۱۳۹۶/۳/۷   2:57  بازدید:2197     معصومین(ع) ارشیو


حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 


حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم وتربیت کے پہلے کامل نمونہ تھے ۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی ،اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رہے اورآپۖ کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رہے ۔جب آخری بارآپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوئے ،یہ وہ لمحہ تھا جب آپ نے آنحضرتۖ کے جسد مطہر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ہیں ۔دعوی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ہوئی ہے ،اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نہیں ہوئی ہے ۔شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ہیں ۔آپ کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقیق اور کھوج کے باوجود آپ کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانہیں کر سکے یاآپ کی شجاعت،عفت،معرفت،عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نہیں نکال سکے ،کیونکہ آپ ایک ایسے شخص تھے ،جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نہیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام ایسے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرتۖ کی روش سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا ،جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نافذ ہوئے تھے ۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلیفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی ، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی کو خلافت کی پیشکش کی گئی ،لیکن اس شرط پرکہ ''لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں''حضرت علی نے ان شرائط کوٹھکراتے ہوئے فرمایا:''میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھوں گا۔''

اس کے بعدوہی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں ،انہوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی ،اگر چہ خلافت ہاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا ۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں،فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاہرہ کیا ہے ان میں آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے ۔اس حقیقت سے ہرگزانکار نہیں کیاجاسکتا ،کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ہوتا ،توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو،اس کے بعد بدرواحد،خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دیتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا ،اسی لمحہ سے انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں ،آپۖ کی رحلت کے بعد ، یہاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے ،خوراک ،لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں تھا اور آپ فرماتے تھے ۔

''ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔''(١)

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے ،درخت لگا تے تھے اور نہر کھو دتے تھے ،لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنیمت حاصل کرتے تھے ،اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد یتے تھے ۔جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے ۔اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ کے اوقاف کی آمدنی کو پہلے آپ کے پاس لایا جائے پھرخرچ کیا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ٢٤ ہزاردینار تھے ۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ہو ۔آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے :

''اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آ جائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نہیں کھا ئوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔''

علی علیہ السلام ایسی شجاعت وبہادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بہادروں کی تاریخ آپ کی مثال پیش نہ کرسکی ،اس کے باوجود آپ انتہائی مہر بان،ہمدرد،جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں ،بچوںاور کمزوروں کو قتل نہیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نہیں بناتے تھے بھاگنے والوں کا پیچھا نہیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نہرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ کے لشکر پر پانی بند کر دیا ،حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنہر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا،اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں ۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ہر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنہااورپیدل راستہ چلتے تھے ،.گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصیحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے ،بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مہر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے ۔یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے ،ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اہمیت دیتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دیتے تھے ،اور فرماتے تھے:

''نادانی کے مانند کوئی درد نہیں ہے''(2)

جمل کی خونین جنگ میں آپ اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے ،ایک عرب نے سامنے آ کر''توحید''کے معنی پوچھے۔لوگ ہر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کہاگیا ایسے سوالات کا یہی وقت ہے؟!حضرت نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا :

''ہم لوگوں سے ان ہی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں ''(3)

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا ،اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ہوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ہیں ۔جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ہے کہ ،جب دو لشکر دو تلاطم دریائوں کے مانند آپس میں لڑرہے تھے اور ہر طرف خون کادریا بہہ رہاتھا۔ توحضرت اپنے ایک سپاہی کے پاس پہنچے،اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاہی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا ،حضرت نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاہدہ کیا اور فرمایا :''ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ہے۔''

سپاہی نے عرض کی :اس حالت میں کہ جب ہم ہزاروںتیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ہیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نہیں ہے !

اس سپاہی کو آپ نے جوجواب دیا،اس کا خلاصہ یہ ہے:''ہم ان ہی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رہے ہیں اور احکام چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ہیں''

اس کے بعد حضرت نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر سامنے کیا اورسپاہی نے پیالہ میں بھرا پانی آپ کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے بعدایسے پہلے شخص ہیں کہ جنہون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر ،یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلاحیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قرأت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ائد ''علم نحو'' وضع کئے اور ان کو مرتب کیا ۔

آپ کی تقریروں ،خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ،معارف الہی،علمی،اخلاقی ،سیاسی یہاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ہے ، یقینا وہ حیرت انگیزہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

١۔نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ٢٠٠،ص٦٦٣۔

2۔شرح غرر الحکم ،ج٢،ص٣٧٧،ح٢٨٨٢۔ 

3۔ بحارالانوار،ج٣،ص٢٠٧ ،ح١۔

ماخوذ از کتاب "دینی تعلیم " علامہ طباطبائی،مرتبہ: سید مہدی آیت اللہی ۔مترجم،سید قلبی حسین