۱۳۹۶/۳/۷   2:51  بازدید:5186     معصومین(ع) ارشیو


حضرت على (ع) کى زندگى کے حالات

 


 
(پہلا حصہ)

ائمہ طاہرين اور ان کى تعداد
پيغمبر اکرم(ص) کى رحلت کے بعد ، آپ(ص) کے جانشينوں اور لوگوں کے دين و دنيا کے پيشواؤں کى تعداد بارہ ہے اور اس سلسلہ ميں عامہ اور خاصہ دونوں ہى نے پيغمبر اکرم (ص) سے بہت سى روايتيں نقل کى ہيں يہاں تک کہ ان ميں سے بہت سى روايتوں ميں ائمہ معصومين (ع) کے ناموں کى صراحت بھى موجود ہے(1)_
ان حضرات کى تعداد اور ناموں پر رسول اکرم (ص) کى نص کے علاوہ ہر امام (ع) نے خدا کے حکم سے اپنے بعد والے امام (ع) کا تعارف بھى کراياہے_ جيسا کہ پہلے امام حضرت امير المؤمنين نے شہادت کے وقت اپنے بيٹے امام حسن (ع) کے نام کى تصريح فرمادى تھى اور امام حسن (ع) نے بھى اپنى وفات کے وقت اپنے بھائي امام حسين(ع) کے عہدہ امامت کا اعلان کرديا تھا نيزيہى عمل تمام ائمہ معصومين (ع) نے انجام ديا_
ائمہ معصومين کے نام:
1 _ حضرت امير المؤمنين على بن ابيطالب (ع)
2 _ حضرت امام حسن مجتبى (ع)
3 _ حضرت امام حسين (ع)
4 _ حضرت امام سجاد (ع)

10
5 _ حضرت امام محمد باقر (ع)
6 _ حضرت امام جعفر صادق (ع)
7 _ حضرت امام موسى کاظم (ع)
8 _ حضرت اما م رضا (ع)
9_ حضرت امام محمد تقى (ع)
10_ (ع) حضرت امام على النقى (ع)
11 _ حضرت امام حسن العسکرى (ع)
12 _ حضرت امام مہدى (حجة بن الحسن) (ع)
ائمہ معصومين کى سيرت
ہمارے بارہ امام پيغمبر(ص) اکرم کى تعليم و تربيت کا کامل نمونہ تھے، ان حضرات کى سيرت ، رسول(ص) خدا کى سيرت تھى _
البتہ دو سو پچاس سال کى مدت (يعنى 11 ھ ق سے ليکر 260 ھ ق ) تک جب يہ معصومين(ع) حضرات لوگوں کے درميان موجود تھے اس زمانہ ميں مختلف حالات پيش آتے رہے کہ جن ميں ائمہ معصومين (ع) کى زندگى مختلف شکلوں ميں جلوہ گر ہوتى رہى ليکن پھر بھى انہوں نے پيغمبر (ص) اکرم کے اصلى مقصد يعنى اسلام کى نشر و اشاعت اور اصول و فروع کو تغيير و تبديلى اور تحريف سے محفوظ رکھنے نيز ممکنہ حد تک لوگوں کى تعليم و تربيت تا سلسلہ ميںکسى قسم کا دريغ نہيں کيا_
پيغمبر اکرم(ص) اپنے 23 سالہ تبليغى دور ميں زندگى کے تين مرحلوں سے گزرے ہيں ، چنانچہ بعثت کے شروع کے تين سال آپ نے پوشيدہ طور پرتبليغ کرنے ميں گزارے، اس کے بعد دس سال تک مسلسل مکہ ميں على الاعلان لوگوں کو دعوت اسلام ديتے رہے جس ميں آپ(ص) اور آپ(ص) کے

11
پيروکار دونوں ہى دشمنان اسلام کى طرف سے ڈھائے جانے والے سخت مظالم اور آزار کا شکار رہے ، اس دور ميں آپ (ص) کودين اسلام کى تبليغ کے لئے کسى طرح کى آزادى حاصل نہيں تھى _ پھر آخر کے دس سال اس حالت ميں گزرے کہ حکومت اسلامى کى بنياد رکھى گئي اور اسلام نے اپنى فاتحانہ ترقى اور پيش قدمى کو جارى رکھا اور ہر لحظہ مسلمانوں پر کمال و دانش کے دروازے کھلتے رہے_
ائمہ معصومين گوناگوں حالات سے دوچار تھے_ ان کے زمانے کى صورت حال، پيغمبراکرم (ص) کے ہجرت کے پہلے والے زمانہ کے ساتھ بہت زيادہ مشابہت رکھتى تھى کبھى توبعثت کے پہلے تين سالوں کى طرح ، کسى صورت سے بھى اظہار حق ممکن نہ تھا اسى وجہ سے يہ حضرات بھى نہايت احتياط کے ساتھ اپنے فرائض پر عمل کرتے رہے ہيں جيسا کہ چوتھے امام حضرت زين العابدين (ع) نے يہى کيا_
اور کبھى ہجرت سے دس سال پہلے کى طرح صرف نشر احکام اور معارف دين کى تعليم ديتے اور افراد کى تربيت کرتے تھے ادھر حکاّم بھى ايذا رسانى سے باز نہيں آتے تھے اور ہر روز ايک نئي مشکل پيدا کرديتے تھے_
پيغمبراکرم (ص) کى ہجرت کے بعد کے حالات سے کسى حد تک حضرت امام على (ع) کے پانچ سالہ دور حکومت کے حالات اور حضرت امام حسن (ع) کى زندگى کے تھوڑے دنوں کے حالات کے مشابہ تھے_ نيز اسى طرح کى صورت حال حضرت امام حسين (ع) کى زندگى ميں بھى پيش آئي،جس ميں حق مکمل طور پر جلوہ گر ہوا اور اس نے شفاف آئينہ کى طرح پيغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے عمومى حالات کو پيش کيا_
اس زمانہ کے علاوہ کہ جس کى طرف اشارہ کيا گيا ہے اور کسى بھى زمانہ ميں ائمہ معصومين نے آشکارہ طور پروقت کے حکمرانوںکى مخالفت نہيں کى اور نہ ہى ان سے کھلم کھلا برسر پيکار ہوسکے اسى وجہ سے ان کے لئے قول و عمل ميں تقيہ ناگزير تھا _ اس کے باوجود بھى ان کے دشمن، ان کى شمع حيات کو گل کرنے اور ان کے آثار کو مٹانے کى کوششوں ميں لگے رہے_

12
اختلاف کى اصل وجہ
پيغمبر اکرم (ص) کے بعد اسلامى معاشرہ ميں مختلف حکومتيں بنيں اور انہوں نے اپنے آپ کو حکومت اسلامى کا نام ديا_ بنيادى طور پر يہ تمام حکومتيں اہل بيت کى مخالف تھيں_
نيز يہ مخالفت اور دشمنى ناقابل آشتى ،بنيادى اور اعتقادى تھي_ يہ صحيح ہے کہ پيغمبر اکرم(ص) نے اپنى احاديث ميں اپنے اہل بيت (ع) کے فضائل و مناقب بيان فرمائے ہيں کہ جن ميں سے ايک اہم ترين سمجھى جانے والى بات يہ ہے کہ اہل بيت (ع) ،احکام دين ،معارف قرآن اور خدا کى حلال و حرام کردہ چيزوں سے مکمل طور پر آگاہ تھے اور وہ انھيں لوگوں کے لئے بيان فرماتے تھے نتيجہ ميں ان کى تعظيم اور احترام تمام امت پرلازم تھا، ليکن امت نے پيغمبراکرم (ص) کى اس وصيت کاحق ادا نہيںکيا_
مختلف مقامات خصوصاً غدير خم ميں پيغمبراکرم (ص) (ص) نے حضرت على (ع) کو اپنا جانشين معين فرماديا تھا، ليکن اس کے برخلاف کچھ مسلمانوں نے پيغمبراکرم (ص) کى رحلت کے بعد دوسروں کو پيغمبر(ص) کا جانشين چن ليا اوراہل بيت(ع) کوان کے مسلّم حق سے محروم کرديا_ نتيجہ ميں حکومت وقت ،اہل بيت کوہميشہ اپناخطرناک رقيب شمار کرتى رہى اور مختلف طريقوں سے انہيںختم کردينے يا گوشہ نشين بنادينے کى کوشش ميں لگى رہى _ائمہ معصومين پيغمبر(ص) اعظم کى سيرت کوامت اسلامى کے سامنے پيش کرتے تھے، حکومت اسلامى کے فرائض کى رعايت اور اسلام کے تمام احکام کے اجراء کو ضرورى سمجھتے تھے_ ليکن پيغمبر(ص) کے بعد تشکيل پانے والى حکومت ، احکام اسلامى کى مکمل رعايت اور سيرت پيغمبر(ص) کى متابعت کى پابندى نہيں کرتى تھى بلکہ ہميشہ اپنى نفسانى اور سياسى خواہشوں کے مطابق احکام اور قوانين کى تفسير کرتى رہى ، اميرالمؤمنين _ان کے بارے ميں فرماتے ہيںکہ :
'' بيشک يہ دين اشرار کے ہاتھوں ميںاسير، نيز ہوا وہوس اور دنيا طلبى کا ذريعہ ہوگياہے'' (2)
ابن ابى الحديد شرح نہج البلاغہ ميں حضرت على (ع) کى خصوصيات کوبيان کرنے ہوئے فرماتے

13
ہيں:
''حضرت على _شريعت کے پابند تھے اور جو کچھ دين کے خلاف تھا اس کو يکسر نظر انداز کر ديتے تھے اور اس پر عمل نہيں کرتے تھے_''
اسى طرح حضرت على (ع) خود فرماتے ہيں کہ :
'' اگر دين و تقوى مانع نہ ہوتا توميںعرب کا زيرک ترين شخص ہوتا_''
ليکن دوسرے خلفاء نے جو خود بہتر سمجھا اور جوان کى رائے کے مطابق تھا اسى پر عمل کيا، چاہے وہ شرع کے مطابق ہو يا نہ ہو _(3)
خداوند عالم نے چند آيات ميں امت اسلامى کوحتى کہ پيغمبر اکرم (ص) کو احکام اسلامى ميں تبديلى کرنے سے منع کيا ہے_ پيغمبر(ص) اسلام نے بھى ان ناقابل تغيير احکام اور قوانين کى روشنى ميں لوگوںکے درميان ايسى روش اختيار کى کہ جس سے قوانين الہى کے اجراء ميں زمان ، مکان اوراشخاص کے اعتبار سے کوئي فرق نہ رہ جاتا_
پيغمبر اکرم (ص) کى سيرت طيبہ کا مقصد صرف يہ تھا کہ احکام آسمانى ،لوگوں کے درميان عادلانہ اور مساوى طور پر جارى ہوسکيں اوراسلام کے قوانين ميں کوئي تبديلى اور تحريف واقع نہ ہو اسى روش کے ذريعہ آپ(ص) نے لوگوں کے درميان ہر طرح کے امتياز کو ختم کرديا حتى کہ آپ(ص) ،خدا کے حکم سے واجب الاطاعت حاکم اور فرمانروا قرار پائے _پيغمبراکرم (ص) کے لئے ان کى زندگى ميں بجز اس امتياز کے کہ جو دستور خداوندى کے وجہ سے تھا ذرہ برابر بھى لوگوں کى بہ نسبت کوئي امتياز نہ تھا _
ليکن ائمہ معصومين کے زمانہ ميں برسر اقتدار حکومتوں نے ظاہرى لحاظ سے بھى اپنى سيرت کو پيغمبر اکرم(ص) کى سيرت سے منطبق نہيںکيا اور اپنى راہ و روش کو يکسر بدل ڈالا_
1_ رسول(ص) خدا کى رحلت کے بعد اسلامى معاشرہ ميں شديدترين اختلافات رونما ہوئے اور امت اسلامي، طاقتور اور کمزور دو دستوں ميں تقسيم ہوگئي _(4) اور ايک گروہ کى عزت و آبرو اور جان ومال دوسرے گروہ کى ہوا وہوس کا بازيچہ بن گئي _

14
2_ نام نہاد اسلامى حکومتيں تدريجاً قوانين اسلامى کو بدلنے لگيں اورکبھى اسلامى معاشرہ کى مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنى حکومت اور اقتدار کے تحفظ کى خاطر احکام الہى پر عمل کرنے سے کتراتى تھيں اور اسلامى دستور و قوانين کى مخالفت کرتى تھيں_
يہ روش روز بروز وسعت پاتى گئي اورنوبت يہاں تک پہونچى کہ زمامداران حکومت اور کام کرنے والوں ميں ذرّہ برابر احکام اسلامى اور دينى حدود کى پابندى کا پاس و لحاظ نہ رہا_
ليکن ائمہ معصومين ، قرآن کے حکم کے مطابق احکام اسلام اور سيرت پيغمبر(ص) کے اجراء کو ہميشہ اور تمام لوگوں کے لئے لازم جانتے تھے، اسى اختلاف اور تضاد کى بناپر اس وقت کى حکومتيں اپنى طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ائمہ معصومين کى حيثيت کوکمزور بنانے اور ان کومعاشرے اور لوگوں سے دور کرنے کى کوششيں کرتى رہيں اور ہر ممکن طريقہ سے ان کے نور کوگل کرنے ميں لگى رہيں_ (5)
اہل بيت شديد مشکلات سے دوچاررہے اور سخت ترين کينہ توز دشمنوں ميں رہنے کے باوجود بھى حقائق دين کى تبليغ کرتے رہے اور صالح افراد کى تربيت سے دست بردار نہ ہوئے_
ان کى مسلسل تعليم و تربيت ہى کا اثر تھا کہ حق کے پيرو کاروں کى تعداد، رحلت پيغمبر(ص) (ص) کے وقت مختصر ہونے کے باوجود اواخر عصر ائمہ (ع) ميں کثير ہوگئي_
على ابن ابيطالب _
مذکورہ بالا مقدمہ ميں ہم نے ائمہ معصومين (ع) کى عمومى سيرت اورانکى معاصرحکومتوںکا اجمالى ذکر کيا ہے نيز ان کے درميان اختلاف کے اسباب کى تحقيق پيش کر دى ہے ،اور اب ہم ائمہ معصومين (ع) کى سوانح عمرى کے بارے ميں بقدر گنجائشے دروس بيان کريںگے يہ توواضح ہے کہ تمام معصوم پيشواؤں کى مکمل علمى ، سياسى اور اجتماعى زندگى کو چند گھنٹوں ميں بيان نہيںکيا جاسکتا_ لہذا

15
مختصر وقت کے پيش نظر، رہبران الہى کى زندگى کا سرسرى جائزہ ہى پيش کيا جارہا ہے_
ابتدا پہلے امام حضرت اميرالمؤمنين (ع) کى زندگى سے کى جارہى ہے_ آپ(ع) کى زندگى کو پانچ حصوں ميںتقسيم کيا جاسکتا ہے_
الف_ ولادت سے بعثت پيغمبر(ص) تک
ب_ بعثت سے ہجرت پيغمبر(ص) تک
ج_ ہجرت سے رحلت پيغمبر (ص) تک
د_ رحلت پيغمبر(ص) سے خلافت تک
ہ_ خلافت سے شہادت تک
اب ہم ان پانچوں حصوں ميں سے ہر حصہ کے بارے ميں بحث کا نچوڑ پيش کريں گے_
ولادت سے بعثت پيغمبر(ص) تک
حضرت على بن ابى طالب _جمعہ کے دن 13 رجب 30 ھ ق عام الفيل (بعثت سے دس سال پہلے) خانہ خدا ميںپيدا ہوئے_(6) ان کے پدر عاليقدر '' عمران''(7) ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف تھے اور ان کى والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں_
حضرت على _نے چھ سال کى عمر تک اپنے والدين کے پاس زندگى گزارى اس کے بعد حضرت محمد ابن عبداللہ کى درخواست پر اُن کے پاس چلے آئے اور آپ(ص) کے دامن تربيت ميں رہے_(8)
حضرت على (ع) اپنے اس زمانہ کے بارے ميں يوں فرماتے ہيں:
وَضَعنى فى حجْرہ وَ اَنا وَلَدٌ يَضُمُنى الى صَدْرہ وَ يَکْنُفنُى فى فَراشہ وَ يُمسُّنّى جَسَدَہ وَ يُشمَنّى عَرْفَہُ

16
و کانَ يَمْضَغْ الشيء ثمَّ يُلقمنيہ ...وَ لَقَد کُنتُ أتَّبعُہُ أتَّبعُہُ إتّباع الفَضيل أثر اُمّہ، يَرفَعُ لى فى کُلّ يوم: من اخلاقہ علماً و يا مُرنى بالاقتداء بہ، وَ لَقَدْ کان يُجاور فى کل سُنَة: بحراء فاراہ و لا يراہ غيري ...(9)
'' بچپن ميں پيغمبر (ص) مجھے اپنى آغوش ميں ليتے اپنے سينہ سے لگاتے اور اپنى مخصوص آرامگاہ پر جگہ ديتے اپنا جسم اقدس ميرے جسم سے مس کرتے اور اپنى خوشبو سے ميرے مشام جاں کو معطر فرماتے غذا چبا کر ميرے منہ ميں رکھتے _''
ميں رسول(ص) خدا کى اس طرح پيروى کرتا تھا کہ جيسے ( اونٹ کا ) شير خوار بچہ اپنى ماں کے پيچھے پيچھے چلتا ہے_ آنحضرت (ص) ہر روز ميرے لئے اپنے اخلاق کا عَلَم بلند کرتے تھے اورمجھے حکم ديتے تھے کہ ميں ان کے کردار کى پيروى کروں_ آپ(ص) ہر سال ''غارحرا'' ميں تشريف لے جاتے تھے اور اس وقت ميرے علاوہ آپ(ص) کو،کوئي ديکھ نہيں پاتا تھا_''
خورشيد رسالت کا اعلى کردار، حسن رفتار ، عدالت پسندى ، انسان دوستى اور خدا پرستى حضرت علي(ع) کى انفرادى اور اجتماعى زندگى کے خطوط معين کرنے کے لئے بہترين نمونہ اور سرمشق عمل ہے_
بعثت سے پيغمبر(ص) کى ہجرت تک
حضرت على _ ابھى نوجوان تھے اور آپ(ع) کا سن دس سال سے زيادہ نہيں ہوا تھا ليکن پھر بھى آپ(ع) کى فکراور آگاہى اتنى تھى کہ جب حضرت محمد مصطفى صلى اللہ على و آلہ و سلم نے اپنى پيغمبرى کا اعلان فرمايا تو آپ (ع) نے سب سے پہلے ايمان کا اعلان فرمايا (10) اس سلسلہ ميںآپ(ع) فرماتے ہيں :
لم يجمع بيتٌ واحدٌ يومئذ: فى الاسلام غير رسول و خديجہ و انا ثالثہما ارى نور الوحى و الرسالة و اشمّ

17
ريح النبوة_'' (11)
اس زمانہ ميں جب اسلام کسى گھر ميں نہيں پہونچا تھا _ فقط پيغمبراکرم(ص) اور ان کى بيوى خديجہ مسلمان تھيں اور تيسرا ميں مسلمان تھا_ ميںنور وحى کو ديکھتا اور نبوت کى خوشبو سونگھتا تھا_''
جب آيہ '' و انذر عشيرتک الاقربين'' (12) نازل ہوئي تو حضرت علي(ع) نے پيغمبر اکرم(ص) کے فرمان کے مطابق اپنے رشتہ داروں ميں سے چاليس افراد کو منجملہ اپنے چچا ابولہب ، عباس اور حمزہ و غيرہ کو مہمان بلايا_ رسول اکرم(ص) نے کھانے پينے کے بعد فرمايا:
'' اے فرزندان عبدالمطلب ميں جو چيز تمہارے لئے لايا ہوں مجھے نہيں معلوم کہ عرب کے جوانوں ميں سے کوئي بھى اس سے بہتر چيز تمہارے لئے لايا ہو_ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت کى بھلائي نيز خير و سعادت کا تحفہ لايا ہوں_ خدا نے حکم ديا ہے کہ ميں تم کو اس کى طرف بلاؤں تم ميں سے کون ہے جو اس راستہ ميںميرى مدد کرے تا کہ وہى ميرا بھائي ،ميرا وصى اور ميرا جانشين قرار پائے؟''
رسول خدا(ص) نے تين بار يہ بات دہرائي اور ہر بار تنہا حضرت على (ع) ہى کھڑے ہوئے اور انہوں نے اسى امر ميں اپنى آمادگى کا اعلان فرمايا_
پھر آنحضرت (ص) نے فرمايا:
'' يہ (على (ع) ) ہى ميرے بھائي ، ميرے وصى اور ميرے جانشين ہيں ان کى باتوں کو سنو اور ان کى اطاعت کرو_(13)''
حضرت عليہ _نے مکہ کى پورى تيرہ سالہ زندگى رسول اکرم (ص) کى خدمت ميں گزارى اور وحى الہى کو مکتوب فرماتے رہے_
على (ع) ، بستر رسول(ص) پر
اظہار اسلام کى بناپر قريش کے سر برآوردہ افراد نے اپنى تسلّط طلب خواہشوں کى راہ ميں

18
وجود پيغمبراکرم(ص) کو خطرناک تصور کيا_ اسى وجہ سے '' دارالندوہ'' ميں جمع ہوئے اور رسول(ص) خدا سے برسر پيکارہونے کے لئے آپس ميں مشورہ کرنے لگے_ آخر ميں يہ طے پايا کہ ہر قبيلہ سے ايک ايک آدمى چنا جائے تا کہ رات کو پيغمبراکرم(ص) کے گھر پر حملہ کيا جائے اور سب مل کر ان کو قتل کرديں _ پيغمبراکرم ، (ص) وحى الہى کے ذريعہ کى ان سازشوں سے آگاہ ہوگئے اور يہ حکم ملا کہ راتوں رات مکہ کى طرف ہجرت کرجائيں_ (14) آپ(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا: کہ '' آپ(ع) ميرے بستر پر اس طرح سوجاؤ کہ کسى کو يہ معلوم نہ ہونے پائے کہ پيغمبراکرم (ص) کى جگہ کون سورہا ہے_''
حضرت على (ع) کى يہ فدا کارى اتنى اہميت اور قدر و منزلت کى حامل تھى کہ مختلف روايات(15) کى بناپر خدا نے يہاں پر يہ آيت نازل کى :
'' و من الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد''(16)
لوگوں ميں سے کچھ ايسے ہيں جو رضائے خدا کى راہ ميں اپنا نفس بيچ ديتے ہيں اور خدا، اپنے بندوں پر مہربان ہے_
ہجرت سے رحلت پيغمبر(ص) تک
الف_ على (ع) ، پيغمبر (ص) کے امين
پيغمبر اکرم(ص) کو جب ہجرت کا حکم ملا تو آپ(ص) نے اپنے خاندان کے افراد اور قبيلہ کے درميان حضرت على (ع) سے زيادہ کسى کو امانت دار نہيں پايا_ اسى وجہ سے آپ(ص) نے ان کو اپنا جانشين بناياتا کہ وہ لوگوں کى امانتيں ان تک پہنچاديں، آپ(ص) کا قرض ادا کريں اور آپ(ص) کى دختر حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور دوسرى عورتوں کو مدينہ پہنچاديں_
حضرت على _، پيغمبراکرم (ص) کے حکم پر عمل کرنے کے بعد، اپنى والدہ گرامى جناب فاطمہ بنت

19
اسد ، بنت رسول (ص) حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا ،زبير کى بيٹى فاطمہ اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مدينہ روانہ ہوئے اور مقام '' قبا'' (17) ميں پيغمبر (ص) اکرم سے جاملے_ (18)
ب_ على (ع) اور راہ خدا ميں جہاد
رسول(ص) خدا کے مدينہ ہجرت کرنے کے بعد راہ حق ميں اپنى جان کى بازى لگانے والوں اور جان کى پروا، نہ کرنے والوں ميں پيغمبراکرم(ص) کے اصحاب کے درميان حضرت على (ع) بے نظير تھے _ آپ(ع) غزوہ تبوک کے علاوہ _ کہ جس ميںآپ(ع) ، پيغمبراکرم (ص) کے حکم سے مدينہ ميں رک گئے تھے_ تمام غزوات ميں موجود رہے_ اور زيادہ تر آپ(ع) کى فداکارى وايثار کے سبب ،لشکر اسلام نے لشکر کفر و شرک پر غلبہ حاصل کيا_ آپ(ع) نے ہميشہ اپنے دشمن و مد مقابل کو شکست دى اور کبھى بھى دشمن کو پيٹھ نہيں دکھائي اور فرمايا کہ اگر تمام عرب ايک کے پيچھے ايک مجھ سے لڑيں تو ميں اس جنگ ميں پيٹھ پھير نے والا نہيں ہوں_(19)
بلاخوف و ترديد يہ بات کہى جاسکتى ہے کہ اگر اس جانباز اسلام کى جانبازياں اور فداکارياں نہ ہوتيں تو بعيد نہيں تھا کہ بدر ،احد ، خندق اورخيبر ... يا کسى بھى جنگ ميں کفار و مشرکين، چراغ رسالت کوبا آسانى گل کر کے پرچم حق کو سرنگوں کرديتے_
اس مقام پرمولا على (ع) کى جنگ خندق و خيبر کے دو ميدانوں کى فداکاريوں کو بيان کرتے ہوئے اب ہم آگے بڑھيں گے_
1_ اسلام دشمن مختلف گروہوں نے ايک دوسرے سے ہاتھ ملاليا تا کہ يک بيک مدينہ پر حملہ کرکے اسلام کوختم کرديں پيغمبر(ص) اسلام نے جناب سلمان فارسى کى پيشکش پر حکم ديا کہ مدينہ کى ان اطراف ميں خندق کھود دى جائے کہ جہاں سے دشمن کے داخل ہونے کا خطرہ ہے_
خندق کے دونوں طرف دونوں لشکر ٹھہرے ہوئے تھے ، کہ عرب کا نامى گرامى جنگجو '' عمروبن عبدود'' دشمن کے لشکر سے خندق کو پارکر کے رجز پڑھتااور مبارزہ طلبى کرتا ہوا آيا_حضرت علي(ع) نے

20
قدم آگے بڑھائے دونوں ميں گفتگو کے بعد ''عمرو'' گھوڑے سے اتر پڑا اور اس نے گھوڑے کو پے کرديا ، تلوار لے کر حضرت على (ع) پر حملہ آور ہواتو امام(ع) نے دشمن کے وار کو اپنى ڈھال پر روکا اور اس کے بعد آپ(ع) نے ايک ضرب سے اس کو زمين پرگراديا پھر قتل کرڈالا_ ''عمرو'' کے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديکھا تو وہ ميدان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جورہ گئے وہ امام کى تلوار ذوالفقار کے لقمہ بن گئے (20) _ جب امام _فاتحانہ واپس آئے تو پيغمبراکرم (ص) نے ان سے فرمايا: '' اگر تمہارى آج کى جنگ کو امت اسلام کے تمام پسنديدہ اعمال سے تو لاجائے تو تمہارا يہ عمل سب سے برتر ہے _(21) ''
2_ پيغمبر (ص) اکرم نے يہوديوں کے مرکز، خيبر کا محاصرہ کيا اس غزوہ ميں آنکھوں کے درد کے سبب حضرت علي(ع) جنگ ميں شامل نہ تھے_ رسول اکرم(ص) نے دو مسلمانوں کو پرچم ديا اور وہ دونوں ہى کاميابى حاصل کرنے سے پہلے ہى واپس آگئے ، پيغمبر(ص) نے فرمايا: '' پرچم ان کاحق نہيں تھا على (ع) کو بلاؤ '' لوگوں نے عرض کياکہ '' ان کى آنکھوں ميں درد ہے'' آپ(ص) نے فرمايا: '' ان کو بلا لاؤ وہ، وہ ہيں جن کو خدا اور اس کا رسول(ص) دوست رکھتا ہے اور وہ بھى خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتے ہيں ...
جب حضرت على _تشريف لائے تو پيغمبراکرم(ص) نے فرمايا: '' علي(ع) کيا تکليف ہے؟'' تو حضرت على (ع) نے کہا: '' آنکھوں ميں تکليف ہے_''
اس وقت رسول(ص) خدا نے ان کے لئے دعا فرمائي اور ان کى آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگايا_ کہ جس سے حضرت على (ع) کى آنکھوں کا درد ختم ہوگيا،جب حضرت علي(ع) نے سفيد پرچم لہرايا_تو پيغمبراکرم(ص) نے ان سے فرمايا: '' جبرئيل تمہارے ساتھ ہيں اورکاميابى تمہارے آگے آگے ہے ، خدا نے ان لوگوںکے دلوں ميں خوف وہراس ڈال ديا ہے ...''
حضرت على (ع) ميدان ميں گئے توسب سے پہلے مرحب سے سامنا ہوا کچھ باتيں ہوئيں اور آخر کار اس کوزمين پرگراديا _يہودى قلعہ کے اندر چھپ گئے اور دروازہ بند کرليا_ امام _دروازہ

21
کے پيچھے آئے اور جس دروازہ کو بيس آدمى بند کرتے تھے اس کو اکيلے کھولا اور اس کو اپنى جگہ سے اکھاڑ اور يہوديوں کى خندق پرڈال ديا يہاں تک کہ مسلمان اس کے اوپر سے گزر کر کامياب ہوئے_(22)
ج_ علي(ع) اور پيغمبر(ص) کى جانشيني
پيغمبراکرم(ص) نے اپنے بعد ،مسلمانوں کے امور کى سرپرستى اور ولايت کے مسئلہ ميں صرف اپنى پوشيدہ دعوت اور اعلان پرہى اکتفا نہيںکياتھا بلکہ جس طرح کہ ہم ذکر کرچکے ہيں کہ آپ(ص) نے دعوت اورتبليغ کے پہلے ہى دن سے مسئلہ ولايت کو توحيد و نبوت کے ساتھ صريحاً بيان فرمادياتھا_ اور پھر خصوصيات و فضائل کے مجموعہ حضرت على _کے لئے آپ(ص) کے پاس، خدا کا يہ فرمان موجود تھا کہ دين و دنيا کے امور ميں علي(ع) کى ولايت و سرپرستى اور اپنے بعد ان کى جانشينى کا اعلان فرماديں_
رسول اکرم(ص) نے اس کام کو مختلف مواقع پر منجملہ ''غديرخم'' ميں انجام ديا_ آنحضرت(ص) نے 10ھ فريضہ حج کى انجام دہى کے لئے مکہ کا قصد فرمايا، مورخين نے اس سفر ميں پيغمبراکرم (ص) کے ساتھيوں کى تعداد ايک لاکھ چو بيس ہزار لکھى ہے _(23) حج سے واپسى پر 18ذى الحجہ کو صحراء جحفہ کى ''غدير خم '' نامى جگہ پر پہنچے_ منادى نے پيغمبراکرم(ص) کے حکم کے مطابق اعلان کيا '' الصلوة جامعة'' سب لوگ رسول(ص) خدا کے گرد جمع ہوگئے_ اونٹوں کے پالانوں سے ايک بلند جگہ منبربنايا گيا اور پيغمبراکرم(ص) اس پر تشريف لے گئے، حمد خدا اور مفصل خطبہ کے بعد آپ(ص) نے فرمايا: اے لوگو مؤمنين پر ولايت و سرپرستى کا زيادہ حق کون رکھتا ہے؟ تو لوگوں نے کہا: خدا اوراس کا پيغمبر(ص) زيادہ بہتر جانتے ہيں تو آپ(ص) نے فرمايا :ميرا ولى خدا ہے اور ميں مومنين پر خود ان کے نفسوں سے زيادہ حق رکھتا ہوں اور پھر فرمايا ''من کنت مولاہ فہذا عليٌ مولا'' (24) جس کا ميں سرپرست و ولى ہوں يہ علي(ع) بھى اس کے سرپرست وولى ہيں خدايا ان کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے

22
دشمنوں کودشمن قرار دے_ ابھى لوگ پراکندہ نہيںہوئے تھے کہ يہ آيت نازل ہوئي :
'' اليوم اکملت لکم دينکم و اتممت عليکم نعمتى و رضيت لکم الاسلام دينا_ '' (25)
'' آج تمہارے دين کوميں نے کامل کرديا اور اپنى نعمتيں تم پر تمام کرديں، اور تمہارے لئے دين اسلام کو پسند کرليا_

23
سوالات
1_ ائمہ معصومين (ع) کى عمومى سيرت کياتھى اور کيا ائمہ معصومين (ع) اور پيغمبراکرم (ص) کى سيرت ميں کوئي فرق تھا ؟ اور اگرتھا تو وہ کيسا فرق تھا؟
2_ ائمہ معصومين(ع) اور ان کى معاصر حکومتوںکے درميان ،اختلاف کى اصل وجہ کياتھي؟
3_ اميرالمؤمنين کا بچپن کيسے گزرا اورخود آپ (ع) نے اس بارے ميں کيا فرماياہے؟
4_ پيغمبراکرم(ص) نے جب پہلى بار اپنے بعد اميرالمؤمنين کى جانشينى کے مسئلہ کى تصريح کى تو وہ کون سا وقت اور کونسا موقع تھا؟
5_ جنگوں ميں اميرالمؤمنين کى فداکارى کا ايک نمونہ بيان فرمائيں؟

24
حوالہ جات
1 تفصيل کے لئے '' کتاب کفاية الاشرفى فى النص على الائمة الاثنى عشر'' اور کتاب '' الفقيہ للنعماني'' ص 57 ، ص 110_ '' بحار الانوار '' جلد 36، ص 226، ص 372، '' غيبت شيخ'' ص 99 ، 87 _ اور '' غيبت مفيد '' کا مطالعہ فرمائيں اور کے علاوہ ولايت اور اس کى شرائط کے موضوع پر قرآن مجيد کا مطالعہ ہم کو بارہ اماموں پر انحصار کرنے کى ہدايت کرتا ہے_
2 ''فانّ ہذا الدين قد کان اسيراً فى ايدى الاشرار يعمل فيہ بالہوى و تطلب بہ الدنيا''(نہج البلاغہ فيض الاسلام خط 53 ص 1010 مالک اشتر کے نام خط )
3 شرح نہج البلاغہ جلد 1 ص 28_
4 مزيد معلومات کے لئے'' تاريخ اسلام امامت حضرت کے زمانہ ميں'' سبق 4 کى طرف رجوع فرمائيں_
5 جو بيان اس مقدمہ ميںکلى طور پر آيا ہے اور جس بات کا دعوى کياگيا ہے آيندہ دروس ميں ائمہ معصومين کے بارے ميں خلفاء کے موقف اورمعصوم رہبروں کے اقدامات کے نمونوں کے ساتھ پيش کيا جائے گا_
6 ارشاد مفيد /9 مطبوعہ بيروت _ بحار جلد 35/5 منقول از تہذيب، کشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1/59 خانہ کعبہ ميں آپ (ع) کى ولادت کے موضوع کو اہل سنّت کے بہت سے مورخين و محدثين نے لکھا ہے _ مزيد تفصيل کے لئے مروج الذہب جلد 2/249_ شرح الشفا جلد 1/151_ مستدرک حاکم جلد 3/283 شرح قصيدہ عبدالباقى آفندى از آلوسى /5 ملاحظہ ہو_
7 عمران کے چار بيٹے، طالب، عقيل ، جعفر اور على (ع) تھے _ آپ ابوطالب کى کنيت سے مشہور تھے_ ليکن ابن ابى الحديد نے جلد 1 ص 11 پر حضرت علي(ع) کے والد کا نام عبدمناف لکھا ہے_
8 سيرة ابن ہشام جلد 1/262، کامل ابن اثير جلد 2/58 ، کشف الغمہ جلد 79، تاريخ طبرى 2/312_
9 نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ سے چند جملے از صبحى صالح حديث 192 ص 300 اور دو سطريں ص 812 سے _
10 تاريخ طبرى جلد 2 ص 310 کامل ابن اثير جلد 2 ص 50_ ابن ہشام جلد 1 ص 262، کشف الغمہ جلد 1 ص 86
11 نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ 23 ص 811 ، ص 812 _
12 سورہ شعراء آيت214_
13 تاريخ طبرى جلد 2/320_ مجمع البيان جلد 7_8/206 _ الغدير جلد 2/ 379_ کامل ابن اثير جلد 2/62_ 63

25
إن ہذا أخى و وصى و خليفتى فيکم فاسمعوا لہ و اطعوا'' _
14 سيرة ابن ہشام جلد 2/124_ کامل ابن اثير جلد 2/101 _ 103_ الصحيح من سيرة النبى جلد 2/238_
15 تفسير الميزان جلد 2/99_ (دس جلدوالي) تفسير برہان جلد 1/206 ملاحظہ ہو_
16 سورہ بقرہ /207_
17 مدينہ سے دو فرسخ دور قبا قبيلہ بنى عمروبن عوف کے سکونت کى جگہ تھي_ معجم البلدان جلد 4/301_
18 مناقب ابن شہر آشوب جلد 2/58، الصحيح من سيرة النبى جلد 2/295_
19 ''واللہ لو تَظَاہَرت الرحب على قتالى لما ولّيت عنہا'' شرح نہج البلاغہ فيض الاسلام ص ، 971_
20 ارشاد مفيد /52،53_
21 بحار جلد 2/205 ''لو وزن اليوم عملک بعمل امة محمد لرجع عملک بعملہم ...''_
22 ارشاد مفيد /65،67_
23 الغدير جلد 1/9_
24 سورہ مائدہ /3_
25- الغدير جلد 1/9_11