۱۳۹۶/۱۲/۱۸   3:18  بازدید:2465     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


09/03/2018 کو نماز جمعہ حجت الاسلام مولانا سید موسوی صاحب کی اقتدا‏ء میں آداء کی گئی۔

 


پہلا خطبہ

بچوں  کی  نسبت والدین کے فرائض

قال رسول الله (ص) :کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیته (لجار ج 72  28 )

آپ سب ذمہ دار ہیں اور اسی طرح آپنے اولیاء سے بھی ذمہ داری کی توقع رکھییں۔

قرآن کریم سوره تحریم آیه 66

یا ایها الذین آمنوا قوا انفسکم و اهلیکم نارا و قودها الناس

اے ایمان والوں آپنے آپ کو اور آپنے عیال کو اس جھنم کی آگ سے بچاؤں کہ جسکا اندھن لوگ ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے  کہ انسان کبھی بھی  ذمہ داری سے خالی نہیں ہوتا 

  1. دینی   ذمہ داریاں ، جیسے  نماز،  اور دوسرے واجبات، اور حرام چیزوں سے  اجتناب  کرنا۔
  2. آپنے خاندان کی ذمہ داریاں   جیسے ماں باپ بیوی بچو ں اور دوسرے رشتہ داروں کی ذمہ داریاں۔
  3. اجتماعی ذمہ داریا ں: جیسے صاف سترا اچھا اور سماجی محول بنانا،
  4. امور خیریہ جیسے دینی بھائیوں اور محتاج لوگوں کی مدد کرنا۔

رسول الله (ص) نے فرمایا: الولد سید و سبع سنین و عبد سبع سنین و وزیر سبع سنین . بچہ اول سات سال میں ارباب اور سردار ہوتا ہے کہ وہ جو بھی بولے ہمیں ماننا اور انجام دینا ہوگا۔ اور دوسرے سات سال میں ‏غلام اور دوسروں کی نصیحت سننے والا ہوتا ہے۔ کہ اس عرصے میں ہمیں انکو نصیحت کرکے با آدب بنانا ہے۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا: وامر صبیانکم بالصلاه اذا کان ابناء سبع سنین

حدیث نبوی میں آیا ہے کہ بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کی حکم کریں ۔

اسی طرح والدینوں  کو چاہئے کہ دوسرے سات سال میں اچھے کام انجام دیتے وقت بچوں کو ساتھ لے جائیں تاکہ وہ آچھے کام انجام دینا سیکھ سکھے۔

رسول خدا(ص) نے فرمایا: (رحم الله والدین حملا ولدهما علی برهما (روضة ج8 ص591

خدا رحم کرے  ان والدین پر کہ جو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آپنے بچوں کو لے جاتے ہیں۔ ( روضه المتقین ج 8 ص 11 )

رسول الله (ص) نے فرمایا: (ادبوا اولادکم علی ثلاث : حب بینکم و حب اهل بیته و علی قراءه القرآن) آپنے بچوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: آپس میں محبت رکھنا۔ اھل بیت سے محبت رکھنا۔ اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

ان سات سالوں میں بچے کو عشق محبت اور نرم دیلی جیسے صفات کی طرف دھکیلنا جاہئے تا کہ یہ سب اسکے ذھن میں نقش ہو جائیں۔

رسول الله (ص) نے فرمایا: (اکرمو اولادکم و احسنوا آدابهم  یغفر لکم)

آپنے بچوں کی عزت کرو اور انکو آچھے  آداب اور عادتیں سکھاؤ خدا آپکو بخش دے گا۔

ہمیں ان دنوں میں بچوں کو بہترین آداب سکھا کر انکا اجتماعی اور سماجی لحا‍ظ سے بہترین تربیت کرنا ہے کہ یہ چیزیں بچے کی رشد کے ساتھ رشد کریں گے اور اس میں پختہ ہو جائیں گے۔

یہ سات سال بچے کی تربیت کے لیئے بہتریں سال ہے ان سالوں میں بچہ جو سکھ جاتا وہ نقش ہو کر نا قابل شکست ہو جاتا ہے۔

جو بچہ سماج میں کمزور ہوتا ہے یا ہمیشہ سایڈمیں رہنا پسند کرتا ہے۔یا ڈرتا رہتا ہے یہ سب والدین کی تربیت کا اثر ہوتا ہے۔ جنھوں نے آپنا وظیفہ ٹھیک سے آداء نہیں کیا ہوتا ہے اور وہ بچے ایسے خاندانوں میں بڑے  ہوتے ہیں کہ جہاں انکو آپنے آپ سے دفاع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور وہاں انکو دل کی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مخالف کانظریہ کو سمجھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اور والدین نے بھی اپنی غصے سے بچوں کی استعداد کو دبا دیا اور بچے کی شخصیت جاتا رہا اور آپنا اعتماد بنفس ہاتھ سے دیتا رہا اور یوں ایک کمزور انسان بن گیا۔

لیکن اگر یہ ماں باپ آپنے وظیفے کو ٹھیک سے انجام دیں تو  جب پہلی بار ہی بچے کی غلطی پر انکو غصے کی بجائے  سعہ  صدرسے کام لیتے ہوئے انکو بات کرنے کا موقع دیتے  تو اس بچے کی دل  میں ڈر نہ بھیٹتا اور انکا والدین کے  ساتھ عاطفی رابطہ کٹ نہ جاتا۔

قرآن کریم سوره تحریم آیه 66 نمبر میں ارشاد ہو رہا ہے کہ (یا ایها الذین آمنو اقوا انفسکم و اهلیکم نارا )

اے ا یمان لانے والے لوگوں آپنے آپ کو اور آپنے اھل و عیال کو جھنم کی آگ سے بچاؤں۔

ان جیسے والدین کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ آپنے بچے کو غلط راہ پر جانے سےروکے اور انکو یہ سمجھائیں کہ وہ آپنے ماں باپ کے بہت پیارے ہیں اور وہ آپنے والدین کے لیئے سب سے پہلے  اور معزز ہیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ کبھی بھی آپنے بچوں کا دوسروں کے ساتھ مقابلہ نہ کریں کہ اس طرح آپ کے بچے کی تحقیر کی جاتی ہے اور اس سے انکے دل میں گرہ بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پیغمبر اکرم (ص) سلمان فارسی کے ساتھ مدینے کی گلیوں سے گزر رہے تھے اور وہاں کچھ بچے کھیل رہے تھے۔جب انہو ں نے رسول خدا(ص) کو آتے ہوئے دیکھا تو وہ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے آپنے والد سے سنا ہے کہ کل آپنے ایک  ارشاد فرمایا ہے کہ : عرب کا عجم اور گورے کا کالے پر کوئی برتری نہیں ہے بلکہ سب لوگ خلقت میں مساوی ہے۔ لہذا اگر یہ سچ ہے تو آپ(ص) جیسے حسن اور حسین  (ع) کو  آپنے کندہوں پر بیٹھاتے ہوں اسی طرح ہمیں بھی آپنے کندہوں پر بیٹھا‎ئیں۔ آپ(ص) نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن پہلے میں آپلوگوں کا امتحان لوں گاپھر بیٹھاؤ گاپھر سلمان فاسی سے فرمایا کہ جاؤں میں نے حضرت زہراء (س) کے ہاں کچھ اخروٹ رکھے ہیں وہ لے کرآؤ۔ جب  وہ لے کرآئے  تو رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ جن کو آخروٹ  چاہئے وہ گلی کے دائیں طرف کھڑے ہو جائیں اور جو سوار ہونا چاہتے ہیں وہ گلی کے بائیں طرف کھڑے ہو جائیں  یہ سن کر سب بچے گلی کی دائیں طرف کھڑے ہوگئے  پیغمبر خدا (ص) نے اس بات کو تین بار تکرار کیا لیکن سب بچے دائیں طرف آخروٹ کے انتظار میں رہے۔تو آپ (ص) نے اخروٹ دےکر فرمایا :کہ  خدا رحم کریں میرے بھائی حضرت یوسف (ع) پر کہ جس کو لوگوں نے کچھ محدود درھموں  کے عوض فروخت کر دیا تھا اور مجھے کچھ آخروٹ کے عوض۔

بچے کی تیسرے سات سال

یاد رہے کہ جوانی ایک دیوانگی ہے۔ اس میں کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

  1. ان دنوں میں جوانوں کی احساسات عقل پر غالب ہوتے ہیں ۔
  2. بہت حساس ہوتے ہیں اور سب چیزوں کا خود ہی امتحان کرتا رہتا ہے۔
  3. انکی توقعات زیادہ اور جلد ناراض ہونے والا ہوتا ہے۔
  4. انکا حوصلہ کم ہوتا ہے اور اکثر گھر میں  آپنا جگہ بنا نہیں لیتا ہے۔
  5. یہ بھی ممکن ہے کہ ایک طرف میں رہتا ہو اور اکثر اپنے کمرے میں تنہا  رہتا ہے۔
  6. ہر موضوع میں غرور کے ساتھ پیش آتا ہے۔
  7. جوانی کا تقاضہ رہتا ہے کہ رات کو دیر سے سوتا ہے اور صبح  دیر تک سوتا ہے۔
  8. زیادہ سوتا ہے نظم  اور ضبط کا خیال نہیں رکھتا  ہے۔
  9. دوست بناتا ہے اور کسی شئی کا خاص خیال نہیں رکھتا۔
  10. عشق کرنا اسکا پیشہ ہوتا ہے اور اگر کوئی اسکے ساتھ کچھ محبت سے پیش آ‏ئے تو اس سے محبت کر تا ہے۔
  11. کوئی بھی ذمہ داری چاہے اجتماعی  ہو یا  خاندانی ہو حتی آپنی شخصی   ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا ہے۔

عاق الولد۔

آپ نے عاق والدین کا تو سنا ہوگا لیکن کبھی والدین آپنے فرزند سے عاق ہو جاتے ہیں ،نہیں سنا ہوگا۔

والدین کو یہ جاننا چاہئے کہ جب  والدین آپنے بچوں کی نسبت آپنا الہی اور اسلامی   فرض ٹھیک سے  انجام نہ دیں  اور بچوں کی صحیح تربیت نہ کریں تو یہ بچوں  کے حق   میں ظلم ہوگا اور ممکن ہے کہ ایسے والدین بچو ں کی طرف سے ((عاق)) ہو جائیں ۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ لوگ خدا کی غضب ، لعنت  اور نفرین میں آجاتے ہیں اور  اخروی عذاب کے حقدار بن جاتے ہیں ۔

حضرت رسول خدا ص نے اس بارے میں حضرت علی(ع) سے فرمایا: یلزم الوالدین من عقوق الوالد و ما یلزم الولد لهم من العقوق).

جیسے بچے والدین کی نا فرمانی اور ناراض کرنے کی وجہ سے عاق والدین بن جاتے ہیں اسی طرح یہ والدین بھی آپنے فرض انجام نہ کرتے ہوئے عاق فرزند بن جاتے ہیں۔

علی (ع) نے فرمایا : بر الرجل بولده بره بوالدیه (من لایحضر الفقیه ج 3 ص 3 )

کسی کا بچوں سے نیکی کرنا انکے والدین سے نیکی کرنا ہوتا ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

خطبہ دوم

استغفار:

استغفارکا لغوی اور اصطلاحی معنی

1:  اسغفارکے معنی ہیں  معافی اور مغفرت کی طرف جانا، گناہ کو چھپانا، اس کو اصلاح میں باب توبہ کہا جاتا ہے۔

2: دوسری بات یہ کہ استغفار کونسا ذکر ہے۔ حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا :(خیر الدعا الاستغفار     (الکافی ج 2 ص 50 ))

اور آپ(ص) فرماتے ہیں: خیرا العباده الاستغفار (نور الثقلین ج 5 ص 38 )

استغفار بهترین عبادت ہے.

آپ(ص) نے فرمایا: اکثروا من استغفار لان ( التوبه تحجب ما قبلها  )      (مستدرک ج 12 ص 192 )

زیادہ سے زیادہ  استغفار کریں  کیونکہ توبہ اور استغفار گذشتہ  گناهوں کو چھپاتے ہیں۔

پھر فرمایا: اکثروا من الستغفار فان الله عزوجل لم یعلمکم الاستغفار الا و هو یرید ان یغفر لکم( تبیه الطواط ج 1 ص 5 )

زیاد سے زیادہ  استغفار کریں کیونکہ اللہ تعالی نے اس لیئے استغفار کو سکھایا کہ وہ چاہتا ہے کہ آپ کومعاف کرے

اسی طرح فرماتے ہیں کہ: (سید الدُّعاء الاستغفار) سب دعاؤں کا سردار استغفار دعا ہے۔

استغفار اللہ تعالی سے طلب مغفرت ہے کہ جس کے بارے میں آپ(ص) سے بہت سارے  احادیث اور فضائل ذکر ہوئے ہیں۔

اس میں کچھ یہ کہ استغفار کے ذریع خدا اپنے بندوں کی غلطیوں کو مٹاتا ہے۔ اور اس سے آپنے بندے کی درجات بلند فرماتا ہے۔ اور دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے۔ اور آپنے بندوں کےاور غم کو دور کرتے ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آپنے نبی نوح (ع) کے ذریع فرمایا کہ جب وہ آپنے قوم کو مخاطب ہو کر فرما رہے تھے۔ ( فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا . يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا . وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا ) نوح/10 – 12

10- اور کہا: اپنے پروردگار سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے

11 - وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا،

12 - وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔

استغفار کے لیئے اور بھی بہت سارے فضایل بیان کیے جا چکے ہیں

جیساکہ آپ(ص) نے فرمایا: (من لزم الستغفار جعل الله له من کل هم فرجا و من کل ضیق مخرجا و رزقه من حیث لا یحتسب) .

جو بندہ استغفار کو آپنے  اوپر لازم قرار دے گا اللہ تعالی انکو ہر غم سے نجات دلائیگا۔ اور سختی سے خلاصی کا ذریعہ عنایت فرمائے گا۔

رسول الله(ص) نے فرمایا : اکثروا من الاستغفار فی بیوتکم و فی مجالسکم و علی موائدکم و فی اسواقکم و فی طریقکم و ایمانکم فانکم لا تدرون متی تنزل المغفره۔ ( مستدرک الوسایل ج 5 ص 319 )

زیادہ استغفار کیا کرو آپنی گھروں میں آپنی مجالسوں میں اور آپنے کام کی جگوں میں اسی راستوں اور راہوں میں، کیونکہ آپ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ کب مغفرت نازل ہونے والا ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ تین آدمی امام حسن(ع) کے خدمت میں حاضر ہو گئے اور ایک نے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو امام(ع) نے اسکو فرمایا کہ آپ لوگ زیادہ سے زیادہ استغفار کریں اور دوسرے  آدمی نےعقیم یعنی بچے پیدا کرنے  کی صلاحیت کا نہ ہونا، کی شکایت کی تو اسکو بھی امام(ع) نے فرمایا کہ آپ بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کریں۔

اور تیسرے آدمی نے کہا یابن رسول اللہ زمین خشک ہو چکی ہے اورکوئی سبزی رونما نہیں ہو رہی ہے۔ تو اسکو بھی امام(ع) نے فرمایا کہ آپ بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کریں۔

تو وہاں بھیٹے لوگوں نے عرض کیا یا ابن سول اللہ تین لوگوں نے الگ الگ سؤال اور آپنے سب کو ایک ہی جواب دیا؟

 تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا کہ کیا آپ  لوگوں نے اللہ تعالی کا یہ قول نہیں سنا ہے کہ(  فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا . يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا . وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا ) نوح/10 – 12

10- اور کہا: اپنے پروردگار سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے

11 - وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا،

12 - وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔