امام محمد باقر علیہ السلام اور سیاسی مسائل
زیدی شیعوں نے امامت کے معاملہ میں تلوار کے ساتھ امام کے قیام کو اپنے مذہب کی ایک بنیاد قرار دیا ہے۔ زیدی فرقہ کی نظر میں ایک علوی فرد اس وقت امام قرار پاسکتا ہے جب وہ مسلح تحریک چلائے۔ بصورتِ دیگر وہ اسے امام نہیں سمجھتے تھے۔ اگر زیدیوں کے اس عقیدہ کے نتیجہ کی جانب توجہ کی جائے تو وسیع اسلامی مملکت کے گوشہ و کنار میں نفسِ زکیہ، ان کے بھائی ابراہیم، حسین بن علی معروف بہ شہید فخ اور بعض دوسرے افراد کے وسیلہ سے کی جانے والی چند پراگندہ اور ناکام تحریکوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ طبرستان کی مسلح تحریک جس کے رہبر زیدی تھے یا امامی، اس میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں (اگرچہ یقین کے قریب احتمال یہی ہے کہ زیدی تھے) کے علاوہ کسی تحریک نے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
الف: وہ لوگ خدا کے برگزیدہ بندوں، یعنی ائمہ طاہرین کے بجائے ہر اس علوی کے پیچھے چل پڑے جو تلوار اٹھا لے۔
ب: ثقافتی اعتبار سے تفسیر، فقہ و کلام میں امامی شیعوں کے مقابلہ میں زیدی شیعہ کوئی منظم اور مربوط ثقافت نہیں اپنا سکے۔ یہ لوگ فقہ میں تقریباً ابوحنیفہ کے اور کلام میں پورے طور پر معتزلہ کے پیروکار تھے۔ اس کے مقابلہ میں شیعہ ائمہ خصوصاً امام باقرٴ اور امام صادقٴ کے علمی اقدامات کی وجہ سے ایسا مکتب پیدا ہوا جس کی اپنی ایک خاص اور بھرپور ثقافت تھی، جو بعد میں مکتبِ جعفری کے نام سے مشہور ہوئی۔ اگرچہ مکتبِ باقری کے نام سے شہرت بھی غلط نہیں ہے۔ یہ فکری مکتب جو تمام معاملات میں علومِ اہلبیت کو منظم طور پر پیش کرتا ہے، یہ ان دو اماموں کی نصف صدی (سال ٩٤ سے ١٤٨ ہجری تک) کی دن رات کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اس زمانے کے سیاسی حالات میں جب کہ اموی اور ان کے بعد عباسی حکمران اپنی حکومت کی بقائ کے لئے ہر مخالف طاقت اور ہر مخالفت کو کچل دیا کرتے تھے، ایسے موقف کے انتخاب کے ساتھ طبعی طور پر اہم سیاسی اقدامات نہیں کیے جاسکتے تھے۔ اور ہر جگہ واحد خوبی یہی نہیں ہوتی کہ ہر صورت اور ہر قیمت پر سیاسی عمل میں شرکت کی جائے چاہے اس کے لئے معارف حق کے بیان سے چشم پوشی کرنی پڑے اور ایک پوری امت پر راستہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے۔ ائمہ طاہرین نے اس دور میں اپنا بنیادی موقف یہی قرار دے دیا تھا کہ اسلام کے حقیقی دینی معارف کو بیان کیا جائے اور اپنا اصلی کام یہی چُن لیا تھا کہ مذہبی ثقافت کی تدوین کی جائے جس کا نتیجہ آج ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ائمہ نے ظالم حکمرانوں کے خلاف کبھی کوئی موقف نہیں اپنایا۔ تقریباً تمام شیعہ اور حتی کہ بنو امیہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ شیعہ رہبر خلافت کے دعویدار ہیں اور ان کا موقف یہ تھا کہ خلافت ان کا اور ان کے آبائ کا حق تھا اور قریش نے زبردستی اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ اسی لئے ائمہ اپنے شیعوں کو سوائے ضروری، استثنائی اور خاص دلائل کی بنیاد پر حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ لیکن یہ عدم تعاون ایک باضابطہ، مسلسل اور مسلحانہ تحریک اور انقلابی قیام کی صورت میں سامنے نہیں آیا۔ بنابریں مخالفت او عدم تعاون کی دعوت اور منفی رویہ امامٴ کے واضح موقف میں شامل تھا۔
عقبہ بن بشیر نامی ایک شیعہ امام باقرٴ کے پاس آیا اور اپنے قبیلہ میں اپنے بلند مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ہمارے قبیلہ میں ایک عریف (حکومت کی طرف سے منظور شدہ کسی قوم کا ترجمان یا سردار) تھا جو مر چکا ہے۔ قبیلہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ مجھے اس کی جگہ عریف بنا دیں۔ آپٴ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امامٴ نے فرمایا:
کیا تم اپنے حسب اور نسب کا ہم پر احسان جتاتے ہو؟ اللہ تعالی مومنوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے بلند مقام دیتا ہے حالانکہ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں اور کافروں کو ذلیل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہیں۔ اور یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہارے قبیلہ میں ایک سردار تھا جو مرچکا ہے اور قبیلہ والے تجھے اس کی جگہ پر رکھنا چاہ رہے ہیں، تو اگر تجھے جنت بری لگتی ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبیلہ کی سرداری کو قبول کرلے کیونکہ اگر حاکم نے کسی مسلمان کا خون بہایا تو تو اس کے خون میں شریک سمجھا جائے گا اور شاید تجھے ان کی دنیا سے بھی کچھ نہ ملے۔ (١)
یہ روایت بتاتی ہے کہ امامٴ کس طرح سے اپنے شیعوں کو حکومت میں کسی بھی مقام حتی کہ عریف بننے سے بھی روکتے تھے جس کی کوئی خاص حیثیت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اور اس کی دلیل یہ تھی کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناہوں میں شیعہ شریک نہ ہوں۔
امام باقرٴ مختلف طریقوں سے لوگوں کو حکمرانوں پر اعتراض اور ان کو نصیحت کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ آپٴ سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ:
من مشی الی سلطان جائرٍ فامره بتقوی الله و وعظه و خوّفه کان له مثل اجر الثقلین من الجن و الانس و مثل اجورهم۔
جو ظالم حاکم کے پاس جاکر اسے خدا سے ڈرائے اور نصیحت کرے اور اسے قیامت کا خوف دلائے، اس کے لئے جن و انس کا اجر ہے۔ (٢)
تقیہ وہ بنیادی ترین ڈھال ہے جس کی آڑ میں شیعوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے سیاہ دورِ حکومت میں اپنی حفاظت کی۔ جیسا کہ امام باقرٴ نے اپنے بابا سے نقل کیا کہ آپٴ نے فرمایا:
ان التقیة من دینی و دین آبائی و لادین لمن لاتقیة له۔ (٣)
بے شک تقیہ میرا اور میرے اجداد کا دین ہے۔ اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کے پاس دین نہیں۔
متعدد تاریخی دلائل اور شواہد واضح طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ خاندانِ اہلبیت میں امامت کا دعوی موجود رہا ہے۔ اور یہ بات زیادہ تر لوگوں کے لئے اظہر من الشمس تھی اور سب جانتے تھے کہ ائمہ کرام امامت کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔ امام باقرٴ اور دوسرے تمام ائمہ حکمرانوں کے کاموں کو باطل اور شرعی طور پر ناجائز قرار دیتے تھے اور اسلامی معاشرے میں سچی امامت کو برقرار کرنے کی ضرورت کو لوگوں کے لئے بیان کرتے رہتے تھے:
اسی طرح اے محمد (بن مسلم) اس امت کا جو بھی شخص ظاہر و عادل اور خدا کی طرف سے منصوب امام کے بغیر زندگی گزارے وہ گمراہی میں پڑ گیا اور حیرانی و سرگردانی میں مبتلا ہوا۔ اور اگر اسی حال میں مر گیا تو کفر و نفاق کی حالت میں مرا۔ اے محمد! ظالم حکمران اور ان کے پیروکار خدا کے دین سے منحرف ہوگئے ہیں۔ وہ خود بھی گمراہی میں ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ جو کام وہ انجام دیتے ہیں یہ اس راکھ کی مانند ہے جس پر طوفانی دن میں تیز ہوا چلی ہو اور جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ اور یہ حق سے دور کرنے والی گمراہی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ (٤)
ان جملات کا قدرتی نتیجہ لوگوں کو اہلبیت کی طرف بڑھانا اور عوام پر حاکموں اور والیوں کے ظلم و ستم کو ظاہر کرنا تھا۔ امامٴ کا بار بار اس بات پر تکیہ کہ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے ساتھ ولایت بھی اسلام کے پانچ بنیادی احکام میں سے ایک ہے، یہ بھی اسی بنیاد پر تھا۔ جیسا کہ حدیث کے بقیہ حصہ میں ولایت پر تاکید کی خاطر فرمایا:
ولم یناد بشیئ کما نودی بالولایة، فاخذ الناس باربع و ترکوا الولایة۔ (٥)
خدا نے لوگوں کو ولایت سے بڑھ کر کسی چیز کی طرف نہیں بلایا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں نے چار کو لے لیا اور ولایت کو چھوڑ دیا۔
روایت ہوئی ہے کہ ایک دن امام باقرٴ ہشام بن عبد الملک کے پاس گئے اور اسے خلیفہ اور امیر المومنین کی حیثیت سے سلام نہیں کیا۔ ہشام ناراض ہوا اور اپنے ارد گرد موجود افراد کو حکم دیا کہ امامٴ کی سرزنش کریں۔ اس کے بعد ہشام نے امامٴ سے کہا:
لایزال الرجل منکم شقّ عصا المسلمین و دعا الی نفسه۔ ہر زمانے میں آپ میں سے کوئی نہ کوئی مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالتا ہے اور لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔ اس کے بعد امامٴ کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور دوسروں کو بھی حکم دیا کہ امامٴ کی سرزنش کریں۔ اس موقع پر امامٴ نے لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا:
اے لوگو! کہاں جارہے ہو اور کہاں لے جائے جارہے ہو؟ تمہارے پہلے کو اللہ نے ہمارے ذریعہ ہدایت دی اور تمہارا اختتام بھی ہم پر ہی ہوگا۔ اگر تم نے جلدی زمامِ حکومت کو ہاتھ میں لے لیا ہے، تو آخرکار امت مسلمہ کے امور ہمارے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔ کیونکہ ہم وہ خاندان ہیں کہ عاقبت ہمارے ساتھ ہی ہے۔ خدا کا فرمان ہے: نیک انجام متقین کے لئے ہے۔
ہشام نے امامٴ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ جو لوگ آپٴ کے ساتھ قیدخانہ میں تھے، وہ آپٴ سے متاثر ہوئے اور آپٴ سے محبت کرنے لگے۔ جب ہشام کو اس بات کی اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ آپٴ کو مدینہ واپس بھجوا دیا جائے۔ (٦)
امام باقرٴ کے زمانے میں اموی حکام اہلبیت کے معاملہ میں بہت سخت گیری کرتے تھے اور یہ سخت گیری ان کے امامت اور دینی۔سیاسی رہبری کے دعوی کی وجہ سے تھی کہ وہ بنوامیہ کو غاصب سمجھتے تھے۔ تاریخ (کہ جس کے درست یا غلط ہونے کا کچھ صحیح طور پر معلوم نہیں ہے) بتاتی ہے کہ اموی خلفائ میں صرف عمر بن عبدالعزیز تھا جس نے اہلبیت کے ساتھ نسبتاً نرم رویہ اپنایا تھا۔ اسی لئے اہلسنت نے امام باقرٴ سے روایت کی ہے آپٴ نے فرمایا:
عمر بن عبد العزیز نجیب بنی امیه۔ (٧)
عمر بن عبد العزیز بنی امیہ کا نیک آدمی ہے۔
اسی طرح شیعہ کتابوں میں بھی آیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز بیت المال سے اہلبیت کا حصہ ادا کیا کرتا تھا اور اس نے فدک بھی بنی ہاشم کو واپس کردیا تھا۔ (٨) ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ امام باقرٴ عمر بن عبد العزیز کے پاس گئے تو اس نے آپٴ سے نصیحت کرنے کی خواہش کی۔ آپٴ نے فرمایا: میری نصیحت یہ ہے کہ چھوٹی عمر کے مسلمانوں کو اپنے بچوں کی طرح، متوسط عمر والوں کو اپنے بھائیوں کی طرح اور بزرگوں کو اپنے باپ کی طرح سمجھو۔ اپنے بچوں پر رحم کرو، اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور اپنے باپ سے نیکی کرو۔ (٩)
اموی دور میں اہلبیت پر سب سے زیادہ سختیاں ہشام بن عبد الملک کی جانب سے ہوئیں۔ اسی کے سخت اور توہین آمیز جملات تھے جنہوں نے زید بن علی کو (سال ١٢٢ ہجری میں) کوفہ میں قیام کرنے پر مجبور کردیا۔ زید کے ساتھ ہشام کی ملاقات میں اس نے حتی کہ امام باقرٴ کی بھی توہین کی اور امویوں کے مخصوص اندازِ تمسخر اور طریقہ اذیت کے مطابق امامٴ کہ جن کا لقب باقر تھا، انہیں ’’بقرہ‘‘ (گائے) کہا۔ زید اس کی اس جسارت پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
سماه رسول الله 0 الباقر و انت تسمیه البقرة، لشد ما اختلفتما و لتخالفنہ فی الآخرة کما خالفته فی الدنیا فیرد الجنة و ترد النار۔ (١٠)
رسول اللہ 0 نے انہیں باقر کہا ہے اور تو انہیں بقرہ (گائے) کہہ رہا ہے۔ تیرے اور رسول اللہ کے درمیان کس قدر اختلاف ہے! تو آخرت میں بھی ان کی اسی طرح مخالفت کرے گا جس طرح سے دنیا میں کر رہے ہو۔ اس وقت وہ جنت میں اور تو جہنم میں داخل ہوگا۔
ہشام کی موجودگی میں ایک عیسائی نے رسول اللہ 0 کی توہین کی لیکن ہشام نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس مسئلہ پر بعد میں زید نے بہت سخت ردعمل دکھایا تھا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے، یہی رویہ اموی حکومت کے خلاف زید کے قیام کا اصلی اور اہم محرک بنا تھا۔ اور یہ بات سچ ہے کہ وسیع اسلامی مملکت خاص طور پر مشرقی علاقے اور ایران میں اموی حکومت کے خلاف مسلسل چلنے والی تحریکوں کا آغاز اسی سے ہوا تھا۔
جیسا کہ شیعہ کتابوں میں آیا ہے، امام باقرٴ کو ان کے فرزند امام جعفر صادقٴ کے ساتھ شام بلایا گیا تاکہ وہاں ان کی توہین کی جائے اور اس طرح سے حکمران بننے اور مخالفت کرنے کا سودا ان کے سر سے نکال دیا جائے۔ امام صادقٴ نے ایک طویل روایت میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ ہم ذیل میں اس روایت کا کچھ حصہ آپٴ کی زبان مبارک سے نقل کرتے ہیں:
ایک سال ہشام حج کرنے کے لئے مکہ آیا ہوا تھا۔ امام باقرٴ اور امام صادقٴ بھی اس سال حج کے لئے وہاں موجود تھے۔ امام صادقٴ نے چند ایسے جملے بیان فرمائے جو بنو امیہ پر بنو ہاشم کی برتری کو بیان کر رہے تھے۔ امامٴ نے فرمایا:
حمد اس خدا کے لئے جس نے محمد 0 کو نبی بنایا اور ہمیں ان کے وسیلے سے کرامت بخشی۔ پس ہم اس کی مخلوق میں برگزیدہ، اس کے بندوں میں انتخاب شدہ اور اس کی جانب سے منصوب خلیفہ ہیں۔ تو باسعادت وہ ہے جس نے ہماری پیروی کی اور بدبخت وہ ہے جس نے ہم سے دشمنی اور ہماری مخالفت کی۔
یہ خبر ہشام تک پہنچی تو وہ دمشق تک خاموش رہا اور اس بارے میں کچھ نہیں بولا۔ دمشق پہنچ کر اس نے مدینہ کے حاکم کے پاس ایک قاصد بھیجا اور اس سے کہا کہ امام باقرٴ اور امام صادقٴ کو شام بھیج دے۔ دونوں امام شام پہنچے۔ ہشام نے ان کی توہین کرنے کے لئے انہیں تین دن تک اجازت نہیں دی اور چوتھے دن اپنے پاس بلایا۔ اس وقت دربار میں بہت سے بڑے لوگ اور قریش کی بڑی شخصیتیں موجود تھیں۔ اس نے امام باقرٴ (جو سن رسیدہ تھے) سے درخواست کی کہ تیر اندازی کے مقابلہ میں شرکت کریں۔ پہلے تو امامٴ نے بڑھاپے کا بہانہ کر کے اسے ٹالنا چاہا لیکن ہشام نے اصرار کیا۔ مجبوراً امامٴ نے کمان ہاتھ میں لی اور پہلا تیر نشانہ پر بٹھایا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے نو تیر ایک دوسرے کے اوپر بٹھائے۔
ہشام جو حیرت زدہ رہ گیا تھا، کہنے لگا: ما ظننت ان فی الارض احدا یرمی مثل ھذا الرامی۔ میں نہیں سمجھتا کہ زمین پر کوئی ان جیسا تیرانداز ہوگا۔ اس کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم کی رشتہ داری کا حوالہ دے کر اس نے کوشش کی کہ ان دو خاندانوں کو مساوی قرار دے۔ امام باقرٴ نے تاکید کی کہ دوسرے خاندان اہلبیت میں موجود فضائل و کمالات سے محروم ہیں۔
ہشام نے اپنی گفتگو کے دوران امیر المومنین کے بارے میں شیعوں کے اعتقاد کا مذاق اڑایا اور بولا: علیٴ علم غیب کا دعوی کیا کرتے تھے، حالانکہ خدا نے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا ہے۔ جواب میں امامٴ نے امیر المومنینٴ کے وسیلہ سے معارفِ قرآن اور علومِ پیغمبر 0 کے فروغ کی طرف اشارہ کیا۔ آخرکار ہشام نے ان کی آزادی اور مدینہ روانگی کا حکم صادر کردیا۔ اسی دوران شام میں رہنے والے عیسائیوں اور امام باقرٴ کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جو حدیث کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہے۔ اسی کے بعد ہشام نے حکم دیا تھا کہ جلد از جلد امامٴ دمشق سے روانہ ہوجائیں تاکہ کہیں شام کے رہنے والے آپٴ کے علم سے متاثر نہ ہوجائیں۔ اس کے فوراً بعد اس نے مدینہ کے گورنر کے نام ایک خط بھیجا جس میں اس نے امام باقرٴ اور امام صادقٴ کے بارے میں یہ لکھا: ابو تراب کے یہ دو بیٹے جو مدینہ کے لئے شام سے روانہ ہوگئے ہیں، جادوگر ہیں اور اسلام کا جھوٹا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ عیسائی راہبوں سے متاثر ہوگئے ہیں اور نصاری کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ میں نے رشتہ داری کی وجہ سے ان کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے۔ جب وہ مدینہ پہنچیں تو لوگوں سے کہو: جو ان سے کوئی معاملہ یا مصافحہ یا سلام کرے گا میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ کیونکہ یہ اسلام سے منحرف ہوگئے ہیں۔‘‘ لوگ ان باتوں میں آگئے اور آپٴ کی توہین کی، لیکن امامٴ نے ان کو نصیحت کی اور انہیں عذابِ الہی سے ڈرایا یہاں تک کہ وہ آپٴ کی توہین سے دستبردار ہوگئے۔ (١١)
درجِ بالا روایت اہلبیت کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے ہشام کی مکاریوں کی نشاندہی کرتی ہے نیز یہ بھی بتاتی ہے کہ ائمہ طاہرین اہلبیت کا عظیم مرتبہ دکھانے کے لئے کس قدر اصرار کیا کرتے تھے۔
حوالہ جات
١۔ الاختصاص ص٢٦١
٢۔ دعائم الاسلام ج١ ص٩٥
٣۔ الکافی ج١ ص١٨٤۔ ١٨٣
٤۔ الکافی ج١ ص ١٨٣
٥۔ الکافی ج١ ص٤٧٨؛ المناقب ج٢ ص٢٨٠
٦۔ تذکرۃ الحفاظ ج١ ص١١٩
٧۔ قرب الاسناد ص١٧٢
٨۔ الخصال ج١ ص٥١ اور دیکھئے: امالی طوسی ص٨٠، تاریخ الخلفائ ص٢٣٢
٩۔ بھجۃ المجالس ج٣ ص٢٥٠؛ مختصر تاریخ دمشق ج٢٣ ص٧٧
١٠۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٧ ص١٣٢؛ عمدۃ الطالب ص١٩٤
١١۔ دلائل الامامۃ ص١٠٤؛ امان الاخطار ص٥٢؛ بحار الانوار ج٤٦ ص٣٠٦؛ دیکھئے: تفسیر علی بن ابراہیم قمی ص٨٨؛ مناقب آل ابی طالب ج٣ ص٣٣٤ اور ٣٤٨
|