۱۳۹۷/۴/۴   7:9  بازدید:2260     معصومین(ع) ارشیو


اخلاقیات کے بارے میں امام حسین کے اقوال

 



تقویٰ کی فضیلت میں آپ کا فرمان

اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے کہ جو وہ ناپسند کرتا ہے، اُس کو پسندیدہ چیز کے ساتھ بدل دے اور اُسے وہاں سے رزق دے جہاں کا گمان بھی

نہ ہو۔(تحف العقول:240،بحارالانوار78:1 21)

عبادت میں لوگوں کی اقسام کے بارے میں

ایک قوم رغبت سے اللہ کی عبادت کرتی ہے، یہ تاجرانہ عبادت ہے۔ ایک قوم ڈر کر عبادت کرتی ہے، یہ غلامانہ عبادت ہے۔ ایک قوم اللہ کی عبادت شکر کیلئے کرتی ہے، یہ آزادوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے۔ (تحف العقول:246،بحارالانوار78:1 17)

اپنی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

ہم اہلِ بیت ِ نبوت ہیں، رسالت کے کان ہیں اور ملائکہ کے آنے جانے کی جگہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے آغاز کیا اور ہم پر ہی اختتام ہو گا۔(کامل ابن اثیر3:262)

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے پاس گئے اور فرمایا:

اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی معرفت کیلئے خلق کیا۔ جب پہچانا توعبادت کی۔ اس کی عبادت نے ماسوا اللہ کی عبادت سے بے نیاز کیا۔

ایک شخص نے سوال کیا: معرفت ِ خدا کیا ہے؟امام علیہ السلام نے فرمایا:

ہر زمانے کے لوگوں کو وقت کے امام کی معرفت ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اطاعت ان پر

واجب ہے۔(نزہۃ الناظر:80، علل الشرایع:9،کنزالفوائد:1:151بحار5:212)

امام کی معرفت کے بارے میں آپ کا فرمان

امام کیا ہے؟ کتاب اللہ پر عامل ہو، عدل و انصاف اُس کا پیشہ ہو، حق کا پیروکار ہو۔ اپنے آپ کو اللہ کے فرامین کیلئے وقف کرے۔(تاریخ طبری7:235)

اپنی ہم نشینی کی ترغیب کیلئے آپ کا فرمان

جو ہمارے پاس آئے، وہ چار خصلتوں میں سے ایک خصلت سے خالی نہ ہوگا:محکم آیت، عادلانہ حکم، مفید دوستی اور علماء کی صحبت۔(کشف الغمہ2:32)

سیکھنے کے بارے میں آپ کا فرمان

علم کی تدریس معرفت کی آبیاری ہے۔ طویل تجربہ سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔ شرافت تقویٰ میں ہے۔ قناعت جسم کیلئے راحت کا سبب ہے۔(نزہۃ الناظر:88)

جہاد کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان

جہاد کی چار اقسام ہیں۔ دو جہاد فرض ہیں، ایک جہاد سنت ہے جو واجب سے پیوستہ ہے اور ایک جہاد مستحب ہے۔

دو واجب میں ایک جہادِ نفس ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے خلاف،یہ سب سے عظیم جہا دہے،نیز جہادجو کفار کے مقابلہ میں ہو، فرض ہے۔

وہ جہاد جو مستحب ہے مگر فرض کے ساتھ پیوستہ ہے، دشمن کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ یہ پوری اُمت پر فرض ہے۔ اگر جہاد ترک کریں تو عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہ عذاب اُمت کی وجہ سے ہے۔ یہ جہاد صرف امام پر مستحب ہے کہ وہ اُمت کے ساتھ دشمن کے مقابل آکر ان سے جہاد کرے۔

وہ جہاد جو مستحب ہے، ہر سنت کا احیاء وزندہ کرنا ہے۔ اس کے قیام کیلئے کوشش کرنا ہے۔ عمل اور کوشش اس راہ میں افضل اعمال ہیں کیونکہ اس سے سنت زندہ ہوتی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کسی نیک عمل کی بنیاد رکھے، اس کو ثواب ہے اور جو اس پر عمل کرتا ہے، قیامت تک اس کے ثواب کے برابراجر ملتا ہے اور عامل کے اجر میں کمی نہیں ہوتی۔(تحف العقول:243)

بڑائی اور بے نیازی کے بارے میں

رشتہ داروں پر احسان اور ان کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا، خواہشات کی قلت ،جو اپنی ذات کیلئے کافی ہے ، اُس پر خوش رہنا بڑائی اور بے نیازی ہے۔(بحارالانوار78:102)

بخشش کے بارے میں آپ کا فرمان

جو تیرا عطیہ قبول کرے، اُس نے تیری بخشش میں تیری مدد کی۔(بحارالانوار78:127)

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان

سلام کرنے سے پہلے کسی کو گفتگوکی اجازت مت دو۔(تحف العقول:246)

سلام کرنے کے بارے میں آپ کافرمان

سلام کیلئے ستر(70) نیکیاں ہیں۔ انہتر(69) سلام کرنے والے کو اور ایک نیکی جواب دینے والے کو ملتی ہے۔(تحف العقول:248،بحارالانوار78:1 20)

معافی کے بارے میں آپ کا فرمان

بہترین معافی انتقام کی طاقت رکھتے ہوئے معاف کرنا ہے۔(نزہۃ الناظر:81)

نیک کام میں اچھے اور بُرے کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں

آپ کی خدمت میں ایک شخص نے کہا: نیکی نا اہل سے کی جائے تو ضائع ہوجاتی ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

"ایسا نہیں۔ نیکی کی مثال موسلہ دھار بارش کی سی ہے جو نیک و بد دونوں پر برستی ہے"۔تحف العقول:245)

عملِ خیر کی ترغیب کے بارے میں آپ کا فرمان

اُس شخص کی طرح عمل کرو جویہ جانتا ہو کہ گناہ پر موأخذہ کیا جائے گا تو اس کو نیک کام کے برابر جزا ملے گی۔(کنزالفوائد2:32،بحارالا نوار78:127)

اطاعت، قدرت کے مطابق ہے

خدا نے کسی کی طاقت کم نہیں کی مگر اس سے اطاعت کو کم کیا اور جس کی قدرت کم کی تو اُس کی تکلیف کو اُس سے اٹھا لیا۔(تحف العقول:2246)

قبولیت کی نشانیوں کے بارے میں آپ کا فرمان

 

قبولیت کی نشانیاں یہ ہیں کہ عقل مندوں کی ہم نشینی اختیار کرے۔ جہالت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ غیر کافروں سے مناظرہ و جھگڑا کرے۔ انسان کے عالم ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے قول کا پاس رکھے اور صحیح راستوں(حقائق) پر غور کرے۔(تحف العقول:247)

صبر کے بارے میں آپ کا فرمان

اس چیز پر صبر کر جو تجھے پسند نہیں،جن موارد پر تیرا حق رکھا گیا ہے اور صبر کر ان پر جسے تو پسند کرتا ہے اور جس طرف تیری خواہشات تجھے بلائیں۔(مقصد الراغب:137)

عقلِ کامل کے بارے میں آپ کا فرمان

عقل کامل نہیں ہوتی جب تک حق کی پیروی نہ کرے۔(اعلام الدین:298)

بھائیوں کی اقسام کے بارے میں آپ کا فرمان

بھائیوں کی چار اقسام ہیں:

ایک بھائی وہ جو تیرے لئے اور تو اُس کیلئے۔

ایک بھائی وہ جس کیلئے صرف تم ہو۔

ایک بھائی وہ جو تیرا مخالف ہے

ایک بھائی وہ جس کیلئے نہ تم ہو اور نہ وہ تمہارے لئے ہے۔

وہ بھائی جو تیرے لئے اورتو اُس کیلئے ہو:

وہ ہے جو اخوت کے بھائی کی بقاء کا طالب ہو اور اخوت کے بعد بھائی کی موت کا طالب نہ ہو۔ یہ تیرے لئے اورتو اُس کیلئے ہے۔جب یہ بھائی چارہ مکمل ہو تو دونوں کی زندگی پاکیزہ ہوگی اور جب دونوں کے خیالات تناقض ہوں تو بھائی چارہ ختم ہوجاتا ہے۔

وہ بھائی جو تیرے لئے ہے:

وہ ہے جو لالچ سے خالی ہے۔ تیری نسبت سے اپنے تن من دھن کی طرف سے تیری جانب متوجہ ہے۔ جب بھائی اور دنیا سامنے آجائے تو بھائی کی طرف راغب ہے۔اُس کا وجود تیرے ہاتھ میں ہے۔

وہ بھائی جو تیرے خلاف ہے:

وہ انتظار کرتا ہے کہ کب تومصائب و آلام سے دوچار ہوتا ہے اور دوستوں کے درمیان تجھے جھٹلاتا ہے، تجھے حسد کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اُس پر خدا کی لعنت ہو۔

وہ بھائی نہ تو اُس کا بھائی ہے، نہ وہ تیرا بھائی ہے:

وہ عقل و خرد سے عاری ہے اور نادان ہے۔ وہ اپنے آپ کو تجھ سے برتر سمجھتا ہے اور جو تیرے پاس ہے، اُس پر حریصانہ نظر رکھتا ہے اور اُس کا طلب گار ہے۔(تحف العقول: