۱۳۹۶/۱۰/۱۸   0:40  بازدید:1682     نماز جمعہ کی خطبیں ارشیو


17 ربیع الثانی 1439(ھ۔ ق) مطابق با 05 /01/ 2017 کو نماز جمعہ کی خطبیں 

 



حجۃ الاسلام  مولانا موسوی
 
 مولانا صاحب نے سب سے پہلے سب کو تقویٰ الہی  اپنانے کی تلقین کی اور  پھر آپ نے  گذشتہ جمعے میں زیر بحث  موضوع کو اس جمعے میں  جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  تسبحات حضرت زھرا‏ء جو کہ بہت افضل ذکر ہے اسکی شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسول خدا(ص) کو بہت سارے غلام اور لونڈیاں تحفے میں مل گئیں  تو آپ (ص) سب کو آزاد کرنے لگے، جب حضرت زھراء (س) کو پتہ لگا تو بی بی (س) آپکے پاس تشریف لائیں  ، اس وقت  حضرت کی نظر بی بی (س) کے  زخمی ہاتھوں  پرپڑھی کہ جن پرزیادہ کا م کرنے کی وجہ سے چھالےپڑھ چکے تھے۔

 آپ(ص) نے  وجہ پوچھی تو حضرت زہرا‏ء (س) نے ارشاد فرمایا  کہ میں گھر کے سب  کام تنہا کرتی ہوں حضرت علی (ع) بھی باہر کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں  ، اگر ہو سکے  توایک کنیز مجھے دے دیں ۔

آپ (ص) نے فرمایا کہ ہم ان  لوگوں میں سے نہیں ہیں  کہ اپنے کام دوسروں سے  کروائیں ،ہاں میں آپ کو ایک ذکر دیتا  ہو کہ اس کو پڑھتی رہیں  ان شا‏ءاللہ،  اللہ تعالی غیب سے مدد فرمائے گا۔ پھر  پیغمبرِ اسلام ﷺ نے بی بی ؑ کو یہ تسبیحات پڑھنے کی تلقین کی۔

بی بی زہراء(س) فرماتی ہیں کہ  جب سے میں یہ تسبیحات پڑھنے لگی ہوں  میرے تمام کام جلد انجام پاتے ہیں اور میں تھکتی بھی نہیں ہوں ۔

وہ تسبیحات جو نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں اور ان میں پہلا ذکر 34 مرتبہ (اللہ اکبر )ہے اور جوتسبیحات سونے سے پہلے پڑھے جاتی ہیں ان میں پہلا ذکر سبحان اللہ کا ہے۔

تو تب  حضرت زہراء (س) نے اونٹ کی  اون سے یا بکری کی بالوں سے تسبیح بنائی اور اس پر تسبیح پڑھتی  رہیں۔

 ابا ھارون نے حضرت امام  صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ مولا اما م صادق(ع) نے فرمایا: کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کو نماز کی تلقین  کرتے ہیں اسی طرح تسبیح  حضرت ز ہراؑ کی بھی  تلقین کرتے ہیں ۔


      دوسرا خطبہ:  

مولانا صاحب نے سب سے پہلے تقوی اور پرہیزگاری کی وصیت کی اور پھر نماز کی فضیلت کو   اپنا موضوع بحث بنایا : آپ نے فرمایا کہ عبادات میں  سب سے بڑ ا مقام نماز کا ہے۔حضرت امام باقرعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ :اول ما یحاسب بہ العبد الصلو‍ ۃ ، فان قبلت قبلت ما سواھا وان ردت ما سواھا۔

سب سے پہلے نماز کے  بارے میں  انسان کا حساب لیا جائیگا اگر نمازیں قبول ہو گئیں تو باقی اعمال بھی قبول کیے جائینگے اور اگر نماز یں قبول نہیں ہوئیں تو باقی اعمال بھی قبول نہیں کیے جائینگے ۔

ایک صحابی نے  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ  میں ایک مرتبہ  نماز جماعت  سے رہ چکا ہو تو  اب میں کیا کرو ں کہ مجھے اسکا ثواب مل جائے تو آپ (ص) نے کوہ احد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کوہ احد پہاڑ  جتنا سونا اور چاندی بھی راہ خدا میں دے دو توبھی  فوت شدہ نماز جماعت کا ثواب حاصل نہیں کر پاؤ گے۔

نقل ہو چکا ہے کہ جب کسی صحابی سے نماز جماعت چھوٹ جاتی تھی  تو باقی اصحاب تین دن تک اسکو تسلیت عرض کرتے تھے اور اگر  کسی کی نماز جمعہ چھوٹ جاتی تو ایک ہفتے تک باقی اصحاب اسکو تسلیت عرض کرتے تھے ۔

اور نمازایسا عمل ہے کہ جو انسان کو برائیوں  اور  منکرات سے روکتا ہے

اصحاب نے ایک آدمی کے بارے میں شکایت کی کہ فلاں نماز بھی پڑھتا ہے اور لہو لعب اور مجالس گناہ میں بھی شریک ہو تا ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کہ فکر نہ کریں  ایک دن ضرور نماز اسکو برا‏ئیوں سے روک دے گی۔

ایک آدمی  نے امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں  شراب پی تھی،   اور امام (ع) اسی راستے سے گزر رہے  تھے تو اس لئے کہ امام (ع) شراب کی بو محسوس نہ کریں اور امام کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے اس نے اپنا منہ دیوار کی طرف کر لیا تو جب حضرت امام  جعفر صادق(ع) اس آدمی کے پاس پہنچے تو  اس آدمی پر سلام کیا اور پوچھا اے خدا کے بندے کیوں  اپنا منہ دیوار کی طرف کیے کھڑے ہو سنو کبھی بھی ہم سے منہ نہ پھیرو،  خدا بہت کریم ہے ایک دن تمھارے سب گناہوں کو بخش دیگا۔ یہ سن کر وہ بہت شرمندہ ہوگیا اوراس نے  اسی وقت خدا کے در میں توبہ کر لی۔

لہذا کبھی ایسا نہ ہو کہ کسی گناہ کا انجام دینا ہمیں باقی عبادات کی انجام دینے سے روک دے بلکہ جتنا ہو سکے عبادات انجام دیتے رہنا  چاہیے، ایک دن خداوند متعال آپکو آپنا مخلص بندہ بنا ہی لے گا۔

کسی برے عمل کا مرتکب ہونا آپکو نماز پڑھنے سے نہ روکے کیونکہ نماز وہ عمل ہے کہ جو باقی اعمال کا مظہر ہے اور ایک دن آپکو برا‏ئیوں سے  روک کر خدا کا سچا بندہ بنا دے گا۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔