۱۳۹۹/۵/۱۵   6:12  بازدید:2139     معصومین(ع) ارشیو


حضرت امام هادی ع کی زندگی پر ایک مختصر نظر

 


حضرت امام ھادی (ع ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں بعض مورخین نے ان کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے 2 یا 5 رجب بتائی ھے، اسی طرح ولادت کے سال کے بارے میں بھی بعض نے 212 ھجری قمری اور بعض نے 214 ھ بیان کیا ھے...
      

حضرت امام ہادی (علیہ السلام ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں  اختلاف ہے بعض مورخین نے آپ کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے2 یا5 رجب بتائی ہے، اسی طرح ولادت کے سال کے بارے میں بھی بعض نے 212ھجری قمری اور بعض نے214 ھ بیان کیا ہے۔(1)

رجب میں امام ہادی (علیہ السلام ) کی پیدایش کی ایک دلیل دعای مقدسہ ناحیہ ہے، جس میں اس جملہ کا استعمال ہوا ہے کہ:" الھم انی اسلک باالمولودین فی رجب، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب"(2)

آپ کا نام گرامی " علی" اور لقب ہادی، نقی، نجیب، مرتضی، ناصح، عالم، امین، مؤتمن، منتجب، اور طیب ھیں، البتہ "ھادی" اور "نقی" معروف ترین القاب میں سے ہیں، آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن "ہے اور یہ کنیب آنحضرت کے علاوہ دوسرے تین اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )، امام موسی ابن جعفر (علیہما السلام) ،امام رضا (علیہ السلام ) کی ہے، لیکن کنیت(ابو الحسن) کی شہرت امام علی ابن ابی طالب (علیہما السلام)  کے لۓ مخصوص ہے اور امام موسی بن جعفر (علیہ السلام )کو ابو الحسن اول ،امام رضا (علیہ السلام ) کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی (علیہ السلام ) کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ہے۔(3)


امام دہم کے والد گرامی کا نام حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام ) اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ہے۔

امام ہادی (علیہ السلام ) نے اپنی والدہ کے بارے میں فرمایا: " میری والدہ میری نسبت عارفہ اور بہشتیوں میں سے تھیں، شیطان کبھی بھی ان کے نزدیک نہیں جا سکتا اور جابروں کے مکر و فریب ان تک نہیں پہنچ سکتے، وہ اللہ کی پناہ میں ہیں جو سوتا نہیں اور وہ صدیقین اور صالحین کی ماؤں کو اپنی حالت پر نھیں چھوڑتا" (4)


امام علی النقی الھادی (علیہ السلام ) کی ولادت مدینہ منورہ کے ایک گاؤں " صریا " میں ہوئی،صریا مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے کہ جسے امام موسی ابن جعفر (علیہما السلام ) نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آنحضرت کی اولاد کا وطن رہا ہے۔

حضرت امام علی النقی (علیہ السلام ) جو کہ ہادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3رجب اور دوسرے قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شہید کۓ گۓ۔(5)

امام علی النقی (علیہ السلام )  نے ذیقعدہ سن 220 ھجری میں جب انکے والد گرامی" نویں امام" شہید کۓ گۓ میراث امامت کے اعتبار سے آپ امامت کے منصب پر فائز ہوۓ۔

شایان ذکر ہے کہ جب امام ہادی(علیہ السلام ) امامت کے منصب پر فائز ہوۓ توآنحضرت کی عمر 8 سال 5 مہینے سے زیادہ نہ تھی،آپ(علیہ السلام ) اپنے والد کے مانند بچپن میں ہی امامت کےعظیم الہی منصب پر فائز ہوۓ۔

حضرت امام علی النقی (علیہ السلام ) کا دور امامت6 عباسی خلیفوں( معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین، اور معتز کے ھم عصر تھا۔

امام ہادی (علیہ السلام )

امام علی النقی (علیہ السلام ) کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا جن میں سے کسی نے امام(علیہ السلام ) کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ہم عقیدہ تھے، جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں مشہور تھا اور ہر طریقے سے انکو آزار و اذیت پہچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا، حد تو یہ تھی کہ ا‏ئمہ ھدی(علیہم السلام ) کی ہر یاد گار کو مٹانا چاھتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین (علیہ السلام ) اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ (6)


متوکل نے امام (علیہ السلام ) کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آنحضرت کو اپنے آبائی وطن سے دور کیا۔(7)

ان 6 عباسی خلیفوں میں سے صرف منتصر عباسی ( گیارویں عباسی خلیفہ ) نے اپنے باپ متوکل کی ہلاکت کے بعد اپنے مختصر دور خلافت میں علویوں اور خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا، جبکہ جو مظالم عباسی خلیفوں نے ان پر ڈھاۓ ناقابل بیان ہے۔

حضرت امام علی النقی(علیہ السلام ) کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں11سال ایک فوجی چھاونی میں جلا وطنی کی حالت میں رکھا گیا اور اس دوران مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن254ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھای معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر شھید کیا گیا، شھادت کے وقت امام (علیہ السلام ) کے سر ہانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام ) کے سوا کوئی نہ تھا۔

 حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام )  اپنے والد گرامی کی شھادت پر بہت روۓ اور گریبان چاک کیا اور آنحضرت کو خود ہی غسل و کفن دیا اور دفن کیا، اور کچھ نادان اور متعصب لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام ) کی تنقید کی کہ انھوں نےکیوں گریبان چاک کیا؟، آنحضرت نے انکو جواب دیا کہ" آپ احکام خدا کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ حضرت موسی بن عمران (علیہ السلام ) نے اپنے بھائی ھارون (علیہ السلام ) کے ماتم میں گریبان چاک کیا" (8)

 امام ھادی (علیہ السلام ) کا جنازہ نہایت شان سے اٹھا، اھل بیت اطھار کے چاھنےوالوں، فقیھوں، قاضیوں، دبیروں اور امیروں کے علاوہ خلیفہ کے دربار کے بزرگوں نے شرکت کی اور امام کوا ن کے ایک حجرے میں دفن کیا گیا۔ (9)

اس وقت آنحضرت کا مرقد مطہر شہر سامرا میں ہے جہاں آپ (علیہ السلام ) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام )، انکی بہن حکیمہ خاتون امام جواد (علیہ السلام )کی بیٹی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ہیں۔


مدارک اور ماخذ :

1 {الارشاد (شیخ مفید)، ص 635؛ کشف الغمہ ( علی ابن عیسی اریلی) ج،3، ص،23 ؛ مننتھی الامال ( شیخ عباس قمی)، ج 2 ، ص،361؛ الکافی ( شیخ کلینی) ، ج 1، ص،497؛ وقایع الایام ( شیخ عباس قمی)،ص497

2 {مفاتیح الجنان، ماہ رجب کی چٹی دعای }

3 {منتھی الامال،ج2،ص،361؛وقایع الایام، ص 296}

4 { منتھی الامال ج2 ، ص 361 }

5}الارشاد (شیخ مفید)، ص 649؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج2، ص 384.

6} منتہی الآمال، ج2، ص 383.

7}منتہی الآمال، ج2، ، ص 377 و الارشاد، ص 646.

8}منتھی الآمال، ج2، ص 385.

9}  الارشاد، ص 635؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج3، ص