مصنوعى حمل
س1265 : آج کل رحم سے باہر ملائے گئے نطفے بعض مخصوص جگہوں پر محفوظ رکھے جاسکتے ہيں تا کہ ضرورت کے وقت انھيں صاحب نطفہ کے رحم ميں قرار ديا جائے آيا يہ عمل جائز ہے ؟
ج: اس عمل ميں بذات خود کوئى حرج نہيں ہے ۔
س1266 : i۔ کيا شرعى طور پر شوہر اور بيوى کے نطفہ کو ٹيوب کے ذريعے پيوند کارى کرنا جائز ہے؟
ii۔ برفرض جواز،کيا مذکورہ عمل کو نامحرم ڈاکٹر انجام دے سکتا ہے؟ آيا پيدا ہونے والا بچہ مذکورہ شوہر اور بيوى کا ہے؟
iii۔ اگر بذات خود يہ عمل جائز نہ ہو تو آيا اگر ازدواجى زندگى مذکورہ عمل پر متوقف ہو تو کيا حکم ہے ؟
ج: الف: بذات خود مذکورہ عمل جائز ہے ليکن شرعى طور پر حرام مقدمات سے پرہيز کرنا واجب ہے ۔ لہذا نامحرم شخص کے لئے يہ عمل انجام دينا جائز نہيں ہے اگر لمس اور نگاہ حرام کا سبب بنے ۔
ب: مذکورہ طريقے سے پيدا ہونے والا بچہ صاحب نطفہ ماں باپ کا ہوگا ۔ ج: مذکورہ عمل کا جواز بذات خود بيان ہوگيا ہے۔
س1267 : بعض شوہر اور بيوى ، زوجہ کے بيضہ (Ovum)نہ ہونے کى وجہ سے جو کہ پيوند کارى کے لئے ضرورى ہوتے ہيں ايک دوسرے سے جدائى کے مرحلے پر پہنچ جاتے ہيں اور نفسياتى اور ازدواجى مشکلات کاشکار ہوجاتے ہيں کيونکہ مرض کے علاج کا امکان نہيں ہے وہ صاحب اولاد بھى نہيں ہوسکتے ايسى صورت ميں کسى اور عورت کے بيضہ (Ovum)لے کر سائنسى طريقے سے شوہر کے نطفے کے ساتھ پيوند کارى کے عمل کے بعد جو کہ رحم کے باہر انجام پايا ہو مذکورہ پيوند کارى شدہ نطفہ ، شوہر کى بيوى کے رحم ميں رکھ ديا جائے؟
ج: مذکورہ عمل بذاتِ خود شرعاً جائز ہے ليکن پيد اہونے والے بچے کا صاحب رحم عورت کا بچہ کہلانا مشکل ہے اور اسے صاحب نطفہ عورت کى طرف نسبت دى جائے گى لہذا دونوں شوہر اور بيوى کو نسب کے خاص احکام کے سلسلے ميں احتياط کرنا ہوگي۔
س1268 : اگرشوہر کا نطفہ ليا جائے اور شوہر کے مرنے کے بعد اسے زوجہ کے بيضہ (ovum )کے ساتھ پيوند کارى کى جائے اور زوجہ کے رحم ميں رکھ ديا جائے توکيا حکم ہے۔
١۔مذکورہ عمل صحيح ہے ؟
٢۔ مولود شرعاً شوہر کا بچہ کہلائے گا ؟
٣۔ مولود صاحب نطفہ کا وارث بنے گا ؟
ج: مذکورہ عمل بذاتِ خود صحيح ہے اور بچہ صاحب رحم و نطفہ کا کہلائے گا اور بعيد نہيں ہے کہ اسے صاحب ِنطفہ مرد سے بھى ملحق کيا جائے ليکن وارث قرار نہيں پائے گا۔
س1269 : ايک شادى شدہ عورت جو صاحب اولاد نہيں ہوسکتى ايک اجنبى اور نامحرم مرد کے نطفے کے ساتھ عورت کے نطفے کو ملاکر اسکے رحم ميں رکھ ديا جائے کيا يہ عمل جائز ہے؟
ج: نامحرم مرد کے نطفے سے پيوند کارى بذات ِ خود جائز ہے ليکن حرام مقدمات مثلاً لمس، نگا ہ کرنا وغيرہ سے اجتناب کرنا واجب ہے۔بہر حال مذکورہ طريقے سے جو بچہ پيدا ہوگا وہ شوہر کا بچہ نہيں کہلائے گا بلکہ صاحب نطفہ مرد اور صاحب رحم وبيضہ بيوى کا بچہ کہلائے گا ۔
س1270 : اگر ايک شادى شدہ عورت جو يائسگى و غيرہ کى وجہ سے نطفہ بنانے کے قابل نہ ہو تو کيا اس شخص کى دوسرى بيوى کے نطفہ کو شوہر کے نطفہ سے ملاکر اسکے رحم ميں رکھنا جائز ہے کيا دوسرى بيوى کے دائمى يا موقت زوجہ کے لحاظ سے کوئى فرق ہے ؟ دونوں ميں سے کونسى عورت اس بچے کى ماں ہوگى صاحب نطفہ يا صاحب رحم ؟
کيا مذکورہ عمل ايسى صورت ميں بھى جائز ہے جہاں بيوى کو سوکن کے نطفہ کى اس لئے ضرورت ہو کہ اس کا اپنا نطفہ اس قدر ضعيف ہو کہ اگر شوہر کے نطفہ سے پيوند کارى ہوبھى جائے تب بھى بچہ معذور پيدا ہوگا؟
ج: ١۔ مذکورہ عمل شرعى طور پر جائز ہے اور دونوں بيويوں کا دائمي، منقطع اور مختلف ہونے ميں کوئى فرق نہيں ہے۔
٢۔ بچہ صاحب نطفہ سے ملحق کيا جائے گا اور صاحب رحم سے ملحق ہونا مشکل ہے لہذا نسب کے اثرات کے لحاظ سے احتياط کرنا ضرورى ہے۔
٣۔ مذکورہ عمل کا مطلقاً جائز ہونا گزشتہ مسئلہ ميں بيان کيا جاچکا ہے۔
س1271 : کيا مندرجہ ذيل حالات ميں زوجہ اور اس کے مردہ شوہر کے نطفہ ميں پيوند کارى ہوسکتى ہے؟
١۔ وفات کے بعد ليکن عدت سے پہلے؟
٢۔ وفات اور عدت گذرنے کے بعد ؟
٣۔ اگر پہلے شوہر کى وفات کے بعد شادى کرلے تو اس صورت ميں پہلے کے نطفے سے پيوند کارى کرناجائز ہے؟ اور کيا دوسرے شوہر کے مرنے کے بعد پہلے شوہر کے نطفے سے پيوند کارى کى جاسکتى ہے؟
ج: مذکورہ عمل بذات ِ خود جائز ہے اور اس بات ميں کوئى فرق نہيں ہے کہ عدت کا وقت گزر چکا ہو يا باقى ہو شادى کرے يا شادى نہ کرے اور اگر شادى کرے تو دوسرے شوہر کے حال حيات ميں ہونے اور مرنے ميں کوئى فرق نہيں ہے ہاں اگر دوسرا شوہر زندہ ہو تو پيوندکارى کا عمل اس کى اجازت اور اذن سے ہونا چاہيے۔
س 1272: اضافى نطفہکو رحم کے باہر ضائع کرنے کا کيا حکم ہے؟ جنہيں خاص طريقے سے حفظ کيا جاسکتا ہے تاکہ بوقت ضرورت نطفہکو اس عورت کے رحم ميں رکھ ديا جائے جس کا يہ نطفہ ہو؟ جبکہ يہ بھى معلوم ہے کہ ايسے طريقے سے نطفہ کو محفوظ کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔
ج: بذات ِ خود کوئى حرج نہيں ہے۔
|