8 شوال 1438 و 22 جون 2018 کو حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا تک فلاح صاحب کی اقتداء میں نماز جمعہ اداء کی گئی۔
آپ نے پہلے خطبے میں لوگوں کو تقوی اور پرہیزگاری کی نصیحت کی ۔
انسان کو سب پر برتری حاصل ہے اسکے کچھ وجوہات ہے،
- یہ کہ انسان صاحب علم اور دانش ہے۔ اور علم ایک نور کہ جس سے سب سے پہلے انسان خود کو اور پہر دوسری چیزوں کو منور کرتا ہے
- دوسرا صفت قربتہ الی اللہ جہد و جہد اور کوشش کرنا۔
- قرآن کی نظر سے انسان کا تیسرا صفت تقوی اور پرہیزگاری ہے۔
کامیاب لوگ وہ نہیں ہے کہ جو لوگوں کو پسند ہو بلکہ کامیاب انسان وہ کہ جو اللہ کو پسند ہو۔ اور اللہ تعالی کو وہ لوگ پسند ہے کہ جو پرہزگار ہو۔
تقوی ان پہلے بیان کیے گئے صفتوں سے بڑھ کر ہے تقوی ہو تو انسان صاحب علم بن جاتاہے۔ اسی لیئے فرماتے ہیں: واتقوا اللہ و یعلم کم اللہ) تقوی اپناوں تاکہ اللہ تعالی تمہیں تعلیم دے۔
علم کے ساتھ اگر تقوی نہ ہو تو انسان معاشرے کو فساد کی طرف لے جائیگا ۔
متقی اور پرہیزگار لوگ ترقی گامزن ہوتے ہیں۔
تقوی انسان کے ليئے زیور اور خوبصورتی ہے ۔
تقوی انسان کے لیئے لباس جیسا ہے کہ جس سے انسان خوبصورت بھی ہوتا ہے اور انسان لباس میں محفوظ بھی رہتا ہے۔
لیکن اگر انسان نے لباس تقوي نکال دیا تو وہ پھر محفوظ نہیں رہے گا بلکہ شیطانی وسوسے اسکو آپنے لپیٹ میں لے لیگا اور یو بہت سخت نقصان اٹھا لے گا۔
مولانا صاحب نے دوسرے خطبے میں فرمایا کہ ہمیں قرآن سے متمسک اور ٹچ رہنا چاہئے کہ جو ہمارے لیئے بہتریں ھادی ہے اور ہمیں انحرافات اور گمراہیوں سے بچا لیتا ہے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا: کہ میں آپنے امت کے ليئے کچھ چیزوں سے ڈررہا ہو اس میں سے ایک فتنہ فساد اور گمراہی ہے کہ جس کےلیئے شیطان نے قسم اٹھائی ہے کہ میں انسان کو گمراہ کر وں گا۔
اور جو چیز انسان کو اس مصیبت سے بچا سکتا ہے وہ ہے قرآن کریم سے تمسک کرنا۔
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا : کہ قرآن حبل المتین اور صراط مستقیم ہے قرآن میں سب وہ صحیفےموجود ہے کہ جو انسان کی ھدایت کے لیئے اللہ تعالی نے بھیجے تھے اسی وجہ سے قرآن کو مصحف کہا جاتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ قرآن کو آپنا ناصح سمجھوں لفظ (نصح ) کی دو معانی کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ خالص ہونا اور دوسری معنی ہے دو چیزوں کو آپس میں سینا میلانا پہلی معنی کے رو سے انسان جب خالصتہ کیسی شیئ کوسنتا ہے تو گویا اسکی عبادت کرتا ہے اور دوسری معنی کی رو سے اگر دیکھے تو ناصح ایک بہت بڑا مرتبہ ہے کیونکہ ناصح (نصیحت کرنے والے) آتے ہے انسان کو اللہ سے ملانے کے لیئے اس لیئے کہا گیا کہ وابلغکم رسالات ربی و انی لکم ناصح آمین۔
یعنی ہمارے رابطے کو بحال کردیتا ہے اور توبہ نصوح کی بھی یہی معنی ہے کہ انسان آپنے رابطے کو بحال کریں۔
توبہ نصوح اس وجہ سے معروف ہو ا کہ
مولانا روم رحمۃاللہ علیہ مثنوی شریف میں توبہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ کہ پہلے زمانے میں ایک شخص تھا جن کا نام نصوح تھا، تھا مرد مگر شکل اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی اور شاہی محلات میں بیگمات اور بادشاہ کی شہزادیوں کو نہلانے اور میل نکالنے کی خدمت پر مامور تھااور عورت کے لباس میں یہ شخص ملازمہ اور خادمہ بنا ہوا تھا۔ چونکہ یہ مرد شہوت کاملہ رکھتا تھا، اس لیے شاہی خاندان کی عورتوں کی مالش سے نفسانی لذت بھی خوب پاتا اور جب بھی توبہ کرتا اس کا نفس ظالم اس کی توبہ کو توڑ دیتا۔
ایک دن اس نے سنا کہ کوئی بڑے عارف بزرگ تشریف لائے ہیں۔ یہ بھی حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ گنہگار عارف کے سامنے آیاہے آپ سے عرض ہے کہ ہم کو دعا میں یاد رکھیے چنانچہ انہوں نے نصوح کے لیے دعاکی۔ ان بزرگ کی دعا سات آسمانوں سے اوپر اُٹھالی گئی اور اُس عاجز مسکین کاکام بن گیا۔ اُ س خدائے ذوالجلال نے اپنی خاص قدرت سے ایک سبب اس کے گناہ سے خلاصی کا پیدا فرمایا۔وہ سبب غیب سے یہ ظاہر ہوا کہ محل کے زنان خانہ سے ایک انتہائی قیمتی ہیرا گُم ہو گیا، نصوح اور اُ س کے ساتھ تمام نوکر انیوں کی تلاشی کی ضرورت واقع ہوئی زنان خانہ کے دروازے بند کر کے تلاشی شروع ہوئی۔
جب کسی کے سامان میں وہ موتی نہ ملا۔ تو محل میں اعلان کر دیا گیا کہ سب خادمات کپڑے اُتار کر ننگی ہوجائیں، خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھی ہوں۔ اس آواز سے نصوح پر لرزہ طاری ہوگیا کیونکہ یہ دراصل مرد تھا مگر عورت کے بھیس میں ایک عرصے سے خادمہ بنا ہواتھا، اس نے سوچا کہ آج میں رُسوا ہوجاؤں گا اور بادشاہ غیرت کے سبب اپنی عزت وناموس کامجھ سے انتقام لے گااور مجھے قتل سے کم سزا نہیں ہوسکتی اس لیے کہ جرم نہایت سنگین ہے۔
یہ نصوح خوف سے لرزتا ہوا خلوت میں گیا، ہیبت سے چہرہ زرد اور ہونٹ نیلے ہو ر ہے تھے۔ نصوح چونکہ موت کو اپنے سامنے دیکھ رہا تھا لہٰذا خوف کے مارے پتے کی طرح لرزہ براندام ہو رہا تھا۔ اسی حالت میں یہ سجدہ میں گر گیا اور رو رو کر دعا کرنے لگا:
اے میرے رب! بہت دفعہ میں نے غلط راستہ اختیار کیا، توبہ اور عہد کو بارہا توڑ دیا۔
اے میرے اللہ! اب میرے ساتھ وہ معاملہ کیجئے جو آپ کے لائق ہے کیونکہ میرے ہر سوراخ سے میرا سانپ مجھے ڈس رہا ہے۔ ہیرے کی تلاشی کی نوبت خادمات سے گزر کر مجھ تک پہنچی تو اُف میری جان کس قدر سختی او ر بلا کا عذاب چکھے گی۔
اگرآپ اِس مرتبہ میری پردہ پوشی فرمادیں تو میں نے توبہ کی ہر نالائق کام سے نصوح یہ مناجات کرتے کرتے عرض کرنے لگا:
اے میرے رب: میرے جگر میں غم کے سینکڑوں شعلے بھڑک رہے ہیں اور آپ میری مناجات میں میرے جگرکا خون دیکھ لیں کہ میں کس طرح بیکسی کی حالت اور درد سے فریاد کر رہاہوں۔
نصوح اپنے رب سے گریہ وزاری کر ہی رہا تھا کہ محل میں صدا بلند ہوئی سب کی تلاشی ہوچکی اب اے نصوح! تو سامنے آاور عریاں ہوجا۔ یہ سننا تھا کہ نصوح اس خوف سے کہ ننگے ہونے سے میرا پردہ فا ش ہوجائے گا، بے ہوش ہوگیااور اس کی روح عالم بالا کی سیر میں مشغول ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ کے بحر رحمت کو اس وقت جوش آیا اور حق تعالیٰ کی قدرت سے نصوح کی پردہ پوشی کے لیے بِلا تاخیر فوراََ ہیرا میل گیا۔ اچانک آواز آئی کہ وہ گمشدہ ہیرا مل گیا ہے۔
اب بے ہوش نصوح بھی ہوش میں آگیا تھا اور اس کی آنکھیں سینکڑوں دنو ں کی روشنی سے زیادہ روشن تھیں کیونکہ عالم ِ بے ہوشی میں نصوح کو حق تعالیٰ کی رحمت نے اپنی تجلیات ِ قرب کامشاہدہ کرادیا تھا۔ جس کے انوار اس کی آنکھوں میں ہوش میں آنے کے بعد بھی تاباں تھے۔شاہی خاندان کی عورتیں نصوح سے معذرت کرنے لگیں اور عاجزی سے کہا کہ ہماری بدگمانی کو معاف کردو! ہم نے تم کو بہت تکلیف دی۔
نصوح نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا مجھ پر فضل ہوگیا اے مہربانو! ورنہ جو کچھ میرے بارے میں کہا گیا ہے ہم اس سے بھی بُرے اور خراب ہیں۔
اس کے بعد سلطان کی ایک بیٹی نے اس کو مالش اورنہلانے کو کہا مگر نصوح چونکہ اللہ والا ہوچکا تھا اور بے ہوشی میں اس کی روح اللہ تعالیٰ کے قرب کے خاص مقام پر فائز ہوچکی تھی، اتنے قوی تعلق مع اللہ اور یقین کی نعمت کے بعد گناہ کے ظلم کی طرف کس طرح رُخ کرتا، کیونکہ روشنی کے بعد اندھیر ے سے بہت ہی نفرت محسوس ہونا فطری امر ہے۔ نصوح نے شہزادی سے کہا: اے شہزادی! میرے ہاتھ کی طاقت اب ختم ہوچکی ہے اور تمہارا نصوح اب بیمار ہوگیا ہے! لہٰذا اب مالش کی ہمت نہیں ہے، چنانچہ اس بہانے سے اس نے اپنے کو گناہ سے بچالیا۔
نصوح نے اپنے دل میں سوچا کہ میرا جُرم حد سے گزرگیا اب میرے دل سے وہ خوف اور غم کیسے نکل سکتا ہے۔نصوح نے کہا میں نے اپنے مولیٰ سے حقیقی توبہ کی ہے، میں اب اس توبہ کو ہرگز نہ توڑوں گا خواہ میرے تن سے میری جان بھی جُدا ہوجائے۔
انبیاء الہی کے لیئے قرآن میں دو صفت ذکر کیے گئے ہیں ایک موعظہ اور دوسرا صفت نصیحت ۔ قرآن بھی موعظہ ہے اور انسان کی روح کو کھبی کبھار زنگ لگ جاتا اور اس وقت انسان کو موعظہ کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ موعظہ سے آپنے روح اور دل پر لگائے گئے زنگ کو صاف کریں۔
وسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔
|