تعالی کا علم، قدرت اور صفتیں غیر محدود ہیں :
لَيْسَ لِصِفَتِهِ حَدٌّ مَحْدُودٌ وَ لَا نَعْتٌ مَوْجُود
نہج البلاغہ، خطبہ اول۔
اس کی ذات کیلئے نہ کوئی معین حد ہےاور نہ توصیفی کلمات۔
اس بنا پر کوئی کیسےجان سکتا ہےکہ ائمہ معصومین (ع) کا علم کتنا ہے؟ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) اللہ تعالی کےعلم کےخزانچی ہیں اس بنا پر ائمہ معصومین (ع) کا علم بھی غیر محدود ہوا۔
ابن عباس فرماتے ہیں : میں ایک رات امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا امیرالمومنین (ع) سورج کےغروب ہونےسےسورج کےطلوع ہونےتک الحمد للہ کی الف کےبارے میں بتاتے رہےلیکن میں زیادہ مطالب کو فراموش کر چکا ہوں اور مجھے یاد نہیں رہےاور آخر میں ارشاد فرمایا : اے ابن عباس! اگر میں چاہوں تو سورہ حمد کی تفسیر میں اتنا بیان کروں کہ ستر اونٹ بھی اس وزن کو نہ اٹھا سکیں۔
بحار، ج 40 ، ص 157 ۔
اللہ تعالی سےدعاءہےکہ اہلبیت علیہم السلام کےمتعلق ہماری معرفت میں روزبروزاضافہ فرمائےانشاءاللہ۔
تیسری مجلس
اہلبیت نبوت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )
سورہ حشر، آیت 7 ۔
اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔
امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ
سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!
ہماراموضوع زیارت جامعہ کی نظرمیں ائمہ معصومین (ع)کامقام ہےہم اپنی بحث کی ابتدا میں مقام امامت اورائمہ معصومین(ع)کا مقام نبوت اورانبیاءسےمقایسہ کریں گے ۔
زیارت جامعہ کا سب سےپہلا جملہ یہ ہے:
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ
یہاں اہلبیت نبوت کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا :
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النبی
اس جملےسےسمجھ میں آتاہےکہ رسول اکرم(ص)کےدوگھرہیں: ایک ظاہری اورمادی گھردوسراباطنی، روحانی اورمعنوی گھر،ظاہری اورنسبی لحاظ سےتو بحث کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں حضرت زہرا(ع)اورائمہ معصومین(ع)، رسول اکرم(ص) کےنسبی فرزند ہیں۔
رسول اکرم(ص) کےدوسرے گھر سےمراد مقام نبوت اور مقام خاتمیت ہےکہ جس گھر کا سامان اللہ تعالی کےنام اور صفتیں ہیں یعنی نبوت کا گھر اللہ تعالی کی قدرت مطلقہ، حیات مطلقہ اور اللہ تعالی کی ملکوتی اور جبروتی صفتوں سےبنایا گیا ہے۔ ایک بزرگ نےاس بارے میں بہترین تعبیر استعمال کی ہےوہ فرماتے ہیں : نبوت کےگھر کےدو، دروازے ہیں ایک دروازہ عالم وحدت، عالم توحید اور اللہ تعالی کی طرف کھلتا ہےاور دوسرا دروازہ عالم کثرت اور عالم خلق کی طرف کھلا ہو ا ہے۔ رسول اکرم(ص) عالم توحید سےعلم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات لیتے ہیں اور دوسرے دروازے سےرسول اکرم(ص) وہ علم، رحمت، حیات، اور تمام کمالات، پوری مخلوق کےحوالے کرتے ہیں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں کو بھی فیض آپ کےدروازے سےملتا ہے۔
شرح زیارت جامعہ فخر المحققین، شیخ الاسلام شیرازی، ج 1 ، ص 26 ۔
مثال کےطورپرہمارےپاس بجلی کا ایک آلہ ہےجسےہم فیوزکہتے ہیں اسکاکام یہ ہےکہ وہ آگےسےبجلی لیتاہےاورگھرکےتمام بجلی والےسامان کوجیسےلائٹیں وغیرہ سب کو ان کےحساب اورظرفیت جتنی بجلی دیتا ہے۔ اسی طرح رسول اکرم(ص) بھی اللہ تعالی سےبرکتوں اور رحمتوں کو لیتےہیں اورہرانسان اورہرموجود کواس کی ظرفیت کےلحاظ سےدیتے ہیں۔
قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہےجو گذشتہ مثال سےبھی بہت بہتر ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )
سورہ آل عمران، آیہ 103 ۔
اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سےپکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو ۔
یعنی قرآن نےحضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کو ایک رسی سےتشبیہ دی ہے۔
تفسیر صافی، ج 1 ، ص 365 ۔
اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ قرآن نےحضرت علی(ع)اورائمہ معصومین(ع)کورسی سےتشبیہ کیوں دی ہے؟ہم اس سوال کےچند جواب دیتے ہیں :
پہلا:
کیونکہ رسی اوپر سےنیچے کی طرف لٹکتی ہے۔ اللہ تعالی بھی یہی سمجھانا چاہتا ہےکہ جیسےہم نےقرآن کو اوپر سےتمہاری طرف نازل کیا ہےاسی طرح اہلبیت(ع) کوبھی عالم بالا اور عالم معنی سےتمہاری ہدایت کیلئے تمہاری طرف بھیجا ہے۔
دسرا:
رسی کےدو، سرے ہوتے ہیں ایک سرا نیچے کی طرف اور دوسرا، سرا، اوپر کی طرف ہوتا ہےائمہ معصومین(ع) بھی اسی طرح دو شخصیتوں کےمالک ہیں : ایک شخصیت بشری اور دوسری شخصیت نور الاہی والی ہے۔ ائمہ معصومین(ع) رسی کےاوپر والے حصے کےذریعے، اپنی نور والی شخصیت کےذریعے اللہ تعالی سےمتصل ہیں اور عالم وحدت اور عالم توحیدسےرازونیاز کرتے ہیں۔ اور رسی کےدوسرے حصے کےذریعے، یعنی اپنی بشری شخصیت کےذریعے اس دنیا میں آئے ہیں تاکہ ہم دنیا تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا سکیں اورہمیں دنیاکےکنویں، پستی اور تہ سےاللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچائیں۔
ائمہ معصومین(ع) میں رسول اکرم(ص)کی خوبیاں
اس بناپرکہ ائمہ معصومین(ع)، اہل بیت نبوت ہیں تووہ نہ صرف نبی کےگھروالےہیں بلکہ نبوت کےگھروالےبھی ہیں۔وہ تمام صفات جورسول اکرم(ص) کےباطنی اورمعنوی گھرمیں ہیں وہ اہل بیت بھی میں پائی جا تی ہیں۔اس مطلب کی تائیدکیلئےہم چندروایتوں کی طرف اشارہ کرتےہیں :
پہلی روایت:
امام صادق(ع) فرماتے ہیں :
مَاجَاءَ بِهِ علی ع آخُذُ بِهِ وَمَا نَهَى عَنْهُ أَنْتَهِي عَنْهُ جَرَى لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مَاجَرَى لِمُحَمَّدٍ ص وَ لِمُحَمَّدٍ ص الْفَضْلُ عَلَى جَمِيعِ مَنْ خَلَقَ اللَّهُ؛
جس کا حضرت علی(ع) حکم دیتے ہیں ہم انجام دیتے ہیں اور جس سےحضرت علی(ع) روکتے ہیں ہم رک جاتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ جتنےفضائل اور کمالات کےمالک رسول اکرم(ص) ہیں اتنےفضائل اور کمالات حضرت علی(ع) میں بھی پائے جاتے ہیں۔
اس بنا پر جب قرآن فرماتا ہے:
( وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا )
سورہ حشر، آیت7۔
اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسےلے لو اور جس چیز سےمنع کردے اس سےرک جاؤ۔
یعنی جو رسول اکرم(ص) دے دے اسےلے لو اور جس سےمنع کرے اس سےرک جاؤ یہ روایت اس کےساتھ لگائیں تو اس طرح ہو جائے گا :
وَمَا آتَاکُمُ علی فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
سورہ حشر، آیت 7 ۔
اورجوکچھ بھی حضرت علی(ع)تمہیں دیدے اسےلےلواورجس چیزسےمنع کردےاسسےرک جاؤ۔ کیونکہ رسول اکرم(ص)اورحضرت علی(ع)دونوں کےفضائل اورکمالات برابرہیں۔رسول اکرم(ص)تمام مخلوق سےافضل ہیں حضرت علی(ع)،رسول اکرم(ص)کےبرابر ہیں اس سےیہ نتیجہ نکلتا ہےکہ حضرت علی(ع) بھی رسول اکرم(ص) کی طرح تمام مخلوق سےافضل ہیں۔ روایت اس سےآگے بڑھتی ہےاور ارشاد ہوتا ہےکہ :
و کذلک یجری لائمة الهدی واحد بعد واحد؛
یہ رسول اکرم(ص)کی برابری والاحکم اورتمام مخلوق سےافضلیت والاحکم ایک کےبعددوسرےتمام ائمہ معصومین(ع)میں پایاجاتاہے۔
ہم یہاں پر ایک دلچسپ نکتہ بیان کرنےکیلئے ایک سوال پیش کرتےہیں : اللہ تعالی نےاپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مباہلہ والی آیت
سورہ آل عمران، آیت 61 ۔
میں جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرمایاہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ۔ یا جب
( الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ )
سورہ مائدہ، آیت 55 ۔
وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نےمسجد میں نماز کےاندر حالت رکوع میں حضرت علی(ع) کی سخاوت کا تذکرہ کیاہےتو جمع کا صیغہ کیوں ارشاد فرماتا ہے؟ حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کہ جب ان تمام آیتوں میں حضرت علی(ع) اکیلے مراد ہیں تو قرآن نےجمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ہے؟
زمحشری جو کہ اہلسنت کےعلماء میں سےہیں فرماتے ہیں : یہ آیت درس دینےکیلئے ہےتربیت کرنےکیلئے ہےکہ آپ لوگ بھی اس کام کوانجام دیں۔ لیکن یہ بات غلط ہےکیونکہ دوسرےافراد لاکھوں انگوٹھیاں بھی دیں تو بھی کوئی آیت نازل نہ ہوگی۔ یہ واقعہ مخصو ص ہےشان امامت کےساتھ کہ اللہ تعالی ان کےہر کام کیلئے آیت نازل کرتاہے۔
یا جہاں قرآن نےحضرت علی(ع) کےرسول اکرم(ص) کےبستر پر سونےکا اور اپنی جان کو رسول اکرم(ص) کی جان پر فدا کرنےکا تذکرہ کیا ہےتو جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیاہے؟
سورہ بقرہ، آیت 207 ۔
حالانکہ اس سےمراد صرف حضرت علی(ع) ہیں جو اکیلے ہیں ؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہےکہ : ان آیتوں کےمصداق تمام ائمہ معصومین(ع) ہیں کیونکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کی حققیت ایک ہےاللہ تعالی نےچاہا کہ تمام ائمہ معصومین(ع) کو ایک ساتھ بیان کرے ۔ اس لئے اللہ تعالی نےقرآن میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
اب دوسرا سوال یہ وجود میں آتا ہےکیسےممکن ہےحضرت علی(ع) کےکام کو اللہ تعالی تمام ائمہ معصومین(ع) کی طرف نسبت دے؟ تو اس بات کا جواب خود قرآن مجید میں موجود ہےجہاں اللہ تعالی نےحضرت علی(ع) کو رسول اکرم(ص) کا نفس قرار دیا ہےاور حضرت علی(ع) کےفعل کو رسول اکرم(ص) کا فعل قرار دیاہے۔ اب جب ان کا نفس ایک ہےتو اس بات سےان کا اتحاد ثابت ہوگا اور ان کا فعل بھی ایک ہوگا اب یہ صرف حضرت علی(ع) کا فعل شمار نہ ہوگا بلکہ تمام ائمہ معصومین(ع) کا فعل ہوگا مثلا اگر حضرت علی (ع) نےانگو ٹھی دی تو ہم کہہ سکتے ہیں امام صادق(ع) نےنماز کی حالت رکوع میں انگوٹھی دی۔
ہم اس بات کی تائید کیلئے ایک مطلب کو بیان کرتے ہیں جو امام صادق(ع)نےارشاد فرمایا،جس کومفضل نےنقل کیا ہےجو بہت تفصیلی روایت ہےتقریبا تیس صفحوں کی روایت ہے۔ اس میں امام(ع) ارشاد فرماتے ہیں : جب امام زمانہ(ع) ظہور فرمائیں گے پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےباہر نکالیں گے اور ان کو تازیانےماریں گے۔
نوائب الدھور، ج 3 ، ص 132 ۔
دوسری طرف امام محمد تقی(ع) جب تین یاچار سال کےتھے تو انہوں نےارشاد فرمایا :اللہ تعالی کی قسم میں پہلے اور دوسرے کو ان کی قبروں سےنکال کر جلاو ٔں گا اور ان کی مٹی کو ہوا میں اڑاؤں گا۔
بیت الاحزان، ص 124 ۔
اب ان دو روایتوں کو کیسےجمع کیا جائے؟ اب اس کام کو کون انجام دے گا امام زمانہ(ع) یا امام محمد تقی(ع) ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہےکہ : ان دونوں میں کوئی فرق نہیں امام زمانہ(ع) انجام دیں یا امام محمد تقی(ع) بات ایک ہی ہےکیونکہ ان کی حقیقت ایک ہےتوان کا فعل بھی ایک ہےاسلئے ایک کےکام کو دوسرے کا کام کہا جا سکتا ہے۔
دوسری روایت
امام علی(ع) فرماتے ہیں :
إِنِّي وَ إِيَّاهُ لَعَلَى سَبِيلٍ وَاحِدٍ إِلَّا أَنَّهُ هُوَ الْمَدْعُوُّ بِاسْمِه
بحار، ج 25 ، ص 354 ۔
میں اور رسول اکرم(ص) ایک راستے پر ہیں فرق صرف یہ ہےرسول اکرم(ص) کو ان کےنام سےپکا را جاتا ہے۔
یعنی ہم میں کوئی فرق نہیں فرق صرف یہ ہےمیرا نام علی (ع) ہےاور رسول اکرم(ص) کا نام محمد ہےمجھے نبی نہیں کہا جاتا اور ان کو نبی کہا جاتا ہےوہ نبی ہیں اور میں وصی ہوں۔ حضرت علی(ع) فرمانا چاہتے ہیں کہ : مجھے بنی نہیں پکار ا جاتا لیکن نفس نبوت اور حقیقت نبوت میرے اندرموجود ہے۔
لقمان اورنبوت
حضرت لقمان کا قصہ بھی ایسا ہےاللہ تعالی نےحضرت لقمان کی طرف فرشتے کو پیغام دے کر بھیجا لقمان سےپوچھو کیا میں تمہیں لوگوں کی ہدایت کیلئے نبی مقرر کروں ؟ لقمان نےفرشتے سےپوچھا : یہ حکم ہےیا میری مرضی پر ہے؟ اللہ تعالی کا جواب آیا : تیری مرضی پر ہے۔ تو لقمان نےعرض کیا : پروردگارا ! اگر میری مرضی پر ہےتو میں اس ذمیداری کو اٹھانا نہیں چاہتا۔
تفسیر صافی، ج 4 ، ص 141
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ :اگر لقمان نبوت کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کیا اللہ تعالی اس پر ابلاغ نہیں کرتا ؟ اس واقعے کی بنیاد پر حضرت لقمان نبی نہیں تھے۔ لیکن شان نبوت رکھتے تھے اور کئی نبیوں سےافضل تھے ۔ قرآن مجید میں بہت سارے نبیوں کےنام پر سورتیں ہیں جیسےآدم، ابراہیم، یوسف، نوح اور تمام نبیوں کےنام پہ ایک سورت، سورت انبیاء آئی ہےاور حضرت لقمان کےنام پہ ایک سورت نازل ہوئی ہےاس سےحضرت لقمان کی منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس بناپر ممکن ہےکوئی ظاہرا نبی اور رسول نہ ہو لیکن نبوت اور رسالت والا مرتبہ، صلاحیت اور شان رکھتا ہو جیسا کہ کہا جا تا ہےرسول اکرم(ص) کی امت کےعلماء بنی اسرائیل کےنبیوں سےافضل ہیں۔
المزار شیخ مفید، ص 6 ۔
اس بات پر تعجب نہ کریں کیونکہ اس دور میں نبوت نہیں ہےورنہ بہت سارے افراد نبوت والی شان رکھتے ہیں (لیکن کوئی بھی نہ رسول اکرم(ص) جتنی شان رکھتا ہےنہ ائمہ معصومین(ع) جتنی لیاقت )
تیسری روایت :
ایک دن ابوذر، سلمان کےپاس آئے اورعرض کیا : اے سلمان! امیرالمومنین(ع) کی معرفت کیسی ہے؟ سلمان بھی ہوشیار آدمی تھا ۔ اس نےجواب میں کہا : خود امیرالمومنین(ع) سےپوچھتے ہیں ؟ وہ دونوں امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں آئے اور سوال کیا مولا آپ کی معرفت کیسی ہے؟ حضرت علی(ع) نےجواب میں فرمایا :
مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّةِ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَعْرِفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَعْرِفَتِي بِالنُّورَانِيَّة
بحارالانوار، ج26، ص 2
جس نےہماری نورانی معرفت کو سمجھا اسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل ہوئی اور جسےاللہ تعالی کی معرفت ملی اسےہماری نورانی معرفت حاصل ہوگی۔
اب یہاں دو چیزیں نہیں بلکہ ایک چیز ہے۔ ہماری معرفت، اللہ تعالی کی معرفت ہےاور اللہ تعالی کی معرفت، ہماری معرفت ہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین نےفرمایا :
أَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ أَنَا وَ أَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّي؛
میں، محمد ہوں اور محمد، علی ہے۔ میں محمدمیں سےہوں اور محمد، مجھ سےہے۔ اس کےبعد امیرالمومنین(ع) نےفرمایا:
أَنَا الَّذِي حَمَلْتُ نُوحاً فِي السَّفِينَةِ بِأَمْرِ رَبِّي وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ يُونُسَ مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا الَّذِي أَخْرَجْتُ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ بِإِذْنِ رَبِّي َنَا أُحْيِي وَ أُمِيتُ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَأْکُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِکُمْ بِإِذْنِ رَبِّي وَ أَنَا عَالِمٌ بِضَمَائِرِ قُلُوبِکُم؛
نوح(ع)، کو غرق ہونےسےبچانےوالا میں ہوں ۔ یونس(ع)، کو مچھلی کےپیٹ سےنجات دینےوالے میں ہوں ۔ ابراہیم(ع)، کو فرعون کی آگ سےبچانےوالا ۔اللہ تعالی کےحکم سے۔ میں ہوں ۔ میں اللہ تعالی کےحکم سےزندہ کرتا ہوں، میں اللہ تعالی کےحکم سےمارتا ہوں، میں لوگوں کےگھروں اور دلوں کےحال بتاتا ہوں، میں تم لوگوں کےباطن سےآگاہ ہوں۔
امیرالمومنین(ع) کلام کرتے رہےیہاں تک کہ ارشاد فرمایا :
وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ أَوْلَادِي ع يَعْلَمُونَ وَ يَفْعَلُون؛
یہ خصوصیتیں تمام ائمہ معصومین(ع) کی ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ ہم ایک نور سےہیں اور لانا کلنا محمد؛ ہم سب کےسب محمد ہیں ۔
أَوَّلُنَامُحَمَّدٌوَآخِرُنَامُحَمَّدٌوَأَوْسَطُنَامُحَمَّدٌوَکُلُّنَامُحَمَّدٌفَلَاتَفَرَّقُوابَيْنَنَاوَنَحْنُ إِذَاشِئْنَاشَاءَاللَّهُ وَإِذَا کَرِهْنَا کَرِهَ اللَّه؛
ہم میں سےپہلا بھی محمد ہےاور آخری بھی محمد ہےاور بیچ والا بھی محمد ہے۔ ہم میں کوئی فرق نہیں اگر ہم چاہتے ہیں تو اللہ تعالی بھی چاہتا ہے۔ اگر ہم کسی چیز کو پسند نہیں کرتے تو اسےاللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتا ۔
ان تمام باتوں سےنتیجہ نکلا کہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔
چوتھی مجلس
رسول اکرم(ص)اورامیرالمومنین(ع)کی مشترک خصوصیتیں
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُون )
سورہ نحل، آیت 43 ۔
اگرتم نہیں جانتے ہو تو جاننےوالوں سےدریافت کرو۔
امام علی(ع) نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ
سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت!
ہماری گفتگو زیارت جامعہ کےمتعلق تھی جو یہاں تک پہنچی کہ : بہت ساری حدیثوں سےاور روایتوں سےپتا چلتا ہےکہ ائمہ معصومین(ع) تمام فضائل اور کمالات میں رسول اکرم(ص) کےبرابرہیں اور تمام ائمہ معصومین (ع) بھی تمام فضائل اور کمالات میں مشترک ہیں ۔ جو بھی رسول اکرم(ص) کا کمال ہےوہ حضرت علی(ع) کا کمال ہےاور تمام ائمہ معصومین(ع) کا کمال ہےاس بات کی زیادہ وضاحت کیلئے ہم یہاں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی چند مشترک خصوصیتیں بیان کرتے ہیں۔ ان مشترک خصوصیتوں کو اہلسنت کےدو بزرگ عالموں نےبیان کیا ہےایک کا نام سلمان بلخی ہےجنہوں نےاپنی کتاب ینابیع المودہ میں بیان کیا ہے۔ دوسرے بزرگ عالم کا نام میر سید علی ہمدانی ہےجنہوں نےاپنی کتاب مودہ القربی میں نقل کیا ہے۔
اخلاق حسنہ اورصفتوں میں برابری
رسول اکرم(ص)ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
اشبه خلقک خلقی و اشبه خلقی خلقک؛
اے علی ! تیرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار میری طرح ہےاور میرا، اخلاق، صفتیں اور رفتار تمہاری طرح ہے۔
قادتنا کیف نعرفھم، ج 1 ، ص 333 ۔
رسول اکرم(ص) اس حدیث میں صرف چند صفتوں کی بات نہیں کر رہےبلکہ رسول اکرم (ص) کا فرمان تمام اخلاق اور صفتوں کےبارے میں ہے۔ قرآن کا فرمان ہےکہ:
( وَ إِنَّکَ لَعَلى خُلُقٍ عَظيم )
سوره قلم، آیت4
رسول اکرم(ص) خلق عظیم کےمالک ہیں۔ حضرت علی (ع)کا اخلاق رسول اکرم(ص) کےاخلاق کی طرح ہےیعنی اے علی! انک لعلی خلق عظیم؛ حضرت علی (ع)بھی خلق عظیم کےمالک ہیں۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) نےصرف حضرت علی (ع)کو خود سےتشبیہ نہیں دی بلکہ خود کو بھی حضرت علی (ع)سےتشبیہ دی ہےتاکہ یہاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اصل اور فرع کی بات ہےنہیں! یہاں برابری ہےحضرت علی (ع)کو رسول اکرم(ص) جیسا کہیں یا، رسول اکرم(ص) کو حضرت علی (ع)جیسا کہیں کوئی فرق نہیں بات ایک ہی ہے۔
اللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلَاء والی دعا میں ہم پڑہتے ہیں یامحمد یاعلی، یاعلی یا محمد، علی کی جگہ محمد کا نام رکھتے ہیں اور محمد کی جگہ علی کا نام رکھتے ہیں ۔ ایک کی جگہ دوسرے کا نام رکھنا کس بات کی خبردیتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص) کا نام پہلے لو یا حضرت علی (ع)کا بات ایک ہےکیونکہ یہ دونوں تمام کمالات میں برابر ہیں۔
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَ لَوْلا فَضْلُ اللَّهِ علیکُمْ وَ رَحْمَتُه )
سورہ نور، آیت 21
اوراگرتم پر اللہ کافضل اوراس کی رحمت نہ ہوتی۔
اس آیت کی تفسیرمیں موجود روایتوں میں آیا ہےکہ: فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں اور رحمتہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں۔
البرھان، ج 1 ، ص 398 ۔
یا دوسری روایت کےمطابق فضل اللہ سےمراد حضرت علی (ع)ہیں اور رحمتہ سےمراد رسول اکرم(ص) ہیں۔
ان روایتوں کا مقصد یہ ہےکہ فضل اللہ سےمراد رسول اکرم(ص) لیں یا حضرت علی (ع)بات ایک ہےاسلئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :
يَا علی أَنْتَ مِنِّي وَ أَنَا مِنْک؛
مناقب ابن شھر آشوب، ج 2 ، ص 33 ۔
اے علی ! تو مجھ سےہےاور میں تم سےہوں۔
اوپر والی روایت (شباہت والی روایت ) سےیہ بات بھی سمجھ میں آتی ہےکہ ہم قیامت تک رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتوں کو شمار کرتے رہیں پھر بھی ختم نہ ہونگی۔اس لئے جس سنی عالم نےاس روایت کو ذکر کیا ہےوہ عالم فرماتے ہیں : رسول اکرم(ص) اور حضرت علی (ع)کی شباہتیں آسمان کےستاروں اور صحراء میں موجود ریت کےذروں سےبھی زیادہ ہیں۔
خلقت میں برابری
رسول اکرم(ص) نےعبداللھ بن مسعود سےارشاد فرمایا:
کُنْتُ أَنَا وَ علی نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَرْبَعَةَ عَشَرَ أَلْفَ عَام
بحار، ج 35 ، ص 24 ۔
میں اورعلی،خداکےسامنےایک ہی نورتھےخدا کےآدم کوپیداکرنےسےچودہ ھزارسال پہلے، پھرآدم کےصلب میں منتقل ہوئےپھراسی طرح ایک ہی نورکی صورت میں صلب ابراھیم میں قرارپائےیہاں تک کہ اس نورکےدو ٹکڑےہوےآدھ عبداللہ کےصلب میں اورآدھاابو طالب کےصلب میں منتقل ہوا۔خدانےفرمایا:میں اس نورکےدوحصےکرتاہوں پیغمب کونبوت اورامیرالمومنین (ع)کووصایت عطا کرتا ہوں۔
چودہ ہزارسال سےمرادشاید یہ ہوکہ خداوندنےحضرت آدم کوپیداکرنےسےپہلےچودہ معصومین کےنورکوپیداکیا۔
اخوت اوربرادری
ایک سنی عالم کا کہنا ہے:خداوندمتعال نےرسول اللہ کوحکم دیا کہ اپنےاورعلی کےدرمیان عقد اخوت پڑھے۔رسول اکرم(ص)نےجب ہجرت کےبعدمسلمانوں کےدرمیان عقد اخوت جاری کیا تو اس کام کو انجام دیا۔ اس برادری کا مطلب یہ تھا کہ کمالات، صفات اورمسئولیت کےاعتبار سےیہ دونوں معنوی برادر ایک جیسےہیں۔
اسی طرح رسول اللہ سےحدیث معراج میں منقول ہےکہ آپ نےفرمایا: جب میں معراج پر گیا تو کسی نےحجاب کےاس طرف سےندادی:
نِعْمَ الْأَبُ أَبُوکَ إِبْرَاهِيمُ وَنِعْمَ الْأَخُ أَخُوکَ علی فاستوص به
طرائف، ص 414 ۔
اچھے باپ حضرت ابراہیم ہیں اوراچھےبھائی علی ہیں اپنی امت کواسی کی وصیت کرنا اسےاپنا وصی بنانا۔
جن روایات کوشیعہ اورسنی دونوں نےنقل کیاہے،ان میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےجان کنی اوراحتضارکےوقت فرمایا:میرےبھائی کوکہوکہ میرےپاس آئےعائشہ اورحفصہ نےابوبکرکوبلانےکےلئےکہاجب وہ آئےتوپیغمبرنےفرمایا:میں نےکہاکہ میرےبھائی کوبلاوپھران دونوں نےعمرکو بلانےکیلئے کسی کوبھیجا۔ جب وہ آیا تو آنحضرت نےفرمایا: میں نےکہا کہ میرےبھائی کوبلاؤ۔ تیسری بارعثمان کوبلانےکیلئےکسی کوبھیجنا چاہاتو ام سلمہ نےچیخ کرکہا، کسی کوعلی کوبلانےکیلئےبھیجو کیاتمہیں پتانہیں کہ پیغمبرکابھائی علی ہے؟پھرمجبورامولاکوبلوانےکیلئےکسی کوبھیجا،جب امیرالمومنین تشریف لائے تو لوگوں کی طرف پیٹھ کر کےرسول اللہ سےباتیں کرنےلگےبعدجب حضرت سےپوچھا گیا کہ جب آپ لوگوں کی طرف پیٹھ کرکےبیٹھےتورسول اللہ نےآپ کوکیا فرمایا؟جواب دیا:رسول اللہ نےمجھےہزارباب کی تعلیم دی اور پھر ہر باب میں سےمیرے لئے دو ہزار باب کھولے
کافی، ج 1 ، ص 296 ؛ میزان الاعتدال، ج 2 ، ص 483 ۔
امام خمینی اس قضیہ کو بڑی اچھی تعبیرسےبیان کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے:علم کےوہ ہزارچشمے ان علوم میں سےنہیں ہیں جو ہم تک پھنچے ہیں مطلب یہ کہ علم فقہ، اصول، کلام وغیرہ نہیں ہیں بلکہ ان سےما فوق اور بڑہ کر ہیں ان کےپاس ایسےعلوم ہیں جن کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس قسم کےعلوم ہیں۔
صحیفہ نور، ج 19 ، ص 7 ۔
مدت عمرمیں برابری
رسول اکرم(ص)اورامام علی کی تیسری شباہت یہ ہےکہ ان دونوں کی مدت عمر 63 سال تھی۔ ان سب میں کوئی رازہے۔منقول ہےکہ حضرت کی خدمت میں فالودہ لے کر آئے تو حضرت نےتناول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا: میرے حبیب نےتناول نہیں کیا تو میں بھی نہیں کھاونگا۔
بحار، ج 40 ، ص 327 ۔
یعنی ان دو ہستیوں کا آپس میں اتنا گہرا رابطہ تھا یا یہ جو منقول ہےکہ حضرت علی (ع)کبھی بھی مکہ میں سوئے نہیں جب حضرت سےسوال کیا گیا کہ کیوں آپ مکےمیں سوئے نہیں، رات کو اتنی مشقت اٹھاتے ہیں کہ مکےسےباھر جا کر سوئیں؟ فرمایا: کیوں کہ میرے حبیب کو مکہ سےجلا وطن کیا گیا، میں نہیں چاہتا اس میں آرام کروں۔
علل الشرایع، ج 2 ، ص 311
بشرکی بنسبت اولی ہونا
وہ سنی عالم، احکام اور قوانین میں سب انسانوں کےبنسبت رسول اکرم(ص) اور علی کےاولی ہونےکیلئے اس آیت کو پیش کرتا ہے:
( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعُوهُ وَ هذَا النَّبِي؛ )
سوره آل عمران، آیت68
یقینا ابراہیم علیہ السّلام سےقریب تر ان کےپیرو ہیں۔
ابراہیم کےنزدیک وہی لوگ ہیں جو ایک تو حضرت ابراہیم کی اطاعت کریں اور دوسرا یے کہ اس رسول کو مانتے ہوں البتہ یہاں ابراہیم کی اطاعت سےرسول اللہ کی استثنا کی گئی ہے۔
پھر دوسری آیت لے آتا ہے:
( النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنينَ مِنْ أَنْفُسِهِم )
سوره احزاب، آیت 6 ۔
بیشک نبی تمام مومنین سےان کےنفس کےبہ نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔
جالب یہ ہےکہ یہ نہیں فرمایامِنْ فسِهِم بلکہ فرمایاہےمِنْ أَنْفُسِهِم کیونکہ مقصد یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)لوگوں کی جان کی بنسبت،شخص و شخصیت کی بنسبت اولویت رکھتے ہیں،اولویت کا سبب یہ ہےکہ رسول اکرم(ص)وہی خداوالاحکم رکھتے ہیں،یعنی جس طرح خداکائنات پرحاکم ہے،رسول اللہ بھی حاکم ہیں۔اگرکہا جائےکہ کیوں حضرت خضرن جرم سےپہلے قصاص لیا اوراس جوان کو قتل کردیا؟ جواب میں ہم کہیں گے کہ جو کام نبی خدا سےصادر ہو وہ وہی ہےجو خدا سےصادر ہو۔
( مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّه )
سورہ نسا ، آیت 8 ۔
جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نےاللہ کی اطاعت کی
( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنينَ إِذْ يُبايِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ؛ )
سورہ فتح، آیت18۔
یقیناخداصاحبانِ ایمان سےاس وقت راضی ہوگیاجب وہ درخت کےنیچےآپ کی بیعت کررہےتھے
بریدہ نقل کرتا ہے: میں حضرت علی (ع)کےزیر رکاب یمن میں جھاد کر رہا تھا میں نےعلی میں کچھ دیکھا جب میں نےوہ بات رسول اللہ کو بتائی اور علی پر اعتراض کیا میں نےدیکھا کہ رسول اللہ کا مبارک چہرا سرخ ہو گیا اور آپ نےفرمایا:
أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِم
اے بریدہ کیا میں مومنین کی بنسبت ان سےزیادہ حق نہیں رکھتا ؟ میں نےعرض کیا جی ہاں آپ نےفرمایا:
فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ؛
یعنی جس طرح میں تم پر حق رکھتا ہوں میرے بعدعلی بھی تم سب پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔
ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 106 ۔
پہلےمسلمان
قرآن مجید میں ایک آیت ہےجو پہلے مسلمان کو بیان کر رہی ہے:
( لا شَريکَ لَهُ وَ بِذلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمين )
سورہ انعام، آیت163۔
اس کا کوئی شریک نہیں ہےاور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہےاور میں سب سےپہلا مسلمان ہوں۔
یہ آیت رسول اللہ کےبارے میں ہےآپ ارشاد فرماتے ہیں : پہلا مسلمان اور خدا کےسامنےپہلا تسلیم ہونےوالا میں ہوں پھر وہ سنی عالم کہتا ہے:
أَنَّ علیاً أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ
ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 191
بتحقیق سب سےپہلےاسلام قبول کرنےوالےعلی ہیں اسی طرح رسول اکرم(ص)جو پہلے مسلمان ہیں، حضرت علی (ع)کیلئے فرمارہےہیں :
هَذَا أَفْضَلُکُمْ حِلْماً وَ أَعْلَمُکُمْ عِلْماً وَ أَقْدَمُکُمْ سِلْما علی حلم
بحار، ج 38 ، ص 88 ۔
میں تم سب سےافضل ہیں، علم میں تم سب سےبڑےعالم ہیں،اسلام میں تم سب پرسبقت کرنےوالےہیں۔ یعنی جس طرح پیغمبرپہلےمسلمان ہیں علی بھی پہلے مسلمان ہیں، خدا و رسول کےآگےتسلیم ہیں۔
پیغمبر و علی کےسائے تلے
وہ کہتاہے: ایک شخص رسول اکرم(ص)کی خدمت میں آیا، عرض کرنےلگا: یا رسول اللہ آپ انبیاءکےدرمیان کونسا منصب رکھتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:
آدَمُ وَ مَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛
ینابیع المودہ، ج 2 ، ص 263 ۔
آدم اور اس کےبعد آنےوالے (چاہےنبی ہوں یا امتی) قیامت کےدن میرے پرچم تلے ہونگے۔ حضرت علی (ع)کےبارے میں بھی رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں :
بِيَدِهِ لِوَاءُ الْحَمْد؛
ینابیع المودہ، ج 2 ، ص 270 ۔
حق کا پرچم علی کےہاتھ میں ہوگا۔ اس جملے کی یہ معنی نہیں ہےکہ مولا کےہاتھوں میں ایک علم ہوگا جس کےسائے میں سب ہونگے بلکہ آپ تو ایک تکوینی اورحقیقی مطلب کو بیان کرنا چاہتے ہیں مطلب یہ کہ لوائےحمد کی حقیقت خود مولا علی ہےکیونکہ مولا علی کا فرمان ہے: بسم اللہ کی "با" کےنیچے والا نقطہ میں ہی ہوں
ینابیع المودہ، ج 2 ، ص 213 ۔
اور بشرسےصادر ہونےوالا پہلا حرف "با "ہےجیسا کہ اس آیت میں ہے
( أَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ قالُوا بَلى )
سورہ اعراف، آیت 172۔
کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔
اس لئے خدا نےحرف با کا انتخاب کیا اور بسم اللہ میں اسےلے آئے۔
رسالات الاسلامیہ، ص 89 ۔
پس علی کا ہاتھ یداللھ ہےوہ بھی ایسا ہاتھ جو تمام حقائق و معارف رکھتا ہےجو کچھ خدا کےہاتھ میں ہےوہ سب امیرالمومنین (ع) کےہاتھ میں ہے۔
پیغمبر کو ستانا، علی کو ستانا ہے
ستانےکےبارے میں خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے:
( إِنَّ الَّذينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهينا )
سورہ احزاب، آیت57
یقیناجولوگ خدا اور اس کےرسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہےاور خدا نےان کےلئے رسواکن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔یہ ایک سنی عالم کہہ رہا ہے: رسول اللہ نےارشاد فرمایا:
مَنْ آذَى علیاً فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّه؛
ینابیع المودہ، ج 2 ، ص 101 ۔
جس نےبھی علی کو تکلیف دی اس نےمجھے تکلیف دی جس نےمجھے ستایا اس نےخدا کو ستایا ۔
علی سےجدا ہونا
وہی سنی عالم، حضرت علی (ع)سےجدا ہونےکےبارے میں کہہ رہاہے:
مَنْ فَارَقَ علیاً فَقَدْ فَارَقَنِي و مَنْ فَارَقَنِي فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ ؛
ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 173
علی سےمفارقت رسول اللہ سےمفارقت اورجدائی ہےکیونکہ رسول اللہ کاارشادہے:جوبھی علی سےجدا ہوا وہ مجھ سےجدا ہوا اورجومجھ سےجدا ہوا وہ خداسےجدا ہوا۔
ولایت علی
رسول اکرم(ص)اورمولا علی کی شباہتوں میں سےایک ولایت کامسئلہ ہےیعنی جس طرح رسول اکرم (ص) مومنین پرولایت رکھتےہیں اور ان کی ولایت قبول کئے بغیر کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی بالکل اسی اطرح مولا علی بھی ولایت رکھتے ہیں رسول اکرم(ص)نےفرمایا:
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعلی مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَه
ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 98
رسول اکرم(ص)کس کےمولا ہیں؟ تمام انبیا، فرشتوں کےبلکہ پوری کائنات کےمولا ہیں یعنی رسول اکرم(ص)فرما رہےہیں : خدایا میں جس کابھی مولا ہوں، درجہ اورمرتبہ کوکم زیادہ کئےبغیر علی بھی اس کےمولا ہیں۔
پانچویں مجلس
رسول اکرم(ص)اورعلی کےمشترکات( 2)
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَأَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبين )
سورہ آل عمران، آیة 61 ۔
ان سےکہہ دیجئےکہ آؤ ہم لوگ اپنےاپنےفرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنےاپنےنفسوں کو بلائیں اورپھرخدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّکَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى
بحار، ج14، ص476۔
گذشتہ بحث میں ہم نےکہا کہ جب ہم متفقہ احادیث۔جن کو اہل سنت نےبھی نقل کیاہےاورانکےمعتبرکتابوں میں بھی ہیں۔ کی طرف مراجعہ کرتےہیں تواس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ علی تمام صفات، خصوصیات اورکمالات میں خاتم النبیین حضرت محمدکےبرابر ہیں سوائےظاہری نبوت کے۔
یہاں ان دو عظیم ہستیوں کےاشتراکات کےمزید رخو ں کو بیان کرتے ہیں
قدرت بینائی اورشنوائی
حضرت علی (ع)خطبہ قاصمہ میں فرماتے ہیں:
وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ
نہج البلاغہ ، خطبہ 192
تمہیں معلوم ہےکہ رسول اکرم(ص)سےمجھے کس قدر قریبی قربت اورمخصوص منزلت حاصل ہے۔
وَضَعَنِي فِي حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلِيدٌ؛
انہوں نےبچپنےسےمجھے اپنی گود میں رکھا۔ یعنی جلوت اور خلوت میں، خواب اور بیداری میں مجھے اپنےساتھ رکھا یہاں تک کہ فرماتے ہیں علی کا گھوارہ میرےنزدیک رکھو، جب غار حرا میں جاتے تھے مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے، میرے کپڑے دھوتے تھے اور مجھے اپنےہاتھوں سےدودہ پلاتے تھے۔
کشف الغمہ، ج 1 ، ص 9 ۔
يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِهِ ؛
بچپنےسےمجھے اپنےسینےسےلگائے رہتے تھے، اپنےکلیجہ سےلگا کر رکھتے تھے ۔وَ يُشِمُّنِي عَرْفَهُ ؛مجھے مسلسل اپنی خوشبو سےسرفراز فرمایا کرتے تھے ۔
وَ کَانَ يَمْضَغُ الشَّيْءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيه؛
غذا کو اپنےدانتوں سےچباکرمجھے کھلاتے تھے، پھر فرمایا: میں کبھی بھی پیغمبرسےجدا نہیں ہوا جس طرح بچہ اپنی ماں سےجدانہیں ہوتا،ہمیشہ رسول اللہ کےساتھ ہوتا تھا، مجھےحکم دیتے تھےکہ میری پیروی کرو۔
اس طرح کی احادیث اور روایات میں وارد ہوا ہےکہ جب پہلی بار رسول اللہ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت علی (ع)بھی وہاں تھے اور جبرائیل کی آواز سن رہےتھے کیونکہ فرمایا:
أَرَى نُورَ الْوَحْيِ وَالرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ؛
بحار، ج 14 ، ص 476
میں نور وحی اور رسالت کا مشاہدہ کررہاتھا اورخوشبوئےرسالت سےدماغ کومعطرکررہا تھا۔ یعنی جب جبرائیل نازل ہوئےتھےمیں جبرائیل کےجملات سنتا تھا یا یہ جو فرمایا:
وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ؛
میں نےنزول وحی کےوقت شیطان کی چیخ سنی تھی اور عرض کی تھی یا رسول اللہ یہ چیخ کیسی ہے؟ حضرت نےفرمایا : یہ شیطان ہےجوآج اپنی عبادت سےمایوس ہوگیاہےپھرفرمایا:
إِنَّکَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَکِنَّکَ وَزِيرٌ وَ إِنَّکَ لَعَلَى خَيْر؛
نہج البلاغہ ، خطبہ 192 ۔
تم وہ سب دیکھ رہےہو جو میں دیکھ رہا ہوں وہ سب سن رہےہو جو میں سن رہا ہوں فرق صرف یہ ہےکہ تم نبی نہیں ہو لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔
یہ مسائل کس زمانےمیں واقع ہوئے؟ اس زمانےمیں جب مولا کی عمر دس سال سےزیادہ نہ تھی اور اس وقت ظاہری امامت تک بھی نہیں پہنچے تھے (اگرچہ باطن میں امام تھے) یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی لازمی ہےکہ ہمارا عقیدہ ہےکہ آئمہ کا رحم مادر میں آنےسےپہلے اور بعد والے حالات میں فرق نہیں ہےایسا نہیں ہےکہ کثرت سےعبادت کر کےنفس سےمقابلہ کر کےکمالات تک پہنچے ہوں ۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہےکہ حضرت علی (ع)کی قوت بینائی اور شنوائی رسول اللہ کےبرابر تھی۔
چہاردہ معصومین کی بینائی وہی خداکی بینائی ہے
رسول اکرم(ص) اور آئمہ کی بینائی اور نظر کہاں تک کام کر سکتی ہے؟
خداوند متعال قرآن میں فرما رہا ہے:
( وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُون )
سورہ توبہ، آیت 105
اورپیغمبر کہہ دیجئےکہ تم لوگ عمل کرتےرہو کہ تمہارےعمل کو اللہ، رسول اورصاحبانِ ایمان سب دیکھ رہےہیں۔
یعنی جس طرح خدا جانتا اور دیکھتا ہےپیغمبراورآئمہ بھی اسی کیفیت میں جانتے اور دیکھتے ہیں بہرحال خدا، رسول اور آئمہ میں کس چیز میں فرق ہے؟ اس سوال کا جواب امام زمانہ نےماہ رجب کی دعا میں دیا ہے۔
لَا فَرْقَ بَيْنَکَ وَ بَيْنَهَا إِلَّا أَنَّهُمْ عِبَادُکَ وَ خَلْقُکَ فَتْقُهَا وَ رَتْقُهَا بِيَدِک
اقبال الاعمال، ج 3 ، ص 214 ؛ مفاتیح ماہ رجب میں روزانہ پڑہی جانےوالی پانچویں دعا
خدایا تم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہےسوائے اس کہ وہ تیر لائق بندے ہیں ان کےسب امور تیرے دست قدرت میں ہیں یعنی خدایا تو نےاپنی قدرت، اپنا علم، اپنی رحمت، اپنےاسما اور تمام کائنات آئمہ کےہاتھ میں دے دی ہےتیرا ان سےفرق یہ ہےکہ تویہ سب کچھ ذاتارکھتاہےذاتا توبےنیازہےلیکن وہ غنی بالعرض تیری وجہ سےبےنیازہیں یعنی
یدالله، عین الله، ولی الله، علم الله، رحمه الله
وغیرہ ہیں
اگرقرآنی آیت بیان کرتی ہےکہ خداوندمتعال قیامت کےدن لوگوں سےملاقات کرےگا یعنی آئمہ سےملاقات کریںگے۔ اگرروایت کہتی ہےکہ شہید وجہ اللہ کی طرف دیکھے گا یعنی امیرالمومنین اورآئمہ معصومین کودیکھےگا؛ کیونکہ امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
نحن وَجْهُ اللَّهِ؛
بحار، ج 24 ، ص 192
ہم ہی وجہ اللہ ہیں۔ یا یہ جو ہم دعا ندبہ میں پڑھتے ہیں:
أَيْنَ وَجْهُ اللَّهِ الَّذِي يَتَوَجَّهُ إِلَيْهِ الْأَوْلِيَاء؛
کہاں ہیں وجہ اللھ جس کی طرف اولیا توجہ کرتے ہیں پس وجہ اللھ معصوم امام ہیں۔
اگر قرآنی آیت کا کہنا یہ ہےکہ :
( إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون )
سورہ بقرہ، آیت156.
ہم اللہ ہی کےلئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانےوالے ہیں۔
تمام انسان خدا کی طرف لوٹ جائینگے یعنی آئمہ کی طرف لوٹ جائینگے اگر یہ کہا جاتا ہےکہ خداوند متعال کل قیامت کےدن مخلوق کا حساب کتاب کرے گا یہ بھی اس معنی میں ہےکہ آئمہ معصومین مخلوق کا حساب کتاب کریں گے ان تمام مطالب کو آپ زیارت جامعہ میں زبان پر جاری کرتے ہیں۔ و ایاب الخلق الیکم و حسابہم علیکم۔ اس بنا پر رسول اللہ کا دیکھنا خود خدا کا دیکھنا ہے۔
بحث کو مکمل کرنےکیلئے چند روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
مَا لَکُمْ تَسُوءُونَ رَسُولَ اللَّهِ؛
مستدرک الوسائل، ج 12 ، ص 163 ۔
تمہیں کیا ہو گیا ہےکہ رسول اللہ کو ستاتے ہو؟اصحاب نےعرض کی: رسول اللہ تورحلت فرما چکےہیں ہم انہیں کس طرح ستا سکتے ہیں، اذیت دے سکتے ہیں؟ حضرت نےفرمایا:یہ نہ سمجھو کہ رسول خدا کی حیات و موت میں فرق ہےجس طرح اس دنیا میں تھے اور تمھارے اعمال انکےسامنےپیش ہوتے تھے، رحلت کےبعد بھی تمھارے اعمال ان کےسامنےپیش ہوتے ہیں، وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہےہیں ۔ اگر تمہارےعمل نیک اور اچھے ہوں تو خوشحال ہوتے ہیں اور تمھارے لئے دعا کرتے ہیں اگر تم نےگناہ کیا تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور تمہارے لئے استغفار کرتے ہیں۔
دوسری روایت میں رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:
حَيَاتِي خَيْرٌ لَکُمْ وَ مماتِي خَيْرٌ لَکُم؛
بحار، ج 22 ، ص 550
میری زندگی بھی تمہارے لئےبھلی ہےمیری موت بھی تمہارے لئے بھلی ہے۔ اصحاب نےعرض کیا : یارسول اللہ آپ کی زندگی ہمارے لئے بھلی ہےکیونکہ کہ قرآن میں ارشاد ہواہے:
( وَ ما کانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فيهِم )
سورہ انفال، آیت33
حالانکہ اللہ ان پر اس وقت تک عذاب نہ کرے گا جب تک پیغمبر آپ ان کےدرمیان ہیں۔
روایات میں آیا ہے:
وَ ما کانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبهمْ وَ الآئمه المعصومون فهم
معانی الاخبار، ص34
جب تک آئمہ معصومین لوگوں کےدرمیان ہیں خدا ان پر عذاب نہیں کرے گا۔اس کا تو ہمیں پتا ہےلیکن آپ کی موت ہمارے لئے کیسےبھلی ہے؟ حضرت نےفرمایا:کیونکہ تمہارے اعمال برزخ میں میرے پاس پہنچیں گے میں اپنےاور اپنےاہل بیت کےچاہنےوالوں کیلئے استغفار کروں گا۔
باوجود اس کےکہ حضرت اپنی جماعت میں شریک ہونےوالے لوگوں کو فرماتے تھے:
لا ترفعوا قبلی و لا تضعواقبلی ؛
رکوع میں مجھ سےپہلےنہ جاؤ،مجھ سےپہلےسرنہ اٹھاؤ وہ سرگوشیاں کرنےلگےکہ کس نےرسول کوبتایاہے؟پیغمبراکرم نےفرمایا:
إِنِّي أَرَاکُمْ مِنْ خَلْفِي کَمَا أَرَاکُمْ مِنْ بَيْنِ يَدَي
بحار، ج 85 ،ص 100
جس طرح میں اپنےآگےدیکھ سکتہوں اپنےپیچھے بھی دیکھ سکتا ہوں۔ رسول اللہ کی قوت شامہ سونگھنےکی قوت بھی ایسی تیز تھی کہ اویس قرنی کےآنےاور جانےکےبعد جب گھر میں تشریف لائے تو فرمایا: میں خدائے رحمان کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، یہ خوشبو اس فرد سےآرہی ہےجو یمن میں سےآیا تھا
فیض الغدیر، ج 4 ، ص 170 ۔
اوراس خدائی خوشبو کومیرےگھرمیں لے آیا۔یہ سب کچھ حضرت علی(ع)اورآئمہ معصومین کےپاس بھی ہےجیساکہ فرمایا:
یا علی انک تسمع ما اسمع ۔
اور فرمایا:
إِنَّهُمْ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهُم؛
الغدیر، ج 2 ، ص 303 ۔
وہ مجھ سےہیں اور میں ان سےہوں یعنی آئمہ، رسول سےہیں، رسول کی جان و نفس شمار ہوتے ہیں ۔ جب رسول کی جان و نفس شمار ہوں تو اس وقت رسول اللہ کا باطن اور آپ کی صفات کی حقیقت بھی آئمہ میں آ جائے گی یعنی جس طرح رسول اللہ دیکھ سکتے ہیں ،سن سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں وہ بھی دیکھ سکتے ہیں ،سن سکتے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال دنیا و آخرت میں رسول اللہ سےپوشیدہ نہیں تو آئمہ سےبھی پوشیدہ نہیں رہیں گے۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
لَا يَسْتَکْمِلُ عَبْدٌ الْإِيمَانَ حَتَّى يَعْرِفَ أَنَّهُ يَجْرِي لآِخِرِهِمْ مَا يَجْرِي لِأَوَّلِهِم؛
الاختصاص، ص 22 ۔
کسی بھی بندےکاایمان مکمل نہیں ہوگایہاں تک کہ وہ یہ عقیدہ رکھےکہ رسول اکرم(ص)کےتمام کمالات(سوائے نبوت کے)آئمہ معصومین میں بھی ہیں۔اگررسول اکرم(ص)چاندکےدوٹکڑےکرسکتےہیں اورمعجزہ دکھاسکتےہیں توامیرالمومنین(ع)بھی سورج سےبات کرواسکتے ہیں، اس واقعہ میں آپ کےساتھ آپ کےدشمن بھی موجودتھےجب آپ نےسورج پرسلام کیا،
السَّلَامُ علیکَ يَا خَلْقَ اللَّهِ الْجَدِيدَ الْمُطِيعَ لَه ؛
بحار، ج 41 ، ص 180 ۔
سلام ہو تم پراےخدا کی نئی اورمطیع مخلوق اورسورج نےجواب دیا:
وَ علیکَ السَّلَامُ يَا أَوَّلُ يَا آخِرُ يَا ظَاهِرُ يَا بَاطِن؛
آپ پر بھی سلام ہو اےاول اورآخر، اے ظاہراوراے باطن۔
اس کی سادہ معنی یہ ہےکہ سلام ہوتم پر اے ابوالحسن، اے جہان آفرینش کی پہلی مخلوق، اے وہ آخری مخلوق جس کےبعد قیامت آئے گی، اے وہ جو رسول اللہ کےساتھ ظاہر میں اور تمام انبیا کےساتھ باطن میں ساتھ رہے۔ یعنی وہی بات جو رسول اللہ نےامیرالمومنین (ع) کو فرمائی تھی:اے علی تو تمام انبیا کےساتھ باطن میں اور میرے ساتھ ظاہر میں رہاہے۔
القطرہ من بحار النبی والعترہ، ص 188 ۔
پیغمبراورامام علی میں خداکی تجلی
امام صادق (ع)، امیرالمومنین (ع) کی زبانی فرما رہےہیں :
وَ لَقَدْ حُمِّلْتُ عَلَى مِثْلِ حَمُولَتِهِ وَ هِيَ حَمُولَةُ الرَّب ؛
بحار، ج 25 ، ص 352 ۔
یعنی خداوندمنان نےجوکمالات، ایمان،اخلاق، صفات، ہدایت اورمعاشرےکی سختیاں برداشت اورتحمل کرنےکی صفت رسول اکرم(ص) کو دی تھی وہ سب علی کو بھی دی تھی۔
روایت کی دوسری معنی یہ ہےکہ : جس طرح رسول اکرم(ص)رب دو جہاں کےمظہر ہیں اورخدانےاپنےرسول کےوجود میں تجلی کا کامل اور جامع ظہور کیا ہےاور اپنی تمام صفات اور اخلاق اور ربوبیت کو ظاہر کیا ہے، علی کےوجود میں بھی بغیر کمی و زیادتی کےوہی تجلی کی ہے۔
کیا ایسا نہیں ہےکہ جب حضرت موسی اپنی قوم کےستر افراد کو خدا کو دیکھنےکیلئے کوہ طور پر لے گئے اور پھر خدانےکوہ پر اپنی تجلی کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور ستر افراد جل گئے اور :
( وَ خَرَّ مُوسى صَعِقا؛ )
سورہ اعراف، آیت143.
اورموسٰی علیہ السّلام بیہوش ہوکرگرپڑے۔
حضرت موسی بےہوش ہوگئے۔ روایات میں آیاہےکہ وہ کروبین میں سےایک کی تجلی تھی جس کو وہ برداشت نہ کر پائے اور فرمایا :
الکروبین قوم من شیعتنا من الخلق الاول؛
نور الثقلین، ج 2 ، ص 64 ۔
کروبین پہلی مخلوق میں سےہمارےخالص شیعہ ہیں پس توکسطرح خود حضرت کےنورکوبرداشت کیاجاسکتاہے۔جب یمن سےایک وفد آیا اورحضرت علی(ع)کےفیصلہ کی شکایت کرنےلگاتوپیغمبراکرم نےفرمایا:
لَا تَسُبُّوا علیاً فَإِنَّهُ مَمْسُوسٌ فِي ذَاتِ اللَّهِ ؛
مناقب آل ابی طالب، ج 3 ، ص 21 ۔
علی کوبرابہلا نہ کہو وہ خدامیں فانی ہوچکاہےیعنی امیرالمومنین کی صفات اورافعال خدا کی تجلی ہیں۔ اس معنی کی تاکیدکیلئے ایک ظریف نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہوں وہ یہ کہ لفظ رب کےابجد کےاعتبار سے 202 عدد بنتے ہیں، محمد و علی دونوں لفظوں کی ابجد کےبھی 202 بنتے ہیں یعنی وہ رب کےنمائندے اورمظہرہیں۔
دوسرا شاہد یہ ہےکہ خداوند متعال نےآیہ قرآنی میں ارشاد فرمایا ہے:
( أَ لَيْسَ اللَّهُ بِکافٍ عَبْدَه )
سورہ زمر، آیت 36 ۔
کیا خدا اپنےبندوں کےلئے کافی نہیں ہے۔
دعائے فرج میں بھی ہم پڑھتے ہیں :
يَا مُحَمَّدُ يَا علی يَا علی يَا مُحَمَّدُ اکْفِيَانِي فَإِنَّکُمَا کَافِيَان؛
اے محمد، اے علی، اے علی اور اے محمد آپ دونوں ہی میرے کاموں کی میرے لئے کفایت کریں۔ ہم یہاں مستقیما اور بلا فسےکہیں وہ کفایت کرے، کیونکہ خداوندمتعال نےاپنےان نمائندوں کو امورعالم میں مکمل اختیاردےدیا ہے۔
مذکورہ اشتراکات کےعلاوہ حضرت آیت اللہ میلانی نےاپنےکتاب ،،
قادتنا کیف نعرفھم ،
میں مندرجہ ذیل مشترکات بھی بیان کئےہیں ۔
عبداللہ ہونا: جس طرح خداوندنےقرآن میں فرمایاہے:
( وَ أَنَّهُ لَمَّا قامَ عَبْدُ اللَّه؛ )
سورہ جن، آیت19۔
اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کےلئےکھڑا ہوا۔
حضرت علی (ع)بھی فرماتے ہیں :
أنا عبد الله و أخو رسول الله ؛
میں بندہ خدا اور رسول اللہ کا بھائی ہوں۔
عصمت:
جس طرح خداوندمتعال نےاپنےرسول کوبت پرستی اورگناہ سےمعصوم بنایا، علی نےبھی کوئی گناہ نہیں کیاکبھی بت پرستی نہیں کی۔
سب و دشنام:
رسول اکرم(ص) نےفرمایا:
مَنْ سَبَّ علیاً فَقَدْ سَبَّنِي وَ مَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اللَّهَ وَ مَنْ سَبَّ اللَّه؛
بحار، ج 27 ، ص 227 ۔
جس نےعلی کو دشنام دی اس نےمجھے دشنام دی، جس نےمجھے دشنام دی اس نےخدا کو دشنام دی۔
صاحب ہونا: اللھ تعالی نےقرٓن مجید میں رسول اللہ کو صاحب کےعنوان سےیاد کیا ہےاور فرمایا:
( وَ ما صاحِبُکُمْ بِمَجْنُون؛ )
سورہ تکویر، آیت222.
اورتمہاراساتھی پیغمبردیوانہ نہیں ہے۔
رسول اکرم(ص)بھی فرماتے ہیں :
یا علی انت منی و انا منک أَنْتَ أَخِي وَ صَاحِبِي؛
اے علی تم مجھ سےہو میں تم سےہوں تو میرا بھائی اور صاحب ہے۔
سیادت: جس طرح رسول اکرم(ص)سیدالمرسلین اورسیدالناس یعنی لوگوں کےسردارہیں علی کےبارےمیں فرمایاہے:
أَنْتَ سَيِّدٌ فِي الدُّنْيَا وَ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَة؛
تو دنیا و آخرت میں آقا و سردار ہو۔
چھٹی مجلس
رسول اللہ کےنزدیک،مولا علی کا مقام
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( :فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبين )
سورہ آل عمران، آیت 61 ۔
ان سےکہہ دیجئےکہ آؤہم لوگ اپنےاپنےفرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنےاپنےنفسوں کوبلائیں اورپھرخداکی بارگاہ میں دعاکریں اورجھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
علی مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي مِنْ بدنی
بحار، ج 38 ، ص 319 ۔
علی کومجھ سےوہی نسبت ہےجوسرکو پورے بدن سےہے۔
حدیث منزلت کےنام سےایک حدیث ہےجوشیعہ اوراہلسنت کےدرمیان متواترحدیث ہےکوئی بھی اس روایت کوسندکےاعتبارسےردنہیں کرسکتا اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ اس روایت میں رسول اکرم(ص) نےعلی کو فرمایا ہے:
أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي؛
کافی، ج 8 ، ص 107 ؛ صحیح مسلم، ج 7 ،ص 120 ۔
تیری مجھ سےوہی منزلت ہےجو ہارون کی موسی سےتھی سوائے اس کےکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اس حدیث میں دو نکتے ہیں
ا۔ نسبی حوالےسےامیرالمومنین(ع)اور رسول اللہ چچا ذادبھائی ہیں،نسبی بھائی نہیں ہیں لیکن ہارون اورموسی نسبی بھائی تھے۔
2 ۔ ہارون مقام نبوت پر فائز تھے لیکن حضرت علی(ع)ظاہری طورپرمقام نبوت نہیں رکھتے، برادری اورنبوت کےبغیر ہارون کےتمام منصب علی کےلئے ثابت ہیں۔
علی اورہارون کی شباہتیں
یہاں ہم ہارون کی حضرت موسی سےنسبت کی تحقیق کرتےہیں اورعلی کی رسول اللہ سےمنزلت کےساتھ اسکامقایسہ کرتےہیں۔
پہلی شباہت
حضرت موسی نےکیونکہ ایک آدمی کو قتل کیا تھا لھذا جب واپس فرعون کےپاس جانا چاہا تو خدا سےدرخواست کی کہ اسےشرح صدر عطا فرمائے:
( قالَ رَبِّ اشْرَحْ لي صَدْري وَ يَسِّرْ لي أَمْري وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِساني يَفْقَهُوا قَوْلي وَ اجْعَلْ لي وَزيراً مِنْ أَهْلي هارُونَ أَخي اشْدُدْ بِهِ أَزْري )
سورہ طہ، آیت 25 تا31.
موسٰی نےعرض کی پروردگار!میرےسینےکوکشادہ کردےمیرےکام کوآسان کردےاورمیری زبان کی گرہ کوکھول دےکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اورمیرےاہل میں سےمیراوزیرقراردےدے ہارون کوجومیرابھائی بھی ہےاس سےمیری پشت کومضبوط کردے۔
یعنی خدایا ان تمام مشکلات کےمقابلے میں مجھے شرح صدر عطا فرما، میرا شرح صدر میرا بھائی ہارون ہےاگر ہارون میرے ساتھ ہوتو میں مکمل اطمینان کےساتھ فرعون کےمحل میں چلا جاؤں گا۔
خدا نےجواب میں ارشاد فرمایا:
( قالَ قَدْ أُوتيتَ سُؤْلَکَ يا مُوسى )
سورہ طہ آیت 36
ارشاد ہوا موسٰی ہم نےتمہاری مرادتمہیں دے دی ہے۔
لیکن حضرت موسی اوررسول اللہ میں جوفرق ہےوہ یہ ہےکہ پیغمبرنےدعاءکیلئےدست بلندنہیں کئےاورخداسےشرح صدرکی درخواست نہیں کی خدانےبھی اپنےحبیب پراحسان کیااوربغیرسوال کےاسےشرح صدرعطافرمایا۔ خداوندمتعال سورہ انشراح میں رسول اکرم(ص)کو فرماتا ہے:
( أَ لَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ وَ وَضَعْنا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذي أَنْقَضَ ظَهْرَکَ )
سورہ انشراح، آیت1 تا3.
کیاہم نےآپ کےسینہ کوکشادہ نہیں کیا اورکیاآپ کےبوجھ کواتارنہیں لیاجس نےآپ کی کمرکوتوڑدیاتھا۔
پیغمبرکاشرح صدر کونسا تھا؟تفاسیراورروایات کی روشنی میں خداوندمنان نےعلی کےوجودسےپیغمبرکےسینےکی تنگی کودورفرمایااورحضرت کی کمر ٹوٹنےسےبچائی:
أَ لَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ بعلی؛
علی یعنی شرح صدر پیغمبر، یعنی پیغمبر کی کمر کو ٹوٹنےسےبچانےوالا یعنی پیغمبر کےاحساس سنگینی کو بر طرف کرنےوالا۔
تاویل الآیات، ص454
سورہ انشراح میں آگے پڑھتے ہیں :
( فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إِلى رَبِّکَ فَارْغَبْ )
سورہ انشراح، آیت7،8.
لہذا جب آپ فارغ ہوجائیں تو نصب کردیں اور اپنےرب کی طرف رخ کریں۔
یعنی جب حجت الوداع کےاعمال پورےکرچکےہوتو ؛
فانصب علیا للخلافه؛
علی کوغدیرخم پرجانشینی کیلئےمنصوب کرواس کےبعدتمہارامشن پوراہوجائےگااورہماری طرف لوٹنےکیلئےتیارہوجاؤ۔
یہاں پرحضرت علی(ع)کا رسول اللہ کیلئےشرح صدرہونےکےکچھ مواردکی طرف اشارہ کرتےہیں
رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:
ما قام و لا استقام دینی الا بشیئین مال خدیجة و سیف علی بن ابی طالب؛
شجرہ طوبی، ج 2 ، ص 233 ۔
دین اسلام کھڑانہیں ہوسکتا، اسےزندگی نہیں ملی مگردوچیزوں سےایک خدیجہ کامال دوسراعلی کی تلوار۔
دوسری روایت میں حضرت نےفرمایا:
الْخَيْرُ کُلُّهُ فِي السَّيْفِ وَتَحْتَ ظِلِّ السَّيْف؛
کافی، ج 5 ،ص 2
تمام نیکیاں تلوار میں اور تلوار کےسائے تلے ہیں یعنی اگر علی نہ ہوتے تمام نیکیوں کی فاتحہ پڑھی جاچکی ہوتی۔
جنگ احزاب میں
وہ کونسی تلوارہےکہ تمام نیکیاں اسکےسائےتلےہیں؟رسول اکرم(ص)نےفرمایا:
ضربة علی یوم الخندق افضل من عبادة الثقلین؛
خصال، ص 579 ۔
جنگ احزاب میں علی کی ایک ضربت ابتدائے تخلیق سےانتھائے تخلیق تک کےانس و جن کی عبادت سےافضل ہے۔
کسی نےبھی عمرو بن عبدود سےمقابلہ کرنےکیلئے آمادگی کا اعلان نہ کیا لیکن مولا باوجود اس کےکہ عمر کےلحاظ سےجوان تھے پھر بھی آپ نےقبول کیا اور عمرو بن عبدود کو ایک ضربت سےواصل جہنم کیا۔
جنگ خیبرمیں
رسول اکرم(ص)نےجس کوبھی قلعہ فتح کرنےکیلئےبھیجا وہ ڈرکرلوٹ آیا۔حضرت نےفرمایا:
فَقَالَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ کَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ لَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ؛
کافی، ج 8 ، ص 351 ۔
کل میں علم اسےدوں گاجوخدااوراسکےرسول سےمحبت کرتاہوگااورخدا اوراسکارسول بھی اس سےمحبت کرتےہونگےوہ جم کرحملہ کرنےوالا ہوگا، فرارنہیں کرے گا اس وقت تک نہیں لوٹے گا جب تک خدا اسےکامیابی نصیب نہ کرے۔کل سب نےدیکھاکہ رسول اکرم(ص)نےعلم علی کےہاتھ میں دیامولا علی گئےاورخیبرکےمرحب کومارکرقلعہ خیبرکوفتح کرکےآئے۔
جنگ ذات السلاسل میں
اس جنگ کو ذات السلاسل اس لئے کہتے ہیں کہ دشمنوں نےتلواروں کےخول پہن رکھے تھے کہ جو بھی دیکھ رہا تھا وہ وحشت کر رہا تھا ۔ بارہ ہزار جنگجو تھے جو کاملا مسلح تھے، سب نےوعدا کیا کہ اسلام کی فاتحہ پڑہینگے۔پیغمبر نےجسےبھی بھیجا وہ ڈر کرو اپس آگیا لیکن جب حضرت علی (ع)کو بھیجا تو مولا علی نےکتنوں کو تہہ تیغ کیا اور کچھ کو اسیر کر لیا۔ خداوند منان نےکچھ آیتیں اس جنگ کی شان میں نازل فرمائیں۔
بحار، ج 21 ، ص 66 ۔
( وَ الْعادِياتِ ضَبْحاً فَالْمُورِياتِ قَدْحاً فَالْمُغيراتِ صُبْحاً فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً ) ۔
سورہ عادیات، آیت 1 تا4.
فراٹےبھرتےہوئےتیزرفتارگھوڑوں کی قسم جو ٹاپ مارکرچنگاریاں اڑانےوالےہیں پھرصبحدم حملہ کرنےوالےہیں پھرغبارجنگ اڑانےوالےنہیں۔
دوسری شباہت: کاموں میں آسانی
حضرت موسی نےخدا سےدرخواست کی:
وَ يَسِّرْ لي أَمْري؛
خدایا میرے کاموں کو آسان فرما ۔ خدانےبھی ہارون دےدیا تاکہ اس کےلئے آسانی ہو۔ رسول اللہ کےکاموں کی آسانی علی کےوجود سےتھی؛ کیونکہ جب بھی کوئی مصیبت رسول اللہ پر آتی تو یہ علی ہی تھے جو اسےٹال دیتے۔ مشکل کشا ئی کرنےوالے علی ہی ہوتے مثال کےطور پر جنگ احد میں جب دشمنوں نےرسول اللہ کو گھیر لیا، جبرائیل نازل ہوئے اور مولا کیلئے ذوالفقار لے آئے جس پر دو شعار لکھے تھے ایک مشھور شعار
(نعرا) لَا فَتَى إِلَّا علی لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفَقَارِ؛
بحار، ج 20 ، ص 73
ایک خصوصی شعارجو رسول اللہ کیلئے خطاب تھا وہ یہ تھا :
نَادِ علیاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ تَجِدْهُ عَوْناً لَکَ فِي النَّوَائِب
اےمیرےحبیب،اےمیرےرسول نادعلیامظھرالعجائب،بلا علی کوجومظھرعجائب ہےتاکہ تیری مددکرے۔یاجب رسول اللہ مکہ سےباہرجاناچاہتےتھےتوامیرالمومنین کواپنی جگہ پرسلانےکیلئےانتخاب کیا۔روایت میں آتاہےکہ خداوندمنان نےجبرائیل اورمیکائیل کوفرمایا:میں نےتم دونوں میں عقداخوت پڑھاہےتم میں سےایک کی عمردوسرےسےزیادہ ہے،کون حاضرہےجواپنی عمردوسرے پرفداکرے!دونوں فرشتوں نےایک دوسرےکودیکھالیکن کوئی جواب نہیں دیاپھرخطاب ہوا: زمین میں نظر ڈالو علی کو دیکھو جو رسول اللہ کی جگہ پر سویا ہوا ہےان دونوں کےدرمیان بھی عقد اخوت پڑھا گیا ہے۔
بحار، ج 36 ، ص 43 ۔
تیسری شباہت: جانشینی
حضرت موسی کی تیسری دعا یہ تھی کہ خدایا میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر اور جانشین بنا، خداوند منان نےحضرت موسی کی یہ دعا بھی قبول کی ،اسی طرح پیغمبر اکرم نےخدا کی طرف سےبلا فصل جانشینی اور وزارت کا منصب حضرت علی (ع)کو عنایت فرمایا روایت دار کو شیعہ سنی قبول کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نےاپنی تبلیغ کےابتدائی دنوں میں اپنےرشتہ داروں کو دعوت دی اور امیرالمومنین (ع) کا اپنےوزیر، وصی اور جانشین کےطور پر تعارف کروایا۔
بحار، ج 35 ، ص 144 ؛ کنزالعمال، ج 13 ، ص 131 ۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہےوہ یہ کہ حضرت ہارون، حضرت موسی کےنسبی برادر تھے لیکن علی تو رسول اللہ کےنسبی بھائی نہ تھے وہ تو انکےپسر عمو تھے تو روایات میں کیسےآیا کہ رسول اللہ نےمولا سےخطاب ہی کرتے ہوئے فرمایا:
انت اخی فی الدنیا و الآخره؛
مناقب آل ابی طالب، ج 2 ، ص 33 ؛ ینابیع المودہ، ج 1 ،ص 178 ۔
تو دنیا وآخرت میں میرابھائی ہےیہ کیسی برادری ہے؟اسکی علت یہ ہےکہ باوجوداسکےکہ قرآن مجیدنےتمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے: مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں
( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة )
سورہ حجرات، آیت10.
لیکن رسول اکرم(ص)نےہجرت کرنےکےبعدجوافرادمعنوی اورایمانی صفات میں ایک دوسرےکےمشابہ تھے،ان میں عقداخوت پڑھا ان کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا۔سلمان کو ابوذر کا بھائی بنایا کیونکہ وہ مزاج اور ایمانی لحاظ سےایک دوسرے کےنزدیک تھے، بات جب پوری ہو گئی تو سب کہنےلگے رسول اللہ نےکیوں علی کو کسی کا بھائی نہیں بنایا ؟ اس وقت رسول اللہ نےعلی کو فرمایا
مَا أَخَّرْتُکَ إِلَّا لِنَفْسِي؛
احتجاج، ج 1 ، ص 162 ۔
اےعلی میں نےتمہیں کسی اورکابھائی اسلئےنہیں بنایاکہ میں نےتمہیں اپنےلئےباقی رکھاہےاورفرمایا:
انت اخی فی الدنیا والآخرة؛
تودنیا وآخرت میں میرابھائی ہے۔پیغمبراکرم(ص)نےعقداخوت میں علی کےسواکسی کواپنابھائی نہیں بنایاکیونکہ علم،قدرت،وحی کےدریافت کرنےاورقرب خدامیں علی ہی آپ کےسب سےزیادہ نزدیک تھا۔
اسی طرح ابن عباس نےنقل کیا ہےجب پیغمبر اکرم نےخدا سےیہ دعا کی:
( وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْني مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْني مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لي مِنْ لَدُنْکَ سُلْطاناً نَصيرا )
سورہ اسراء، آیت 80
اوریہ کہئےکہ پروردگارمجھےاچھی طرح سےآبادی میں داخل کراوربہترین اندازسےباہرنکال اورمیرےلئےایک طاقت قراردےدےجو میری مددگارثابت ہو۔
تورسول اکرم(ص)کی دعاءمستجاب ہوئی اورخدانےامیرالمومنین(ع)یعنی سلطان نصیرکےعنوان سےحضرت کوعطافرمایا۔
مناقب آل ابی طالب، ج 1 ، ص 341 ۔
خداوند متعال فرما رہا ہے:
( يا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِالسَّماواتِ وَ الْأَرْضِ فَانْفُذُوا لا تَنْفُذُونَ إِلاَّ بِسُلْطانٍ )
سورہ رحمن، آیت33
اےگروہ جن وانس اگرتم میں قدرت ہوکہ آسمان وزمین کےاطرف سےباہرنکل جاؤتونکل جاؤمگریادرکھوکہ تم قوت اورغلبہ کےبغیر نہیں نکل سکتے ہو۔
اگرطاقت ہےتواوج آسمان پرجاؤیازمین کی گھرائیوں میں جاؤلیکن جان لوکہ امیرالمومنین(ع)کی ولایت اورسلطنت سےباہرنہیں جاسکتے ہو کیونکہ جیسا کہ ہم نےبتایا سلطان کی معنی حضرت علی (ع)ہے۔
ساتویں مجلس
اہل بیت اور مقام رسالت
اللہ تعالی قرآن میں ارشادفرماتاہے:
( وَ تِلْکَ حُجَّتُنا آتَيْناها إِبْراهيمَ عَلى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجاتٍ مَنْ نَشاء )
سورہ انعام، آیت83
یہ ہماری دلیل ہےجسےہم نےابراہیم علیہ السّلام کوانکی قوم کےمقابلہ میں عطا کی اورہم جسکوچاہتےہیں اسکےدرجات کو بلندکردیتےہیں ۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
السَّلامُ علیکُمْ يَا أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وموضع الرسالة
سلام ہو آپ پر اے نبوت کےاہلبیت! اور پیغام الہی آنےکی جگہ!
زیارت جامعہ کادوسراجملہ، رسالت کےبارے میں ہےصرف پیغمبراکرم کی نبوت اوررسالت نہیں بلکہ تمام انبیاءکی رسالت،موضع کی معنی ہےہرچیزکامکان،محل اس بناپرجملےکاظاہری ترجمہ یہ ہوگاسلام ہوتم آئمہ معصومین پرجوکہ رسالت کی محل،مکان ہو۔
کچھ مترجمین کاکہناہےکہ : کیونکہ پیغمبراکرم صاحب رسالت تھے اس اعتبار سےامام ھادی فرمانا چاہتے ہیں رسالت آپ کےگھر میں وارد ہوئی ہےلیکن یہ معنی اس جمع کےلئے ایک مجازی معنی ہےحقیقی نہیں ہےجیسےلفظ شیرہےجوکہ کبھی شجاع انسان کیلئے استعمال ہوتا ہےجو کہ اس کی غیرحقیقی اور مجازی معنی ہےیہ کیسی معنی ہےکہ ہم آئمہ معصومین کو کہیں کیونکہ آپ کا جد اللھ کا رسول تھا اس اعتبار سےآپ میں بھی رسالت آئی ہے۔ لیکن موضع الرسالہ کی حقیقی معنی یہ ہےکہ تمام انبیا چاہےاولوالعزم یا غیر اولوالعزم سوائے خاتم الانبیا ء کے، ان سب کی نبوت و رسالت آپ کےہاتھوں امضا ہوتی ہےیعنی وہ حقیقی رسالت، خدا نےآپ کو عطا کی ہےاور پھر آپ کی طرف سےتمام انبیا تک تبلیغ ہوتی ہےحقیقت میں رسالت آپ کےوجود میں خلاصہ ہوتی ہے۔
مطلق اورمقیدولایت
ہم جب انسانوں کامحاسبہ کریں تودیکھنےمیں آتاہےکہ مراتب کےسلسلےمیں انسان کاپہلامرتبہ اسکابشرہوناہے۔پھرکچھ لوگ اس سےآگےبڑھتےہیں جنکوخداوندمقامِ نبوت یا رسالت عطاکرتاہے۔لیکن مقام نبوت ورسالت سےبھی بڑامقام ولایت وامامت ہے۔
اللھ تعالی قرآن مجید میں فرما رہا ہے:
( وَ إِذِ ابْتَلى إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِکَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِماما؛ )
سورہ بقرہ، آیت124
اوراسوقت کویادکروجب خدانےچندکلمات کےذریعےابراہیم علیہ السّلام کاامتحان لیااورانہوں نےپوراکردیاتواسنےکہاکہ ہم تم کو لوگوں کا امام اورقائدبنارہےہیں۔
یعنی ابراھیم عبدتھا، خلیل تھا، نبی و رسول تھا لیکن جب خدا نےاسےآزمایا تو امامت تک پہنچا، اس بنا پر ام،امت نبوت اور رسالت سےبڑہ کر ہے۔
دوسری طرف سےجو بھی نبی یا رسول کےعنوان سےمبعوث ہوتا ہےتو نبوت یا رسالت ،اسکی ولایت کی فرع ہوتی ہےکیونکہ خداوندمتعال نےاسےایک باطنی ولایت عطاکی ہےتاکہ اپنےاوپر اورکائنات پرتسلط پیدا کرے۔ پھر اسےمقام نبوت تک پہنچاتا ہےکوئی نبی بغیر ولایت کےنہیں ہوتا ہےاگر نبی کےپاس ولایت نہ ہو تو اس سےمعجزہ کیسےصادر ہوگا کس طرح ماضی کی یا آیندہ کی خبریں دے گا۔
لیکن جو انبیا، صاحب ولایت اور امامت ہیں انکی ولایت مقید ہےمحدود ہے، مطلق نہیں ہے، ابراہیم خلیل اللھ آیت قرآن کےمطابق امام ہیں لیکن مقید امام، مطلق امام نہیں ہیں یعنی تمام انبیا اور خدا کےعلاوہ تمام مخلوق پر امام نہیں ہیں اس لئے روایات میں آیا ہے: کل قیامت کےدن تمام انبیا و انفساپکارینگے فقط پیغمبراکرم اورآئمہ وامتی پکارینگے یعنی جب امتیں اپنےرسولوں کےپاس جائیں گی تو وہ کہینگے پیغمبرکےپیچھے جاؤ کیونکہ ہم سب اس کےنمایندے تھے۔
بحار، ج 8 ، ص 35
اس بناپرولایت مطلقہ اہلبیت کےپاس ہےخداوندمتعال اپنےلاریب کلام میں فرمارہےہیں :
( هُنالِکَ الْوَلايَةُ لِلَّهِ الْحَق )
سورہ کھف، آیت44
اسوقت ثابت ہواکہ قیامت کی نصرت صرف خدائےبرحق کےلئےہے۔
خدا قیامت کےدن اپنی کامل ولایت لوگوں کو دکھا ئینگے اگر لو گ دنیا میں نہ سمجھ سکےتو وہاں آخرت میں سمجھ جائینگے وہاں تو رکاوٹیں اور حجاب ختم ہوجائینگے، وہاں تو دن ہوگا دنیا کےبرخلاف؛ یہاں شب ہےہماری روایتوں میں آیا ہےکہ ھنالک الولایہ یہ ہی امیرالمومنین (ع) کی ولایت۔(کافی، ج 1 ، ص 418 ۔)
کل قیامت کےدن لوگ مولا علی کی مطلق ولایت دیکھیں گے اور متوجہ ہونگے یہاں تک کہ خداوند متعال نےمخلوق کا حساب و کتاب بھی ان کےحوالے کیا ہے۔
گذشتہ تمام مطالب سےاس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ نبوت، ولایت کی طرف سےامضا ہوتی ہےیعنی اگر آئمہ جو کہ ولایت مطلقہ کےمالک ہیں امضا نہ کریں تو کوئی بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا۔
ایک روایت میں آیا ہےکہ:
مَا تَکَامَلَتِ النُّبُوَّةُ لِنَبِيٍّ فِي الْأَظِلَّةِ حَتَّى عُرِضَتْ علیه وَلَآیتي وَ وَلَايَةُ أَهْلِ بَيْتِي؛
بحار، ج 26 ، ص 281 ۔
کسی بھی نبی کی نبوت کامل نہیں ہوتی مگر یہ کہ میری اور میرے اہل بیت کی ولایت اس کےسامنےپیش کی گئی۔
دوسری روایت میں یہ مطلب حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکےبارے میں بیان ہوا ہے،
أَقَرَّ بِفَضْلِها
مجمع النورین، ص 40 ۔
فرمایا جب فاطمہ کی فضیلت کا اقرار کرتا تو خدا اسےدرجہ دیتا تھا اورمبعوث کرتا تھا۔
تبلیغ ولایت، پیغمبر اکرم کی بعثت کا راز
خداوند متعال سورہ مائدہ میں اپنےرسول کو فرما رہےہیں:
( يا آیتا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ )
سورہ مائدہ، آیت 67 ۔
اےپیغمبرآپ اس حکم کو پہنچادیں جوآپکےپروردگارکی طرف سےنازل کیاگیاہےاوراگرآپنےیہ نہ کیاتوگویااسکےپیغام کونہیں پہنچایا۔
خداوندمتعال نےفماتبلغ نہیں فرمایابلکہ ماضی کاصیغہ استعمال کیا ہے۔ آخر یہ کہنےکےبجائے کہ اگرعلی کا تعارف نہیں کروایا تواپنی رسالت کونہیں پہنچائے گا، یہ کیوں کہاکہ تونےرسالت نہیں پہنچائی ؟مقصدیہ ہےکہ پہلےدن سےآج تک یہ سب کچھ علی کی ولایت اورامامت کامقدمہ ہے۔حقیقت میں مولا علی،رسول اکرم(ص)کاباطن ہےکیونکہ رسول اکرم(ص)کاظاہر،نبوت اورباطن،ولایت ہے۔اسلئےقرآن آیاہےاوراس نےباطن سےپردہ کواٹھایاہےیعنی جو کوئی بھی رسول اکرم(ص)کےکامل باطن کودیکھناچاہتا ہےاسےچاہیے کہ علی کو دیکھے اس لئے کبھی فرماتے تھے :
حَبِيبُ قَلْبِي
مشارق انوار الیقین، ص 69
امیرالمومنین (ع) میرا قلب ہے۔
دوسری روایت میں فرمایا:
بِي أُنْذِرْتُمْ وَ بِعلی بْنِ أَبِي طَالِبٍ اهْتَدَيْتُم؛
بحار، ج 35 ، ص 405
مجھ رسول کےذریعے تمہیں ڈرایا جاتا ہےلیکن ہدایت امیرالمومنین (ع) کےپاس ہے۔ رسول اکرم(ص) کا ایک اہم کام ڈرانا ہےتاکہ بشر باطل سےدستبردار ہو کر حق میں داخل ہو جائے لیکن رسول اللہ تو ھدایت کا عہدہ بھی رکھتے تھے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
( أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هاد )
سورہ رعد، آیت 7
میں صرف ڈرانےوالا ہوں اور ہر قوم کےلئے ایک ہادی اور رہبر ہے۔
تو پھرکیوں آنحضرت اس روایت اپنےآپ کو ڈرانےوالا (منذر)اور علی کو ہادی کہہ رہےہیں؟ اسکاراز یہ ہےکہ پیغمبراکرم نبوت کا ظاہری مقام رکھتے ہیں اورنبی کاکام خبردینا اور ڈرانا ہےلیکن حضرت فرماتےہیں کہ میرا باطن ولایت اور امامت ہےاور باطن کےعنوان سےبشر کی ہدایت کرتا ہوں کیونکہ ولایت کا کام ڈرانےکےعلاوہ ہدایت اور دستگیری بھی ہےحضرت علی (ع)بھی رسول کےباطن اور نفس ہیں اسی دلیل کی بنیاد پر انہیں ہادی کہا گیا ہے۔
مقام عصمت،نبوت وامامت کامحافظ
اس روایت کو تو سب نےسنا ہے:
لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمة لما خلقتکما؛
مستدرک سفینة البحار، ج 3 ، ص 166
اے پیغمبراگرتونہ ہوتا تو افلاک کو پیدا نہ کرتا اگرعلی نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو تم دونوں کو پیدانہ کرتا۔اس حدیث کی معنی یہ ہےکہ ایک مقام نبوت ہوتاہےاورایک مقام امامت اور اسی طرح ایک مقام عصمت ہوتا ہے۔امامت اورولایت، رسالت کےمحافظ ہیں۔لیکن خود ولایت اورامامت کوبھی ایک محافط کی ضرورت ہےجو کہ عصمت ہے۔یہ روایت یہ بیان کررہی ہےکہ حقیقت میں پیغمبرنبی بھی ہےاورامام بھی اورمقام عصمت بھی رکھتاہے۔ خداوندمتعال رسول اللہ کوخطاب کرکےفرما رہا ہے: یا رسول اللہ اگر تیرا ولایت وامامت کارخ نہ ہوتا تومیں تمہیں پیدا نہ کرتا کیونکہ یہ امامت ہےجو تیری نبوت کی محافظ ہےتمہاری اس ولایت و امامت کامصداق امیرالمومنین(ع)بھی ہےاسی طرح اگر عصمت نہ ہوتی تو نہ تمہیں پیدا کرتا اور نہ ہی امامت کو، کیونکہ امامت کو بھی محافظ کی ضرورت ہےتمہاری عصمت نےخارج میں ایک مصداق بنالیا ہےجو کہ حضرت زہرا ہیں یہ نہیں کہنا چاہ رہےکہ فاطمہ ،رسول اللہ اور امیرالمومنین (ع) علی سےافضل ہیں بلکہ یہ تین مقام رسول اللہ کےہیں، ان کا ظاہری مقام نبوت ہےباطنی مقام امامت ہےاور باطن کا باطنی مقام عصمت ہے۔ خود پیغمبر اکرم نےعلی کو فرمایا:
کنت مع الانبیا سرا و معی جهرا؛
القطرہ من بحارمناقب النبی والعترہ، ج 1 ، ص 188
تو سب انبیاءکےساتھ تھامخفی طورپراورمیرےساتھ ہےآشکار۔ یعنی انکی نبوت اوررسالت کاباطن،ولایت تھا۔علی انکےاندرتھےہرکسی کو ان کےظرف کےمطابق طاقت دے رہا تھا اور صاحب ولایت بنا رہا تھا۔ در حقیقت جو ولایت تمام انبیا کےوجود میں کام کر رہی تھی اور ان کو جو مقید ولایت حاصل تھی وہ علی کی طرف سےتھی اسی وجہ سےرسول اللہ کےساتھ علنی اور آشکار ہو کر اپنا تعارف کروایا۔
حکومت انبیاءپرولایت
حضرت علی(ع)نےدوسری روایت میں فرمایا:
وَ إِنِّي لَصَاحِبُ الْکَرَّاتِ وَ دَوْلَةُ [دَوْلَةِ] الدُّول؛
بحار، ج 25 ، ص 354
میں صاحب کرامات ہوں، میں حکومتوں کا حاکم ہوں ۔ یعنی کیا؟ کیا مولا یہاں یہ کہنا چاہ رہےہیں کہ میں جنگ میں دشمن پر مسلسل حملے کرتا ہوں ؟ یا پہلے جملے کی معنا پر توجہ دیتے ہوئے اس کی کچھ اور معنی بھی ہو سکتی ہےوہ یہ کہ میں کتنی ہی بار اس دنیا میں آیا ہوں اور آتا رہوں گا۔مطلب حضرت یہ فرماناچاہتےہیں کہ میں آدم کےساتھ تھا، ابراہیم کےساتھ، عیسی کےساتھ، موسی کےساتھ تمام انبیا کےساتھ تھا ایسا نہیں ہےکہ فقط پیغمبراکرم کےدور میں دنیا میں آیا ہوں۔
نمونہ کےطور پر یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ خداوند متعال نےحضرت موسی و ہارون کو فرمایا :
( اذْهَبا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى )
سورہ طہ، آیت43
تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔
لیکن خدا نےایک وعدہ بھی ان کو دیا :
( نَجْعَلُ لَکُما سُلْطانا )
سورہ قصص، آیت 35
اورتمہارےلئےغلبہ قراردیں گے۔
فرعون نےمحل کےنگھبانوں کوحکم دے رکھا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہ دیں شاید وہ ایسی بات کرنا چاہتے تھے وہ نہیں چاہتا تھا کہ دوسروں کےآگے رسوا ہو۔
جب حضرت موسی و ہارون قصر میں داخل ہوئے، انہوں نےدیکھا کہ فرعون تخت پر بیہوش پڑا ہےبعد میں جب ہوش آیا اور انکےدرمیان گفتگو ہوئی فرعون نےنگھبانوں کو بلوایا اور ان کو کہا : کیا میں نےتمہیں نہیں کہا تھا کہ موسی و ہارون کےعلاوہ کسی کو بھی اندر آنےنہیں دینا؟ انہوں نےکہا : ہم نےایسا ہی کیا تھا اور کسی کو اندر آنےنہیں دیا فرعون نےکہا پس وہ جوان جو فاخر لباس پہنےسفید گھوڑے پر سوار تھا جس کی ہیبت اور عظمت کو دیکھ کر میں زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا وہ کون تھا؟ روایت میں ہےکہ وہ امیرالمومنین (ع) تھے
مدینہ المعاجز، ج 1 ، ص 143 ۔
یعنی مخفی طور پر سب انبیا کےساتھ تھے کبھی کبھی ظاہر بھی ہو جاتے تھے۔
روایت کےآگے حضرت نےفرمایا :
دَولَةُ [دَولَةِ] الدُّول ؛
اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی میں سب انبیاءکی حکومت تھا اگر انہوں نےکوئی حکومت تشکیل دی تو وہ میری ولایت کےزیر سایہ تھی۔ شیعہ اور سنی دونوں نےاس روایت کو نقل کیا ہے:
إِنَّ النَّاسَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى حُبِّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع لَمَا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ ؛
بحار، ج 39 ، ص 248 ؛ ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 272
اگر لوگ علی کی محبت پر جمع ہو جاتے تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہیں کرتا۔
اس روایت میں کچھ نکات ہیں
1 ۔ جہنم مولا علی کےدوستوں کیلئے نہیں ہےبلکہ مولا کےدشمنوں کیلئے ہے
2 ۔ اگر مولا فقط اس امت کےساتھ مخصوص ہوں تو دوسری امتوں کا کیا ہوگا؟ فرعون کا کیا ہوگا؟ نمرود کا کیا ہوگا؟ قوم لوط و عاد کا کیا ہوگا؟حضرت علی(ع)تو ظاہری طور پر ان کےپاس نہ تھے تو لوگ کیسےحضرت سےمحبت کرتے کہ جنت میں جا سکیں اور انکےدشمن واصل جہنم ہوں۔ یہی کہا جائے گا کہ امیرالمومنین (ع) مخصوص تاریخ سےتعلق نہیں رکھتے بلکہ تمام زمانوں اور عوالم سےتعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا حکم تمام امتوں میں تھا ان کی محبت بھی سب پر واجب تھی حقیقت میں تمام انبیا مولا علی کےنمائندے تھے، انہوں نےفیض، علم، معارف اور شرائط رسالت مولا علی سےلئے تھے، مولا ہی نےان کی رسالت کو امضا کیا تھا اور تبلیغ کی اجازت انہیں دی تھی۔ یہی سبب ہےکہ جب پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین آئے تو تمام ادیان منسوخ ہو گئے کیونکہ وہ سب نمائندے تھے رسول اللہ کےآنےسےان کا کام پورا ہو گیا۔
زیارت جامعہ کا ایک جملا ہے:
وَ عِنْدَکُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلَائِکَتُه؛
جو کچھ انبیا پر نازل ہوا وہ آپ کےپاس ہےیعنی پہلے سےآپ کےپاس موجود تھا آپ کےتوسط سےانبیا کو ملا جو کچھ بھی فرشتے لے آئے وہ سب آپ کےپاس تھا یعنی خدا نےآپ چھاردہ معصومین کو عطا کیا ہے۔
روایت میں ہےکہ امام صادق (ع) نےفرمایا:
إِنَّ اللَّهَ أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً وَ عِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِين؛
کافی، ج 1 ، ص 442
سب سےپہلے خدانےجس کو پیدا کیا وہ پیغمبر اکرم اور آئمہ تھے۔ پہلے انہیں پیدا کیا تاکہ جو بھی فیض، کمالات اور معارف ہیں ا ن کو عطا فرمائے پھر وہ انبیاء یا غیر انبیا کو دیں۔
امیرالمومنین(ع)اورعلم الکتاب
یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔آیت قرآن ہےکہ:
( قُلْ کَفى بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني وَ بَيْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْکِتاب )
سورہ رعد، آیت 43
کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کےلئے خدا کافی ہےاور وہ شخص کافی ہےجس کےپاس پوری کتاب کا علم ہے۔
روایات میں وارد ہوا ہےکہ
من عنده علم الکتاب
سےمراد امیرالمومنین (ع) ہیں۔
شواھد التنزیل، ج 1 ، ص 308
یہ آیت مکہ میں رسول اللہ پر نازل ہوئی جس دورمیں کافرآکرپیغمبرسےسوال جواب کرتے تھےابھی تک انہوں نےرسالت کو قبول نہیں کیا تھا خدا فرما رہا ہےپیغمبرکےپاس دو گواہ ہیں ایک خدا اور دوسراے وہ جن کےپاس علم الکتاب ہےیعنی امیرالمومنین (ع)۔
امیرالمومنین(ع)کی مکہ میں عمرکچھ زیادہ نہ تھی، ابھی تک تو ظاہری امامت کوبھی نہیں پہنچے تھے لیکن اس زمانےمیں بھی علم الکتاب رکھتے تھے کیونکہ ان کا علم ذاتی ہےدنیا میں آنےسےپہلے ہی سب کچھ جانتے تھے ۔
منقول ہےکہ جب حضرت علی (ع)دنیا میں پیدا ہوئے تو ان کی آنکھیں بند تھیں، آنکھیں نہیں کھولیں۔ لیکن جیسےحضرت کو پیغمبر کےہاتھوں میں دیا پیغمبر کےہاتھوں پر آنکھیں کھولیں یعنی یا رسول اللہ فقط آپ کا جمال دیکھنےکیلئے میری آنکھیں کھلیں گی پھر مولا نےان آیتوں کی تلاوت کی:
( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِقَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ هُمْ في صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ وَ الَّذينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ؛)
سورہ مومنون، آیت 1 تا3
یقیناصاحبانِ ایمان کامیاب ہوگئےجواپنی نمازوں میں گڑگڑانےوالےہیں اورلغوباتوں سےاعراض کرنےوالےہیں۔
کیسےہوسکتا ہےکہ ابھی پیغمبر نےنبوت کا اعلان نہیں کیا، ابھی پیغمبر پر قرآن نازل نہیں ہوا، امیرالمومنین(ع)نےقرآن کی تلاوت کی؟ اس کا جواب سورہ رحمان میں آیا ہےخدا فرماتا ہے:
( الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسان؛ )
وہ خدا بڑا مہربان ہےاس نےقرآن کی تعلیم دی ہےانسان کو پیدا کیا ہےاور اسےبیان سکھایا ہے۔
یعنی ہم نےعالم نورانیت میں حضرت علی(ع)کو قرآن کی تعلیم دی پھر علی کو پیدا کیا پہلے قرآن جانتے تھے پھر پیدا ہوئے۔
انسان سےمراد حضرت علی (ع)ہیں کیونکہ سورہ دھر کا دوسرا نام جو کہ حضرت کی شان میں نازل ہوئی، انسان ہے۔ حقیقت میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ وہ انسان جو پروردگار جہاں کا مظھر کامل ہےوہ سورہ دھر میں ملے گا دوسرے افراد تو اس کےمشابہ ہیں جتنا رشد کرینگے اتنا ہی انسانیت کےنزدیک ہوں گے اس بنا پر خلق الانسان کی معنی خلق علیا علی کو خلق کیا ہے۔
تفسیر نور الثقلین، ج 5 ، ص 188
معلم کون ہے؟ معلم خود خدا ہے،
الرَّحمنُ
درس کا موضوع کیا ہے؟ قرآن،
عَلَّمَ القُرآنَ
شاگرد کون ہے؟ علی،
خَلَقَ الْإِنْسان
یہاں ایک سوال اٹھتاہےکہ حضرت نےپیداہوتےوقت سورہ مومنون کی تلاوت کیوں کی؟اسلئےتاکہ رسول اللہ کہہ سکیں
اےعلی! تمہاری وجہ سےمومنین کامیاب ہونگے۔جوبھی تم سےجداہوگا وہ کبھی بھی فلاح وکامیابی نہیں پائےگا۔
انبیا کا خلاصہ
زیارت جامعہ کےدوسرے حصہ میں پڑھتے ہیں :
وَسُلَالَةُ النَّبِيِّينَ وَ صَفْوَةُ الْمُرْسَلِين؛
سلالہ کی معنی ہےکسی پھل کا جوس، نچوڑ، اصل جوھر یعنی اگر تمام انبیا کا خلاصہ جو کہ علم و حقائق و معارف ہیں، ایک جگہ جمع ہوں تو ان تمام کمالات کا نچوڑ آئمہ ہیں۔
صفوة المرسلین
یعنی اگربہترین اورخالص مسلمانوں کوجداکیاجائے،بہترین مرسل اورخداکی طرفسےبھیجےہوےبہترین پیغام لانےوالےآپ ہیں۔جب گل کا پانی نکالا جاتا ہےتو گلاب بن جاتا ہےاب اگر دوبارہ اس کو ابال کر دوبارہ آب لیا جائے تو اسےسلالہ کہتے ہیں یعنی گلاب۔
سلالة النبین
بتا رہا ہےکہ انبیا گل ہیں اور آپ آئمہ گلاب ہیں۔
صفو ة المرسلین
بتا رہا ہےکہ 313 رسول گلاب کےمانند ہیں آپ اس گلاب کی عطر اور خوشبو ہیں۔
تقرب کا برترین مقام
زیارت کےایک اور حصہ میں عرض کرتے ہیں:
فَبَلَغَ اللَّهُ بِکُمْ أَشْرَفَ مَحَلِّ الْمُکَرَّمِينَ وَ أَعْلَى مَنَازِلِ الْمُقَرَّبِينَ وَ أَرْفَعَ دَرَجَاتِ الْمُرْسَلِين؛
پس خدا نےآپ کو صاحبان عظمت کےبلند مقام پر پہنچایا اور اپنےمقربین کی بلندمنزلوں تک لے گیا اور اپنےپیغمبروں کےاونچے مراتب عطا فرمائے۔
یہاں فقط یہ نہیں کہا جا رہا کہ آپ مقام نبوت و رسالت رکھتے ہیں بلکہ کہا جا رہا ہے: آپ نبوت کا عالی درجہ رکھتے ہیں جو کہ وہی پیغمبر اکرم کا درجہ ہےیعنی آپ کا مقام پیغمبر کےمقام کےبرابر ہے۔
اس جملے سےجو دوسری معنا سمجھ میں آتی ہےوہ بکم میں جو با ہےوہ سببیت کی معنی میں ہےیعنی خدانےآپ کی وجہ سےمرسلین کو بلند وبالا درجہ عطا کیا اورمقربین کو مقرب بنایا جو بھی تقرب کےاعلی درجہ پر فائز ہوا ہےاور رسالت کےاعلی درجہ پر پہنچا ہےآپ کےصدقہ میں خداوند نےاسےوہ مقام عطا کیا ہے۔ ان جملات کو اگر ملائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ نبوتیں اور رسالتیں ایک منبع اور سرچشمہ سےنکلی ہیں جو کہ چھاردہ معصومین کا وجود اقدس ہے۔
آٹھویں مجلس
قرآن کی نظرمیں اہلبیت کا باب اللہ ہونا
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )
سورہ بقرہ، آیت 189
اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔
زیارت جامعہ کےاس حصے میں ائمہ معصومین کو باب اللہ سےتشبیہ دی گئی ہے۔
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی کےدروازوں میں سےایک دروازہ ہیں جس کےذریعے اللہ تعالی اپنےبندوں کا امتحان لیتا ہے۔
سب سےپہلےتویہ سوال پیداہوتاہےکہ: اللہ تعالی نےاہلبیت کی پہچان کیلئےتشبیہ کاسہاراکیوں لیاہے؟کبھی ائمہ معصومین کونجات کی کشتی کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو ہدایت کا چراغ کہا گیا ہے،کبھی ائمہ معصومین کو پاک درخت کہا گیا ہے، کبھی ائمہ معصومین کو چاند اورستاروں سےتشبیہ دی گئی ہے۔ ان تمام تشبیہات کا مقصد تمام انسانوں کو اہلبیت کی عظمت سمجھانا تھا کیونکہ اس دور میں عرب فکری بلندی نہ رکھتا تھا اس لئے مجبورا عقلی چیزوں کو محسوسات کےذریعے سمجھانا پڑتا تھا اسلئے ان کو اہلبیت کی عظمت سمجھانےکیلئے ان چیزوں سےتشبیہ دی جاتی تھی جس کو وہ آسانی سےسمجھ سکیں ۔
مثال کےطور پر رسول اکرم(ص) نےیہ سمجھانےکیلئے کہ : اہلبیت تمام فضائل اور کمالات کےمالک ہیں بہت ساری تشبیہات سےاستفادہ کیا ہے۔ کبھی ائمہ معصومین کو چراغ سےتو کبھی کشتی سےتشبیہ دی ہےاس طرح سےرسول اکرم(ص) سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طرح تمام انسان چراغ اور کشتی سےفائدہ حاصل کرتےہیں اس طرح اہلبیت کا وجود تمام انسانوں کیلئے فائدہ مند ہے۔
اہلبیت کو باب اللہ سےتشبیہ دینےکا سبب
ہم اس مقدمے کی روشنی میں سمجھنےکی کوشش کرتے ہیں کہ اہلبیت کودروازے سےکیوں تشبیہ دی گئی؟ اللہ تعالی نےقرآن مجید میں سورہ بقرہ کےدو مقامات پر ائمہ معصومین کو دروازے سےتشبیہ دی ہے۔
اللہ تعالی سورہ بقرہ کےایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
( وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )
سورہ بقرہ، آیت 189 ۔
اور یہ کوئی نیکی نہیں ہےکہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سےآؤ،بلکہ نیکی ان کےلئے ہےجو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔
یہ بات عقل کےمطابق نہیں اوریہ اچھی بات نہیں کہ کوئی انسان مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل ہو۔ انسان اسوقت تک مکان کےپچھواڑےسےگھرمیں داخل نہیں ہوسکتاجب تک اس گھرکونہ توڑےیاخراب نہ کرےپھروہاں سےگھرمیں داخل ہو۔
کیااللہ تعالی اس آیت میں ایک ایسےمسئلےکوبیان کرنا چاہتا ہےجس کو سب جانتے ہیں؟کیا اللہ تعالی اس آیت میں صرف یہ بیان کرناچاہتاہےکہ اپنےاوراپنےدوستوں کےگھروں میں پچھواڑےسےداخل نہ ہواکرو؟ نہیں! یہ مرادنہیں۔اس گھرسےمرادتوحیدکاگھرہے، رسالت کاگھرہے، قرآن کاگھرہے،گھرہے۔ اگر ہم کسی مادی گھرمیں پچھواڑےکی طرف سےداخل نہیں ہوسکتے تو اگر ہم اس معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں دروازے سےداخل ہونا چاہیے ۔ اب دیکھنا یہ ہےکہ اس معنوی گھر کا دروازہ کہاں ہے؟ توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دوازہ کہاں ہے؟ روایتوں میں آیا ہےکہ اس معنوی گھر توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کا دروازہ اہلبیت ہیں۔
اصبغ ابن نباتہ فرماتے ہیں:
کُنْتُ جَالِساً عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع فَجَاءَ ابْنُ الْکَوَّاء
میں امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں تھا اتنےمیں ابن کوا، داخل ہوا جو منافقین کا سردار تھا اور امام علی کےسخت دشمنوں میں شمار ہوتا تھا ۔ ابن کوا نےامیرالمومنین (ع) سےسوال کیا :
وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا
اس آیت کی تفسیرکیاہے؟امیرالمومنین(ع)نےجواب میں فرمایا:
نَحْنُ الْبُيُوتُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا وَ نَحْنُ بَابُ اللَّهِ وَ بُيُوتُهُ الَّتِي يُؤْتَى مِنْهُ فَمَنْ بَايَعَنَا وَ أَقَرَّ بِوَلَآیتنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَ مَنْ خَالَفَنَا وَ فَضَّلَ علینَا غَيْرَنَا فَقَدْ أَتَى الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا
بحارالانوار، ج23، ص 329
ہم وہ باب اللہ ہیں جسکےبارےمیں اللہ تعالی نےحکم فرمایا ہےکہ میرےگھرمیں اہلبیت کےدروازےسےداخل ہوں اب جوبھی ہماری پیروی کرےگااورہماری ولایت کااقرارکرےگاوہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل ہوا۔لیکن جوہماری مخالفت کرےگا اورہمارےحکم سےمنہ موڑےگااوردوسروں کوہم پرمقدم کرےگا وہ اسطرح ہےجیسےوہ گھرمیں دروازےسےداخل نہیں ہوا بلکہ وہ پچھواڑےسےداخل ہواہے۔
کون ہےجو گھر میں پچھواڑے سےداخل ہوتا ہے؟ وہ جو چوری کی نیت سےداخل ہوتا ہے۔ اب جو بھی معنوی گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے، توحید، رسالت، ایمان، اخلاق کےگھر میں داخل ہونا چاہتا ہےوہ اہلبیت کےدروازے سےداخل نہ ہو تو وہ چور شمار ہوگا ۔
روایتوں میں آیا ہےکہ اس طرح کےافراد چور کی طرح ہیں، امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
سَرَقُوا أَکْرَمَ آيَةٍ فِي کِتَابِ اللَّهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
بحارالانوار، ج89، ص 236۔
قرآن کی سب سےافضل آیت
( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )
جس کو چوری کیا گیا ہےاور کہتے ہیں
( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ )
قرآن کی سورتوں کا جزء نہیں ۔
کون ہیں جو اس طرح کہتے ہیں ؟ وہی جو دروازے سےداخل نہیں ہوئے اور دوسروں کو امیرالمومنین (ع) کی ولایت پر مقدم کرتےہیں ۔
گناہوں کی معافی کا دروازہ
سورہ بقرہ کی ایک اور آیت میں اللہ تعالی بنی اسرائیل سےفرماتا ہے:
( وَ إِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَکُلُوا مِنْها حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَ ادْخُلُوا الْبابَ سُجَّداً وَ قُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطاياکُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِين )
سورہ بقرہ، آیت 58۔
اوروہ وقت بھی یاد کروجب ہم نےکہا کہ اس قریہ میں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمینان سےکھاؤ اور دروازہ سےسجدہ کرتے ہوئے اور حط کہتے ہوئے داخل ہو کہ ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور ہم نیک عمل والوں کی جزا میں اضافہ بھی کردیتے ہیں
جب بنی اسرائیل نےبیت المقدس کو فتح کرنا چاہا، بلعم باعور نےبنی اسرائیل پر لعنت کرنا چاہی تو اس کی زبان گنگ ہو گئی اس نےحکم دیا کہ کچھ عورتیں سینگار کر کہ بنی اسرائیل کےلشکر میں داخل ہو جائیں تاکہ ان کو گمراہ کر سکیں اور جنگ سےباز رکھیں۔ اس وجہ سےان میں طاعون کا مرض پھیل گیا اور بنی اسرائیل چالیس سال تک بیابان میں گم پھرتے رہے۔ پھر اللہ تعالی نےبنی اسرائیل سےفرمایا : اب بیت المقدس کےشہر میں داخل ہو جاؤ اس حال میں کہ سر سجدے میں ہو اور زبان پر گناہوں کی معافی کی دعا ہو ۔ جب بنی اسرائیل شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شہر کا دروازہ بہت بڑا ہےتو انہوں نےسجدہ نہ کیا اور اللہ تعالی کےحکم سےمنہ موڑا ۔
روایتوں میں آیا ہےکہ : اللہ تعالی نےبنی اسرائیل کو سجدے کا حکم اس لئے دیا کہ شہر کےدروازے پہ امام علی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔
تفسیر صافی، ج 1 ، ص 136 ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: جب شہر میں داخل ہوں تو امام علی کی تصویر کےسامنےسجدہ کریں ۔ اللہ تعالی نےیہ نہیں فرمایا کہ(رکعا) رکوع کی حالت میں بلکہ فرمایا
( وَ ادخُلُوا البابَ سُجَّداً )
کہ سجدے کی حالت میں شہر کےدروازے میں داخل ہو جاؤ۔
ہم یہاں ایک نکتہ بیان کرتے ہیں : امام معصوم کےسامنےسجدہ کرنےکا کیا حکم ہے؟ شہید اول فرماتے ہیں : امام رضا اور ائمہ معصومین کی زیارت کےآداب میں سےایک یہ ہےجب ضریع میں، حرم میں داخل ہونا چاہیں تو زائر کو چاہیے پہلے بوسہ لے اور پیشانی کو زمین پہ رکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔
دروس، ج 2 ، ص 25
حقیقت میں جب ہم امام کی زیارت کرتے ہیں تو اللہ تعالی کو سجدہ کرتےہیں جس طرح اللہ تعالی نےفرشتوں کو حکم دیا جب حضرت آدم پر نظر پڑے تو سجدہ کریں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔ جب حضرت آدم کو فرشتے سجدہ کر سکتے ہیں تو امام معصوم کو جو کہ پوری کائنات کےساتھ ساتھ حضرت آدم کی بھی تخلیق کا سبب ہیں ان کو سجدہ کیوں نہ کیا جائے!
کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کام ٹھیک نہیں ؟ لیکن کئی بار میں نےخود دیکھا ہےکہ مرحوم اراکی جب زیارت کیلئے ضریع میں داخل ہوتے تو اپنی پیشانی کو فرش پہ رکھتے اور چومتے ۔ حضرت آیت اللہ بہجت جب خلوت میں ہوتے تو خود کو زمین پہ گراتے اور چوکھٹ کو چومتے رہتے۔
آیت آگے بڑھتی ہےاور فرماتی ہے
وَ قُولُوا حِطَّةٌ:
جب سجدہ کرو تو کہنا : معافی معافی یعنی اللہ تعالی ہمارے گناہ معاف فرما۔ اس آیت کی تفسیر میں امام باقر فرماتے ہیں کہ :
نَحْنُ بَابُ حِطَّتِکُمْ
تفسیر برھان، ج 1 ، ص 104: نورالثقلین، ج 1 ، ص 83
ہم گناہوں کی بخشش کا دروازہ ہیں ۔ ایک اور روایت میں امام علی فرماتے ہیں کہ:
( نَحْنُ) أَنَا بَابُ حِطَّة
بحارالانوار، ج 65 ، ص 61 ۔
وہ دروازہ جس کےسامنےبنی اسرائیل گناہوں کی بخشش طلب کررہےتھے وہ دروازہ ہم ائمہ معصومین ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہےجب تک بنی اسرائیل سےامیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین (ع)راضی نہ ہوں گے اللہ تعالی ان کےگناہ معاف نہیں کرے گا ۔
بنی اسرائیل حطہ کی جگہ پہ حنطہ
بحارالانوار، ج 13 ، ص 179 ۔
یعنی گندم پکار رہےتھے۔ اگر انسان کی فکر مادی ہوگی تو وہ قرآن کی تفسیر بھی مادی کرے گا ۔
زیارت جامعہ کےایک حصے میں ارشاد ہوتا ہےکہ :
يَا وَلِيَّ اللَّهِ إِنَّ بَيْنِي وَ بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ذُنُوبا لا يَأْتِي علیها إِلا رِضَاکُمْ
اے خدا کےولی میرے اور خدائے عزوجل کےدرمیان وہ گناہ ہیں جو سوائے آپ کی رضامندی کےمحو نہیں ہو سکتے۔
اگر ہم لاکھوں مرتبہ استغفار کریں پوری رات صبح تک گریہ کریں کو ئی فائدہ نہیں ۔ پس کس طرح ہم اپنےگناہوں کی بخشش کروائیں ؟
روایتوں میں آیا ہےکہ پیر یا جمعرات کو ہمارے نامہ اعمال امام معصوم کےسامنےپیش ہوتے ہیں وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جب ہم نیک عمل کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے توفیق کےاضافے کی دعا کرتے ہیں اور جب ہم برے اعمال کرتے ہیں تو امام ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں ان کا استغفار ہمارےلئے فائدہ مند ہے۔
تفسیر نورالثقلین، ج 2 ، ص 264 ۔
رسول اکرم(ص) کےزمانےمیں بھی اسی طرح تھا ۔ استغفار کےآداب میں ہےکہ لوگ رسول اکرم(ص) کی خدمت حاضر ہوں تاکہ رسول اکرم(ص)ان کیلئےاستغفار کریں اوراللہ تعالی ان کےگناہوں کو معاف کرے۔
مدینہ المعاجز، ج 8 ، ص 271 ۔
حقیقت میں ولایت کااعتقادگناہوں کی بخشش کاذریعہ ہے۔جب ہم ولایت پرایمان رکھتے ہیں توہماری استغفارمیں اثرپیدا ہوتا ہے، ہماری نمازمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری توبہ میں اثر پیدا ہوتاہے، ہمارےرونےمیں اثر پیدا ہوتاہے، ہماری زیارت میں اثر پیدا ہوتا ہےاور اگر ہمیں ولایت پر یقین نہ ہو تو ان تمام اعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حقیقت میں اثر، ولایت کا ہے۔
نویں مجلس
روایات میں ائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَکُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )
سورہ یس، آیت 12 ۔
اور ہم نےہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے۔
رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :
ان علیا باب اله الاکبر
بحار، ج 40 ، ص 55 ۔
بتحقیق حضرت علی (ع)اللہ تعالی کا بڑا دروازہ ہے۔
گذشتہ بحث میں ہم نےان آیات کو ذکر کیا جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس مورد میں ہم ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن سےائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہےوہ روایات بہت زیادہ ہیں حد تواتر سےبھی زیادہ ۔ ہم یہاں اس موضوع میں چند روایتوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
رسول اکرم(ص) ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
ان علیا باب اله الاکبر
امیرالمومنین (ع) اللہ تعالی کی طرف اور توحید کی طرف رہنمائی کرنےوالا بزرگترین دروازہ ہے۔اسی طرح رسول اکرم(ص) ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
أَنَّ علیاً بَابُ الْهُدَى بعْدِي؛
امالی الصدوق، ص 20 ۔
امیرالمومنین (ع) میرے بعد باب ہدایت ہیں۔ تمام انبیاء اللہ تعالی تک پہنچنےکا ذریعہ ہیں لیکن وہ انبیاء بھی اللہ تعالی تک پہنچنےکیلئے ایک دروازے اور ذریعے کےمحتاج ہیں جو کہ بزرگترین باب اللہ ہیں اور بزرگترین باب اللہ امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین ہیں ۔
سلیم بن قیس ہلالی کوفی حضرت سلمان سےنقل کرتے ہیں کہ :
فَمَنْ دَخَلَهُ کَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ کَانَ کَافِرا ؛
کتاب سلیم بن قیس، ص 168 ؛ بحار، ج 40 ، ص 97 ۔
امیر المومنین باب اللہ ہیں جو ان کےراستے اور اس دروازے سےاسلام میں داخل ہوا وہ مومن ہےاور جو اس دروازے سےخارج ہوا وہ کافر ہے۔
ایمان اور کفر
ہم یہاں ایک علمی نکتے کو بیان کرتے ہیں : ہر کلمہ اور صفت کا ایک ضد اور مقابل ہوتا ہےجیسےنور کا ظلمت، رات کا دن، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ایمان کا ضد اور مقابل کیا ہے؟ کیا ایمان کا ضد مسلمان ہے؟ نہیں ۔ اگر ہم ان آیتوں کو ملاحظہ کریں جواللہ تعالی نےایمان کےمتعلق نازل فرمائی ہیں تو پتا چلتا ہےکہ اللہ تعالی نےایمان کےمقابل اور ضد کےطور پر کلمہ فاسق کو استعمال کیا ہے۔
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( أَفَمَن کَانَ مُؤْمِنًا کَمَن کَانَ فَاسِقًا لَّا يَسْتَوُونَ ۔)
کیا وہ شخص جو صاحبِ ایمان ہےاس کےمثل ہوجائے گا جو فاسق ہےہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
احادیث اور روایات میں مومن سےمراد وہ انسان ہےجو ائمہ معصومین کی امامت کو قبول کرے۔ حقیقت میں ایمان کا رکن، امامت اور ولایت ائمہ معصومین (ع)ہے۔ جو ولایت نہیں رکھتا وہ مومن نہیں اور جو مومن نہیں وہ مومن کا ضد اور مقابل ہےیعنی وہ کفر کی صف میں کھڑاہےاور ضروری ہےکہ اسےکافر گنا جائے۔
ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں کہ :
مَنْ أَتَاکُمْ نَجَا وَ مَنْ لَمْ يَأْتِکُمْ هَلَکَ
جو آپ کےپاس آگیا اس نےنجات پالی اور جو نہ آیا ہلاک ہو گیا۔
حضرت سلمان فرماتےہیں: جوبھی امامت کےماننےکےبعدامامت کامنکرہواوہ کافرہے۔لیکن امام علی نقی زیارت جامعہ میں اس بھی آگےبڑھ کرفرماتے ہیں: جوبھی امامت اورولایت کونہیں مانتا وہ کافرہے۔اوریہ سچا مطلب رسول اکرم(ص)کی حدیث سےلیاگیاہےجس میں رسول اکرم(ص)فرماتے ہیں:جوبھی اس حال میں مرا کہ اپنےزمانےکےامام کی معرفت نہیں رکھتا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ جیسا کہ پہلے اشارہ ہوا کہ زمان جاہلیت کفر والا زمانہ تھا۔
اللہ تعالی کی معرفت کا دروازہ
ایک اورروایت میں امام صادق(ع)فرماتے ہیں:
الاوصیاءُ هم ابواب الله عزوجل التي يوتى منهاولولاهم ماعرف الله بهم احتج الله علی خلقه؛
کافی، ج 1 ، ص 193 ۔
اوصیا ہی باب اللہ ہیں جس سےداخل ہوا جاتا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو اللہ کی معرفت حاصل نہ کہ جا سکتی ان کےذریعہ سےہی خداوندمتعال نےلوگوں پر اتمام حجت کی ہے۔
یعنی رسول اکرم(ص)کےجانشین ناقابل شکست باب اللہ ہیں جن سےاللہ تعالی ہرایک کوعطاکرتاہےہمیں چاہیے ان کےدرسےتوحید کو حاصل کریں اگر یہ نہ ہوتے تواللہ تعالی کی معرفت ممکن نہ تھی اور ان کےسبب اللہ تعالی نےتمام مخلوق پر حجت کو تمام کیاہے۔اس روایت میں امام صادق(ع)نےائمہ معصومین کو باب اللہ پکاراہےیعنی جو بھی چاہتا ہےکہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرے اسےچاہیے اہلبیت کےراستے سےخدا تک پہنچے ورنہ اہلبیت کےراستے کو چھوڑ کر اللہ تعالی تک پہنچنا محال ہے؛ کیونکہ اہلبیت کےعلاوہ کوئی اللہ تعالی کی معرفت نہیں رکھتا ۔
سیدالشہداء امام حسین اس آیت
( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )
کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِکْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ کُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ علیهمْ طَاعَتُهُ؛
تفسیرصافی، ج 5 ، ص 75 ۔
پوری کائنات کی خلقت کامقصد اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرناہےاورجب اللہ تعالی کی معرفت ہوگی تواللہ تعالی کی عبادت کی جائےگی اورجب اللہ تعالی کی عبادت ہوگی توغیرکی عبادت سےانسان کی جان چھوٹ جائےگی۔
ہم دعائےکمیل میں پڑھتے ہیں کہ:اللہ تعالی کی بندگی انسان کوغیرسےبے نیازبنادیتی ہے۔ہم جو کہ دنیاکی ہوا، ہوس، زرق اور برق میں مبتلا ہیں کیسےدنیاسےبےنیازہوسکتےہیں؟ہم جب اللہ تعالی کےبندے بن جائیںگےسب قیدوں سےآزادہوجائیںگےاورتمام چیزوں سےبےنیازہوجائیںگے۔اسکےبعدراوی نےسوال کیا:اللہ تعالی کی معرفت سےکیامرادہے؟ہم کیسےاللہ تعالی کی معرفت حاصل کریں؟امام نےفرمایا:اللہ تعالی کی معرفت سےمرادانسان کااپنےوقت کےامام کوپہچاننا ہےجسکی اطاعت اللہ تعالی نےواجب قراردی ہے۔
اس بنا پر اگر ہم نےامام زمانہ کو پہچانا تو ہم اللہ تعالی کی معرفت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر نہج البلاغہ نہ ہوتا، صحیفہ سجادیہ نہ ہوتا، اہلبیت کےکلمات نہ ہوتے توہم اللہ تعالی کو کیسےپہچانتے؟ جس طرح اہلسنت حضرات اللہ کو نہیں پہچان سکےاور ان میں سےاکثر اللہ تعالی کی جسمانیت کےقائل ہوگئے ہیں۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
َ ذِرْوَةُ الْأَمْرِ وَ سَنَامُهُ وَ مِفْتَاحُهُ وَ بَابُ الْأَنْبِيَاءِ وَ رِضَى الرَّحْمَنِ الطَّاعَةُ لِلْإِمَامِ بَعْدَ مَعْرِفَتِه؛
بحار، ج 23 ، ص 294 ۔
جو بھی اسلام کےبلند قلعے میں داخل ہونا چاہتا ہے، اور جو بھی اسلام کےبلند قلعے کی چابی چاہتا ہے،اور جو بھی اللہ تعالی کی رضایت چاہتا ہے، جو بھی تمام چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے(جیسےسیاست، اقتصاد، اخلاق، اعتقاد، عرفان، عبادت) اس کو دو کام کرنےچاہییں۔
پہلا : امام کی معرفت۔ دوسرا : امام کی اطاعت۔
فکر کی اصلاح (حکمت نظری)امام کی معرفت میں ہےاور عمل کی اصلاح (حکمت عملی) امام کی پیروی میں ہے۔ہم اس کام کےذریعے تمام چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے امام کو پہچان کر قبول کریں پھر امام کی اطاعت کرنےکی کوشش کریں۔
( وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ )
سورہ اعراف، آیت 180 ۔
(اور اللہ ہی کےلئےبہترین نام ہیں)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
امام رضا:
نحن واللَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ؛
کافی، ج 1 ، ص 144 ۔
اللہ تعالی کی قسم ! اللہ تعالی کےاسماء حسنی ہم اہلبیت ہیں ۔
اسم آئینےکو کہتے ہیں جس کےسامنےکسی چیز کو دیکھا جائے اور پہچانا جائے۔
اس بناءپرہم کہتےہیں اللہ تعالی کےاسماء حسنی اہلبیت ہیں۔اسکاکیامطلب ہوا؟جب ہم اپنا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آئینےکی طرف جاتے ہیں اوراپناچہرہ دیکھتے ہیں۔اگرہم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھناچاہتےہیں توبھی ایک آئینےکی ضرورت ہے۔اورائمہ معصومین وہ آئینہ ہیں۔اگرتم اللہ تعالی کی قدرت،عظمت، رحمت، کودیکھنا چاہتےہو توجاؤاہلبیت کی قدرت،عظمت اوررحمت،کو دیکھو۔جب اہلبیت کی قدرت، عظمت اوررحمت، دیکھ سکوتواللہ تعالی کی قدرت،عظمت اوررحمت کوبھی دیکھ سکوگے۔
ایک روایت میں امام زین العابدین فرماتےہیں :
نَحْنُ أَبْوَابُ اللَّهِ وَ نَحْنُ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيم؛
معانی الاخبار، ص 14 ۔
ہم ہی باب اللہ ہیں ہم ہی سیدھا راستہ ہیں۔
( قُلْ أَرَآیتمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُکُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيکُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ )
سورہ ملک، آیت 30.
کہہ دیجئےکہ تمہاراکیاخیال ہےاگرتمہاراساراپانی زمین کےاندرجذب ہوجائےتوتمہارےلئےچشمہ کاپانی بہاکرکون لائےگا)اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
مَاؤُکُمْ أَبْوَابُکُمْ أَيِ الْأَئِمَّةُ وَ الْأَئِمَّةُ أَبْوَابُ اللَّهِ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ خَلْقِه؛
بحار، ج 24 ، ص 100 ۔
یعنی ائمہ معصومین اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کےدرمیان دروازہ ہیں ۔
یعنی توحید پر ایمان، معاد پر ایمان، رسالت پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، غیب پر ایمان کا ایک دراوزہ ہےجو کہ ہم اہلبیت ہیں ۔ جو ہم اہلبیت پر ایمان نہیں رکھتا اس کےپاس توحید، معاد، رسالت، ملائکہ، غیب پر ایمان نہیں ہے۔
اسی طرح شہر احکام، شہراخلاق، شہر یقین اورشہرعلم کا ایک دروازہ ہےجو کہ اہلبیت کی ذات ہے۔
قرآن کادروازہ اہلبیت ہیں۔جوقرآن پڑہناچاہتاہے، قرآن سمجھنا چاہتاہے، قرآن کےباطن کی آگاہی حاصل کرناچاہتاہے،تفسیرقرآن کو جانناچاہتاہے، قرآن کی لطافتوں اورنزاکتوں کاعلم حاصل کرناچاہتاہےتواسےدراہلبیت سےفیض حاصل کرناپڑےگا۔
دسویں مجلس
ائمہ معصومین، تمام کمالات کےلحاظ سےباب اللہ ہیں( 1)
اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا )
سورہ اعراف، آیت 18 ۔
اور اللہ ہی کےلئے بہترین نام ہیں لہذا اسےان ہی کےذریعہ پکارو ۔
زیارت جامعہ میں ہے:
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاس
ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ اہلبیت تمام کمالات میں باب اللہ ہیں۔
اب یہاں ہم اہلبیت کےباب اللہ ہونےکےمصداق بیان کررہےہیں۔
کبھی کوئی شخص کسی کا باب اوردربان ہوتاہےاس معنی میں کہ اس کامشاوراقتصادی ہوتاہےلیکن وہ سیاسی مشاورنہیں ہوتااور کبھی اسکامشاورسیاسی ہوتاہےلیکن وہ اقتصادی مشاور نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ کیاائمہ معصومین کسی خاص جہت سےباب اللہ ہیں یاچندجہتوں سےباب اللہ ہیں؟جیسےتوحیدکی جہت سےباب اللہ ہوں لیکن اللہ تعالی کی رحمت کےلحاظ سےباب اللہ نہ ہوں؟
جب ہم روایات پہ نظرڈالتے ہیں تومعلوم ہوتا ہےکہ اہلبیت تمام کمالات، تمام تکوینی اور تشریعی خوبیوں میں باب اللہ ہیں یعنی کوئی انسان کسی کمال تک نہیں پہنچ سکتا سوائے امامت کےراستے پر چل کر اور ائمہ معصومین کی پیروی کر کے۔ ہم یہاں نمونےکےطورامام صادق(ع)کی ایک روایت ذکرکرتےہیں امام فرماتےہیں:
نَحْنُ أَصْلُ کُلِّ خَيْرٍ وَ مِنْ فُرُوعِنَا کُلُّ بِرٍّ وَ مِنَ الْبِرِّ التَّوْحِيدُ وَ الصَّلَاةُ وَ الصِّيَامُ وَ کَظْمُ الْغَيْظِ وَ الْعَفْوُ عَنِ الْمُسِيء؛
بحار، ج 24 ، ص 303 ۔
ہم تمام نیکیوں اور خوبیوں کی اصل ہیں اور تمام نیکیاں اورخوبیاں ہماری شاخیں ہیں۔توحید، نماز، روزہ،کسی کی خطا سےدرگذر کرنا،اپنےغصےکو پینابھی ان نیکیوں میں سےہیں۔ یعنی ہم تمام نیکیوں اور خوبیوں کی اصل ہیں اس جملے کا مطلب یہ ہےکہ اصول دین، فروع دین، مسائل اخلاقی، مسائل عبادی اورتمام کمالات جو اس عالم میں پائے جاتے ہیں سب کا منبع اوراصل، ائمہ معصومین ہیں۔ کوئی بھی انسان کوئی بھی خوبی رکھتا ہو چاہےجانےیا نہ جانےلیکن حقیقت یہ ہےکہ اس نےیہ خوبی ائمہ معصومین سےلی ہے۔ اسلئےامام نےارشاد فرمایا : تمام نیکیاں اور خوبیاں ہماری شاخیں ہیں، ان نیکیوں اور شاخوں میں سےایک توحید ہےیعنی اگر کوئی اللہ تعالی کی توحید کا قائل ہےچاہےنبی ہویا فرشتہ ہو یا انسان ہو اس نےتوحید ہم سےلی ہے۔
ایک خوبصورت روایت میں رسول اکرم، ابن مسعودسےفرماتے ہیں: ہم نےسبحان اللہ کہا تو فرشتوں نےبھی سبحان اللہ کہا، ہم نےلاالہ الا اللہ کہاتوفرشتوں نےبھی لاالہ الا اللہ کہا، ہم نےاللہ اکبرکہا تو فرشتوں نےبھی اللہ اکبرکہا۔
علل الشرایر، ج 1 ، ص 5 ۔
حضرت آدم بھی تسبیح اور تھلیل اور تکبیر کہنا نہیں جانتے تھے اسلئے اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا :
( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّهَا )
سورہ بقرہ، آیت 31 ۔
اور خدا نےآدم علیہ السّلام کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔
یعنی حضرت آدم کےاستاد اورمعلم امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین (ع)ہیں۔
علامہ مجلسی اس موضوع کےذیل میں ارشاد فرماتے ہیں :
فقد ثبت من الاخبار المستفیضة ان العلوم والمعارف و الرحمات يفيض الي سائر الخلق بواستطهم حتى الانبياءِ والملائکة؛
مراہ العقول ، ج 1 ، ص 30 ۔
متعددروایات سےثابت ہےکہ تمام علوم اورمعارف ائمہ معصومین کےوسیلےسےتمام مخلوق تک پہنچتے ہیں یہاں تک کہ تمام انبیاء اورفرشتوں نےبھی تمام علوم اورمعارف کو ائمہ معصومین(ع)سےلیاہے۔ علامہ مجلسی ان روایات سےیہ خوبصورت نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ائمہ معصومین (ع) تمام مادی اور معنوی فیوضات کا سرچشمہ ہیں۔
اس مطلب کو علامہ مجلسی نےبیان کیا ہےاس کی شخصیت کےبارے میں آیت اللہ مرعشی نجفی اپنےفقہ کےدرس خارج میں بیان کرتے ہیں : میرے والد نےرسول اکرم(ص) کو خواب میں دیکھا وہ نور کےمنبر پہ جلوہ افروز تھے اور ان کےگرد علماء ربانی اور ولایت کےرستے پر چلنےوالے تشریف فرما تھے جو شخص رسول اکرم(ص) کےسب سےنزدیک تھے وہ علامہ مجلسی تھے اس حالت میں رسول اکرم(ص) نےسب کےسامنےبحارالانوار کی کتاب پیش کی اور اس کتاب کو علماء کےسپرد کیا یعنی جاؤ اس کتاب کو پڑھو بعض بزرگان اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم نےپوری بحارالانوار کا ایک بار مطالعہ کیا ہے۔
معصومین سےفیض پانا
مرحوم مرزا اسماعیل دولابی فرماتے تھے : میں طالبعلم تھا مجھے علم اور دانش سےبہت پیار تھا میں نےاس مبارک سر زمین سےاپنےسینےکو اتنا رگڑا کہ میرا سینہ زخمی ہو گیا میں پھر بھی کہہ رہا تھا مجھے علم اور دانش چاہیےمیرے سینےکو علم اور دانش سےبھر دو ! ایک دن میں امام حسین کےحرم گیا اور ہاتھوں کو پھیلا کر اس جملے کا تکرار کرنےلگا : جو ایک نظر کرم سےمٹی کو کیمیا بناتے ہیں کیا ممکن ہےمجھ پر تھوڑی نظر کرم کریں ! اچانک میں نےدیکھا کہ میرا سینا کھلا، حکمت اور معارف سےپر ہوگیا اس بنا پر علوم کو سیکھنا صرف مدرسہ پڑھنےپر موقوف نہیں اک اور راستہ بھی ہےوہ ہےاہلبیت سےتوسل۔ یہ اہلبیت کی صفت ہےاور اہلبیت سےہی مخصوص ہے؛ کیونکہ ابتدائے خلقت سےلے کر انتہا تک اللہ تعالی اور تمام مخلوق کےدرمیان واسطہ فیض مطلق اہلبیت ہیں۔ ہم امام حسین کی زیارت مطلقہ میں پڑھتے ہیں :
إِرَادَةُ الرَّبِّ فِي مَقَادیر أُمُورِهِ تَهْبِطُ إِلَيْکُمْ وَ تَصْدُرُ مِنْ بُيُوتِکُم؛
مفاتیح، زیارت مطلقہ امام حسین علیہ السلام کا ایک حصہ
تمام امورکےمتعلق ارادہ الہی اور مقادیر الہی پہلے آپکےگھرآتےہیں اورپھرآپ کےگھرسےصادرہوتے ہیں۔یعنی تمام مقدرات پہلے اہلبیت کےقلب پر نازل ہوتے ہیں پھرتمام افرادکی ظرفیت اورتوسل کےلحاظ سےاہلبیت سےان کی طرف منتقل ہوتےہیں۔
کمیل ابن زیاد امام علی کےرازدار ساتھیوں میں سےتھے وہ حضرت علی (ع)کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : ما الحقیقہ؛مولا بتائیے حقیقت کیا ہے؟ امام نےفرمایا :
هما لک و الحقیقه؛
تم حقیقت کا کیا کرو گے؟ کمیل نےجواب دیا :
او لست صاحب سرک؛
مولاکیامیں آپکےرازدارساتھیوں میں سےنہیں ہوں؟مجھے یہ رازبتائیے۔امام نےفرمایا: ہاں تم میرےرازدارساتھیوں میں سےہو لیکن سارےرازنہیں جانتےحقیقت یہ ہےکہ جب ہم پانی پیتےہیں توہمارےہونٹوں پہ جو پانی کےقطرےسےبہت کم نمی آتی ہےاتنا راز تمہیں بتا رہا ہوں۔
نور البراھین، ج 1 ، ص 221 ۔
کلام کےامیر
اسی طرح امیرالمومنین (ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
و انا لامراء الکلام؛
ہم امیرکلام ہیں۔ اس جملے کی دومعنی ہو سکتی ہیں۔
پہلی معنی : کسی بھی موضوع پر اورکسی بھی باب میں کوئی ائمہ معصومین سےبہترکلام نہیں بول سکتا۔ امام فرماتے ہیں :
وَ إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْکَلَام؛
نہج البلاغہ ، خطبہ 233 ۔
ہم امیرکلام ہیں، کلام کی اصل ہمارےگھرسےہےاورکلام کی شاخیں اورپتےبھی ہمارےگھرسےجڑےہوئےہیں۔
ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں :
کلامکم نور؛
آپ کا کلام نورہے۔نورکی طرح حق کےراستےکوباطل سےجدا کرتاہے۔ ان جملوں میں کچھ پیغام ہےوہ پیغام یہ ہےکہ ہم کسی بھی موضوع پر اور کسی بھی باب میں کوئی کلام کرنا چاہیں توہمیں ائمہ معصومین کا سہارا لینا پڑے گا نہ یہ کہ ہم مغرب کی طرف جائیں اور ان کےکتابوں کی جستجو کریں!
دوسری معنی : ہم کلام کےامیر ہیں اور علم کلام توحید، نبوت، معاد وغیرہ سےگفتگو کرتا ہےیعنی ہم علم توحید، علم معاد کےامام ہیں۔
نمازکی روح
اس روایت میں آگے چل کہ امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں :
وَ مِنَ الْبِرِّ التَّوْحِيدُ وَ الصَّلَاةُ ؛
بحار، ج 24 ، ص 303
توحید اورنمازنیکیوں میں سےہیں یعنی نماز بھی ہماری فرع ہے۔دسیوں دیگرروایتوں میں ائمہ معصومین نےخودکونمازکی اصل اورنمازکواپنی فرع بتایاہے۔یہاں سوال یہ پیداہوتاہےکہ نمازافضل ہےیاامام؟کہاجاتاہےکہ امام حسین نمازپرفداہوگئے۔حالانکہ یہ بات غلط ہے؛کیونکہ نمازامام حسین پرفداہوئی ہے۔ اگرآپ فقہاءسےسوال کریں نمازاورامام کی جان بچانےمیں سےکونساکام اہم ہے؟تمام فقہاء کامتفقہ فیصلہ ہوگاامام کی جان بچاناضروری ہےاس حالت میں نمازکوچھوڑدیناچاہیے۔
ایک روایت میں امام فرماتےہیں:رسول اکرم(ص)کاسرمبارک امیرالمومنین(ع)کی گودمیں تھاکہ سورج غروب ہوگیا۔جب رسول اکرم(ص)بیدارہوئےتوفرمایا:اےعلی!تونےنمازعصر پڑھی ہے؟ امام نےفرمایا:نہیں رسول اکرم نےپوچھا:کیوں؟امام نےفرمایا:کیونکہ آپ کاسرمیری گودمیں تھاآپ کاسونا میری نمازعصرسےبہترتھا ۔
کافی، ج 4 ، ص 562
حقیقت نمازاورنمازکےوجوب کافلسفہ، رسول اکرم(ص)ہیں۔اللہ تعالی نےامامت اورنبوت تک پہنچنےکیلئےنمازکوواجب کیاہے۔رسول اکرم(ص)نےدعا فرمائی کہ اللہ تعالی سورج کوواپس پلٹائےسورج واپس پلٹااورامیرالمومنین(ع)نےنمازعصرادا کی۔
امام صادق(ع)نےفرمایا :
وَ هَلِ الدِّينُ إِلَّا الْحُب؛
خصال، ص 21 ۔
کیادین ائمہ معصومین سےمحبت اوردوستی کےعلاہ کوئی اورچیزہے؟ائمہ معصومین دین سےافضل ہیں دین کوان پرفداہوناچاہیے۔امام صادق(ع)کی روایت سےیہ نتیجہ نکلاکہ توحید،نماز، روزہ، غصےکو پینا، ہمسایوں سےاچھاسلوک،کسی کی خطاکومعاف کرنا، اخلاق، عبادات ان سب کی اصل اہلبیت ہیں اوریہ اہلبیت تک پہنچنےکاذریعہ ہیں۔
زیارت جامعہ کےایک اورحصے میں آیا ہے
إِنْ ذُکِرَ الْخَيْرُ کُنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاه؛
اگر خیر کا تذکرہ کیا جائے تو آپ اس کی ابتدا اصل اور فرع ہیں۔
تمام نیکیوں کا آغاز
اگرنیکی کی بات آئےتوآپ سب سےمقدم ہیں۔ معارف نیکی ہیں،عبادات نیکی ہیں،مسائل اخلاقی نیکی ہیں،فطرت نیکی ہےلیکن آپ سب سےمقدم ہیں اس معنی میں کہ اللہ تعالی نےتمام مخلوقات میں سےسب سےپہلےچہاردہ معصومین کوپیداکیاجسطرح پہلےاشارہ ہواکہ چہاردہ معصومین کی خلقت نورانی ایک ہی وقت ایک ساتھ ہوئی ہےخلقت کی لحاظ سےان چہاردہ معصومین میں سےکوئی کسی سےپہلےاوربعدمیں نہیں لیکن جب اللہ تعالی نےانہیں اس دنیامیں بھیجناچاہاتو یہ زمانی فاصلہ وجودمیں آیا۔
امام صادق (ع) نےفرمایا :
لَوْ لَا مُحَمَّدٌ ص وَ الْأَوْصِيَاءُ مِنْ وُلْدِهِ لَکُنْتُمْ حَيَارَى کَالْبَهَائِمِ لَا تَعْرِفُونَ فَرْضاً مِنَ الْفَرَائِض؛
بحار، ج 75 ، ص 376
اگررسول اکرم(ص)اورانکےجانشین نہ ہوتےتوتمام لوگ حیوانوں کی طرح حیران اورپریشان ہوتےاوراصول دین اورفروع دین کےبارےمیں کچھ نہ جانتے۔
تمام نیکیوں کی جڑ
آپ تمام نیکیوں اورخوبیوں کی جڑ ہیں امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
نحن اصل کل بر؛
ہم تمام نیکیوں اورخوبیوں کی جڑہیں اگرکوئی ذرابرابربھی نیکی اورخوبی رکھتاہےتو اسکامطلب ہےاسکےدل میں اہلبیت کی محبت اوردوستی پائی جاتی ہے۔
امام صادق (ع)فرماتے ہیں :
إن شيعتنا منا خلقوا من فاضل طينتنا و عجنوا بماء ولآیتنا؛
شجرہ طوبی، ج 1 ، ص 6
ہمارےشیعہ نیکیوں اورفضیلتوں کےمالک ہیں کیونکہ انکاوجودائمہ معصومین کی فاضل طینیت سےبنایاگیاہےاورانکوہماری ولایت سےسیراب کیاگیاہے۔
امیرالمومنین(ع)نےسلمان سےفرمایا: تمہارے پاس جوکچھ ہےہمارےسبب ہےکیونکہ تمہاراوجودہماری فاضل طینیت سےبنایاگیاہےاور تمہیں ہماری ولایت سےسیراب کیاگیاہے۔ اسلئےتم
منا اهل البیت؛
ہم اہلبیت میں سےہو۔
الاحتجاج، ج 1 ، ص 387 ۔
نیکی کی معدن
اللہ تعالی نےہرچیزکی معدن بنائی ہےسونےکی ایک معدن ہے،چاندی کی ایک معدن ہے۔اسیطرح تمام فضائل اورکمالات کی معدن ائمہ معصومین ہیں ہرپیغمبراورہروصی پیغمبراورہرولی اورہرمومن نےکچھ مقدارمیں اس معدن سےکمال اورنیکیاں لی ہیں۔
نیکی کا مقام
ماوی یعنی کسی چیز کا مقام معدن کےعلاوہ کسی چیز کےپلٹنےکی جگہ یعنی تمام کمالات کی ابتدا اور معدن آپ ہیں اور تمام کمالات کےپلٹنےکی جگہ بھی ائمہ معصومین ہیں۔
ہر نیکی اورفضیلت کا ایک کمال ہےجس تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا۔اگرکوئی انسان تمام نیکیاں اورفضیلتیں حاصل بھی کرلےتو بھی اس نیکی اورفضیلت کےانتہائی درجہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ تمام نیکیوں اورفضیلتوں کی انتہا آپ ائمہ معصومین ہیں۔حقیقت میں علم کی انتہا،حلم کی انتہا،تقوی کی انتہا،ہرنیکی اورکمال جواس دنیا میں پایاجاتاہےاسکی انتہاائمہ معصومین ہیں۔
زیارت جامعہ میں ایک اور جگہ پر آیا ہے:
حَيْثُ لا يَلْحَقُهُ لاحِقٌ وَ لا يَفُوقُهُ فَائِقٌ وَ لا يَسْبِقُهُ سَابِقٌ وَ لا يَطْمَعُ فِي إِدْرَاکِهِ طَامِعٌ
کہ اس درجہ تک کوئی بعدمیں نہ پہنچ سکا اوراس سےبلندمرتبہ تک کسی کیلئے راہ نہیں اوراس تک کوئی پہلےبھی نہیں پہنچااوراس مقام کےپانےکی کوئی لالچ نہیں کر سکتا ہے۔
یعنی کوئی بھی انسان ائمہ معصومین(ع)کےمقام تک نہیں پہنچ سکتااوران سےآگےنہیں بڑھ سکتا، کوئی انکےمرتبےتک پہنچنےکی تمنا اورلالچ بھی نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی چیزکی تمنااورلالچ کیلئےضروری ہےکہ انسان کی فکر اس چیز تک پہنچے اب کون ہےجس کی فکر اس مقام تک پہنچے اور وہ اس کی آرزو کرے ؟
اللہ تعالی ہم سب کو ائمہ معصومین کی ولایت جیسی عظیم نعمت کےقدردانوں میں قرار دے ۔
گیارہویں مجلس
ائمہ معصومین تمام کمالات کےلحاظ سےباب اللہ ہیں( 2) اللہ تعالی قرآن میں ارشادفرماتا ہے:
( يَا آیتا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ ۔)
سورہ مائدہ، آیت 35 ۔
ایمان والواللہ سےڈرواوراس تک پہنچےکاوسیلہ تلاش کرو۔امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتے ہیں:
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جسکےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ہم نےذکرکیاکہ ائمہ معصومین تمام کمالات اورفضائل کےدروازےہیں۔ اس لحاظ سےتمام حاجتوں کی برآوری کیلئےاورتمام مشکلات کےحل کیلئے ان سےمدد لی جاسکتی ہے۔ہم تمام کےتمام سرسےپاؤں تک ان کےنیازمندہیں؛کیونکہ ہم بہت ساری مادی اورمعنوی مشکلات رکھتے ہیں۔ہم میں سےکوئی ایسانہیں جویہ کہہ سکےکہ مجھےکسی چیزکی ضرورت نہیں میں کسی کامحتاج نہیں۔دعائوں میں بھی ہماری یہ نشانی بیان کی گئی ہےکہ:
لَا يَمْلِکُ لِنَفْسِهِ نَفْعاً وَ لَا ضَرّاً وَ لَا مَوْتاً وَ لَا حَيَاةً وَ لَا نُشُورا؛
مفاتیح الجنان، تعقیب نماز عصر
نہ ہم اپنےفائدہ کےمالک ہیں، نہ ہم اپنےنقصان کےمالک ہیں، نہ ہم اپنی موت کےمالک ہیں، نہ ہم اپنےدوبارہ محشورہونےکےمالک ہیں،نہ ہم اپنےحساب کتاب کےمالک ہیں۔امیرالمومنین(ع)مناجات مسجدکوفہ میں فرماتےہیں ہم عبدہیں، ہم بندےہیں، ہم فقیرہیں، ہمارے پاس کوئی کمال نہیں۔
مفاتیح الجنان، مناجات مسجد کوفہ
کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمام کےتمام سرسےپاؤں تک نیازمندہیں ہم خوداپنےدم پرکچھ کرنےکی قدرت نہیں رکھتے۔
دوسرانکتہ یہ ہےکہ: جب ہم قرآنی آیات، روایات اوراحادیث کی طرف دیکھتےہیں توپتاچلتاہےکہ ائمہ معصومین غنی اوربےنیازہیں تمام فضائل اورکمالات انکےوجودمیں جمع ہوئےہیں جیساکہ ہم نےاشارہ کیاتمام مخلوق تک انکےذریعےفیض پہنچتاہے۔ اللہ تعالی قرآن میں رسول اکرم(ص)کیلئےارشادفرماتاہے:
( وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ )
سورہ ضحی، آیت 8 ۔
اورتم کوتنگ دست(یاصاحب عیال)پاکرغنی نہیں بنایاہے۔
یہاں عیال سےمرادصرف رسول اکرم(ص)کےگھروالےنہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہےکہ رسول اکرم(ص)کی بہت بڑی عیال نہیں تھی بلکہ روایات میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)کی عیال سےمرادتمام انسان ہیں تمام مخلوق آپکی عیال ہیں اورروزانہ اپنی روزی کیلئےآپکےدرپرآتے ہیں اسلئےاللہ تعالی نےآپکوغنی اوربےنیازکیاہےتاکہ تمام مخلوق تک انکےذریعےفیض پہنچتارہے۔
بحار، ج 19 ، ص 63 ۔
جیساکہ ہم جانتےہیں رسول اکرم(ص)کی کنیتوں میں سےایک کنیت ابوالقاسم ہے۔اسکی عام معنی تویہ ہےکہ رسول اکرم(ص)کا ایک بیٹاتھاجسکانام قاسم تھا۔لیکن امام صادق(ع)ایک روایت میں فرماتےہیں:قاسم امیرالمومنین(ع)کانام ہے۔
بحار، ج 16 ، ص 95 ۔
امیرالمومنین (ع) کو قاسم کیوں کہتے ہیں؟ کیونکہ امیرالمومنین (ع) لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں یہاں تک کہ فرشتے بھی اپنا معنوی رزق امیرالمومنین (ع) کےہاتھ سےلیتے ہیں۔ امیرالمومنین (ع) دنیا اور آخرت میں رزق باٹنےوالے ہیں کیونکہ رسول اکرم(ص) نےفرمایا ہے:
علی قَسِيمَ الْجَنَّةِ وَ النَّار؛
بحار، ج 53 ، ص 48 ۔
حضرت علی(ع)جنت اوردوزخ کوتقسیم کرنےوالےہیں آخرت میں مومنوں کوجنت اورکافروں کو دوزخ بھیجنےوالےامیرالمومنین (ع)ہیں۔کوئی بھی اپنی مراد تک نہیں پہنچ سکتاسوائےاہلبیت کےوسیلےسےاوراہلبیت کےدروازےسےیہاں تک کہ کافروں کی حاجتیں بھی اہلبیت کےدروازےسےرواہوتی ہیں۔
اہل مکاشفہ میں سےایک بزرگ فرماتےہیں:ہرایک کوعطاکرنےوالی ذات امیرالمومنین(ع)کی ہےیہاں تک کہ ہندمیں جوریاضت کرنےوالےہیں انکو بھی امیرالمومنین(ع)عطاکرتےہیں۔ریاضت کےبعدعالم مکاشفہ میں دیکھاگیا کہ اس جگہ امیرالمومنین(ع)تشریف لاتےہیں اورتمام ریاضت کرنےوالوں کوانکی ریاضت کےحساب سےعطاکرتےہیں۔امام سجادابوحمزہ سےفرماتےہیں :
يَا أَبَا حَمْزَةَ لَا تَنَامَنَّ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ فَإِنِّي أَکْرَهُهَا لَکَ إِنَّ اللَّهَ يُقَسِّمُ فِي ذَلِکَ الْوَقْتِ أَرْزَاقَ الْعِبَادِ وَ عَلَى أَيْدِينَا يُجْرِيهَا؛
بحار، ج 46 ، ص 23 ۔
اے ابوحمزہ!طلوع آفتاب سےپہلےمت سونامیں اس بات کوتمہارےلئےپسندنہیں کرتاکیونکہ مادی اورمعنوی رزق مخلوق میں اسوقت تقسیم کیاجاتاہےاوریہ کام بھی ہمارےہاتھ سےانجام پاتاہے۔ دوسری طرف امیرالمومنین(ع)ارشادفرماتےہیں:
ان رسول الله ادبه الله عز وجل وهو ادبنی و انا اودب المومنین؛
بحار، ج 74 ، ص 267 ۔
بتحقیق اللہ تعالی نےرسول اکرم(ص) کی تربیت کی ہےاور رسول اکرم(ص) نےمیری تربیت کی ہےاور میں مومنوں کی تربیت کرنےوالا ہوں۔ کیونکہ رسول اکرم(ص) نےحضرت علی (ع)کی تربیت کی ہےاس بنا پر وہ حضرت علی (ع)کےوالد ہوئے اور ان کی کنیت ابو القاسم یعنی قاسم (امیرالمومنین (ع) )کےبابا طے پائی۔
اہلبیت واسطہ فیض ہیں
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( يَا آیتا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ )
سورہ مائدہ، آیت 35 ۔
ایمان والو اللہ سےڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو ۔یعنی محتاج اورنیازمندانسانو!اب پتاچلاکہ انسان محتاج اورنیازمندہےجب پتاچل گیاتوآؤ!انکےدروازےپرجو اللہ تعالی کےنمائندےہیں اورائمہ معصومین کےدروازےسےحاصل کرو۔اس وسیلےسےکیامرادہےجو تقوی والوں کیلئےقراردیاگیاہے؟رسول اکرم(ص)ارشادفرماتےہیں:
نَحْنُ الْوَسِيلَة؛
بحار، ج 25 ، ص 23 ۔
ہم (اہلبیت) وسیلہ ہیں۔ یعنی ہمارے وسیلے تقوی تک پہنچا جا سکتا ہےجو بھی تقوی چاہتا ہےہمارے دروازے پر ا ٓئے تا کہ اس کی مشکل آسان ہو اور اس کی محتاجی دور ہو۔ عقل کا بھی یہی فیصلہ ہےکہ فقیر انسان کو چاہیے غنی کےدروازے پہ جائے تاکہ اس کی حاجت بر آئے جیسا کہ روایات بھی یہی کہتی ہیں۔امام محمد باقر ایک اور روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
مَنْ دَعَا اللَّهَ بِنَا أَفْلَحَ وَ مَنْ دَعَاهُ بغیرنَا هَلَکَ وَ اسْتَهْلَکَ ؛
وسائل، ج 7 ، ص 103 ۔
جواللہ تعالی کوہماراوسیلہ دےکرمناجات کرتاہےوہ اپنےمقصدمیں کامیاب ہوتاہےجو ہمارےوسیلےکےبغیردعامانگتاہےہمارےعلاوہ کوئی اوروسیلہ تلاش کرتاہےوہ خودبھی ہلاک ہوتاہےاوردوسروں کوبھی ہلاک کرتاہے۔جوبھی اہلبیت سےمنہ موڑتاہےوہ گمراہ اورنابودہوجاتاہے۔ اگرغیرشیعہ لوگوں کودیکھیں تواس بات کاسچ ہوناسمجھ میں آئےگاجب ہم اہلسنت کی معتبرکتابوں کوملاحظہ کرتےہیں توان میں مسئلہ توحیدکےمتعلق بہت سارےخرافات پائےجاتےہیں۔ان میں سےکوئی اللہ تعالی کےجسم اورجسمانیت کاقائل ہے۔وہ اپنےکتابوں میں لکھتےہیں اللہ تعالی نمازکےوقت عرش سےنیچےتشریف لاتاہے(نعوذباللہ)۔
اوردوسری جگہ لکھتےہیں اللہ تعالی ہنستاہے،اللہ تعالی چہرہ،آنکھیں،ہاتھ،انگلیاں، پاؤں رکھتاہے،اللہ تعالی قیامت میں اپنی پنڈلی کھولےگا، یااس آیت کےظاہرکو لیتےہوئےکہتےہیں اللہ تعالی قابل مشاہدہ ہے،
سیری در صحیحین، ص 109 ۔
اوراس بات کی دلیل
( وَجَاءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا )
سورہ فجر، آیت 22 ۔
اس آیت کےظاہرکو قراردیتے ہیں۔ان میں سےکچھ جبرکےقائل ہیں اورکچھ تفویض کے،لیکن شیعہ نہ جبرکےقائل ہیں نہ تفویض کے؛کیونکہ شیعوں کےپاس امامت کی نعمت موجودہےجودوسروں کےپاس نہیں۔اس وجہ سےوہ قرآن کےظاہرکولینےپرمجبورہیں۔
عرفان میں انحراف
اہلسنت کےبعض علماءبھی بہت زیادہ انحراف کاشکارہیں جیسےغزالی اورابن فارض۔نمونےکےطورپرغزالی کی یہ بات پیش ہےجوانہوں نےلعن کےباب میں بیان کی ہےوہ لکھتےہیں:ہمیں یزیدپرلعنت نہیں کرنی چاہیےکیونکہ شایدانہوں نےتوبہ کرلی ہو۔
احیا العلوم، ج 3 ، ص 125
یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی امام کاقتل کرےاورپھر توبہ کرےتو اس کی توبہ قبول ہے۔ یہ بات بھی تو ایک بدعت ہے!
یا ابن فارض اپنےدیوان میں لکھتے ہیں : جب فرعون دریا میں غرق ہو رہا تھا تو اس نےکہا : پروردگارا! میں نےتوبہ کی مجھے اب سمجھ میں آیا ہےکہ میں بندہ ہوں تو خدا ہے۔ اللہ تعالی نےبھی جبرئیل سےکہا : جلدی جاؤ ! فرعون کےمنہ میں مٹی ڈالو تاکہ پشیمان ہو کر کفر سےنہ پلٹے ۔ اس بنا پر فرعون، موحد اور اللہ تعالی کو ماننےوالا بن کہ اس دنیا سےگیا ۔ حالانکہ آیت قرآنی صراحت سےبیا ن کر رہی ہےکہ :
( آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ )
سورہ یونس، آیت 91 ۔
اب جب کہ تو پہلےنافرمانی کرچکاہےاورتیراشمارمفسدوں میں ہوچکاہے۔
کیا یہ عارف ہیں ؟ کیا یہ عرفان ہے؟ اسلئے امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
شَرِّقَا وَ غَرِّبَا لَنْ تَجِدَا عِلْماً صَحِيحاً إِلَّا شَيْئاً يَخْرُجُ مِنْ عِنْدِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ ؛
بحار، ج 2 ، ص 92 ۔
مشرق سےمغرب تک سفرکرواورمغرب سےمشرق تک سفرکروتمہیں کوئی صحیح علم نہ ملےگاسوائاسکےجوہمارےدروازےسےنکلاہو۔
اسی طرح امام محمدباقرارشادفرماتےہیں:
ُ لَيْسَ عِنْدَ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَقٌّ وَ لَا صَوَابٌ إِلَّا شَيْءٌ أَخَذُوهُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ لَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَقْضِي بِحَقٍّ وَ عَدْلٍ إِلَّا وَ مِفْتَاحُ ذَلِکَ الْقَضَاءِ وَ بَابُهُ وَ أَوَّلُهُ وَ سُنَنُهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ علی بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِذَا اشْتُبِهَتْ علیهمُ الْأُمُورُ کَانَ الْخَطَأُ مِنْ قِبَلِهِمْ إِذَا أَخْطَئُوا وَ الصَّوَابُ مِنْ قِبَلِ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع
کسی انسان کےپاس کوئی اچھائی،خوبی اورحق نہ ملےگاسوائےجواچھائی، خوبی اورحق ہم اہلبیت کےدروازےسےنکلاہو۔اگرلوگوں میں اختلاف ہوجائےتوخطالوگوں کی طرف سےاورحق اورسچائی امیرالمومنین(ع)کی طرف سےہوگی۔
کافی، ج 1 ، ص 399 ۔
پوری کائنات میں جہاں بھی جوبھی انسان سچ اورحق کوپسندکرتاہےاس نےیہ بات ائمہ معصومین سےلی ہے۔
مستدرک سفینہ البحارمیں شیخ علی نمازی اپنےاستادمرزامہدی اصفہانی کاایک واقعہ نقل کرتےہوئےفرماتےہیں، انہوں نےاپنےشاگردوں سےفرمایا:جس طرح میرےاستاد آیت اللہ سیداحمدکربلائی نےمیری رہنمائی کی میں نےاسی طرح عرفان اورسیروسلوک کےتمام مراحل طےکئےآخرمیں میرےاستادنےفرمایاتم نےتمام مراحل طےکرلئے۔لیکن میرےدل کوچین نہیں تھامیں نےپورافلسفہ پڑھالیکن میرےدل کوچین نہ آیا۔میں نےدوسرےعلوم چھانےمگرمیرےدل کو چین نہ آیا۔میں صحرامیں گیااورفریادکرنےلگا:اےمہدی!سب کچھ پڑھ لیالیکن دل کوچین نہ آیااب کیاکروں جس سےدل کوچین آئے؟میں نےبہت زیادہ گریہ اورمناجات کی یہاں تک کہ عالم مکاشفہ میں امام مہدی کادیدارنصیب ہوا۔امام ارشادفرمارہےتھے:
طلب الهدآیت او المعارف من غیرنا مساوق لانکارنا؛
مستدرک السفینة ، ج 10 ، ص 503 ۔
ہم اہلبیت کوچھوڑکےکسی اورسےہدایت اورمعارف کوطلب کرناہم اہلبیت کےانکارکرنےکےبرابرہے۔یعنی اگرکوئی عرفان اورسیروسلوک کی طرف جاتاہےلیکن ہم اہلبیت کوچھوڑکےکسی اورراستےسےتویہ ہم اہلبیت کےانکارکرنےکےبرابرہے۔
بارہویں مجلس
علم اورحکمت کا دروازہ
اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )
سورہ بقرہ، آیت 189 ۔
اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔ امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ بہت ساری حدیثوں میں آیا ہےکہ ائمہ معصومین اللہ تعالی کا دروازہ ہیں اور ان حدیثوں سےیہ نتیجہ بھی نکلتا ہےکہ ائمہ معصومین ہر لحاظ سےاللہ تعالی کا دروازہ ہیں۔ ائمہ معصومین (ع)کےاللہ تعالی کا دروازہ ہونےکا ایک مصداق یہ ہےکہ ائمہ معصومین، رسول اکرم(ص) کےعلم اور حکمت کا دروازہ ہیں یعنی اگر کوئی رسول اکرم(ص) کےعلم اور حکمت تک پہچنا چاہتا ہےتو اسےچاہیے کہ امامت کےراستے اس علم تک پہنچے۔بہت ساری حدیثوں میں آیا ہےکہ رسول اکرم(ص)نےارشاد فرمایا:
أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ علی بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَاب؛
بحار، ج 38 ، ص 189 ۔
میں علم کاشہر ہوں اورامیرالمومنین(ع)اس کادروازہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہتاہےاسےچاہیےاس دروازےسےآئے۔یہاں لطیف نکتہ یہ ہےکہ اہلسنت نےبھی ان روایات کونقل کیاہےلیکن اپنےخلفاءکومحروم نہ رکھنےکیلئےچندجملوں کااضافہ کیاہےجیسےکہتےہیں علی،رسول اکرم(ص)کےعلم کےشہرکادرازہ ہے،عثمان رسول اکرم(ص)کےعلم کےشہرکی چھت ہے، عمررسول اکرم(ص)کےعلم کےشہر کی دیوارہے۔
ینابیع المودہ، ج 2 ، ص 91 ۔
امام سجاد نےکتنا خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا ہے:
الحمدلله الذى جعل اعدائنا من الحمقاء
الغدیر، ج7، ص197؛ کشف الخفاء، ج1، ص204.
حمد اس خدا کی جس نےہمارے دشمنوں کہ احمق قرار دیا۔ کسی شہر کیلئے اہم چیز وہ دروازہ ہوتا ہےجس سےشہر میں داخل ہوا جاتا ہےدیوار اور چھت سےتو انسان شہر میں داخل نہیں ہو سکتا اور شہر کیلئے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ یہ ممکن ہےکہ ان چیزوں کی معنی یہ ہو کہ باطن میں اس شہر کیلئے یہ چھت اور دیواریں ہیں یعنی شہر رحمت میں داخل ہونےسےروکنےوالے ہیں اتفاقا یہی معنی درست ہےکیونکہ امت کےرسول اکرم(ص) کی رحمت سےفائدہ اٹھانےسےیہ افراد مانع بنتے تھے جیسےچھت اور دیوار گھر تک پہچنےسےروکتے ہیں اس طرح یہ بھی رسول اکرم(ص) تک پہچنےسےروکتے تھے۔ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں:
أَنَا مَدِينَةُ الْحِکْمَةِ علی بَابُهَا؛
بحار، ج 37 ، ص 109
میں حکمت کا شہر ہوں اور امیرالمومنین (ع) اس کا دروازہ ہیں۔حکمت علم سےبڑی چیز ہے؛ کیونکہ حکمت یقینی علم کو کہتے ہیں اور اس علم کو کہتے ہیں جس میں کوئی خدشہ نہ ہویعنی دنیا کےرسمی علوم کی طرح نہیں جن میں وقت کےگذرنےسےتبدیلی آتی رہتی ہے۔اس لئے اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَمَن يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا کَثِيرًا )
سورہ بقرہ، آیت 269 ۔
اورجسےحکمت عطا کردی جائےاسےگویاخیرکثیرعطاکردیاگیا۔جسکو حکمت ملی اسکوبہت زیادہ خیرملا۔ بعض روایتوں میں آیاہےکہ حکمت سےمرادامام کی معرفت ہے۔دوسری جگہ پرآیاہےکہ امام کےفرمان پہ چلنےکانام حکمت ہے،اسی طرح ایک اورجگہ پہ آیاہےکہ قرآن حکمت ہےیابعض دوسری روایتوں میں آیاہےکہ توحیدحکمت ہے۔
بحار، ص 215 ۔
اللہ تعالی نےاپنےکچھ بندوں کوعلم اورحکمت عطا فرمایاہےیعنی انکودین اورفقہ کےاسراراوررموزسمجھائےہیں جسکوعلم بلایا اورمنایاکہتے ہیں۔ان افراد میں سےایک مرحوم شیخ رجب علی خیاط ہیں جنکےبارےمیں بہت سارےواقعات ہیں۔وہ فرماتےہیں ایک شخص جوانی میں پاؤں کےدردمیں مبتلاہوا، ڈاکٹروں نےبہت ساری ٹیسٹیں کیں۔لیکن دردکا سبب پتا نہ چلا۔وہ شیخ رجب علی کےپاس آیا اورکہنےلگا:شیخ صاحب میرےپاؤں میں دردہےلیکن پتانہیں اسکاسبب کیاہے؟شیخ رجب علی نےغورسےدیکھااورفرمایا: تم اپنےوالد کی طرف پاؤں پھیلاتے ہو! جسےمعنوی دنیا میں بے ادب کو ادب سکھانا کہتے ہیں۔
اس بنا پر رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالی کی معرفت، فہم قرآن، کائنات کےاسرار کی معرفت،نبوت شناسی، معاد شناسی، انسان شناسی اور بہت سارے علوم اور حکمتیں رسول اکرم کےوجود میں خلاصہ ہیں جن تک پہنچنےکا راستہ اور دروازہ امیرالمومنین (ع) ہیں۔ تیسری روایت میں رسول اکرم(ص) ارشاد فرماتے ہیں :
أَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَ علی مِفْتَاحُهَا
بحار، ج 38 ، ص 102 ۔
میں حکمت کا گھر ہوں علی اس کی چابی ہے۔
جس گھر میں خلقت آدم سےلیکر خلقت کےآخر تک کی تمام حکمتیں جمع ہیں نہ صرف اس دنیا میں حکمت کا گھر ہےبلکہ آخرت میں بھی اور عالم ذر اور میثاق میں بھی رسول اکرم(ص) حکمت کا گھر ہیں۔ کوئی بھی اس گھر سےفائدہ حاصل نہیں کر سکتا سوائے جس کےپاس اس گھر کی چابی ہو اور اس گھر کی چابی امیرالمومنین (ع) ہیں۔ اس روایت سےپتا چلتا ہےکہ اہلسنت کےپاس رسول اکرم(ص) کا کوئی علم نہیں اور ہ رسول اکرم(ص) کےکسی علم کےبارے میں نہیں جانتے۔ انہوں نےاسلام کو صرف فائدہ حاصل کرنےکیلئے اختیار کیا ہےاور قبلہ کی طرف منہ کرکےکھڑے ہو گئے ہیں ۔ صرف قبلہ کی طرف منہ کرنےکا تو کوئی فائدہ ہی نہیں انہوں نےنما ز، روزہ، حج، قرآن، احکام سےکچھ فائدہ نہ پایا۔
کیا ابوحنیفہ نےنہیں کہا؟
لولا السنتان لهلک النعمان؛
قادتنا کیف نعرفہم، ج 6 ، ص 247 ۔
اگروہ دوسال نہ ہوتے جن میں امام صادق(ع)سےمیں نےعلم حاصل کیاتو میں ہلاک ہوجاتا۔ اسی طرح کہتے ہیں:اگرامام صادق(ع)نہ ہوتےلوگ حج کےاحکام نہ جان پاتے۔ہم فقہ کےتمام موضوعات اورابواب میں رسول اکرم(ص)کی تین سو یا چارسوروایتوں سےزیادہ نہیں رکھتے ہم کس طرح ان گنی چنی روایتوں کےسہارے قیامت تک زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ ہم صرف نماز کےبارے میں 4000 چارہزار مسئلوں کا سامنا کرتے ہیں دوسرے موضوعات تو اپنی جگہ پر رہے! ان مسائل اور ان کی جزئیات کو کہاں سےسمجھیں گے؟ کون ان کی تحقیق کرے گا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ احکام محدود ہو جائیں گے کیونکہ رسول اکرم(ص) کی روایتیں تو اتنی ہی ہیں۔ لیکن فقہ شیعہ بہت وسیع ہےہر موضوع کےجزئی اور کلی تمام مسائل کا جواب رکھتی ہے۔ ہزاروں روایات ائمہ معصومین کےذریعے ہم تک پہنچی ہیں لیکن وہ قیاس اور استحسان کرنےپر مجبور ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ اہلبیت سےدور ہیں اور شہر علم کےدروازے تک نہیں پہنچے۔
اسی لئے رسول اکرم(ص) نےفرمایا :
الآئمة ابواب العلم فی امتی؛
امالی صدوق، ص 13 ۔
میری امت میں ائمہ معصومین علم کےدروازے ہیں۔ یعنی کوئی بھی درست علم تک نہیں پہنچ سکتا مگر اہلبیت ذریعے سے۔
جب اللہ تعالی نےاپنےحبیب کوحکم دیا :اے حبیب !اپنےصحابہ سےاورتمام لوگوں سےکہہ دو مسجدکی طرف کھلنےوالے دروازے بند کردو۔ پہلا اور دوسرا رسول اکرم(ص) کی خدمت میں یہ خواہش لے کےحاضر ہوئےکہ انکادروازہ کھلارہے۔ رسول اکرم(ص) نےفرمایا یہ نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نےعرض کیا تھوڑا سوراخ رہنےدیں تاکہ مسجدکودیکھ سکیں۔رسول اکرم نےمنع کردیا۔ انہوں نےفرمایا:اللہ تعالی کاحکم ہےاپنےدروازےبندکردو۔یہاں تک کہ رسول اکرم(ص) کےچچا عباس نےبھی دروازہ کھلا رکھنےکی خواہش ظاہرکی لیکن رسول اکرم(ص)نےمنع کردیا۔اس وقت حضرت زہراءاپنےگھرمیں تشریف فرماتھیں انہوں نےیہ حکم سناتورسول اکرم(ص)سےسوال کیا: کیا ہمارےگھرکا دروازہ بھی بندہونا چاہیے؟حضرت زہراءجانتی تھیں لیکن سوال کرکہ سمجھایا کہ اگرحکم ہمارےلئےہےتو ہم اطاعت کرنےپرتیارہیں۔رسول اکرم(ص)نےجواب میں فرمایا:مجھ پروحی ہوئی ہےکہ یہ حکم زہراءاور علی کیلئےنہیں بلکہ دوسروں کیلئےہے۔
مناقب امیر المومنین، ج 2 ، ص 461: مسند احمد، ص 369 ۔
یعنی اللہ تعالی چاہتا تھا کہ تمام دروازے بند کئے جائیں تاکہ یہ ایک دروازہ کھلا رہےاور تمام لوگ مجبورا اس دروازے سےمسجد میں داخل ہوں۔
اسی طرح اللہ تعالی سمجھاناچاہتا تھا کہ جیسےظاہری طور پرمسجدالنبی میں ایک دروازہ کھلاہےجواہلبیت سےمخصوص ہےاسی طرح تکوینی طورپراللہ تعالی نےجنت،سعادت، توحید، معارف، کا دروازہ اہل بیت کےگھرکی طرف کھولاہے۔
سَدَّ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَه؛
مفاتیح، دعا ندبہ
تمام دروازوں کوبندکیاسوائے علی کےگھرکےدروازےکے۔
آخرمیں ہم اس نتیجہ پہ پہنچےکہ ہرکوئی علم تک نہیں پہنچ سکتا،امامت کےعلاوہ کوئی علم تک پہنچنےکاراستہ نہیں۔اسی طرح ہر کوئی عمل تک نہیں پہنچ سکتاکیونکہ علم اورجانےبغیرکیسےعمل کیاجاسکتاہے!
تیرہویں مجلس
اعمال کی قبولیت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا )
اور مکانات میں دروازوں کی طرف سےآئیں۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَ الْبَابُ الْمُبْتَلَى بِهِ النَّاسُ
اور وہ دروازہ ہیں جس کےذریعے لوگوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نےمصلحت کیلئےاور انسان کےکمال کیلئے کچھ چیزوں کو واجب کیا ہےاور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے۔جیسےنماز اور روزہ واجب ہے، شراب اور جھوٹ حرام ہے۔ اللہ تعالی حکیم ہےاور اس نےحکمت کی بناپر اس کام کو انجام دیا ہے۔ حقیقت میں ہر وہ چیز جو انسان کےکمال کےمنافی ہو اور انسان کےنقصان میں ہو وہ حرام ہےاور ہر وہ چیز جو انسان کی ہدایت اور اس کی شخصیت کےکمال میں اثر انداز ہوتی ہےوہ چیز واجب ہے۔
اللہ تعالی نےاعمال اور عبادات کی قبولیت کےلئے بھی کچھ شرطیں رکھی ہیں اور ان شرائط میں سےاہم ترین شرط ولایت کو قبول کرناہےاس لئے اللہ تعالی فرماتا ہے: جو بھی ائمہ معصومین کو مانےگا میں اس کےاعمال قبول کروں گا اور اس کےگناہوں سےدرگذرکروں گا اس بنا پر اہلبیت کی ولایت اللہ تعالی کی طرف سےاعمال اور عبادات کی قبولیت کا دروازہ بھی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نماز کی قبولیت کیلئے وضو کی شرط ہے، قبلہ کی طرف کھڑے ہونےکی شرط ہے، معنوی اور باطنی شرائط میں سےصحیح نیت شرط ہےاسی طرح سےاہم ترین شرط، ولایت کو قبول کرناہے۔ اگر انسان سو رکعتیں بہترین انداز میں پڑہےلیکن قبلہ کی طرف پشت ہو تو باطل ہیں اور اللہ تعالی اسےقبول نہیں کرتا تو جو ولایت اور امامت کو قبول نہ کرتا ہو اللہ تعالی اس کےاعمال اور عبادات کو کیسےقبول کرے گا؟ کیونکہ عبادت کی روح ائمہ معصومین کی ولایت ہے۔
رسول اکرم(ص) نےامام علی کو مخاطب کرکےفرمایا :
يَا علی لَوْ أَنَّ عَبْداً عَبَدَ اللَّهَ مِثْلَ مَا قَامَ نُوحٌ فِي قَوْمِهِ وَ کَانَ لَهُ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَباً فَأَنْفَقَهُ فِي سَبِيلِ ثُمَّ لَمْ يُوَالِکَ يَا علی لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَ لَمْ يَدْخُلْهَا؛
بحار، ج 37 ، ص 194 ۔
اگر کوئی انسان نوح کی زندگی جتنی اللہ تعالی کی بندگی کرے، ہزار بار پیدل حج کرے، احد کےپہاڑ کےبرابر سونا اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کرے، صفا اور مروہ کےدرمیاں سعی کرتے ہوئے مظلوم شہید ہو جائے لیکن آپ کی ولایت کو قبول نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں نہ جائے گا اور جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائے گا ۔
آئمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول کرنا نہ صرف تمام اعمال اور عبادات کی قبولیت کی شرط ہےبلکہ ذاتا واجب ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر کوئی انسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول کرتاہو لیکن نیک عمل نہ رکھتا ہو کیا اسےیہ محبت اور ولایت فائدہ دے گی؟ جی ہاں وہ انسان اس دنیا میں یا برزخ میں اپنےاعمال کی سزا پاکر آخرت میں جنت میں جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کوقبول کرتا ہو اور جنت میں نہ جائے لیکن اس کےمقابل جوانسان ائمہ معصومین کی محبت اور ولایت کو قبول نہیں کرتا وہ جہنم میں جائے گا اور اگر ائمہ معصومین سےبغض اور دشمنی رکھے گا وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا۔
ایک روایت میں امام محمد باقر ارشاد فرماتے ہیں:
أَمَا لَوْ أَنَّ رَجُلًا قَامَ لَيْلَهُ وَ صَامَ نَهَارَهُ وَ تَصَدَّقَ بِجَمِيعِ مَالِهِ وَ حَجَّ جَمِيعَ دَهْرِهِ وَ لَمْ يَعْرِفْ وَلَايَةَ وَلِيِّ اللَّهِ فَيُوَالِيَهُ وَ يَکُونَ جَمِيعُ أَعْمَالِهِ بِدَلَالَةٍ مِنْهُ إِلَيْهِ مَا کَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ حَقٌّ فِي ثَوَابِهِ وَ لَا کَانَ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَان؛
کافی، ج 2 ، ص 19 ۔
اگرکوئی انسان تمام راتیں نماز میں بسرکرےاورمناجات کرے،تمام دنوں میں روزےرکھے،اپنےتمام مال کو اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کرے،پوری زندگی ہرسال پیدل مکہ جائےحج کرےلیکن ائمہ معصومین کی ولایت کوقبول نہ کرےتو یہ انسان مومن نہیں اوراللہ تعالی اسےثواب میں سےکوئی حصہ نہ دے گا۔
اور اللہ تعالی اس سےکہےگا : میرے اعمال اور عبادات کی قبولیت والے دروازے سےکیوں نہیں آیا؟ ایک روایت میں ہےکہ رسول اکرم(ص) نےاپنےصحابہ سےفرمایا:
مَا بَالُ أَقْوَامٍ إِذَا ذَکَرُوا آلَ إِبْرَاهِيمَ وَ آلَ عِمْرَانَ اسْتَبْشَرُوا وَ إِذَا ذَکَرُوا آلَ مُحَمَّدٍ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُهُم؛
بحار، ج 23 ، ص 221 ۔
کیاہواہےکہ میرے صحابہ میں سےایک گروہ جب بھی آل ابراہیم اورآلعمران کا ذکر آتا ہےخوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں(یہودیوں اورمسیحیوں کی طرف مائل ہیں)لیکن جب میرے اہلبیت(امیرالمومنین(ع)اورحضرت زہراء) کا ذکر آتا ہےان کےدل تنگ ہوتے ہیں اور وہ ناراض ہوتے ہیں؟
اس وقت رسول اکرم(ص) نےیہ جملہ ارشاد فرمایا :
وَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ وَافَى بِعَمَلِ سَبْعِينَ نَبِيّاً يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُوَافِيَ بِوَلَآیتي وَ وَلَايَةِ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛
اللہ تعالی کی قسم جسکےقبضہ قدرت میں میری جان ہےاگرکوئی انسان سترنبیوں جتنےاعمال اورعبادات انجام دےلیکن قیامت کےدن اللہ تعالی سےاس حال میں ملاقات کرےکہ اہلبیت کی ولایت کو قبول نہ کرتا ہوتو اللہ تعالی اسکا کوئی عمل قبول نہ کرےگا۔ اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :
لِکُلِّ شَيْءٍ جَوَازٌ وَ جَوَازُ الصِّرَاطِ حُبُّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛
بحار، ج 39 ، ص 202
ہرملک میں جانےکیلئےویزہ ہوتاہے، پل صراط سےگذرنےکاویزہ امیرالمومنین(ع)کی محبت اوردوستی ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص)نےارشاد فرمایا :
عُنْوَانُ صَحِيفَةِ الْمُؤْمِنِ حُبُّ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع ؛
ینابیع المودہ، ج 1 ، ص 373 ۔
ہرچیزکاایک عنوان ہوتاہےاورمومن کےصحیفہ کاعنوان علی کی محبت ہے۔
قیامت کےدن مومنین کےہاتھوں میں جو نامہ اعمال دیا جائے گا اس کےاوپر مظہربسم اللہ، علی ابن ابی طالب کا نام لکھا ہوگا یعنی وہ امام علی سےدوستی رکھتا ہےاگر یہ لکھا ہوا ہوگا تو اس وے اعمال کا ثواب ملے گا اگر کسی کےنامہ اعمال میں یہ لکھا ہوا نہ ہوگا تواس کےاعمال باطل شمار ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
( مَّثَلُ الَّذِينَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ کَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ )
سورہ ابراہیم، آیت 18 ۔
جن لوگوں نےاپنےپروردگارکا انکارکیا انکےاعمال کی مثال اس راکھ کی ہےجسےاندھڑکےدن کی تندہوا اڑالےجائے کہ وہ اپنےحاصل کئےہوئےپربھی کوئی اختیارنہ رکھیں گے۔
کیا کافر کوئی عمل کرتا ہے؟ یہ آیت جو کہہ رہی ہےکہ کافر کےاعمال برباد ہوں گے۔ کیا کافر نماز پڑہتا ہے؟ روزہ رکھتا ہے؟ یا کوئی اور عمل انجام دیتا ہے؟
مرحوم علی ابن ابراہیم قمی اپنی تفسیر میں جب اس آیت پہ پہنچتے ہیں تو لکھتے ہیں:
مَنْ لَمْ يُقِرَّ بِوَلَايَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ؛
تفسیر قمی، ج 1 ، ص 368 ۔
یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو امیرالمومنین (ع) کی ولایت کا انکار کرتے ہیں۔ امام صادق (ع) کا ایک صحابی امام کی خدمت میں عرض کرتا ہے:
يَتَوَالَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ يَتَبَرَّأُ مِنْ عَدُوِّهِ وَ يَقُولُ کُلَّ شَيْءٍ يَقُولُ إِلَّا أَنَّهُ يَقُولُ ؛
بحار، ج 23 ، ص 80
مولا ایک بندہ ہےجو آپ کو دوست رکھتا ہے، آپ کےدشمنوں سےبرائت اختیار کرتا ہے، آپ کےحلال کو حلال سمجھتا ہے، آپ کےحرام کو حرام سجھتا ہے، اس کا اعتقاد ہےکہ امامت آپ کا حق ہےلیکن وہ کہتا ہےکہ : کیونکہ امر خلافت اور امامت میں رسول اکرم(ص) کےصحابہ میں اختلاف ہوا ہےاس لئے میں اس کو قبول کرتا ہوں جس پر اجماع ہوا ہےاور سب نےاس کا تعارف کروایا ہے۔
کیا یہ شخص نجات پائے گا یاہلاک ہو جائے گا؟ امام نےارشاد فرمایا :
إِنْ مَاتَ هَذَا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ؛
اگر یہ اس حال میں مرے گا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔ صرف ہماری امامت کا اعتقاد کافی نہیں بلکہ ہمیں امام سمجھے اور ہماری امامت میں لوگوں کےمشورے قبول نہ کرے۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) نےعمار یاسر سےارشاد فرمایا:
فَإِنْ سَلَکَ النَّاسُ کُلُّهُمْ وَادِياً وَ سَلَکَ علی وَادِياً فَاسْلُکْ وَادِيَ علی وَ خَلِّ عَنِ النَّاس؛
بحار، ج 33 ، ص 352 ۔
اگر تمام انسان ایک طرف جائیں اور اکیلا امام علی دوسری طرف جائے تو امام علی کی پیروی کرنا اور تمام انسانوں کی پیروی نہ کرنا کیونکہ حق وہاں ہےجہاں علی ہیں۔اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا:
علی مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَ علی يَدُورُ حَيْثُمَا دَارَ ؛
بحار، ج 10 ، ص 432 ۔
علی حق کےساتھ ہےاورحق علی کےساتھ ہےاورجہاں علی جاتےہیں وہاں انکےپیچھےحق جاتاہے۔
چودہویں مجلس
اہلبیت اور کائنات کی تربیت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنسَانَ )
وہ خدا بڑا مہربان ہےاس نےقرآن کی تعلیم دی ہےانسان کو پیدا کیا ہے۔
امیر المومنین فرماتے ہیں:
فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا ۔
ائمہ معصومین اللہ تعالی کا دروازہ ہیں اس کی ایک دلیل یہ ہےکہ آپ کےہاتھ میں کائنات کی تربیت ہے۔ حضرت علی (ع)اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :
ُ فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا؛
نہج البلاغہ، مکتوب 28 ۔
ہم اللہ تعالی کےبنائے ہوئے ہیں اور انسان ہمارے بنائے ہوئے ہیں۔ اس جملے کی دو معنی ممکن ہیں۔پہلی معنی : اللہ تعالی نےرسول اکرم(ص)، امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین کو اپنےخاص نور سےخلق فرمایا ہےلیکن باقی مخلوقات کو ائمہ معصومین کےنور سےپیدا کیا ہے۔ نمونہ کےطور پر یہ حدیث پیش ہے: اللہ تعالی نےجنت اور حور کو حضرت حسین کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےچاند اور سورج کو حضرت حسن کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےجبرئیل کو اور تمام ملائکہ کو حضرت علی (ع)کےنور سےپیدا کیا ہے۔ اللہ تعالی نےزمین کو حضرت زہرا کےنور سےپیدا کیا ہے۔
بحار، ج 25 ، ص 17 ۔
ایک معنی: اب خالق تو اللہ تعالی ہےلیکن ائمہ معصومین بھی اس خلقت کو اپنی طرف نسبت دے سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں تمہیں ہمارے نورسےبنایاگیاہے۔
دوسری معنی : نہج البلاغہ پر شرح لکھنےوالوں میں سےاکثر نےاس معنی کو قبول کیا ہے۔وہ معنی یہ ہےحضرت علی (ع)فرمانا چاہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کےتربیت یافتہ ہیں اور انسان ہمارے تربیت یافتہ ہیں یعنی آدم، ابراہیم، موسی، عیسی اور تمام انبیاء اور اولیاء ہمارے تربیت یافتہ ہیں کیونکہ جتنی بھی ان کی تربیت ہوئی ہے، کوئی فیض پہنچا ہے، اس کا واسطہ، علم کا واسطہ، توفیق کا واسطہ، عبادت کا واسطہ، ہم اہلبیت ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہےکہ : کیا ائمہ معصومین مجھے اور آپ کو شیطان اور نفس امارہ سےنجات دے سکتے ہیں ؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ہم سوچیں ہماری نماز روزے ہمیں ہمارے نفس اور شیطان سےبچائیں گے یہ درست نہ؛یں کیونکہ عبادت کی کچھ مدت بعد انسان اپنی عبادت سےخوش ہوجاتا ہےاور فرعون کی طرح خدا ہونےکا دعوی کرتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ شیخ محمد کوہستانی سےسوال کیا گیا: نفس امارہ کیا چیز ہے؟ انہوں نےجواب دیا ایک بندہ بیس 20 سال تک خیال کرتا رہا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہےاس کےبعد اللہ تعالی نےاسےمتوجہ کیا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت نہیں کررہا تھا بلکہ اس کا نفس دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ایک حصہ خدا بن کر حکم دے رہا تھا اور دوسرا اس کی عبادت کر رہا تھااور اس کےحکم کو مان رہا تھا۔یہ قصہ بیس سال چلتا رہا اور وہ سمجھتا رہا کہ وہ اللہ تعالی کو مان رہا ہےاور بیس سال بعد پتا چلا کہ وہ اللہ تعالی کو نہیں مان رہا۔ مرحوم آیت اللہ شیخ محمدجواد انصاری ہمدانی نےبھی فرمایا تھا: ایک مرتبہ میں نے 360 مرتبہ یااللہ کہہ کہ پکارا اورجب بھی میں یا اللہ پکارتا تھا ہر بار صداآتی تھی لبیک میرے بندے کیا کہنا چاہتے ہو؟ بعدمیں اللہ تعالی کےکرم سےمیں نےجانا کہ 360 مرتبہ مجھے شیطان نےلبیک کہا تھا اور جواب دیا تھا۔
شرح زیارت جامعہ ، حسین گنجی، ج 2 ، ص 157 ۔
نوف بکالی فرماتے ہیں : میں نےرات کےاندھیرے میں امیرالمومنین (ع) کو کہیں جاتے دیکھا۔میں نےامیرالمومنین (ع) کےپاس جا کرعرض کیا: شیطانی وسوسےمجھے تنگ کرتے ہیں ؟ حضرت نےفرمایا:
أَعْرِضْ عَنِ النَّازِلَةِ فِي قَلْبِک؛
بحار، ج 91 ، ص 94 ۔
ان خیالات کو اپنےذہن اور دل سےنکال دو یعنی استغفار کرو۔ اس کےبعد حضرت نےفرمایا : اس کام کی خود میں عادت ڈالو اور اسےانجام دو
فَأَنَا الضَّامِنُ مِنْ مَوْرِدِهَا؛
میں ان خیالات او وسوسوں کےآنےکا ضامن ہوں۔ یعنی میں تمہارے لئے نفس امارہ اور شیطان کےسامنےڈھال بن جاؤں گا۔ اسلئے جو چاہتاہےنفس امارہ سےنجات حاصل کرے اسےچاہیے حضرت علی (ع)کو واسطہ قرار دے۔
اگر کسی ذرے پہ امام علی کا لطف ہو جائے وہ آسمان پر جاکر سورج کا کام کرے۔
ایک ولی خدا ارشاد فرماتے ہیں: میں نجف میں مشغول زیارت تھا مجھے عالم مکاشفہ اور عالم معنوی میں حضرت کی زیارت نصیب ہوئی حضرت نےفرمایا : اے فلان! ہمارا دست عنایت تم پر ہےورنہ تم بھی خیبر کےمرحب سےکم نہیں۔ اگرتم پر ہمارا کرم نہ ہوتا تم بھی مرحب بن کر ہماری جنگ کو آتے۔
معصومین کی الہی تربیت
اللہ تعالی نےمعصومین کی تربیت کیسےکی ہے؟ ہم یہاں دو نمونےذکر کرتے ہیں :
امام حسن مجتبی کو ان کی کنیز نےتحفے میں گلاب کےپھول پیش کئے تو حضرت نےفرمایا:
أَنْتِ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّه؛
بحار، ج 24 ، ص 195 ۔
تم اللہ تعالی کی خوشنودی کےخاطر آزاد ہو۔ جو لوگ بخیل تھے انہیں بہت زیادہ تعجب ہوا کہ ایک گلاب کےپھول کےبدلے میں کنیز کو آزادکردیا؟حضرت نےجواب میں فرمایا :
کذَا أَدَّبنَا اللَّه؛
ہماری اللہ تعالی نےاس طرح تربیت کی ہے۔
ایک ناصبی پر حضرت علی (ع)کی عنایت
ایک سنی ناصبی اور ایک شیعہ ایک دوسرے کےہمسائے تھے۔ ناصبی، شیعہ کو بہت تنگ کرتا تھا۔ ناصبی اس کی اور حضرت علی (ع)کی بہت توہین کرتا تھا ۔ شیعہ، ناصبی سےکہتا تھا مجھے تنگ نہ کرو ورنہ میں اپنےمولاحضرت علی (ع)سےتمہاری شکایت کروں گا۔ ناصبی بھی کہتا تھا : جاؤ شکایت کرو تیرا مولا کیا کر سکتا ہے؟ شیعہ جب بھی دعا کرتا کوئی جواب نہیں آتا یہاں تک کہ ایک دن ناصبی نےشیعہ کو بہت تنگ کیا اور کہا دیکھا تیرا مولا کچھ نہیں کر سکتا؟ شیعہ بھی روتا ہوا امام کےحرم میں حاضر ہوا اور فریاد کرنےلگا : مولا میں برداشت کر کےبہت تھک گیا ہوں کیوں کچھ نہیں کرتے؟کیا آپ نہیں دیکھ رہےکہ وہ آپ کی کتنی توہین کرتا ہے؟ وہ فریاد کر کےحرم سےباہر آیا رات کو سویا خواب میں امام علی کی زیارت نصیب ہوئی امام نےفرمایا : یہاں آؤ اسےمعاف کردو ہم سےاسکی شکایت نہ کرو ۔ اس شخص نےکہا مولا اس نےمجھے بہت تنگ کیا ہےاور آپ کی بہت توہین کی ہے۔ حضرت علی (ع)نےفرمایا سب سچ ہےپر اس کا میری گردن پہ ایک حق ہےکیونکہ وہ ایک بار گھوڑے پر سوار جا رہا تھا کہ اس کی نظر میرے روضے پہ پڑی وہ میرے روضے کےاحترام میں گھوڑے سےاترا اور پیدل چلنےلگا اس لئے اس کا میری گردن پر ایک حق ہے۔
صبح جب وہ خواب سےبیدار ہوا تو ناصبی نےاس کو پھر تنگ کیا اور کہا جاؤ میری شکایت کرو۔ شیعہ نےجواب دیا : جتنا چاہےتنگ کرواب میں کسی سےشکایت نہ کروں گا ۔ ناصبی نےکہا : کیوں؟ شیعہ نےجواب دیا : میں نےخواب میں دیکھا ہےحضرت علی (ع)یہ فرمارہےتھے۔ ناصبی نےکہا : میں تو اکیلا تھا اس واقعہ کی کسی کو خبر نہیں۔ کیا ممکن ہےمیرے ایک بار احترام کرنےکی وجہ سےکوئی اتنا برداشت کرے اور ایسا سلوک کرے؟ اور اس کےبعد اس نےبلا فاصلہ کہا : اے امیرالمومنین (ع) مجھ سےغلطی ہوگئی ہےمجھے معاف کردو میں جاہل تھا اس بات کو سمجھ نہ پایا۔ اور وہ شیعہ ہوگیا۔
کیا یہ سب اس بات کی نشانیاں نہیں کہ ائمہ معصومین اللہ تعالی کےتربیت یافتہ ہیں؟ ایک گلاب کےپھول کےبدلے اور ایک بار احترام کےبدلے ایسا سلوک کرنا؟ !لیکن حضرت علی (ع) نےخود فرمایا : رسول ا کرم کو اللہ تعالی نےادب سکھایا ہےاور مجھے رسول اکرم(ص) نےادب سکھایا ہےاور میں مومنوں کو ادب سکھانےوالا ہوں۔ یعنی اس پوری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جس نےواسطہ کےساتھ یا بلاواسطہ ولایت سےتربیت نہ پائی ہو ۔
پوری کائنات کی تربیت
حقیقت میں اللہ تعالی نےاپنی تمام صفات ائمہ معصومین کو دے دی ہیں اورپوری کائنات کی تربیت ائمہ معصومین کےہاتھ میں ہےتمام کائنات پر ولایت مطلقہ ائمہ معصومین کی ہےاور پوری کائنات کےمربی ائمہ معصومین ہیں۔ کیا ہم زیارت آل یاسین میں نہیں پڑہتے؟
السَّلَامُ علیکَ يَا رَبَّانِيَّ آيَاتِه؛
سلام ہو آپ پہ! اے اللہ کی آیات کی تربیت کرنےوالے۔ کیونکہ تمام چیزیں اللہ تعالی کی آیتیں ہیں۔ امام زمانہ بھی کائنات کےمربی ہیں۔
مرحوم شیخ رجب علی خیاط فرماتے ہیں : جب میں بیمار تھااور میں نےدوا کی ضرورت محسوس کی میں نےجب بھی دوائی استعمال کی دوائی کی آواز آئی :اے اباالحسن ! کیا مجھے اجازت ہےکہ میں رجب علی پر اثر کروں؟ میں متوجہ ہوا کہ دوائی بھی امام زمانہ کےحکم سےاثر کرتی ہے۔
حقیقت میں شفا دینےوالا اہلبیت کا نام اور ذکر ہےاسی طرح حضرت علی (ع)ارشاد فرماتے ہیں :
ذِکْرُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ شِفَاءٌ مِنَ الْوَعْکِ وَ الْأَسْقَامِ وَ وَسْوَاسِ الرَّيْب؛
بحار، ج 2 ، ص 145 ۔
بخار، بیماری، وسوسے، شک اور تردید سےہم اہلبیت کی یاد شفا ہے۔
ایک اور روایت میں امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں :
خَلَقَ اللَّهُ الْمَشِيَّةَ بِنَفْسِهَا ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ بِالْمَشِيَّةِ؛
کافی، ج 1 ، ص 110
اللہ تعالی نےخودمشیئت کو پیدا کیا اور انسان کو، جنات کو، فرشتوں کو اور پوری کائنات کو اللہ تعالی نےمشیئت کےذریعے پیدا کیا اور حضرت نےفرمایا وہ مشیئت ہم ہیں۔
مجمع النورین، ص 215 ۔
اللہ تعالی نےخود بے واسطہ ہم ائمہ معصومین (ع)کو پیدا کیا اگر ہم نہ ہوتے اللہ تعالی کسی چیزکو پیدا نہ کرتا۔
رسول اکرم(ص)نےحضرت علی (ع)سےفرمایا:
لَوْ لَا نَحْنُ مَا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَ لَا حَوَّاءَ وَ لَا الْجَنَّةَ وَ لَا النَّارَ وَ لَا السَّمَاءَ وَ لَا الْأَرْض؛
کمال الدین، ص 254 ۔
اگر ہم نہ ہوتے اللہ تعالی آدم، حوا، جنت، دوزخ، آسمان، زمین کسی چیز کو نہ بناتا۔
پندرہویں مجلس
تمام کائنات سےولایت کا سوال
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَدَيْنَا لَعلی حَکِيمٌ )
سورہ زخرف، آیت 4 ۔
اوریہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلنداور اَپرازحکمت کتاب ہے۔امام علی النقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتےہیں:
آتَاکُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ
خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔
یعنی اللہ تعالی نےجو چیز ائمہ معصومین کو دی ہےوہ کسی نبی، کسی ملائکہ، کسی انسان کو نہیں دی۔ ممکن ہےہم کہیں جو چیزیں اللہ تعالی نےتمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں کو الگ الگ دی ہیں وہ تمام چیزیں اللہ تعالی نےآپ کو ایک ساتھ دی ہیں۔ اس لئے رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا :
مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ وَ إِلَى نُوحٍ فِي فَهْمِهِ وَ إِلَى يَحْيَى بْنِ زَکَرِيَّا فِي زُهْدِهِ وَ إِلَى مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ فِي بَطْشِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى علی بْنِ أَبِي طَالِب؛
بحار، ج 39 ، ص 39 ۔
جوبھی آدم کوعلم کےساتھ، نوح کوحلم کےساتھ، یحیی کوزہد کےساتھ، موسی کوغضب کےساتھ،ابراہیم کوحکمت کےساتھ،عیسی کو عبادت کےساتھ دیکھنا چاہتا ہےاسےچاہیے وہ امیرالمومنین (ع) کو دیکھے۔ یعنی حضرت علی (ع)تنہا ان تمام انبیاء کےکمالات رکھتے ہیں۔ یہ تو اہلبیت کےفضائل پر ایک نظر ہے۔ زیارت جامعہ میں اس طریقے سےبیان ہوئے ہیں:
وَ عِنْدَکُمْ مَا نَزَلَتْ بِهِ رُسُلُهُ وَ هَبَطَتْ بِهِ مَلائِکَتُهُ
اور آپ کےپاس وہ سب کچھ ہےجسےخدا کےنمائندے لائے یا ملائکہ لے کر نازل ہوئے ہیں۔
یعنی جو چیزین اللہ تعالی نےتمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں پر ابتدائے خلق سےلے کر رسول اکرم(ص) کےزمانےتک نازل فرمائیں وہ تمام چیزیں ہر امام معصوم کےپاس ہیں۔زیارت جامعہ کی اس عبارت کےمطابق تمام انبیاء، تمام ملائکہ، تمام اولیاء، تمام انسانوں کےفضائل ملاکر ائمہ معصومین کےفضائل کےساتھ مساوی اور برابر ہیں لیکن ائمہ معصومین کےلئے کچھ اور فضائل بھی ہیں جو کسی اور میں نہیں یعنی ہر امام معصوم میں وہ تمام چیزیں ہیں جو تمام انبیاء میں ہیں اور اس سےبڑھ کر کچھ چیزیں بھی ہیں جو کسی اور میں نہیں۔
آتَاکُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ
خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔
یعنی اللہ تعالی نےآپ کو وہ چیزیں عنایت فرمائیں جو آپ کےعلاوہ پورے جہان میں سےکسی کےپاس نہیں چاہےانبیاء ہوں یا غیر انبیاء۔
عالم ذرمیں ولایت
اللہ تعالی نےجوکچھ ائمہ معصومین کو عطا فرمایا ان میں سےایک چیز، تمام کائنات پر ائمہ معصومیں کی ولایت اور ان پر ایمان کو فرض کرناہےچاہےجن ہوں یا انسان، نباتات ہوں یا جمادات۔حقیقت میں پوری کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس پر اللہ تعالی نےائمہ معصومین کی ولایت اوردوستی فرض نہ کی ہو۔ قرآن کریم میں ایک آیت ہےجسکا نام آیت ذر ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا )
سورہ اعراف، آیت 172 ۔
اورجب تمھارےپروردگارنےفرزندان آدم علیہ السّلام کی پشتوں سےانکی ذرّیت کولےکرانھیں خود انکےاوپرگواہ بناکرسوال کیاکہ کیامیں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نےکہا بیشک ہم اس کےگواہ ہیں۔
اس عالم کو عالم ذر کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نےجب حضرت آدم کوپیدا کیا تو اس کی اولاد اور ذریت کو ذرات کی صورت میں آدم کےصلب میں قرار دیا اس کےبعد ان ذرات کو صلب آدم سےباہر نکالا اور انہیں قوت فہم اور ادراک بخشی اور قوت فیصلہ دے کر ان سب کا وہان امتحان لیا۔ زیارت حضرت زہرا میں بھی اس عالم ذر کی طرف اشارہ ہوا ہے:
السَّلَامُ علیکِ يَا مُمْتَحَنَةُ امْتَحَنَکِ الَّذِي خَلَقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امْتَحَنَکِ صَابِرَةً؛
مفاتیح زیارت حضرت زھراء۔
سلام ہو آپ پر اے آزمائش شدہ بیبی آپ کا اس اللہ نےامتحان لیا جس نےآپ کو پیدا کیا اس نےآپ کو آپ کی خلقت سےپہلے ہی صابرہ پایا۔
خلقت سےپہلے حضرت زہرا کس عالم میں خالص تھی ؟یہاں مقصود وہی عالم ذر اور خلقت نورانی ہےکہ جہاں اللہ تعالی نےحضرت زہرا کا اپنےلئے انتخاب فرمایا۔ دوسو 200 سےزیادہ روایات عالم ذر کےبارے میں موجود ہیں جن میں اشارہ ہوا ہےکہ الست بربکم کےعلاوہ دو سوال اور پوچھے گئے یعنی کل تین سوال پوچھے گئے چوتھا کوئی سوال نہیں تھا۔ اللہ تعالی نےحضرت آدم اور تمام اولاد آدم سےیہ تین سوال پوچھے ۔
پہلا سوال:الست بربکم ؛ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟
دوسرا سوال :ا لیس محمد نبیکم ؛ کیا حضرت محمد تمہارے نبی نہیں ہیں؟
تیسرا سوال :الیس علی و الائمة المعصومون ائمتکم ؛
کیا حضرت علی (ع)اور ائمہ معصومین تمہارے امام نہیں ہیں؟
تفسیر فرات، ص 147
سب سےبہترین جواب نبیوں نےدیا باقی کسی نےایک سوال کا جواب دیا کسی نےدو سوالوں کےجواب دیے لیکن شیعہ اور اہلبیت کےمحبوں نےتینوںسوالوں کےٹھیک ٹھیک جواب دیے ۔ انہوں نےتیسرے سوال کا جواب بھی دیا اور ائمہ معصومین کی ولایت کو قبول کیا۔یہ تو ایک نمونہ ہےجس سےپتا چلتا ہےکہ کس طرح اللہ تعالی نےائمہ معصومین کی ولایت کو تمام موجودات پر پیش کیا۔
انبیاء کا وعدہ
ایک اور آیت میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
( وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا )
سورہ زخرف، آیہ 45 ۔
اور آپ ان رسولوں سےسوال کریں جنہیں آپ سےپہلے بھیجا گیا ہے۔
یعنی اےرسول اکرم(ص) آپ تمام نبیوں سےسوال کرو اور پوچھو ان کو کیوں بھیجا گیا؟
روایات میں اس آیت کا شان نزول اس انداز سےبیان ہوا ہےجب رسول اکرم(ص) معراج پہ گئے وہاں تمام انبیاء نےرسول اکرم(ص) کا استقبال کیااور تمام انبیاء نےآپ کی اقتداء میں نماز ادا کی اس موقعے پر آواز قدرت آئی: اے پیمبر تمام نبیوں سےسوال کرو اور پوچھو ان کو کس بنیاد پر نبی بنایا گیا؟سب نےایک آواز ہو کہ کہا :
بُعِثْنَا عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ الْإِقْرَارِ بِنُبُوَّتِکَ وَ عَلَى الْوَلَايَةِ لِعلی بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع؛
شواہد التنزیل، ج 2 ، ص 224 ۔
اللہ تعالی نےہم پیغمبروں کو تین چیزوں کی وجہ سےنبی بنایا ہےپہلا توحید کی گواہی، دوسرا تمہاری نبوت اور رسالت کا اقرار، تیسرا حضرت علی (ع)کی ولایت اور امامت ۔ اللہ تعالی نےعالم ذر میں تمام انبیاء سےولایت کےعہد اور پیمان کےبعد ہمیں دنیا میں نبی اور رسول بنا کےبھیجا اور اس کےبعد بھی فرمایا : میں تمہیں مبعوث کرتا ہوں تاکہ اپنی اپنی امتوں میں رسول اکرم(ص) اور امیرالمومنین (ع) کی پہچان کرواؤ۔
بہت ساری روایات میں آیا ہےکہ حضرت علی (ع)کی امامت اور ولایت سابقہ نبیوں اور سابقہ امتوں میں رائج تھی یعنی حضرت علی (ع)ابتدا سےانتھا تک سب پر ولایت رکھتے ہیں۔
ولایت کےتوسل سےبارش کی درخواست
ہم نمونےکےطورپرایک واقعہ ذکرکرتےہیں: جب حضرت موسی نےاللہ تعالی سےپانی کا سوال کیا اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ ) ۔
سورہ بقرہ، آیت 60 ۔
اور اس موقع کو یاد کرو جب موسٰی علیہ السّلام نےاپنی قوم کےلئے پانی کا مطالبہ کیا۔
یعنی جب حضرت موسی نےاللہ تعالی سےپانی کا سوال کیا تو اللہ تعالی نےجواب میں فرمایا : اے موسی لوگوں کو جمع کر اور بیاباں میں لے جا۔ حضرت موسی نےاس کام کو انجام دیا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کی :
فَقَالَ مُوسَى إِلَهِي بِحَقِّ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ بِحَقِّ علی سَيِّدِ الْأَوْصِيَاءِ وَ بِحَقِّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ وَ بِحَقِّ الْحَسَنِ سَيِّدِ الْأَوْلِيَاءِ وَ بِحَقِّ الْحُسَيْنِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ وَ بِحَقِّ عِتْرَتِهِمْ وَ خُلَفَائِهِمْ سَادَةِ الْأَزْکِيَاءِ لَمَّا سَقَيْتَ عِبَادَکَ هَؤُلَاء؛
مستدرک، ج 5 ، ص 236 ۔
یعنی پروردگارا تمہیں رسول اکرم(ص)، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین کا واسطہ ہمیں سیراب فرما۔ اس عبارت سےپتا چلتا ہےکہ تمام انبیاء کا وظیفہ اپنی امتوں میں ائمہ معصومین کی پہچان کروانا تھا اور مشکلات میں ان سےمدد طلب کرناتھا اگر پہچان نہ کروائی ہوتی تو انکی قوم ان سےضرور سوال کرتی : اللہ تعالی کوجن ہستیوں کا واسطہ دے رہےہو یہ کون ہیں؟
عبادت، ولایت کا مقدمہ ہے
یہاں سوال پیدا ہوتا ہےکہ عالم ذر میں نماز، روزہ، حج، خمس اور اس کےعلاوہ دسیوں فروع دین کا ذکر کیوں نہیں؟اس کا جواب یہ ہےکہ انبیاء کا مقصد صرف توحید، رسول اکرم(ص) کی نبوت، اہلبیت کی ولایت کی معرفت کروانا ہے۔ لیکن ان تین چیزوں کی بقا ء اور حفاظت کیلئے ایک قانون کےمجموعے کی ضررت ہے۔ وہ قانون نماز، روزہ، حج، خمس اور باقی فروع دین ہے۔
اگر اللہ تعالی مجھ سےکہےتم پر مکہ جانا واجب ہےتو ہوائی جہاز کی ٹکٹ لینا اور ہوائی جہاز میں سفر کرنا بھی واجب ہوگا کیونکہ مکہ تک پہنچنےکیلئے یہ مقدمات انجام دینا ضروری ہیں۔
اسی طرح اصلی واجب تین چیزیں ہیں توحید، نبوت، ولایت ۔ لیکن ا ن تین چیزوں تک پہنچے کیلئے اور پہنچنےکےبعد ان کی حفاظت کیلئے اوران میں اور زیادہ مضبوط ہونےکیلئے فروع دین اور عبادت کی ضرورت ہے۔
اس بنا پرتمام عبادات اور اخلاقی مسائل کا فلسفہ ولایت تک پہنچنا ہے۔ اگر علی کی ولایت کسی کےپاس نہیں اس کےتمام اعمال اور عبادات باطل ہیں۔ اس طرح ہیں جیسےجل کر خاک ہوگئے ہوں اور ہوا میں اڑ گئے ہوں ۔اس کا فلسفہ بھی روشن ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: اصلی واجب تین چیزیں ہیں توحید، نبوت، ولایت باقی تمام اعمال ا ن تین چیزوں کیلئے مقدمہ ہیں۔ اگر تمہارے پاس ولایت نہیں ہوگی تمہارے اعمال کس کام کے؟ تمہارے اعمال کا بھی کوئی فائدہ نہیں، وہ باطل ہیں اگر ولایت نہ ہوتی تو اللہ تعالی نماز، روزہ اور دوسرے اعمال واجب نہ کرتا۔
امام صادق (ع) ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
نَحْنُ الصَّلَاةُ فِي کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ نَحْنُ الزَّکَاةُ وَ نَحْنُ الصِّيَامُ وَ نَحْنُ الْحَجُّ وَ نَحْنُ الشَّهْرُ الْحَرَامُ وَ نَحْنُ الْبَلَدُ الْحَرَامُ وَ نَحْنُ کَعْبَةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ قِبْلَةُ اللَّهِ وَ نَحْنُ وَجْهُ اللَّهِ وَ نَحْنُ الْآيَاتُ وَ نَحْنُ الْبَيِّنَات؛
بحار، ج 24 ، ص 303 ۔
قرآن میں نماز سےمراد ہم ہیں، زکات ہم ہیں، روزہ ہم ہیں، حج ہم ہیں، عزت والے مہینےہم ہیں، کعبہ ہم ہیں، قبلہ ہم ہیں، اللہ کا چہرہ ہم ہیں، اللہ تعالی کی آیتیں ہم ہیں، اللہ تعالی کی روشن نشانیاں ہم ہیں۔
یعنی اللہ تعالی نےاحکام اور عبادات کیلئے ایک ویٹامن رکھا ہےاگر وہ ویٹامن حاصل نہ ہوا تو ان احکام اور عبادات کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ ویٹامن ولایت ہے۔
سولہویں مجلس
سابقہ امتوں میں علی کی ولایت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَلَقَدْ آتَيْنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ۔)
سورہ حجر، آیہ 87 ۔
اور ہم نےآپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
آتَاکُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ
خدا نےآپ کو وہ مقام عطا کیا ہےجو عالمین میں سےکسی کو عطا نہیں کیا۔
سب سےپہلی بات جواللہ تعالی نےائمہ معصومین کو عنایت فرمائی وہ اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات پر ان کی ولایت کو پیش کرنا ہے۔
ساتویں امام حضرت موسی کاظم ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَايَةُ علی مَکْتُوبَةٌ فِي جَمِيعِ صُحُفِ الْأَنْبِيَاءِ وَ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ نَبِيّاً إِلَّا بِنُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ وَ وَصِيَّةِ علی صَلَوَاتُ اللَّهِ علیهمَا ؛
کافی، ج 1 ، ص 437 ۔
اللہ تعالی نےامیرالمومنین (ع) کی ولایت مطلقہ کو تمام کتابوں اور تمام ا نبیا کےصحیفوں میں لکھ دیا ہےاور اللہ تعالی نےکسی نبی کو مقرر نہیں فرمایا مگر ولایت رسول اکرم(ص) اور ولایت وصی رسول اکرم(ص) حضرت علی (ع)پر۔
حضرت علی(ع)کا نام قرآن میں
ہم یہاں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں: اس حدیث اور اس جیسی سیکڑوں حدیثوں کا مطلب یہ ہےکہ عبری، سریانی اور دوسری زبانوں میں امام علی کا نام اور تذکرہ تمام آسمانی کتابوں میں آیا ہےاب سوال یہ ہےکہ کیا قرآن میں امام علی کا نام اور تذکرہ آیا ہے؟ ہم کچھ جگہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں قرآن میں امام علی کانام موجود ہے:
1 ۔ اللہ تعالی نےقرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَدَيْنَا لَعلی حَکِيمٌ )
سورہ زخرف، آیت 4 ۔
اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور اَپراز حکمت کتاب ہے۔ یعنی بتحقیق جسکا نام ام الکتاب میں یعنی سورہ حمد میں آیا ہےہمارے نزدیک علی صاحب حکمت ہے۔حدیث میں آیا ہےکہ لعلی حکیم سےمراد امیرالمومنین (ع) ہیں کیونکہ سورہ حمد میں صراط مستقیم سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں
معانی الاخبار، ص 32 ۔
ہم دعائے ندبہ میں امام زمانہ کےبارے میں پڑہتے ہیں :
يَا ابْنَ مَنْ هُوَ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَدَى اللَّهِ علی حَکِيم؛
اس کےفرزند جو ام الکتاب آیا ہےہمارے نزدیک علی صاحب حکمت ہے۔
2 ۔ دوسری جگہ جہاں قرآن میں حضرت علی (ع)کا نام آیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتاہے:
( قَالَ هَـٰذَا صِرَاطٌ علی مُسْتَقِيمٌ )
سورہ حجر، آیت 41 ۔
ارشاد ہوا کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔یعنی یہ میرا رستہ اور یہ میرا رہبرمستقیم ہیں ۔ حدیث میں آیا ہےکہ
صِرَاطٌ علی مُسْتَقِيمٌ
اس آیت سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں۔
نور الثقلین، ج 3 ، ص 15 ؛ بحار، ج 35 ، ص 363 ۔
مرحوم آیت اللہ نجابت شیرازی جب اس آیت پہ پہنچتے تو مسکرانا شروع کرتے اور فرماتے :اس جگہ ادبیات کےلحاظ سےعلی زبر کےساتھ بلکل مناسب نہیں یہان علی مولا کا نام ہونا چاہیے کیونکہ دوسری آیتوں میں مناسبت پائی جاتی ہے۔
( وَ أَنَّ هذا صِراطي مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوه )
سورہ انعام، آیت153.
حدیث کےمطابق اس آیت میں صراط مستقیم سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں۔
نور الثقلین، ج 1 ، ص 779 ؛ بحار، ج 35 ، ص 371 ۔
3 ۔ تیسری جگہ جہاں قرآن میں حضرت علی (ع)کا نام آیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن میں سورہ یاسین میں ارشاد فرماتاہے:
( إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )
سورہ یس، آیت تا 3 ۔
آپ مرسلین میں سےہیں بالکل سیدھے راستے پر ہیں۔یعنی یہاں ہم علی پڑہتے ہیں او رہےبھی علی لیکن حدیث میں آیا ہےکہ علی صراط مستقیم اس آیت سےمراد بھی امیرالمومنین (ع) ہیں یعنی علی صراط مستقیم ہے
کافی، ج 1 ، ص 417 ۔
ان توضیحات کےبعد کوئی کیسےکہ سکتا ہےکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں میں علی کا نام اور تذکرہ ہےلیکن قرآن میں علی کا نام اور تذکرہ نہیں؟ بلکہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کس مقصد کیلیے نازل ہوا ہے؟قرآن خود جواب دیتا ہےکہ :
( انَّ هَـٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ )
سورہ اسرا، آیت 9 ۔
بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہےجو بالکل سیدھا ہے۔یعنی یہ قرآن محکم اورمستقیم راستے کی طرف انسان کی ہدایت کرنےکیلیےا ٓیا ہے۔ امام صادق (ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
قَالَ يَهْدِي إِلَى الْإِمَامِ يَهْدِي إِلَى الولآیت؛
تفسیر صافی، ج 3 ، ص 180 ۔
قرآن جس محکم اورمستقیم راستےکی ہدایت کرتاہےوہ محکم اورمستقیم راستہ ہماری امامت اورولایت ہےان دومطالب کوملانےسےپتا چلتا ہےکہ قرآن، ولایت اور فضائل اہلبیت کی پہچان کیلیے آیا ہے۔ قرآن علی کی پہچان کیلیے آیا ہے۔ اب اس بحث کی جگہ ہی نہیں رہتی کہ قرآن میں امامت اور ولایت کاتذکرہ ہےیا نہیں۔
ولایت ہمیشہ سےہی اصول دین میں شامل ہے
تمام آسمانی کتابوں میں امیرالمومنین(ع)کا تذکرہ ہے۔اب ممکن ہےکوئی سوال کرےسابقہ امتوں کی کتابوں کارسول اکرم(ص)کی امت سےکیا ربط ہےاورکیوں وہ علی کی معرفت کےمحتاج ہیں؟ہم جواب میں کہیںگےامیرالمومنین(ع)کی ولایت اورباقی ائمہ کی ولایت تمام انبیاءاورسابقہ امتوں کےاصول دین میں شامل تھی اورسب کیلیےضروری تھاان پراجمالی طورپرایمان رکھیں۔امام صادق(ع)ایک روایت میں ارشادفرماتےہیں:
إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ وَلَآیتنَا أَهْلَ الْبَيْتِ قُطْبَ الْقُرْآنِ وَ قُطْبَ جَمِيعِ الْکُتُب ؛
تفسیر عیاشی، ج 1 ، ص 5
اللہ تعالی نےہم اہلبیت کوتمام آسمانی کتابوں اورقرآن کریم کامرکزی محورقرارکیاہے۔اگرتمام آسمانی کتابوں اورقرآن کریم سےہماراذکرمٹادیاجائےتووہ کسی کام کےنہ رہیںگےاورکوئی فائدہ نہ دیںگےاسیلئےجب جنگ صفین میں عمروعاص کےحکم پرقرآن کونیزےپرچڑھایا گیاحضرت علی(ع)نےفرمایا:ان صفحوں پرتوجہ نہ کرومیں قرآن ناطق ہوں،ان صفحوں کی کوئی قیت نہیں۔وہ کلمات قرآن کےذریعےقرآن ناطق اور ولایت سےلڑنا چاہتے ہیں۔
ہر جگہ علی کا نام
رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا جب میں معراج پر گیا اور جنت اور جہنم کو دیکھا میں نےدیکھا کہ:
الْجَنَّةُ فِيهَا ثَمَانِيَةُ أَبْوَاب؛
جنت کےآٹھ دروازے ہیں
عَلَى کُلِّ بَابٍ مِنْهَا أَرْبَعُ کَلِمَات؛
اور ہر دروازے ہر چار کلمے لکھے ہوئے ہیں جن میں سےتیسرا علی ولی اللہ ہے۔
بحار، ج 8 ، ص 144 ۔
ایک اور حدیث میں رسول اکرم(ص) نےارشاد فرمایا: جب میں معراج پر گیا میں نےنہ کوئی پردہ دیکھا نہ حجاب، نہ کوئی پتھر دیکھا نہ درخت، نہ کوئی پتا دیکھا سوائے یہ کہ ہر چیز پر علی علی علی لکھا تھا۔
مدینہ المعاجز، ج 2 ،ص 390 ۔
یعنی تمام چیزوں کےباطن اور احساس میں علی اور مسئلہ ولایت ہے۔ ایک اورحدیث میں رسول اکرم(ص)نےارشادفرمایا:چاند،سورج کےماتھے پراورتمام آسمان پرعلی کانام لکھاہے۔اسی طرح ارشادفرمایا :
مَا اسْتَقَرَّ الْکُرْسِيُّ وَ الْعَرْشُ وَ لَا دَارَ الْفَلَکُ وَ لَا قَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلَّا بِأَنْ کُتِبَ علیها لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ علی أَمِيرُ الْمُؤْمِنِين؛
الیقین، ص 239 ۔
عرش اورکرسی اپنی جگہ پہ کھڑے نہ تھے زمین اور آسمان اپنی جگہ پہ کھڑے نہ تھے مگر یہ کہ اللہ تعالی نےان پہ تین جملے لکھے
لااله الا اللَّه، محمد رسول اللَّه، علی ولی اللَّه ۔
کیاان تمام باتوں کےبعد بھی اس سوال کی جگہ باقی رہتی ہےکہ ولایت اصول دین میں سےہےیا اصول مذہب میں سے؟
اللہ کی ولایت
ایک روا یت میں امام صادق (ع) ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَآیتنَا وَلَايَةُ اللَّهِ الَّتِي لَمْ يَبْعَثْ نَبِيّاً قَطُّ إِلَّا بِهَا ؛
کافی، ج 1 ، ص 437 ۔
ماری ولایت اللہ تعالی کی لایت ہےاللہ تعالی نےکوئی نبی نہیں بھیجامگر ہماری ولایت پر۔
اب اس روایت کی ایک معنی تو یہ ہےکہ جس کا بھی اللہ تعالی نےامتحان لیااوروہ کامیاب ہوااسےاللہ تعالی نےنبی بنایااوروہ امتحان ائمہ معصومیں کی ولایت پرایمان اوران کی پیروی کاتھا۔اوراس روایت کی دوسری معنی یہ ہےکہ انبیاءکوبھیجنےکامقصدولایت کی پہچان کرواناہےیعنی اللہ تعالی نےنبیوں کوبھیجا تاکہ وہ اپنی امتوں میں امیرالمومنین(ع)اوراہلبیت کی پہچان کروائیں۔تمام انبیاءمیں سےاولوالعزم نبی پانچ کیوں ہیں؟اور 313 رسول کیوں ہیں؟ ہماری روایتوں میں آیا ہےکہ تمام نبیوں میں سےجس نبی نےہماری ولایت کو اچھی طرح قبول کیاوہ اعلی مقام پرفائزہوا۔اولوالعزم نبیوں نےائمہ معصومین کی ولایت کو اچھے طریقے سےقبول کیا اس لئے اللہ تعالی نےان کا نام الوالعزم رکھا یعنی ائمہ معصومین کی ولایت کو قبول کرنےکا عزم کرنےوالے۔
ا ب سوال یہ ہےکہ حضرت آدم اولوالعزم نبیوں میں سےکیوں نہ ہوئے؟ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہےکہ:
( وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا )
سورہ طہ، آیت 115 ۔
اورہم نےآدم سےاس سےپہلےعہدلیامگرانہوں نےاسےترک کردیااورہم نےانکےپاس عزم وثبات نہیں پایا۔
یعنی ہم نےآدم میں عزم نہ پایا۔اللہ تعالی نےجنت میں حضرت آدم سےیہ فرمایاتھاکہ: تم اورحواجوچاہوجنت میں کھاؤلیکن اس ولایت کےپاک درخت کےقریب نہ جانا۔یہ درخت ائمہ معصومین سےمخصوص ہےاورکسی کااس میں کوئی حصہ نہیں،لیکن حضرت آدم نےاس درخت سےکچھ مقدارکھائی توآوازقدرت آئی: تیری اس نافرمانی اورترک اولی پرتمہیں جنت سےنکالاجاتاہے۔
ان باتوں سےیہ نتیجہ نکلاکہ ولایت اورامامت نہ صرف دین اسلام اوراس امت میں بلکہ تمام ادیان مسیحیت، یھودیت اورتمام کائنات میں عالم ذر سےآج تک اصول دین تھی ہےاوررہےگی۔
سترہویں مجلس
تمام کائنات پر ولایت کو پیش کیا گیا
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَکُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ )
سورہ یس، آیت 12
اورہم نےہرشےکوایک روشن امام میں جمع کردیاہے۔
امام علی نقی زیارت جامعہ میں ارشادفرماتےہیں:
آتَاکُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ
خدانےآپکووہ مقام عطاکیاہےجوعالمین میں سےکسی کوعطا نہیں کیا۔
ائمہ معصومین کی ولایت کوتمام کائنات پرپیش کیاگیاہے۔ابتدامیں یہ سوال پیداہوتاہےکہ کیااللہ تعالی نےاس کائنات(جس میں انسان زندگی گذاررہےہیں)کےعلاوہ کوئی اورکائنات پیدا کی ہیں؟اگراللہ تعالی نےدوسری کائنات پیداکی ہیں توان پراللہ تعالی کی حجت اوران کاامام کون ہے؟
امام صادق(ع)نےایک روایت میں ارشادفرمایا :
إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ اثْنَيْ عَشَرَأَلْفَ عَالَمٍ کُلُّ عَالَمٍ مِنْهُمْ أَکْبَرُ مِنْ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ وَ سَبْعِ أَرَضِينَ مَا يَرَى عَالَمٌ مِنْهُمْ أَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَالَماً غَيْرَهُمْ وَ إِنِّي الْحُجَّةُ علیهمْ؛
خصال، ج 2 ، ص 639 ۔
اللہ تعالی نےبارہ ہزاردنیائیں پیدا کی ہیں ان میں سےہرکائنات ہماری کائنات(جس میں سات آسمان اورسات زمینیں شامل ہیں)سےبڑی ہے۔میں تمام کائناتوں کیلئےاللہ تعالی کی حجت ہوں اوران کا امام ہوں۔
اب کوئی تعجب کا مقام نہیں!اگر قنبر مولا علی کےبارے میں فضہ سےپوچھے امیر المومنین کہاں ہیں؟ اور فضہ جواب میں کہے:
عرج المولی الی السماء لیقسم ارزاق العباد؛
میرےمولا بندوں کارزق تقسیم کرنےآسمان کی طرف گئے ہیں۔قنبرنےسمجھافضہ مذاق کررہی ہیں۔قنبرمولاعلی کوڈھونڈتےایک باغ میں مولاعلی کوپاتےہیں۔اورمولاعلی سےیہ ماجری بیان کرتےہیں مولاعلی نےجواب میں فرمایا:قنبرآرام سے!گویاتم ہم پراورہماری ولایت پرحقیقی ایمان نہیں رکھتے!اےقنبریہ دنیااورجوکچھ اس دنیا میں ہےہمارےلئےاس اخروٹ کی طرح ہےجوہماری ہاتھ میں ہو۔
شرح زیارت جامعہ، حسین گنجی، ج 2 ، ص 182 ۔
اس سےپتاچلتاہےفضہ کامقام قنبرسےبلندہےاورقنبرکواتناپتانہیں جتنافضہ جانتی ہیں کیونکہ قنبرباہررہتےتھےاورفضہ گھرمیں رہتی تھیں۔
ائمہ کی وسعت امامت
امام کےاس قول کا مقصد صرف اس دنیا کا امام نہیں بلکہ ان کا امام ہونا اور اللہ تعالی کی طرف سےحجت ہونا سب کو شامل ہےیعنی اللہ تعالی کےعلاوہ سب پر حجت ہیں اور ان کی امامت تمام کائناتوں پر فرض ہے۔جیسا کہ:
( وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ )
سورہ زخرف، آیت84.
اور وہی وہ ہےجو آسمان میں بھی خدا ہےاور زمین میں بھی خدا ہے)اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہےکہ یہا ں:
(وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ )
سےمراد ائمہ معصومین اور امیرالمومنین(ع) ہیں۔
تفسیر نور الثقلین، ج 4 ، ص 617 ۔
یعنی امام تمام کائناتوں پرحاضر اور ناظر ہیں ۔اور امام مسافت طے کرنےکا محتاج نہیں جیسا کہ قنبر نےسوچا۔ کیونکہ تمام کائناتیں امام کےسامنےاخروٹ کی طرح ہیں ۔اخروٹ کو الٹ پلٹ کرنےاور دیکھنےمیں کتنا ٹائم لگتا ہے؟ ایک سیکنڈ یا اس سےبھی کم بلکہ اخروٹ کو دیکھنےکیلئے ٹائم نہیں لگتا کیونکہ وہ ہمارے سامنےہے۔
رسول اکرم(ص)کےدور میں 39 انتالیس افرادمیں اختلاف ہوا ان میں سےہرایک کادعوی تھاکہ ہم نےرات امام علی کی مہمان نوازی کی ہےاوران میں ہرایک قسم کھارہاتھا کہ رات امام علی ہمارےمہمان تھے۔ وہ سب رسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں آئےتاکہ اس مسئلےکوحل کریں۔جب رسول اکرم(ص)کواپنی بات بتاچکےتورسول اکرم(ص)نےفرمایاعلی تورات میرےمہمان تھے۔لوگوں نےدیکھا کہ مشکل حل نہیں ہوئی بلکہ ایک اورفردکااضافہ ہوگیا۔اب چالیس 40 افرادہوگئےجن کادعوی تھاکہ رات علی ان کےمہمان تھے۔اب تمام لوگ وحی کاانتظارکرنےلگےاسوقت جبرئیل نازل ہوئےاورفرمایااےاحمد!اللہ تعالی کاسلام قبول فرمائیں اللہ تعالی فرماتاہےکہ کل رات علی میرےپاس عرش پہ میرےمہمان تھے۔
صحیفہ الابرار، ج 2 ، ص 84 ۔
یعنی تمام کائنات میں علی تھےاورعلی کےوجودسےکوئی جگہ خالی نہ تھی۔
اسی طرح جب رسول اکرم(ص) معراج سےپلٹے تو حضرت علی (ع)، رسول اکرم(ص) کو آسمانوں کےبارے میں بتانےلگے اور معراج کا ماجرا بتایا رسول اکرم(ص) نےپوچھا اے علی! کیا تم عرش پر میرے ساتھ تھے؟امام نےفرمایا: نہیں! بلکہ میں یہیں سےمشاہدہ کر رہا تھا۔
بحار، ج 16 ، ص 318 ۔
یعنی حضرت علی (ع) عرش کی باتیں جاننےکیلئے عرش پہ جانےکےمحتاج نہیں۔ اب یہ حکمت کا تقاضہ تھا کہ حضرت علی (ع)اس طرح بیان کریں کیونکہ ہم انسانوں کی ناقص عقلیں اس سےزیادہ کو سمجھ نہیں سکتیں۔ اگر اس سےزیادہ ہماری عقلیں سمجھ سکتیں تو امام علی کسی اور طریقے سےبیان کرتے کہ اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات ہماری ولایت کےتابع ہیں۔
موجودات پر ولایت
اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات پر ولایت کا پیش کیا جانا:
دوسرا قابل ذکرموضوع یہ ہےکہ ائمہ کی ولایت اللہ تعالی کےعلاوہ تمام موجودات کوشامل ہےجس میں آسمان، زمین، جمادات اور نباتات ہیں۔
ایک روایت میں امام رضا فرماتے ہیں :
عَرَضَ اللَّهُ الْوَلَايَةَ عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ؛
اقبال الااعمال، ج 2 ، ص 262 ۔
اللہ تعالی نےہماری ولایت کو آسمان والوں اور زمین والوں پر فرض کیا ہے۔ آسمانوں میں سےساتویں آسمان نےہماری ولایت قبول کرنےمیں سبقت کی تو اللہ تعالی نےاسےزینت دی کہ عرش بنا دیا۔ اس کےبعد چوتھے آسمان نےہماری ولایت کو قبول کیاتو اللہ تعالی نےاسےبیت المعمور سےزینت بخشی۔ اس کےبعد دنیا کےآسمان نےہماری ولایت قبول کی تو اللہ تعالی نےاسےستاروں سےزینت بخشی۔
اس کےبعد ہماری ولایت کو زمین پر پیش کیا گیا جس زمین نےسب سےپہلے ہماری ولایت کو قبول کیا وہ مکہ کی سر زمین تھی تو اللہ تعالی نےاسےاپنےگھرسےزینت بخشی۔ اسکےبعد مدینہ کی سرزمین نےہماری ولایت کو قبول کیا تو اللہ تعالی نےاسےرسول اکرم(ص) کےروضے سےزینت بخشی۔ اس کےبعد کوفہ کی سرزمین نےہماری ولایت کو قبول کیا تو اللہ تعالی نےاسےحضرت علی (ع)کےروضے سےزینت بخشی ۔اس کےبعد ہماری ولایت کوپانی پر پیش کیاگیا جس پانی نےہماری ولایت کو قبول کیا وہ پانی میٹھا ہو گیا اور جس پانی نےہمای ولایت کو قبول نہ کیا وہ پانی کڑوا ہو گیا۔ اس کےبعد ہماری ولایت کو نباتات پر پیش کیا گیا جس نےہماری ولایت کو قبول کیا وہ نباتات باارزش بن گئی۔
ایک اور روایت میں امام علی ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى عَرَضَ وَلَآیتنَا عَلَى أَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الثَّمَرِ وَ غَيْرِ ذَلِکَ فَمَا قَبِلَ مِنْهُ وَلَآیتنَا طَابَ وَ طهرَ وَ عَذُبَ وَ مَا لَمْ يَقْبَلْ مِنْهُ خَبُثَ وَ رَدِيَ وَ نَتُنَ؛
مستدرک الوسائل، ج 16 ، ص 413 ۔
اللہ تعالی نےہماری ولایت کوآسمان والوں، زمیں والوں، انسانوں اورجنوں پرپیش کیاجس نےہماری ولایت کوقبول کیاوہ اعلی اورپاکیزہ بن گیااورجس نےہماری ولایت کوقبول نہ کیاوہ پست اوربدبودارہوگیا۔حیوانات میں سےبھی جس نےہماری ولایت کوقبول کیاوہ خوش آوازبن گیااورجس نےہماری ولایت کوقبول نہ کیاوہ بدآوازبن گیاجیسےگدھاجسےقرآن میں سب سےبدآوازکہاگیاہے۔
سورہ لقان، آیت 19 ۔
امام رضاعلی السلام ایک حدیث میں ارشادفرماتےہیں:
فِي جَنَاحِ کُلِّ هُدْهُدٍ خَلَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَکْتُوبٌ بِالسُّرْيَانِيَّةِ آلُ مُحَمَّدٍ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ؛
کافی، ج 6 ، ص 224 ۔
تمام موجودات میں سےہدہدکےپروں پرسریانی زبان میں یہ لکھاہےکہ آل محمدتمام موجودات میں سےبہترین مخلوق ہیں۔اس وجہ سےہدہدکاخون بہانااورگوشت کھانامکروہ ہے۔
داؤد رقی نقل کرتےہیں میں امام صادق(ع)کی خدمت میں تھااتنےمیں ایک شخص داخل ہواجسکےہاتھ میں ایک ذبح شدہ پرندہ تھاجس کا خون اس کےہاتھوں سےٹپک رہاتھا۔امام اس پرغضبناک ہوئےاوراسکےہاتھ سےوہ ذبح شدہ پرندہ لےکہ زمین پہ رکھااورفرمایاتمہارے عالم یامجتہدنےتمہیں اسےذبح کرنےکاحکم دیاہے؟کیاتمہیں پتانہیں یہ پرندہ آسمان کیطرف پروازکرتاہےاورہمیشہ آل محمدکےمصائب پہ گریہ کرتا ہےاور اس پرندے کی تسبیح سورہ حمد ہے۔ کیا جو پرندہ اہلبیت سےمحبت کرےاور سورہ حمد کی تلاوت کرے اسےذبح کیا جائے؟
خصال، ج 1 ، ص 326 ۔
اسی طرح ایک پرندہ ہےجسےقنابرکہا جاتا ہےاس پرندےکا ورد زباں یہ ذکر ہے:
الْعَنْ مُبْغِضِي علی ع اللَّهُمَّ أَبْغِضْ مَنْ أَبْغَضَهُ وَ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ؛
علل الشرایع، ج 1 ، ص 143 ۔
پروردگارا!دشمنان علی پہ لعنت کر،جوبھی علی سےبغض رکھےتوبھی اس سےبغض رکھ جوبھی علی سےمحبت کرےتوبھی اس سےمحبت کر۔
اسکےعلاوہ روایات میں آیاہےکہ رسول اکرم(ص)نےفرمایا جبرئیل کےایک پرپہ لکھاہے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ
کوئی اللہ نہیں سوائےاس ایک اللہ کےاورمحمداسکارسول ہے۔ اوردوسرےپرپہ لکھاہے:
وَ مَکْتُوبٌ عَلَى الْآخَرِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ علی الْوَصِيُّ؛
صراط مستقیم، ج 1 ، ص 243 ۔؛ مدینہ المعاجز، ج 2 ، ص 408 ۔
کوئی اللہ نہیں سوائے اس ایک اللہ کےاورعلی وصی ہے۔ یعنی قدرت نےجو جبرئیل کو طاقت پرواز دی ہےاور اتنی عظمت والا قرار دیا ہےاسکا سبب جبرئیل کا توحید، رسالت، اور ولایت کی گواہی دینا ہے۔
ان تمام باتوں کےساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہےانسانوں میں اہلبیت کےفضائل سننےکی آمادگی نہ تھی۔ آپ دیکھیں مسلمانوں نےاپنی حدیث کی کتابوں میں سلمان سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟ ابوذر سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟جابر بن عبداللہ انصاری سےکتنی روایتیں نقل کی ہیں؟ سلمان سےنقل کی ہوئی روایتیں شاید پچاس 50 تک بھی نہ پہنچیں حالانکہ رسول اکرم(ص)کےقول کےمطابق سلمان اہلبیت میں سےتھا کیارسول اکرم(ص) نےسلمان سےمطالب بیان نہ کئے ہوں گے ؟ جن مطالب کی تعلیم رسول اکرم(ص) نےسلمان کو دی وہ بہت بلندمطالب ہیں۔ بلکہ روایات میں آیا ے کہ:
سَلْمَانُ بَحْرٌ لَا يُنْزَفُ وَ کَنْزٌ لَا يَنْفَدُ؛
بحار، ج 22 ، ص 348 ۔
سلمان اس سمندر کی طرح ہےجسکاکوئی کنارانہیں۔سلمان ایساخزانہ ہےجوکبھی ختم نہیں ہوتا؛کیونکہ رسول اکرم(ص)نےملاحظہ فرمایا کہ اکثریت ان مطالب کونہیں سمجھ سکتی اسلئےبلندمطالب کی تعلیم سلمان کودی اورباقی چھوٹےموٹےمطالب اکثریت کوبتائے۔
اٹھارویں مجلس
توحید، اسلام، ایمان اور ولایت
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّـهِ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ )
سورہ روم، آیت5.
اور اسی دن صاحبانِ ایمان خوشی منائیں گے اللہ کی نصرت و امداد کےسہارے کہ وہ جس کی امداد چاہتا ہےکردیتا ہےاور وہ صاحب عزت بھی ہےاور مہربان بھی ہے۔
امام علی نقی(ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :
آتَاکُمُ اللَّهُ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدا مِنَ الْعَالَمِينَ
خدانےآپ کو وہ مقام عطاکیاہےجوعالمین میں سےکسی کوعطانہیں کیا۔
گزشتہ ابحاث میں بیان ہواکہ خداوندمتعال نےآئمہ معصومین کی ولایت کوتمام کائنات کےآگےپیش کیا، یہاں ہم یہ دیکھناچاہتے ہیں کہ ولایت اورتوحید، اسلام اورایمان میں کونسارابطہ ہے۔
ولایت اورتوحید
جب ہم ولایت اور توحید کےمتعلق حدیثوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہےکہ ولایت اور توحیددو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ حقیقت میں ایک چیز کےدو نام ہیں۔ ولایت اور توحیدمیں کوئی فرق نہیں۔ ولایت کا کام توحید کو پہنچانا ہےاور اس سےیہ نتیجہ بھی نکلتا ہےکہ جو ولایت کےدائرے میں نہیں وہ توحید کےدائرے سےباہر ہےجس کےپاس ولایت کی نعمت نہیں اسےموحد کہلانےکا کوئی حق نہیں۔
ہم اس مطلب کا اثبات دو ایسی حدیثوں سےکرتے ہیں جو سند کےلحاظ سےعلماکےدرمیان سلسلہ الذہب کےنام سےمشہور ہیں یعنی ان کےراوی آئمہ اور فرشتے ہیں اور یہ ان حدیثوں کی ہی خصوصیت ہےکہ اگر ان حدیثوں کی سند کو زعفران سےلکھ کہ پانی میں ملا کےکسی مریض کو پلائیں تو اللہ تعالی کےحکم سےشفایاب ہوگا۔
صحیفہ الابرار، ج 2 ، ص 84 ۔
ان دوحدیثوں میں سےایک تووہ حدیث ہےجو امام علی رضا(ع)نےہزاروں راویوں کی موجودگی میں نیشاپورکےمقام پہ ارشادفرمائی:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ عَذَابِي قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطها وَ أَنَا مِنْ شُرُوطها؛
بحار، ج 3 ،ص 7 ۔
کلمہ لاالہ الا اللہ، اللہ تعالی کامضبوط قلعہ ہےجوبھی یہ کلمہ زبان پرلاتاہےوہ اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہوجاتاہےاور عذاب الہی سےامان پاتاہے۔
اس حدیث کےآخر میں امام(ع) فرماتے ہیں اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہونےکیلئے اور عذاب الہی سےامان پانےکیلئے چودہ شرطیں ہیں جوکہ چودہ معصومین ہیں ان شرائط میں سےایک میری امامت اور ولایت کا عقیدہ ہے۔
دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَايَةُ علی بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي؛
بحار، ج 39 ، ص 246 ۔
کلمہ کی طرح حضرت علی(ع) کی ولایت بھی اللہ کا مضبوط قلعہ ہےجوبھی حضرت علی(ع)کی ولایت کا اقرار کرتا ہےوہ اللہ تعالی کےمضبوط قلعے میں داخل ہوتا ہےاور عذاب الہی سےامان پاتا ہے۔
اس مقام پہ سوال اٹھتاہےکہ کیااللہ تعالی کےدومختلف ،قلعے ہیں ایک کانام توحیداوردوسرےکانام ولایت ہے، یا اللہ تعالی کا ایک ہی قلعہ ہےجس کےتوحید اور ولایت دو نام ہیں؟ جواب یہ ہےکہ اللہ تعالی کا ایک ہی قلعہ ہےجس کےتوحیداورولایت دو نام ہیں۔ توحیدکےظہورکانام ولایت ہےاوراللہ تعا لی نےائمہ معصومین(ع)کی زباں میں کلام کیاہےاب جوبھی ولایت کاقائل نہیں وہ حقیقت میں توحیدکامنکرہے۔
ایک شخص رسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں کسی چیز کا سوال کرتا ہےتو آنحضرت (ص) جواب میں فرماتے ہیں : اگر اللہ تعالی نےچاہا اور امیرالمومنین (ع)نےچاہا تو ہوجائے گا۔
القطرہ من بحار مناقاب النبی والعترہ، ج 1 ، ص 193 ۔
یعنی اللہ تعالی کی مشیت اورامیرالمومنین (ع) کی چاہت ایک ہی ہیں۔ عالم امکان میں کسی چیز کےظاہر ہونےکیلئے ولایت کی چاہت بھی ضروری ہے۔ہم یہاں نمونےکےطور پر دومقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
پہلا نمونہ:
آپ حدیث کسامیں ملاحظہ فرماتےہیں جبرئیل اللہ تعالی سےکسامیں جانےکی اجازت طلب کرتےہیں جب اللہ تعالی اجازت دیتاہےتوزمین پرآتے ہیں اوررسول اکرم(ص)کی بارگاہ میں آسمانی ماجراکو بیان کرتے ہیں اور عرض کرتے ہی :
یا رسول اللہ کیا آپ مجھے کسامیں آنےکی اجازت دیتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالی نےاجازت دی ہےتو پھر دوسری اجازت کس لئے؟ اس سےسمجھ میں آیا اللہ تعالی کی اجازت کےساتھ رسالت اور ولایت کی اجازت بھی ضروری ہے۔
دوسرانمونہ:
زیارت جامعہ میں ہم پڑہتے ہیں :
لا يَأْتِي علیها إِلا رِضَاکُمْ
سوائے آپ کی رضامندی کےمحونہیں ہو سکتے۔
یعنی اےمیرےسردار!میرےاورمیرے اللہ کےدرمیان وہ گناہ ہیں جومجھ سےسرزدہوئےہیں آپکی رضاکےعلاوہ ان گناہوں کوکوئی مٹانہیں سکتا۔اللہ تعالی نےگناہوں کی معافی کیلئےرضائےاہلبیت کی شرط رکھی ہےیعنی اللہ تعالی نےیہ اختیاراہلبیت کےسپردکیاہے۔
زیارت جامعہ میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے
مَنْ أَرَادَ اللَّهَ بَدَأَ بِکُمْ وَ مَنْ وَحَّدَهُ قَبِلَ عَنْکُمْ وَ مَنْ قَصَدَهُ تَوَجَّهَ بِکُمْ
یقینا جس نےاللہ کا ارادہ کیا اس نےآپ سےشروع کیااور جس نےاللہ کو ایک جانا اس نےآپ کی تعلیم کو قبول کیا اور جس نےخدا کا قصد کیاوہ آپ کےذریعے متوجہ ہوا ۔
یعنی جو بھی اللہ تعالی کی معرفت چاہتا ہےآپ سےابتدا کرتا ہے۔ اگر میں نہیں جانتا کہ کس طرح اللہ کےشہر میں داخل ہو جاؤں مجھے کہنا چاہیے اے امیرالمومنین (ع)! اے فاطمہ زہرا(ع)!اے ائمہ معصومین(ع)! اے صاحب الزمان(ع)! میں اللہ کےشہر میں داخل ہونا چاہتا ہوں اور مجھے پتا نہیں وہ کہاں ہے! لیکن اتنا پتا ہےکہ آپ جانتے ہیں اور آپ اس میں رہتے ہیں کیا ممکن ہےآپ میرا ہاتھ تھام کر مجھے بھی اللہ تعالی کےشہر میں داخل کریں؟
جس نےبھی اللہ تعالی کی وحدانیت کوماناہےیعنی اللہ کوواحد، احد، فرد،صمدماناہےاسکی ایک نشانی ہےوہ نشانی یہ ہےکہ وہ آپ لوگوں کومانتاہےاورآپ کےفضائل، کمالات، صفات اورکلمات کومانتاہے۔
جوبھی اللہ کےنزدیک ہوناچاہتاہےاوراسکادیدارکرناچاہتاہےاسےچاہیےآٓپ کوذریعہ قراردے۔ کیونکہ جوبھی نمازپڑھتاہےیاروزہ رکھتاہےیاحج انجام دیتاہےہم قطعی حکم نہیں لگا سکتے کہ وہ اللہ کی راہ کامسافرہےکیونکہ ہم سےزیادہ ہمارےمخالف اوردشمن نمازی، روزہ دار اور حج کرنےوالے ہیں۔ اللہ کےراہ کی نشانی یہ ہےکہ وہ چہاردہ معصومین کی طرف سفر کرے۔
جوبھی اللہ تعالی کادیدارکرناچاہتاہےاسےچاہیےآئینہ خداکی زیارت کرےیعنی ائمہ کی زیارت کوجائےکیونکہ اللہ کی صفات، اللہ کی عظمت، اللہ کی رحمت سب ان میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
علامہ مجلسی تحفہ الزائرکی ساتویں زیارت میں حضرت علی(ع)کو اس جملےسےخطاب کرتے ہیں:
َ السَّلَامُ عَلَى نَفْسِ اللَّهِ تَعَالَى الْقَائِمَةِ فِيهِ بِالسُّنَن؛
تحفہ الزائر، ص 106 ۔
سلام ہواس نفس الہی پرجس کی بدولت اللہ کی سنتیں قائم ہیں۔ نفس الہی پرسلام کا مطلب کیاہے؟ یعنی اس پر سلام جس میں اللہ تعالی کی تمام صفات ہیں جس میں اللہ تعالی کےتمام کمالات ہیں ۔ جوخارج میں اللہ تعالی کےتمام افعال کووجوددیتا ہے، یہ ساری صفات امیرالمومنین (ع) کےوجود میں جمع ہیں۔
امام صادق (ع) سےمنقول ایک روایت میں امام ارشاد فرماتے ہیں:
بِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ بِنَا عُرِفَ اللَّهُ وَ بِنَا وُحِّدَ اللَّه؛
کافی، ج 1 ، ص 145 ۔
اللہ تعالی کی بندگی ہمارے ذریعے ہوتی ہےاللہ تعالی کی معرفت ہمارے ذریعے ہوتی ہےاور ہمارے ہی ذریعے خدا کو ایک مان کر اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس جملے کی دو معنی ہو سکتی ہیں پہلی معنی: اگر اللہ تعالی ہمیں پیدا نہ کرتا تو کوئی اللہ تعالی کی بندگی نہ کرسکتا اور کوئی بھی اللہ تعالی کی معرفت حاصل نہ کرسکتا یعنی کوئی بھی توحید کی کلاس میں نہ بیٹھ سکتا۔ ہمارے سبب خدا کی پہچان ہوئی، اللہ تعالی کی یکتائی ہمارے سبب ہےورنہ لوگ اللہ تعالی کی معرفت اور بندگی میں ہزاروں چیزوں کو شریک کر لیتے۔
دوسری معنی یہ ہےکہ: اگر ہم معصوم امام نہ ہوتے لوگوں کےپاس اللہ تعالی کی بندگی اور معرفت کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا وہ اللہ تعالی کی توحید کو نہ سمجھ سکتے اسی طرح ارشاد فرمایا چاہےکوئی نبی ہو یا غیر نبی اس نےتوحید ہم سےسیکھی ہےہم توحید کےستون ہیں۔دعائے ماہ رجب میں امام زمانہ ارشاد فرماتے ہیں:
فَبِهِمْ مَلَأْتَ سَمَاءَکَ وَ أَرْضَکَ حَتَّى ظَهَرَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت؛
مفاتیح الجنان، ماہ رجب میں ھر روز کی پانچویں دعا۔
پروردگارا!ائمہ معصومین کےاسما،کمالات اورصفات سےتونےزمین اورآسمان کوپرکردیایہاں تک کہ ہرچیزتوحیدکی گواہی دینےلگی۔
اللہ تعالی حدیث قدسی میں ارشادفرماتے ہیں :
کنت کنزا مخفيا فأحببت أن أعرف فخلقت الخلق لکي أعرف؛
بحار، ج 84 ، ص 199 ۔
میں مخفی خزانہ تھا کسی کو میری معرفت نہ تھی میں نےچاہا کہ پہچانا جاؤں۔ اب میں کیا کروں کہ لوگ مجھے پہچان لیں کہ میں خدا ہوں؟ اس وقت اللہ تعالی نےاپنی صفات اور کمالات ائمہ معصومین (ع)کو عطا فرمائیں تاکہ وہ توحید کی پہچان کروائیں۔
اب سوال یہ ہےکہ اللہ تعالی توحیدذات کوچاہتاتھایاتوحید صفات کو؟ذات خدا کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، خداوند کریم کی ذات یکتا ہےہم توحید صفاتی کےمکلف ہیں اور جس نےہمیں توحید صفات اور توحید اسما سکھائی وہ ائمہ معصومین ہیں۔
جو بھی ولایت کو قبول نہیں کرتا وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی توحیدکونہیں مانتاہمیں حق نہیں کہ اسےموحد کہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی کا منکر ہے۔
جو ائمہ معصومین(ع)کےعلاوہ توحید تک پہنچنا چاہتا ہےاورکسی کو خدا کےنام سےپکارتا ہےاس کا خدا واقعی نہیں کیونکہ واقعی خدا تو وہ ہےجس کا تعارف آئمہ معصومین نےکروایا ہے۔
ولایت اور اسلام
احادیث متواترہ کےمطابق نہ صرف ولایت اسلام کا رکن ہےبلکہ اسلام کا بلند ترین رکن ولایت ہے۔ ہم نمونےکےطور اس آیت کا ذکرکرتے ہیں جوواقعہ غدیرکےبعد ولایت کی پہچان میں نازل ہوئی :
( الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَأَتْمَمْتُ علیکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا )
سورہ مائدہ، آیت ہ 3 ۔
آج میں نےتمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہےاور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہےاور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔
یہاں مذھبکم نہیں آیا بلکہ دینکم آیا ہےیعنی ولایت صرف مذہب کو مکمل نہیں کرتی بلکہ ولایت دین کو مکمل کرنےوالی چیز ہے؛ کیونکہ ولایت کےبغیر اللہ تعالی کی نعمتیں ناقص ہیں۔آخر میں اللہ تعالی فرماتا ہےاب میں تمہارے دین اسلام سےراضی ہوں۔ یعنی اللہ تعالی اس جملے کےذریعے فرمانا چاہتا ہےولایت اسلام کا جزٔ ہے، اسلام کا رکن ہے۔نہ کہ اصول مذہب اسلئے ارشاد ہوا :بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ الْوَلَايَةِ وَ الصَّلَاةِ وَ الزَّکَاةِ وَ الصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَ لَمْ يُنَادَ بِشَيْءٍ مَا نُودِيَ بِالْوَلَايَة ؛
وسایل الشیعہ، ج 1 ، ص 18 ۔
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہےنماز، زکات، روزہ، حج اور لایت جتنی تاکید ولایت کےبارے میں کی گئی ہےاتنی تاکید کسی چیز کےبارے میں نہیں۔
وہ ولایت جو نماز اور روزہ کےمقابل ہےوہ ولایت سےدوستی اور ولایت کی پیروی کی معنی میں ہےلیکن ولایت پر ایمان اور امامت، اصول دین میں سےہےاور توحید اور رسالت سےالگ ہیں۔
ولایت اور ایمان
جو آیت غدیر کےدن نازل ہوئی اس کےآخر میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
( إنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِينَ )
اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
جو لوگ غدیر خم میں جمع ہوئے تھے کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟ ظاہر میں سب مسلمان تھے اور حج کےاعمال انجام دے کر آرہےتھے کیونکہ کوئی کافر مکہ نہیں جاتا اور حج کو قبول نہیں کرتا۔ اب یہ کون کافر ہیں جن کی اللہ تعالی ہدایت نہیں کرتا؟ پہلی ،دوسری، تیسری لسٹ میں وہ افراد ہیں جو ولایت کےمنکر ہیں۔جو بھی ولایت کا منکر ہےہم اسےمسلمان نہیں کہہ سکتے بلکہ حقیقت میں وہ کافر ہےجیسا کہ زیارت جامعہ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَنْ جَحَدَکُمْ کَافِرٌ وَ مَنْ حَارَبَکُمْ مُشْرِکٌ وَ مَنْ رَدَّ علیکُمْ فِي أَسْفَلِ دَرْکٍ مِنَ الْجَحِيمِ
اور جس نےآپ کا انکارکیا وہ کافرہےاور جس نےآپ سےجنگ کی وہ مشرک ہےاور جس نےآپ کےحکم کو رد کیا وہ جہنم کےپست طبقہ میں ہے۔یعنی جس نےبھی آپ کی ولایت اور امامت کا انکار کیا وہ کافر ہےاور جس نےبھی آپ سےجنگ کی وہ مشرک ہےاور جس نےبھی آپ کےخلاف حکم لگایا وہ جہنم کےنچلے ٹھکانےمیں ہے۔ حضرت سلمان نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا اے علی تیری مثال سورہ توحید جیسی ہے۔
امالی صدوق، ص 8 ۔
رسول اکرم(ص) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےحضرت علی (ع)کو سورہ توحید سےشباہت کیوں دی؟ ایک جہت شباہت تو معرفت میں ہے، ولایت امیرالمومنین (ع) بلند معارف میں سےہےاور اسےتوحید کےساتھ ہونا چاہیے۔ اس لئے فرمایا جو ایک بار سورہ توحید کی تلاوت ایک تہائی قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ دوبار سورہ توحید کی تلاوت دو تہائی قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ اور تین بار سورہ توحید کی تلاوت پورے قرآن کی تلاوت کےبرابر ہے۔ جس نےحضرت علی (ع)کو دوست رکھا وہ ایک تہائی ایماندار ہےاور جس نےحضرت علی (ع)کو دوست رکھنےکےساتھ زبان سےبھی اظہار کیا وہ دو تہائی ایماندار ہے۔ اور جس نےحضرت علی (ع)کودل سےدوست رکھنےکےساتھ زبان سےبھی اظہار کیا اور اس کا عمل بھی ولایت اور محبت کی نشاندہی کرنےوالا ہو وہ پوراایماندار ہے۔
اسی طرح ارشاد فرمایا :
يَا علی حُبُّکَ إِيمَانٌ وَ بُغْضُکَ نِفَاقٌ وَ کُفْرٌ؛
معانی الاخبار، ص 206 ۔
اے علی تیری محبت ایمان ہےاور تجھ سےدشمنی نفاق اور شرک ہے۔
اسی طرح رسول اکرم(ص) نےجنگ خیبرکےبعد ارشاد فرمایا :
يَا علی لَا يُحِبُّکَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَ لَا يُبْغِضُکَ إِلَّا مُنَافِقٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؛
بحار، ج 39 ، ص 287 ۔
اےعلی(ع)قیامت تک تجھ کوکوئی دوست نہیں رکھےگاسوائےمومن کےاورکوئی دشمن نہیں رکھےگاسوائےمنافق کے۔
جابر بن عبداللہ انصاری فرماتےہیں جب سےرسول اکرم(ص)نےارشادفرمایا:اےلوگواپنےبچوں کوعلی(ع)کی محبت سکھاؤ۔ہم اپنےبچوں کےسامنےعلی(ع)کی محبت رکھتے ہیں جوعلی(ع) کی محبت کوقبول کرتاہےہم سمجھ جاتےہیں وہ ہماری اولادہےاورجوعلی(ع) سےمحبت نہیں کرتا ہم اسےاپنی اولاد نہیں سمجھتے۔
بحار، ج 27 ، ص 151
ولایت اورتقوی
اللہ تعالی سورہ بقرہ میں مومن کی پہچان کرواتے ہوئے فرماتا ہے:
( وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْکَ )
وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول)ہم نےآپ پر نازل کیا ہے۔
یعنی جوکچھ تم پراےرسول نازل ہواہےاس پرایمان رکھتے ہیں۔اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ رسول اکرم(ص)پرکیانازل ہواہے؟
ماانزل الیک سےکیا مراد ہے؟جو آیت غدیر کےدن نازل ہوئی اس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
( يَا آیتا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ )
سورہ مائدہ، آیہ 67 ۔
اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کےپروردگار کی طرف سےنازل کیا گیا ہے۔
یعنی اے رسول جو کچھ تم پر نازل ہوا ہےلوگوں تک پہنچاؤ۔ شیعہ سنی متفق ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہوئی۔(ینابیع المودہ،)
یعنی قرآن انکی ہدایت کرتاہےجوولایت پرایمان رکھتےہیں اورجوکچھ رسول اکرم(ص)پرنازل ہوااس پرایمان رکھتےہیں۔کیونکہ ارشادہوتا ہےقرآن متقین کیلئےہدایت ہےاس بناپرنتیجہ یہ نکلتاہےکہ جسکاولایت پرایمان نہیں وہ مومن نہیں۔
2 ۔ وہ ہدایت یافتہ نہیں۔ اب جو ہدایت یافتہ نہیں وہ قطعا گمراہ ہے۔
فہرست منابع
قرآن کریم
نہج البلاغہ، سید رضی، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ چہاردہم، 1378 ق۔
الاحتجاج، شیخ طبرسی، نجف اشرف، اصفہان 1384 ۔
احیاء العلوم، امام محمد غزالی، بیروت، دار المعرفۃ۔
اختصاص، شیخ مفید، قم، جامعہ مدرسین۔
اقبال الاعمال، سید ابن طاووس۔
امالی، شیخ صدوق۔
بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، بیروت، موسسہ الوفا، تہران موسسہ اعلمی، 1362 ۔
بصائر الدرجات،محمد فروغ الصفار، تہران، موسسہ اعلمی، 1362 ق۔
تاویل الایات، سید شرف الدین حسینی، قم، مدرسہ امام مہدی، جلد، اول، 1407 ق۔
تحفہ الزائر، محمد باقر مجلسی۔
تفسیر برہان، سید ہاشم بحرانی، تہران، بنیاد بعثت، جلد، اول، 1415 ق۔
تفسیر صافی، ملا محسن فیض کاشانی، مشہد، دار المرتضی،چاپ اول۔
تفسیر فرات کوہی، تہران،چاپ اول، 1410 ق۔
تفسیر قمی، علی ابن ابراہیم قمی، بیروت، دائرہ السرور،چاپ اول، 1413 ق۔
تفسیر نور الثقلین، شیخ علی حویزی، قم، موسسہ اسماعیلیان، چاپ چہارم، 1412 ق۔
تہذیب الاحکام، شیخ طوسی، تہران، دار الکتب اسلامی۔
خصال، شیخ صدوق، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ چہارم، 1416 ق۔
درود، شمس الدین محمد ابن مکی، قم، موسسہ نشر اسلامی، چاپ اول، 1412 ق۔
روضہ المتقین، علامہ محمد تقی مجلسی، تہران۔
شرح زیارت جامعہ، فخر المحققین شیخ الاسلام شیرازی۔
شجرہ طوبی، محمد مہدی حائری، نجف، منشورات مکتب حیدریہ، چاپ پنجم، 1385 ق۔
شواہد التنزیل، حاکم حکانی، تہران، موسسہ وزارت ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411 ق۔
صحیح مسلم، ابو الحسن ابن مسلم، بیروت، دار الفکر۔
صحیفہ الابرار۔
صحیفہ نور، امام خمینی۔
صراط مستقیم، علی ابن یونس عاملی، چاپ حیدری، چاپ اول 1384 ق۔
طرائف، سید ابن طاووس، قم، خیام، 1399 ق۔
علل الشرایع، شیخ صدوق، نجف، مکتبہ الحیدریہ، 1385 ق۔
عیون الاخبارالرضا، شیخ صدوق، بیروت، موسسہ اعلمی، چاپ اول، 1404 ق۔
الغدیر، علامہ امینی، بیروت، دار الکتب العربی، چاپ چہارم، 1397 ق۔
غر ر الحکم و درر الحکم، عبد الواحدآمدی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول۔
فیض الغدیر، محمد عبد الرووف المنادی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ق۔
قادتنا کیف نعرفہم، سید محمد ھادی سیلانی،قم، موسسہ آل البیت، چاپ دوم، 1413 ق۔
القطرہ من بحار النبی و العترہ، سید احمد مستنبط۔
کافی، محمد ابن یعقوب کلینی، تہران، دار الکتب اسلامی، چاپ سوم، 1388 ق۔
کشف الغمہ، ابن ابی الفتح اربلی، بیروت۔
کنز العمال، علامہ محمد تقی ہندی، بیروت، موسسہ الرسالہ، 1409 ق۔
کمال الدین، شیخ صدوق، قم موسسہ نشر اسلامی، 1405 ق۔
مجمع البیان، شیخ طبرسی، بیروت، موسسہ اعلمی، چاپ اول، 1415 ق۔
مجمع النورین، شیخ ابو الحسن مرندی۔
مدینہ المعاجز، سید ہاشم بحرانی، قم، موسسہ معارف اسلامیہ، چاپ اول، 1413 ق۔
مراہ العقول، محمد باقر مجلسی۔
المزار، شیخ مفید۔
مستدرک سفینہ البحار، شیخ علی نمازی شاہرودی، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1419 ق۔
مستدرک الوسایل، حسین نوری، قم، موسسہ آل البیت، 1408 ق۔
معانی الاخبار، شیخ صدوق، قم، دفتر انتشارات اسکامی، 1361 ق۔
مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی، اسوہ، چاپ اول۔
مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، نجف، الحیدریہ، 1376 ق۔
مناقب امیر المومنین، سلمان کوفی، قم، مجمئ احیائ الثقافہ الاسلامی، چاپ اول، 1412 ق۔
من لا یحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق، جامئہ مدرسین، چاپ دوم۔
نوائب الدہور فی علائم الظہور، حسین میر جہانی، مکتبہ الصدر، چاپ اول، 1386 ق۔
نور البراہین، سید معمت اللہ جزایری، قم، موسسہ نشر اسلامی، چاپ اول، 1417 ق۔
وسایل الشیعہ، شیخ حرعاملی، قم، موسسہ آل البیت، چاپ دوم، 1414 ق۔
ینابع المودہ، قندوزی، قم، اسوہ، چاپ اول، 1416 ق۔
یقین، سیدابن طاووس، قم، موسسہ دارالکتاب، چاپ اول۔ 1413 ق۔
فہرست
اس کتاب کےبارےمیں چندباتیں4
مولف کا مقدمہ5
پہلا مورد:7
دوسرا مورد:7
پہلی مجلس10
زیارت جامعہ، امام کی معرفت کا درس10
زیارت جامعہ کی سند11
1 ۔ قوت متن11
2 ۔ معتبر کتابوں میں نقل ہونا12
ائمہ معصومین(ع)کی تائید13
حکایت سیدرشتی14
دوسری مجلس15
پہلا نکتہ : فضائل کامجموعہ16
دوسرا نکتہ: تکبیرکا فلسفہ16
زیارت جامعہ میں تدبر17
تیسرا نکتہ: بے انتہا فضائل19
پہلا مقام: اس عبارت میں19
دوسرا مقام:19
چوتھا نکتہ: ائمہ معصومین (ع)کی توصیف سےانسان کی عاجزی21
تیسری مجلس22
اہلبیت نبوت22
ائمہ معصومین(ع) میں رسول اکرم(ص)کی خوبیاں24
پہلی روایت:24
دوسری روایت27
لقمان اورنبوت27
تیسری روایت :28
چوتھی مجلس29
رسول اکرم(ص)اورامیرالمومنین(ع)کی مشترک خصوصیتیں29
اخلاق حسنہ اورصفتوں میں برابری30
خلقت میں برابری31
اخوت اوربرادری32
مدت عمرمیں برابری33
بشرکی بنسبت اولی ہونا33
پہلےمسلمان35
علی سےجدا ہونا37
ولایت علی37
پانچویں مجلس38
رسول اکرم(ص)اورعلی کےمشترکات( 2)38
قدرت بینائی اورشنوائی38
عصمت:46
چھٹی مجلس47
رسول اللہ کےنزدیک،مولا علی کا مقام47
علی اورہارون کی شباہتیں48
پہلی شباہت48
جنگ احزاب میں50
جنگ خیبرمیں50
جنگ ذات السلاسل میں50
دوسری شباہت: کاموں میں آسانی51
تیسری شباہت: جانشینی52
ساتویں مجلس54
اہل بیت اور مقام رسالت54
مطلق اورمقیدولایت54
تبلیغ ولایت، پیغمبر اکرم کی بعثت کا راز56
مقام عصمت،نبوت وامامت کامحافظ58
حکومت انبیاءپرولایت59
امیرالمومنین(ع)اورعلم الکتاب61
انبیا کا خلاصہ63
صفوة المرسلین63
سلالة النبین63
صفو ة المرسلین63
تقرب کا برترین مقام63
آٹھویں مجلس64
قرآن کی نظرمیں اہلبیت کا باب اللہ ہونا64
اہلبیت کو باب اللہ سےتشبیہ دینےکا سبب65
قرآن کی سب سےافضل آیت67
گناہوں کی معافی کا دروازہ67
بنی اسرائیل حطہ کی جگہ پہ حنطہ69
نویں مجلس70
روایات میں ائمہ معصومین کا باب اللہ ہونا70
ایمان اور کفر71
اللہ تعالی کی معرفت کا دروازہ72
پہلا : امام کی معرفت۔ دوسرا : امام کی اطاعت۔73
دسویں مجلس76
ائمہ معصومین، تمام کمالات کےلحاظ سےباب اللہ ہیں( 1)76
معصومین سےفیض پانا78
کلام کےامیر79
کلامکم نور؛79
نمازکی روح79
تمام نیکیوں کا آغاز81
تمام نیکیوں کی جڑ81
نیکی کی معدن82
نیکی کا مقام82
گیارہویں مجلس83
اہلبیت واسطہ فیض ہیں85
عرفان میں انحراف87
بارہویں مجلس88
علم اورحکمت کا دروازہ88
تیرہویں مجلس93
اعمال کی قبولیت93
چودہویں مجلس97
اہلبیت اور کائنات کی تربیت97
معصومین کی الہی تربیت99
ایک ناصبی پر حضرت علی (ع)کی عنایت100
پوری کائنات کی تربیت101
پندرہویں مجلس103
تمام کائنات سےولایت کا سوال103
عالم ذرمیں ولایت104
انبیاء کا وعدہ105
ولایت کےتوسل سےبارش کی درخواست106
عبادت، ولایت کا مقدمہ ہے107
سولہویں مجلس108
سابقہ امتوں میں علی کی ولایت108
حضرت علی(ع)کا نام قرآن میں109
ولایت ہمیشہ سےہی اصول دین میں شامل ہے111
ہر جگہ علی کا نام111
اللہ کی ولایت112
سترہویں مجلس113
تمام کائنات پر ولایت کو پیش کیا گیا113
ائمہ کی وسعت امامت114
موجودات پر ولایت116
اٹھارویں مجلس119
توحید، اسلام، ایمان اور ولایت119
ولایت اورتوحید119
پہلا نمونہ:121
دوسرانمونہ:121
ولایت اور اسلام123
ولایت اور ایمان124
ولایت اورتقوی126
فہرست منابع
|