۱۳۹۷/۶/۴   0:20  بازدید:1656     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


24 اگست، 18 کو حجۃ الاسلام و المسلمین مونا حسینی کی اقتداء میں نماز جمعہ اداء کی گئی۔

 


24 اگست، 18 کو حجۃ الاسلام و المسلمین مونا حسینی کی اقتداء میں نماز جمعہ اداء کی گئی۔

آپ  نے اس خطبے میں مندرجہ ذیل موضوعات کو پر روشنی ڈالا۔

1_ مؤمنین کو تقوی کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا کہ متقین وہ ہے کہ جو کار خیر انجام دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔

امام ھادی علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا بازار  جیسی ہے کہ کچھ لوگوں سے اس سے فائدہ  اٹھایا  اور کچھ لوگوں نے ضرر کیا ۔

لیکن کامیاب لوگ  مقابلہ دیتے ہو ئے جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔

کہتے ہے کہ بہشت میں سو سال لگ جاتا ہے کہ امام کی زیارت کرنے کے لیئے کوئی عام بہشتی جانا  چاہے ہاں کچھ مؤمنین امام کے ساتھ ہمسایہ بن کر  رہتے ہیں۔

میں مسلسلہ آپنے خطبوں میں اسلام کے کچھ صفات بیان کر رہا ہوں کہ   اج ان میں سے ایک  اور آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہو کہ اسلام میں برتری  کے لیئے تین  ملاک ہے  کہ اس میں سے اول تقوی ہے  انما اکرمکم عند اللہ اتقاکم )  در حالیکہ اسلام سے ہٹ کر اور لوگو ں میں  بڑھا بننے  کے لیئے دولت کا زیادہ  ہونا ہے۔

دوسرا ملاک : جھاد فی السبیل اللہ ہے ۔ قرآن کریم آیت نمبر 95 میں ارشاد فرماتے ہیں ( لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَکُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا )

 بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مومنین اور راہ خدا  میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے 

تیسرا ملاک: علم رکھنا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے (قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (9)  الزمر

کہدیجئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں

ایندہ ہفتے میں ایک مناسبت عید غدیر ہے ۔ اس لیئے چاہتا ہو کہ امیر المؤمنین کے  کچھ   خود مولا علی علیہ السلام کی زبانی  ذکر کروں 

حضرت امام علی نے حطبہ نمبر 221 میں  فرمایا کہ  

خدا کی قسم ! مجھے سعدان(ایک خاردار جھاڑی ہے جسے اونٹ چرتا ہے)۔

 کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ہوکر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو۔ یامال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو،میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔ بخدا میں نے (اپنے بھائی )عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا،یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے) گیہوں کے ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے او ر میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فقر و بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیئے گئے ہیں۔وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو باربار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کا ن دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیا ل کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو جاؤں گا۔مگر میں نے کیا یہ کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا ا ور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں۔چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اے عقیل رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم ا س لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں (بغیر جلانے کی نیت سے ) تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے۔تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں۔اس سے عجیب تر واقع یہ ہے کہ ایک شخص2 رات کے وقت (شہد میں ) گندھا ہو ا حلوہ ایک برتن میں ليے ہوئے ہمارے گھر پر آیا۔جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسو س ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یازکوٰة ہے یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے۔ تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے۔تو میں نے کہا پسر مردہ عورتیں تجھ پر رو‏ئیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے ليے آیا ہے۔کیا تو بہک گیا ہے ؟ یا پاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے۔خدا کی قسم ! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں۔صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کروں گا۔

آپ لوگوں کی خدمت میں ایک واقعہ نقل کرتا ہو کہ:

قم کے ایک فاضل استاد نقل کرتا تھا کہ میں جب امریکہ  میں درس دینے گیا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ فلاں شہر میں ایک آدمی مسلمان ہو چکا ہے تو میں اس سے ملنے گیا تو اس سے مسلمان ہونے کی وجہ پوچھا تو اس نے   کتاب نہج البلاغہ اٹھایا اور اسی جملے پر ہاتھ رکھ کر بولا کہ خدا کی قسم  اس جملے کی وجہ سے مسلمان ہو چکا ہو۔

 یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذ ّتوں سے کیا واسطہ۔ ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔

دوسرا خطبہ

مولانا صاحب نے دو سرے خطبے میں فرمایا کہ :

امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ نماز میں حضور قلب پیدا کریں تو غیبت کرنے سےاپنے آپ کو رکھے ۔

اس ہفتے میں ایک مناسبت 15 ذی الحجہ کو امام ھادی علیہ کی ولادت ہے ۔

امام علی نقی الھادی علیہ السلا م سے ہمیں دو بہت قمتی سرمائے پہنچے ہیں ۔

ایک زیارت جامعہ کبیرہ ہے

جن بزرگوں نےزیارت جامعہ کو نقل کیا ہےان میں سےایک مرحوم شیخ عباس قمی ہیں۔ وہ اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں زیارت جامعہ کےباب میں سیدرشتی کی حکایت کو ذکرکرتے ہوئے فرماتےہیں:مرحوم سیدرشتی اپنےقافلے سےبچھڑ گیا اوربہت پیچھے رہ گیا تو ان کو امام زمانہ(ع)کی زیارت کاشرف نصیب ہوا، امام زمانہ(ع)نےان کوتین چیزوں کی سفارش کی۔

امام زمانہ (ع) فرماتے ہیں: تم لوگ نافلہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ نافلہ، نافلہ، نافلہ ۔

یہاں میں یہ بھی عرض کرتے چلو کہ یہ بہت آچھی بات ہے کہ  کچھ لوگ نماز  تہجد پرھنے کے لیئے  رات کو مسجد تشریف لاتے ہیں  اگر  لوگوں کا ایک دوسرے کےلیئے یہی استغفار نہ ہوتا تو   لوگ گناہو ں کی وجہ سے کب کے نابود ہو چکے ہوتے ۔

تم لوگ زیارت عاشورا کیوں نہیں پڑھتے؟ عاشورا، عاشورا، عاشورا۔ تم لوگ زیارت جامعہ کیوں نہیں پڑھتے؟ جامعہ، جامعہ، جامعہ

اس حکایت میں ایک اہم نکتہ یہ ہےکہ : بھلا گم ہونےکا زیارت جامعہ سےکیا واسطہ؟ واسطہ یہ ہےکہ: اگر ظاہری چیز گم ہو جائےامام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اگرمعنوی چیز گم ہو جائے!معنوی مسئلےمیں حیران اور پریشان ہوں، اگرتمہیں پتا نہ چلے کہ اللہ تعالی سےکیسےرابطہ رکھیں تو بھی امام زمانہ(ع)کو پکارو۔ اب ہرچیز کیلئے امام زمانہ(ع)کو پکاریں لیکن امام زمانہ(ع) کی معرفت حاصل کرنےکیلئےکیا کریں؟امام زمانہ کی معرفت کیلئےزیارت جامعہ پڑھیں۔جس کی معرفت میں اضافہ ہوگاوہی امام کویا اباصالح المہدی کہہ کر بلائےگااورامام بھی اس کی فریادکوآئےگااوراس مسئلہ حل کرےگا ۔

عرض یہ کہ اس آدمی  زیارت جامعہ پڑھا تو پھر وہی شخص آیا اور فرماتے کہ اب تک نہیں  گئے اس نے پھر  بولا کہ راستہ کا نہیں پتہ اور قافلے سے بچھڑ گیا ہو  تو اس نے فرمایا کہ اؤ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ اس سواری  پر  کہتےہے کہ ہم بیٹھ گئے تو اس نے ادھر ہی ایک گول چکر لگایا اور مجھے والوں تک پہنچایا اور  انہی تیں وصیتو کو پھر بھی دھرایا۔

دو سرا زیارت غدیریہ  ہے

اما م ھادی سے  نقل کیا گیا دوسرا انمول تحفہ زیارت غدیریہ ہے ۔ کا جس میں امام علی علیہ السلام پر گزرے  ہوئے کچھ دل کو دکھانے والے  حکایات بھی بیان ہو چکے ہیں ۔