|
|
12 مئی 2017 کو نماز جمعہ حجت الاسلام مولانا سید امامزادہ صاحب کی اقتداء میں آداء کی گئی
آپ نے اس خطبے میں ان نکات کی طرف ایشارہ کیا۔
حضرت امام زمان (علیہ السلام) کی انتظار کرنے والوں کی کچھ وظایف بنتے ہیں ۔
1۔ ہماری پہلی وظیفہ یہ ہے کہ غیبت امام میں ہم آپنے آپ کو گناہ سے دور رکھیں۔
بلکہ ہمیں چاہئے کہ گناہ تو دور گناہ کی فکر بھی نہ کریں جیسا کہ حضرت عیسی (ع) آپنے حواریون سے کہتے تھے کہ حضرت موسی (ع) کہا کرتے تھے کہ گناہ نہ کریں لیکن میں آپ لوگوں سے کہتا ہو کہ گناہ کی فکر بھی نہ کریں ۔
د وسری بات یہ کہ حضرت امام زمان (ع) ہم پر آپنے والدین سے زیادہ مہربان ہے لہذا ہمیں چاہئے کہ آپنی زیادہ تر اوقات امام زمان (ع) کے ساتھ خاص کریں ۔
تیسری بات یہ کہ ہمیں ظہور امام (ع) کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔
چھوتی بات یہ کہ یاد رکھیے کہ ہم سب آپ(ع) کے محتاج ہے درحالیکہ وہ ہمارا محتاج نہیں ہیں ۔
پانچویں بات یہ کہ جب کہ ہم امام زمان(ع) کے ماننے والے ہے تو ہمارے وظیفے بھی سنگین ہونگے ہمیں ایسا عمل کرنا چاہئے کہ ہم عملا بھی آپ (ع) والے لگے۔
چھٹی بات یہ کہ ہمیشہ آپنی دعا اور مناجات کو قائم رکھیں اور ہماری دعاؤں میں ایک دعا ہمیشہ کے لئے (اللھم کن لولیک الحجۃ ابن الحسن۔۔۔) ہونی چاہئے
اور جب ہم صدقہ دینے لگے تو تب بھی حضرت امام زمان (ع) کی نیت کریں اور یاد رکھیے کہ اس طرح کے صدقے کا ثواب ہمیشہ کے لئے جاری رہتاہے۔
اور ظہور امام (ع) کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرتے رہے اور پھر آپنے لئے بھی یہ دعا کریں کہ خداوندا ہمیں امام زمان (ع) کے سپاہیوں میں شمار کریں ۔
اور ہر جمعے کو یہ دعا ضرور پڑھیں کہ جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے ۔ ( اللھم عرفنی نفسک فانک ۔۔۔ اس دعا میں یہ الفاظ موجود ہے کہ خدایا غیبت امام طولانی ہو چکا ہے ہماری عقیدے امام کی نسبت مضبوط رکھے۔( اَللّهُمَّ وَلا تَسْلُبْنَا الْیَقینَ لِطُولِ الاْمَدِ فی غَیْبَتِهِ وَانْقِطاعِ خَبَرِهِ عَنّا وَلا تُنْسِنا ذِکْرَهُ وَانْتِظارَهُ وَالاْیمانَ بِهِ وَقُوَّةَ الْیَقینِ فی ظُهُورِهِ ۔۔۔۔ اَللّهُمَّ اِنّا نَسْئَلُکَ اَنْ تَاْذَنَ لِوَلِیِّکَ فی اِظْهارِ عَدْلِکَ فی عِبادِکَ)
ساتویں بات یہ ہے کہ ہمیں ظہور امام(ع) کا امید ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔
دوسری خطبہ
آپ نے دوسری خطبے میں فرمایا :
حضرت رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ آیا قیامت کے دن کوئی کیسی کا کام آسکتا ہے۔
تو آپ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ کچھ مقامات ایسے ہے کہ جہا ں پر کوئی کسی کا کام نہیں آسکتا بلکہ کوئی کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔وہ یہ ہے۔
1۔ جب قیامت کے دن حساب اور کتاب ہو رہا ہو۔
2۔ جب انسان پل صراط سے گزر رہا ہو۔
3- جب عمل نامے تقسیم کیے جا رہے ہو اس وقت انسان بس اس فکر میں ہونگے کہ کیا ہمیں عمل نامے دائیں ہاتھ پر دیا جائیگے یا بائیں ہاتھ پر ۔
البتہ ان مقامات پر ہماری مدد ہمارے آچھے اعمال ہی کر سکتے ہیں اور آچھے اعمال بجا لانے کے لئے ماہ مبارک شعبان بہترین موقع ہے۔
آپ (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم اگر چاہے کہ قیامت کے دن ہم آپ کے ساتھ رہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
آپ(ص) نے فرمایا: کہ آپ میں سے وہ لوگ کہ جن میں یہ خصلتیں موجود ہوگی وہ میرے بہت قریب ہونگے۔
1۔ (اصدککم للحدیث ) سب سے زیادہ سچ بولنے والے۔
2۔ وہ لوگ جو آپنے وعدوں پر پابند ہوتے ہیں ۔
3۔ وہ لوگ جو امانت دار ہوتے ہیں ۔
4۔ وہ لوگ جو بہترین اخلاق کے مالک ہیں ۔
اچھے اخلاق کے بارے میں پیغمبر خدا(ص) اتنے تاکید فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ (ص) نے حج پر جانے کا جب ارادہ کیا تو فرمایا: (من کان سیئا خلق والجوار فلا یصحبنا) جنکے اخلاق برے ہو اور ہمسایوں کے ساتھ آچھے سلوک نہ رکھتے ہو تو ایسے افراد ہمارے ساتھ نہ جائیں ۔
ہمسایوں کے بارے میں حضرت امام علی فرماتے ہیں کہ نبی پاک(ص) ہمسایوں کے بارے میں اتنے تاکید کیا کرتے تھے کہ ہمیں لگنے لگا کہ ہمسایہ آپنے ہمسایے سے ارث نہ لے جائیں۔
اس طرح روایت ہے کہ آچھے اخلاق رکھنے والا جتنا بھی عذاب کاٹے لیکن آخر میں ضرور جنت جائیگا۔
شہید مطہری لکھتے ہیں کہ میرزا علی شیرازی جو کہ شہید مطہری کے اساتید میں سے تھے کو ایک دن خواب میں دیکھا کہ حضرت امام علی (ع) اسے گلے میلا رہا ہے بعد میں پتہ لگا کہ اس دن کو وہ عالم دیں دار فانی کو وداع کہ چکے تھے۔
اس طرح ہمیں آپنے آپ میں صدقہ دینی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ سخی اور کریم ہونا چاہیے۔
عبد اللہ ابن جعفر جو کہ حضرت بی بی زینب (س) کےشوھر تھے، نے ایک دن دیکھا کہ اس کے باغ میں کام کرنے والا اس کا ایک غلام آپنے پورے کھانے کو ایک بھوکے سگ کے سامنے ڈال رہا ہے تو اس نے غلام سے پوچھا کہ خود کیا کھاؤ گے تو اس نے کہا کہ یہ جانور بہت بھوکا ہے اس لئے میں نے آپنا کھانا اس کے سامنے ڈالا کیونکہ میں انسان ہو اور صبر کر سکتا ہو رات کو کھا لونگا۔ تو عبداللہ ابن جعفر نے جب بات سنی تو اس نے اس غلام کوآزاد کر دیا اور پھر اس باغ کو بھی اس غلام کے نام کر دیا۔
علامہ جعفری مشھد سے تہران آرہے تھے تو اس نے دیکھا کہ ایک جوان جو آپنے گھر والوں سے ناراض ہے اور اسی وجہ سے اس سفر میں موجود گھر والے اس کا کوئی خیال نہیں رکھتے یہاں تک کہ اس کو کھانا بھی نہیں دیتے تو اس نے کہا میں تہران تک اسکو ہر جگہ کھانا وغیرہ دیتا رہا کہتے ہیں کہ جب ہم تہران پہنچے تو جوان نے آکر کہا کہ مولانا صاحب میں کب سے آپکو ڈھونڈ رہا ہو۔ یہ لفافے میں آپکے کچھ آمانت ہے یہ لے ليں۔
کہتا ہے کہ جب میں نے لفافہ کھولا تو اس 7000 ریال موجود کہ اس زمانے میں اس رقم سے تہران میں گھر لیا جا سکتا تھا۔ در حالیکہ میں نے کل سات ریال اس پر اس سفر خرچ کیے تھے۔
|