۱۳۹۶/۱۰/۱۳   0:5  بازدید:1355     جدید استفتاآت


امام حسن عسکری علیہ السلام نے عظیم فلسفی اسحاق کندی کے ذہنی خبط کو دور کیا

 


آپ کے علمی کارناموں میں ایک اہم کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر ہے جو” تفسیر امام حسن عسکری“ کے نام سے بہت مشہور ہے ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابناسے اقتباس۔
امام حسن عسکری علیہ السلام جنہیں بالواسطہ اور بلا واسطہ خلفائے عباسیہ کے ظالموں کے دست استبداد سے متاثر ہونا پڑا ۔ کبھی آپ کے والد ماجد کو قید کیا گیا ، کبھی آپ کے گھر کی تلاشی لی گئی ، کبھی آپ کو قید ظلم میں مقید کیاگیا ، کبھی نظر بندی کی زندگی بسر کر نے پر مجبور کیا گیا ۔ غرض کہ آپ کا کوئی لمحہ حیات پر سکون نہیں گزرا۔آپ نے صرف 82 بر س کی عمر پائی تھی ۔ انہیں وجوہات سے آپ کے کمالات علمیہ کا کما حقہ اظہار و انکشاف نہیں ہوسکا۔ مگر آپ دنیا میں اتنے دنوں بقید حیات رہے ہی نہیںکہ آپ کے فضائل و منا قب اور علوم حکم لو گوں پر ظاہر ہوسکیں ۔ مگر ان حالات میں بھی آپ نے اپنے علم لدنی ،اپنے والد محترم سے حا صل کر دہ علم کے سہارے تبحر علمی کے ساتھ بڑے بڑے علمی کارناموں سے لوگوں کو حیران کر دیا ۔ آپ نے مخالفین اسلام اور عظیم لوگوں سے اہم مناظرے کیے اور علم و حکم کے دریا بہائے ہیں ۔ آپ کے علمی کارناموں میں ایک اہم کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر ہے جو” تفسیر امام حسن عسکری“ کے نام سے بہت مشہور ہے ۔ 
 امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تنا قص ثابت کرے ۔ اس نے اس مقصد کے تحت کتاب ”تنا قص القرآن“ لکھنا شروع کیا ۔ جب امام علیہ السلام کو معلوم ہو ا تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کے لیے اپنے ایک شاگر د کو بھیجا اور کہا کہ اس فلسفی اسحاق کندی سے کہنا کہ ” اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو ، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلا ف ہو ۔اس کتاب کو لکھنے سے کیا فائدہ کیو نکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ،ہو سکتا ہے کہ وہ مقصود خداکے خلا ف ہو ایسی صورت میں تمہاری محنت برباد ہوجائے گی ۔ امامؑ کے شاگرد نے جب یہ سوال کیا تو اسحاق کندی تھوڑی دیر تک حیران ہو گیا اور سوال کیا کہ یہ اعتراض کس نے کیا ہے ؟ شا گر د نے کہا میرے شفیق استاد امام حسن عسکری علیہ السلام نے۔ اس بعد اسحاق کندی نے کہاکہ بیشک ایسی باتیں خاندان رسالت ہی سے بر آمد ہو سکتی ہیں ۔ پھر اس نے آگ منگائی اور کتاب کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے آباو ¿ اجداد کی طرح تمام زبانوں سے واقف تھے ۔ آپ ترکی ، رومی وغیرہ وغیرہ ہر زبان میں تکلم کیا کر تے تھے ۔ خدا نے آپ کو ہر زبان سے بہرہ ور فرمایا تھا ۔ آپ علم رجال ، علم انساب ، علم حوادث میں کمال رکھتے تھے ۔ 
امام اہلسنت علامہ جامی رقطراز ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی شخص آیا اور اس نے ایک سنگ پا رہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر لگا دیں ۔ حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی ۔ آپ کا اسم گرامی اسی طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے ۔مجمع بن صلت یہ وہی سنگ پا رہ لایا تھا جس پر اس کے خاندان کی ایک خاتون ام خانم نے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام سے مہر لگوارکھی تھی ۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کا دعویٰ کر تا تھا تو وہ اس کو لے کر اس کے پاس چلی جا تی تھی ۔ اگر اس مدعی نے پتھر پر مہر لگادی تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ امام زمانہ ہیں اور اگر وہ اس عمل سے عاجر رہتا تو وہ اس سے نظر انداز کر دیتی تھی ۔ چونکہ اس نے اسی سنگ پا رہ پر کئی اماموں کی مہر لگوائی تھی ۔ اس لیے اس کا لقب ( صاحبة الحصاة ) ہوگیا تھا ۔ علامہ جامی لکھتے ہیں کہ جب مجمع بن صلت نے مہر لگوائی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم حضرت عسکری علیہ السلام کو پہلے سے پہنچانتے تھے ۔ اس نے کہا نہیں ۔ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کا انتظار کررہا تھاکہ آپ تشریف لائے لیکن میں چونکہ پہچانتا نہیں تھا اس لیے خاموش بیٹھا رہا ۔ اتنے میں ایک نا شنا سی نوجوان میری نظروں کے سامنے آکر کہا کہ یہی حسن بن علی علیہ السلام ہیں ۔ راوی ابو ہا شم بیان کرتا ہے کہ جب وہ جوان آپ کے دربار میں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ کون ہے ؟ دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مہر لگوانے کے لیے وہ سنگ پا رہ لایا ہے،جس پر میرے باپ دادا کی مہریں لگی ہوئی ہیں ۔ الغرض اس نے پیش کیا اور آپ نے مہر لگا دی ۔ وہ شخص ”ذریة بعضھا من بعض“ پڑھتا ہوا چلا گیا ۔ 
تحریر: محمد رضا(ایلیا)
مبارک پور ، اعظم گڑھ ، انڈیا