مقددمہ
ہم ایرانیوں کا یہ افتخار ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی میزبانی کے علاوہ آپ کی خواہر ذی وقار جناب فاطمہ معصومہ کے بھی شہر مقدس قم میں میزبان ہیں ، اور اس کو نعمت اور فیض الہی جانتے ہوئے جب بھی فرصت ہوتی ہے ان کے وجود کے فیض سے استفادہ کرتے ہیں اور بہت آسانی وکم خرچ کے ساتھ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ان دو فرزندوں کی ملکوتی بارگاہ کی زیارت سے مشرف ہوتے اور اپنے دلوں میں معنویت و ایمان کی روح کو تقویت دیتے ہیں۔
اب جب کہ عشرہ کرامت اور حضرت فاطمہ معصومہ کی ولادت باسعادت کے ایام ہیں ، قدردانی اور وظیفہ شناسی کا لحاظ کرتے ہوئے بانودوعالم کی زیارت پر –چاہے زیارت کی جزا و ثواب کے لحاظ سے یا زیارت نامہ کے مطالب و سند کے لحاظ سے – ایک سرسری نظرکرتے ہیں؛لیکن ان سب سے پہلے آپ کی ولادت باسعادت ، نام اور القاب پر روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔
ولادت باسعادت
حضرت امام موسی کاظم (ع) اپنے فرزند ارجمند حضرت امام علی رضا (ع) کی ولادت باسعادت کے بعد کہ جو 148 ہجری میں واقع ہوئی ،پھر اپنی شریک حیات حضرت نجمہ خاتون سے ایک اور فرزند کے منتظر تھے کہ تقریبا 25 سال کے طویل انتظار کے بعد ماہ ذی قعدہ کی پہلی تاریخ 173 ہجری کو جناب نجمہ خاتون کی آغوش میں ایک خوبصورت ستارہ نمودار ہوا کہ جو آپ کے فرزند حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا مونس و ہمدم قرار پایا ۔(1)
خداوندعالم نے اس مبارک دن میں اپنے نیک عبد و بندہ صالح حضرت امام موسی کاظم (ع) کو ایک نورانی صورت و پاک سیرت دختر نیک اختر عطا فرمائی ، کہ جس کا نام فاطمہ رکھا گیا ،لہذا وہ ہم نام حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا بنت رسول اکرم(ص) قرارپائیں۔حضرت امام عالی مقام اور حضرت نجمہ خاتون کے بعد شاید حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے زیادہ کوئی اور خوشحال نہ ہو اس لیے کہ 25 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد یہ آپ کی والدہ ماجدہ سے اکلوتی حقیقی بہن ہے ۔حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کہ جو اپنی ہمشیرہ کی ولادت سے بہت زیادہ خوشحال تھے ،اور اپنی تمام محبتوں و عطوفتوں کو اپنی بہن پر نچھاور کردیا۔
حضرت فاطمہ معصومہ کی ولادت کے بعدان دونوں بہن و بھائیوں میں انتہائی محبت ہوئی اور پھر یہی حیرت انگیز محبت سبب بنی کہ جس کو تحریر کرنے سے قلم عاجز ہے ، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت معصومہ اپنے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں تشریف فرماتھیں کہ ایک نصرانی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کون ہو؟ آپ نے جواب دیا میں معصومہ ہوں حضرت امام علی رضا کی بہن۔ اس طرح سے اپنا تعارف کرانا اپنے بھائی پر افتخار کرنا آپ سے انتہائی محبت کی نشانی ہے ۔
روز ولادت کی لیے پیشکش
کیا ہی بہتر ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خصوصا خاندان عصمت وطہارت کے چاہنے والوں، شیعوں کے درمیان حضرت فاطمہ معصومہ کی ولادت باسعاوت کےروز کو عالمی پیمانہ پر لڑکیوں کا دن(روز دختر) کا نام دیا جائے تاکہ آنحضرت کی شخصیت ، سب کے لیے اور خصوصا لڑکیوں کے لیے واضح وروشن ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان لڑکیا ں آپ کے معنوی مقام و منزلت سے آشنائی اور فضائل سے روشناس ہوکر، نمونہ عمل اور آپ کی حیاء وعفاف سب کے لیے تحفہ قرار پائے۔
ہم اس بات پر خوشحال ہیں کہ یہ مبارک اتفاق اور آرزو ایران میں اس ملک کی لڑکیوں کے لیے واقع ہوا ہے ۔اس لیے کہ کئی سال سے ایران میں اسلامی انقلاب کی ثقافتی کونسل پہلی ذیقعدہ یعنی حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے روز ولادت کو لڑکیوں کا قومی روز کے طور پر منارہی ہے ۔اور اس تاریخ کا "لڑکیوں کا قومی روز" نام رکھدیا ہے ۔ یہ کام اس بات کا سبب بنا کہ ہرسال آپ کی ولادت کے روز ایک عظیم جشن منعقد ہوتا ہے اور اس روز کو محترم و مکرم مانا جاتا ہے ۔
نام
شریعت اسلام میں بچہ کا مناسب نام رکھنا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اسی وجہ سے حضرات معصومین علیہم السلام نہ صرف دوسروں کو اس سلسلے میں توصیہ ونصیحت فرماتے کہ اپنے بچوں کے نام اسلامی ،اچھے اور خوربصورت رکھو بلکہ خود بھی اسی طرح کے ناموں سے استفادہ فرماتے خصوصا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس سلسلے میں بہت زیادہ حساس تھے اور آپ اپنے اور اپنے چاہنے والوں کے بچوں کے نام رکھنے میں بہت دقت و تاکید فرماتے تھے ۔
حضرت امام موسی کاظم نہ صرف دوسروں کو اس سلسلے میں توصیہ ونصیحت فرماتے کہ اپنے بچوں کے نام اسلامی ،اچھے اور خوربصورت رکھو بلکہ خود بھی اسی طرح کے ناموں سے استفادہ فرماتے تھے کہ آپ کی کئی بیٹیوں کا نام گرامی فاطمہ ہونا خود اس بات کی دلیل ہے ۔
علامہ سبط ابن جوزی ساتویں صدی میں اہل سنت کے مشہور و معروف عالم حضرت امام موسی کاظم کی اولاد کو شمار کرتے ہوئے آپ کی چار بیٹیوں کو بنام فاطمہ تحریر کرتے ہیں" فاطمہ کبری" فاطمہ وسطی" فاطمہ صغری" اور فاطمہ اخری"(2)
علامہ مجلسی نے بھی ابن جوزی کی پیروی کرتے ہوئے آپ کی چاربیٹیوں کے نام فاطمہ تحریر کیے ہیں۔(3) یہ بھی قابل عرض ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ کہ جو شہر "قم" میں مدفون ہیں وہی" فاطمہ کبری" ہیں اور "فاطمہ صغری" ملک آذربائجان کے شہر "باکو "میں اور" فاطمہ وسطی" " اصفہان" میں اور "فاطمہ اخری" جو "فاطمہ طاہرہ" کے نام سے معروف ہیں شہر" رشت" میں مدفون ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فاطمہ نام رکھنے کے متعلق ایک روایت میں آپ کی عظمت و منزلت کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا :{انما سمیت فاطمۃ فاطمۃ لانھا فطمت ھی و شیعتھا و ذریتھا من النار} حضرت فاطمہ زہرا کا اسم گرامی فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ آپ کو،آپ کے شیعوں اور آپ کی ذریت کو جہنم کی آگ سے جدا رکھا گیا ہے ۔(4)حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی دختر نیک کا نام بھی فاطمہ رکھنے کی وجہ بھی شاید وہی ہو کہ جودختر رسول اکرم (ص) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے نام کی ہے ۔
القاب
حضرت فاطمہ معصومہ کے متعدد القاب ہیں ،مثلا: معصومہ ،طاہرہ، حمیدہ، محدثہ، عابدہ، رشیدہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، نقیہ، اخت الرضا اور کریمہ اہل البیت وغیرہ ۔(5)
حضرت فاطمہ معصومہ کے بہت القاب آپ کے زیارتنامہ میں مذکور ہیں جیسے طاہرہ(پاکیزہ)، حمیدہ(جس کی طریف کی جائے)، برہ(نیک سیرت) ، رشیدہ(عقلمند وہوشیار)، تقیہ(پرہیزگار)، رضیہ ( خدا سے راضی) ، مرضیہ(خدا کی پسندیدہ) ، صدیقہ(ہمیشہ سچ کہنے والی)، سیدۃ نساء العالمین(عالمین کی عورتوں کی سردار)۔
ان تمام القاب میں سب سے زیادہ معروف و مشہور اور بامعنی لقب معصومہ ہے کہ جو حضرت امام موسی کاظم کی دختر نیک سے مخصوص و منسوب ہے ، آپ اگر چہ ظاہرا معصومین کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں لیکن ان مخصوص خواتین میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے وادی عصمت و طہارت کو طے کیا ہے اور تالی تلو معصوم قرار پائی ہیں ،آپ اپنے ضمیر کی پاکیزگی ، اپنی والدہ گرامی نجمہ خاتون کی عفت اور اپنے والد گرامی و برادر عزیز حضرت امام علی رضا (ع) کے زیرسایہ دین و قرآن کی تعلیم و تربیت پانے کی وجہ سے اور پروردگار عالم کی خالصانہ عبادت و بندگی کی خاطر اس بلند و بالا مقام اورکمال معنوی پر فائز ہوئیں کہ جس کے نتیجے میں ہر طرح کی آلودگی گناہ و معصیت سے پاک ہیں ۔یہی پاکیزگی سبب بنی کہ آپ کے برادر ارجمند حضرت امام علی رضا (ع) نے مناسب سمجھا کہ لقب معصومہ سے آپ کو نوازا ۔امام عالی مقام کہ جو اپنی بہن کے کردار و مقام سے واقف تھے آپ نے فرمایا: "من زار المعصومہ بقم کمن زارنی" جو شخص بھی شہر قم میں فاطمہ معصومہ کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی ہے ۔(6)
حضرت امام علی رضا علیہ السام کے ذریعہ اس لقب کا انتخاب اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت معصومہ ہر طرح کی برائی و گناہوں سے پاک اور معصوم کی حد تک معنوی مقام و مرتبہ پر فائز ہیں گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا کی عصمت و طہارت آپ میں متجلی و نمایاں ہے ۔
آپ کےشخصی فضائل اور خصوصیات
حضرت فاطمہ معصومہ کہ جو اپنے معصوم والد گرامی اور پاک دامن والدہ کی آغوش میں تربیت پائیں اور اپنے برادار بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی تعلیمات سے مستفید ہوئیں بہت زیادہ فضائل و کمالات کی حامل ہیں، وحی و امامت کے گھرانے سے نسبت،مخصوص علمی و عبادی مقام کا حامل ہونا، حق شفاعت رکھنا وغیرہ آپ کے خصوصی فضائل میں سے ہیں۔
حضرت فاطمہ معصومہ کے خصوصی فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی قبر مطہر کی زیارت کا ثواب بہت زیادہ بیان ہوا ہے ۔چودہ معصومین علیہم السلام کی زیارتوں کے بعد آپ کی زیارت کی بھی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اس لیے کہ آنحضرت کے روضہ منورہ کی زیارت انسان کی مایوسانہ زندگی میں ایک امید کی کرن روشن کرتی ہے انسان کو اعتماد نفس عطا کرتی ہے اور انسان کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نجات دیتی ہے ۔ آپ کے مزار کی زیارت باعث ہوتی ہے کہ انسان غرور تکبر سے چھٹکارہ پالے اور آپ کو خداوندعالم کے بارگارہ میں واسطہ قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے آنحضرت کے روضہ کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی اور اس زیارت کا بہت زیادہ اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر کی زیارت کے ثواب کے سلسلے میں اور اس کی کیفیت و مقدار ثواب کے بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں کہ یہاں پر صرف چند روایات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔
1- ان جماعۃ من اھل الری دخلوا علی ابی عبداللہ الصادق وقالوا نحن اھل الری فقال: مرجبا باخواننا من اھل قم، فقالوا نحن من اھل الری فاعاد الکلام قالو ذالک مرارا و اجابھم مثل اجاب بہ اولا، فقال ان للہ حرما وھو مکۃ و ان للرسول حرما وھو المدینۃ وان لامیرالمؤمنین حرما وھو الکوفۃ، وان لنا حرما وھو بلدۃ قم وستدفن فیھا امراۃ من اولادی تسمی فاطمۃ فمن زارھا وجبت لہ الجنۃ؛
شہر ری سے کچھ لوگ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوئے اور کہا کہ ہم شہر ری کے رہنے والے ہیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ، حضرت نے فرمایا : شہر قم سے ہمارے دوستوں کو خوش آمدید،انہوں نے کہا کہ ہم شہر ری سے آئے ہیں امام نے پھر وہی جواب دیا ، ان لوگوں نے دوبارہ اپنی بات کی تکرار کی لیکن اما م کی زبان مبارک پر وہی کلمات آتے رہے ۔پھر کئی مرتبہ کے بعد آپ نے فرمایا:بیشک خداوندعالم کا حرم ہے کہ جو مکہ میں ہے اور رسول خدا کا حرم مدینہ میں ہے امیر المؤمنین کا حرم کوفہ میں ہے ہم اہل بیت کا حرم شہر قم میں ہے عنقریب میری اولاد میں سے ایک بیٹی بنام فاطمہ اس شہر میں دفن ہوگی جو شخص بھی اس شہر میں ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائےگی۔(7)
2- علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اور آیت اللہ بروجردی نے جامع احادیث شیعہ میں ایک حدیث اس مضمون میں نقل فرمائی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ان زیارتھا تعادل الجنۃ؛ حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر کی زیارت جنت کے مساوی و برابر ہے ۔(8)
3- شیخ صدوق نے اپنے والد گرامی اور محمد بن موسی بن متوکل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حدثنا علی بن ابراہیم بن ھاشم عن ابیہ عن سعد قال: سالت ابا الحسن الرضا عن زیارۃ فاطمۃ بنت موسی بن جعفر فقال : من زاھا فلہ الجنۃ ؛ علی بن ابراہیم بن ہاشم نےاپنے والد سے اور انہوں نے سعد سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے حضرت فاطمہ معصومہ کی زیارت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: جو بھی آپ کی زیارت کرے گا اس کی جزاء جنت ہے ۔(9)
4- حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی حضرت فاطمہ معصومہ کی زیارت کے ثواب کی مقدار کے متعلق اس طرح اشارہ فرمایا ہے : من زارالمعصومۃ بقم کمن زارنی ؛ جو شخص بھی شہر قم میں معصومہ کی زیارت کرے وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے میری زیارت کی ہے ۔(10)
5- شیخ صدوق نے اپنے والد محترم سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے بھی اپنی پھوپی فاطمہ معصومہ کی قبر کی زیارت کے متعلق فرمایا : من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ ؛جوشہر قم میں میری پھوپی کی قبر کی زیات کرے اس کے لیے جنت ہے ۔(11)
ماثورہ زیارت نامہ کا حامل ہونا
حضرت فاطمہ معصومہ تمام فرزندان آئمہ طاہرین میں سے ان خاص فرزندوں میں سے ہیں کہ جن کا زیارت نامہ ،ماثورہ ہے ۔ (12)
ایک روایت کہ جو سعد قمی سے نقل ہوئی ہے مذکور ہے کہ ایک روز میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا ،آنحضرت نے مجھ سے معلوم کیا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے شہر میں ایک ہماری قبر بھی ہے ۔ میں نے عرض کی : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا آپ کی مراد حضرت فاطمہ معصومہ بنت موسی کاظم علیہ السلام کی قبر ہے ؟آپ نے فرمایا : جی ہاں؛پھر فرمایا :من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنۃ۔ جو شخص بھی ان کی زیارت کرے اس صورت میں کہ وہ ان کے حق ومقام سے واقف ہوتو اس کی جزا جنت ہے ۔(13)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اس نورانی حدیث شریف میں نہ یہ کہ صرف اپنی خواہر گرامی کی زیارت کے ثواب کو بیان فرمایا ہے بلکہ آداب زیارت اور اس کی کیفیت کو بھی بیان فرمادیا ہے ۔آپ نے فرمایا :فاذا اتیت القبر عند راسھا مستقبل القبلۃ و کبر اربعا و ثلاثین تکبیرۃ، و سبح ثلاثا و ثلاثین تسبیحۃ، و احمد اللہ ثلاثا و ثلاثین تحمیدۃ، ثم قل: السلام علی ۔ ۔ ۔ الی آخر الزیارۃ۔ آپ جب بھی آنخصرت کی قبرمبارک کے قریب جائیں تو آپ کے سرہانے قبلہ رخ کھڑے ہوکر 34 مرتبہ اللہ اکبر ، 33 مرتبہ سبحان اللہ اور 33 مرتبہ الحمد للہ پڑھیں اور پھر زیارت کی تلاوت فرمائیں۔
زیارت نامہ
اَلسَّلامُ عَلی آدَمَ صَفْوَۃِ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلی نوُح نَبِیِّ اللّہ ِ ، اَلسَّلامُ عَلی ا ِبْرہیمَ خَلیل ِ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلی موُسی کَلیم ِاللّہ ِ ، اَلسَّلامُ عَلی عیسی روُح ِ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا خَیْرَ خَلْقَ اللّہ ِ ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا صَفِیَّ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا مُحَمّدَ بْنَ عَبْد ِاللّہ ِ، خاتَمَ النَّبِیّینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا اَمیرَالْمُؤْمِنینَ عَلیَّ بْنَ اَبی طالِب ، وَصِیَّ رَسوُل ِ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یا فاطِمَۃُ سَیِّدَۃَ نِساءِ الْعالَمینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکُما یا سِبْطَیْ نَبِیِّ الرَّحْمَۃ ِ، وَ سَیِّدَیْ شَباب ِ ہل ِ الْجَنَّۃ ِ ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْن ِ، سَیِّدَ الْعابِدینَ وَ قُرَّۃَ عَیْن ِ النّاظِرینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ، باقِرَ الْعِلْم ِ بَعْدَ النَّبِیِّ ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّد الصّاد ِقَ الْبارَّ الْامینَ ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا موُسَی بْنَ جَعْفَر الطّاہرَ الطُّہرَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا عَلِیِّ بْنَ موُ سَی الرِّضَا الْمُرْتَضی، اَالسَّلامُ عَلَیْکَ یا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی التَّقِیَّ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا عَلِیِّ بْنَ مُحَمَّد النَّقِیَّ النّاصِحَ الْأَمینَ، اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا حَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ، اَلسَّلامُ عَلَی الْوَصِیِّ مِنْ بَعْدِہ ِ . اَللّہمَّ صَلِّ عَلی نُورِکَ وَ سِراجِکَ، وَ وَلِیِّ وَلِیِّکَ، وَ وَصِیِّکَ، وَ حُجَّتِکَ عَلی خَلْقِکَ . اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ رَسوُل ِ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ فاطِمَۃَ وَ خَدیجَۃَ ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ اَمیر ِ الْمُؤْمِنینَ ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ الْحَسَن ِ وَ الْحُسَیْن ِ اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ وَلِیِّ اللّہ ِ ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یا اُخْتَ وَلِیِّ اللّہ ِ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یا عَمَّۃَ وَلِیِّ اللّہ ِ ، اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ یابِنْتَ موُسَی بْن ِ جَعْفَر ، وَ رَحْمَۃُ اللّہ ِ وَ بَرَکاتُہُ. اَلسَّلامُ عَلَیْک ِ، عَرَّفَ اللّہُ بَیْنَنا وَ بَیْنَکُمْ فِی الْجَنَّۃ ِ، وَ حَشَرَنا فی زُمْرَتِکُمْ، وَ أَوَرَدْنا حَوْضَ نَبِیِّکُمْ، وَ سَقانا بِکَأْس ِ جَدِّ کُمْ مِنْ یَد ِ عَلِی ِّ بْن ِ اَبی طالِب ، صَلَواتُ اللّہ عَلَیْکُمْ ، أَسْئَلُ اللّہ أَنْ یُر ِیَنا فیکُمُ السُّروُرَ وَ الْفَرَجَ ، وَ أَنْ یَجْمَعَنا وَ إِیّاکُمْ فی زُمْرَۃ ِ جَدِّکُمْ مُحَمَّد، صَلَّی اللّہُ عَلَیْہ ِ وَ آلِہ ِ، وَ أَنْ لا یَسْلُبَنا مَعْر ِ فَتَکُمْ، إِنَّہُ وَلِیِّ قَدیرٌ. أَتَقَرَّبُ إِلَی اللّہ ِ بِحُبِّکُمْ وَ الْبَراۃ ِ مِنْ أَعْدائِکُمْ، وَ التَّسْلیم ِ إِلَی اللّہ ِ ، راضِیاً بِہ ِ غَیْرَ مُنْکِر وَ لا مُسْتَکْبِر وَ عَلی یَقین ِ ما أَتی بِہ ِ مَحَمَّدٌ وَ بِہَ راض، نَطْلُبُ بِذلِکَ وَجْہکَ یا سَیِّدی ، اَللّہمَّ وَ رِضاکَ وَ الدّارَ الْآخِرَۃِ . یا فاطِمَۃُ ا ِشْفَعی لی فِی الْجَنَّۃ ِ ، فَا ِنَّ لَکَ عِنْدَاللّْہ ِ شَأْناً مِنَ الشَّأْن ِ. اَللّْہمّ ا ِنی اَسْئَلُکَ أَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَۃ ِ ، فَلاتَسْلُبْ مِنّی ِ ما أَنَا فیہ ِ،وَ لاحُولَ وَ لا قُوَۃَ إِلا بالّلہ الْعَلِیِّ الْعَظیم ِ . اَللّہمَ اسْتَجِبْ لَنا، وَ تَقَبَّلْہُ بِکَرَمِکَ وَ عِزَّتِکَ ، وَ بِرَحْمَتِکَ وَ عافِیَتَکَ، وَ صَلَّی الّلہُ عَلی مُحَمَّد وَ آلِہ ِ أَجْمَعینَ، وَ سَلَّمَ تَسْلیما یا أَرْحَمَ الرّاحِمین . (14)
ترجمہ
سلام ہو خداکے انتخاب کردہ آدم پر، سلام ہو خدا کے نبی نوح پر ، سلام ہو خدا کے دوست ابراہیم پر ،سلام ہو خدا سے بات کرنے والے موسی پر ، سلام ہو خدا کی روح عیسی پر،سلام ہو آپ پر اے خداوندعالم کی بہترین مخلوق، سلام ہو آپ پراے خدا کے انتخاب شدہ پیغمبر، سلام ہو آپ پر اے محمد ابن عبداللہ سب سے آخری نبی،سلام ہوآپ پر اے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب،رسول خدا کے جانشین، سلام ہو آپ پر اے فاطمہ ، ساری کائنات کی عورتوں کی سردار،سلام ہو آپ پر اے نبی رحمت کے دونوں بیٹوں اور جنت کے جوانوں کے سرداروں،سلام ہو آپ پر اے علی ابن الحسین،عبادت کرنے والوں کے سردار اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک،سلام ہو آپ پر اے محمد ابن علی،نبی کے بعد علم کو پھیلانے والے، سلام ہو آپ پر اے جعفر ابن محمد،صادق ، نیک اور امانتدار، سلام ہو آپ پر اے موسی ابن جعفر،پاک و پاکیزہ، سلام ہو آپ پر اے علی ابن موسی،جس کی مرضی خدا کی مرضی ہے ، سلام ہو آپ پر اے محمدتقی ابن علی ، ،سلام ہو آپ پر اے علی نقی ابن محمد، امانتدار اور نصیحت کرنے والے، سلام ہو آپ پر اے حسن عسکری ابن علی،سلام ہو حسن عسکری کے بعد ان کے جانشین پر ۔
پروردگار! درود و سلام بھیج اپنے نور اور اپنے چراغ اور اپنے دوست کے دوست اور جانشین پر اور اپنی مخلوقات پر حجت پر ۔
سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کی بیٹی،سلام ہو آپ پر اے فاطمہ اور خدیجہ کی بیٹی،سلام ہو آپ پر اے امیرالمؤمنین کی بیٹی،سلام ہو آپ پر اے حسن و حسین کی بیٹی،سلام ہو آپ پر اے خدا کے دوست کی بیٹی،سلام ہو آپ پر اے خدا کے دوست کی بہن، سلام ہو آپ پر اے خدا کے دوست کی پھوپی،سلام ہو آپ پر موسی ابن جعفر کی دختر اورآپ پر خدا کی رحمت اور اس کی برکت ہو۔
سلام ہو آپ پر کہ خدا وندعالم ہم کو جنت میں آپ کی زیارت سے نوازے اور ہمیں آپ کے زمرے میں شمار فرمائے،اور ہم کوآپ کے جد نبی اکرم کی حوض پر پہنچائے اور آپ کے دادا امیرالمؤمنین کے دست مبارک سے سیراب کرائے،آپ سب پر خدا کا درود و سلام ہو ، میں خداوندعالم کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ ہم کو آپ کے ذریعہ کشائش دکھائے اور ہم کو و تم کو آپ کے جد حضرت محمد کے زمرے میں شامل فرمائے ،خدا کا درود و سلام ہو محمد اور ان کی آل پاک پر ، خداوندعالم ہم سے آپ کی معرفت و محبت کو سلب نہ کرلےکہ وہی سب کا سرپرست اور قدرت رکھنے والا ہے ۔
میں آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری کے سبب خداوند عالم سے قربت حاصل کرنا چاہتاہوں ، میں خداوندعالم کے حضورتسلیم ہوں اور اس سے راضی و خوشنود ہوں نہ اس کی مخالفت کرتاہوں اور نہ اس کے سامنے غرور وتکبر کرتاہوں اور میں جو حضرت محمد لے کرآئے ان سب پر یقین رکھتا ہوں اور ان سے راضی ہوں۔
اے میرے پروردگار! ان سب چیزوں کے سبب میں تیری خوشنودی چاہتاہوں ، اے میرے پروردگار !صرف تیری خوشنودی اور آخرت کا گھر۔
اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت کرنا ، اس لیے کہ خداوندعالم کے نزدیک آپ کی بہت منزلت ہے۔
اے میرے پروردگار!میں تجھ سے ملتجی ہوں کہ میرا خاتمہ بالخیر کرنا اور مجھ سے میری ان نیکیوں کو سلب نہ کرنا ۔
خدا کے سوا نہ کوئی طاقت ہے اورنہ کوئی قدرت ،کہ وہ بہت بلند و عظمت والا ہے ۔
اے میرے پروردگار!اس دعا و زیارت کو اپنے کرم و عزت اور رحمت و عافیت کے صدقہ میں قبول فرما،اور محمد وآل محمد پر درود و سلام بھیج،اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
زیارت نامہ پر ایک نگاہ
جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ یہ زیارت نامہ ایک امام معصوم سے منقول و ماثور زیارت نامہ ہے ۔یعنی حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی کے لیے ایجاد فرمایا اور اور ہدیہ کیا ،یہ حضرت معصومہ کی عظمت پر دلیل ہے کہ آپ اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا کے بعد تنہاایسی خاتون ہیں کہ جن کا زیارت نامہ کسی معصوم سے ماثور ہو۔ یہ زیارت نامہ دوسرے زیارت ناموں کے مقابل کچھ خاص نکات و امتیازات کا حامل ہے کہ جن کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:
1- زیارت نامہ کا آغاز انبیاء علیہم السلام جیسے آدم ، نوح، ابراہیم ، موسی و عیسی ابن مریم اور چودہ معصومین علیہم السلام پر سلام کے ذریعہ ہوا ہےیہ سلا م کہ جو انتہائی مودبانہ اور خاضعانہ ہیں بہت ہی مناسب مقدمہ ہیں حضرت معصومہ پر سلام کرنے کے لیے ۔
2- زیارت نامہ میں عام نبیوں پر ایک سلام ذکر ہوا ہے جب کہ ہمارے پیغمبر اکرم پر چار سلام مذکور ہیں ، کہ جو ہر ایک کسی خاص صفت کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں جیسے رسول اللہ ، خیر خلق اللہ ، صفی اللہ اور خاتم النبیین ،کہ جو رسول اکرم کے دوسرے نبیوں پر فضیلت کے بیانگر ہیں ۔
3- ایک اور نکتہ کہ جو بہت زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ دوسرے زیارت ناموں میں صاحب زیارت نامہ کے علاوہ باقی دیگر ہستیوں سلام غایب ہونے کی حیثیت سے بیان ہوا ہے جب کہ اس زیارت نامہ میں پیغمبر اکرم سے امام حسن عسکری تک مخاطب کی حیثیت سے سلام ذکر ہوا ہے گویا یہ اشارہ ہے کہ حضرت معصومہ کا حرم تمام چودہ معصومین علیہم السلام کا آشیانہ ہے یعنی یہ حرم ، حرم رسول بھی ہے اور حرم امیر المؤمنین بھی ، حرم حضرت فاطمہ بھی ہے اور حرم دیگر معصومین بھی،لہذا جو کوئی بھی حضرت فاطمہ معصومہ کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوگویا اس کو حضرت رسول اکرم ، حرم امیر المؤمنین اور تمام معصومین کے حرم کی زیارت کا شرف مل گیا ہے ۔اس واقعیت پر حضرت امام جعفر صادق کی فرمائش پر ایک دلیل ہے کہ آپ نے فرمایا : خداوندعالم کا حرم مکہ معظمہ میں ہے ، رسول اکرم کا حرم مدینہ منورہ میں ہے و امیر المؤمنین کا حرم کوفہ میں ہے اور ہم معصومین کا حرم شہر قم میں ہے ۔(15)
4- مذکورہ نکات سے بھی زیادہ قابل توجہ یہ نکتہ ہے کہ جہاں تمام معصومین پر مخاطب کی حیثیت سے سلام ذکر ہوا وہاں حضرت حجت ابن الحسن امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پر غایب کی حیثیت سے سلام ذکر ہوا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ سلام کی کیفیت میں یہ تبدیلی کسی راز کی طرف اشارہ ہے ،شاید وہ یہ ہو کہ حضرت کی اکثر عمر شریف حالت غیبت میں گذرے گی یعنی اگر چہ زندہ و حاضر ہیں لیکن لوگوں کی نظروں سے غایب ہیں ۔
5- حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اس زیارت نامہ میں ابنیاء اور معصومین علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے کے بعد اپنی خواہر گرامی کی خدمت میں سلام پیش کیا ہے اور آپ کا اس طرح تعارف کرایا کہ آپ کو حضرت امام موسی کاظم کی بیٹی کے ساتھ ساتھ رسول خدا کی بیٹی اور جناب خدیجہ ، حضرت امیر المؤمنین ، حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی بھی بیٹی قرارا دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت معصومہ ان تمام بزرگوں کی خوبیوں اور نیکیوں کی وارث ہیں اور ان تمام اچھائیوں پر عمل پیرا ہوکر اپنا تقدس اور احترام میں اضافہ فرمایا ہے ۔
6- اس سلسلہ کا آخری نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس زیارت نامہ میں اپنی خواہر گرامی کا " بنت ولی اللہ" "اخت ولی اللہ " اور " عمۃ ولی اللہ " کے طور پر تعارف کرایا ہے ،اس تعارف میں یہ نکات اتفاقی امر نہیں ہیں بلکہ اس میں اس عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت معصومہ قم ایسی بیٹی ہیں کہ ولی خدا یعنی حضرت امام موسی کاظم آپ کی عظمت ومقام پر فخر فرماتے ہوئے ارشاد فرمائیں : فداھا ابوھا"۔
اور ایسی بہن ہیں کہ جنہوں نے ولی خدا یعنی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ حق خواہری کو صحیح معنوں میں ادا کیا ہے ،اور آنحضرت اپنی اس خواہر گرامی کے بے نظیر وجود سے خوشحال ہیں ، اس حد تک خود اسی زیارت نامہ میں آپ سے اپنی شفاعت کے لیے متوسل ہیں اور فرماتے ہیں : یا فاطمۃ اشفعی لی فی الجنۃ' اے فاطمہ روزقیامت میرے لیے جنت کی شفاعت فرمانا ۔
اور ایسی پھوپی ہیں کہ آپ پر حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو فخر ہے ۔ آپ اپنے بھتیجے کی نظر میں اسقدر عزت و احترام رکھتی ہیں کہ حضرت امام محمد تقی نے آپ کی قبر کی زیارت کا ثواب یوں بیان فرمایا ہے کہ جو حضرت معصومہ قم کی قبر مطہر کی زیارت سے مشرف ہوگا وہ جنت کا مستحق ہے۔(16)
نتیجہ
تمام ادیان و مذاہب اور اقوام میں اپنے بزرگوں اور مذہبی شخصیتوں کی قبروں کی زیارت رائج و مرسوم ہے ، صدر اسلام کے مسلمان بھی اس سیرت پر عمل پیرا تھے ، یہاں تک کہ خود رسول اکرم (ص)بھی میدان احد میں اپنے چچا حمزہ کی قبر اور ابواء میں اپنی والدہ مکرمہ کی قبر مطہر پر زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور آپ کے اصحاب نے بھی آپ کی سنت کو جاری رکھا اور یہ فعل انجام دیا۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ معصومہ کہ جن کا مزار شہر مقدس قم میں واقع ہے انہی مذہبی شخصیتوں میں سے ایک ہیں، آپ کی قبر مطہر کی زیارت کے لیے بھی بہت تاکید ہوئی ہے اسی وجہ سے آپ کی قبر کی زیارت کے لیے تشویق میں بہت زیادہ روایا ت ہیں جن میں سے پانچ احادیث بیان کی جاچکی ہیں۔اور آپ کے برادربزرگوار حضرت امام علی بن موسی الرضا کی جانب سے آپ کے لیے زیارت نامہ بھی ماثور ہے ، اس زیارت نامہ میں بہت سے علمی و معنوی نکات ہیں کہ جن میں سے چھ نکات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے ۔
منابع ومدارک
(1)- علی نمازی شاہرودی ، مستدرک سفینہ البحار، ج8، ص257۔
(2)- تذکرۃ الخواص، سبط ابن جوزی ، ص 315۔
(3)- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت ، داراحیاء التراث العربی، طبع سوم، 1403ھ، ج48، ص317۔
(4) - ابن جریر طبری، محمد، دلائل الامامۃ ، تہران،موسسہ بعثت،طبع اول،1423ھ، ص148۔
(5)- بارگاہ فاطمہ معصومہ، تجلی گاہ فاطمہ زہرا، آیت اللہ سید جعفر میر عظیمی ، ج2، ص 29-30۔
(6) محمد علی معلم، الفاطمۃ المعصومۃ، ص64۔بنقل از ریاحین الشریعۃ ، ج5، ص35۔ محمد تقی خان سپہر، ناسخ التواریخ، ج3، ص68۔
(7) محمد مھدی حائری، شجرہ طوبی، ج1، ص23۔
(8) محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار، ج57، ص210۔ حسین طباطبائی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ،ج12، ص617۔
(9) شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج1، ص300۔
(10) محمد علی معلم، الفاطمۃ المعصومۃ، ص64۔بنقل از ریاحین الشریعۃ ، ج5، ص35۔ محمد تقی خان سپہر، ناسخ التواریخ، ج3، ص68۔
(11) جعفر ابن محمد قولویہ، کامل الزیارات، ص536۔
(12) ماثورہ زیارت نامہ اس کو کہتے ہیں کہ جو کسی امام معصوم نے کسی صاحب قبر کے لیے تعلیم دیا ہو،یا خود قبر پر جاکر پڑھا ہو ۔
(13) حسین نوری،مستدرک الوسائل،ج10،ص368۔مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج99، ص266؛ بروجردی، حسین، جامع احادیث الشیعہ، ج12، ص617۔
(14) مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج99، ص266-267؛ جواد قیومی، صحیفۃ الرضا، قم، حامعۃ مدرسین، طبع اول، ص 238-240۔
(15) محمد مہدی حائری، شجرہ طوبی، ج1، ص 23۔
(16) ابن قولویہ ، جعفر ابن محمد، کامل الزیارت، ص536۔
کتابنامہ
1.ابن بابویه قمی ،محمد بن علی {شیخ صدوق} ،عیون اخبار الرضا ،تهران ،انتشارات جهان ،1378.
2. ابن جوزی ،تذکرۀالخواص ،نجف،1383ق.
3.ابن قولویه ،جعفر ابن محمد،کامل الزیارات،نجف،1356ش.
4.حائری،محمدمهدی ،شجره طوبی،نجف اشرف،مکتبۀ الحیدریه ،چاپ پنجم ،1385ق.
5.سپهر،محمد تقی خان ،ناسخ التواریخ ،تهران،نشراسلامیه ،1357ش.
6.بروجردی،حسین، جامع احادیث الشیعه ،قم،چاپخانۀ العلمیه،1399ق.
7.طبری،محمد بن جریر ،دلائل الا مامۀ،تهران،مؤسسۀ بعثه،چاپ اول1413ق.
8.قیومی،جوادصحیفۀ الرضا،قم،جامعۀ مدرسین،چاپ اول،1373ش.
9.مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار،بیروت، داراحیاءالترث العربی،چاپ سوم ،1403ق.
10.معلم،محمدعلی ،الفاطمۀ المعصومۀ،بی جا،بی تا.
11.مهدی پو،علی اکبر،کریمۀاهل بیت،قمریالنشرحاذقریال1374ش.
12.میرعظیمی،سید جعفر،بارگاه فاطمه معصومه،تجلی گاه فاطمه زهرا.
13.نمازی،علی،مستدرک سفینۀ البحار،قم،جامعه مدرسین،1419ق.
14.نوری،میرزا حسین،مستدرک الوسایل،بیروت،آل البیت،چاپ دوم ،1408ق.
|