عید قربان اور قربانی کا فلسفہ
تحریر: سید توقیر عباس کاظمی
tqrkazmi@yahoo.com
اسلامی سال کے آخری مہینے یعنی ماہ ذی الحجہ کا دسواں دن "عید الاضحی" ہے، چونکہ اضحی قربانی کرنے کے معنی میں ہے لہذا اس دن کو عید قربان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دن بھی عید فطر کی طرح عالم اسلام کی مشترک عید ہے جس میں صاحبانِ ایمان، خدا کی راہ میں قربانی کے ذریعہ سے تقوی،پرہیز گاری اور تہذیب نفس کا اظہار کرتے ہیں۔
عیدقربان ایسا دن ہے جو آگاہ انسانوں کو حضرت ابراہیمؑ کی قربانگاہ کے اُس واقعہ کی یاد دلاتا ہے جس میں رہتی دنیا تک آنے والے ہر خدا پرست انسان کیلئے عظیم درس اور پیغامات پوشیدہ ہیں جنہیں قربانی کی سنت ادا کرنے والے ہر مسلمان کو مدنظر رکھنا چاہیے:
1):قربانی اور اطاعتِ الہی:
قربانی کی سنت صرف دین اسلام کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ سابقہ تمام امتوں میں بھی قربانی کی رسم موجود تھی اور اس کا مقصد اللہ تعالی کی رضایت کا حصول اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا اظہار تھا، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قربانی کی رسم کے رواج کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے،حقیقت میں قربانی صرف ایک نمائشی اور ظاہری عمل ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ قربانی کرنے والا انسان اپنی زندگی کے ہر عمل میں الہی قوانین واحکامات کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے نیز یہ انسان سچائی وصداقت اور مکمل اخلاص کے ساتھ خود کو پروردگار کی اطاعت کے دائرہ میں رکھے ہوئے ہے، ہروقت اور ہرماحول میں اور ہرجگہ خداوند عالم کے ہرحکم وفرمان کو فورا انجام دینے کیلئے آمادہ وتیار اور اللہ تعالی کے فرمان کی انجام دہی میں کسی بھی طرح کی غفلت وکوتاہی کو ناروا سمجھتا ہے۔
ظاہری اعتبار سے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی بہت مشکل کام تھا لیکن چونکہ آپ اللہ تعالی کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے اور صحیح معنوں میں اُس کے مطیع وفرمانبردار بندے تھے اسی لیے اللہ تعالی کا حکم پاتے ہی اپنے بیٹے کی قربانی جیسے مشکل کام کی انجام دہی کیلئے فورا تیار ہوگئے لہذا اس عظیم پیغمبر کا یہ عمل آپ کی ایمانی طاقت اور خداوند کے سامنے تسلیم وفرمانبرداری کا واضح نمونہ ہے۔یہ اطاعت وفرمانبرداری کی وہ منزل تھی جس میں کسی قسم کی بیزاری وناپسندی کا رنگ نہ تھا بلکہ یہ اطاعت وفرمانبرداری عشق ِ الہی سے مخلوط تھی اور اس عشق سے ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ محب اورعاشق (حضرت ابراہیم ؑ) اپنے محبوب اور معشوق (خداوند) سے اُس کے حکم کا سبب اور علت پوچھے بغیر صرف ایک ہی بات کی طرف متوجہ تھا اور وہ یہ کہ خالق اور معشوق ازلی کے فرمان کو بے چون وچرا فورا انجام دیا جائے۔
قربانی کی سنت انجام دینے والے مسلمانوں کی ذمہ داری:
عید الاضحی کی آمد کے موقع پر حضرت ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قربانی جیسا عظیم نیک عمل انجام دینے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس عمل کی اساس وبنیاد کی طرف بھی توجہ رکھیں، کیونکہ قربانی کی سنت کا حقیقی درس یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں، ہرجگہ اور ہرماحول میں اللہ تعالی کے حکم کے تابع رہے۔ قربانی کرنے والا مسلمان گویا اپنے عمل کے ذریعہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خدا کے ہر حکم کے تابع ہے ، اور اُس کے حکم کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیزکو (حتی اولاد کو بھی) کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ ہمیشہ اپنی دنیاوی واخروی سعادت وکمال اور کامیابی وکامرانی کو خداوند کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے ہی میں سمجھتا ہے۔حضرت امام جعفر صادق ؑ نے قربانی کے اس خوبصورت فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: "ذبح وقربانی کا حکم خداوند کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کیلئے امتحان تھا تاکہ اللہ تعالی کے حکم کے سامنے اُن کے صبر وتحمل کا اندازہ لگایا جاسکے اور حضرت ابراہیم ؑ کو پروردگار کی عطا انکے استحقاق وقابلیت کی بناء پر ہو اور دوسرے افراد بھی اس عظیم پیغمبر کو نمونہ قرار دیں اور خدا کے قوانین کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے فرمانبردار بن جائیں"(خصال صدوق:ص١٩٠)
2):قربانی کا ایک اہم پیغام: قربانی درحقیقت ہر مسلمان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی قربت سے روکنے والی تمام چاہتوں اور تعلقات کونظر انداز کر دے کیونکہ جو شخص دنیاوی افراد یا اشیاء کی محبت کا اسیر ہو وہ خداوند سے عشق ومحبت کا دعوی کیسے کرسکتا ہے؟!!!جیسے حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی کے فرمان کے مقابلے میں اپنے عزیز بیٹے کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے اُس کی قربانی کیلئے قربانگاہ کی طرف قدم بڑھا کر خداوند کی خوشنودی ومرضی کو اپنے فرزند کی محبت پر ترجیح دی۔
3):قربانی، اولاد کی محبت پر خدا کی محبت کی فوقیت:
حضرت ابراہیم ؑ ایک طویل عرصہ تک اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے کیونکہ آپ کی بیوی حضرت سارہ ؓ اولاد کی کمی پوری کرنے سے قاصر تھیں، آخر حضرت"ھاجر" کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کی کمی پوری ہوئی اور اللہ تعالی نے انہیں حضرت اسماعیل ؑ سے نوازا ۔ ایسی صورتحال میں حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے بیٹے کے ساتھ محبت واشتیاق میں ایک خاص قسم کی جھلک نمودار ہوتی تھی،پھر اچانک خداوند کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑکو اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کی قربانی کا حکم ملاجو درحقیقت حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ تعالی سے محبت کا امتحان تھا، اگرچہ حضرت ابراہیم کو ملنے والا یہ حکم اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت مختلف تھا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی لیکن اس کے باوجود خداوند کے اس حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم ؑ کے قدم ذرہ برابر نہیں لڑکھڑائے اور آپؑ نے پورے خلوص کے ساتھ اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی اور اپنی سنت پر عمل کرنے والوں کو یہ عظیم درس دیا کہ جب پروردگار کی مرضی یہ ہو کہ اپنے انتہائی عزیز بیٹے کو راہِ خدا میں قربان کردیا جائے تو اس کام کے انجام دینے میں بھی ذرہ برابرغفلت نہ کی جائے۔ البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ بیٹے کی قربانی اور ایثار وفداکاری زمان ومکان اور افراد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے؛ چنانچہ آج بھی مسلمان والدین کیلئے اُن کی اولاد، الہی امتحان کا ایک ذریعہ ہے اگرچہ یہ امتحان حضرت ابراہیم ؑ کے امتحان جیسا نہیں ہے لیکن ہر مسلمان کو بہرحال امتحان دینا ہے اور اس امتحان کا مقصد بھی وہی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کے امتحان کا تھا یعنی یہ آزمانا کہ کیا خدا کا عقیدہ رکھنے والا اور اُس کی محبت کا دم بھرنے والا مسلمان اپنی اولاد کی محبت کو خالق کی محبت پر ترجیح تو نہیں دیتا؟!
لہذا قربانی کی سنت پر عمل کرنے والے عاشقان الہی اور اہل بیت ؑ کی پیروی کرنے والے مومنین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ انہیں اپنی اولاد کے اس امتحان میں کس طرح کامیاب ہونا ہے؟۔
4): قربانی کا ایک اہم پیغام اورفلسفہ "نفس پر کامیابی کا حصول":
قربانی کا ایک انتہائی عمیق اور قیمتی پیغام وفلسفہ "نفس پر کامیابی کا حصول" ہے،جب حضرت ابراہیم ؑ نے فرمان الہی کے تحت اپنے چھری والے ہاتھ کو اسماعیل کی گردن پر چلانے کیلئے بلند کیا تو اُسی لمحے نفس پر کامیابی کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہوگئے۔قربانی کی سنت ادا کرنے والا مسلمان بھی درحقیقت نفس کے گلے پر چھری چلا کر تمام خواہشات وتمایلات اور ھوا وھوس کی مختلف صورتوں کو ایک ہی مرتبہ قربان کرتے ہوئے اپنے دل کو صرف معشوق ازلی وابدی کیلئے پاک ومنزہ کردیتا ہے اور ہرطرح کی خود پسندی، شہوت، شہرت، قدرت ومال پرستی اور ہر قسم کے گناہ ومعصیت کی نفی کردیتا ہے اور پوری توجہ کے ساتھ کامل پاکیزگی اورنفس کی تہذیب وتذکیہ کیلئے ریہرسل و تمرین کرتا ہے۔
اگر قربانی کی سنت ادا کرنے والا قربانی کے اس حقیقی فلسفہ کی طرف متوجہ نہ ہو اورقربانی کے ذریعہ اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش نہ کرے توگویا وہ قربانی کے اصلی مقصد کو نہ پا سکا۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اسی نکتہ کی طرف انتہائی خوبصورت انداز میں متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:( لَنْ یَنَالَ اللّہُ لُحُوْمُھَا وَلَادِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَنَالُہ التَّقْوٰی مِنْکُمْ) "ہرگز خدا تک نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون، بلکہ اُس تک تمہارا تقوی اور پرہیزگاری پہنچتی ہے"(سورہ حج (٢٢) آیت٣٧)۔
لہذا قربانی کی سنت ادا کرنے والا مسلمان جب تک اپنی ھوی وھوس کے گلے پر چھری نہ چلائے اور نفس کی خواہشات کے آلودہ خون کو اپنی رگوں سے نہ نکالے اُسوقت تک تقوی کی منزل کو نہیں پاسکتا اور جب تک تقوی کی منزل کو نہ پائے خداوند کا تقرب حاصل نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مسلمان قربانی کرنے کے بعد بھی خداوند کا تقرب حاصل نہ کرسکا تو وہ قربانی کے اصل مقصد کو نہ پا سکا اور گویا اُس کی قربانی رائیگان چلی گئی۔ پس قربانی کی سنت حسنہ پر عمل کرنے والے ہر مومن کو چاہیے کہ وہ قربانی کے اس فلسفہ کو مدّنظر رکھے جیسا کہ امام صادق ؑ نے ارشاد فرمایا: "قربانی کرتے وقت نفس کی خواہشات کے گلے پر چھری چلانے کی کوشش کرو" (بحار الانوار:ج٩٦ص١٢٤)
5): قربانی کے سیاسی و اجتماعی آثار:
قربانی کا ایک اور انتہائی اہم فلسفہ قربانی کے اجتماعی وسیاسی آثار میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ عظیم عمل چونکہ خدا کیلئے ہے ، دین خدا کی بقاء ، استمرار اور عزت وآبرو سے متعلق ہے اور قربانی کرنے والا ہرشخص درحقیقت دوسروں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ دین حق اور خدا کی راہ میں اپنی عزیز ترین اشیاء ، حتی کہ اولاد جیسی محبوب چیز کو بھی پیش کرسکتا ہے۔اس بنا پر قربانی صرف ایک انفرادی عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس عظیم سنّتِ حسنہ کے بہت سے اجتماعی پہلو بھی ہیں اسی لیے امام خمینی ؒ نے فرمایا: "خدا کی راہ میں حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنی زندگی کے عزیز ترین ثمر کو خدا کی راہ میں قربان کریں اور عید منائیں"۔
والسلام
|