۱۳۹۶/۲/۳۱   2:51  بازدید:6620     مضامین


اتحاد امت کیا اور کیسے ؟

 


اتحاد امت کیا اور کیسے ؟
 
اس مختصر سی تحریر میں ہم اتحاد کے مفہوم کی وضاحت کرینگے۔ اور اتحاد کن مبانی اور کس محور پر ہونا چاہئے۔ مصادیق کی وضاحت کرینگے۔
 
اتحاد کا مفہوم
 
 اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے۔ اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔
 مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ قدم بڑھائیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں(1) 

 
اسلامی اتحاد و یکجہتی کے محور

امت اسلامی کو جس محور پر اتحاد کرنا چاہئے اسکے اہم مصادیق مندرجہ ذیل ہیں:
توحید
 جب یکتا پرست معاشرے میں کہ جس کی نظر میں عالم ہستی کا خالق و مالک، عالم وجود کا سلطان اور وہ حی و قیوم و قاہر کہ دنیا کی تمام اشیاء اور ہر جنبش جس کے ارادے اور جس کی قدرت کی مرہون منت ہے، واحد و یکتا ہے تو پھر (اس معاشرے کے انسان) خواہ سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں یا دیگر رنگ والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی سماجی صورت حال بھی مختلف ہو، ایک دوسرے کے متعلقین میں ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس خدا سے وابستہ ہیں۔ ایک ہی مرکز سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی جگہ سے نصرت و مدد حاصل کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ توحید کا لازمی و فطری نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان ہی ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ نہیں ہیں بلکہ توحیدی نقطہ نظر تو دنیا کے تمام اجزاء و اشیاء، حیوانات و جمادات، آسمان و زمین، غرض یہ کہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ اور جڑی ہوئی ہے اور ان سب کا بھی انسانوں سے رشتہ و ناطہ ہے۔ بنابریں وہ تمام چیزیں جو انسان دیکھتا اور محسوس کرتا اور جس کا ادراک کرتا ہے وہ ایک مجموعہ، ایک ہی افق اور ایک دنیا ہے جو ایک پر امن اور محفوظ دائرے میں سمائی ہوئی ہے۔

 
اسلامی شناخت اور تشخص

 دنیا کے ہر خطے میں آج مسلمان، خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا ایسی ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اسلام کی سمت جھکاؤ اور میلان اور اپنی اسلامی شناخت کی بازیابی کا احساس کر رہے ہیں۔ آج عالم اسلام کا روشن خیال طبقہ اشتراکیت اور مغربی مکاتب سے بد دل ہوکر اسلام کی سمت بڑھ رہا ہے اور عالم انسانیت کے درد و الم کی دوا کے لئے اسلام کا دامن تھام رہا ہے اور اس سے راہ حل چاہ رہا ہے۔ آج مسلم امت میں اسلام کی جانب ایسی رغبت پیدا ہوئی ہے جو گزشہ کئی صدیوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسلامی ممالک پر کئی عشروں تک مغربی اور مشرقی بلاکوں کے گہرے سیاسی و ثقافتی تسلط کے بعد اب عالم اسلام کے نوجوانوں کی فکروں کا افق اور نگاہوں کا مرکز اسلام بن گيا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے۔ خود مغرب والے اور دنیا کی سامراجی طاقتیں بھی اس کی معترف ہیں۔ اکابرین سامراج کے لئے جو چیز سوہان روح بنی ہوئی ہے وہ مسلمانوں کا اسلامی تشخص اور یہ احساس ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ چیز مسلمانوں کو متحد کرتی اور ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔
 
دین اسلام
 
 اسلام بھی اس کا باعث ہے کہ امت مسلمہ کے اندر ایک دوسرے سے رابطے اور تعلق کا احساس پیدا ہو اور یہ ایک ارب اور کئی کروڑ کی آبادی عالم اسلام کے مختلف مسائل میں اپنا کردار ادا کرے۔
 مقدس دین اسلام میں اتحاد ایک بنیادی اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ ذات مقدس باری تعالی سے لیکر کہ جو وحدت و یکتائی کی بنیاد اور حقیقی مظہر ہے، اس وحدت کے جملہ آثار تک آپ دیکھئے پورے عالم وجود کی توجہ اسی عظیم و رفیع مرکز کی جانب مرکوز ہے، " (سب ہماری جانب ہی لوٹنے والے ہیں،(2)  سب کے سب اسی ذات الہی کی جانب حرکت کر رہے ہیں۔ "  (سب کی واپسی اسی کی جانب ہے، (3)  اتحاد، اسلام اور اعتصام بحبل اللہ کی اساس پر قائم ہونا چاہئے، توہمات اور بے معنی قومیتی تعصب کی بنیاد پر نہیں۔ امت مسلمہ کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اتحاد، اسلام کی حاکمیت کے لئے ہونا چاہئے ورنہ بصورت دیگر وہ عبث اور بے معنی ہوگا۔

 
قرآن
 
 قرآن کریم نے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اتحاد و یکجہتی کو گنوایا تو ان کی عزت و آبرو، شناخت و تشخص اور طاقت و توانائی سب کچھ مٹ جائے گی۔ آج بد قسمتی سے عالم اسلام میں مشکلات سامنے کھڑی ہیں۔ آج اسلام کے خلاف جو سازش کی جا رہی ہے وہ بہت گہری سازش ہے۔ موجودہ حالات میں اگر اسلام کے خلاف منظم سازشیں مزید شدت و سرعت کے ساتھ جاری ہیں تو اس کی وجہ امت مسلمہ میں آنے والی وہ بیداری ہے جسے دیکھ کر دشمنوں پر خوف طاری ہو گیا ہے۔ عالمی استکبار، اسلامی ممالک میں موجود لالچی عناصر، اسلامی حکومتوں اور ملکوں میں مداخلت کرنے والے، امت مسلمہ کے اتحاد سے مضطرب ہیں۔
 اسلام میں خطاب " یا ایھا الذین آمنوا"( اے ایمان لانے والو!) کے ذریعے کیا گيا ہے۔ " یا ایھا الذین تشیعوا" (اے اہل تشیعہ) یا " یا ایھا الذین تسننوا" (اے اہل تسنن) کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا ہے۔ خطاب تمام اہل ایمان سے کیا گیا ہے۔ کس چیز پر ایمان رکھنے والے؟ قرآن پر ایمان رکھنے والے، اسلام پر ایمان رکھنے والے، پیغمبر پر ایمان رکھنے والے۔ ہر شخص کا اپنا الگ عقیدہ بھی ہے جو دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ جب ارشاد ہوا کہ  (اور سب کے سب ایک ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو(4)  تو مخاطب تمام مومنین کو قرار دیا گیا ہے۔ مومنین کے کسی مخصوص گروہ کو مخاطب قرار نہیں دیا گیا۔ جب ارشاد ہوا کہ  (اگر مومنین کے دو گروہوں می‍ں جنگ ہو جائے تو ان کے درمیان مصالحت و مفاہمت کروائیے، (5)  تمام مومنین کو مخاطب بنایا گيا ہے، کسی مخصوص گروہ کو نہیں۔ اسلام ان بنیادی کاموں کے ذریعے مذہبی تعصب اور تنازعے کو پائیدار بنیادوں پر ختم کر سکتا ہے جس سے تمام انسانیت دوچار ہے۔
 قرآن کہتا ہے کہ " و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اعتصام بحبل اللہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ " فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی" (جو طاغوت کی نفی کرتا اور اللہ پر ایمان لاتا ہے بے شک اس نے بہت مضبوط سہارے کو تھام لیا ہے،(6)  اس میں اعتصام بحبل اللہ کا مطلب سمجھایا گيا ہے۔ اللہ کی رسی سے تمسک اللہ تعالی کی ذات پر ایمان اور طاغوتوں کے انکار کے صورت میں ہونا چاہئے۔

 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
 
 نبی مکرم و رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا وجود مقدس اہم ترین نقطہ اتحاد ہے۔ ہم پہلے بھی یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ عالم اسلام اس نقطے پر آکر ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو تمام مسلمانوں کے جذبات کا سنگم ہے۔ یہ عالم اسلام کے عشق و محبت کا قبلہ ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ صیہونیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے قلم اسی مرکز کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کی توہین کر رہے ہیں تاکہ امت مسلمہ کی توہین اور عالم اسلام کی تحقیر رفتہ رفتہ ایک عام بات بن جائے۔ یہ بنیادی نقطہ ہے۔ سیاستداں حضرات، علمی شخصیات، مصنفین، شعرا، ہمارے فن کار اس (اتحاد کے) نقطہ پر توجہ دیں اور اسی نعرے کو وسیلہ بنا کر مسلمان خود کو ایک دوسرے کے نزدیک لائیں۔ اختلافی باتوں میں نہ الجھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے صادر نہ کریں، ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کریں۔ مسلم امہ کے قلوب ذکر پیغمبر اسلام اور عشق رسول اعظم سے تازگی پاتے ہیں، ہم سب کے سب اس عظیم ہستی کے پروانے اور عاشق ہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) اتحاد رہبر معظم کی نظر میں ص 5
(2)  انبیاء 93
(3) نور42
(4) آل عمران 103
(5) حجرات 9
(6) بقرہ 256