۱۳۹۷/۱۰/۲۵   2:41  بازدید:4388     معصومین(ع) ارشیو


اہمیت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا

 

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اہمیت

تحقیق: عباس علی آخوندی


مقدمہ

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا مرضیہ دختر پیغمبر اکرمﷺ اور حسنین کریمین کی مادر گرامی، تاجدار لا فتی ٰ مرتضیٰ علیہ السلام ٰ مشکل کشاء کی ہمسر گرامی ہے۔آپ تمام جہاں کے خواتین کی سردار ہے۔اللہ تعالٰی نے جو مقام و منزلت آپ کو عنایت فرمائی کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔جب قریش حضور اکرم کو ابتر کہہ کے طعنے دینے لگے تو اللہ تعالٰی نے حضرت محمدﷺ کو کوثر سےنوازا۔ عالم اسلام کے اکثر مفسرین کے نزدیک کوثر سے مراد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی اور آپ کے اولاد طاہرین ہیں۔پیغمبر اکرم نے جو مقام و منزلت آپ کو دی اصحاب پیغمبر نے آپ نے آنکھوں سے دیکھا۔جب بھی پیغمبر ﷺکے بارگاہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لاتی تھیں آپ کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے۔خوش آمد کہتے اور آپ کو آپ نے جگہ پر بیٹھاتے تھے۔حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا بہت زیادہ احترام کرتےاور آپ کو بار ہا ام ابیہاسے یاد فر ماتے تھے۔جب آنحضرت کہیں سفر میں تشریف لے جاتے،یا کسی جنگ میں تشریف لےجاتے تو سب سے آخر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے خدا حافظی کرتے اور جب جنگ یا سفر سے وآپ س تشریف لےآتےتو سب سے پہلے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خیریت دریافت کرنے تشریف لے جاتے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے اس قدر الفت اور محبت کرتےتھے جب آپ ﷺ کی وفات نزددیک ہوئی تو آپ کوآپ نے وفات کے بارے میں خبر دی اورآپ کی احترام و تکریم کے بارے میں اصحاب کو تاکید فرماتے تھے۔

لہذا فضیلت کی اس بحث کو ہم مندرجہ ذیل فصلو ں میں تقسیم کرتے ہیں۔

فصل اول:قبل ازولادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا حادیث کی رو شنی میں پیغمبراسلام نےجناب عایشہ سےفرمایا:  ایے عایشہ جب میں شب معراج آسمان پرگیا تو جبریل مجھےبہشت میں لے گیےاورایک سیب دیا میں نے اسے کھایا اور میرےصلب میں نور و نطفہ بنا اور وہی رحم خدیجہ میں منتقل ہوا جس سے فاطمہ سلام اللہ علیہا پیدا ہوئی۔لذا جب بھی میں مشتاق بھشت ہوتا ہوں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بوسہ لیتا ہوں۔وہ زنان عالم کے لیےحوریہ بھشت ہے۔ ، مفضل بن عمر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ولادت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کو بیان کیا ہے۔حضرت نے فرمایا:جناب خدیجہ نے پیامبر سے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے ان سے قطع رابطہ کردیا ۔کوئی بھی عورت نہ ان کے گھر اتی اور نہ ہی ملاقات کے وقت سلام کرتی بلکہ دوسرے عورتوں کووہاں جانے سے روکتی تھیں،اس حادیثے سے جناب خدیجہ بہت گبھرائی اور انہیں احساس وحشت ہونے لگی البتہ یہ گبڑاہٹ آپ ن جان کی خوف کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ان خطرات کی وجہ سے تھی جو جان پیغمبر کو لاحق ہونےوالی تھیں۔جب فاطمہ سلام اللہ علیہا شکم مادر میں تھیں تو آپ خدیجہ کے لیے مونس تھیں۔ان سے گفتگو کرتی تھیں اور صبر کی تلقین کرتی تھیں۔ اس بات کو خدیجہ نے پیامبر اسلام سے مخفی رکھا ایک روز اچانک رسول اسلام داخل خانہ ہوے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا اور خدیجہ کی گفتگو سنی۔آپ نے خدیجہ سے دریافت کیاتم کس سے محو گفتگو تھیں؟خدیجہ نے عرض کی جو بچہ شکم میرے شکم میں ہیں تنہائی میں وہی میرا مونس ہے۔پیامبر نے فرمایا:خدیجہ مجھ کو جبرایل نے خبر دی ہےکہ یہ بیٹی ہےاور میرا سلسلہ نسب اسی سے ہےخداوند عالم نے اسی کی نسل سے آیمہ طاہرین اور میرے بعد رویے زمین پرخلیفہ مقرر کیا ہے۔

عبد الله بن عباس رضى الله عنه رفعه: لما خلق الله آدم وحوا عليها السلام [ کانا ] يفتخران في الجنة فقالا: ما خلق الله لقا أحسن منا. فبينا (هما) کذلک إذ رأيا صورة جارية لها نور شعشعاني يکاد [ ضوؤه ] يطفئ الابصار، على رأسها تاج وفي أذنيها قرطان. قالا: وما هذه الجارية ؟
قال الله: هذه صورة فاطمة بنت محمد سيد الاولين والآخرين . قالا: وما هذا التاج على رأسها ؟ قال: هذا بعلها علي بن أبي طالب. قال: وما هذان القرطان ؟ قال: الحسن والحسين ابناها أوجدت ذلک قبل أن أخلقک بألفي عام

ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے:اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایاہیں:جب اللہ تعالی نےحضرت آدم و حواء کو خلق فرمایا تو وہ دونوں بہشت میں فخر کرہے تھے انہوں نے کہا کیا ہم سے زیادہ خوبصورت اللہ تعالی نے کسی کو خلق نہیں فرمایا ہے؟دوران گفتوگو انہوں نے ایک لڑکی کی صورت دیکھی کی اس سے نور چمک رہاہےاور اس کی روشنی آنکھوں کو خیراہ کررہی ہےاور اس کے سر پر ایک تاج ہےاور اس کی کانوں میں دو گشوارے ہیں۔پس انہوں نےدرگاہ ایزدی میں درخوست کی اے پالنے والے یہ لڑکی کون ہے؟ارشاد باری ہوا اے آدم حوا یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی صورت ہیں جو سردار اولاد آدم حضرت محمد کی بیٹی ہیں۔
اور انہیں حقایق کی بنا پرعصمت کبری کے تاجدارﷺ نےفرمایا تھا:

عن ] أم سلمة (رضي الله عنها) رفعته: لو لم يخلق علي لما کان لفاطمة کفؤ”حضرت ام سلمہ سے مروی ہے:کہ حضور نےفرمایا:اگرعلی خلق نہ ہوتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کویی ہم کفو نہ ہوتا” اور اسی طرح خلقت سےپہلے جوامتحانات لیےگیے تھےان میں بھی آپ کامیاب ہویی حدیث نبوی میں بیان ہوا ہے:امتحناک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لماامتحنک صابرتا،”خدا نے آپ کی تخلیق سے قبل امتحان لیااور ان تمام حالات میں آپ کو صابرپایا۔

اگر خدا وند عالم نے خلقت سے قبل ان کے نورانی وجود پر آپ نا خاص لطف کیا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا دنیاوی امتحانات میں کامیاب ہونگی۔اور ایک حدیث میں ارشاد فرماتا ہے:یا فاطمہ سلام اللہ علیہا بنت محمد انی لا اغنی عنک من اللہ شیا”اے میرے فاطمہ سلام اللہ علیہا میں خدا کے کیے تم کو کسی چیز سے بی نیاز نہیں کرسکتا ہوں۔آپ توجہ کیجیے جس طرح آپ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو قبل از ولادت مونس تھی اسی طرح بعد از ولادت اہنے والد گرامی کے لیے بھی مونس رہیں۔جب آپ کے ولدہ گرامی اس دنیا سے رحلت کر گی تو اس وقت آپ ایک چھوٹی بچی تھی۔آپ نے آپ نے والد گرامی کہ جنھوں نے اسلام کی عظیم انقلاب کو متعارف کرانا شروع کیا اورتمام سختیاں جھیلیں اس میں آپ آپ نے بابا کے ساتھ رابر کے شریک رہیں ۔اورپرچم توحید کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کی اسی وجہ سے آپ کے بابا نے آپ کو ام ابیھا سے پکارا اور آپ آپ نے نھنے نھنے ہاتھوں سے رسول اکرم کے چہرے مبارک پر پڑےہوے غم و اندوہ کے غبار کو صاف کیا اور آپ نے والد کی تسلی کا سبب بنی۔ رسول اکرم جب بھی تبلیغ دین اور پیام حق پہنچانے کے سبب آزار و مشقت اور مشکلات کا سامنا کرتے تھے اور مشرکین مکہ کی رویے سے غمگین اور دل بر داشتہ ہو کےیا بازار تایب سے زخمی ہو کرگھر تشریف لاتے تھے تو یہی حضرت تھی جو رسول اکرم کے زخموں پر آپ نے ہاتھوں سے مرحم رکھتی تھیں اور رسول اکرم کو تسلی دیتی تھیں۔

فصل دوم:اسماےحضرت زہرا سلام اللہ علیہا

آپ کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آپ لے القابات بہت سارے ذکر ہوئے ہیں۔جن میں سے معروف القابات بتول،زہرا سلام اللہ علیہا ،صدیقہ،طاہرہ،راضیہ اور مرضیہ ہیں

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نام کے بارے میں پیامبر اکرم ارشاد فرماتے ہیں: وعن علی عليه السلام قال قال رسول اللہ: إنما سميت ابنتي فاطمة لان الله تعالى فطمها وفطم محبيها من النار.

اور حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرما یا ہے کہ بلا شبہ میری بیٹی کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا رکھا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو اور اس کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے بچایے رکھا ہے۔ مودت 11ح3، اور فاطمہ سلام اللہ علیہا فطم کے مصدر سے اور فطم عربی لغت میں کٹنے قطع کرنے اور جدا ہو نے کے معنوں میں ایا ہے ۔

بتول رکھنے کا وجہ تسمیہ کوبیان کرتے ہوے رسول اکرم فرماتے ہیں:

عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: وإنما سميت فاطمة البتول لانها تبتلت من الحيض والنفاس لان ذلک عيب في بنات الانبياء. أو قال: نقصان”
اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نام بتول اس سبب سے ہے کہ وہ خون حیض و نفاس سے پاک ہے کیونکہ یہ انبیا کی بیٹیوں کےلیے عیب ہے۔

انہی القابات مین سے زہرا سلام اللہ علیہا زیادہ مشہور ہے۔یہ لقب کبھی کبھی ان کے نام کے ساتھ اتا ہے یعنی فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا یا عرف عام میں ان کے نام کے بجایے بیشتر زہرا سلام اللہ علیہا کا لفظ استعمال ہو تا ہے۔لغت کے اعتبار سے زہرا سلام اللہ علیہا کا لفظ درخشندہ،روشن،اور اس کے مترادف معنوں کے حامل ہے۔یہ لقب ہر لحاظ سے اس بانو کے شایان شان ہے۔ وہ مسلمان خاتون کا درخشندہ چہرہ معریفت کی تابندہ روشنی،پرہیزگاری اور خدا پرستی کا روشن نمونہ ہے۔

فصل سوم:احترام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

اس فصل میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سلام اللہ علیہا کے احترام کے بارے مین کچھ احادیث نقل کرتے ہیں:حضرت عایشہ کہتی ہے: کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھیں تو آن حضرت سرو قت کھڑے ہو جاتے تھے مرحبا کہتے اور آپ کو چومتے اور آپ نے پاس بیٹھا لیا کرتے تھے۔

اور دوسری حدیث میں ایا ہے:

وعن عائشة [ رضي الله عنها ] قالت: کان النبي صلى الله عليه وآله وسلم إذا قدم من سفر قبل نحر فاطمة وقال: منها أشم رائحة الجنة”
اور عایشہ سے روایت ہے:رسول اللہ جب کسی سفر سے وآپ س اتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا حلقوم چومتے تھے اور فر ما تے تھے میں اس سے بھشت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔ ایک اور حدیث میں احترام زہرا سلام اللہ علیہا کو یوں فر ماتے ہیں:
[ وعن ] علي [ المرتضى عليه السلام ] رفعه: إذا کان يوم القيامة نادى مناد من وراء الحجب: غضوا أبصارکم حتى تجوز فاطمة بنت محمد على الصراط۔
اور حضرت علی سے روایت ہے:کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےارشاد فر مایا ہے کہ جب قیامت کی گھڑی آیے گی تو ایک ہاتف غیبی پس پر دہ ندا دےگا اے لوگو آپ نی نگاہوں کو بند کر لو تا کہ محمد کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا صراط سے گذر جایے۔
رسول کی ایک اوع معروف حدیث جس سے عظمت زہرا سلام اللہ علیہا اور فضایل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا وضح ہو جا تی ہے حدیث یہ ہے:
وعن زيد بن علي عن أنس قال: کان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يأتي ستة أشهر باب فاطمة عند صلاة الفجر فيقول: الصلاة، الصلاة يا أهل بيت النبوة – ثلاث مرات – (إنما يريد الله ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهرکم تطهيرا).ويروى هذا الخبر باسانيده عن ثلاثمائة من أصحابه. منهم من قال: ثمانية أشهر، ومنهم من قال: عشرة أشهر۔

حضرت زید ابن علی حضرت انس سے روا یت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صبح کی نماز کے وقت 6ماہ تک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کےدروازے پر تشعیف لاتے رہے اور تین مرتبہ فرماتے تھے:الصلاات،الصلات، الصلات یا اہلیبت النبوہ”بلا شبہ اللہ تعالا چاہتا ہے تم سے نآپ اکی کو دور کرے اور تمہیں پاک کرے جس طرح پاک کر نے کا حق ہے۔اور اس حدیث کو تین سو صحابہ نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے ان میں سے بعض نے 8 مہینےبعض نے9مہینے اور بعض نے10 مہینے ذکر کیا ہے۔یہ حدیث آیہ تطہیر کی شان نزول کوبیان کررہا ہیں اور خود آیت بھی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔اور اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے: جس کسی نے زہرا سلام اللہ علیہا کو تکلیف دی اس نے نجحے تکلیف دیا ہے۔اور آپ نے فر مایا زہرا سلام اللہ علیہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے:

عن عائشة (رضي الله عنها) رفعته: فاطمة بضعة مني، فمن آذاها فقد آذاني (عایشہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا میرا ہی ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی ہے)۔

اگر آپ اہلسنت محدیثن کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضایل کے بارے میں پیامبر اسلام سے بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں۔یا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے آنحضرت کی کردار و سلوک کو بیان کیا گیا ہے یا آزواج نبی یا دیگر شخصیات کی زبانی تعریف کی گیی ہیں۔حضرت عایشہ سے یہ معروف حدیث نقل ہویی ہے”میں نے پیغمبر کی شکل و شمایل ظاہری قیافہ درخشندگی،اور حرکات و رفتار کی لحاظ سے کس ایک کو بہی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ شباہت رکھنے والا نہیں پایا۔ ایک اور جگہ ارشاد فر ما تا ہے۔: کانت اذا دخلت علی رسول اللہ قام الیھا۔

جب بہی فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا رسو ل اللہ کے پاس تشریف لاتی تو آپ ان کے استقبال میں کھڑے ہو جاتے اور مشتقانہ انداز میں ان کی طرف بڑہ کر ان کا استقبال کرتے۔ایضا۔۔۔

قام الیہا کا معنی یہ ہے کہ آپ صرف استقبال کے لیے کھٰڑے نہین ہوتے بلکہ چند قدم چل کر اگے بڑہ جاتے اور زہرا سلام اللہ علیہا کو بوسہ دیتے اور بڑے حترام سے آپ نے جگے پر بیٹھاتے۔کان یقبلہا و یجلیسہا مجلسہ۔ اورجو علماے اہلسنت نے آپ نی سند کے ساتھ جیسے حاکم نیسابوری نےآپ نی کتاب میں لکھا گیا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ:

یا فاطمہ سلام اللہ علیہا ان اللہ یغضب لغضبک و یرضی لرضک ۔اے فاطمہ سلام اللہ علیہا خدا وند عالم خشمگین ہوتاہے جس پر آپ ناراض ہوتی ہے۔اور جس پر آپ راضی ہو جایےخدا بھی اس سے راضی ہوجاتاہے۔

اور دوسری حدیث جو اہلسنت کے علماء احمد بن حنبل نے آپ نی مستند مین اور ترمذی نے آپ نی کتاب میں نقل کی ہیں:پیامبر اکرم فرماتے ہیں:ان فاطمتہ بضعۃ منی یوذینی ما آذہا و یغضبنی ما ابغضہا۔ بیشک فاطمہ سلام اللہ علیہا میرا ٹکڑا ہے جو اس کو آذیت دے اس نے مجھے آذیت دی ہے اور جو اس کو ناراض کرے اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔لہذا جن حضرات سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہے ان سے رسول دو عالم بھی ناراض ہے۔اور جن سے بی بی خوش ہیں ان سے خدا اور رسول بھی خوش ہیں۔

ایک اور حدیث میں امیر المومنین سے مروی ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کو خطاب کرتے ہوے فر مایا خدا وند تمہارے غضب کے سسبب غضب میں آتا ہے اور تمہارے خوشی سے خوش ہو تا ہے۔یعنی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا نے خدا کی عبودیت اور بندگی میں اس مقام کو حاصل کیا ہے کہ صرف خدا کے لیے غصہ و ناراض ہو تی ہے اور صرف خدا کے لیےراضی و کوش ہو تی ہے۔ اور ان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کی بنیاد پر ہے۔رسول اکرم نےمتعدد مقامات پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کی حقیقی مقام و منزلت کی چرف اشارہ کیا ہےاور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کی شوہر حضرت علی اور آپ کے فرزند امام حسن و امام حسین سے خطاب کرتے ہوے فرماتے ہیں جو شخص بھی تم سے دشمنی رکھتا ہے میں بھی اس سے دشمن رکھتا ہوں ۔اور جو بحی تم سے محبت و دوستی رکھتا ہے میں بھی اسے محبت و دوستی رکھتا ہوں۔اور پیغبر خدا نے فرمایا:فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا میرے قلب کی فرحد و خوشی ہے اور اس کی فرزند میوہ قلب ہےاور اس کا شوہر میری آنکھوں کا نور ہیں اور آیمہ طاہرین جو کہ ان کی نسل سے ہیں خدا کے امین ہیں اور خالق و مخلوق کی درمیان وہ رسیمان ہےجو انسان کو خدا سے جوڑتی ہے۔جو بھی ان سے متمسک رہیگا نجات پایےگا اور جو بھی ان سے دوری اختیار کرےگاوہ گمراہ ہو جایےگا۔اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو معرفی کرتے ہوےفرماتے ہیں اگرتمام طرح کی نیکیوں اور حسن و جمال کو کسی ایک پیکر میں دیکھا جایے تو یقینا ووہ صرف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود مطہر ہیں۔جس میں دونوں چیزیں بطور اتم موجود ہیں ۔میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا لوگوں میں کرامت و شرافت کی اعتبار سے سب سے بہتر ہیں۔پیغبرخدا کی یہ حدیث حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کے بیشمار کمالات کو بیان کررہی ہے۔یعنی حجرت زہرا سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا میں ہر طرح کی نیکی و خوبی و توضع و خوش خلقی کےتمام صفات پایی جاتی ہیں۔

ڈاکٹرطاہر القادریی نے اپنی کتاب غایۃ العجابہ فی مناقب القرابۃ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت بیان کرتے ہوے لکھتا ہے:عن عایشہ ام المومنین قالت کان رسول اللہ اذا راہا قد اقبلت رحبا بہا ثم قام الیہا فقبلہا ثم اخذ بیدیہا فجا بیہا حتی یجلیسہا فی مکانہ و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”ام المومنین حاضرر عایشہ بیان کرتی ہے کہ حضور نبی اکرم جب جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اتے دیکھتے تو انہیں خوش آمدید کہتے پھر ان کے خاطر کھڑے ہو جا تے انہیں بوسہ دیتے ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اور انہیں آپ نی نشست پر بیٹھا لیتے اور جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ کو آپ نی طرف تشریف لاتے ہوے دیکھتی تو خوش آمدید کہتی کھڑی ہو جا تی اور آپ کو بوسہ دیتی اس حدیث کو نسائی نے بھی آپ نی کتاب میں نقل کی ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت علی ابن ابی طالب سے نقل کی ہے:عن علی ابن ابی طالب،قال :قال رسول اللہ ازا کان یوم القیامۃ حملت علی البراق و حملت فاطمہ سلام اللہ علیہا علی ناقۃ عذابایہ”حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت کے دن مجھے براق پر اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کو میری سواری عذبا پر بیٹھایا جایگا ہے۔ حضرت علی سے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:عن علی علیہ السلام قال:قال رسول اللہ انہ تحشر ابنتی فاطمہ سلام اللہ علیہا یوم القیامۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:میری بیٹی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا قیامت کے دناس طرح اٹھے گی کہ اس پر عزت کا جوڑا ہوگا جیسے آب حیات سے دھویا گیا ہے۔ساری مخلوق اسے دیکھ کر حیران رہ جایگی اسے جنت کا لباس پہنایا جایگا جس کا رحلہ ہزار رحلوں پر مشتمل ہوگا ہر ایک پر سبز خط سے لیکھا ہوگا محمد کی بیٹی کو احسن صورت اکمل حیبت اور تمام تر کرامات اور بی پناہ عزت و احترام سے جنت کی طرف لایا جایگا۔اس حدیث کو محب الدین طبری نے ذخایر العقبا فی مناقب ذوی القربی میں نقل کیا ہے۔

ہر وہ چیز جو دین اسلام کی کمال کوحاصل کرنے کے لیے ضروری ہے آپ میں موجود ہیں۔اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پارہ جسم کا ہونا اس سلسلےمیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت زیادہ روایتیں نقل ہوئی ہیں جو اس مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خد کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جس نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو آذیت پحنچائی رسول کو اذیت پہنچائِ ہےاور جس نے فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا کو خوشحال کیا اس نے رسول کو خوش کیا ہے۔ یہ تمام حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کس حد تک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا سے قلبی و عاطفی لگاو تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا زہرا سلام اللہ علیہا خداوند متعال کی وہ فرمانبردار کنیز ہے جو خدا اور رسول کی اچاعت گذاری میں اس قدر مستحکم و خالص ہیں کہ ایک قدم بھی حق کے راستے سے دور نہیں ہیں۔اچاعت و پیروی کےاس درجے پر فایز تھی کی اسی لیے ان کی خوشنودی اور رضا رسول کی رضا کی برابر ہے اور ان کی غضب رسول کی غضب کے برابرہے۔رسول اکرم نےحضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ان کرامات کو بیان کر کے لوگوں پر عظمت زہرا سلام اللہ علیہا کو ظاہرفرمایا۔اور عظمت جناب سیدہ کے بارے میں ایک اور روایت میں بیان فرماتے ہیں:عن عبد اللہ ابن مسعود قال:قال رسولاللہ لعلی:یا علی ان اللہ عزوجل زوجک فاطمہ سلام اللہ علیہا و جعل صداقہا الارض فمن مشاعلیہا مبغضا لک مشا حراما: عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی سے فر مایا:اے علی بیشک اللہ تعالی نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تیری ذوجیت میں دےدیا روےزمین کو اس کا مہر قرار دیا بس جو شخص تم سے بغض رکھنے کی حالت میں اس زمین پر چلا اس کا چلنا حرام ہے۔

نتیجہ
مندرجہ بالا مطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمات گہر بار میں سے چند فرمان بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے ۔ ورنہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین آپ کی بارے میں بہت ہی زیادہ ہیں جس کے لئے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب کی ضرورت ہے ۔کیوں نہ ہو کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہ صرف خدا کی نعمت ایک بیٹی تھیں بلکہ آپ کے نور نظر ،دل کا سکون ، مصائب میں اور مشکلات میں حوصلہ دینے والی اور نسل کو قیامت تک جاری رکھنے والی ہستی کے ساتھ خدا وند عالم کے حضور میں ایک زاہدہ ، عابدہ ،زکیہ ،طاہرہ ، راضیہ ، مرضیہ ، محدثہ ، حوریہ اور عالمہ غیر معلمہ تھیں۔
اور جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی فضائل و مناقب کے حوالے سے محبان زہر ا نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں دنیا کے مختلف زبانوں میں لکھے ہیں ۔آپ سلام اللہ علیہا کی فضائل کے مختلف پہلو مثلاً عظمت ، عصمت ،شوہر داری ،امور تربیت ، پردہ داری ،علم و کمالات جیسے اہم موضوعات پر عالم اسلام کے مفسرین ،محققین ، محدثین ،مورخین اور مئولفین نے قلم آزمائی کیے ہیں ۔
آپ کی فضیلت اور اہمیت کے لئے یہی کافی ہیں کہ آپ خاتم الانیبا،رحمۃ للعالمین ،فخر کائنات نبی کی بیٹی ، فاتح بدر حنین ،مولائے کل کائنات ،یعسوب الدین ، انزاع البطین اور خیر البشر جناب امیر المومنین علی علیہ السلام کی زوجہ حیات اور سرداران جوانان جنت پیکر صلح وصفا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام و خامس آل عبا ء ،شہید کرب وبلا امام حسین علیہ السلام اور ان کے نسل مبارک سے دنیا میں تشریف لانے والے پاک و پاکیزہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے مادر گرامی ہیں۔

لہذا کائنات عالم کے اس عظیم المرتبت خاتون کی فضائل بیان کرنا مجھ جیسا حقیر کی بس کی بات نہیں تا ہم روز قیامت ان کے غلاموں کے صف میں جگہ پانے کی امید سے اپنے کم علمی کا اقرار کرتے ہوئے چند احادیث اور مطالب صفحہ قر طاس پر لانے کی کوشش کیا ہے ۔ خلاصے کے طور پر بس ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضائل بیان کرنے کے لئے زبان نبوی،قلب مصطفوی ،لسان محمدی ،محبت حیدری ، عشق حسنی اور شوق حسینی کی ضرورت ہے ۔
میری دعا ہے کہ پروردگار انہی عظیم ہستیوں کے صدقے ہمیں دنیا میں ان کے محبت دل میں رکھ کر ان کی سیرت کو اپنے مشعل راہ بنانے اور قیامت کے دن انہی ہستیوں کے غلاموں کے زمرے میں محشور ہونے کی توفیق عطا فرما۔آمین ۔


منابع
المستدرک علی ٰ الصحیحین ،حاکم نیشا پوری ،دار المعرفت بیروت

مودت القربی ٰ،میر سید علی ہمدانی ،ترجمہ :آخوند تقی حسینی ،جامعہ باب العلم سکردو

غایۃ العجابہ فی مناقب القرابۃ، ڈاکٹر طاہر القادری ، منہا ج القرآن پبلی کیشنر لاہور پاکستان

سبعین فی فضایل امیر المومنین ،میر سید علی ہمدانی ، ترجمہ:اعجاز حسین غریبی ، جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی پاکستان

فراید السبطین ،

کتاب فاطمہ ، علامہ آمینی

فاطمہ اسلام کی مثالی خاتون ،

فاطمہ زہرااسلام کی مثالی خاتون

سیرہ فاطمہ زہرا ،

مسند احمد بن حنبل ،امام احمد ابن حنبل

۔ذخایر العقبا فی مناقب ذوی القربی ،