پہلا خطبہ
2/3/2018 کو نماز جمعہ حجت الاسلام مولانا سید موسوی صاحب کی اقتداء میں آداء کی گئی۔
مولانا صاحب نے بچے اور انکی تربیت کو موضوع بحث بنایا۔
آپ نے کہاہ کہ حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: البنات حسنات و البنین نعمة
کہ بیٹیاں نیکیاں ہیں اور بیٹے نعمات ہیں
پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم نے شادی کا مقصد ایسے اچھے اور بہترین بچوں کو پیدا کرنا کہ جن کی وجہ سے مہر و محبت سے لبریز نظام کو آچھےنسل کے ذریع سماج اور معاشرے پر حاکم کریں ، قرار دیا ہے۔
کیا اب تک آپ لوگوں نے کبھی شادی اور بچے پیدا کرنے کی مقصد کے بارے میں سوچا ہے کہ ہمارے بچے صحت مند، خوبصورت اور اچھے استعداد کے مالک ہونے چاہییں ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صالح اولاد کہ جن میں پھر رھبر اور امام بننے کا استعداد ہو اور پھر انسانیت کا خادم بن جائیں، اور جو احکام الہی کو ترویج کرتے ہوئے معاشرے کے ليئے ھادی اور رہنما بن جائیں یہ ان لوگوں کی بچے ہو سکتے ہیں کہ جن کے آپنے زندگی کا مقصد معین ہو۔ لہذا توجہ رہے کہ بچے پیدا کرتے وقت والدین کا جو مقصد رہا ہو بچے بھی پھر اسی مقصد کے پیچھے چل پڑیں گے۔
اور اسی طرح سالم اور نیک بچے پیدا کرنے کے لئیے حمل سے پہلے اور بعد کے آداب کا کرنا خیال رکھنا چاہیے۔ اسی طرح بچا پیدا ہونے کےبعد کےآداب،
دودھ دیتے وقت کے آداب ۔ کھلانے کے آداب ، اور قدم قدم پر تربیت الہی دینا۔یہ سب اس لیئے تا کہ اس وقت کہ جب یہ بچے بڑے ہو جائیں تو یہ معاشرے کو بدل دیں۔
اسلا م نے آپنے پیروکاروں سے چاہا ہے کہ بچے پیدا کرنے سے پہلے آپنے آپ کو صحیح راستے پر گامزن کرکے مسلمان ہونے کی ایک اعلی ترین مرحلے پر پہنچ جائیں۔
آب ان چیزوں کا ذکر کرتے ہیں کہ اسلام نے جس کے بارے میں تاکید کی ہے۔
- تاکید کی ہے کہ بچوں کی دائیں کا ن میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھا جائے۔
- تاکید کی ہے کہ بچے کے لیئے بہترین نام رکھا جائے۔
- نومولود کو سب سے پہلے آب زمزم یا تربت سید شہداء کھلایا جائے۔
- بچے کے ليئے عقیقہ کیا جائے۔
- بچے کے لیئے ولیمہ دیا جائے۔
- بچے کو غسل دیا جائے۔
- بچے کو ابتدائی دینی تعلیم دیا جائے ۔
- دودھ دینے کی آداب کا رعایت کیا جائے۔
- بچے کے لیئے بہترین محول انتخاب کیا جائے۔
- اور پھرمناسب جگہ پہ اسکا شادی کیا جائے۔
- بچے کو شخصیت اور مقام دیا جائے۔
- بچے میں قوت اعتماد بنفس بحال رکھا جائے
بچے کے اعتماد بنفس کو بڑھانے کے لیئے کچھ طریقے۔
- بچے کو کہا جائےکہ میرا آپ پر بہت اعتماد ہے۔
- خاندان والوں کے سامنے اسکا احترام رکھا جائے۔
- اگر آپ غلطی کریں تو اس سے معذرت کریں۔
- اور اگر وہ غلطی کرے تو اسکو معاف کریں۔
- بچے کے لیئے کافی وقت مختص کیا جائے۔
- اس کے ساتھ مشورہ کیا جائے اور اس کوزندگی کے امور میں شریک کیا جائے۔
- اس کو کہا جائے کہ آج کا کھانا سپشل آپ کے لیئے بنایا گیا ہے۔
- جب وہ آچھا کام کرے تو اسکی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسکا شکریہ آدا کیا جائے۔
- لوگوں کے سامنے اسکی تعریف کریں اور بولیں کہ میں آپ پر فخر کرتا ہوں۔
- اسکو کہا جائے کہ میرا آپ پر اور آپ کے بات اعتماد ہے۔
پھر مولانا صاحب نے ان مطالب میں سے کچھ کے لیئے احادیث کا حوالہ دیا۔
- قال رسول الله(ص) ان الله لیرحم الرجل لشده حبه لولده (روضة المتقین ص592)
حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا: کہ بیشک اللہ تعالی رحم فرماتا ہے اس آدمی پر کہ جو آپنے بچے سے محبت رکھتا ہو۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: (رحم الله والدین حملا ولدهما علی برهما (روضة ج8 ص591)
خدا رحم کرے ان والدین پر کہ جو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آپنے بچوں کو لے جاتے ہیں۔
اسی طرح آپ (ص) نے پھر فرمایا: (ان الله یوصیکم به ابناءکم و ذوی ارحامکم الاقرب فاالاقرب)
اللہ تعالی اس کے ذریع آپ لوگوں کو آپنے بچوں اوریکی بعد دیگری آپنے رشتہ داروں کی وصیت فرماتا ہے۔
ایک اور مقام پر آپ(ص) نے فرمایا (جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انکو نماز پڑھنے کا حکم کیا کرو۔
اسی طرح فرمایا: (احبو الصبیان و ارحموا هم) مستدرک ج15 ص114)
بچوں سے محبت کرو اور ان پر رحم کرو۔
حضرت امام علی (علیہ السلام نے فرمایا: یرفی الصبی سبعا و یؤدب سبعا و یستخدم سبعا
پہلے سات سال تک بچوں سےسب تکالیف اٹھا لیئے گئے ہیں اور دوسرے سات سال میں انکو آدب سکھایا جائیں، اور تیسرے سات سال میں ان سے خدمت لیا جائیں۔
اسی طرح حضرت محمد مصطفی(ص) نے ارشاد فرمایا ہےکہ : : الولد سید سبع سنین و عبد سبع سنین و وزیر سبع سنین.
بچے سات سال تک سردار ہوتے ہیں اور پھر سات سال تک غلام ہوتے ہیں اور تیسرے سات سال میں وزیر بن جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے آپنے بچوں اور بتیجھوں کو جمع کیا اور فرمایا: کہ آج تم لوگ خاندان بنی ھاشم اور شہر مدینہ کے چھوٹے بچے ہو اور کل اسی قوم کے سردار اور صاحب حیصیت آدمی بنوں گے۔ لہذا علم اور معرفت کو حاصل کرنے میں لگ جائیں جتنا ہو سکے قرآنی اور اسلامی تعلیمات حفظ کریں ۔ اور اگر حفظ نہیں کر پاتے تو اسکو لکھیں اور پھر کبھی کبھی اسکو تکرار کریں۔ اور آپنے علم سے فائدہ اٹھائیں۔
اس حکایت سے پتہ لگتا ہے کہ جب آپ لوگ کسی کونصیحت کرنا چاہیں تو پہلے اس کو شخصیت دیں اور اسکے اعتماد بنفس کو بڑھائیں ، اور پھر انکو نصیحت کریں ۔
سمجھ لیں کہ جب آپ جوانوں سے یا بڑے لوگوں سے سخت اور برے الفاظ میں بات کریں گے تو اسکا نتیجہ ضرور الٹا سامنے آئے گا۔
دوسری بات یہ کہ شاید آپکا ایمان آچھا اور مضبوط ہو لیکن جب تک ایمان کے ساتھ علم نہ تو آپکا یہ ایمان معاشرے کے لئے کام نہیں آنے والا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ معاشرے میں صاحب آثر اور صاحب حصیت ہو جائیں تو آپنے آپ کوعلم سے مجھز کریں ۔
کتاب آمالی میں آیاہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو والدین آپنے بچوں کو قرآن اور دینیی تعلیم دے تو کل قیامت کے دن ان دو تعلیمات کو بہشتی زیور بنا کر اس کے ساتھ بہشتی لباس کو مزین کرکے ان والدین کو پہنایا جائے گا کہ جس سے قیامت کا پورا منظر روشن ہو جائیگا۔
دوسرا خطبہ۔
دوسرے خطبے میں مولانا صاحب نے نا امیدی اور مایوسی سے مقابلہ کرنے کے راستوں کا ذکر کیا آپ نے فرمایا:
الف: انسان جسم او رروح سے بنا ہے اور جسم مرور زمان سے پرانا ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔
ب: امیدوں، خوشی اور غم، احساس عشق اور محبت کا مرکز روح ہے ۔
ج: پس امیدوار زندگی اور روشن مستقبل کے لیئے روح کی تقویت کرنا ضروری ہے۔
اور یہی کامیابی کی چابی ہے اور اسکے لئیے تین بنیادی عاملوں کا ہونا ضروری ہے۔
- معرفت اور پہچان
- ایمان کے ساتھ ھدف کا ہونا
- اور صالح عمل بجا لانا
ہر قسم کے کام کو انجام دینے سے پہلے اس کام کا سمجھنا اور اسکے بارے میں مکمل معلوما ت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور جب کسی کام کے بارے انسان مکمل معلومات حاصل کر لیتا ہے تو انسان کا اس کام کو انجام دینے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جتنا انسان کا ھدف اور مقصد بڑا ہوتا ہے اتنا اسکا حوصلہ اور آپنے آپ پر اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے اوروہ زیادہ کوشش کرتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب انسان کا عمل صالح اور پاک ہو تو وہ مطمئن رہتا ہے کہ کسی بھی وقت اور کہں بھی اسکو اس عمل کا جزاء اور انعام ضرور ملے گا۔
حضرت امام علی (ع) نے فرمایا: کہ نا امیدی انسان کو عمل اور ھدف سے روکنے کا سبب بن جاتی ہے۔بحار الانوار ج77 ص 211
امام علی بن ابی طالب (ع) نے آپنے بیٹے امام حسن(ع) سے فرمایا:
وَاعْلَمْ أَنَّ الَّذِی بِیَدِهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ قَدْ أَذِنَ لَکَ فِی الدُّعَاءِ، تَکَفَّلَ لَکَ بِالاِجَابَةِ، وَأَمَرَکَ أَنْ تَسْأَلَهُ لِیُعْطِیَکَ، ، فلا یقنطنک ابطاء الاجابة، فان العطیة علی قدر النیة (نهج البلاغه31)
بیٹے جان لو! کہ وہ جس کے ہاتھ میں آسمان اور زمین ہے آپ کو دعا کی اجازت دیتا ہے اور اس کو پورا کرنے کا وعدہ بھی دیا ہے اور آپ کو امر کیا ہے کہ مجھ سے مانگو تاکہ میں آپکو دے دوں اور ہاں اجابت دعا میں تاخیر آپکو نا امید نہ کر دے بیشک ھر ایک کو اسکے نیت کے برابر دیا جاتا ہے۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ: (من توکل علی الله کفاه مؤنته و رزقه من حیث لا یحتسب (کنزل العمال ج3 ص 103)
جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کو اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جسکا اس نے سوچھا بھی نہ ہو۔
|