مولانا صاحب نے سب سے پہلے تقوای الہی آپنانےکی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: کہ حضرت محمد مصطفی(ص) کی حدیث مبارک ہے: کہ
قال رسول اللہ صلى الله عليه و اله وسلم: اتَّقِ الله حيثما کنتَ، وأذاعملت السَّيِّئَةَ فاعملِ الحسَنَةَ تَمْحُهَا، وخالِقِ الناسَ بخلُق حسن. آمالی الطوسی 186
حضرت محمد مصطفی(ص) نے فرمایا: آپ لوگ ہرحالت میں اللہ سے ڈرتے رہنا جب بھی آپ نے برا عمل بجا لایا تو آچھے اعمال بھی بجا لایا کرو کیونکہ آچھے اعمال برے اعمال کو مٹھاتےہیں۔ اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں۔(آمالی شیخ طوسی ص186
اور پھر قرآن کریم کی آیہ مبارک کو بھی نقل کیا، فرماتے ہیں :
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ
بیشک کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے کہ جنھوں نے تقوی اختیار کیا ہے اور احسان کرنے والے ہیں۔
اور پھر آپ نے گذشتہ جمعے میں زیر بحث موضوع کو اس جمعے میں جاری رکھتے ہوئے کہا
کہ حضرت امام صادق(ع) سے نقل ہو چکا ہے کہ اگر کوئی سائل خدا سے کوئی حاجت رکھتا ہو تو صلوات پڑھے اور پھر حاجت مانگے اور آخر میں پھر صلوات پڑھے تو بیشک اللہ کی ذات اس سے بہت منزہ ہے کہ وہ آول اور آخر کو (محمد اور آل محمد پر صلوات شریف کو ) تو قبول کرے لیکن درمیان والی دعا کو قبول نہ کریں بیشک جب بھی ہم پر درود پڑھا جاتا ہے تو وہ اللہ سے محجوب(پردوں میں ) نہیں رہتا۔ یعنی اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ کچھ برے اعمال کی وجہ سے ہماری دعائیں اللہ کی محضر میں پہنچ نہیں پاتے تا کہ ہماری دعائیں قبول کیا جائیں تو اس مقصد کے لئے اگر دعا کی اول اور آخر میں درود شریف پڑھا جائیں تو اس طرح کے دعا ئیں ضرور اللہ تعالی کی محضر میں پہنچ جاتے ہیں اور جب آپ نے اول اور آخر میں درود شریف پڑھا ہے تو درود شریف تو قبول دعا ہے یہ سبب بنے گا کہ اللہ تعالی آپکے دعاؤں کو قبول فرمائیں ۔
جب قیامت برپا ہو جائیں تو کچھ لوگوں کی چہرے چودھویں چاند کی مانند چمکتے ہونگے، ملائکے تعجب کرتے ہوئے پوچھیں گے کہ آپ لوگوں نے کونسا ایسا عمل کیاہے۔ تو وہ لوگ جواب دینگے کہ ہم جیسے ہی آذان کی آواز سنتے تھے تو آپنا کام چھوڑ کر نماز بجا لانے کے لئے جلدی کرتے تھے۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: کسی نے نماز جمعہ پڑھنے کے لئے قدم نہيں اٹھایا مگر یہ کہ (اگر قدم اٹھایا) تو اللہ تعالی نے اس کے بدن کو جہنم پر حرام کر دیا۔
|