۱۳۹۶/۲/۲۷   9:39  بازدید:2134     معصومین(ع) ارشیو


کیا غیبت کبری میں امام (علیہ السلام)سے ملاقات ممکن ہے ؟

 



غیبت کبری میں امام عصر (علیہ السلام) سے ملاقات کے سلسلے میں بعض علماء معتقد ہیں کہ نا ممکن ہے اور ان کا یہ اعتقاد ان روایات کی بنیاد پر ہے کہ جن میں ملاقات کی نفی کی گئی ہے ۔
اور ان کا کہنا ہے جب امام زمانہ (علیہ السلام)کے آخری نائب اس دنیا سے رحلت کرتے ہیں تو کہتے ہیں امام (علیہ السلام) نے فرمایا  کہ اے علی بن محمد سمری! اب نواب خاص کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اب غیبت کبری شروع ہونے جا رہی ہے اور اس غبیت میں  اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے اپنے امام  کو دیکھا ہے، تو سمجھ لینا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔(1)
لہذا اس حدیث کو بہت ہی توجہ سے دیکھنا پڑے گا، امام (علیہ السلام) نے اس میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے :
ایک یہ کہ ممکن ہے کسی زمانہ میں کوئی یہ دعوی کرے کہ میں نے امام  (علیہ السلام) کو دیکھا۔
دوسرا یہ کہ دیدار کا دعوی کرنے والا جھوٹا ہے ۔
اس میں دو کیفیتیں بیان ہو رہی ہیں :ایک ’’دعوی‘‘ دوسرا ’’مشاہدہ‘‘ یعنی کوئی دیدار کا دعوی کرے جھوٹا ہے ۔
مشاہدہ  کا معنی امام (علیہ السلام) کو دیکھنا ۔
دعوی کا معنی اس دیدار کا اعلان کرنا ۔
اس بات سے یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ممکن ہے کوئی امام (علیہ السلام) سے ملاقات کرے اور اسے کسی کے سامنے ذکر نہ کرے بلکہ اپنے سینہ میں چھپائے رکھے اور لوگ اس کی رحلت کے بعد سمجھیں کہ یہ شخص امام (علیہ السلام) سے ارتباط میں تھا ۔
ہاں اس قسم کے لوگ حدیث کا مصداق نہیں بن سکتے یعنی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جھوٹے تھے کیونکہ جب انہوں نے اظہار ہی نہیں کیا تو جھوٹ کیسا؟ ۔
اہم نکتے
1۔ امام (علیہ السلام) کا دیدار بغیر معرفت کے
امام (علیہ السلام) لوگوں کے درمیان موجود ہیں اور بالخصوص حج کےموقع پر مکہ اور عرفات میں موجود ہوتے ہیں اور لوگ ان کو دیکھتے بھی ہیں لیکن پہچان نہیں سکتے ہیں کہ یہی ہمارے مولا ہیں، روایت کی کتابیں اس بات کی شھادت دیتی ہیں کہ کتنے ایسے اولیای خدا گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے امام سے ملاقات کی اور پہچان نہ سکے بلکہ بعد میں متوجہ ہوئے کہ ارے یہ تو میرے امام (علیہ السلام) تھے کیونکہ یہ کام جو انہوں نے کیا ہے یہ تو کوئی عام انسان نہیں کر سکتا ۔
2۔  امام (علیہ السلام)کا دیدار معرفت کے ساتھ
اس طرح کا دیدار بہت سخت ہے اور بہت کم پیش آیا ہے اگر اس قسم کا دیدار ہوا بھی ہے تو خاص اولیای خدا کے لیے ۔
3۔امام (علیہ السلام) کا دیدار بغیر کسی دعوا کے
امام (علیہ السلام) کا دیدار تو ہوا ہے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا یعنی یہ نہیں کہا کہ میں وہ ہوں جسے امام (علیہ السلام)نے دیدار کرایا اور یہ یہ کہا ہے،کیونکہ اگر  ایسا  کہے گا تو یقینا ً جھوٹا ہے ۔
4۔ معنوی ارتباط
امام (علیہ السلام) سے معنوی ارتباط بر قرار رکھنا، البتہ یہ بھی بغیر تقوی، دعا اور ائمہ علیھم السلام سے خصوصی توسل کے حاصل نہیں ہو سکتا اگر یہ صفات کسی انسان کے اندر آجائیں تو وہ اپنے امام علیہ السلام سے معنوی ارتباط برقرار رکھ سکتا ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے، زمانہ غیبت میں اپنے امام علیہ السلام کی سلامتی کی دعا کرتے رہیں ۔(2)
ارتباط معنوی اگر امام علیہ السلام سے برقرار ہو جائے اور انسان اپنے ہر عمل پر یہ فکر کرے کہ یہ میرے مولا دیکھ رہیں ہیں اور اپنی ہر مشکل کے لیے امام (علیہ السلام)سے توسل کرے جیسے وہ مشھور حدیث کہ جس میں امام (علیہ السلام) شیخ مفید سے کہتے ہیں کہ ہم تمہاری ہر بات سے آگاہ ہیں، تمہاری کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو ۔(3)
ہم نے تمہاری سرپرستی میں کوئی کوتاہی نہیں کی ورنہ ان تک دشمنوں نے تمہیں جڑ سے اُکھاڑ دیتے ۔(4)
انسان کا معنوی ارتباط (امام علیہ السلام سے) سبب بنتا ہے کہ امام (علیہ السلام) لوگوں کے درمیان آئیں اگرچہ لوگ انہیں نہ بھی پہچانیں۔
امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام)فرماتے ہیں: خدا کی قسم حجت خدا ان کے درمیان ہیں اور گلی کوچوں سے گزرتے ہیں، ان کے گھروں میں آتے جاتے ہیں، لوگوں کی گفتار کو سنتے ہیں لوگوں کی اجتماع میں جاتے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہیں۔ (5)
نتیجہ
اس جواب سے یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ امام علیہ السلام نے جو ملاقات کی نفی کی ہے وہ اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ کسی زمانے میں کوئی بھی بے عمل اٹھ کر یہ دعوا کر دے کہ میں نے یہ جو بات کی ہے یہ مجھے میرے مولا نے کہی ہے یا مجھے امام (علیہ السلام)نے یہ کام کرنے کو کہا ہے تو ایسے لوگوں کی وجہ سے یقیناً امام (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ہے اور ہاں اگر کوئی امام (علیہ السلام) سے معنوی ارتباط قائم کرے تو اس کی مشکلات کو یقیناً امام (علیہ السلام) بر طرف کریں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔بحارالانوار، ج 51، ص360.
2۔منتهي الآمال، ص 559و 562.
3۔احتجاج طبرسي، ج 2، ص 596.
4۔ احتجاج طبرسي، ج 2، ص 596.
5۔آقايي، جباري، عاشوري و حکيم، تاريخ عصر غيبت، ص 426، به نقل از الغيبه نعماني، ص 72.