۱۳۹۶/۱۰/۲۷   6:40  بازدید:2073     استفتاءات: آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای


 پوسٹ مارٹم اور اعضاءکى پيوند کارى

 


  •  
    •  پوسٹ مارٹم اور اعضاءکى پيوند کارى

      س 1274: دل اور شريانوں کے امراض کا مطالعہ اور اس سے مربوط مختلف موضوعات پر تحقيق اور انکے متعلق جديد مسائل کا انکشاف کرنے کے لئے مردہ اشخاص کے دل اور شريانوں کو حاصل کرنے کى ضرورت ہوتى ہے تاکہ ان کا معائنہ کيا جائے۔ جبکہ يہ بھى معلوم ہے کہ ايک دن يا چند دن کے تجربے کے بعد انہيں دفن کردياجاتاہے تو اب سؤال يہ ہے کہ :
       ١۔  اگر مردہ اجساد مسلمانوں کے ہوں تو کيا تشريح کا مذکورہ عمل انجام دينا صحيح ہے؟
       ٢۔ کيا دل اور شريانوں کو جو کہ جسد سے جدا ہيں الگ دفن کيا جاسکتا ہے؟
       ٣۔ کيونکہ دل اور شريانوں کو الگ دفن کرنا مشکل ہے لہذا کيا انہيں کسى اور جسد کے ساتھ دفن کيا جاسکتا ہے؟
      ج:   صاحب حرمت انسان کى جان بچانے اور علم طب ميں جديد انکشافات جن کى معاشرے کو ضرورت ہے يا کسى ايسے مرض کا پتہ لگانے کے لئے جو انسانيت کے لئے خطرناک ہو ميت کى تشريح کرناجائز ہے ليکن حتى الامکان مسلم ميت کے جسد سے استفادہ نہ کرنا واجب ہے۔ اور جدا شدہ اعضاءکو اسى ميت کے ساتھ دفن کرنا واجب ہے ليکن اگر اسى ميت کے ساتھ دفن کرنے ميں کوئى حرج يا کوئى اور مشکل ہو تو الگ يا کسى دوسرى ميت کے ساتھ دفن کرنا جائز ہے۔

      س 1275: اگرموت کے سبب ميں شک ہو تو کيا تحقيق کے لئے جسد کا پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہے؟ مثلاً نہيں معلوم کہ ميت نے زہر سے يا گلا گھٹنے و غيرہ سے وفات پائى ہے؟
      ج:  اگر حق کا واضح ہونا پوسٹ مارٹم پر متوقف ہو تو جائز ہے۔

      س1276 :  ماں کے پيٹ ميں موجود بچے کے مختلف مراحل ميں ساقط ہونے والے حمل کا پوسٹ مارٹم کرنے کا کيا حکم ہے؟ يہ ايمبريالوجى جسمانى ساخت ميں معلومات حاصل کرنے کے لئے کيا جاتا ہے دوسرى طرف سے يہ بھى معلوم ہے کہ ميڈيکل کالج ميں پوسٹ مارٹم کى کلاس ضرورى ہے۔
      ج: صاحب نفس محترمہ  انسان کى جان بچانے ، يا ايسے جديد طبى معلومات کے حصول کے لئے جو کہ معاشرے کے لئے ضرورى ہو ں يا کسى ايسے مرض کے بارے ميںمعلومات حاصل کرنے کے لئے جو انسانيت کے لئے خطرناک ہو اور يہ معلومات سقط شدہ بچے کے پوسٹ مارتم پر متوقف ہوں تو پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہے ليکن جب تک ممکن ہو مسلمان يا جوشخص مسلمان کا حکم رکھتا ہو اس کے سقط شدہ حمل سے استفادہ نہ کيا جائے۔

      س1277:  آيا قيمتى اور نادر پلاٹينيم کے ٹکڑے کو بدن سے نکالنے کے لئے قبل از دفن پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہے؟
      ج:  مذکورہ فرض ميں ٹکڑا نکالنے ميں کوئى حرج نہيں ہے ليکن ميت کے لئے ہتک آميز نہ ہو۔

      س1278:  ميڈيکل کالج ميں تعليم اور تعلم کے لئے قبريں کھود کر ہڈياں حاصل کرنے کا کيا حکم ہے چاہے يہ قبريں مسلمانوں کى ہوں يا غير مسلمين کي؟ 
      ج:  مسلمانوں کى قبروں کو کھودنا جائز نہيں ہے۔ ہاں اگر غير مسلمانوں کى ہڈياں حاصل نہ کى جاسکيں اور فورى طبى ضرويات کے تحت ہڈيوں کا حصول بہت ضرورى ہو تو جائز ہے۔

      س1279:  کسى ايسے شخص کے سر پر جس کے بال جل گئے ہوں يا بال نہ ہونے کى وجہ سے لوگوں کے سامنے جانے سے ہتک محسوس کرتا ہو تو بال اگانا جائز ہے؟
      ج:  بال اگانے ميںبذاتِ خود کوئى حرج نہيں ہے ہاں بالوں کو حلال گوشت جانور يا انسان کا ہونا چاہيے۔

      س1280:  اگر کوئى شخص بيمار ہوجائے اور ڈاکٹر اس کے علاج سے مايوس ہوجائيں اور يہ کہيں کہ وہ قطعى طور پر مرجائے گا ايسى صورت ميں اس کے بدن کے بنيادى اور حياتى قسم کے اعضاءجيسے ، دل، گردہ... وغيرہ کو اس کى وفات سے پہلے نکال کر دوسرے انسا ن کے جسم ميں لگايا جاسکتا ہے ؟
      ج:  اگر اس کے بدن سے اعضاءنکالنے سے موت واقع ہو تو يہ قتل کے حکم ميں ہے اور اگر اعضاءنکالنے سے موت واقع نہ ہو اور اس شخص کى اجازت سے ہو تو جائز ہے۔

      س1281: آيا مردہ شخص کى شريانوں اور رگوں کو کاٹ کر بيمار شخص کے جسم ميں گانے کے لئے استفادہ کيا جاسکتاہے؟
      ج:  اگر ميت سے اس کى زندگى ميں اجازت لے لى ہو يا ميت کے اولياءاجازت دے ديں يا کسى نفسِ محترمہ کى جان بچانا اس پر متوقف ہو تو جائز ہے۔

      س1282:  ميت کے بدن سے آنکھ کى سياہ پُتلى  ليکر اسے کسى دوسرے شخص کو پيوند کرنے کى کيا ديت ہے ؟ جبکہ مذکورہ عمل اکثر اوقات ميت کے اولياءکى اجازت کے بغير انجام پاتا ہے، اوراگر بالفرض واجب ہو تو آنکھ اور سياہ پتلى کى کتنى ديت ہے؟
      ج: مسلم ميت کے بدن سے آنکھ کى سياہ پتلى نکالنا حرام ہے جو کہ ديت کا سبب ہے اور ديت کى مقدار پچاس دينار ہے ليکن اگر ميت سے قبل از موت اجازت لے لى جائے تو کوئى حرج نہيں ہے اور ديت بھى واجب نہيں ہے۔

      س1283:  آيا فوجى ادارے کى جانب سے افراد کى شرمگاہ کا معاينہ جائز ہے؟
      ج:  دوسروں کى شرمگاہ ديکھنا اور دوسروں کے سامنے شرمگاہ عريان کرنے پر مجبور کرنا جائز نہيں ہے البتہ اگر قانون کى رعايت يا علاج کى غرض ہو تو جائز ہے۔

      س 1284: ايک جنگى مجروح کے خصيتَين پر ضرب لگى جس کے نتيجے ميں انہيں کاٹ ديا گيا اور وہ شخص عقيم ہوگيا ، کيا ايسے شخص کے لئے ہارمونک دوائيوں کا کھانا جائز ہے تاکہ وہ اپنى جنسى قدرت اور ظاہرى مردانگى کى حفاظت کر سکے؟ اور اگر مذکورہ نتائج کا واحد راہِ حل جس سے اس ميں بچے پيدا کرنے کى قدرت آجائے  خصيتَين کى پيوند کارى ہو جو کہ دوسرے شخص سے لئے جائيں تو اس صورت کا کيا حکم ہے؟
      ج: اگر خصيہ کى پيوند کارى ممکن ہو اس طرح سے کہ پيوندکارى کے بعد اس کے بدن کا زندہ جزءبن جائے تو پھر نجاست، طہارت کے لحاظ سے کوئى حرج نہيں اور نہ ہى بچے پيدا کرنے کى قدرت ميں کوئى حرج ہے اور بچہ بھى اسى کا کہلائے گا اور اسى طرح جنسى قدرت اور ظاہرى مردانگى کى حفاظت کے لئے ہارمونک دوائياں استعمال کرنے ميں بھى کوئى حرج نہيں ہے۔

      س1285:  مريض کى زندگى بچانے کے لئے گردوں کى پيوندکارى کى بہت اہميت ہے لہذا ڈاکٹر گردوں کا بينک بنانے کى فکر ميں ہيں اور اس کا معنى يہ ہے کہ بہت سے لوگ اختيارى طور پر اپنے گردے ھديہ ديں گے يا فروخت کريں گے تو آيا گردوں کا بخشنا يا فروخت کرنا يا اعضاءبدن ميں سے کوئى اور عضو اختياراً بخشنا يا فروخت کرنا جائز ہے؟ اور ضرورت کے وقت اسکا کيا حکم ہے؟
      ج:  حال حيات ميں کسى کا اپنے گردے يا کوئى اور عضو فروخت کرنے يا بخشنے ميں کوئى حرج نہيں ہے تاکہ دوسرے مريض استفادہ کريں اس شرط کے ساتھ کہ اس کام سے اسے کوئى قابل توجہ ضرر نہ پہنچ رہا ہو بلکہجب ايک نفس محترمہ کو بچانا اس پر متوقف ہو ليکن خود اس شخص کو کوئى حرج اور ضرر نہ ہو تو اعضاءدينا واجب بھى ہوجائے گا۔

      س1286:  بعض افراد سر ميں چوٹ لگنے کى وجہ سے لاعلاج ہوجاتے ہيں اور اپنى يادداشت کھو بيٹھتے ہيں اور بے ہوشى ان پر طارى ہوجاتى ہے، سانس لينے کى قدرت بھى نہيں رکھتے اور مادى اور شعاعى اشاروں کا جواب دينے پر بھى قادر نہيں ہوتے اور ايسى صورت ميں مذکورہ حالت کے بدل جانے کا احتمال معدوم ہوجاتا ہے ، دل کى ڈھڑکن مصنوعى طور پر کام کرتى ہے اور مذکورہ حالت چند گھنٹے، چند دن سے زيادہ باتى نہيں رہتى يہاں تک کہ زندگى ختم ہوجاتى ہے اور ايسى کيفيت کو علم طب ميں دماغى موت کہا جاتا ہے جس کے سبب سے شعورى احساس، ارادى حرکت ختم ہوجاتى ہے، جبکہ دوسرى طرف بہت سے ايسے مريض ہيں جن کى زندگى دماغى موت والے افراد کے اعضاءسے استفادہ کرکے بچائى جاسکتى ہے ،آيا دماغى موت والے مريضوں کے اعضاءسے استفادہ کرکے دوسرے بيماروں کى زندگى بچانا جائز ہے؟
      ج:  مذکورہ صفات رکھنے والے مريض کے اعضاءسے دوسرے بيماروں کے لئے استفادہ کرنا اگر اس طرح ہو کہ مذکورہ اعضاءنکالنے سے ان کى موت جلدى واقع ہوجائے اور زندگى تمام ہوجائے تو جائز نہيں ہے۔ ہاں اگر مذکورہ عمل اس کى اجازت سے انجام پائے جو پہلے لى جاچکى ہو يا عضو ايسا ہو  جس پر نفس محترمہ کى زندگى کا دارومدار ہو تو جائز ہے۔

      س1287: ميں اپنے جسم سے وفات کے بعد استفادہ کرنا چاہتا ہوں اور اپنے اعضاءبخشنا چاہتا ہوں جس کى اطلاع ميں نے متعلقہ افراد کو دے دى ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ميں مذکورہ خواہش کو وصيت ميں تحرير کردوں اور ورثا کو بتادوں کيا ايسا کرنا ميرے لئے صحيح ہے؟
      ج:  جسد ميت کے بعض اعضاءسے دوسرے شخص کى جان بچانا يا مرض کے علاج کے لئے پيوندکارى کرنا جائز ہے اور وصيت کرنا بلا مانع ہے ليکن ايسے اعضاءمستثنيٰ ہيں جنہيں جدا کرنے سے مُثلہ کرنے کا عنوان صادق آتا ہو يا جس کے کاٹنے سے عرفاً ميت کى ہتک حرمت ہوتى ہو۔

      س1288: خوبصورتى کے لئے پلاسٹک سرجرى کا کيا حکم ہے؟
      ج:  بذاتِ خود جائز ہے۔

    •